Monday, 11 March 2024

فضائل و مسائل زکوٰۃ قرآن و حدیث اور فقہ کی روشنی میں

فضائل و مسائل زکوٰۃ قرآن و حدیث اور فقہ کی روشنی میں

محترم قارئینِ کرام : اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی نشوونما کےلیے زمین اور آسمان سے اس کی ضروریات زندگی ، خوراک ، پوشاک ، رہائش اور سماجی و تمدنی کفالت کا ایسا معقول و وافر انتظام کیا ہے کہ اپنی مخلوق کو کسی بات میں کسی کا محتاج نہ رکھا لیکن ابتدائے خلق سے نسل انسانی کے دشمن شیطانی عناصر نے خدا کے پیدا کیے ہوئے وسائل رزق پر غاصبانہ تسلط کر رکھا ہے ۔ ایک محدود و حقیر طبقہ روزی کے سرچشموں پر قابض ہے ۔ وہ نہیں چاہتا کہ عام لوگوں کو بھی زندگی کی آسائشیں میسر ہوں ۔ اللہ کے رزق سے وہ بھی متمع ہوں ، وہ عزت و وقار سے زندہ رہیں ۔ یہی وہ مشکل گھاٹی ہے جس کا قرآن کریم نے ان الفاظ میں ذکر کیا : فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ O وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ O فَكُّ رَقَبَةٍ O أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ O يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ O أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ O ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ O أُوْلَئِكَ أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ ۔
ترجمہ : پھر بے تامل گھاٹی میں نہ کودا ۔ اور تم نے کیا جانا وہ گھاٹی کیا ہے ۔ کسی مملوک کی گردن چھڑانا، یا بھوک کے دن کھانا کھلانا ، رشتہ دار یتیم کو ، یا خاک نشین مسکین کو ، پھر ہو جائے ان لوگوں میں سے جو ایمان لائے اور انہوں نے آپس میں صبر کی وصیتیں کیں اور آپس میں مہربانی کی وصیتیں کیں ۔ یہی دائیں طرف والے (جنتی) ہیں ۔ (سورہ البلد، 90 : 11، 18)

دیکھا ، غربت ، بھوک ، تنگی ، پسماندگی ، بیماری و لاچاری میں گرفتار انسانوں کی طرف توجہ کرنا اور ان کے مسائل و مصائب کو حل کرنا کتنا مشکل لیکن ضروری فریضہ ہے گویا دشوار گزار گھاٹی کو عبور کرنا ہے ۔

قیامت کے منکر

أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ O فَذَلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ O وَلَا يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ ۔
ترجمہ : تم نے اسے دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے پھر وہ وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا دینے کی رغبت نہیں دیتا ۔ (الماعون، 107 : 1، 3)

جنتی جہنمیوں سے پوچھیں گے ۔

مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ O قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ O وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ ۔
ترجمہ : تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی ؟ وہ بو لے ہم نماز نہ پڑھتے تھے اور مسکین کو کھانا نہ دیتے تھے ۔ (المدثر، 74 : 42۔ 44)

جھٹلانے والے مالدار

قرآنی نظام ربویت چونکہ ہر ضرورت مند کی ضرورت کا کفیل ہے لہذا جو امیر کبیر مالدار لوگ اس نظام کے قیام میں رکاوٹ ڈالیں، وہ ایک طرف اللہ کے دشمن ہیں اور دوسری طرف عام انسان کے بدخواہ، وہ چاہتے ہیں ہم بلا روک ٹوک اللہ کی نعمتوں پر سانپ بن کر بیٹھے رہیں اور عوام دانے دانے کو ہمارے محتاج ہوں۔ ان کی عزت، آبرو، آزادی، یہاں تک کے ان کی زندگی و موت بھی ہمارے ہاتھوں میں گروی ہو۔ اس ظالمانہ سوچ اور ذہنیت رکھنے والوں کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے : وَذَرْنِي وَالْمُكَذِّبِينَ أُولِي النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلًا ۔
ترجمہ : مجھے اور ان جھٹلانے والے مالداروں کو چھوڑ دو ، اور ان کو تھوڑی مہلت دو ۔ (سورہ المزمل، 73 : 11)

مال کے پجاری

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللّهِ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ O يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَـذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُواْ مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ ۔
ترجمہ : اے ایمان والو! بے شک بہت پادری اور جوگی، لوگوں کا مال ناحق کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ، انہیں خوشخبری سنادو درد ناک عذاب کی جس دن وہ (مال) تپایا جائے گا جہنم کی آگ میں ، پھر اس سے داغیں گے ان کی پیشانیاں اور کروٹیں اور پیٹھیں، یہ ہے وہ جسے تم نے اپنے لیے جوڑ رکھا تھا اب چکھو مزا اس جوڑنے کا ۔ (سورہ التوبہ، 9 : 34، 35)

کیا کچھ خرچ کریں ؟

وَیَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوِ ۔
ترجمہ : اور (یا رسول اللہ) تم سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں ؟ تم فرماؤ جو ضرورت سے زائد بچ جائے ۔ (سورہ البقرہ، 2 : 219)

ضرورت سے زائد حاجت مندوں کو دو تاکہ وہ بھی اپنی ضروریات پوری کرسکیں ۔

غریبی وجہ کفر ہوسکتی ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : کادا الفقر ان یکون کفرا ۔ ’’قریب ہے غریبی کفر ہوجائے‘‘۔ (بیہقی)

زکوٰۃ کے علاوہ بھی مال میں حق ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان فی المال لحقا سوی الزکوٰة ۔
ترجمہ : بے شک مال میں زکوٰۃ کے علاوہ (بھی) حق ہے ۔ (ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)

امیروں کے مال میں غریبوں کا حق ہے ۔

وَفِیْ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ ۔
ترجمہ : اور ان کے مالوں میں حق ہے مانگنے والے اور بے نصیب کا ۔
(سورہ الذاریت، 51 : 19)

مالداروں کے مالوں میں غریبوں کا حق ہے کہہ کر بتادیا کہ ضرورت مند کو لینے میں عار نہیں اور مالدار کو دینے میں احسان نہیں۔ وہ اپنا حق لے رہا ہے یہ اپنا فرض ادا کررہا ہے ۔

غریبوں پر ترس نہ کرنے والوں کیلئے مقام تفکر

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : عذبت إمراة فی هرة امسکتها حتی ماتت من الجوع فلم تکن تطعمها ولا ترسلها فتاکل من خشاش الارض ۔
ترجمہ : ایک عورت کو بلی کی وجہ سے عذاب ہوا ۔ جسے اس نے باندھ رکھا تھا یہاں تک کہ بھوک سے مرگئی ، نہ اس کو کھلاتی تھی اور نہ چھوڑتی کہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھالیتی ۔ (بخاری ومسلم بحوالہ مشکوۃ : 168)

جانوروں پر رحم بھی مغفرت کا باعث ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : غفرلا مراة موسة مرت بکلب علی رأس رکی یلهث کاد یقتله العطش فنزعت خفها و ثقة بخمارها فنزعت له من الماء فغفرلها بذلک قیل ان لنا فی البهائم اجرا قال فی کل ذات کبدرطبة اجر ۔
ترجمہ : ایک بدکار عورت کی بخشش ہو گئی صرف اتنی بات پر کہ اس کا گذر ایک کتے کے قریب سے ہوا جو کنویں کے کنارے گیلی مٹی پر منہ مار رہا تھا، لگتا تھا کہ پیاس اسے مار دیگی، عورت نے اپنا موزہ (یا جوتا) اتارا ، اسے اپنے دوپٹے سے باندھا اس کے لئے پانی نکالا (اور پلایا) اسی سے اس کی بخشش ہو گئی ۔ عرض کی گئی کیا جانوروں کی خدمت میں بھی ہمارے لیے اجرو ثواب ہے ؟ فرمایا ہر دھڑکتے دل والی (زندہ) چیز کی خدمت میں اجرو ثواب ہے ۔ (متفق علیہ بحوالہ مشکوۃ، 147)

زکوٰة اسلام کا بنیادی رکن ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ پاک ہے : اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے ، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ پاک کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے رسول ہیں ، نماز قائم کرنا ، زکات ادا کرنا ، حج کرنا او ررمضان کے روزے رکھنا ۔ (بخاری شریف، کتاب الایمان باب دعا ء کم ایمانکم حدیث نمبر۸،ج۱،ص۱۴،چشتی)

زکوٰة کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآنِ حکیم میں نماز اور زکوٰة کا ایک ساتھ 32 مرتبہ ذکر آیا ہے ۔
(ردالمحتار کتاب الزکاۃ جلد ۳ صفحہ ۲۰۲)

علاوہ ازیں زکوٰة دینے والا خوش نصیب دنیوی واُخری سعادتوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے ۔ زکوٰة کی فرضیت قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔ اللہ پاک قرآنِ حکیم میں ارشاد فرماتا ہے : وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ ۔
ترجمہ : اور نماز قائم رکھو اور زکات دو ۔ (پ ۱،البقرۃ:۴۳)

اس آیت میں نمازو زکوٰة کی فرضیت کا بیان ہے ۔

خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیۡہِمۡ بِہَا ۔
ترجمہ : اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے مال میں سے زکات کی تحصیل کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو ۔
(پ۱۱، التوبۃ:۱۰۳)

اس آیت میں جو صدَقہ وارِد ہوا ہے اس کے معنٰی میں مفسِّرین کے کئی قول ہیں : ⬇

ایک تو یہ کہ وہ صدَقہ غیر واجِبہ تھا جو بطورِ کَفّارہ کے اِن صاحبوں نے دیا تھا جن کا ذکر اُوپر کی آیت میں ہے ۔

دوسرا قول یہ ہے کہ اس صدَقہ سے مراد وہ زکات ہے جو ان کے ذمّہ واجب تھی ، وہ تائب ہوئے اور انہوں نے زکات ادا کرنی چاہی تو اللہ پاک نے اس کے لینے کا حکم دیا ۔ امام ابوبکر رازی جصاص رحمۃ اللہ علیہ نے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ صدَقہ سے زکات مراد ہے ۔ (خازن و احکام القرآن بحوالہ خزائن العرفان،چشتی)

زکوٰة 2 ہجری میں روزوں سے قبل فرض ہوئی ۔ (الدرالمختار،کتاب الزکات،ج۳،ص۲۰۲)

زکوٰة کا فرض ہونا قرآن سے ثابت ہے ، اس کا اِنکار کرنے والا کافر ہے ۔ (الفتاویٰ الھندیۃ،کتاب الزکات ،الباب الاول،ج۱،ص۷۰ ۱)

فرضیتِ زکوٰة احادیث مبارکہ کی روشنی میں : ⬇

حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روا یت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے اللہ پاک نے اس پر مامور کیا ہے کہ مَیں لوگوں سے اس وقت تک جہاد کروں جب تک وہ یہ گواہی نہ دیں کہ اللہ کے سوا کو ئی سچا معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)خدا کے سچے رسول ہیں ، ٹھیک طرح نماز ادا کریں ، زکوٰة دیں ، پس اگر ایسا کر لیں تو مجھ سے ان کے مال اور جا نیں محفوظ ہو جائیں گے سواے اس سزا کے جو اِسلام نے (کسی حد کے سلسلہ میں)ان پر لازم کر دی ہو ۔ (صحیح البخاری،کتاب الایمان،باب فان تابواواقامواالصلوۃ،حدیث نمبر ۲۵ جلد ۱ صفحہ ۲۰،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن کی طر ف بھیجا تو فرمایا : ان کو بتاؤ کہ اللہ پاک نے ان کے مالوں میں زکوٰة فرض کی ہے مال داروں سے لے کر فقرا کو دی جائے ۔ (سنن الترمذی، کتاب الزکاۃ ،باب ما جاء فی کراھیۃ اخذ خیار المال فی الصدقۃ ،حدیث نمبر ۶۲۵ جلد ۲ صفحہ ۱۲۶،چشتی)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں : جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصالِ ظاہری ہو گیا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے اور کچھ قبائل عرب مرتد ہو گئے (کہ زکوٰة کی فرضیت سے انکار کر بیٹھے) تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : آپ لوگوں سے کیسے معاملہ کریں گے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَیں لو گوں سے جہاد کرنے پر ما مور ہوں جب تک وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ نہ پڑھیں ۔ جس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کا اقرار کر لیا اس نے اپنی جان اور اپنا مال مجھ سے محفوظ کر لیا مگر یہ کہ کسی کا حق بنتا ہو اور وہ اللہ پاک کے ذمے ہے ۔ (یعنی یہ لوگ تو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہنے والے ہیں ، ان پر کیسے جہاد کیا جائے گا) ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کی قسم! مَیں اس شخص سے جہاد کروں گا جو نماز اور زکوٰة میں فرق کرے گا (کہ نماز کو فرض مانے اور زکاۃ کی فرضیت سے انکار کرے) اور زکوٰة مال کا حق ہے بخدا اگر انہوں نے (واجب الاداء) ایک رسی بھی روکی جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں دیا کرتے تھے تو مَیں ان سے جنگ کروں گا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : وﷲ ! میں نے دیکھا کہ ﷲ پاک نے صدیق کا سینہ کھول دیا ہے ۔ اُس وقت میں نے بھی پہچان لیا کہ وہی حق ہے ۔  (صحیح البخاری ،کتاب الزکاۃ،باب وجوب الزکوۃ،حدیث نمبر ۱۳۹۹، ۱۴۰۰، ج۱،ص۴۷۲،۴۷۳)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صرف کلمہ گوئی اِسلام کےلیے کافی نہیں ، جب تک تمام ضروریاتِ دِین کا اِقرار نہ کرے اور امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا بحث کرنا اس وجہ سے تھا کہ ان کے علم میں پہلے یہ بات نہ تھی ، کہ وہ فرضیت کے منکر ہیں یہ خیال تھا کہ زکوٰة دیتے نہیں اس کی وجہ سے گنہگار ہوئے ، کا فر تو نہ ہوئے کہ ان پر جہاد قائم کیا جائے ، مگر جب معلوم ہو گیا تو فرماتے ہیں میں نے پہچان لیا کہ وہی حق ہے ، جو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے سمجھا اور کیا ۔ (بہارِ شریعت جلد ۱ حصہ ۵ صفحہ ۸۷۰،چشتی)

تکمیل ایمان کا ذریعہ

زکوٰة دینا تکمیلِ ایمان کا ذریعہ ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمہارے اسلام کا پورا ہونا یہ ہے کہ تم اپنے مالوں کی زکات ادا کرو ۔(الترغیب والترھیب کتاب الصدقات باب الترغیب فی اداءِ الزکوٰۃ حدیث نمبر۱۲، ج۱، ص۳۰۱ )

ایک مقام پر ارشاد فرمایا : جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہو اسے لازم ہے کہ اپنے مال کی زکات ادا کرے ۔ (المعجم الکبیر حدیث نمبر ۱۳۵۶۱،ج۱۲،ص۳۲۴)

رحمتِ الہٰی کی برسات

زکوٰة دینے والے پر رحمتِ الہٰی کی برسات ہوتی ہے ۔ سورۃُ الاعراف میں ہے : وَ رَحْمَتِیۡ وَسِعَتْ کُلَّ شَیۡءٍ ؕ فَسَاَکْتُبُہَا لِلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ وَ یُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ ۔
ترجمہ : اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہے تو عنقریب میں نعمتوں کو ان کےلیے لکھ دوں گا جو ڈرتے اور زکات دیتے ہیں ۔
(پ۹،الاعراف۱۵۶)

تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول

زکوٰة دینے سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے ۔ قرآنِ پاک میں مُتَّقِیْن کی علامات میں سے ایک علامت یہ بھی بیان کی گئی ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ۔
ترجمہ : اور ہماری دی ہوئی روزی ميں سے ہماری راہ ميں اٹھائيں ۔
(پ۱،البقرۃ:۳)

کامیابی کا راستہ

زکوٰة دینے والا کامیاب لوگوں کی فہرست میں شامل ہوجاتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن پاک میں فلاح کو پہنچنے والوں کا ایک کام زکات بھی گنوایا گیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾الَّذِیۡنَ ہُمْ فِیۡ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوۡنَ ﴿ۙ۳﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ ۙ﴿۴﴾ ۔
ترجمہ : بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے اور وہ کہ زکات دینے کا کام کرتے ہیں ۔ (پ ۱۸،المؤمنون ۱تا۴)

نصرتِ الہٰی کا مستحق

اللہ تعالیٰ زکوٰة ادا کرنے والے کی مدد فرماتا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : وَ لَیَنۡصُرَنَّ اللہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ ؕ اِنَّ اللہَ لَقَوِیٌّ عَزِیۡزٌ ﴿۴۰﴾اَلَّذِیۡنَ اِنۡ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوۡا بِالْمَعْرُوۡفِ وَ نَہَوْا عَنِ الْمُنۡکَرِ ؕ وَ لِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوۡرِ ﴿۴۱﴾ ۔
ترجمہ : اور بے شک اللہ ضرور مدد فرمائے گا اس کی جو اس کے دین کی مدد کرے گا بے شک ضرور اللہ قدرت والا غالب ہے، وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں زمین میں قابو دیں تو نماز برپا رکھیں اور زکات دیں اور بھلائی کا حکم کریں اور برائی سے روکیں اور اللہ ہی کے لئے سب کاموں کا انجام۔(پ ۱۷،الحج:۴۰،۴۱)

اچھے لوگوں میں شمارہونے والا

زکوۃ ادا کرنا اللہ کے گھروں یعنی مساجد کو آباد کرنے والوں کی صفات میں سے ہے چناں چہ ارشاد پاک ہے : اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الۡاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللہَ ۟ فَعَسٰۤی اُولٰٓئِکَ اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا مِنَ الْمُہۡتَدِیۡنَ ﴿۱۸﴾ ۔
ترجمہ : اللہ کی مسجدیں وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان لاتے اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکات دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تو قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت والوں میں ہوں ۔
(پ۱۰،التوبۃ: ۱۸)

غربا کے دل میں خوشی داخل کرنے کا ثواب

زکوٰة کی ادائیگی سے غریب لوگوں کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے اور ان کے دل میں خوشی داخل ہوتی ہے ۔

بھائی چارے کا بہترین اظہار

زکوٰة دینے کا عمل اخوتِ اسلامی کی بہترین تعبیر ہے کہ ایک غنی مسلمان اپنے غریب مسلمان بھائی کو زکوٰة دے کر معاشرے میں سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ مہیا کرتا ہے ۔ نیز غریب مسلمان بھائی کا دل کینہ و حسد کی شکارگاہ بننے سے محفوظ رہتا ہے کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اس کے غنی مسلمان بھائی ، بہن کے مال میں اس کا بھی حق ہے چنانچہ وہ اپنے بہن ، بھائی کے جان ، مال اور اولاد میں برکت کےلیے دعاگو رہتا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک مؤمن کےلیے مؤمن مثل عمارت کے ہے، بعض بعض کو تقویت پہنچاتا ہے ۔ (صَحِیْحُ الْبُخَارِیْ،کتاب الصلوۃ،باب تشبیک الاصابع…الخ،حدیث نمبر ۴۸۱ جلد ۱ صفحہ ۱۸۱،چشتی)

(فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مصداق

زکوٰة مسلمانوں کے درمیان بھائی چارہ مضبوط بنانے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے جس سے اسلامی معاشرے میں اجتماعیت کو فروغ ملتا ہے اور امدادِ باہمی کی بنیاد پر مسلمان اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمانِ عظیم کا مصداق بن جاتے ہیں : مسلمانوں کی آپس میں دوستی اور رحمت اور شفقت کی مثال جسم کی طرح ہے ، جب جسم کا کوئی عضو بیمار ہو تا ہے تو بخار اور بے خوابی میں سارا جسم اس کا شریک ہو تا ہے ۔ (صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب،باب تراحم المؤمنین ..الخ،حدیث نمبر ۲۵۸۶،ص۱۳۹۶،چشتی)

مال کا پاک ہونا

زکوٰة دینے سے مال پاک ہو جاتا ہے جیسا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے مال کی زکوٰة نکال کہ وہ پاک کرنے والی ہے، تجھے پاک کردے گی ۔ (المسند للامام احمد بن حنبل مسند انس بن مالک ،حدیث نمبر ۱۲۳۹۷ جلد ۴ صفحہ ۲۷۴،چشتی)

بُری صفات سے چھٹکارا

زکوٰة دینے سے لالچ وبخل جیسی بُری صفات سے (اگر دل میں ہوں تو) چھٹکارا پانے میں مدد ملتی ہے اور سخاوت وبخشش کا محبوب وصف مل جاتا ہے ۔

مال میں برکت

زکوٰة دینے والے کا مال کم نہیں ہوتا بلکہ دنیا وآخرت میں بڑھتا ہے ۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : وَ مَاۤ اَنۡفَقْتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَہُوَ یُخْلِفُہٗ ۚ وَ ہُوَ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ ﴿۳۹﴾ ۔
ترجمہ : اور جو چیز تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو وہ اس کے بدلے اور دے گا اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ۔ (پ۲۲،سبا:۳۹ )

ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے : مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمْوَالَہُمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَاللہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۶۱﴾اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمْوَالَہُمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوۡنَ مَاۤ اَنۡفَقُوۡا مَنًّا وَّلَاۤ اَذًی ۙ لَّہُمْ اَجْرُہُمْ عِنۡدَ رَبِّہِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ﴿۲۶۲﴾ ۔
ترجمہ : ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانہ کی طرح جس نے اگائیں سات بالیں، ہربال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کےلیے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے، وہ جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، پھر دیے پیچھے نہ احسان رکھیں نہ تکلیف دیں ان کا نیگ (انعام) ان کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کچھ اندیشہ ہو نہ کچھ غم ۔ (پ۳،البقرۃ:۲۶۱،۲۶۲)

پس زکوٰة دینے والے کو یہ یقین رکھتے ہوئے خوش دلی سے زکات دینی چاہیے کہ اللہ پاک اس کو بہتر بدلہ عطا فرمائے گا ۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا ۔ (المعجم الاوسط حدیث نمبر ۲۲۷۰،ج۱،ص۶۱۹)

اگرچہ ظاہری طور پر مال کم ہوتا لیکن حقیقت میں بڑھ رہا ہوتا ہے جیسے درخت سے خراب ہونے والی شاخوں کو اُتارنے میں بظاہر درخت میں کمی نظر آرہی ہے لیکن یہ اُتارنا اس کی نشوونما کا سبب ہے ۔ زکوٰة دینے والے کی زکوٰة ہر سال بڑھتی ہی رَہتی ہے ۔ یہ تجرِبہ ہے ۔ جو کسان کھیت میں بیج پھینک آتا ہے وہ بظاہِر بوریاں خالی کر لیتا ہے لیکن حقیقت میں مع اضافہ کے بھر لیتا ہے ۔ گھر کی بوریاں چوہے ، سُرسُری وغیرہ کی آفات سے ہلاک ہو جاتی ہیں یا یہ مطلب ہے کہ جس مال میں سے صَدَقہ نکلتا رہے اُس میں سے خرچ کرتے رہو، اِن شاءَ اللہ بڑھتا ہی رہے گا، کُنویں کا پانی بھرے جاؤ ، تو بڑھے ہی جائے گا ۔ (مرأۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد ۳ صفحہ ۹۳،چشتی)

شر سے حفاظت

زکات دینے والا شر سے محفوظ ہوجاتا ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے :
جس نے اپنے مال کی زکوٰة ادا کردی بے شک اللہ پاک نے اس سے شر کو دور کر دیا ۔ (المعجم الاوسط باب الالف من اسمہ احمد،حدیث نمبر،۱۵۷۹،ج۱،ص۴۳۱)

حفاظتِ مال کا سبب

زکوٰة دینا حفاظتِ مال کا سبب ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اپنے مالوں کو زکوٰة دے کر مضبوط قلعوں میں کر لو اور اپنے بیماروں کا علاج خیرات سے کرو ۔ (مراسیل ابی داؤد مع سن ابی داؤد باب فی الصائم یصیب اھلہ صفحہ ۸)

حاجت روائی

اللہ پاک زکوٰة دینے والوں کی حاجت روائی فرمائے گا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جو کسی بندے کی حاجت روائی کرے اللہ پاک دین و دنیا میں اس کی حاجت روائی کرے گا ۔ (صحیح مسلم کتاب الذکر والدعائ،باب فضل الاجتماع ….الخ، حدیث نمبر۲۶۹۹، صفحہ ۱۴۴۷،چشتی)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : جو کسی مسلمان کودنیاوی تکلیف سے رہائی دے تو اللہ پاک اس سے قیامت کے دن کی مصیبت دور فرمائے گا ۔ (جامع الترمذی ،کتاب الحدود،باب ماجاء فی السترعلی المسلم،حدیث نمبر، ج۳، ص۱۱۵)

دُعاؤں کی حصول یابی

غریبوں کی دعائیں ملتی ہیں جس سے رحمتِ خداوندی اور مدد الہٰی حاصل ہوتی ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمھیں اللہ پاک کی مدد اور رزق ضعیفوں کی برکت اور ان کی دعاؤں کے سبب پہنچتا ہے ۔ (صحیح البخاری،کتاب الجہاد باب عن استعان بالضعفاء،الخ، حدیث نمبر،۲۸۹۶، ج۲،ص۲۸۰)

زکوٰة نہ د ینے کے نقصانات

زکوٰة کی عدم ادائیگی کے متعدد نقصانات ہیں جن میں چند یہ ہیں : ⬇

(1) ان فوائد سے محرومی جو اسے ادائیگیِ زکوٰة کی صورت میں مل سکتے تھے ۔

(2) بخل یعنی کنجوسی جیسی بُری صفت سے (اگر کوئی اس میں گرفتار ہو تو) چھٹکارا نہیں مل پائے گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمانِ پاک ہے : سخاوت جنت میں ایک درخت ہے جو سخی ہوا اس نے اس درخت کی شاخ پکڑ لی ، وہ شاخ اسے نہ چھوڑے گی یہاں تک کہ اسے جنت میں داخل کر دے اور بخل آگ میں ایک درخت ہے ، جو بخیل ہوا ،اس نے اس کی شاخ پکڑی ، وہ اسے نہ چھوڑے گی ، یہاں تک کہ آگ میں داخل کر ے گی ۔ (شعب الایمان باب فی الجودِ والسخاء،حدیث نمبر ۱۰۸۷۷ جلد ۷ صفحہ ۴۳۵،چشتی)

مال کی بربادی کا سبب ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں : خشکی وتری میں جو مال ضائع ہوا ہے وہ زکات نہ دینے کی وجہ سے تلف ہوا ہے ۔ (مجمع الزوائد،کتاب الزکوٰۃ،باب فرض الزکوٰۃ،حدیث نمبر ۴۳۳۵ جلد ۳ صفحہ ۲۰۰،چشتی)

ایک مقام پر ارشاد فرمایا : زکوٰة کا مال جس میں ملا ہوگا اسے تباہ وبرباد کردے گا ۔ (شعب الایمان باب فی الزکوٰۃ فصل فی الاستعفاف حدیث نمبر ۳۵۲۲ جلد ۳ صفحہ ۲۷۳)

بعض ائمہ نے اس حدیث کے یہ معنی بیان کیے کہ: زکوٰۃ واجب ہوئی اور ادا نہ کی اور اپنے مال میں ملائے رہا تو یہ حرام اُس حلال کو ہلاک کر دے گا اور امام احمد رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ معنی یہ ہیں کہ مال دار شخص مالِ زکاۃ لے تویہ مالِ زکاۃ اس کے مال کو ہلاک کر دے گا کہ زکات تو فقیروں کے لیے ہے اور دونوں معنی صحیح ہیں ۔ (بہار شریعت جلد ۱ حصہ ۵ صفحہ ۸۷۱)

زکوٰة ادا نہ کرنے والی قوم کو اجتماعی نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جو قوم زکوٰة نہ دے گی اللہ پاک اسے قحط میں مبتلاء فرمائے گا ۔ (المعجم الاوسط حدیث نمبر ۴۵۷۷ جلد ۳ صفحہ ۲۷۵،چشتی)

ایک اورمقام پر فرمایا : جب لوگ زکوٰة کی ادا ئیگی چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ پاک بارش کو روک دیتا ہے اگر زمین پر چوپا ئے مو جود نہ ہو تے تو آسمان سے پا نی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا ۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب العقوبات حدیث نمبر۴۰۱۹،ج۴،ص۳۶۷)

زکوٰة نہ دینے والے پر لعنت کی گئی ہے جیسا کہ حضرت سیدنا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : زکوٰة نہ دینے والے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے ۔ (صَحِیْحُ ابْنِ خُزَیْمَۃ کتاب الزکاۃ باب جماع ابواب التغلیظ،ذکر لعن لاوی …الخ،حدیث نمبر ۲۲۵۰ جلد ۴ صفحہ ۸،چشتی)

بروزِقیامت یہی مال وبال جان بن جائے گا ۔ سورہ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے : وَالَّذِیۡنَ یَکْنِزُوۡنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنۡفِقُوۡنَہَا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ۙ فَبَشِّرْہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿ۙ۳۴﴾یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیۡہَا فِیۡ نَارِجَہَنَّمَ فَتُکْوٰی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنُوۡبُہُمْ وَظُہُوۡرُہُمْ ؕ ہٰذَا مَاکَنَزْتُمْ لِاَنۡفُسِکُمْ فَذُوۡقُوۡا مَاکُنۡتُمْ تَکْنِزُوۡنَ ﴿۳۵﴾ ۔
ترجمہ : اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہيں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ ميں خرچ نہيں کرتے انہيں خوش خبری سناؤدرد ناک عذاب کی جس دن وہ تپایا جائے گا جہنم کی آگ ميں پھر اس سے داغيں گے ان کی پیشانياں اورکروٹيں اور پیٹھيں يہ ہے وہ جو تم نے اپنے لئے جوڑ کر رکھا تھا اب چکھو مزا اس جوڑنے کا ۔
(پ۱۰،التوبۃ:۳۴،۳۵)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے : جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اس کی زکوٰة ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ مال گنجے سانپ کی صورت میں کر دیا جائے گا جس کے سر پر دو چتیاں ہوں گی (یعنی دو نشان ہوں گے)، وہ سانپ اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا ۔پھر اس (یعنی زکات نہ دینے والے) کی باچھیں پکڑے گا اور کہے گا : ”میں تیرا مال ہوں،میں تیرا خزانہ ہوں ۔” اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی : وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیۡنَ یَبْخَلُوۡنَ بِمَاۤ اٰتٰىہُمُ اللہُ مِنۡ فَضْلِہٖ ہُوَ خَیۡرًا لَّہُمْ ؕ بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَّہُمْ ؕ سَیُطَوَّقُوۡنَ مَا بَخِلُوۡا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ؕ ۔ اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ، ہرگز اسے اپنے لیے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کےلیے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا ۔ (پ۴، اٰل عمران:۱۸۰) ۔ (صحیح البخاری،کتاب الزکات ، باب اثم مانع الزکوٰۃ،حدیث نمبر ۱۴۰۳ جلد ۱ صفحہ ۴۷۴،چشتی)

حساب میں سختی کی جائے گی

جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : فقیر ہر گز ننگے بھوکے ہونے کی تکلیف نہ اٹھائیں گے مگر اغنیاء کے ہاتھوں ، سن لو ایسے مالداروں سے اللہ تعالیٰ سخت حساب لے گا اور انہیں درد ناک عذاب دے گا ۔ (مجمع الزوائد،کتاب الزکوٰۃ،باب فرض الزکوٰۃ حدیث نمبر ۴۳۲۴ جلد ۳ صفحہ ۱۹۷،چشتی)

عذابِ جہنم میں مبتلا ہوسکتا ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کچھ لوگ دیکھے جن کے آگے پیچھے غرقی لنگوٹیوں کی طرح کچھ چیتھڑے تھے اور جہنم کے گرم پتھر اور تھوہر اور سخت کڑوی جلتی بدبو دار گھاس چوپایوں کی طرح چرتے پھرتے تھے ۔ جبرائیل امین علیہ السلام سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ عرض کی : یہاں پر مالوں کی زکوٰة نہ دینے والے ہیں اور اللہ پاک نے ان پر ظلم نہیں کیا ، اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم نہیں فرماتا ۔ (الزواجر کتاب الزکوٰۃ الکبیرۃ السابعۃ الثامنۃ والعشرون …. الخ جلد ۱ صفحہ ۳۷۲،چشتی)

ایک مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : زکوٰة نہ دینے والا قیامت کے دن دوزخ میں ہوگا ۔ (مجمع الزوائد ،کتاب الزکوٰۃ،باب فرض الزکوۃ،حدیث نمبر۴۳۳۷،ج۳،ص۲۰۱،چشتی)

ایک اور مقام پر فرمایا : دوزخ میں سب سے پہلے تین شخص جائیں گے ان میں سے ایک وہ مال دار جو اپنے مال میں اللہ پاک کا حق ادا نہیں کرتا ۔ (صحیح ابن خزیمہ، کتاب الزکوٰۃ،باب لذکر ادخال مانع الزکات النار ۔ الخ ، حدیث نمبر۲۲۴۹،ج۴،ص۸،چشتی)

اللہ عزوجل ہم میں سے جو صاحب نصاب ہیں انہیں اپنے مال کی زکوٰة نکالنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ مستحقین تک اسے پہنچانے کی توفیق بخشے ۔ اور خصوصاً ہم خادمانِ امت کو زیادہ سے زیادہ خدمات دینیہ و علمیہ کی توفیق خیر مرحمت فرمائے ۔ (آمین بجاہ النبی الکریم علیہ اکرم الصلاۃ و افضل التسلیم) ۔


اسلام نے دوسروں کی ضروریات پوری کرنے کےلیے اخلاق اور قانون دونوں سے کام لیا ۔ زکوٰۃ کی صورت میں نقد اور عشر کی صورت میں زمین سے پیدا ہونے والی اجناس پر مقرر و متعین شرح سے آمدنی کا ایک حصہ صاحب ثروت لوگوں سے قانوناً لے کر ضرورت مندوں کی کفالت کا بندوبست کیا اور یہ کام اسلامی حکومت کے اولین فرائض میں شامل کر دیا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۔
ترجمہ : وہ لوگ کہ اگر ہم ان کو زمین میں اختیار و اقتدار دیں تو نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں ۔ (سورہ الحج، 22 : 41)

توخذ من اغنیاهم فترد علی فقرائهم ۔
ترجمہ : زکوٰۃ ان کے امیروں سے لی جائے اور ان کے غریبوں پر لوٹا دی جائے گی ۔ (متفق علیہ)

زکوٰۃ کے نصاب

مال مویشی

اگر سال کا اکثر حصہ مفت چر کر گزارا کریں تو سائمہ کہلاتے ہیں ۔ ان پر مقرر شرح سے سال گزرنے پر زکوٰۃ وصول کی جائے گی۔ اگر سال کا اکثر حصہ قیمتی چارہ ڈالا جائے تو علوفہ کہلاتے ہیں ان پر زکوٰۃ نہیں ۔

زرعی پیداوار

اگر زمین بارانی ہے یا چشموں کے پانی سے مفت سیراب ہوتی ہے تو اس کی کل پیداوار میں سے دسواں حصہ وصول کیا جائے گا ۔ یہ مسلمان سے لیں تو عشر، غیر مسلم سے لیں تو خراج ۔ اگر زمین قیمتاً سیراب ہو جیسے ٹیوب ویل یا نہری پانی جس پر آبیانہ وصول کیا جاتا ہے تو کل پیداوار پر نصف عشر یعنی پیداوار کا بیسواں حصہ وصول کیا جائے ۔ غیر مسلموں سے زمین کی پیداوار پر خراج وصول کیا جائے گا ، جو اسلامی حکومت ان پر مقرر کرے گی ۔ پھل سبزیاں اور غلے وغیرہ کا ایک ہی حکم ہے ۔

سونا چاندی یا مال تجارت

سونا چاندی ، مال تجارت یا روپیہ پیسہ (کرنسی) ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی ، کے برابر مالیت کے ہوں اور ضروریات اصلیہ سے زائد ہوں ، ضروریات اصلیہ رہائش ، لباس ، خوراک ، سواری ، علاج ، تعلیم وغیرہ ہیں اور اس مال پر سال گزر جائے تو ایسے مال سے اڑھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ وصول کی جائے گی ۔

مصارف زکوٰۃ

ارشاد باری تعالیٰ ہے : إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ۔ (سورہ التوبہ، 9 : 60)
ترجمہ : زکوٰۃ تو صرف ان لوگوں کےلیے جو محتاج اور نرے نادار (مسکین) ہوں اور جو اس کی تحصیل پر مقرر ہیں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے (اسلام کی طرف مائل کرنا ہو) اور (مملوکوں کی) گردنیں آزاد کرنے میں اور قرض داروں کو اور اللہ کی راہ اور مسافر کو، یہ ٹھہرایا ہوا (مقرر شدہ) ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم و حکمت والا ہے ۔

اس آیت مبارکہ میں آٹھ مصارفین کا ذکر موجود ہے : ⬇

1 ۔ فقراء
2 ۔ مساکین
3 عاملین زکوٰۃ (زکوٰۃ اکٹھی کرنے والے)
4 ۔ مؤلفۃ القلوب
5 ۔ غلام کی آزادی
6 ۔ مقروض
7 ۔ فی سبیل اللہ
8 ۔ مسافر

قرآن کریم میں زکوٰۃ کے یہ آٹھ مصارف ذکر ہوئے ہیں احناف کے نزدیک ان میں سے کسی بھی مصرف میں زکوٰۃ دینے سے ادائیگی ہوجائے گی اور دینے والا دینی فریضہ سے سبکدوش ہو جائے گا ۔ خواہ ایک پر صرف کرے خواہ دو پر خواہ زیادہ پر یہ اس کے اپنے اختیار میں ہے ۔

زکوٰۃ کا پہلا اور دوسرا مصرف فقیر و مسکین

فقیر اور مسکین دونوں ہی مالی ضروریات کےلیے دوسروں کے مالی تعاون کے محتاج ہیں دونوں کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے فقیر سے بڑھ کر مسکین خستہ حال ہوتا ہے فقیر تنگدست ہوتا ہے تہی دست نہیں ہوتا مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ، فقیر وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ کچھ مال ہوتا ہے مگر ضروریات زندگی اس سے پوری نہیں ہوتیں ۔ (بدائع الصنائع 2 : 43،چشتی)(فتاویٰ عالمگیری 188)(تفسیر کبیر 107 طبع ایران)(احکام القرآن للحبصاص 3 : 122)(روح المعانی 15 : 120)(ہدایہ : 163)(الجامع الاحکام القرآن للقرطبی 7 : 157)

تیسرا مصرف والعاملین علیہا

وہ لوگ جو زکوٰۃ و عشر جمع کرنے پر مامور ہوں ، ان سب کو زکوٰۃ فنڈ سے اجرت یا تنخواہ دی جائے گی خواہ امیر ہوں خواہ غریب ۔

ان مایستحقه العامل انما یستحقه بطریق العمالته لابطریق الزکاة بدلیل ان یعطی وان کان غنیا بالا جماع ولو کان ذلک صدقته لما حلت للغنی ۔
ترجمہ : عامل جو زکوٰۃ لینے کا مستحق ہے وہ صرف اپنے کام کی بناء پر اس کا حقدار ہے نہ کہ زکوٰۃ کی حیثیت سے دلیل یہ ہے کہ اسے تنخواہ ملے گی گو غنی وامیر ہو اس پر امت کا اجماع ہے اگر یہ صدقہ ہوتا تو امیر کے لئے جائز نہ ہوتا ۔ (بدائع الصنائع 2 : 44،چشتی)(فتح القدیر 2 : 204)(تفسیر کبیر 16 : 115)

امااخذ طلمه زماننا من الصدقات والعشور والخراج والجبایات و المصادرات فالا صح انه یسقط جمیع ذلک عن ارباب الاموال اذا نوواعند الدفع التصدق علیھم ۔
ترجمہ : رہا ہمارے دور کے ظالم حکمرانوں کو زکوٰۃ و عشر خراج جزیہ اور محصولات لینا تو صحیح تر یہ ہے کہ مالدار لوگ ان کو مال دیتے وقت ان پر صدقہ کی نیت کرلیں ، تو ان سے شرعی مالی واجبات ساقط ہوجائیں گے ۔ (فتاویٰ عالمگیری، 1 : 190)

گویا ان کو دوبارہ ادا نہیں کرنا پڑے گا جیسے آج کل حکومت زبردستی زکوٰۃ بینکوں سے کاٹ لیتی ہے اور افسر شاہی شیر مادر سمجھ کر اپنے عزیزوں اور دوستوں کے ہمراہ ڈکار لیے بغیر سب کچھ ہڑپ کر جاتی ہے ۔ اسی لیے حقیقت شناس لوگ بینکوں پر بھروسہ نہیں کرتے اپنے طور پر زکوٰۃ کی رقم اس کے مصارف میں خرچ کرتے ہیں۔ یہ ہی احسن طریقہ ہے ۔

اموال ظاہرہ واموال باطنہ

مال دو طرح کا ہے ایک ظاہری جیسے مویشی غلہ مال تجارت وغیرہ اس کی زکوٰۃ اسلامی حکومت وصول کرتی ہے ۔ دوسرا باطنی یا پوشیدہ مال جیسے زیورات یا نقدی اس کی زکوٰۃ ہر شخص خود ادا کرتا ہے ۔

فی زمانہ چونکہ زکوٰۃ وعشر کا نظام حکومت کی طرف سے شرعی اصول کے مطابق نہیں اور چونکہ اس سے ضرورت مندوں ، محتاجوں ، مسکینوں کی کفالت عامہ کی ذمہ داری بھی حکومت نہیں لیتی نہ اس کے شرعی مصارف میں صرف کرتی ہے ۔ بلکہ دوسرے شعبوں کی طرح اس شعبہ میں بھی لوٹ مار اور افسر شاہی کے اللوں تللوں کی بھرمار ہے ۔ نہ وصولی میں شرعی اصولوں کی پابندی ہے نہ صرف کرنے میں اس لیے محتاط مسلمان اپنے طور پر اپنے مالوں کی زکوٰۃ مناسب مصارف میں خود صرف کرتے ہیں یہ بالکل جائز ہے ۔ حالانکہ زکوٰۃ امراء سے لے کر فقراء پر صرف کرنے کےلیے فرض کی گئی ہے تاکہ غریب ومسکین حاجت مندوں کی باعزت کفالت ہو ۔

بنی ہاشم پر زکوٰۃ صرف کرنا جائز نہیں کہ یہ لوگوں کے مال کا میل کچیل ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ کبھی خود اپنی ذات پر مال زکوٰۃ صرف کیا نہ اپنے خاندان بنی ہاشم پر بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذات اور اپنے خاندان بنی ہاشم پر زکوٰۃ و عشر کا مال حرام فرمادیا ۔ حضور بھی زکوٰۃ کی وصولی و تقسیم کا کام بلا معاوضہ کرتے تھے اور اپنے خاندان کےلیے بھی یہ حکم تھا کہ ان میں سے جو کوئی بلا معاوضہ یہ خدمت کرنا چاہے کرے ، لیکن زکوٰۃ میں سے معاوضہ لے کریہ خدمت انجام نہیں دے سکتا ۔ ہاں زکوٰۃ کے محکمہ میں کام کرنے والا ہاشمی زکوٰۃ فنڈ کے علاوہ تنخواہ پائے تو یہ جائز ہے ۔ البتہ زکوٰۃ کے علاوہ ان تحائف دیئے جاسکتے ہیں ۔ (فتاویٰ عالمگیری 1 : 188)

چوتھا مصرف ، مؤلفة القلوب

زکوٰۃ وعشر کاچوتھا مصرف مؤلفتہ القلوب ہیں یعنی وہ لوگ جن کی تالیف قلب مقصود ہے تالیف قلب کا مطلب ہے دل موہ لینا ، مائل کرنا ، مانوس کرنا ۔ اس حکمِ خداوندی کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ اسلام کے سخت مخالف ہیں اور مال دے کر ان کی مخالفت ختم کی جا سکتی ہے یا ایسے نادار کافر جن کی مالی امداد کرکے ان کو اسلام کی طرف مائل کیا جا سکتا ہے جس کے نتیجہ میں پہلے ان کا جوش عداوت ٹھنڈا ہوگا اور بالآخر وہ اسلام میں داخل ہو سکتے ہیں ۔ یا وہ لوگ جو نئے نئے مسلمان ہوں اور ان کی مناسب مالی مدد نہ کی گئی تو امکان ہے کہ وہ اپنی کسمپرسی اور کمزوری کی بناء پر پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے ۔ ایسے لوگوں کو و قتی عطیات یا مستقل وظائف مال زکوٰۃ سے دے کر ان کو اسلام کا مطیع وفرماں بردار یا کم ازکم بے ضرر دشمن بنالیا جائے ایسے لوگوں کو مال زکوٰۃ دینا جائز ہے خواہ وہ غریب ہوں خواہ مالدار اس بات میں تو کسی کا اختلاف نہیں کہ قرآن کریم میں زکوٰۃ و عشر کے جو آٹھ مصارف ذکر کیے گئے ہیں ان میں ’’مؤلفتہ القلوب‘‘ کا حصہ بھی شامل ہے اور یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مؤلفة القلوب کو اپنی حیات ظاہری میں مالی وظائف دیا کرتے تھے ۔ مثلاً خاندان بنی امیہ میں سفیان بن حرب ، نبی مخزوم میں حارث بن ہشام، عبدالرحمن بن یربوع ، نبی جمح میں صفوان بن امیہ ، بنی عامر بن لوئی میں سہیل بن عمرو اور حویطب بن عبدالعزیٰ ، بنی اسد بن عبدالعزیٰ میں حکیم بن حزام، بنی ہاشم میں ابوسفیان بن الحارث بن عبدالمطلب ، فزارہ عینیہ بن حصن ، بنی تمیم میں اقرع بن حابس ، بنی نصر میں مالک بن عوف ، بنی سلیم میں عباس بن مرد اس، ثقیف میں علاء بن حارثہ ، بنی حارثہ ، بنی سہم میں عدی بن قیس، ان میں سے بعض کو 100 اونٹ اور بعض کو 50 ملے ۔

لیکن جب خلافت صدیقی میں عینیہ بن حصن اپنا حصہ لینے آئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے قرآن کی یہ آیت پڑھی : الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ۔ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے سو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے انکار کرے ۔ دوسری روایت میں ہے عینیہ اور اقراع ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس زمین مانگنے آئے ۔ آپ نے ان کو تحریر لکھ دی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے چاک کر دیا ، اور فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں یہ کچھ اس لیے دیتے تھے کہ تم اسلام سے مانوس ہو جاؤ ۔ اب اللہ نے اسلام کو غلبہ دے دیا ہے اور اسے تم لوگوں سے مستغنی کر دیا ہے ، اسلام پر قائم رہو گے تو ٹھیک ، ورنہ ہمارے تمہارے درمیان تلوار فیصلہ کرے گی وہ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس لوٹ کر آئے اور کہنے لگے آپ خلیفہ ہیں یا عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی موافقت کی اور کسی صحابی نے انکار نہیں کیا ۔ (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی 8 : 114،چشتی)(بدائع الصنائع 2 : 45)(فتح القدیر 1۔ 200)(تفسیر کبیر 16 : 111)

کیا مؤلّفة القلوب کا حصہ منسوخ ہو چکا ہے ؟

امام رازی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : الصحیح ان هذا الحکم غیر منسوخ وان للامام ان یتألف قوما علی هذا الوصف ویدفع الیهم سهم المؤلّفة ۔
ترجمہ : صحیح یہ ہے کہ حکم منسوخ نہیں اور امام کا حق ہے کہ ایسے لوگوں کو اسی طرح مانوس کرتا رہے اور ان کو مؤلّفتہ القلوب کا حصہ دیتا رہے ۔ (تفسیر کبیر 16 : 111،چشتی)

جیسا کہ عرض کیا گیا ہے مصارف زکوٰۃ میں اللہ تعالیٰ نے ایک مصرف مؤلّفة القلوب کا مقرر فرمایا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مد میں زکوٰۃ و عشر کی آمدنی خرچ فرمائی ۔ اور کبھی اسے منسوخ نہ فرمایا ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان تمام حضرات کے وہ وظائف بند کر دیے جو تالیف قلب کے طور پر وہ اس سے پہلے وصول کرتے تھے ۔ بعض ائمہ کرام علیہم الرحمہ (جیسے احناف) کا موقف یہ ہے کہ مؤلّفة القلوب کا حصہ چونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے روک لیا تھا اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے ایسا ہوا اور کسی نے اس پر اختلاف یا انکار نہ کیا پس معلوم ہوا کہ اس مصرف کے سقوط پر اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم ہے اور چونکہ اجماع دلیل قطعی ہے ۔ لہٰذا قرآن کا نسخ اس سے جائز ہے بعض ائمہ نے فرمایا پہلے تالیف قلب کی ضرورت تھی لہٰذا یہ مصرف بحال رہا ۔ جب اسلام کو قوت حاصل ہو گئی تو کسی کی تالیف قلب کی ضرورت نہ رہی پس حکم جاتا رہا ۔ ہمارے نزدیک تالیف قلب کی آج بھی اتنی ہی بلکہ اس سے کہیں زیادہ ضرورت ہے جتنی ابتدائے اسلام میں ۔ آج بھی ضرورت اس امرکی ہے کہ اس فنڈ میں سے غریبوں کی مدد کر کے ان کے عقیدہ کو بچایا جائے ۔ مسلمانوں کو مال کی لالچ میں مرتد ہونے سے اور غیر مسلم غریبوں کی مالی اعانت کرکے انہیں مسلمان کیا جائے ۔ خصوصاً اس دور میں جبکہ غیر مسلم امیر ممالک اور ان کی ایجنسیاں غریبوں کو مرتد کرنے پر اربوں ڈالر اور بعض پٹرول کی دولت سے مالا مال شرق اوسط کے ممالک لوگوں کو بدعقیدہ کرنے پر پانی کی طرح پیسہ بہارہے ہیں ۔ پختہ صحیح العقیدہ صاحبانِ ثروت مسلمانوں کو اپنی دولت اور عشر و زکوٰۃ غریب وفادار غیر مسلموں کی اصلاح پر خرچ کرنی چاہیے ۔ بیروزگار و بیمار لوگوں کی مالی اعانت کرنی چاہیے ۔ یونہی نادار و مفلس مسلم و غیر مسلموں کے بچوں کی تعلیم وتربیت پر زکوٰۃ و عشر کی رقوم خرچ کرناچاہیے نیز ذمی شہریوں سے جزیہ و خراج وصول کرکے ذمی طلباء و غربا کی ہر طرح کی مالی اعانت کی جائے اور ان کو ضروریات زندگی مہیا کی جائیں ۔ یہ سب اسلامی فلاحی حکومت کی قانونی ذمہ داری ہے ۔

امیروں اور ڈانواں ڈول لوگوں پر خرچ کرکے ان کو مخالفینِ اسلام کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچایا جائے ۔ نومسلموں کی مالی اعانت کر کے ان کو اسلام کی طرف مائل و مانوس کیا جائے۔ مال کے خواہش مندوں کو مالی مدد دیکر اسلام پر کار بند کیا جائے ۔ دشمن قوتوں کی مالی اعانت کر کے ان کے شر سے ملک و ملت کو بچایا جائے غیر مسلم قوتیں مال دے کر مسلمانوں کے عقیدے خراب کرتی اور ان کو مرتد کرتی ہیں ۔ اسلام بھی ان پر مال خرچ کرکے ان کو مسلمان ہونے کی ترغیب دیتا ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع اس بات پر ہوا تھا کہ اس دور میں مؤلّفة القلوب کو کچھ دینے کی ضرورت نہ رہی تھی ۔

آج بھی ضرورت نہ ہو تو آپ کو کسی نے مجبور نہیں کیا کہ ضرور مؤلّفة القلوب کا مصرف پیدا کریں ۔ لیکن ضرورت ہو تو پھر آپ اس مد میں زکوٰۃ صرف کر سکتے ہیں ۔ جیسے دوسری مدات ہوں تو زکوٰۃ صرف کریں کوئی مدنہ ہو تو چھوڑ دیں بیت المال میں مال جمع کرا دیں ۔ یہ قرآنی حکم کا نسخ نہیں بلکہ علت نہ رہنے سے حکم ختم ہو گیا ، جیسے تیمم اس وقت تک کر سکتے ہیں جب تک پانی استعمال کرنے کی قدرت نہ ہو ۔ جونہی پانی پر قدرت حاصل ہوئی تیمم کا حکم ختم ۔ حکم علت کے ساتھ رہا ۔ ہمیشہ کےلیے منسوخ ہوا نہ ہر صورت میں نافذ ! یہی معاملہ ہے مؤلّفة القلوب کا جہاں جب ضرورت ہو صرف کریں ضرور ت نہ ہو مت کریں ۔ جیسے آئمہ احناف علیہم الرحمہ نے فرمایا : ان المقصود بالدفع الیهم کان اعزاز الاسلام لضنعفه فی ذلک الوقت لغلبه اهل الکفر فکان الاعزازیه فی الدفع فلما تبدل الحال بغلبته اهل الاسلام صار الااعزاز هو المقصود وهو باق علی جاله فلم یکن نسخا کالمتیم ۔ الخ (فتح القدیر شرح ہدایہ لابن الھمام ہے الکفایہ للخوارزمی 2 : 201)
ترجمہ : اس وقت اسلام کمزور تھا لہٰذا مؤلّفتہ القلوب کو زکوٰۃ دینے کا مقصد اسلام کو قوت دینا تھا ۔ کیونکہ کافر غالب تھے پس اعزاز اسلام ان کو زکوٰۃ دینے کا مقصد اسلام کو قوت دینا تھا۔ اہل اسلام کے غلبہ سے جب صورت حال بدل گئی اب غلبہ اہل اسلام ان کو زکوٰۃ نہ دینے میں ہوگیا پس اس (ابتدائی) زمانہ میں ان (مؤلّفتہ القلوب) کو دینا اور اس پچھلے دور میں نہ دینا (جیسے عمر رضی اللہ عنہ نے کیا) غلبہ دین کے بمنزلہ ذریعہ و وسیلہ ہوا ۔ اصل مقصود غلبہ دین ہے اور وہ اسی طرح اب بھی باقی ہے ۔ پس نسخ نہ ہوا ۔ جیسے تیمم (کہ مجبوری کے وقت جائز ہو گیا اور مجبوری نہ رہی تو ختم ہو گیا نہ ہمیشہ کےلیے جائز نہ منسوخ) ۔ (شرح ہدایہ للخوارزمی فتح القدیر شرح ہدایہ لعلامہ ابن ہمام 2 : 201 طبع پاکستان)

پانچواں مصرف ۔  وفی الرقاب

گردنیں چھڑانے میں اسلام سے پہلے دنیا کے اکثر ممالک میں غلامی کا دور دورہ تھا ، کمزور ، نادار ، اور پسماندہ انسانوں کو طاقتور لوگ اپنا غلام بنالیتے تھے ۔ یونہی لڑائیوں اور جنگوں میں غالب قوم ، مغلوب قوم کو اپنا غلام بناکر ان کے گھر بار زمین جائیداد یہاں تک کہ ان کی جانوں کی مالک بن جاتی تھی اسلام نے انسانی غلامی کو جرم قرار دیا جو صدیوں سے نسلاً بعد نسل غلام تھے ان کو قانوناً و اخلاقاً کئی طریقوں سے آزاد کرنے کا دروازہ کھول دیا ۔ جس کے نتیجہ میں تھوڑے ہی عرصہ میں دنیا اس لعنت سے پاک ہو گئی جو مالک اپنے غلاموں لونڈیوں کو بلا معاوضہ آزاد کرنے پر آمادہ نہ تھے ۔ ان کو مالی معاوضہ دے کر غلاموں کو آزادی دلائی گئی ۔ مالک اپنے مملوک سے آزادی کےلیے جو مالی معاوضہ طلب کرے اسے بدل کتابت کہاجاتا ہے غلام مطلوبہ رقم ادا کر کے آزادی سے ہمکنار ہو سکتا ہے اور وہ رقم مال زکوٰۃ سے دی جا سکتی ہے ۔ یونہی جو مسلمان آج کل ظالم و غاصب کافروں سے اپنی اپنی آئندہ نسلوں کی بقاء وآزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں وہ محکوم و مظلوم مسلمان بھی مال زکوٰۃ کے مستحق ہیں ۔ اور اس قرآنی مصرف میں شامل ہیں ۔

چھٹا مصرف ۔ الغارمین

’’والغارمین‘‘ اور قرضداروں کو یعنی مال زکوٰۃ سے قرض داروں کے قرض بھی ادا کیے جا سکتے ہیں ۔

ساتواں مصرف ۔ وفی سبیل اللہ

’’اور اللہ کے راستے میں‘‘ امام یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والے مجاہدین مراد لیے ہیں اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وہ عازمین حج جو راستے میں مالی مدد کے محتاج ہوں ۔ کچھ علماء کے نزدیک طالب علم مراد ہیں ۔ امام کاسانی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ۔ وہ ’’فی سبیل اللّٰه ‘‘ عبارة عن جمیع القرب فید خل فیه کل من سعی فی طاعة اللّٰه و سبیل الخیرات اذا کان محتاجا‘‘ ۔ فی سبیل اللہ سے مراد ہے تمام نیکی کے کام ، اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جو اللہ کی اطاعت اور نیک کاموں میں تگ و دو کرے ۔ جب کہ (زکوٰۃ کا) حاجت مندہو ۔ (بدائع الصنائح، 2 : 45،چشتی)(تفسیر روح المعانی، 10 : 123)(درمختار مع ردالمختار للشامی، 2 : 343)

امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ان ظاهر اللفظ لایو جب القصر علی کل الغزاة ۔ ظاہر لفظ مجاہدین پر حصر لازم نہیں کرتا ۔ (تفسیر کبیر16 : 113 طبع بیروت)

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ زکوٰۃ کا ساتواں مصرف قرآن کریم میں فی سبیل اللہ بیان فرمایا گیا ہے۔ بعض فقہاء کرام نے اس سے حج اور جہاد پر جانے والے وہ لوگ مراد لئے ہیں جو سفر اور متعلقہ ضروریات کے سلسلہ میں مالی تعاون کے طالب ہیں ان پر زکوٰۃ صرف کی جاسکتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ کتاب و سنت میں براہ راست یہ وضاحت نہیں کی گئی ۔ لہٰذا مجاہدین سے مراد اگر عام معنی مراد لیا جائے تو زیادہ مناسب ہے یعنی وہ لوگ جو دین اسلام کی سر بلندی کےلیے جد و جہد میں مصروف ہیں خواہ وہ جہد فوجی میدان میں ہو خواہ تعلیمی میدان میں ، خواہ تبلیغی و تربیتی میدان میں جہاد کا مفہوم قتال و غزاء سے عام ہے ۔ پس جو لوگ ان محاذوں پر مصروف کار ہیں اگر وہ مالی تعاون کے محتاج ہوں تو زکوٰۃ سے ان کے وقتی یا مستقل وظائف مقرر کیے جا سکتے ہیں ۔

آٹھواں مصرف ’’ابن سبیل‘‘ مسافر

زکوٰۃ کا آٹھواں مصرف مسافر ہے ۔ خواہ گھر میں مالدار ہو مگر سفر میں تنگدست ہو جائے اور مالی تعاون کا محتاج ہو ، تو زکوٰۃ سے اس کی مالی مدد کی جائے گی ۔ المراد الذی انقطعت به الاسباب فی سفره عن بلده ومستقره وماله فانه یعطی منها وان کان غنیا فی بلده ۔ اس سے مراد وہ شخص ہے جس کے وسائل واسباب گھر ٹھکانہ اور مال سے دور سفر میں ہونے کی وجہ سے اس کی دسترس سے باہر ہیں ۔ اس کو مال زکوٰۃ سے دیاجائے گا اگرچہ اپنے شہر میں امیر ہو ۔ (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی 8 : 119،چشتی)(بدائع الصنائع کاسانی 2 : 46)(ہدایہ مع فتح القدیر لعلامہ ابن الھمام 2 : 204 ردالمختار شامی ج 2 : 343)

زکوٰۃ کی ادائیگی کےلیے ضروری ہے کہ متعلقہ فرد یا جماعت کو زکوٰۃ کا مالک بنادیا جائے تاکہ مالدار کا دینا اور حقدار کا لینا ثابت ہو جائے ۔ اسے تملیک یعنی مالک بنانا کہتے ہیں اور زکوٰۃ کی ادائیگی کےلیے یہ شرط ہے ۔ (عامہ کتب فقہ) ۔


زکوٰۃ ہر مسلمان ، عاقل ، بالغ ، آزاد اور صاحب نصاب شخص پر واجب ہے جب نصاب پورا ہونے کے بعد اس پر ایک سال کا عرصہ گزر جائے ۔ سونے کا نصاب ساڑھے سات تولے اور چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولے ہے ۔ سونا چاندی میں چالیسواں حصہ نکال کر بطور زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے یہ ضروری نہیں کہ سونا چاندی کی زکوٰۃ میں سونا چاندی ہی دی جائے بلکہ یہ بھی جائز ہے کہ بازار کے بھاؤ سونے چاندی کی قیمت لگاکر روپیہ زکوٰۃ میں دیں ۔ اگر کسی کے پاس تھوڑی چاندی اور تھوڑا سونا ہے اور سونا چاندی میں سے کوئی بھی الگ سے بقدر نصاب نہیں تو ایسی صورت میں دونوں کو ملا کر ان کی مجموعی قیمت نکالی جائے گی اور جس نصاب (سونا یا چاندی) کو بھی وہ پہنچے اس پر زکوٰۃ واجب ہے ۔
   
جن زیورات کی مالک عورت ہو خواہ وہ میکے سے لائی ہو یا اس کے شوہر نے اس کو زیورات دیکر مالک بنادیا ہو تو ان زیورات کی زکوٰۃ عورت پر فرض ہے اور جن زیورات کا مالک مرد ہو یعنی عورت کو صرف پہننے کےلیے دیا گیا ہے مالک نہیں بنایا تو ان زیورات کی زکوٰۃ مرد کے ذمہ ہے عورت پر نہیں ۔
   
تجارتی مال اور سامان کی قیمت لگائی جائے گی اس سے اگر سونے یا چاندی کا نصاب پورا ہو تو اس کے حساب سے زکوٰۃ نکالی جائے گی ۔

اگر سونا چاندی نہ ہو ، نہ مال تجارت ہو بلکہ صرف نوٹ اور روپے ہوں تو کم سے کم اتنے روپے پیسے اور نوٹ ہوں کہ بازار میں ان سے ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی خریدی جا سکتی ہو تو وہ صاحب نصاب ہے اور اس شخص کو نوٹ اور روپے پیسوں کی زکوٰۃ ، کل چالیسواں حصہ نکالنا فرض ہے ۔

اگر شروع سال میں نصاب پورا تھا اور آخر سال میں بھی نصاب پورا رہا ۔ درمیان سال میں کچھ دنوں مال گھٹ کر نصاب سے کم رہ گیا تو یہ کمی کچھ اثر نہ کرے گی بلکہ اس شخص کو پورے مال کی زکوٰۃ دینا پڑے گی ۔

روپے پیسوں کی زکوٰۃ میں روپے پیسے ہی دینا ضروری نہیں بلکہ جتنے روپے زکوٰۃ کے نکلتے ہیں اگر ان کا غلہ ، کپڑا ، کتابیں یا کوئی بھی سامان خرید کر مستحق زکوۃ کو دے تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ۔
   
کرایہ پر اٹھانے کےلیے ویگنیں ، موٹریں ، بسیں ، ٹرک اسی طرح دیگیں ، دریاں ، گدے ، کرسیاں ، میزیں ، پلنگ ، مسہریاں یا کرایہ پر اٹھانے کےلیے مکانات اور دکانوں سے حاصل شدہ آمدنی اگر بقدر نصاب ہو اور اس پر سال گزر جائے تو پھر اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی ۔

میاں بیوی ایک دوسرے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے ۔ یونہی کوئی شخص اپنے والدین ، اوپر تک اور اپنی اولاد کو نیچے تک زکوٰۃ ، عشر ، فطرانہ اور فدیہ کفارہ کی رقم یا جنس وغیرہ نہیں دے سکتا ۔ ان کے علاوہ غریب رشتہ داروں مثلاً بہن بھائی اوران کی اولاد ، چچا ، پھوپھی ، ماموں ، خالہ اور ان کی اولاد اگر غریب ومستحق ہوں تو ان کو زکوٰۃ وعشر فطرانہ ، فدیہ وغیرہ دینا دوگنا ثواب ہے ۔ اوّل فرض ادا کرنے کا دوم صلہ رحمی اور رشتہ داری کا لحاظ کرنے کاجب یہ تسلی ہو جائے کہ یہ شخص غریب و مستحق ہے اس کو بقدر ضرورت دیدیں ۔ دیتے وقت یہ بتانا ضروری نہیں کہ یہ زکوٰۃ و عشر وغیرہ ہے بلکہ نہ بنانا بہتر ہے تاکہ اس کی عزت ونفس مجروح نہ ہو ۔

زکوٰۃ و صدقات میں افضل یہ ہے کہ پہلے اپنے اقرباء کو دے پھر ان کی اولاد ، پھر دوسرے رشتہ داروں کو پھر پڑوسیوں کو پھر اپنے پیشہ والوں کو پھر اپنے گاؤں اور شہر کے رہنے والوں کو ۔ (فتاویٰ عالمگیری،چشتی)

زکوٰۃ کے متعلق چند ضروری سوالات اوران کے جوابات : ⬇

سوال : کن کن چیزوں پر زکوٰۃ فرض ہے ؟

1۔ فیکٹری، مشینوں نہ زمین پر فقط تیار شدہ مال کی مالیت پر زکوٰۃ فرض ہے۔ یونہی اس کے رامیٹریل یعنی خام مال کی مالیت پر بھی زکوٰۃ فرض ہے۔

2۔ مکان یا دکان کی مالیت پر زکوٰۃ نہیں، ہاں اگر اس کا کرایہ آتا ہے تو باقی مال کے ساتھ وہ بھی شامل ہوجائے گا پھر اگر حد نصاب تک ہے تو سب پرزکوٰۃ ہوگی۔ ورنہ نہیں۔

3۔ گاڑی اگر گھریلویا کمرشل استعمال کیلئے ہے تو اس پر زکوٰۃ نہیں اس کی آمدنی کو باقی مال کے ساتھ جمع کریں گے اور نصاب ہوا تو اس کے حساب سے زکوٰۃ ہوگی ورنہ نہیں۔ ہاں اگر گاڑیوں کی خرید و فروخت کرتا ہے مثلاً اپنا شو روم ہے اور گاڑیاں اس کی اپنی ملکیت ہیں تو یقینا یہ مال تجارت ہے۔ ان کی مالیت پر مقررہ شرائط کے تحت زکوٰۃ فرض ہوگی۔

سوال : کیا سیونگ سر ٹیفکیٹ اور قرض پر زکوٰۃ ہے؟
جواب : آپ کی ملکیت میں جتنا سرمایہ ہے خواہ نقد خواہ سونا چاندی خواہ مال تجارت خواہ واجب الوصول قرض جس کی وصولی کی امید ہو۔ ان سب کو جمع کرکے، سال گزرنے پر سب کی زکوٰۃ فرض ہے۔ سیونگ سر ٹیفکیٹ ہو یا انعامی بانڈز، یہ اور اس جیسی اور تمسکات مالیہ مال ہی ہے۔ سب کی مالیت پر زکوٰۃ کی ادائیگی فرض ہے۔

سوال : (1) کیا قرض کو زکوٰۃ میں بدلا جاسکتا ہے؟
جواب : 1۔ اگرمقروض غریب ومفلس ہے۔ صاحب نصاب نہیں، تو بیشک وہ قرض زکوٰۃ سے بدلا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر وہ غنی ہے صاحب نصاب ہے تو چونکہ اس کے لئے زکوٰۃ لینا جائز نہیں، لہٰذا یہ قرض بطور زکوٰۃ اسے دینا جائز نہیں۔
پہلی صورت ہے تو یقیناً زکوٰۃ کا مستحق ہے، اسے کچھ اور بتانے کی ضرورت نہیں۔ صرف یہ کہہ دیں کہ آپ میرے قرض سے سبکدوش ہیں۔ اب اس کی فکر نہ کریں۔ تاکہ اس کی عزت نفس مجروح نہ ہو ۔

سوال : کیا مزارع سے اگر حکومت زکوٰۃ لے لے تو مالک بری الذمہ ہوجائے گا؟
کیا سکنی جائیداد پر زکوٰۃ ہے؟
کیا خالی پلاٹ پر زکوٰۃ ہے؟
کچھ بارانی زمین ہے جس پر کبھی بارش ہوجائے تو کوئی پیداوار ہوجاتی ہے ورنہ نہیں کیا اس پر بھی زکوٰۃ ہے؟
ایک ایکڑ بیٹے کے نام پر ہے۔ جس کی ادائیگی کردی ہے کیا اس پر بھی زکوٰۃ ہے؟
گھریلو سامان جن میں کرسیاں، برتن، چارپائیاں ہیں کیا ان پر بھی زکوٰۃ ہے؟
جواب : 1۔ مزروعہ اراضی پر کوئی شرعی ٹیکس نہیں۔ ہاں اس کی پیدوار پر ہے۔ اگر زمین بارانی ہے۔ یا چشموں کے پانی سے سیراب ہوتی ہے اور پانی پر کوئی خرچ نہیں آتا، تو اس کی کل پیداوار پر دسواں حصہ عشر (10/ 1) فرض ہے۔ اگر سیراب کرنے کیلئے پیسے خرچ ہوتے ہیں مثلاً نہری پانی پر آبیانہ، یاٹیوب ویل کاخرچہ، تو ایسی زمین کی پیداوار پر نصف عشر یعنی بیسواں حصہ (20/ 1) عشرفرض ہے۔ یہ عشر ہر فصل پر لازم ہے۔ خواہ سال میں ایک بار ہویا دویا زیادہ۔ اگر زمین ہے مگر پیداوار نہیں دیتی اس پر کسی قسم کے واجبات نہیں، خواہ ہزار ایکڑ ہو۔ پلاٹ، مکان، دکان، گھر کے برتن، بستر، کپڑے، اور برتنے کی گھریلو اشیاء خواہ جتنی چیزیں ہوں ان پر زکوٰۃ نہیں۔ ہاں اگریہی اشیاء یا اور چیزیں مال تجارت کے طور پر ہیں، تو مال تجارت کی تمام مالیت پر زکوٰۃ فرض ہے۔ زمین، پلاٹ، مکان، دکان پر کوئی زکوٰۃ نہیں خواہ بیچنے کیلئے ہوں خواہ رہائش کیلئے۔ خواہ کرائے کیلئے، ہاں ان کی آمدنی جب نصاب کو پہنچے، اس آمدنی پر زکوٰۃ ہے۔ یہی حال ہے۔ کارخانے وغیرہ کا کہ اس کی مالیت پر زکوٰۃ نہیں۔ جو مصنوعات اس میں تیار ہوتی ہیں ان پر زکوٰۃ ہے۔ اس خام مال پر زکوٰۃ ہے۔ جس سے مصنوعات تیارہوتی ہیں۔ اس مشینری پر نہیں جس پر مال تیار ہوتا ہے۔

حکومتی ٹیکسوں کی ادائیگی کے بعد جو رقم بچی ہے اس پر زکوٰۃ ہے۔ سونا وچاندی خواہ زیورات کی صورت میں ہوں یا ڈلی وغیرہ کی صورت میں خواہ اس سے تجارت کریں، خواہ نہ کریں، جب بقدر نصاب ہوں، اور سال گذر جائے، ان پر زکوٰۃ فرض ہے۔ اگر مزروعہ زمین کی کل پیداوار پر اوپر مذکورہ طریق پر حکومت عشر لیتی ہے تو آپ بری الذمہ، اگر اس نے اس میں حد رکھی ہے اور اس سے کم میں نہیں لیتی تو آپ ساری پیداوار سے عشرادا کریں۔ یعنی جتنے حصے کا حکومت نے نہیں لیا، اس کا آپ ادا کریں جو حکومت نے شرعی نصاب کے مطابق لیا ہے وہ ادا ہوگیا۔

سوال : ایک شخص کی سالانہ آمدنی 50,000 ہے اور تقریباً۔ 50,000 کا مقروض بھی ہوجاتا ہے جبکہ اس کی زمین قریباً 4 لاکھ کی ہے۔ اس پر زکوٰۃ نکالنے کا طریقہ کار کیا ہے؟
جواب : جس آدمی کی آمدنی پچاس ہزار روپے ہے۔ اس پر قرض بھی تقریباً اتنا ہی ہے، تو معلوم ہوا کہ اس کے پاس کچھ نہیں۔ لہٰذا زکوٰۃ اس پر فرض نہیں، قرض منہا کر کے جو رقم بچ جائے اگر وہ نصاب کو پہنچتی ہے تو سال گزرنے پر اس پر زکوٰۃ دینا فرض ہے۔ اگر قرض سے بچا ہی کچھ نہیں تو زکوٰۃ کس چیز پر؟

2۔ زمین کی کل پیداوار پر، ہر فصل پر، عشر ادا کرنا فرض ہے۔ اگر زمین بارانی ہے تو پیداوار کا دسواں حصہ 1/10 اگر نہری یا ٹیوب ویل سے سیراب ہوتی ہے تو نصف عشر یعنی بیسواں حصہ 1/20 فرض ہے۔ اس کے علاوہ زمین کی مالیت پریا مکان دکان وغیرہ کی مالیت پر کوئی زکوٰۃ نہیں۔ (عامہ کتب فقہ)

سوال : ایک ساتھی نے میٹرسے کم بے شمار کپڑے کے پیس فلاحی ادارے کو بھیجے ہیں۔ اس ساتھی نے یہ کپڑا زکوٰۃ کے طور پر بھیجا ہے۔ مگر اس وقت اس کا کوئی مصرف نہیں کیا ایسا کرنے سے زکوٰۃ کی ادائیگی ہوجائے گی۔
جواب : میٹر سے کم کپڑا بظاہر کسی مصرف کا نہیں۔ اس لئے بیکار ہے۔ اس سے ان کی زکوٰۃ ہرگزادا نہ ہوگی۔

قرآن کریم میں واضح ارشاد ہے۔

لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللّهَ بِهِ عَلِيمٌ ۔ (آل عمران : 3 / 92)
’’تم ہرگز نیکی حاصل نہیں کرسکتے جب تک راہ خدا میں اپنی پیاری چیز خرچ نہ کرو۔ اور تم جو کچھ خرچ کرو، اللہ اس کو جانتا ہے‘‘۔

وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ فَلِأَنفُسِكُمْ ۔ (البقرۃ : 2 / 272)
’’تم جو اچھی چیز خرچ کرو، تو تمہارا اپنا بھلا ہے‘‘۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَلاَ تَيَمَّمُواْ الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِيهِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ ۔ (البقرۃ : 2 / 267)
’’اے ایمان والو! اپنی عمدہ اور پاک کمائے ہوئے مالوں میں سے خرچ کرو! اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا، اور اس میں سے گھٹیا چیز خرچ کرنے کا ارادہ بھی نہ کرو، کہ تمہیں ملے تو نہ لو، جب تک اس میں آنکھیں بند نہ کرلو، اور جان رکھو کہ اللہ بے پرواہ سراہا گیا ہے‘‘۔

مالک کے ارشادات پڑھیں اور بار بار پڑھیں۔ ایسے کپڑے کے پیس اللہ کے نام پر دینے والے بھائی کو اللہ کے حضور توبہ کرنا چاہئے۔ اظہار ندامت کرنا چاہئے۔ اور متعلقہ ادارے سے بھی معذرت کرنا چاہئے۔ اور خوف خدا کے پیش نظر آئندہ محتاط رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ عمدہ مال دے۔ آپ اپنے اور اپنے عیال کے لئے اچھا لباس منتخب فرمائیں اور مالک کے نام پر گھٹیا اور بیکار مال دیکر اپنے دینی فرض سے سبکدوش ہونے کی سوچیں؟ اور دل کو جھوٹی تسلی دیکر مطمئن کریں۔ غلط بات ہے زکوٰۃ کی صورت میں یہ عبادت متعین شرح سے سال کے بعد فرض ہوتی ہے۔ اسے خوشدلی سے ادا کرنا چاہئے۔ ان پِیسوں کے دینے سے جو کسی کام نہ آئیں زکوٰۃ ہرگز ادا نہ ہوگی ان کی نہ قدر ہے نہ قیمت زکوٰۃ مال پر ہے بیکار چیز پر نہیں تاوان سمجھ کر بے دلی اور تنگدلی سے نہیں دینا چاہئے۔ زکوٰۃ وعشر تو فرض ہیں۔ نفلی صدقہ وخیرات بھی جب اس طرح دیا جائے قبول نہیں ہوتا۔ الٹا اللہ کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ دے اور انصاف کرنے کی توفیق دے آمین۔

سوال : وہ دینی درس گاہیں جو بچوں سے باقاعدہ فیسیں لیتی ہیں کیا ان کو زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے یا نہیں؟
جواب : ماڈل سکولز یا ایسے تعلیمی ادارے جہاں طلباء سے فیس لی جاتی ہے ان میں زکوٰۃ فنڈ جمع کرنا تاکہ نادار اور ضرورت مند طلبہ کی ضروریات پوری کی جائیں۔ بالکل درست بلکہ مناسب تر ہے تاکہ ان طلبہ کی بروقت امداد کی جائے اور وہ سکون و اطمینان سے علم حاصل کرسکیں۔ قرآن کریم میں مصارف زکوٰۃ آٹھ بیان ہوئے ہیں۔

إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۔ (التوبه : 9 / 60)
’’زکوٰۃ تو صرف محتاجوں، مسکینوں اور جمع کرنے پر مقرر ملازموں اور جن کے دلوں کو اسلام کی طرف مانوس کرنا ہو، اور مملوکوں کی گردنیں چھوڑانے، اور قرض داروں اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کیلئے ہے‘‘۔

فقہائے کرام فرماتے ہیں۔

ان طالب العلم یجوزله اخذ الزکاة ولو غنیااذا فرغ نفسه لافادة العلم و استفادته لعجزه من الکسب والحاجة داعیهّ الی مالابد منه ۔ (الدار المختار والرد المختار ص 240 ج 2،چشتی)
’’طالب علم خواہ امیر ہو زکوٰۃ لے سکتا ہے، جب اس نے اپنے آپ کو علم پڑھانے اور پڑھنے کیلئے وقف کررکھا ہے کہ وہ رزق کمانے سے عاجز ہے، اور ضروریات زندگی کے حاصل کرنے کی مجبوری اس کے جائز ہونے کا سبب ہے‘‘۔

لہٰذا آپ اپنے تعلیمی ادارے کی ضروریات بالخصوص نادار طلبہ کی ضروریات پوری کرنے کیلئے زکوٰۃ وصول کرسکتے ہیں۔ تمام مذہبی اور دیگر رفاہی ادارے زکوٰۃ پر ہی چل رہے ہیں۔ آپ کے لئے بہتر ہوگا کہ زکوٰۃ فنڈ سے نادار طلبہ کے اخراجات پورے کریں۔ خواہ کتب وسٹیشنری ہو۔ خواہ فیس وخوراک وپوشاک اور دوا وغیرہ کی صورت میں ہو۔

سوال : کیا کسی ادارے کو مشین وغیرہ خرید کردی جاسکتی ہے جس میں کوئی سیدہ بھی کام سیکھنے آتی ہو؟
جواب : 1۔ زکوٰۃ کی رقم سے کسی رفاہی ادارے کیلئے مشین وغیرہ خرید کردینا اسی طرح جائز ہے جس طرح کسی حاجت مند شخص کو انفرادی طور پر۔ یہ مشین یا مشینیں دراصل اس ادارے کی ملکیت ہوتی ہیں۔ چاہے استعمال کوئی بھی کرے۔ سید ہو یا سید زادی کچھ فرق نہیں پڑتا۔

سوال : کیا زکوٰۃ کی رقم اپنے چھوٹے بھائی کو دی جاسکتی ہے جو بے روز گار ہو؟
جواب : بہن، بھائی، چچا، ماموں، خالہ، پھوپھی یا ان کی اولاد، اگر غریب ہیں اور حاجت مند ہیں۔ تو ان کو زکوٰۃ دینا دوہرا ثواب ہے۔ ایک صلہ رحمی کا دوسرے ادائیگی فرض کا ہاں اپنے اصول یعنی والدین، دادا، دادی، نانا، نانی اور ان سے اوپر والے اور اپنے فروع یعنی اولاد مثلاً بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی اور ان کی اولاد، کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔ یونہی میاں بیوی ایک دوسرے کو عشر زکوٰۃ فطرانہ فدیہ مال کفارہ نہیں دے سکتے۔

سوال : اگر کسی خاتون کے پاس پندرہ سولہ تولے سونا ہے۔ اولاد میں سے اگر کوئی بیمار ہو جائے یا ان کی تعلیم پر زکوٰۃکی رقم خرچ کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
جواب : 1۔ اگر یہ اولاد نابالغ ہے اور نادار ہے اور اس کے والدین مالدار صاحب نصاب ہیں تو اولاد کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں کیونکہ نابالغ اولاد کا نان نفقہ والدین کے ذمہ ہے اور وہ مالدار ہیں۔

2۔ اور اگرکسی کی اولاد بالغ ہے نادار ہے، والدین صاحب نصاب ہیں تو اس اولاد کو مال زکوٰۃ دیا جاسکتا ہے۔

3۔ اپنی اولاد بیمار ہو یا تندرست، چھوٹی ہو یا بڑی اس کو زکوٰۃ وغیرہ دینا جائز نہیں۔

4۔ جی نہیں۔ والدین، اولاد یا میاں بیوی، ایک دوسرے کو زکوٰۃ وعشر فطرانہ، فدیہ کفارہ کی رقم یا جنس نہیں دے سکتے۔ والدین میں ماں، باپ، دادی، دادا، اوپر تک۔ نانا، نانی اوپر تک۔ اولاد۔ میں بیٹا، بیٹی۔ اور ان کی اولاد نیچے تک سب شامل ہیں۔ باقی رشتہ داروں کو دے سکتے ہیں۔ بلکہ غریب عزیزوں۔ رشتہ داروں کوصدقہ، خیرات، زکوٰۃ وغیرہ دینا بہ نسبت دوسرے غرباء کے، افضل ہے کہ فرض بھی ادا ہوجاتا ہے اور صلہ رہمی بھی۔

سوال : میری سالی ہے جس کے پاس پندرہ سولہ تولے سونا ہے تو کیا اس کی اولاد پر اگر وہ غریب ہو تو ان کو زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے یا نہیں۔ اور میری سالی کی ایکسیڈنٹ میں ٹانگ ٹوٹ گئی ہے کیا زکوٰۃ کے پیسوں سے میں ان کی مدد کرسکتا ہوں؟
جواب : 1۔ جو مرد یا عورت رہنے کیلئے مکان، پہننے کیلئے لباس برتنے کیلئے برتن، فرنیچر، سفر کیلئے سواری۔ بیماری کے لئے علاج، اہل وعیال کے لئے کھانا پینا تعلیم، نلکا، بجلی کے اخراجات نکال کر صاحب نصاب ہے۔ عاقل وبالغ ہے مال پر سال گزر گیا ہے تو اس مال پر ڈھائی فیصد زکوٰۃ فرض ہے۔ اور جس شخص پر زکوٰۃ فرض ہے زکوٰۃ لینے کا مستحق کیسے ہوسکتا ہے؟ رہی یہ بات کہ دیہاتی لوگ اس سونے کو بچیوں کی یا بچوں کی امانت سمجھتے ہیں۔ اس سے زکوٰۃ دینے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

2۔ بہن، بھائی، ماموں، چچا، سالی، سانڈو یعنی برادران لاء۔ وغیرہ یا ان کی اولاد جو بھی غریب ہے ضرورت مند ہے آپ اس پر زکوٰۃ کا مال خرچ کر سکتے ہیں۔

3۔ سالی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا اس کی ٹانگ ٹوٹ چکی ہے وغیرہ وغیرہ آپ زکوٰۃ فنڈ سے سالی، سالہ وغیرہ کی مدد کرسکتے ہیں بلکہ آپ ضرورایسا کریں۔ چونکہ اس کے پاس 15۔ 16 تولہ سونا موجود ہے لہٰذاوہ زکوٰۃ فنڈ سے اعانت نہیں لے سکتی لیکن اگر اس کا خاوند یا اولاد ہے اور یہ مستحقین زکوٰۃ ہیں تو وہ زکوٰۃ لے سکتے ہیں۔ کیونکہ سالی کا سونا اسی کا ہے۔ اس کی اولاد یا خاوندکا نہیں لہٰذا وہ اگر ضرورت مند ہیں اور صاحب نصاب نہیں تو آپ ان کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔ آپ سالی کی جو بھی مدد کرنا چاہیں وہ بجائے اسے دینے کے لئے اس طرح دیدیں۔ امید ہے کہ آپ کے تمام سوالات کے جواب ہوگئے ہیں۔

سوال : کیا زکوٰۃ، فطرانہ یا قربانی کی کھالوں کی رقم مدرسہ کے کتب خانہ یالائبریری جو عام مسلمانوں کے لئے بنائی جائے پرخرچ کرنا جائز ہے؟
جواب : زکوٰۃ کی ادائیگی کیلئے تملیک شرط ہے۔ یعنی کسی مستحق کو مالک بنانا۔ حکومت اگر مستحقین میں تقسیم کرنے کے لئے زکوٰۃ وصول کرے تو اسے دینا جائز ہے۔ جیسا کہ ابتدائے اسلام میں ہوتاتھا کہ زکوٰۃ، عشر اور فطرانہ حکومت اسلامی خود وصول کرکے مستحقین کی کفالت کرتی تھی۔ یہی بہتر اسلامی طریقہ ہے۔ آج کل حکومت زکوٰۃ تو لیتی ہے مگر وہ ذمہ داریاں پوری نہیں کرتی، جو اس کے ساتھ عائد ہوتی ہیں۔ بہرحال زکوٰۃوفطرانہ کے مستحق غرباء ومساکین، مسافر بیوگان اوریتا میٰ ہیں۔ ان کو ترجیح دیں۔ باقی گنجائش ہوتو لائبریری و مدرسہ پر بھی یہ رقم خرچ کی جاسکتی ہے۔

سوال : کیا زکوٰۃ کی رقم فلاح عامہ کے کاموں پر خرچ کی جاسکتی ہے؟
جواب : رفاہی اداروں کیلئے زکوٰۃ خرچ کی جاسکتی ہے مثلاً محتاج گھر، یتیم خانے، دینی مدارس، سکولز، کالجز، جامعات، فنی ٹریننگ کے سینٹرز، دیگر تعلیمی ادارے، ہسپتال میں غریب مریضوں کی علاج وخوراک پریہ سب رفاہی ادارے ہیں۔ البتہ سڑکوں کی تعمیر، نالیوں کی مرمت وغیرہ پر خرچ نہیں کی جاسکتی۔ زکوٰۃ کے علاوہ بھی ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں، باقی کام ان سے کریں۔

سوال : میری ایک بھتیجی ہے جس کا والد فوت ہوگیا ہے۔ کیا میں اپنی زکوٰۃ کی رقم سے اس کی مالی مدد کرسکتا ہوں۔ یا اس کے نام بینک میں جمع کرواسکتا ہوں تاکہ جب اس کی شادی کا مرحلہ آئے تو وہ تمام رقم اس کی والدہ کو یا اس رقم سے سامان خرید کر اس کو دے دیا جائے؟
جواب : آپ زکوٰۃ یا دیگر صدقات، جو بھی دیں آپ کے بہن، بھائی یا ان کی غریب ومستحق اولاد اس کی زیادہ حقدار ہے۔ لہٰذا آپ بلا شبہ اپنی بھتیجی کی ضروریات پر مال زکوٰۃ صرف کر سکتے ہیں۔

سوال : جیل خانہ جات میں مختلف جرائم میں سزا پانے والے قیدیوں کو جیل کی سزا کے علاوہ جرمانہ بھی ہوتا ہے۔ جس کی عدم ادائیگی کی صورت میں ان کو اصل سزا قید کے علاوہ مزید قید کا ٹنی پڑتی ہے۔ عموماً نہایت غریب، نادار اور مفلس خاندانوں کے افراد جرمانہ ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے اصل قید کے بعد مقید ہی رہتے ہیں اس سلسلے میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے رائے طلب کی ہے کہ کیا ایسے لوگوں کو زکوٰۃ یا بیت المال سے رقم دے کر قید سے رہائی دلوائی جاسکتی ہے۔
جواب : اگر قیدی صاحب حیثیت ہے، جیسے بڑے بڑے مالدار، سرمایہ دار، جاگیردار، تاجر یا ملازم، وہ تو جرمانہ اپنے گھر سے دیدیتے ہیں اور جان چھڑا لیتے ہیں، مگر غریب ونادار قیدی جرمانہ ادا نہیں کرسکتے اور مزید عرصہ قید بھگتتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو مال زکوٰۃ دیکر آزاد کیا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ فقیر، مسکین اور فی الرقاب، تینوں مصارف میں شامل ہیں۔ گوفی الرقاب نزول قرآن کے وقت لونڈی غلام کے معنوں میں استعمال ہو مگر آج کے دور میں مفلس اسیروں کو بھی اس عام صنف میں شامل کرلیا جائے تو میرے نزدیک اس کی گنجائش موجود ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ بیت المال یا زکوٰۃ فنڈ سے نادار غریب لاوارث قسم کے قیدی اگر جرمانہ اداکرکے رہائی پاسکتے ہیں تو ان کو زکوٰۃ یا بیت المال سے جرمانہ کی رقم دے کر رہائی دلائی جاسکتی ہے ۔

اہلِ اسلام سے گذارش ہے کہ ادارہ پیغامُ القرآن پاکستان کے زیرِ انتظام دین کی نشر و اشاعت کرنے ، دینی تعلیم عام کرنے خصوصاً دور دراز دیہاتوں کے غریب بچوں کو مفت دینی و عصری تعلیم دینے ، ادارہ کےلیے جگہ کی خریداری و تعمیر ۔ دین کی نشر و اشاعت ، دینی کتب تفاسیر قرآن ، کتبِ احادیث عربی اردو کی شروحات ، دیگر اسلامی کتب ،  کی خریداری کے سلسلہ میں تعاون فرمائیں جزاکم اللہ خیراً کثیرا آمین ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : بڑا بیٹے محمد جواد کا اکاؤنٹ نمبر : 02520107640866 میزان بینک چوھنگ لاہور پاکستان ، موبی کیش اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : ⏬
03009576666
03215555970
(دعا گو ڈاکٹر مفتی فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...