خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 27
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
خود اللہ عزوجل ہے مداحِ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ارشادِ ربِّ کریم ہے : وللاٰخرة خیر لك من الاولیٰ ۔ (سورۃ الضحیٰ آیت نمبر 4)
ترجمہ : اور بے شک بعد والی ساعت آپ کے لیے پہلی ساعت سے بہتر ہے ۔
یعنی اللّه تعالیٰ دن بہ دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عزت اور وجاہت میں اضافہ فرماتا رہے گا اور فراعنہ وقت اور منکروں اور معاندوں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو غلبہ عطا فرماتا رہے گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بہ کثرت فتوحات عطا فرماتا رہے گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے متبعین اور پیروکار بڑھاتا رہے گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علوم اور معارف اور درجات میں ترقی عطا فرماتا رہے گا اورنبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ہر بعد والا زمانہ پہلے زمانہ سے بڑھ چڑھ کر اور افضل اور اعلیٰ ہوگا اور اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیاوی مہمات کے مقابلہ میں اخروی درجات کی ترقی میں کوشش کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زیادہ لائق ہے ۔
اے رضاؔ خود صاحبِ قرآں (یعنی اللّه تعالیٰ) ہے مداحِ حضور (ﷺ)
پھر تجھ سے کب ممکن ہے مِدحت رسول اللّه (ﷺ) کی
یہ سوال ذہن میں آ سکتا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آنے والی ساعت پہلی ساعت سے بہتر ہے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آخرت دنیا سے افضل ہوگی تو کس اعتبار سے فزوں تر ہوگی ؟ چند ایک وجوھات پیشِ خدمت ہیں : ⬇
(1) جنت آپ کی مملوک ہے : ان اللّه اشترٰی من المؤمنین انفسہم و اموالہم بان لھم الجنة ۔ (سورۃ التوبہ آیت نمبر 111)
ترجمہ : بے شک اللّه نے مؤمنین سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو جنت کے بدلہ میں خرید لیا ہے ۔
زندگی میں اللّه پاک کی عطا ، جنت بھی اللّه کریم کی عطا ہے ۔ کیسا مہربان رب ہے کہ جس نے اپنی عطا کی ہوئی نعمت کا ہی گویا اپنے بندے سے سودا فرمایا اور بدلے میں جنت کا مالک بنایا۔ اسی موقع پر امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ گویا ہوئے کہ : ⬇
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا
(2) آپ شاھد ہیں : دنیا میں کفار و مشرکین اپنے ناپاک عزائم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لئے پریشانی کا سامان کرتے ہیں جبکہ قیامت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی امت تمام امتوں پر گواہ ہوگی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تمام نبیوں اور رسولوں پر گواہ ہوں گے اور اللّه پاک آپ پر گواہ ہوگا۔ اللّه تعالیٰ نے فرمایا : وکفیٰ باللّه شھیدا ۔ (سورۃ الفتح آیت نمبر 28)
ترجمہ : اور اللّه کی گواہی کافی ہے ۔
(3) فنا سے بقا : دنیا کی حسنات اور لذات، آفات اور پریشانیوں سے گھری ہوئی ہیں اور قلیل اور فانی ہیں جبکہ آخرت کی نعمتیں ، پریشانیوں اور افکار سے خالی ہیں اور بہت زیادہ اور دائمی اور غیر منقطع ہیں ۔
ولسوف یعطیك ربك فترضیٰ . (سورۃ الضحٰی، 5)
ترجمہ : اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا دے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے ۔
اس آیہ مبارکہ کی تفسیر میں امام ابو منصور بن محمد ماتریدی سمرقندی حنفی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 333 ھجری لکھتے ہیں : دنیا میں اللّه تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ذکر اور شرف کو بلند کرے گا اور آپ کو دشمنوں پر غلبہ اور فتح اور نصرت عطا فرمائے گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا دین اطراف عالم میں پھیل جائے گا اور آخرت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تمام نبیوں پر فضیلت اور برتری عطا فرمائے گا، آپ سے پہلے کوئی شفاعت کے لئے لب کشائی نہیں کرے گا، لوائے حمد (حمد کا جھنڈا) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ہاتھ میں ہوگا اور مقامِ محمود پر آپ ہی فائز ہوں گے، آپ سے پہلے کوئی جنت میں داخل نہیں ہوسکے گا، نہ آپ کی امت سے پہلے کوئی امت جنت میں داخل ہوسکے گی، حوضِ کوثر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حوالے ہوگا اور اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عزت اور عظمت دیکھنے والی ہوگی ۔
پھر بریلی کے تاجدار رحمۃ اللہ علیہ کی یاد آئی ، فرماتے ہیں : ⬇
عرشِ حق ہے مسند رفعت رسول اللّه (ﷺ) کی
دیکھنی ہے حشر میں عزت رسول اللّه (ﷺ) کی
لا و رب العرش جس کو جو ملا ان سے ملا
بٹتی ہے کونین میں نعمت رسول اللّه (ﷺ) کی
بعض مفسرینِ کرام کے مطابق یہ سب سے امید افزا آیہ کریمہ ہے کیونکہ اس میں اللّه تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے وعدہ فرمایا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اتنا دے گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم راضی ہو جائیں گے اور حدیث شریف میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: اگر میرا ایک امتی بھی دوزخ میں ہوا تو میں راضی نہیں ہوں گا ۔(الجامع لاحکام القرآن، جز 20، صفحہ 85،چشتی)
مقامِ محمود جس دن شان یہ ہوگی کہ : لمن الملك الیوم، للّه الواحد القھار ۔ (المؤمن: 16)
ترجمہ : آج کسی کی بادشاہی ہے ؟ (خود ہی مالک ارشاد فرمائے گا) اللّه کی بادشاہی ہے جو واحد قہار ہے ۔
اس دن جس دن کسی کو لب کشائی کی جرأت نہیں ہوگی اور لوگ نفسی نفسی کہیں گے اور تمام انبیاء (علیھم السلام) کے پاس جائیں گے اور سب شفاعت سے گریز کریں گے تو سب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہِ عالی پناہ میں حاضر ہوں گے : حضرت ابن عمر رضی اللّه عنہما بیان کرتے ہیں کہ قیامت کے دن لوگ دو زانو بیٹھے ہوں گے ، ہر امت اپنے اپنے نبی کے پاس جائے گی، وہ کہیں گے : فلاں ! شفاعت کیجیئے حتیٰ کہ یہ (طلب) شفاعت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس آ کر ختم ہوگی ، پس یہی وہ دن ہے جب اللّه تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث: 4718،چشتی)
کہیں گے اور نبی (علیھم السلام) "اذھبو الیٰ غیری"
میرے حضور (ﷺ) کے لب پر "انا لھا" ہوگا
ورفعنالك ذکرك ۔ (سورہ الم نشرح آیت نمبر 4)
ترجمہ : اور ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کی خاطر آپ کے ذکر کو بلند کر دیا ۔
اللّه تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ذکر کی بلندی اپنے ذمہ کرم پر رکھی ، مخلوق کو اس کا مکلف نہیں کیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ذکر کرے کیونکہ اگر مخلوق نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ذکر بلند کرتی تو مخلوق کی ایک حد ہے اور وہ اپنی حد تک آپ کا ذکر بلند کرتی ، اللّه تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ذکر کو خود بلند کیا اور نہ اللّه تعالیٰ کی کوئی حد ہے اور نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ذکر کی بلندی کی کوئی حد ہوگی ، اللّه عزوجل لا محدود ہے تو آپ کے ذکر کی بلندی بھی لا محدود ہوگی ، نیز مخلوق کی ابتداء بھی ہے اور انتہا بھی ہے ، اللّه تعالیٰ ازلی ابدی ہے ، سو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ذکر کی بلندی بھی ازلی ابدی ہوگی ۔
اللّه پاک فرماتا ہے : تلك الرسل فضلنا بعضھم علی بعض منھم من کلم اللّه و رفع بعضھم درجت ۔ (پارہ نمبر 3)
ترجمہ : یہ رسول ہیں ہم نے ان میں سے بعض کو دوسرے بعض پر فضیلت دی ہے ، ان میں سے بعض سے اللّه نے کلام فرمایا اور ان میں سے بعض کو درجات میں بلندی عطا فرمائی ۔
اللّه تعالیٰ نے یہ ارشاد نہیں فرمایا کہ کتنی درجات کی بلندی دی کیونکہ عالم عدد میں کوئی ایسا عدد نہیں ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے درجات کی تعین کر سکے ، سو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے درجات غیر متناہی ہیں۔ امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ شاید اسی مقام پر گویا ہوئے : ⬇
فان فضل رسول اللّه لیس له
حد فیعرب عنه ناطق بفم
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے فضل و کمال کی کوئی حد ہے ہی نہیں ۔ جس کو کوئی بتانے والا بتا سکے ۔
تاجدار گولڑہ حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نعت شریف لکھنے کے بعد اختتام اسی پر فرمایا : ⬇
سبحان اللّه ما اجملك
ما احسنك ما کملك
اب چونکہ دیدار کی لذت حاصل ہوچکی تھی حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو تو سبحان اللّه کو بطورِ حیرت استعمال فرمایا کہ بنانے والے نے کیسا اجمل ، کیسا احسن، کیسا اکمل بنایا کہ گو میں نے بیان تو کیا نعت میں لیکن بیان کر نہ سکا اور اس بات کی تصدیق آپ کی نعت کا آخری شعر کرتا ہے کہ : ⬇
کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء
گستاخ اکھیاں کتھے جا اڑیاں
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ ۔ (سورہ الم نشرح آیت نمبر 4)
ترجمہ : اور ہم نے آپ (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ) کی خاطر آپ (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ) کا ذکر بلند کردیا ۔
اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ذکر کی بلندی اپنے ذمہ رکھی ، مخلوق کو اس کا مکلف نہیں کیا کہ وہ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا ذکر بلند کرے کیونکہ اگر مخلوق آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا ذکر بلند کرتی تو مخلوق کی ایک حد ہے ، وہ اپنی حد تک آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا ذکر بلند کرتی ، اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ذکر کو خود بلند کیا اور نہ اللہ تعالیٰ کی کوئی حد ہے اور نہ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ذکر کی بلند کی کوئی حد ہوگی ، اللہ عزوجل لامحدود ہے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ذکر کی بلندی بھی لامحدود ہو گی ، نیز مخلوق کی ابتداء بھی ہے اور انتہا بھی ہے ، اللہ تعالیٰ ازلی ابدی ہے ، سو آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ذکر کی بلندی بھی ازلی ابدی ہوگی ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ذکر کی بلندی کا اندازہ اس حدیث سے کریں : ⬇
حضرت عمر بن الخطاب رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا : حضرت آدم علیہ السلام عرض کیا : اے اللہ ! میں تجھ سے بہ حق محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے بخش دے ، اللہ عزوجل نے فرمایا : اے آدم ! تم نے محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو کیسے جانا ، حالانکہ ابھی میں نے ان کو پیدا نہیں کیا ، حضرت آدم علیہ السلام نے کہا : کیونکہ اے رب ! جب تو نے مجھے اپنے دستِ قدرت سے پیدا کیا اور نے مجھ میں اپنی پسندیدہ روح پھونکی تو میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو عرش کے پایوں پر ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ لکھا ہوا تھا ۔ (دلائل النبوۃ جلد ٥ صفحہ ٤٨٩،چشتی)(المعجم الصغیر جلد ٢ صفحہ 82-83)(الفواء صفحہ ٣ و مجموع الفتاویٰ لابن تیمیمہ ، دارالجیل، ریاض)
نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانا اور ان کی اطاعت کرنا مخلوق پر لازم کر دیا ہے حتّٰی کہ کسی کا اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لانا ، اس کی وحدانیّت کا اقرار کرنا اوراس کی عبادت کرنا اس وقت تک مقبول نہیں جب تک وہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر ایمان نہ لے آئے اور ان کی اطاعت نہ کرنے لگے ۔ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ ۔ (سورہ النساء:۸۰)
ترجمہ : جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللّٰہ کا حکم مانا ۔
اور ارشاد فرمایا : فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا ۔ (سورہ النساء:۶۵)
ترجمہ : تو اے حبیب ! تمہارے رب کی قسم ، یہ لوگ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنالیں پھر جو کچھ تم حکم فرما دو اپنے دلوں میں اس سے کوئی رکاوٹ نہ پائیں اوراچھی طرح دل سے مان لیں ۔
حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ اگر کوئی اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرے ،ہر بات میں اس کی تصدیق کرے اور نبی کرہم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی رسالت کی گواہی نہ دے تو یہ سب بے کار ہے اور وہ کافر ہی رہے گا ۔
نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا ذکر کیا جاتا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ نے اذان میں ، اقامت میں ، نماز میں ، تشہد میں ، خطبے میں اور کثیر مقامات پر اپنے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کیا ہے ۔
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام سے اس آیت کے بارے میں دریافت فرمایا تو اُنہوں نے عرض کی : اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے تو میرے ساتھ آپ کا بھی ذکر کیا جائے ۔
حضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فرماتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر دنیا و آخرت میں بلند کیا ، ہر خطیب اور ہر تشہد پڑھنے والا ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّا ٓاِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ ‘‘ کے ساتھ ’’ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہ ‘‘ پکارتا ہے ۔
نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے نام کی طرف ان کے نام کی نسبت کی ہے اور نبوت و رسالت کے وصف کے ساتھ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا ذکر کیا جبکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے علاوہ دیگر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر ان کے اَسماء کے ساتھ کیا ہے ۔
نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام سے آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر ایمان لانے کا عہد لیا ۔ (تاویلات اہل السنہ، الشرح الآیۃ: ۴، ۵ / ۴۸۲)(تفسیر بغوی، الشرح الآیۃ: ۴، ۴ / ۴۶۹)
امام احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ اس آیت سے متعلق فرماتے ہیں : یعنی ارشاد ہوتا ہے اے محبوب ہمارے ! ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کیا کہ جہاں ہماری یاد ہوگی تمہارا بھی چرچا ہوگا اور ایمان بے تمہاری یاد کے ہرگز پورا نہ ہو گا ، آسمانوں کے طبقے اور زمینوں کے پردے تمہارے نامِ نامی سے گونجیں گے ، مؤذن اذانوں اور خطیب خطبوں اور ذاکرین اپنی مجالس اور واعظین اپنے مَنابر پر ہمارے ذکر کے ساتھ تمہاری یا د کریں گے ۔ اشجار و اَحجار ، آہُو و سوسمار (یعنی ہرن اور گوہ) و دیگر جاندار و اطفالِ شیرخوار و معبودانِ کفار جس طرح ہماری توحید بتائیں گے ویسا ہی بہ زبان فصیح و بیان صحیح تمہارا منشورِ رسالت پڑھ کر سنائیں گے ، چار اَکنافِ عالَم میں لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کا غلغلہ ہوگا ، جز (سوائے) اشقیائے ازل ہر ذرہ کلمۂ شہادت پڑھتا ہو گا ، مسبحانِ ملاء اعلیٰ کو ادھر اپنی تسبیح و تقدیس میں مصروف کروں گا اُدھر تمہارے محمود ، درودِ مسعود کا حکم دوں گا ۔ عرش و کرسی ، ہفت اوراقِ سدرہ ، قصورِجناں ، جہاں پر اللّٰہ لکھوں گا ، مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ بھی تحریر فرماؤں گا ، اپنے پیغمبروں اور اولُوا الْعزم رسولوں کو ارشاد کروں گا کہ ہر وقت تمہار ادم بھریں اور تمہاری یاد سے اپنی آنکھوں کو روشنی اور جگر کو ٹھنڈک اور قلب کو تسکین اور بزم کو تزئین دیں ۔ جو کتاب نازل کروں گا اس میں تمہاری مدح و ستائش اور جمالِ صورت و کمالِ سیرت ایسی تشریح و توضیح سے بیان کروں گا کہ سننے والوں کے دل بے اختیار تمہاری طرف جھک جائیں اور نادیدہ تمہارے عشق کی شمع ان کے کانوں ، سینوں میں بھڑک اٹھے گی ۔ ایک عالَم اگر تمہارادشمن ہو کر تمہاری تنقیصِ شان اور محوِ فضائل میں مشغول ہو تو میں قادرِ مُطلق ہوں ، میرے ساتھ کسی کا کیا بس چلے گا ۔ آخر اسی وعدے کا اثر تھا کہ یہود صدہا برس سے اپنی کتابوں سے ان کا ذکر نکالتے اور چاند پر خاک ڈالتے ہیں تو اہلِ ایمان اس بلند آواز سے ان کی نعت سناتے ہیں کہ سامع اگر انصاف کرے بے ساختہ پکار اٹھے ۔ لاکھوں بے دینوں نے ان کے محوِ فضائل پر کمر باندھی ، مگر مٹانے والے خود مٹ گئے اور ان کی خوبی روز بروز مترقی رہی ۔( فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۷۱۸-۷۱۹)
اس کائنات میں سب سے بلند عرش عظیم ہے اور عرش عظیم پر آپ کا نام لکھا ہوا ہے اور یہ آپ کے ذکر کی بلندی کی واضح مثال ہے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (سورہ البقرہ : ٢٥٣) یہ رسول ہیں ہم نے ان میں سے بعض کو دوسرے بعض پر فضیلت دی ہے ، ان میں سے بعض سے اللہ نے کلام فرمایا اور ان میں سے بعض کو درجات میں بلندی عطا فرمائی ۔
اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں بتایا کہ کتنے درجات بلندی عطا فرمائی ، کیونکہ عالم عدد میں کوئی ایسا عدد نہیں ہے ، جو رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے درجات کی تعیین کرسکے ، سو آپ کے درجات غیر متناہی ہیں ، امام بوصیری فرماتے ہیں : ⬇
فان فضل رسول اللہ لیس لہ حد فیعرب عنہ ناطق بفم ۔
ترجمہ : رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے فضل و کمال کی کوئی حد ہے ہی نہیں ، جس کو کوئی بتانے والا بتاسکے ۔
اس آیت میں آپ کا نام نہیں لیا بلکہ فرمایا : ان میں سے بعض کو (غیر متناہی) درجات عطا فرمائے ، اس میں یہ اشارہ ہے کہ غیر متناہی درجات کی بلندی کے ساتھ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ایسے منفرد اور مخصوص ہیں کہ آپ کے سوا ذہن اور کسی کی طرف متوجہ ہو ہی نہیں سکتا ۔ حدیث میں ہے ۔ حضرت عمرو بن العاص رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم مٶذن سے اذان سنو تو وہی کلمات کہو ، جو اس نے کہے ہیں ، پھر مجھ پر صلوۃ (درود) پڑھو ، بیشک جو مجھ پر ایک صلوۃ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دس صلوت نازل فرماتا ہے ، پھر اللہ سے میرے لئے وسیلہ کا سوال کرو کیونکہ وسیلہ جنت میں ایک ایسا درجہ ہے جو اللہ کے بندوں میں سے کسی ایک بندے کو ملے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣٨٤،چشتی)(سنن ترمذی رقم الحدیث : ٥٨٣)(سنن ترمذی رقم الحدیث، ٣٦١٤)(سنن نسائی رقم الحدیث : ٦٧٨)
وسیلہ جنت کا عظیم ترین درجہ ہے ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اس کے ساتھ منفرد اور مخصوص ہیں ، اسی طرح غیر متناہی درجات کی بلندی کے ساتھ بھی آپ منفرد اور مخصوص ہیں ۔
دنیا میں ہر وقت کسی نہ کسی جگہ سورج غروب ہو رہا ہے اور جہاں سورج غروب ہو رہا ہے ، وہاں مغرب کی ذان ہو رہی ہے، اور جہاں اذن ہو رہی ہے ، وہاں ” اشھدان لا الہ الا اللہ “ کے ساتھ بلند آواز سے ” اشھدان محمدا رسول اللہ پڑھا جا رہا ہے ، سو دنیا میں ہر وقت کسی نہ کسی جگہ آپ کا نام بلند کیا جا رہا ہے اور یہ بھی آپ کے ذکر کی بلندی ہے ۔
پہلے مسلمان سال میں ایک مرتبہ یوم میلاد کو آپ پر صلوۃ وسلام پڑھتے تھے ، مخالین نے اس کو بدعت کہا اور اس کی مخالفت کی تو اس کے ردعمل میں مسلمان سال میں متعدد بار محافل میلاد منعقد کرتے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر صلوۃ سلام پڑھتے مخالفین نے پھر اس کو منع کیا تو مسلمان ہر جمعہ کی نماز کے بعد آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر صلوۃ وسلام پڑھنے لگے، اور جب اس سے بھی منع کیا گیا تو مسلمان ہر نماز کے بعد پڑھنے لگے : الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ ۔ اور جب اس کی بھی مخالفت ہوئی تو مسلمان جمعہ اور مغرب کی اذان کے علاوہ ہر اذان کے بعد وقفہ کر کے پڑھنے لگے : الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ ۔ پھر جب اس کے خلاف آوازیں اٹھیں تو مسلمان اذان سے پہلے بھی وقفہ کر کے آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر صلوۃ وسلام پڑھنے لگے اور یوں یوماً فیوماً اللہ تعالیٰ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ذکر کو بڑھا رہا ہے اور بلند فرما رہا ہے ، اسی لیے فرمایا : ورفعنالک ذکرک ۔ (سورہ الم نشرح : ٤)
درخت قلم اور سمندر روشنائی بنیں تو پھر خدا لم یزل کی نعمت عظمیٰ کا بیان ایسا ہے کہ مکمل نہ ہو۔ یہ ذکر جاری تھا ، جاری ہے اور جاری رہے گا ، ان شاء اللّه ۔ اللہ عزّوجل ہمیں ہمت دے کہ ہم ، اپنی بشری استعداد کے مطابق ، کما حقه اس "فرض" کو ادا کر سکیں ۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ۔ (مزید حصّہ نمبر 28 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment