Tuesday, 26 March 2024

داڑھی منڈے شخص کے اذان اور اقامت پڑھنے کا شرعی حکم

داڑھی منڈے شخص کے اذان اور اقامت پڑھنے کا شرعی حکم
محترم قارئینِ کرام : داڑھی منڈانے والا فاسق ہے درمختار جلد پنجم صفحہ 261 میں ہے : یحرم علی الرجل قطع لحیته ۔ داڑھی منڈانے والے کی اذان مکروہ ہے اس لیے کہ وہ فاسق ہے اور درمختار مع شامی جلد اول صفحہ 289 میں ہے : یکرہ اذان فاسق اھ ۔ اور حضرت صدر الشریعہ مفتی امجد علی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : خنثیٰ و فاسق اگرچہ عالم ہی ہو اور نشہ والے اور پاگل اور نا سمجھ بچے اور جنب کی اذان مکروہ ہے ۔ ان سب کی اذان کا اعادہ کیا جائے ۔ (بہار شریعت حصہ سوم صفحہ 31)۔(فتاوی فقیہ ملت جلد اول صفحہ 86 باب الاذان والاقامۃ مطبوعہ شبیر برادرز اردو بازار لاہور)

(1) داڑھی منڈا فاسق ہے ۔ (2) داڑھی منڈا اذان دے تو دہرائی جائے ۔ در مختار میں ہے : ويكره أذان الفاسق ۔ (ابن عابدين الدر المختار وحاشية ابن عابدين رد المحتار جلد ١ صفحہ ٣٩٢ دار الفكر بيروت)

(3) حدیث شریف میں ہے : قُصُّوا الشَّوارِبَ، وأَعْفوا اللّحى ۔ (أخرجه أحمد رقم الحديث : ٧١٣٢،بخاري و مسلم)

یہ حدیث میں مشکاۃ شریف میں بخاری و مسلم دونوں حوالوں سے مذکور ہے ۔

فاسق معلن کو مؤذن مقرر نہیں کرنا چاہیے ہاں اگر کبھی اتفاقاً وہ اذان یا اقامت کہہ دی تو اذان و اقامت ہو جائے گی مگر اذان کا اعادہ کر لینا بہتر ہے فتاوی رضویہ میں ہے : ولھذا مندوب ہے کہ اگر فاسق نے اذان دی ہو تو اس پر قناعت نہ کریں بلکہ دوبارہ مسلمان متقی پھر اذان دے ۔ (فتاوی رضویہ جلد 2 صفحہ 388،چشتی)

یہ حکم تب ہے جبکہ کسی طرح کے فتنہ کا اندیشہ نہ ہو مثلاً کسی اثر و رسوخ والے فاسق نے اذان دے دی اور اگر اعادہ کیا گیا تو فتنہ کردے گا ایسی صورت میں اعادہ کی ضرورت نہیں ۔

ایک اہم وضاحت : رمضان المبارک میں جن جگہوں پر اذان سحر و افطار کا اعلان ہوتی ہے اور لوگ اسی پر اعتماد کرتے ہیں وہاں فاسقِ معلن کو دینا جائز نہیں اور اگر دے دے تو اس پر اعتماد کر کے سحر و افطار درست نہیں  ردالمحتار میں ہے : المقصود الاصلی من الاذان فی الشرع الاعلام بدخول اوقات الصلوۃ ثم صار من شعار الاسلام فی کل بلدۃ او ناحیۃ من البلاد الواسعۃ فمن حیث الاعلام بدخول الوقت وقبول قولہ لابد من الاسلام والعقل والبلوغ والعدالۃ فاذا اتصف المؤذن بھذہ الصفات یصح اذانہ والافلا یصح من حیث الاعتماد علیہ ۔ (ردالمحتار المجلد الاول باب الاذان)

حاصل یہ کہ داڑھی منڈا اگر اذان یا اقامت کہہ دے تو ہو جائے گی مگر اذان کا اعادہ کر لینا بہتر ہے جبکہ فتنہ کا اندیشہ نہ ہو اور اقامت کا اعادہ نہیں ۔

جامعہ علوم اسلامیہ دیوبندی مکتبہ فکر بنوری ٹاؤن کراچی کا فتویٰ : ⏬

داڑھی منڈے شخص کا اذان دینا
سوال
کیا کوئی شخص ایسا جو ڈاڑھی نہ رکھتا ہو اذان دے سکتا ہے؟ اور کیا اس کی اذان معتبر ہو گی؟

جواب : داڑھی منڈوانے یا ایک مشت سے کم کروانے والا فاسق ہے اور فاسق کا ذان دینا مکروہِ تحریمی ہے،  لہذا داڑھی والے لوگوں کی موجودگی میں یہ شخص اذان و اقامت نہ کہے۔ نیز اذان ایک اہم عبادت کی طرف دعوت ہے،  اس کے لیے  اگر باشرع مؤذن مقرر ہے تو اسی سے اذان دلوانی چاہیے۔ البتہ ایسے شخص کی جانب سے جو اذانیں دی گئی ہیں، ان کا  اعادہ واجب نہیں۔

"عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: لیؤذن لکم خیارکم، ولیؤمکم قراؤکم."(سنن أبي داؤد، باب من أحق بالإمامة، النسخة الهندیة ۱/ ۸۷، دارالسلام، رقم: ۵۹۰)

البحرالرائق میں ہے :"و ذكر الشارح أن إعادة أذان المرأة والسكران مستحبة فصار الحاصل على هذا أن العدالة والذكورة والطهارة صفات كمال للمؤذن لا شرائط صحة فأذان الفاسق والمرأة والجنب صحيح حتى يستحق المؤذن معلوم وظيفة الأذان المقررة في الوقف ويصح تقرير الفاسق فيها وفي صحة تقرير المرأة في الوظيفة تردد لكن ذكر في السراج الوهاج إذا لم يعيدوا أذان المرأة فكأنهم صلوا بغير أذان فلهذا كان عليهم الإعادة وهو يقتضي عدم صحته وينبغي أن لايصح أذان الفاسقبالنسبة إلى قبول خبره والاعتماد عليه لما قدمناه من أنه لايقبل قوله في الأمور الدينية كما صرح به الشارح، وأما العقل فينبغي أن يكون شرط صحة فلايصحّ أذان الصبي الذي لا يعقل والمجنون والمعتوه أصلًا." (البحرالرائق 3/41،چشتی)

فتاوی ہندیہ میں ہے:’’و ینبغی أن یکون المؤذن رجلاً عاقلاً صالحاً تقیاً عالماً بالسنة. کذافي النهایة.‘‘(الفتاوى الهندية، ۵۳ / ۱) 

’’ویکره أذان الفاسق ولایعاد، هکذافي الذخیرة.‘‘(الفتاوى الهندية، ۵۴ / ۱ )

فتاویٰ شامی میں ہے:’’وحاصله أنه يصحّ أذان الفاسق وإن لم يحصل به الإعلام أي الاعتماد على قبول قوله: في دخول الوقت بخلاف الكافر وغير العاقل فلايصحّ أصلًا‘‘. (1/393) ۔ فقط والله أعلم

فتوی نمبر : 144110201214 ۔ دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن ۔

جامعہ علوم اسلامیہ دیوبندی مکتبہ فکر بنوری ٹاؤن کراچی کا دوسرا فتویٰ : ⏬

بغیر داڑھی والے شخص کی اذان کا حکم
سوال
کیا مؤذن کے لیے داڑھی شرط ہے؟  مجھے ایک مرتبہ داڑھی کے نہ ہونے سے اذان سے منع کیا جاچکا ہے  حال آں کہ میری آواز  خوبصورت اور  اونچی ہے، میں آپ کے ساتھ شیئر بھی کرسکتا ہوں!

جواب : اگر کسی عاقل بالغ مرد کی قدرتی طور پر داڑھی ایک مشت سے کم ہو یا بالکل اُگی ہی نہ ہو اور وہ داڑھی کترواتا یا منڈواتا نہ ہو تو ایسا شخص اذان و اقامت کہہ سکتا ہے بشرطیکہ وہ اذان و اقامت کے الفاظ کی درست ادائیگی اور اوقات کا خیال رکھتا ہو، اور لوگوں کا اسے بغیر کسی شرعی وجہ کے اذان و اقامت سے منع کرنا درست نہیں ہے۔ البتہ اگر کسی جگہ مؤذن مقرر ہو تو اجازت کے بغیر دوسروں کا اذان دینے پر اصرار کرنا انتظامی اعتبار سے درست نہیں ہے ۔ نیز مؤذن ایسے شخص کو بنانا چاہیے جو نیک اور متقی ہو اور اذان کے مسائل اور سنن وغیرہ سے واقف ہو۔

اور اگر کوئی شخص داڑھی منڈواتا ہو یا کتروا کر ایک مشت سے کم کرتا ہو، وہ فاسق اور گناہ گار ہے، اور فاسق کا اذان و اقامت کہنا مکروہِ تحریمی ہے۔ اور لوگوں کا ایسے شخص کو اذان دینے سے منع کرنا شرعاً بالکل درست ہے، البتہ منع کرنے میں نرمی اور حکمت کا برتاؤ اختیار کرنا چاہیے، مثلاً اذان کی فضیلت و اہمیت اور عبادت کے آداب و شرائط اور داڑھی رکھنے کا وجوب اور اہمیت وغیرہ بتا کر اسے قائل کیا جائے تاکہ وہ داڑھی منڈانے کے گناہ سے توبہ تائب ہوجائے۔

نیز  داڑھی والوں کی موجودگی میں فاسق شخص کو اذان و اقامت نہیں کہنا چاہیے، البتہ اگر داڑھی منڈے نے اذان یا اقامت دے دی تو اس کو دوبارہ لوٹانا واجب نہیں۔

داڑھی کی شرعی حیثیت سے متعلق مزید تفصیل کے لیے درج ذیل فتویٰ ملاحظہ کر سکتے ہیں : ⏬

ڈاڑھی کی شرعی حیثیت اور ڈاڑھی نہ رکھنے کا گناہ

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (ج:1، ص:150، ط:دار الكتب العلمية):’’و منها ـ أي من صفات المؤذن ـ أن يكون تقياً؛ لقول النبي صلى الله عليه وسلم : «الإمام ضامن، و المؤذن مؤتمن» ، و الأمانة لا يؤديها إلا التقي. (ومنها) : أن يكون عالما بالسنة لقوله - صلى الله عليه وسلم -:: «يؤمكم أقرؤكم، و يؤذن لكم خياركم» ، و خيار الناس العلماء.‘‘

الفتاوى الهندية (ج:1، ص:53، ط:دار الفكر):’’و ینبغي أن یكون المؤذن رجلاً عاقلاً صالحاً تقیاً عالماً بالسنة، کذافي النهایة. ‘‘

و فيه أيضا(ج:1، ص:54):’’و یکره أذان الفاسق و لا یعاد، هکذافي الذخیرة. ‘‘

فقط و الله اعلم ۔ فتوی نمبر : 144206201305 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن ۔

داڑھی منڈانے والا یا کٹا کر ایک مشت سے کم رکھنے والااذان و اقامت نہیں کہہ سکتا کیوں کہ ایک مشت سے کم داڑھی رکھنا حرام و گناہ ہے ۔ در مختار میں ہے : یحرم علی الرجل قطع لحیته ۔ اھ ۔ (در مختار جلد ۵ صفحہ ۲۶۱)

داڑھی حد مقرر شرع سے کم نہ کرنا واجب اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور انبیا ئے کرام علیہم السلام کی سنت دائمی اور اہل اسلام کے شعائر سے ہے اور اس کا خلاف ممنوع و حرام اور کفار کا شعار ۔اھ ۔ ( فتاوی رضویہ جلد ۲۲ صفحہ ۵۷۱) 

اسی میں ایک دوسرے مقام پر ہے : داڑھی کم از کم چار انگل چھوڑنا واجب ہے. اور اس سے کم رکھنا جائز نہیں حرام ہونے میں یہ بھی منڈانے کے مثل ہے اگر چہ منڈانا خبیث تر ہے۔اھ ( فتاوی رضویہ جلد ۲۲ صفحہ ۶۸۹،چشتی)

داڑھی بڑھانا سنن انبیاے سابقین سے ہے ۔ منڈانا یا ایک مشت سے کم کرنا حرام ہے ۔ اھ ۔ (بہار شریعت حصّہ ۱۶ صفحہ ۵۸۵)

اور حرام کا ارتکاب کرنے والاشرعاً فاسق معلن ہے اور فاسق معلن اگر چہ عالم ہی کیوں نہ ہو اس کی اذان و اقامت مکروہ ہے اگر کہہ دے تو اس کی اذان کو استحباباً دہرایا جاے گا ۔ درمختار میں ہے : یکرہ اذان فاسق ولو عالما ۔ اھ ۔ (درمختار جلد ۲ صفحہ ۷۵)

ردالمحتار میں ہے : یعاد أذان الکل ندبا علی الأصح کما قدمناہ عن القہستانی ۔  اھ ۔ (ردالمحتار جلد ۲ صفحہ ۷۷)

بحر الرائق میں ہے : وصرحوابکراھة أذان الفاسق من غیر تقیید بکونه عالما أو غیرہ ۔ اھ ۔ (بحر الرائق جلد ۱ صفحہ ۲۶۸)

فاسق کی اذان اگرچہ اِقامت شعار کا کام دے مگر اعلام کہ اس کا بڑا کام ہے اس سے حاصل نہیں ہوتا نہ فاسق کی اذان پر وقت روزہ و نماز اعتماد جائز لہٰذا مندوب ہے کہ اگر فاسق نے اذان دی ہو تو اس پر قناعت نہ کریں بلکہ دوبارہ مسلمان متقی پھر اذان دے ۔ اھ ۔ (فتاوی رضویہ جلد ۵ صفحہ ۳۷۷)

داڑھی منڈانے والا فاسق ہے اور فاسق کی اذان مکروہ ۔ اھ ۔ (فتاوی امجدیہ جلد ۱ صفحہ ۵۲) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر مفتی فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...