Wednesday 20 March 2024

جمعۃ الوداع پر قضائے عمری اور قضا نمازوں کا شرعی حکم

0 comments

جمعۃ الوداع پر قضائے عمری اور قضا نمازوں کا شرعی حکم

محترم قارئینِ کرام : فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی کو بہت سے احباب کی طرف سے واٹسپ پر ایک میسج بھیجا گیا جس میں لکھا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس سے اتنی زیادہ نمازیں قضا ہو گئی ہوں کہ ان کی تعداد معلوم کرنا بہت مشکل ہو یا پھر معلوم کرنا ممکن نہ ہو تو جمعۃ الوداع کے دن چار رکعت نماز اس طرح ادا کرے کہ ہر رکعت میں سات مرتبہ  آیت الکرسی اور اس کے بعد پندرہ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے تو ان شاء اللہ  تمام عمر کی قضا نمازوں  کا کفارہ ہو جائے گا ، اگرچہ سات سو سال کی بھی نمازیں قضا ہیں تب بھی  اس کےلیے یہ چار رکعت نماز کفارے کےلیے کافی ہے ۔

جواباً عرض ہے کہ : اس طریقے سے چار رکعات نماز پڑھنے سے قضا نمازیں ادا نہیں ہوتیں ، بلکہ زندگی میں قضا نمازوں سے بری الذمہ ہونے  کےلیے ان کی ادائیگی کے علاوہ کوئی صورت نہیں ، خدانخواستہ زندگی میں ادا نہ کر سکے تو مرنے سے پہلے ایک تہائی ترکے میں سے نمازوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت کر جائے ۔ جمعۃ الوداع میں قضا عمری کے طور پر چند رکعات ادا کر کے یہ سمجھنا کہ سابقہ تمام قضا شدہ نمازیں ادا ہو جاتی ہیں ، باطل محض ہے ۔ اس پر جو روایت پیش کی جاتی ہے ، موضوع یعنی من گھڑت ہے ۔ قضا نمازیں ادا کرنے کا یہ طریقۂِ کار حدیثِ مبارک کے خلاف اور بد ترین بدعت ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص نماز بھول گیا ، تو جب یاد آئے ، ادا کر لے ۔ ادائیگی کے سوا اس کا کوئی کفارہ نہیں ۔ یونہی یہ طریقہ اجماع کے بھی خلاف ہے ۔

نبی کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : من نسی صلوٰۃ فلیصلہا اذا ذکرھا لا کفارۃ لھا الا ذلک ۔
ترجمہ : جو شخص نماز بھول گیا تو جب اسے یاد آئے ادا کر لے ، اس کا کفارہ سوائے اس کی ادائیگی کے کچھ نہیں ۔ (صحیح مسلم صفحہ ۳۴۶ حدیث نمبر ۶۸۴،چشتی) ۔ یہ حدیث شریف اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قضا نمازیں کسی شارٹ کٹ سے ادا نہیں ہوں گی بلکہ انہیں پڑھنا ہی ہو گا ۔

اس طرح کی کوٸی  روایت ثابت نہیں ہے ، ان الفاظ کے قریب ایک روایت کا تذکرہ ایک من گھڑت روایت میں ملتا ہے ، محدثین علیہم الرحمہ نے ایسی روایات کو رد کیا ہے ۔ لہٰذا اسے بطورِ روایت بیان کرنا اور اس پر عمل کرنا جائز نہیں ہے روایت یہ ہے : ⏬

امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں : حدیث من قضی صلاة من الفرائض في آخر جمعة من رمضان کان ذلك جابراً لکل صلاة فائتة في عمره إلی سبعین سنةً" باطل قطعاً؛ لأنه مناقض للإجماع علی أن شیئًا من العبادات لاتقوم مقام فائتة سنوات ۔ (الأسرار المرفوعة فی الاخبار الموضوعة حدیث ۹۵۳ مطبوعة دارالکتب العربیة بیروت صفحہ ۲۴۲)
ترجمہ : حدیث جس نے رمضان کے آخری جمعہ میں ایک فرض نماز ادا کرلی اس سے اس کی ستر سال کی فوت شدہ نمازوں کا ازالہ ہو جاتا ہے ۔ یقینی طور پر باطل ہے ۔ کیوں کہ اس اجماع کے مخالف ہے کہ عبادات میں سے کوئی  شٸی سابقہ سالوں کی فوت شدہ عبادات کے قائم مقام نہیں ہو سکتی ۔

امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں : حدیث من قضیٰ صلٰوۃ من الفرائض فی آخر جمعۃ من رمضان کان جابرًا لکل صلٰوۃٍ فائتۃٍ فی عمرہٖ الٰی سبعین سنۃً باطل قطعًا لانہٗ مناقضِ للاجماع علٰی ان شیئًا من العبادات لایقوم مقام فائتۃٍ سنواتٍ اھ ۔ (الموضوعات الکبیر صفحہ 356 مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ،چشتی)
ترجمہ : حدیث جو شخص رمضان کے آخری جمعے میں ایک فرض نماز قضاء پڑھ لے تو ستر سال تک اس کی عمر میں جتنی نمازیں چھوٹی ہوں ، ان سب کی تلافی ہو جاتی ہے ۔ یہ روایت قطعی طور پر باطل ہے ، اس لیے کہ یہ حدیث اجماع کے خلاف ہے ، اجماع اس پر ہے کہ کوئی بھی عبادت سالہا سال کی چھوٹی ہوئی نمازوں کے قائم مقام نہیں ہو سکتی ہے ۔

امام ابن حجر اور علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہما فرماتے ہیں : اقبح من ذلک مااعتید فی بعض البلاد من صلوٰۃ الخمس فی ھذہ الجمعۃ عقب صلٰوتھا زاعمین انھا تکفر صلٰوۃ العام اوالعمر المتروکۃ و ذلک حرام لوجوہ لا تخفی ۔
ترجمہ :اس سے بھی بدتر وہ طریقہ ہے جو بعض شہروں میں ایجاد کر لیا گیا ہے کہ جمعۃ الوداع کے دن نمازِ جمعہ کے بعد پانچ نمازیں اس گمان سے ادا کی جائیں کہ اس سے ایک سال یا گذشتہ تمام عمر کی نمازوں کا کفارہ ہے اور یہ عمل ایسی وجوہ کی بنا پر حرام ہے جو نہایت ہی واضح ہیں ۔( شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ جلد ۹ صفحہ ۴۶۴)

امام اہلسنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ اس طرح نماز پڑھنے کے متعلق ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں : فوت شدہ نمازوں کے کفارہ کے طور پر یہ جو (قضائے عمری کا) طریقہ ایجاد کرلیا گیا ہے یہ بد ترین بدعت ہے اس بارے میں جو روایت ہے وہ موضوع (من گھڑت) ہے یہ عمل سخت ممنوع ہے ، ایسی نیت و اعتقاد باطل و مردود ، اس جہالتِ قبیحہ اور واضح گمراہی کے بطلان پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 8 صفحہ 155 رضا فاؤنڈیشن لاہور،چشتی)

امام اہلسنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : نماز قضائے عمری کہ آخرجمعہ ماہِ مبارک رمضان میں اس کاپڑھنا اختراع کیا (گھڑا) گیا اور اس میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس نماز سے عمر بھر کی اپنی اور ماں باپ کی بھی قضائیں اُتر جاتی ہیں محض باطل و بدعت سیئہ شنیعہ (انتہائی بُری بدعت) ہے کسی کتاب معتبر میں اصلاً اس کانشان نہیں ۔ (فتاوی رضویہ جلد ۷ صفحہ ۴۱۷)

قاضی شوکانی فرماتے ہیں : حديث : من صلى في آخر جمعة من رمضان الخمس الصلوات المفروضة في اليوم والليلة قضت عنه ما أخل به من صلاة سنته ۔ هذا : موضوع لا إشكال فيه ۔ (الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ صفحہ 54 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ)
ترجمہ : یہ حدیث کہ " جو شخص رمضان کے آخری جمعے میں دن رات کی پانچ فرض نمازیں پڑھ لے ، ان سے اس کے سال بھر کی جتنی نمازوں میں خلل رہا ہو ، ان سب کی قضا ہو جاتی ہے" کسی شک کے بغیر موضوع ہے ۔

حضرت صدرالشریعہ مفتی امجد علی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : قضائے عمری کہ شبِ قدر یا اخیر جمعہ رمضان میں جماعت سے پڑھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ عمر بھر کی قضائیں اسی ایک نماز سے ادا ہو گئیں ، یہ باطل محض ہے ۔ (بہارشریعت جلد 4 صفحہ 708 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

محترم قارئینِ کرام : آپ نے شارٹ کٹ کا لفظ نہ صرف سنا ہو گا بلکہ بارہا اس کا مشاہدہ بھی کیا ہو گا ۔ شارٹ کٹ اگر علم و عقل اور دین کی خلاف ورزی سے بچتے ہوئے اپنایا جائے تو مفید ہے ورنہ اس کے نقصانات بہت زیادہ ہیں ۔ جیسے پڑھائی چور شارٹ کٹ کے ذریعے جعلی ڈگری لے کر اپنے ساتھ ساتھ ملک و قوم کا بھی بیڑا غرق کرتا ہے اور یوٹرن کے بجائے” شارٹ کٹ“ کے سہارے اپنی موٹر سائیکل فٹ پاتھ کے اوپر سے پار کرنے والا اپنے ساتھ دوسروں کی زندگی بھی داؤ پر لگا دیتا ہے ۔ دورِ حاضر میں ناعاقبت اندیش مسلمان دین میں بھی شارٹ کٹ ڈھونڈتے رہتے ہیں اور بہت سے وقت طلب دینی معاملات کو مختصر وقت میں انجام دینا چاہتے ہیں جیسے تین بار سورۂ اخلاص پڑھی اور مرحوم کے ایصالِ ثواب کےلیے ایک قرآن پاک لکھوا دیا اور لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ موصوف نے اول تا آخر مکمل قرآن پاک پڑھا ہے حالانکہ حدیث شریف تو یہ اہمیت بتانے کےلیے تھی کہ جب تین بار سورۂ اخلاص کی تلاوت پر اتنا ثواب ہے تو غور کرو  پورا قرآن کریم پڑھنے پر کتنا ثواب ہو گا ۔ یونہی ماہِ رمضان شریف میں عبادت سے جی چرانے والے مرد حضرات وہ مسجد تلاش کرتے نظر آئیں گے جہاں بیس (20) منٹ والی تراویح ہوتی ہے (ایک جگہ تو سولہ (16) منٹ کا بھی ریکارڈ ہے ، (لاحول ولاقوۃ الاباللہ تعالی) اور اگر تھوڑی ہمت کربھی لیں تو ایسے حافظ صاحب کا انتخاب کرتے ہیں جو جلد فارغ کر دے ۔ یہی حال قضائے عمری کا بھی ہے کہ بعض نادان ماہِ رمضان کے آخری جمعے (جمعۃ الوداع) کو مخصوص طریقے پر نماز پڑھ کر سمجھتے ہیں کہ ہم سے قضائے عمری کا بوجھ اتر گیا ۔ یہ ایک خود ساختہ دینی شارٹ کٹ ہے مگر یہ سمجھنا کہ اس کے بعد قضائے عمری پڑھنے کی کوئی حاجت نہیں سراسر جہالت اور احکامِ شریعت سے روگردانی ہے ۔ علم و آگہی کے باوجود ہمارے ہاں بعض علاقوں میں باجماعت یہ نماز پڑھائی جاتی ہے ۔ بقول شخصے ایک جگہ تو کوئی”اہم شخصیت‘‘ بھی یہ فریضہ انجام دیتی ہے ۔ والی اللہ المشتکیٰ ۔ جبکہ علماء کرام اور محدثین عظام نے اس عمل کو جہالت قبیحہ ، واضح گمراہی ، سخت ممنوع ، بدترین بدعت اور نہ جانے کیا کیا کہا ہے ۔

البتہ بعض علمائے متاخرین نے جمعۃ الوداع میں نوافل کا ایک طریقہ لکھا ہے مگر وہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ : ان نوافل کی برکت سے صرف ’’قضاکا گناہ‘‘ معاف ہونے کی امید ہے اور ایسا ہرگز نہیں ہے کہ اس سے قضا نمازیں معاف ہو جائیں گی کیونکہ قضا نمازیں صرف اور صرف پڑھنے ہی سے ادا ہوتی ہیں ۔ جیسا کہ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جمعۃ الواداع میں نماز قضا عمری پڑھے ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جمعۃ الوداع کے دن ظہر وعصر کے درمیان بار ہ رکعت نفل دو دو رکعت کی نیت سے پڑھے اور ہررکعت میں سورہ فاتحہ کے بعدا یک بار آیت الکرسی اور تین بار ”قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ“ اور ایک ایک بار فلق اور ناس پڑھے ۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ جس قد ر نمازیں اس نے قضا کر کے پڑھی ہوں گی ۔ ان کے قضا کرنے کا گناہ  ان شاء اللہ معاف ہو جائے گا ۔ یہ نہیں کہ قضا نمازیں اس سے معاف ہو جائیں گی وہ تو پڑھنے سے ہی ادا ہوں گی ۔(اسلامی زندگی صفحہ ۱۰۵)

قضا ہر روز کی بیس رکعتیں  ہوتی ہیں ۔ دو فرض فجر کے ، چار ظہر ، چار عصر ، تین مغرب ، چار عشاء کے اور تین وتر ۔ نیت اس طرح کیجیے ، مثلاً : سب سے پہلی فجر جو مجھ سے قضا ہوئی اور ابھی  تک اس کو ادا نہیں کیا ، اُس کو ادا کرتا ہوں ۔ ہرنماز میں اسی طرح نیّت کیجیے ۔ جس پر بکثرت قضا نمازیں ہیں وہ آسانی کےلیے اگر یُوں بھی ادا کرے تو جائز ہے کہ ہر رکوع اور ہر سجدے میں تین تین بار ''سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْعَظِیْم'' ''سُبْحٰنَ  رَبِّیَ الْاَعْلٰی'' کی جگہ صرف ایک ایک بار کہے ۔ مگر یہ ہمیشہ اور ہر طرح کی نماز میں  یاد رکھنا چاہیے کہ جب رکُوع میں پورا پہنچ جائے ، اُس وقت سُبحٰن کا ’’سین‘‘ شُروع کرے اور جب عظیم کا ’’میم‘‘ ختم کر چکے ، اُس وقت رُکوع سے سر اٹھائے ۔ اِسی طرح سَجدے میں بھی کرے ۔ ایک تَخفیف (یعنی کمی) تو یہ ہوئی اور دوسری یہ کہ فرضوں کی تیسری اور چوتھی رَکْعَت میں اَلحَمْد شریف کی جگہ فَقَط ’’سُبْحٰنَ اللہِ‘ ‘تین بار کہہ کر رُکوع کر لے ۔ مگر وِتر کی تینوں رکعَتوں میں اَلحَمْد شریف اور سُورت دونوں ضَرور پڑھی جائیں ۔ تیسری تخفیف (یعنی کمی) یہ کہ قعدۂ اَخیرہ میں  تَشَھُّد یعنی اَلتَّحِیّات کے بعد دونوں دُرُودوں اور دعا کی جگہ صرف ’’اللہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ‘‘ کہہ کر سلام پھیر دے ۔ چوتھی تخفیف (یعنی کمی) یہ کہ وتر کی تیسری رکعت میں دعائے قُنُوت کی جگہ اللہُ اکبر کہہ کر فَقَط ایک بار یا تین بار ’’رَبِّ اغْفِرْ لِی‘‘ کہے ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 8 صصفحہ 157 - 158)

یاد رہے تخفیف (یعنی کمی) کے اس طریقے کی عادت ہر گز نہ بنائیے ، معمول کی نمازیں سنّت کے مطابق ہی پڑھیے اور ان میں  فرائض و واجبات کے ساتھ ساتھ سنن اور مستحبات و آداب کی بھی رعایت کیجیے ۔ بارگاہِ الہٰی میں دعا ہے کہ وہ ہمیں حق وسچ کو سمجھنے اور اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دین میں ایسے ’’شارٹ کٹس‘‘ سے ہماری حفاظت فرمائے جو ہمیں جنت و رحمت کے بجائے جہنم و لعنت کا راستہ دکھائیں آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔