Sunday 9 October 2022

خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 29

0 comments

خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 29
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خلاف لکھنے بولنے والوں کے متعلق کچھ حقائق اور عید میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر کیے گئے اعتراضات کے منہ توڑ جوابات : جشن عید میلاد اور عشق مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ۔ اللہ رب العزت نے ہمیں بہت سی نعمتوں سے نوازا مگر ان سب نعمتوں کے حصول کا ذریعہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات گرامی ہے ۔ آپ کی بدولت ہی ہمیں ایمان ، ایقان ، عرفان ، رمضان اور قرآن سب کچھ آپ کے ہی درسے ہی ملا ۔ آپ اللہ کا بہت بڑا احسان ہیں اور اسی احسان کا شکر ادا کرنے کےلیے اہل ایمان میلاد کی محفلیں سجاتے ہیں ۔ اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عشق و محبت کا اظہار کرتے ہیں ۔ مگر کچھ بد نصیب لوگ اس کو بدعت سیہ و ناجائز قرار دیتے ہوئے نہیں شرماتے ۔ اسی عادت بد کا مظاہرہ کرتے ہوئے معترضین نے میلاد شریف کو بدعت ثانت کرنے کےلیے ایک چند ورقی پمفلٹ لکھ مارا مگر جس طرح اس کے اکابر بھی میلاد کے بدعت ہونے پر دلیل نہ دے سکے یہ بھی دلیل دینے سے قاصر ہیں ۔ بہرحال معترضین مذکورہ نے عنوان بالا قائم کر کے یہ لکھا کہ آج کل کچھ لوگ عشق مصطفی کے دعوے دار ہیں مگر وہ ہمیشہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ارشادات کی حکم عدولی کرتے ہیں اور اپنے سوا ہر کسی کو گستاخ و کافر قرار دیتے ہیں ۔ (خلاصہ پمفلٹ مومن خان دیوبندی)

اب معترض مذکورہ کو ہم بتا تے ہیں کہ کون لوگ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اطاعت کو چھوڑ کر اپنے مولویوں کے پیچھے دوڑتے ہیں اور آپ کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی بجائے اپنے خود ساختہ اصولوں کو مانتے ہیں۔یہ صرف اور صرف دیوبندی حضرات ہیں جو رشید و قاسم کے قائم کردہ دین پر عمل پیرا ہیں ۔ (صحبتے با اولیا صفحہ ۱۲۵)

جن کے نزدیک نجات مولوی رشید احمد کی اتباع پر موقوف ہے ۔ (تزکرۃالرشید جلد ۲ صفحہ ۱۷)

اور اسی کی اتباع کرتے ہوئے یہ لوگ مجلس میلاد کو بدعت کہنے سے دریغ نہیں کرتے جب کہ ذکر میلاد خود قرآن سے ثابت ہے ۔ آگے معترض مذکورہ نے ایک حدیث نقل کر کے لکھا کہ : آخری زمانہ میں ایسے مکار لوگ پیدا ہونگے بزرگانِ دین کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کریں گے ۔ بالکل صیح بات ہے اور یہ لوگ دیوبندی ہی ہیں جو نہ صرف بزرگانِ دین بلکہ جھوٹی احادیث اور اپنی طرف سے عربی کی عبارات کو قرآن کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔نمونے کے طور پر ہم صرف ایک ثبوت پیش کرتے ہیں ۔

مولوی رشید احمد کا جھوٹ

مولوی رشید احمد کہتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ : مجھ کو بھائی کہو ۔ (فتاوی رشیدیہ جلد ۱ صفحہ ۱۳،چشتی)

اب ہے کوئی دیوبندی جو ہمیں یہ حدیث دیکھائے ۔

بہر حال جھوٹی باتیں اور کتابیں منسوب کرنا یہ دیوبندیوں کا ہی کام ہے ۔ ہمیں اس پر زیادہ دلائل دینے کی ضرورت نہیں ۔ ان کے گھر کی گواہی پیش کر کے آگے چلتے ہیں ۔ مولوی حسین احمد ٹانڈوی دیوبندی نے ایک کتاب لکھی الشھاب الثا قب ۔ اس کتاب میں اس نے اپنے ایک مولوی کی کتاب [سیف نقی] سے من گھڑت حوالہ بغیر تحقیق کیے لکھ دیا اور جس طرح اس نے مکھی پر مکھی ماری اسی طرح دیوبندیوں کے شیخ الہند حسین احمد مدنی نے بھی مکھی پر مکھی ماری اور جھوٹے حوالے بیان کر دیے ۔

دیوبندی تقی عثمانی نے اس بات کا اقرار ان الفاظ میں بیان کیا کہ ’’اس [شہاب ثاقب] میں ایک خاص کمزوری یہ ہے کہ اس میں ’’سیف النقی‘‘ کے اعتماد پر ۲ حوالے غلط دے دیے گئے ہیں ۔ اس غلطی نے ’’الشہاب الثاقب‘‘ کی افادیت کو بہت نقصان پہنچایا‘‘ ۔
(نقوش وفتگان صفحہ ۲۹۹ ،۴۰۰ تقی عثمانی)

لہٰذا غلط حوالے دینا جھوٹی کتابیں منسوب کرنا ان کا ہی کام ہے ۔

معترض مذکور نے اسی عنوان کے ساتھ کچھ اعتراضات کیے ہیں جن کا جواب ہم آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔

کیا جشن میلاد بدعت ہے ؟

معترض نے سب سے پہلا یہ اعتراضات کیا کہ جشن میلاد کا قرونِ ثلاثہ میں کوئی ثبوت نہیں ۔ لہٰذا بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔

قرونِ ثلاثہ کی قید کی حقیقت
جواب نمبر ۱ : تو اس کا جواب اپنے حکیم الامت تھانوی سے پڑھیں آپ کے حکیم الامت صاحب لکھتے ہیں : اگر بدعت کے یہ معنی ہیں جو ان حضرات نے سمجھے ہیں کہ جو چیز خیرا القرون میں نہ ہو ۔ تو خیر القرون میں ان کا وجود بھی نہ تھا پس یہ مجسم بدعت ہوئے کیا خرافات ہے ۔ آگے لکھتے ہیں : خیرالقرون میں نہ ہونا اب ہونا بدعت کو مستلزم نہیں ۔ (ملفوظات حکیم الامت جلد ۲ صفحہ ۹اا ملفوظ نمبر۱۵۸،چشتی)

تو مجسم بدعت جناب معترض صاحب پہلی بات تو یہ کہ کسی عمل کا خیر القرون میں اس کو بدعت نہیں بناتا ۔ ایسے ہی فتاوی دار العلوم زکریا میں مفتی رضا الحق لکھتا ہے : مثلا کوئی کہے کہ موجودہ ترتیب کے ساتھ مجالس ذکر اور عمل دعوت آنحضرت اور صحابہ نے نہیں کیا تو یہ بدعت ہے صحیح نہیں ۔ (فتاوی دار العلوم زکریا جلد ۱ صفحہ ۵ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ۱٧)

پھر فتاوی فریدیہ میں بدعت کی بحث کرتے ہوئے مفتی فرید لکھتا ہے : جو چیز خیر القرون میں نہ بنفسہ ثابت ہو نہ با اصلہ ثابت ہو تو وہ بدعت سیۂ ہے ۔ اور جو بنفسہ ثابت نہ ہو۔لیکن با صلہ ثابت ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے ۔(فتاوی فریدیہ جلد ۱ صفحہ ۲۸۵)

پھر دیکھے آپ کے مولوی رشید احمد گنگوہی سے سوال ہوا کہ : کسی مصیبت کے وقت بخا ری شریف کا ختم کرانا قرون ثلاثہ سے ثابت ہے کہ نہیں اور بدعت ہے یا نہیں ۔ اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ : قرون ثلاثہ میں بخاری تالیف نہیں ہوئی تھی مگر اس کا ختم درست ہے کہ ذکر خیر کے بعد دعا قبول ہوتی ہے ۔اس کی اصل شرع سے ثابت ہے لہذا بدعت نہیں ۔ (فتاوی رشیدیہ حصہ دوئم ۸۹،چشتی)

ان تمام عبارات سے واضح ہو گیا کہ قرونِ ثلا ثہ میں کسی چیز کا نہ ہونا بدعت کو ملتزم نہیں ۔ اگر کسی چیز کی اصل ثابت ہو تو وہ بدعتِ حسنہ ہے جو اصل میں سنت ہی ہے ۔ (فتاوی رشیدیہ جلد ۱ صفحہ ۸۸)

اب مولوی اشرف علی تھانوی قل بفضل اللہ و برحمتہ ۔۔۔ الخ کے تحت لکھتا ہے کہ : اور خو ب سمجھ لینا چاہیے کہ جب قرآن مجید میں خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وجود با وجود کی نسبت ۔ صیغہ امر فلیفرحوا موجود ہے تو اس فرحت کو کون منع کر سکتا ہے غرض حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادتِ شریفہ پر فرحت اور سرور کو کوئی منع نہیں کر سکتا ۔(مواعظ میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صفحہ ۹۵،چشتی)
اسی طرح لکھتا ہے : معلوم ہوا کہ ولادت پر فرح ، جائز و موجبِ برکت ہے ۔ (مواعظ میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صفحہ ۵۰)

تو جناب آپ کے رشید احمد گنگوہی کہتے ہیں کہ ختم بخاری کی شرع ثابت ہے اس لیے بدعت نہیں جناب معتض عقل کے اندھے جب تیرے اشرف علی تھانوی کے مطابق جشنِ میلاد خو د قرآن سے ثابت ہو گیا تو پھر یہ بدعت کیسے ؟

اسی بات سے مولوی سرفراز گھٹروی کا بھی رد ہو گیا اس نے بھی مجلس میلاد کو بدعت لکھا ہے ۔ (راہ سنت صفحہ ۱۶۱)
اور خود اسی گنگوہی کا بھی اس نے بھی میلاد کو بدعت لکھا وجہ یہ بیان کی کہ یہ قرونِ ثلاثہ میں نہیں تھا ۔

جواب نمبر ۲ : ⬇

پھر مولوی رشید احمد سے سوال ہوا کہ : ⬇

مسئلہ : قرونِ ثلاثہ میں تقلید شخصی کا ثبوت ہے یا نہیں ۔
جواب دیا : تقلید شخصی قرآن سے ثابت ہے پھر قرونِ ثلاثہ کی کیا پوچھ ہے ۔ قولِ تعالیٰ فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون ۔ (فتاوی رشیدیہ صفحہ ۱۵۷)

تو جناب ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ جب جشنِ میلاد خود قرآن سے ثابت ہے پھر قرونِ ثلاثہ کی کیا پوچھ ؟

جواب نمبر ۳ : کس منہ سے دلیل مانگتے ہو ۔ پھر آپ کا مولوی اشرف علی تھانوی کہتا ہے کہ
غیر نبی کا فعل حجت نہیں ۔(ملفوظات جلد ۱ صفحہ ۳۳۲ ملفوظ ۴۴۴،چشتی)

جنابِ معترض جب تمہارے نزدیک غیر نبی صحابی ، تا بعی کا فعل حجت ہی نہیں تو پھر دلیل کس لیے مانگتے ہو ۔ شاید اب دیوبندی کمپنی کا دماغ ٹھکانے آگیا ہو ۔

یہاں اب فقیر غیرمقلد وہابی حضرات کو بھی آئینہ دیکھاتا ہے کہ یہ جو کہتے ہیں کہ جی صحابہ نے منایا کہ نہیں تو ان سے گزارش ہے کہ بدبختو جب تمہارے نزدیک فعلِ صحابی حجت نہیں پھر کس منہ سے دلیل مانگتے ہو ؟

وہابیوں کا شیخ الکل نذیر حسین لکھتا ہے : فہم صحابی حجت نہیں ۔ (فتاوی نذیریہ جلد ۱ صفحہ ۶۲۲)
ایسے ہی لکھا کہ صحابی کے قول سے حجت نہیں لی جا سکتی ۔ (فتاوی نذیریہ جلد ۱ صفحہ ۳۴۰)

نواب صدیق کا بیٹا لکھتا ہے: اقوال صحابہ حجت نیست ۔ (عرف الجادی صفحہ ۴۴)

اسی طرح فتاوی سلفیہ میں مولوی اسماعیل لکھتا ہے کہ : صحاب کرام کا فعل سنت صحیحہ کے خلاف ہے ۔ (فتاوی سلفیہ صفحہ ۱۰۷)

تو ہمارا سوال ہے وہابی حضرات سے کہ جب تم لوگوں کے نزدیک صحابہ رضی اللہ عنہم کا فہم قول و فعل حجت نہیں وہ سنت کے خلاف کام کر سکتے ہیں تو بد بختوں دلیل کس لیے مانگتے ہو ۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا قول حجت نہیں ۔ وہابی مولوی محمد جونا گڑھی لکھتا ہے : جس دین میں نبی کی رائے حجت نہ ہو ، اس دین والے آج ایک امتی کی رائے کو دلیل سمجھنے لگے ۔ (طریق محمدی صفحہ ۵۹)

بد بختوں جب تمہارے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تک قول حجت نہیں ۔ تو دلیل کس منہ سے مانگتے ہو ۔

اصل میلاد

غیر مقلدین حضرات کی عادت ہے کہ ہر دلیل کے جواب میں صرف یہ اعتراض کرتے ہیں کہ کیا صحابہ نے منایا ؟

اس کا جواب ہم اوپر دے آئے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی میلاد منایا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا تزذکرہ کیا ۔ بہر حال یہاں دوبارہ پھر عرض ہے ہمارا دعوی ہے کہ میلاد کی اصل ثابت ہے ۔

جشن میلاد کا پہلا اصل

جشن میلاد کا ایک اصل تو یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم خود اپنا میلاد منایا کرتے تھے ۔حضرت سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : وساخبرکم باول امری ، اور میں تمہیں اپنے معاملے کی ابتدا کے بارے میں نہ بتاٶں ؟ بے شک میں اللہ کے ہاں خاتم النبین لکھ دیا گیا تھا ۔ دعوۃ ابی ابراہیم و بشارۃ عیسی قومہ ، میں اپنے باپ حضرت ابراہیم کی دعا اور عیسی کی وہ بشارت ہوں جو انہوں نے اپنی قوم کو فرمائی تھی ۔ و رٶیا امی التی رات انہ خرج منھا نور اضات لہ قصور الشام ۔ اور اپنی امی جان کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے دیکھا تھا کہ ان سے اک ایسا نور نکلا جس سے ان کےلیے شام کے محلات روشن ہو گئے ۔ (مستدک امام حاکم جلد ۳ صفحہ ۷۵۸)

جشنِ میلاد کا دوسرا اصل
اس کا ایک اصل یہ بھی کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی میلاد منایا ۔ امام بخاری کے استاد اما م احمد بن حنبل لکھتے ہیں سیدنا امیر معاویہ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا اپنے اصحاب کے ایک حلقہ سے گزر ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ما اجلسکم ، تم یہاں کیسںے بیٹھے ہو انہوں نے کہا جلسنا ند عو اللہ و نحمد علی ما ھدانا لدینیہ و من علینا بک ، ہم نے اللہ کا ذکر کرنے اور اس نے ہمیں جو اسلام کی ہدایت عطا فرمائی اس پر حمد و ثنا بیان کرنے اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بھیج کر ہم پر جو احسان کیا ، اس کا ذکر کرنے کےلیے یہ جلسہ منعقد کیا ہے ۔

علامہ ابن حجر کی گواہی
آپ فرماتے ہیں : وقد ظھر لی تخر یحھاعلی اصل ثابت وھوماثبت فی الصحین ، یعنی میں نے جشن میلاد کو شرع میں ایک ثابت شدہ اصل پر جائز ثابت کیا ہے ۔

ٍمولانا عبدالحی لکھوی کی شہادت
آپ میلاد کے متعلق فرماتے ہیں :
اس کا وجود زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور زمانہ صحابہ کے میں بھی تھا اگرچہ اس نام سے نہ تھا ، ماہرینِ فن حدیث پر یہ مخفی نہ ہوگا کہ صحابہ مجالس وعظ اور تعلیم علم میں فضائل نبویہ اور ولادت احمدیہ کا ذکر کرتے تھے ۔ (مجموعہ فتاوی جلد ۲ صفحہ ۱۵۰)
اس حوالہ سے یہ ثابت ہو ا کہ دور نبوی و صحابہ میں میلاد کی اصل ثابت ہے ۔

پھر خود وہابیوں کا اقرار ہے کہ جس کا اصل ثابت ہو وہ بدعت نہیں ۔ (جشن میلاد یوم وفات پر صفحہ ۲۲)

جواب نمبر ۴ : میلاد اور علمائے دیوبند : ⬇

مرشد علماۓ دیوبند حاجی امداد اللہ صاحب لکھتے ہیں کہ : پس ان تخصیصات کو کوئی شخص عبادت مقصودہ نہیں سمجھتا ، بلکہ فی نفسہ مباح جانتا ہے ، مگر ان کے اسباب کو عبادت جانتا ہے اور ہیئات سبب کو مصلحت سمجھتا ہے تو بدعت نہیں ۔ (فیصلہ ہفت مسئلہ صفحہ ۱۲) ۔ آگے لکھتے ہیں : اس کو بدعت کہنے کی کوئی وجہ نہیں ۔(فیصلہ ہفت مسئلہ)
اسی طرح حاجی صاحب اپنا عمل لکھتے ہیں : کہ مشرب فقیر کا یہ ہے کہ محفل مولد میں شریک ہوتا ہوں،بلکہ ذریعہ برکات سمجھ کر ہر سال اپنے گھر منعقد کرتا ہوں ۔(ہفت مسئلہ صفحہ ۲۷)
باقی رہ گئی یہ بات کہ حاجی صاحب کا قول حجت ہے کہ نہیں تو اس کے بارے میں عرض ہے کہ تذکرۃالرشید میں موجود ہے کہ
مگر اعلیٰ حضرت (حاجی امداد اللہ) کی راست گو زبان جو کہ حقیقت میں فرمان رحمٰن کی تر جمان تھی ۔ (فتاوی رشیدیہ جلد ۱ صفحہ ۵۳،چشتی)
مولوی اشرف علی حاجی صاحب کا قول نقل کرکے کہتا ہے کہ : کیوں کہ حاجی صاحب کا اجتہاد بعض علماء کے موافق ہے ۔ (امدادالمشتاق صفحہ ۸۸)

اور جناب اجتہاد مجتہد کرتا ہے پیر یا شیخ نہیں ۔ پھر بھی اگر دیوبندی حاجی صاحب کی بات کو تسلیم نہیں کرتے تو پھر لکھ کر دیں کہ عاشق الہٰی میرٹھی نے جھوٹ بولا ۔ مولوی اشرف علی نے جھوٹ بولا ہم ان کو یہ حوالہ معاف کر دیں گے ۔

اس کے علاوہ دیوبندی کہتے ہیں کہ فیصلہ ہفت مسئلہ حاجی صاحب کا ہے ہی نہیں یہ اشرف علی تھانوی کا ہے اور اس نے رجوع کر لیا تھا ۔ (مناظرہ کوہاٹ) ۔ یہ تو الگ مسئلہ ہے کہ تھانوی نے رجوع کیا تھا کہ نہیں مگر فیصلہ ہفت مسئلہ حاجی صاحب کا ہی ہے ۔ مولوی سرفراز گکھڑوی لکھتا ہے کہ : نفس مضمون حاجی صاحب کا ہے ۔ (راہ سنت صفحہ ۱۶۶)
جب نفسِ مضمون حاجی صاحب کا ہے تو آپ کو چاہیے تو یہ کہ حاجی صاحب کا رجوع دیکھاٶ جو تم قیامت تک نہیں دیکھا سکتے ۔ لہٰذا حوالہ بالا کو تسلیم کرو ۔ پھر اشرف علی تھانوی نے بھی اس کو حاجی صاحب کی تصنیف کہا ہے ۔ (اشرف السوانح جلد ۳ صفحہ ۵۵۳)
اب اپنے اشرف علی تھانوی کی سنیے تھانو ی لکھتا ہے کہ : مجلسِ مولود کی تعلیمی شان یہ ہے کہ جائز ہے بشرطِ عدمِ منکرات کے ۔ (ارواحہ ثلاثہ حکایت نمبر ۴۲۷)
یہی اشرف علی تھانوی لکھتا ہے کہ : ذکرِ ولادت شریف نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مثل دیگر اذکار خیر کے ثواب اور افضل ہے اگر بدعات اور قبائح سے خالی ہو تو اس سے بہتر کیا ہے ۔ (فتاوی امدادیہ جلد ۵ صفحہ ۲۳۰)
پھر کہتا ہے : کالج میں میلاد جائز بلکہ واجب ہے ۔ (انفاس عیسی حصہ اول صفحہ ۶۲۲)
اسی طرح المہند میں خلیل احمد "مولانا احمد بن خیر مکی" سے نقل کرتا ہے : مولود شریف اگر عارضی ناپسند دیدہ باتوں سے سالم ہو تو وہ فعل مستحب اور شرعاً پسندیدہ ہے ۔ (المہند صفحہ ۱۲۵)

یہ زناٹے دار تھپڑ ہے ان دیوبندیوں کی گالوں پر جو مجلس مولود کو بدعت کہتے ہیں ۔

ایسے ہی مولو ی رشید احمد گنگوہی کہتا ہے : اس لیے اپنا قول یہ ہے کہ ہمارے لیے تو اگر مولود شریف اگر کریں تو جائز بلکہ مستحب ہے ۔ (باقیات فتاوی رشیدیہ صفحہ ۵۷۸،چشتی)
اسی رشید احمد نے خلیل احمد کو کتاب تواریخِ حبیب الہ دے کر میلاد میں وعظ کےلیے بھیجا ۔ (تذکرۃالرشید صفحہ ۳۵۶ جلد ۲)

اسی طرح جب نانوتوی سے میرٹھ میں ایک صاحب نے پوچھا کہ مولوی عبد السمیع تو میلاد کرتے ہیں آپ کیوں نہیں کرتے ؟
نانوتوی نے کہا ۔ انہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے زیادہ محبت معلوم ہوتی ہے مجھے بھی اللہ تعالی نصیب کرے (تہمت وہابیت اور علمائے دیوبند صفحہ ۱۵،چشتی)۔(مجالس حکیم الامت صفحہ ۱۲۴)

جواب نمبر ۵ : پھر ان کا دلیل خاص کا مطالبہ کرنا بھی دھوکا ہے ۔ مولوی محمود عالم صفدر دیوبندی لکھتا ہے کہ : دوسرا دھوکہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ مدعی سے دلیل خاص کا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔ (انوراتِ صفدر صفحہ ۳۶۳)

اسی طرح مولوی امین صفدر دیوبندی کہتا ہے کہ مدعی سے دلیل خاص کا مطالبہ کرنا یہ خالص مرزا قادیانی کی سنت ہے ۔ (مجموعہ رسائل صفحہ ۱۶۵)

لہٰذا ہر دلیل پر یہ مطالبہ کرنا کہ صحابہ نے کیا کہ نہیں خالص مرزائی سنت ہے جس پر دیوبندی بخوبی عمل پیرا ہیں ۔

نوٹ : مناظرہ کوہاٹ میں مولوی ایوب قادری نے بھی دلیل خاص کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ دیکھاٶ کہ امام اعظم نے میلاد منایا امام شافعی نے میلاد منایا ۔ تو اپنے مولوی کے فتوے کے مطابق انہوں نے مر زا قادیانی کی سنت پر عمل کیا ۔

اعتراض نمبر ۲ : اس کے بعد معترض مذکور نے ولادتِ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تحقیق کا عنوا ن ڈال کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی آپ کی ولادت 12 ربیع اول کو نہیں ہوئی ۔

جواب : پہلی بات ولادت شریفہ 9 کو ہوئی ہے تو تم 9 کو میلاد منا لو اس میں تو کوئی مسئلہ نہیں۔جبکہ یہ لوگ نہ ہی 9 کو میلاد مناتے ہیں نہ ہی 12 کو ۔ کیا اس یہ بات واضح نہیں ہوجاتی کہ مصنف مذکورہ کسی حقیقت کے متلاشی نہیں بلکہ اعتراض برائے اعتراض اور امت میں انتشار کا بیج بونے کےلیے لکھ رہے ہیں ۔
بہر حال حضرت ابن عباس اور حضرت جابر رضی اللہ عنہم سے بسند صیح مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت 12 ربیع اول کو ہوئی ۔(البدایہ والنہایا جلد ۲ صفحہ ۲۶۰) پھر اول سیرت نگار امام محمد بن اسحاق تابعی رضی اللہ عنہ نے بھی یہی تاریخ لکھ ی ہے ۔ (سیرت ابن ہشام جلد ۱ صفحہ ۱۵۹)
دیوبندیوں کی مصدقہ کتاب تواریخِ حبیب الہ میں بھی یہی قول ہے اور مفتی شفیع بھی اس کے قائل ہیں ۔ پھر رہ گئی بات محمود پاشا فلکی کی تو اس کے متعلق شفیع صاحب لکھتے ہیں کہ
اور محمود پاشا نے جو 9 تاریخ کو بذریعہ حسابات اختیار کیا ہے ، یہ جمہور کے خلاف بے سند قول ہے ۔ (سیرت خاتم انبیا صفحہ ۱۸) ۔ اس کی مکمل تفصیل ہم سابقہ مضامین میں لکھ چکے ہیں الحَمْدُ ِلله ۔

اعتراض نمبر ۳ : اس کے بعد معترض نے شیخ جیلانی علیہ الرحمہ کے حوالے سے اعترا ض کیا کہ انہوں نے لکھا ہے کہ 10 محرم کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پیدا ہوئے اور احمد رضا کہتا ہے جو شیخ کی نظر سے کوئی شے پوشیدہ نہیں ۔ اور جو ان کے خلاف کرے اس کی دین و دنیا برباد ۔
اس کا الزامی جواب ہی کہ غوث پاک کا یہی قول اخبار الاخیار میں بھی ہے اور دیوبندی بھی 9 ربیع الول کو پیدائش کا دن مانتے ہیں لہذا اپنے کلیے سے ان کی اپنی دنیا و آخرت برباد ہوگئی ۔
پھر اس کا تحقیقی جواب یہ کہ ہمارے نزدیک غینۃالطالبین میں تحریف واقعہ ہو چکی ہے امام احمد رضا علیہ الرحمہ نے بھی ا س کا تذکرہ کیا ۔ (فتا وی رضویہ ج ۲۹ صفحہ ۲۲۳) ۔ پھر انوارِ شریعت میں بھی یہ موجود ہے کہ یہ غوث پاک کی طرف منسوب ہے اور یہی بات جمیل احمد نذیری دیوبندی نے لکھی ہے ۔ (رسول اللہ کا طریقہ نماز صفحہ ۲۲۰) ۔ لہٰذا یہ اعتراض ساقط ہوا ۔

اعتراض نمبر ۴ : اگلا اعتراض کیا کہ جی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وفات 12 ربیع الاول کو ہوئی لہٰذا اس دن ابلیس کے حواری جشن مناتے ہیں 
پہلی بات تو یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وفات 12 کو نہیں ہوئی ۔ (نشرالطیب تھانوی)(سیرت المصطفی از ادریس کاندھلوی)(سیرت خاتم الانبیا مفتی شفیع)
اگر ہوئی ہو بھی تو سوگ تین دن کا ہوتا ہے ۔ سوائے بیوی کے جس کا شوہر فوت ہو جاۓ ۔ اور یہ بھی یاد رکھیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ایک لمحہ موت کا ذائقہ اپنی شان کے لائق چکھنے کے بعد زندہ ہیں جیسا کہ المہند اور اس کے علاوہ کئی دیوبندی کتب میں اس کی تصریح ہے ۔ لہٰذا سوگ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ یہی فتوی دیوبندی عالم شیخ عبد الرحمن نے دیا ۔ (روزنامہ جنگ ،۲۷فروری ۹۱۹۸۷)
پھر جمعہ کے دن ہی حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش اور اسی دن آپ کی وفات ہے ۔ اور جمعہ کو اللہ نے مسلمانوں نے کےلیے عید قرار دیا ۔ (سنن ابن ماجہ ۱۰۹۸)

دیوبندی مولوی اشرف علی لکھتا ہے : یہ وفات بھی امت کےلیے مظہرِرحمتِ الٰہیہ ہوئی اور جب آپ سببِ رحمت ہیں تو خود
کس درجہ موردِ رحمت ہوں گے تو یہ وفات بھی آپ کےلیے بھی نعمت عظمی ہوئی ۔ (نشرالطیب صفحہ ۱۹۲،چشتی)

پس جب یہ رحمت ہے تو سوگ کیسا ؟

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم

اعتراض نمبر ۵ : اس کے بعد معترض مذکورہ نے پھر چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہی باتیں دہرائیں جو وہ پہلے کر چکا تھا اس کے بعد یہ اعتراض کیا کہ عیدیں صرف دو ہیں اس عید کا نہ تو ثبوت ملتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی اصل ۔ معتعض مذکور کے اس اعتراض کے دو جز ہیں : ⬇

1 ۔ عیدیں دو ہیں ۔
2 ۔ عید میلاد کی اصل نہیں ۔
پہلے کا جواب تو یہ کہ غیر مسلمانوں کے مقابلہ میں ہمیں اسلام نے دو تہوار دیے ہیں ۔ جنہیں عید الفطر اور عید الاضحی کہا جاتا ہے ۔ جبکہ کسی خوشی ، فرط مسرت کے موقع کو لفط عید سے تعبیر کرنا اور منانا شرعی طور پر ممنوع نہیں ۔
1 ۔ ہر خوشی والا دن عید ہے
عید کے معنی ہیں ہر خوشی والا دن۔امام راغب اصفہانی کہتے ہیں
یستعمل العید فی کل یوم فیہ مسرۃ ۔ (المفرادات صفحہ ۳۹۳)
خوشی والے دن کو عید کہتے ہیں ۔ (تفسیر مظہری ج۲)
والعید یوم السرور  (تفسیر خازن ج۱)
پھر مفتی شفیع ، اشرف علی تھانوی نے عید کا معنی ایک خوشی کی بات لکھاہے ۔ اسی طرح عبد الماجد دریاباری نے بھی اس کا ترجمہ ایک جشن کیا ہے ۔صلاح الدین یوسف نے بھی اس کا ترجمہ ایک خوشی کی بات کیا ہے ۔

2 ۔ دستر خوان کے نازل ہونے پر عید ۔ قرآن مجید فرقان حمید میں موجود ہے کہ : قال عیسی ابن مریم اللہماربنا انزل مائدۃمن السماء تکون عید الالنا واٰخرنا ۔
ترجمہ : عرض کیا عیسی ابن مریم نے کہ اے اللہ اے پالنے والے اتار تو ہمارے اوپر دستر خوان تاکہ ہو جائے عید ہمارے اگلوں کےلیے اور پچھلوں کےلیے ۔

آیت مبارکہ سے یہ معلوم ہوا کہ جس دن کوئی نعمت ملے اس دن کو عید قرار دینا جائز ہے ۔
یہاں پر وہابی دیوبندی حضرات استدلال کو سمجھے بغیر لمبی چوڑی گفتگو شروع کر دیتے ہیں ۔اس آیت سے استدلال صرف اتنا ہے کہ جس دن نعمت ملے اس دن کو عید کہنا جائز ہے ۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بھی نعمت ہیں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کے دن کو عید کہنا جائز ہے ۔

3 ۔ آزادی ملنے پر عید ۔ عاشورہ کا دن یہودیوں کےلیے آزادی کا دن تھا ، اسے انہوں نے عید بنایا تھا ۔
حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا : کان یوم عاشورآء تعدہ الیھود عیدا  (صحیح بخاری جلد ۱ صفحہ ۲۶۸)
ترجمہ  عاشورآء کے دن یہودی عید مناتے تھے ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بر سر منبر فرمایا : ان یوم عاشورآء یوم عید ۔ (مصنف عبد الرزاق جلد ۴ صفحہ ۲۹۱)

یوم عاشورہ میں موسی علیہ اسلام کی قوم دشمن سے آزاد ہوئی تو اس دن کو عید قرار دیا گیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت سے تو پورا عالم اسلام آزاد ہوا لہذا یہ بدرجہ اولی عید ہو گا ۔ بہرحال اس مختصر وضاحت سے ثابت ہو گیا کہ خوشی کے دن کو عید کہتے ہیں ۔
اور ہم اشرف علی تھانوی دیوبندی کا قول نقل کر آئے کہ ولادت پر فرح یعنی خوشی جائز ہے تو یہ خوشی کا دن ہے اور عید ہے ۔ ایک بات اور ذہن میں رکھیں ہم اس کو فقہی عید نہیں بلکہ لغوی اور عرفی عید قرار دیتے ہیں ۔ پھر اس کی ایک اصل یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پیر کے دن کا روزہ رکھا ۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۷۵۰) اور مولوی اشرف علی تھانوی دیوبندی نے یہ اقرار کیا کہ آپ نے یہ رو زہ اپنی ولادت کی خوشی میں رکھا ۔ (خطبات میلادالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) ۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بھی اس دن خوشی منائی تو اس اعتبار سے یہ دن بھی عید ہے ۔

4 ۔ عید کا روزہ ۔ وہابی حضرات یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ اگر میلادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا دن عید ہے تو اس دن روزہ نہ رکھو ۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے رکھا تو اس کو عید نہ کہو کیوں عید کا روزہ نہیں ہوتا ۔
جواب : اس کا جواب یہ ہے کہ جمعہ کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے عید قرار دیا ہے جس کا خود وہابیوں کو بھی اقرار ہے ملاحظہ ہو کتاب ہم میلاد کیوں نہیں مناتے صفحہ ۶۲ اسی طرح اشرف علی تھانوی نے بھی اس کو عید تسلیم کیا بہشتی زیور صفحہ ۶۶۸ اور ظاہری بات ہے جمعہ کو روزہ رکھنا جائز ہے ۔ اب ہم وہابیوں سے یہی سوال کرتے ہیں ہیں یا تو جمعہ کا روزہ ناجائز قرار دو یا جمع کوعید کا دن نہ کہو ۔
اس کا تحقیقی جواب یہ کہ جس طرح جمعہ و یومِ عرفہ عرفی عیدیں ہیں ایسے ہی میلاد بھی عرفی عید ہے ۔ اس کے فقہی احکامات نہیں ۔ دیکھو اشرف علی تھانوی کہتا ہے جس دن سورت کہف کی تفسیر مکمل ہوئی وہ دن عید ہے ۔ (بیان القرآن جلد ۲ صفحہ ۲۵۹،چشتی)
تقی عثمانی دیوبندی لکھتا ہے اس سے بڑھ کر روز عید کوئی نہ ہوتا جب وہ کراچی آتے ۔ (نقوشِ رفتگاں صفحہ ۳۱)
اب ہمیں دیوبندیوں سے پوچھنے دیں جب تفسیر مکمل ہو اور بڑا بھائی آئے تو وہ دن عید قرار دیا جا سکتا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کا دن کیوں نہیں عید قرار دیا جا سکتا ؟ایسے ہی وہابی مناظر مناظر نے بھی مومن کی پانچ عیدیں گنوائی : ⬇
ا۔جس بندہ گناہ سے محفوظ ہو
۲۔جس دن خاتمہ بالخیر ہو
۳۔جس دن پل سے سلامتی سے گزرے
۴۔جس دن جنت میں داخل ہو۔
۵۔جب پر وردگار کے دیدار سے بہرہ یاب ہو ۔ (ہفت روزہ تنظیم اہل حدیث بحوالہ کیا جشن عید میلاد النبی غلو فی الدین ہے)
صادق سیالکوٹی نے لکھا کہ جناب عمر نے دو عیدیں ثابت کیں ۔ (جمعہ اور عرفہ کا دن ) ۔ (جمال مصطفی صفحہ ۱۴)

اب ذارا دل تھام کر سنو ۔ شورش کاشمیری دیوبندی نے ولادت والے دن کو عید کہنا اور جلوس وغیرہ نکالنا جائز قرار دیا ۔ (چٹان)
ایسے ہی سلیم یوسف چشتی دیوبندی نہ صرف خود عیدِ میلاد کو تسلیم کیا بلکہ ہندوں تک کے قائل ہونے کا اقرار کیا ۔ (ندائے حق صفحہ ۱۵ ،۱۶)
اس طرح وہابی مولوی مخلص نے میلاد شریف کو عید تسلیم کیا ۔ (توحیدی نعتیں صفحہ ۱۱)

5 ۔ عید میلاد کا فقہ میں ذکر
ایک مولوی صاحب نے یہ اعتراض کیا کہ جی کیا فقہ میں یا حدیث کی کسی کتاب میں عید میلاد کا ذکر ہے ؟
فقیر کہتا ہے وہابیوں کے پاس دماغ نہیں بھوسہ ہے جب ہم یہ بتا چکے ہیں کہ یہ صرف ایک عرفی عید ہے تو پھر اس قسم کے
سوالات پوچھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بغض کا اظہار ہے کہ نہیں ۔ باقی تسلی کےلیے ریاض صالحین کے شرعہ کے یہ الفاظ بھی ملاحظہ کرتے جائیں ۔ مفصل گفتگو اوپر کی جا چکی ہے ۔ و نضرب لھذا مثلا با ولئیک الذین ابتدعو ا عید میلاد الرسول علیہ الصلاۃ والسلام ۔

اعتراض نمبر 5 : یہاں ہم پر ایک اور الزام لگاتے ہیں کہ : تم لوگوں کو عید میلاد انگریز نے دی ہے ۔ (مناظرہ کوہاٹ و پمفلٹ مذکورہ)

یہ بالکل جھوٹ ہے بلکہ شروع سے ہی اہل زوق نے اس دن کو عید قرار دیا ۔ امام قسطلانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ : فرحم اللہ امر اتخذ لیالی شھر مولدہ البمارک اعیادا فیکون اشد علۃ علی من فی قبلہ مرض ۔ (الموہب جلد ۱ صحہ ۲۷،چشتی)
اسی طرح امام ملا علی قاری علیہ الرحمہ نے لکھا : اما اھل مکۃ ۔۔۔یزید اھتمامھم بہ علی یوم العید ۔ (الموردالروی)
اب ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا اما ملا علی قاری اور امام قسطلانی علیہما الرحمہ بھی انگریز کے زمانے میں تھے ؟
رہ گیا یہ حوالہ کہ 12 وفات کو 12 میلاد کر وایا گیا تو اس کا جواب یہ کہ متحدہ ہندوستان میں 12 وفات کے طور پر مشہور تھی جس کو 1 میلاد سے سرکاری طور پر صرف ہندوستان میں تبدیل کروایا گیا ورنہ اس سے پہلے دوسرے ممالک خصوصا حرمین شریفین میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت پر خوشی منائی جاتی تھی ۔ اس بات ہم چند شہادتیں پیش کرتے ہیں ۔ مصنف تواریخ حبیب الہ کی شہادت ۔ مفتی عنائیت احمد کاکوروی علہ الرحمہ رقم طراز ہیں کہ : حرمین شریفین اور اکثر بلادِ اسلام میں عادت ہے کہ ماہ ربیع الاول میں محفل میلاد کرتے ہیں اور مسلمانوں کو مجتمع کر کے ذکر مولود شریف کرتے ہیں اور کثرتِ درود شریف کی کرتے ہیں ۔ اور بطور دعوت کے کھانا شرینی تقسیم کرتے ہیں ۔
آگے لکھتے ہیں : بارہویں ربیع الاول کو مدینہ منورہ میں یہ محفل متبرک مسجد شریف میں ہوتی ہے اور مکہ معظمہ میں مکان ولادت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم (تواریخ حبیب الہ صفحی ۱۵)
اسی طرح امام قسطلانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : فلا زال اھل الاسلام یحتلفون بشہر مولدہ ۔ (مواہب الدنیہ صفحہ ۲۷)
اسی طرح امام ابن جوزی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : لا زال اھل حر مین الشریفین والمصر والیمن والشام و سائر بلاد العرب من المشرق و المغرب یحتلفون بمجلس مولد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم و یفرحون بقدوم ھلال شہر ربیع الاول ۔
پھر یہ دائمی عمل ہے کسی کو اس کا موجد قرار دینا بھی حقائق کو مسخ کرنا ہے ۔ ہماری اس بات کی شہادتیں تو بہت ہیں مگر ہم نے یہاں پر صرف دو حوالے نقل کیے ہیں ۔ پھر جب یہ ثابت ہو گیا کہ یہ قرآن سے ثابت ہے تو انداز بدلتے رہتے ہیں مگر اصل وہی رہتی ہے ۔

اعتراض نمبر 6 : جلوس بدعت ہے اس کو صحابہ نے نہیں کیا۔بلکہ تم لوگوں 1932 میں ایجاد کیا ۔
یہاں پر ایک بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ہمارا دعوی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت پر کسی بھی جائز طریقے سے خوشی منانا مستحب ہے ۔ اب اس میں محفلِ میلاد ، جلوس ، چراغاں سب شامل ہیں ۔ جب یہ بات اوپر ثابت ہو چکی کہ آپ کی ولادت پر خوشی منانا جائز ہے تو اس میں ان سب کا ثبوت بھی ہو گیا ۔ پھر کسی خوشی کے موقع پر جلوس نکالنا خو د صحابہ سے بھی ثابت ہے ۔ مثلاً جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایمان لے آئے اس وقت جلوس نکالا گیا ۔ (تاریخ الخلفا صفحہ ۱۱۴،چشتی)
حجۃ الوداع کے موقع پر جلو نکالا گیا ۔ (زرقانی جلد ۳ صفحہ ۱۰۶)
جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہجرت کر کے مدینہ آئے تب جلوس نکالا گیا ۔ (بخاری جلد ۱ صدحہ ۵۵۵،چشتی)

غر ض کہ خوشی کہ موقع پر جلوس منانا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے ۔ اس کے علاوہ شیخ قطب الدین مکیحنفی علیہ الرحمہ نے اہل مکہ کا ولادتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے موقع پر جلوس نکالنا لکھا ہے ۔ (الاعلام با علام بیت اللہ لاحرام صفحہ ۲۹۷،۲۹۸)
پھر مفتی فرید دیوبندی نے لکھا ہے کہ جلوس عید میلاد جائز ہے ۔ (فتاوی فریدیہ جلد ۱ صفحہ ۳۱۵)
پھر جن لوگوں نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے جلوس کو بدعت کہا تو ان کو مولوی حق نواز جھنگوی دیوبندی کہتا ہے کہ : چند سال اپنے فتوے کی توپ بند رکھو ۔ (حق نوازکی ۱۵ تاریخ ساز تقریریں)

ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اپنے منہ کو بند رکھو ۔ پہلے اپنے گھر کی خبر لو پھر ہم پر بکواس کرنا ۔

اعتراضات نمبر 7 : آخر میں کچھ علما کے حوالے دیے جنہوں نے میلاد کو بدعت کہا ہے ۔
جواب : اگر کچھ لوگوں نے میلاد کو بدعت کہا ہے تو کثیر سلف صالحن علیہم الرحمہ نے اس کو مستحب بھی کہا ہے ۔ اب رہ گیا یہ مسئلہ کہ جب کچھ اس کے جواز کے قائل اور کچھ اختلاف کے تو کیا کرنا چاہیے تو آٶ اس سوال کا جواب مولوی اسماعیل دہلوی قتیل سے پوچھتے ہیں و ہ کہتا ہے : اب جب کہ قبر کو بوسہ دینا اختلافی مسائل میں سے ایک مسئلہ ثابت ہوا ، لہٰذا اگر کوئی متقی عالم و جہ جواز کو ترجیح دے تو اس کےلیے بوسہ قبر جائز ہے یہی حکم ان تمام روایات میں ہے جن میں اختلاف ہے ۔ (شاہ اسماعیل اور ان کے ناقد صفحہ ۷۶)

اب ہمیں ان علما مثلاً امام ابن جوزی ، شیخ عبد الحق ، امام جلال الدین سیوطی علیہم الرحمہ کے تقویٰ کا ثبوت دینے کی کوئی ضرورت نہیں پھر بھی کسی کو شک ہو تو وہ فضائل اعمال کا صفحہ نمبر ۹۸ ، سیرت نبی بعد از وصال نبی جلد ۵ صفحہ ۲۳۰اور ج ۷ ص ۲۰ ، اخبار اخیار کا مقدمہ یا افاضات الیومیہ کو ملاحظہ کرے ۔بہر حال اسماعیل دہلوی قتیل کے فتوے سے میلاد کا جواز ثابت ہو گیا ۔ یہاں تک پمفلٹ نمبر ایک کے اعتراضات ختم ہوئے ۔

اب آتے ہیں ایک دوسرے پمفلٹ کی طرف بعنوان (مسلمانوں کےلیے لمحہ فکریہ) اس میں بھی تقریباً وہی باتیں تھیں پر جو نئے اعتراضات تھے ان کا جواب حاضر ہے ۔

اعتراض نمبر 1 ۔ عید میلاد انگریز نے دیا اور ان عید منانا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گستاخی ہے ۔ (صحہ ۱،۲)
جواب : اس کا تفصیلی جواب اوپر گزر چکا ۔

اعتراض نمبر 2 : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وفات چاشت کے وقت ہوئی اس وقت جشن منانا گستاخی ہے ۔ (صفحہ ۲) ۔ یہی اعتراض ابو ایوب قادریدیوبدی نے بھی نے کیا تھا ۔ (مناظرہ کوہاٹ)
جواب : اس کا جواب اوپر ہو چکا کہ آپ کی وفات بھی رحمت ہے لہٰذا غم کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اگر ہمارا جلوس نکالنا گستاخی ہے تو پھر تم جو حضرت صدیق اکبر و دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کی وفات والے دن جلوس نکالتے ہو کیا یہ گستاخی نہیں ؟

اعتراض نمبر 3 : کیا صحابہ نے جشن میلاد منایا ؟
جواب : اس کا تفصیلی جواب بھی اوپر ہو گیا ۔ پھر یہ کہنا کہ جی ایسی عبادت جو صحابہ رضی اللہ عنہم نے نہ کہ ہو وہ بدعت ہے ؟ تو اس کا جواب یہ کہ مولوی اشرف علی تھانوی نے لکھا کہ : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ذکر عین عبادت ہے ۔ (میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صفحہ ۹۵)

تو جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ذکر عبادت ہے تو کیا صحابہ رضی اللہ عنہم نے کیا کہ نہیں کیا ؟ کیا اور یقیناً کیا ملاحظہ ہو صحیح مسلم و مسند امام احمد بن حنبل جلد ۴ صحہ ۹۲) ۔ اور اوپر بھی یہ حوالہ ہو چکا کہ خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی ولادت پر روزہ رکھا ۔ (صحیح مسلم رقم :۱۹۷۷،چشتی)(ابو داود رقم :۲۰۷۱)
پھر ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت پر خوشی منانا یہ بنفسہ تو ثابت نہیں مگر با اصلہ ثابت ہے ۔

اعتراض نمبر 4 : امام شاطبی نے کہا کہ عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ کسی اور دن کو عید قرار دینا بدعت ہے ؟
جواب : تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دونوں اصطلاحی عیدیں ہیں اور کسی اور دن کو اصطلاحی عید قرار دینا بدعت ہے عرفی نہیں ۔ ورنہ جمعہ یا یوم عرفہ کو عید کہنا بھی بدعت ہو گا ؟

اعتراض نمبر 5 : دس محرم کو میلاد نہ منانے سے دین و دنیا برباد ہو جاتے ہیں کیوں کہ یہ غوث پاک کے قول کی مخالفت ہے ۔
اس کا جواب بھی اوپر ہو چکا یہاں صرف اتنا عرض ہے کہ غنیہ میں جہاں یہ نقل کیا ہے وہاں قول کا قائل مجہول ہے ہے اور وہاں صاف صاف لکھا ہے وقال بعضہم ۔ اب معترض کا یہ فرض کر لینا کہ بعضہم سے شیخ جیلانی مراد ہیں تو یہ ان کی سینہ زوری ہے ۔

اعتراض نمبر 6 : آج تک یہ فیصلہ ہی نہیں ہو سکا کہ میلاد کی شرعی حثیت کیا ہے ؟؟م
جواب : یہاں یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ میلاد مجموعی طور پر ایک مستحب عمل ہے ۔ تاہم اس کے اندر ہوہنے والے افعال بعض مستحب بعض مباح اور بعض واجب کے زمرے میں آتے ہیں ۔ مثلاً نعمتِ رب پر خوشی منانے کا حکم ہے اس لحاظ سے یہ واجب ۔اور مروجہ ہیت سے کرنا بدعتِ حسنہ اور کیوں کہ اس کی ممانعت پر کوئی دلیل نہیں اس لیے یہ مباح ۔
مستحب : فقیر بتا چکا ہے کہ میلاد مجموعی طور پر مستحب ہے ۔
سنت : مستحب سنت کی ہی ایک قسم ہے ۔ (علیکم بسنتی صحہ ۶)
بدعتِ حسنہ : جس کو بدعت حسنہ کہتے ہیں وہ سنت ہی ہے ۔ (فتاوی رشیدیہ صفحہ ۸۸ جلد ۱)
واجب : جب کسی مستحب پر واجب کا اطلاق ہوتا ہے تو تاکید کےلیے نہ کہ فقہی طور پر ۔ علامہ عینی علیی الرحمہ شرح ابو داود میں لکھتے ہیں : ومثل ہذا واجب یسمی وجوب الاختیاروالاحتسان ۔اسی طرح مولوی اشرف علی تھانوی تہجد کو واجب کہنے کی توجیہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ : واجب سے مراد واجب اصطلاح نہیں بلکہ واجب لغوی یعنی موکد ۔(السنۃالجلیلہ صفحہ ۱۱۱)
باقی تمام علما نے اس کو مستحب ہی لکھا ہے ۔ دیکھو مولوی انور شاہ کاشمیری نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی قبرمبارک کی زیارت کو واجب قرار دیا ہے ۔ (انوار الباری جلد ۲ صفحہ ۴۳۳)
جب کہ یہ ایک مستحب عمل ہے ۔اب اس پر دیوبندی کیا کہیں گے ؟

ممانعت پر دلیل دو : آیاتِ قرآنی
جب یہود و نصاری نے یہ دعوی کیا کہ ہمارے سوا جنت میں کوئی نہیں جائے گاتو اللہ عزوجل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے فرمایا : قل ھاتو بر ھانا کم ان کنتم صادقین   (البقرہ۱۱۱)
ترجمہ : محبوب ان کو فرماٶ کہ اپنی (بات کی) دلیل لاو اگر تم سچے ہو ۔
یعنی جب یہود و نصاری نے اپنے سوا سب کے جنت جانے کی نفی کی تو اللہ تعالی نے ان کے نفی دعوی پر ثبوت مانگا ۔
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : قل من حرم زینۃاللہ التی اخرج لعبادۃوالطیبات من الرزق ۔ (سور الاعراف۳۲)
ترجمہ : فرمائیے اللہ کی زینت جو اس نے اپنے بندوں کےلیے پیدا کی ہے اور (کسنے حرام کیے) لذیذ اور پاکیزہ کھانے ۔
یہاں بھی کسی چیز کو غلط ، ناجائز ، حرام اور اس کے متعلق منفی دعوی کرنے والے سے ثبوت مانگا گیا ہے ۔

احادیث مبارکہ بھی اس امر پر گواہ ہیں کہ جب تک کسی کام روکا نہ جائے تب تک اس کو ممنوع اور ناجائز نہیں سمجھنا چاہیے ۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : حلال ہے وہ جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کیا ۔
وما سکت عنہ فھو مما عفی عنہ
اور جس کا ذکر نہیں کیا وہ سب معاف ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ ۲۴۹)
ایک اور مقام پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : ذرنی ماترکنکم ۔ اس کا ترجمہ وہابیوں کے شیخ الاسلام نے یوں کیا ہے : جب تک منع نہ کرو منع مت سمجھو ۔ (فتاوی ثنائیہ جلد ۱ صفحہ ۵۲۲،چشتی)

اکابرین امت کے اقوال

فتح الباری میں ہے : ان کانت مما تندرج تحت مستحن فی الشرع فھی حسنۃ وان کانت مما تندرج تندرج تحت مستقبح فی لاشرع فھی من قسم المباح ۔ (فح الباری جد ۳ صفحہ ۲۹۳)

در مختار میں ہے : لا یلزم منہ ان یکون مکروھاالابنہی خاص،لا ن الکراھۃحکم شرعی فلا بد لہ من دلیل ۔ (در مختار جلد ۱ صفحہ ۶۵۳)

وہابیوں کے اکابرین کے اقوال

وہابی مولوی ثنا اللہ امرتسری لکھتا ہے : جواز کے بر خلا ف دعوی کرنے والا مدعی ہے اس کا فرض ہے کہ اس کا ثبوت شرع شریف سے دیکھاوے ۔ (فتاوی ثنائیہ جلد ۱ صفحہ ۱۱۶)
دوسرے مقام پر ایک مصلے پر دوبارہ نماز پڑھنے کے متعلق سوال کے جواب میں لکھتا ہے : جائز ہے منع کی کوئی دلیل نہیں (فتاوی ثناٸیہ جلد ۱ صفحہ ۵۲۲)
اسی طرح فتاوی اہل حدیث میں ہے : برات ضروری نہیں مگر کسی روایت میں منع بھی نہیں ۔ (فتاوی ایل حدٕث جلد ۲ صفحہ ۴۰۰) ۔ اسی کے صفحہ ۴۲۶ پر لکھتے ہیں : حرام نہیں کہہ سکتے حرمت کی کوئی دلیل نہیں ۔
اسی طرح وہابی حضرات کے مولوی ابو البرکات سے جب گردوں اور کپوروں کے بارے میں سوال ہوا تو اس نے جواب دیا کہ : ان دونوں کے حلال ہونے کی دلیل یہی ہے کہ قرآن و حدیث نے ان سے منع نہیں کیا ۔ ہر چیز کی اصل حلت ہے اگر قرآن و حدیث میں کسی چیز کی حرمت نہ بیان کی گئی ہو ۔ (فتاوی برکاتیہ صفحہ ۲۰۸)
ایسے ہی نواب وحید الزماں لکھتے ہیں : کل شی ی لک مطلق حتی یرد فیہ نھی ، ہر چیز کا کرنا تجھ کو روا ہے یہاں تک کے اس کی ممانعت میں کچھ وارد نہ ہوجائے  (لغات الحدیث جلد ۳ صفحہ ۳۸)

دیوبندیوں کے اکابرین کے اقوال

قاری طیب صاحب لکھتے ہیں کہ : عدم ذکر کے معنی دنیا میں کہیں بھی نفی اور ممانعت کے نہیں ہوتے ۔ (کلمہ طبیہ صفحہ ۸۴)
ایسی ہی مفتی فرید دیوبندی لکھتا ہے : جس امر کے متعلق پیغمبر علیہ السلام سے نہی وارد نہ ہو وہ بدعت اور مکروہ نہیں ہوتا ۔ (فتاوی فریدیہ جلد ۱ صفحہ ۵۹۳)

بہر حال ان تمام حوالہ جات سے یہ واضح ہو گیا کہ میلاد کو بدعت کہے والوں کو اس کی ممانعت پر دلیل پیش کرنی چاہیے مگر :
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں

چند مزید عمومی اعتراضات کا جائزہ

1 ۔ میلاد بشر کا ہوتا ہے ۔
جواب : وہابی دیوبندی حضرات عام طور پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جی میلاد تو بشر کا ہوتا ہے اور تم نبی کو بشر نہیں مانتے ۔ تو جواباً عرض ہے کہ جھوٹھو ں پر اللہ کی لعنت الحمد اللہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بے مثل بشر مانتے ہیں ۔ اور جو اس کا انکار کرے وہ ہمارے نزدیک کافر ہے ۔ لہٰذا یہ اعتراض ہم پر فٹ نہیں ہوتا ۔ پھر خود وہابی ابو ایوب دیوبندی لکھتا ہے : ظاہر ہے بریلوی حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بشریت کا میلاد مناتے ہیں ۔ (۵۰۰ با ادب سوالات صفحہ ۵۳) ۔ اس کو کہتے اپنے منہ اپنا تھپڑ ۔ اسی طرح مفتی مختار الدین دیوبندی لکھتا ہے : ان حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ بریلوی بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بشریت کے قائل ہیں ۔ (راہِ محبت صفحہ ۳۴)
آگے لکھتا ہے : اس طرح بعض بریلوی علما نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بشریت کا انکار کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ تو ایسے الزامات لگانا ان کے ساتھ بہت زیادتی اورظلم ہے ۔ (راہِ محبت صفحہ ۴۰)
اسی طر ح وہابیوں کے مولوی لکھتے ہیں : قائدین بریلویہ کے فتو ی و فیصلہ اور عقیدہ کہ رسول بشر ہوتے ہیں ۔ (مقیاس حقیقت صفحہ ۱۲۶)
ان حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بے مثل بشر تسلیم کرتے ہیں ۔

کیا اگر مستحب عمل میں برائیاں جمع ہوں تو اس کوبند کر دینا چاہیے ؟
اس کا جواب یہ کہ اگر کسی عمل میں منکراتِ شریعہ مل جائیں تو وہ حرام نہیں ہوتا ۔ وہ حرام تب ہوگا جب ان منکرات کے بغیر اس کا تصور ہی نہ ہو ۔ اور اگر منکراتِ شریعہ میں اس میں داخل ہو جائیں تو ان منکرات کو دور کیا جائے گا ۔ دیکھو شامی میں ہے
ولا تترک لما یحصل عندھا من منکرات و مفاسد کا ختلاط الرجل با لنسٰا ء وغیرھا لان القربات لا تترک لمثل ذلک بل علی الا نسان فعلھا و انکار البدع ۔ یعنی زیارت قبور اس لیے مت چھوڑ دے کہ وہاں ناجائز کام ہوتے ہیں جیسے مرد عورت کا خلط کیو نکہ ان جیسی ناجائز باتوں سے مستحبات نہیں چھوڑے جاتے بلکہ انسان پر ضروری ہے کہ زیارت قبور کرے اور بدعت کو روکے ۔
اسی طرح امداد المشتاق میں ہے
اگر کسی عمل میں عوارض غیر مشروع لا حق ہقں تو ان عوارض کو دور کرنا چاہیے نہ یہ کہ اصل عمل سے انکار کر دیا جائے ایسے عمور سے انکار کرنا خیر کثیر سے باز رکھنا ہے ۔ (امداد المشتاق صفحہ ۹۱)
اس کے حاشیے میں تھانوی کہتا ہے کہ البتہ اصرار کرنا کہ تارکین سے نفرت زیادتی ہے ۔ (امداد المشتاق صفحہ ۹۲)

نوٹ : یاد رہے یہ کتاب تھانوی نے ۱۳۴۳ میں لکھی ۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آمد ہے اور جوتیوں سے استقبال کرتے ہیں ؟
جواب : ہم کہتے ہیں لعنت ہیں گستاخوں پر ۔ شرم نہیں آتی نعلین شریف کو جوتا لکھتے ہوئے ۔لعنتیوں ہم نعلین لگا کر استقبال نہیں بلکہ اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہم تو اس نعلین کی شبیہ سے بھی کرڑور درجہ کم تر ہیں اور یہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مہربانی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہمیں اپنا ثنا خوان بنایا ہے ۔ باقی خود تھانوی نے ادب و شوق طبعی کے ساتھ نقش رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ادب اور اس کی تکریم بجا لانے کی اجازت دی ہے ۔(بوادر النوادر صفحہ ۳۴۱)

آخر میں عرض ہے کہ ہمارا دیوبندیوں وہابیوں سے یہ اصل اختلاف نہیں بالکہ اصل اختلاف عقیدے کا ہے ۔ان کے چند عقائد درج کیے جاتے ہیں : ⬇

اللہ جھوٹ بول سکتا ہے ۔ (یک روزہ ،براہین قاطعہ ،چٹان،فتاوی رشیدیہ)
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا علم جانوروں و پاگلوں جیسا ہے ۔ (مفہوم عبارت حفظ الایمان)
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا علم شیطان سے کم ہے ۔ (براہین قاطعہ و فتاوی حقانیہ)
امتی عمل میں نبی سے بڑھ جاتے ہیں ۔ (تحذیرالناس )
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اللہ کی شان کے آگے چمارسے بھی ذلیل ہیں ۔ (فتاوی رشیدیہ ، تقویۃالایمان)
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا خیال بیل اور گدھے کے خیال سے برا ہے ۔ (صراط مستقیم)
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مر کے مٹی میں مل گئے ۔ (تقویۃ الایمان )
اللہ کو زمان و مکان سے پاک جاننا بدعت حقیقی ہے۔(تقویة الایمان)
ذکر میلاد کنہیا کے جنم دن منانے کی طرح ہے  (براہین قاطعہ)
رحمۃ العالمین حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صفت خاصہ نہیں ۔(فتاوی رشیدیہ)

نوٹ : مندرجہ بالا تمام عقائد ہم نے مفہوم بیان کیے جو دیوبندیوں کی عبارات کا حاصل ہیں ۔ اگر کسی قسم کی غلطی ہو تو اصلاح فرمائیں ۔ آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اس حقیر سی کاوش کو قبول فرماۓ ۔ اور اس کو ہمارے لیے توشہ آکرت بنائے ۔ جو کوئی اس سے فائدہ اٹھائے وہ فقیر چشتی کےلیے دعا کرے جزاك الله ۔ (مزید حصّہ نمبر 30 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔