Friday, 21 October 2022

مسجد میں اذان دینے کا شرعی حکم

مسجد میں اذان دینے کا شرعی حکم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : اذان دینے کا مقصد یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس کا علم ہو جائے کہ جماعت قائم ہونے والی ہے ، اور ظاہر ہے کہ مسجد کے اندر اذان دینے سے آواز اتنی دور نہیں جاتی جتنی مسجد سے باہر اور اونچی جگہ پر اذان دینے سے ۔ اذان میں اصل مقصود آواز بلند کرنا اور دور تک آواز پہنچانا ہے ۔ لہٰذا جب لاؤڈاسپیکر سے اذان دی جائے اور ہارن مسجد کے اوپر لگے ہوں ، جیساکہ عام معمول ہے ، تو حدودِ مسجد میں مائک رکھ کر اذان دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اور جن بعض فقہی عبارتوں میں مسجد کے اندر اذان دینے کو مکروہ لکھا گیا ہے ، وہ اس صورت میں ہے جب کہ بغیر لاؤڈ اسپیکر کے اذان دی جارہی ہو ، یا ایسی جگہ اذان دی جارہی ہو جس سے آواز دور نہ پہنچے ۔

واعلم أن الأذان لا یکرہ في المسجد مطلقًا کما فہِم بعضہم من بعض العبارات الفقہیۃ وعمومہ ہٰذا الأذان؛ بل مقیدًا بما إذا کان المقصود إعلام ناس غیر حاضرین کما في رد المحتار، وفي السراج: وینبغي للمؤذن أن یؤذن في موضع یکون أسمع للجیران ویرفع صوتہ، ولا یجہد نفسہ؛ لأنہ یتضرر ۔ إلی قولہ ۔ في الجلابي : أنہ یؤذن في المسجد أو ما في حکمہ لا في البعید عنہ ۔ قال الشیخ: قولہ في المسجد صریح في عدم کراہۃ الأذان في داخل المسجد وإنما ہو خلاف الأولی إذا مست الحاجۃ إلی الإعلان البالغ وہو المراد بالکراہۃ المنقولۃ في بعض الکتب فافہم ۔ (إعلاء السنن، أبواب الجمعۃ / باب التأذین عند الخطبۃ ۸؍۸۶-۸۷ دار الکتب العلمیۃ بیروت،چشتی)
قال في الہندیة : وینبغي أن یوٴذن علی المأذنة أو خارج المسجد ولا یوٴذن في المسجد ۔ (الہندیة: جلد 1 صفحہ 55)

معلوم ہوا کہ مسجد میں اذان دینے سے مقصود صرف تبلیغِ صوت ہے ، آج کل عام طور پر لاٶڈ اسپیکر پر اذان ہوتی ہے جس کی وجہ سے مسجد میں اذان دی جائے یا دوسری نیچی جگہ پر رفعِ صوت بہرحال ہو جاتا ہے ۔ اس لیے لاٶڈ اسپیکر پر مسجد میں اذان دینے میں کوئی کراہت معلوم نہیں ہوتی ۔

جمعة المبارک کی اذانِ ثانی میں ایک اصل ہے اور ایک فرع ۔ جہاں تک اصل کا تعلق ہے اس پر تو سب کا اتفاق ہے اور وہ یہ کہ اذان ثانی مطلقاً سنت ہے اور مقصد نماز کی طرف دعوت ہے ۔ اب یہ مسئلہ کہ یہ اذان کہاں دی جائے تو یہ فرع کی حیثیت سے ہے جو حضرات فرماتے ہیں کہ یہ اذان مسجد کے دروازے یا باہر دینی چاہیے تو ان کی دلیل ابوداؤد شریف کی حدیث پاک ہے جس میں یہ مذکور ہے کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوتے تو ان کے سامنے مسجد کے دروازے پر اذان دی جاتی ۔

فقہاء کرام نے فرمایا ہے کہ "بین ہدیہ" کے الفاظ مبہم ہیں کہ اس سے مراد کتنا دور ہونا چاہیے تو اکثر فقہاء کرام کے نزدیک اس سے مراد عندالمنبر کہا گیا ہے ۔

اسی طرح صاحب فتح القدیر نے "شرح ہدایہ" میں یہی مراد لیا ہے کہ منبر کے قریب ہو ۔

"باب المسجد" کے الفاظ حدیث پاک میں مذکور ہیں لیکن اگر کسی مسجد کا دروازہ مشرق کی جانب نہ ہو تو پھر اس پر عمل کس طرح کیا جائے گا ۔ اس لیے اگر خاص دروازہ مراد ہو تو پھر جو الفاظ سامنے پر دلالت کر رہے ہیں اس پر عمل کرنا درست نہ ہوا لہذا اس بات میں کوئی خاص تنازع کی بات نہیں ہے صرف افضلیت کی بات ہے تو عامۃ المسلمین کا عمل یہی ہے ۔ منبر کے سامنے قریب سے اذان دی جاتی ہے جو لوگ باہر اذان دینے کے قائل ہیں تو ان پر اعتراض نہیں ہے دونوں طریقے جائز ہیں ۔

معاذ اللہ اذان کے الفاظ میں کوئی ایک بھی لفظ ایسا نہیں ہے جس کی بنا پر مسجد میں کھڑے ہو کر اذان دینا ناجائز قرار دیا جا سکے ۔ اس لیے مسجد میں اذان دینے کے جواز کے دلائل کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ قرآن و حدیث میں بھی کہیں مسجد میں اذان دینے سے منع نہیں کیا گیا ۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر لاؤڈ اسپیکر ایجاد ہونے تک مسجد سے باہر بلند مقام پر اذان کیوں دی جاتی تھی ؟ اس کو سمجھنے کےلیے اذان دینے کا مقصد سمجھنا ضروری ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ اتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًا ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْقِلُونَ ۔
ترجمہ : اور جب تم نماز کےلیے اذان دو تو اسے ہنسی کھیل بناتے ہیں یہ اس لیے کہ وہ نرے بے عقل لوگ ہیں ۔ (سورہ المائدة ، 5 : 58)

دوسرے مقام پر فرمایا : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ۔
ترجمہ : اے ایمان والو جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو ۔ (سورہ الجمعة ، 62 : 9)

دونوں آیات مبارکہ میں اذان کا مقصد اہل ایمان کو نماز کی طرف بلانا ہے اور حدیث مبارکہ میں بھی یہی مقصد بیان کیا گیا ہے کہ طویل مشاورت کے بعد لوگوں کو نماز کےلیے جمع کرنے کا جو طریقہ اپنایا گیا وہ اذان دینا تھا جیسا کہ حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے : كَانَ المُسْلِمُونَ حِينَ قَدِمُوا المَدِينَةَ يَجْتَمِعُونَ فَيَتَحَيَّنُونَ الصَّلاَةَ لَيْسَ يُنَادَى لَهَا، فَتَكَلَّمُوا يَوْمًا فِي ذَلِكَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ : اتَّخِذُوا نَاقُوسًا مِثْلَ نَاقُوسِ النَّصَارَى، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: بَلْ بُوقًا مِثْلَ قَرْنِ اليَهُودِ، فَقَالَ عُمَرُ: أَوَلاَ تَبْعَثُونَ رَجُلًا يُنَادِي بِالصَّلاَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَا بِلاَلُ قُمْ فَنَادِ بِالصَّلاَةِ ۔
ترجمہ : مسلمان جب مدینہ منورہ میں آئے تو نماز کےلیے اندازے سے جمع ہو جایا کرتے اور اس کےلیے اعلان نہیں ہوتا تھا ۔ ایک روز انہوں نے اس بارے میں گفتگو کی ۔ بعض نے کہا کہ ہم نصاریٰ کی طرح ناقوس بجایا کریں اور بعض نے کہا یہودیوں کی طرح سینگھ بنا لو ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا ہم ایک آدمی کو مقرر نہ کر دیں جو نماز کا اعلان کیا کرے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے بلال ! کھڑے ہو کر نماز کا اعلان کرو ۔ (صحیح صحیح كتاب الأذان باب بدء الأذان ، 1: 219، رقم: 579، بیروت دار ابن کثیر،چشتی)(صحیح مسلم كتاب الصلاة، بدء الآذان، 1: 285، رقم: 377، بیروت : دار احیاء التراث العربي)

اذان کا مقصد لوگوں کو نماز کےلیے بلانے کا ایک احسن انداز ہے ۔ لاؤڈ سپیکر کی ایجاد سے پہلے مسجد سے باہر مینارے پر اذان دینے سے اس بلاوے کو زیادہ لوگوں تک پہنچانا مقصود تھا جو آج لاؤڈ سپیکر کے ذریعے پورا ہو رہا ہے ۔ جن فقہاء کرام علیہم الرحمہ نے صدیوں پہلے مسجد کے اندر اذان دینے کو مکروہ قرار دیا ہے وہ اسی بناء پر کہا ہے کہ مسجد کے اندر اذان دینے سے آواز کم لوگوں تک پہنچے گی جس سے اذان کا مقصد پورا نہیں ہوگا ۔ اس لیے دورِ حاضر میں مسجد کے اندر کھڑے ہو کر اذان دینے میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے کیونکہ اصل مقصد احسن انداز میں پورا ہو رہا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...