علم غیب کی تعریف و شبہات کے جوابات
غیب کی لغوی تعریف : غیب کام معنی چھپنا، پوشیدہ ہونا وغیرہ ۔ (المنجد، 892)
امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں غیب مصدر ہے سورج آنکھوں سے اوجھل ہو جائے تو کہتے ہیں غابت الشمس سورج غائب ہو گیا : کل غائب عن الحاسه وعما یغیب عن علم الانسان بمعنی الغائب یقال للشئ غیب وغائب باعتباره بالناس لا باﷲ تعالی فانه لا یغیب عنه الشئ قوله عالم الغیب والشهادة أی ما یغیب عنکم وما تشهدونه والغیب في قوله ’’یومنون بالغیب‘‘ ما لا یقع تحت الحواس ولا تقتضیه بدایة العقول وانما یعلم بخبر الانبیاء علیهم السلام وبدفعه یقع علی الانسان اسم الالحاد ۔
ترجمہ : جو چیز حاسہ سے غائب ہو اور جو کچھ انسانی علم سے چھپا ہو بمعنی غائب ہے۔ کسی چیز کو غیب یا غائب لوگوں کے اعتبار سے کہا جاتا ہے نہ کہ اﷲ کے اعتبار سے کہ اس سے تو کوئی چیز غائب نہیں اور فرمان باری تعالیٰ (عالم الغیب والشہادۃ) کا مطلب ہے جو تم سے غائب ہے اﷲ اسے بھی جاننے والا ہے اور جو تم دیکھ رہے ہو اسے بھی اور (یومنون بالغیب) میں غیب کا معنی ہے جو کچھ حواس سے بھی معلوم نہ ہو اور عقلوں میں بھی فوراً نہ آئے اسے صرف انبیاء کرام علیہم السلام کے بتانے سے جانا جا سکتا ہے جو اس کا انکار کرے اسے ملحد کہتے ہیں ۔ (مفردات راغب : 367)
شرح عقائد میں ہے : وبالجمله العلم بالغیب امر تفرد به اﷲ تعالی لا سبیل للعباد الیه الا باعلام منه ۔
ترجمہ : خلاصہ کلام یہ کہ علم غیب اﷲ تعالیٰ کی خاص صفت ہے۔ بندوں کے لئے اس طرف کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے بتائے اور وہ وحی کے ذریعے بتاتا ہے جیسے نبی کا معجزہ یا الہام کے ذریعے جیسے ولی کی کرامت یا نشانات و علامات سے جیسے استدلالی علم ۔ (شرح عقائد مع النبراس : 572 ، چشتی)
قاضی ناصر الدین بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 791ھ) فرماتے ہیں : المراد به الخفی الذی لا یدرکه الحس ولا یقتضیه بداهه العقل وهو قسمان لا دلیل علیه وهو المعنی بقوله تعالی ’’وعنده مفاتح الغیب‘‘ لا یعلمها الا هو. وقسم نصب علیه دلیل کالصانع وصفاته والیوم الاخر واحواله وهو المراد به فی هذه الایه (یومنون بالغیب) ۔
ترجمہ : غیب سے مراد ہے وہ پوشیدہ چیز جسے حس معلوم نہ کر سکے اور نہ ہدایت عقل چاہے اس کی دو قسمیں ہیں پہلی جس پر کوئی دلیل قائم نہیں اور وہی مراد ہے اﷲ کے اس فرمان میں عندہ مفاتح الغیب الخ غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں جنہیں صرف وہ جانتا ہے، دوسری جس پر دلیل قائم ہو جیسے صانع (خالق) اور اس کی صفات، یوم قیامت اور اس کے احوال اور یہی مراد اس آیہ کریمہ یومنون بالغیب میں ہے ۔ (تفسیر بیضاوی، 1 : 7)
امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ان الغیب هو الذی یکون غائباً عن الحاسه ثم هذا الغیب ینقسم الی ما علیه دلیل والی ما لیس علیه دلیل فالمراد من هذه الایه مدح المتقین بانهم یومنون بالغیب الذی دل علیه الدلیل بان یتفکروا ویستدلوا فیومنوا به وعلی هذه یدخل فیه العلم باﷲ تعالی وبصفاته والعلم بالاخر والعلم بالنبوه والعلم بالاحکام وبالشرائع فان فی تحصیل هذه العلوم بالاستدلال مشقه فیصلح ان یکون سببا لاستحقاق الثناء العظیم ۔ (تفسیر کبیر، 2 : 27، چشتی)
ترجمہ : غائب وہ ہے جو حاسہ سے غائب ہو پھر یہ غیب دو قسم پر ہے ایک وہ جس پر دلیل قائم ہو دوسری وہ جس پر دلیل نہیں۔ اس آیہ کریمہ سے مراد متقیوں کی تعریف کرنا ہے کہ وہ اس غیب پر ایمان رکھتے ہیں جس پر دلیل قائم ہے کہ غور و فکر اور استدلال کرتے ہوئے اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اس میں اﷲ تعالیٰ کی ذات و صفات کا علم، آخرت، نبوت اور احکام شرع کا علم شامل ہے کیونکہ ان علوم کو استدلال سے حاصل کرنے میں مشقت ہے لہٰذا بڑی مدح و ثنا کا مستحق ہے ۔ (تفسیر کبیر، 2 : 27)
ایک سوال کا جواب : امام رازی رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال قائم کرتے ہیں : فان قیل افتقولون العبد یعلم الغیب أم لا؟ قلنا قد بینا ان الغیب ینقسم الی ما علیه دلیل والی ما لا دلیل علیه أما الذی لا دلیل علیه فهو سبحانه وتعالی العالم به لا غیره وأما الذی علیه دلیل فلا یمتنع ان تقول نعلم من الغیب ما لنا علیه دلیل ویفید الکلام فلا یلتبس ۔
ترجمہ : اگر کہا جائے کیا تم یہ کہتے ہو کہ بندہ غیب جانتا ہے یا نہیں؟ ہم کہتے ہیں کہ ہم بیان کر آئے ہیں کہ غیب کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جس پر دلیل ہے اور دوسرا وہ جس پر کوئی دلیل نہیں۔ وہ جس پر کوئی دلیل نہیں وہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کا علم ہے، کسی اور میں یہ صفت نہیں پائی جاتی مگر جس پر دلیل قائم ہے سو کچھ مانع نہیں کہ ہم کہیں کہ ہم وہ غیب جانتے ہیں جس پر دلیل ہے۔ یہ کلام مفید ہے اس میں کوئی شک نہیں ۔ (تفسیر کبیر، 2 : 28، چشتی)
امام ابو عبد اﷲ محمد بن احمد انصاری القرطبی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 671ھ) فرماتے ہیں :(یومنون) یصدقون، والایمان فی اللغه التصدیق… الغیب کل ما اخبر به الرسول مما لا تهتدی الیه العقول من اشراط الساعة وعذاب القبر والحشر والنشر والصراط والمیزان والجنة والنارِ .
ترجمہ : (ایمان لاتے ہیں یعنی) تصدیق کرتے ہیں۔ لغت میں ایمان کا مطلب ہے تصدیق… غیب ہر شے جس کی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر دی، جس کی طرف عقل رہنمائی نہ کر سکے مثلاً قیامت کی شرطیں، عذاب قبر، حشر و نشر، پل صراط، میزان، جنت و جہنم ۔ (لاحکام القرآن للقرطبی، 1 : 114۔ ،115)
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ سورۃ الانعام کی آیت : 59 عندہ مفاتیح الغیب لا یعلمہا الا ہو کے تحت لکھتے ہیں : فاﷲ تعالی عنده علم الغیب وبِیده الطرق الموصلة الیه، لا یملکها الا هو فمن شاء اطلاعه علیها اطلعه ومن شاء حجبه عنها ولا یکون ذلک من افاضته الا علی رسله بدلیل قوله تعالی وما کان اﷲ لیطلعکم علی الغیب ولکن اﷲ یجتبی من رسله من یشاء وقال عالم الغیب فلا یظهره علی غیبه احدا الا من ارتضی من رسول ۔
ترجمہ : سو اﷲ کے پاس غیب کا علم ہے (یعنی جو مخلوق سے پوشیدہ ہے اسے اﷲ جانتا ہے) اور اسی کے ہاتھ میں غیب تک پہنچانے والے راستے ہیں۔ وہی ان کا مالک ہے سو جس کو ان پر اطلاع دینا چاہے اطلاع دیتا ہے اور جن سے پردے میں رکھنا چاہے پردے میں رکھتا ہے اور اس کی فیضان صرف رسول پر ہوتا ہے ۔ (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، 7 : 3 ، چشتی)
منافقین کا علم : وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ ۔
ترجمہ : اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ (اے عامۃ الناس!) تمہیں غیب پر مطلع فرما دے لیکن اللہ اپنے رسولوں سے جسے چاہے (غیب کے علم کے لیے) چن لیتا ہے ۔ (سورہ آل عمران، 3 : 179)
امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : فان سنة اﷲ جاریة بانه لا یطلع عوام الناس علی غیبه بل لا سبیل لکم الی معرفة ذلک الامتیاز الا بالامتحانات مثل ما ذکرنا من وقوع المحن والافات حتی یتمیز عندها الموافق من المنافق فاما معرفته ذلک علی سبیل الاطلاع من الغیب فهو من خواص الانبیاء فلهذا قال ولکن اﷲ یجتبی من رسله من یشاء أی ولکن اﷲ یصطفی من رسله من یشاء فخصهم باعلامهم ان هذا مومن وهذا منافق… ویحتمل ولکن اﷲ یجتبی من یشاء فیمتحن خلقه بالشرائع علی ایدیهم حتی یتمیز الفریقان بالامتحان ویحتمل ایضا ان یکون المعنی وما کان اﷲ لیطلعکم لیجعلکم کلکم عالمین بالغیب من حیث یعلم الرسول حتی تصیروا مستغنین عن الرسول بل اﷲ یخص من یشاء من عباده بالرسالة ثم یکلف الباقین طاعة هولاءِ الرُسُل ۔
ترجمہ : اﷲ کی سنت جاری ہے کہ عوام کو اپنے غیب پر اطلاع نہیں دیتا بلکہ تمہارے لئے اس امتیاز ایمان و نفاق کے سلسلہ میں بجز اس کے کوئی رستہ نہیں کہ امتحانات ہوں جیسے ہم نے ذکر کیا کہ آفات و آلام نازل ہوں تاکہ اس وقت موافق و منافق میں تمیز ہو سکے۔ رہا اس پر خبردار ہونا علم غیب پر دسترس حاصل کر لے تو یہ نبیوں کا خاصہ ہے اسی لئے فرمایا لیکن اﷲ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہے چن لیتا ہے پھر خصوصی طور پر ان کو باتا ہے کہ یہ مومن ہے اور یہ منافق… یہ احتمال بھی ہے کہ اﷲ اپنے رسولوں سے جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے پھر نبیوں کے ذریعے احکام شرع بھیج کر اپنی مخلوق کا امتحان لیتا ہے یہاں تک کہ اس جانچ سے دونوں جماعتیں ممتاز ہو جاتی ہیں۔ یہ احتمال بھی ہے کہ یہ معنی ہو کہ اﷲ تعالیٰ ایسا نہیں کہ تم سب کو غیب پر اطلاع کر دے جیسے رسول کو علم غیب دیتا ہے کہ تم رسولوں سے بے نیاز ہو جاؤ بلکہ اﷲ اپنے بندوں میں خاص کو رسالت سے سرفراز فرماتا ہے پھر باقیوں کو ان رسولوں کی اطاعت کا مکلف بناتا ہے ۔ (تفسیر کبیر، 9 : 111، چشتی)
امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ سورۃ التوبہ کی آیت : 82 کے تحت لکھتے ہیں : واﷲ تعالی کان یطلع الرسول علیه الصلوه والسلام علی تلک الاحوال حالا فحالا ویخبره عنها علی سبیل التفصیل وما کانوا یجدون فی کل ذلک الاالصدق فقیل لهم ان ذلک لو لم یحصل باخبار اﷲ تعالی والا لما اطرد الصدق فیه ولظهر فی قول محمد انواع الاختلاف والتفاوت فلما لم یظهر ذلک علمنا ان ذلک لیس الا باعلام اﷲ تعالی .
ترجمہ : اﷲ تعالیٰ منافقین کے تمام احوال پر نبی ں کو اطلاع دیتا رہا اور تفصیل بتاتا رہا اور وہ ان خبروں کو ہمیشہ سچ ہی پاتے۔ سو ان سے کہا گیا کہ اگر یہ خبریں اﷲ کے بتانے سے نہ ہوتیں تو اس میں سچائی کس طرح جمع ہو جاتی۔ محمد کی اپنی بات ہوتی تو اس میں اختلاف وتفاوت واضح ہوتا ہے۔ جب ایسا کبھی ظاہر نہیں ہوا تو ہمیں معلوم ہو گیا کہ یہ سب کچھ محض اﷲ کے بتانے سے ہے ۔ (تفسیر کبیر، 10 : 196)
فاغرض عنھم ، والمعنی لا تهتک سترهم ولا تفضحهم ولا تذکرهم باسماء هم وَ لمّا امر اﷲ بستر امر المنافقین الی ان یستقیم امر الاسلام ۔
ترجمہ : اس کا مطلب ہے کہ ان منافقین کی پردہ داری فرمائیں اور ان کے نام سرعام لے کر ان کو رسوا نہ کریں۔ اﷲ نے منافقین کے معاملات کو چھانے کا حکم دیا، یہاں تک کہ اسلام کا معاملہ درست اور مضبو ہو جائے ۔ (تفسیر کبیر، 10 195)
امام رازی رحمۃ اللہ علیہ آیہ کریمہ : ولا یحیطون بشئٍی من علمه الا بما شآء.
’’اور وہ نہیں پاتے اس کے علم میں سے مگر جتنا وہ چاہے۔ ‘‘
کے تحت لکھتے ہیں : لا یعلمون الغیب الا عند اطلاع اﷲ بعض انبیاء هم علی بعض الغیب کما قال عالم الغیب فلا یظهر علی غیبه احد الا من ارتضی من رسول ۔ (تفسیرکبیر، 7 : 11)
ترجمہ : یعنی لوگوں کو غیب کا علم نہیں مگر ہاں جب کسی نبی کو اس نے کسی غیب کی اطلاع کر دی تو اس کو علم غیب حاصل ہو جاتا ہے جیسے فرمایا : وہ عالم غیب ہے اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا مگر جس نبی کو اس کے لئے چن لے ۔ (تفسیرکبیر، 7 : 11) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment