Thursday, 6 April 2023

فضائل و مناقب ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حصّہ پنجم

فضائل و مناقب ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حصّہ پنجم
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نکاح اور رخصتی کے وقت عمر کی تحقیق : حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  کی شادی کے وقت 9 سال عمر بتائی گئی ہے جو عقل و نقل کی رو سے غلط ہے ۔ اس سے غیر مسلموں بلکہ پڑھے لکھے مسلمانوں کو بھی انکار حدیث کا بہانہ مل گیا ہے ۔ فقیر کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک شادی کے وقت کم سے کم 17 یا 19 سال تھی ۔ اس موضوع پر درجنوں کتابیں موجود ہیں چند اہم کتب جن میں ناقابلِ تردید دلائل و شواہد اور تاریخی حوالوں سے ثابت کیا گیا ہے کہ آپ کی عمر شادی کے وقت 9 کی بجائے 19 برس تھی ، درج ذیل ہیں : ⬇

(الصديقة بنت الصديق محمود عباس العقاد) عربی)(أمهات المؤمنين ڈاکٹر علی الشریعتی عربی)(مسلمانوں کی مائیں رازق الخیری)(تقویم تاریخی عبد القدوس الھاشمی)(حیات ام المومینین محمد سعید)(امہات المومنین اور مستشرقین ظفر علی قریشی)(کشف الغمہ حبیب الرحمان صدیقی)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  کی بڑی بہن سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا طویل العمر صحابیات میں سے ہیں ۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی والدہ محترمہ ہیں ۔ بڑی خدا رسیدہ عبادت گذار اور بہادر خاتون ان کی عمر تمام مورخین نے سو سال لکھی ہے ۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ان سے دس سال چھوٹی ہیں ۔ سیدہ اسماء حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے پانچ یا دس دن بعد فوت ہوئیں ۔ سن وفات 73ھ ہے ۔ اس حساب سے سیدہ اسماء کی عمر ہجرت کے وقت 27 سال ہوئی اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ان سے دس سال چھوٹی ہیں تو آپ کی عمر ہجرت کے وقت 17 سال ہوئی ۔ اگر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  کی رخصتی 2ھ کو مانی جائے تو رخصتی کے وقت آپ کی عمر مبارک 19 سال ہوئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نکاح و رخصتی کے وقت ام ا لمومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی کم عمری اور کم سنی تاریخ کا ایسا پہلو ہے جس میں اصلاح کی گنجائش موجود ہے اور ہمارا قبلہ درست ہونا چاہیے ۔ عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نکاح چھ برس کی عمر میں اور رخصتی نو برس کی عمر میں ہوئی ۔

اس خیال کی اس قدر پبلسٹی کی گئی ہے کہ حقیقت بالکل پس پردہ چلی گئی ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس کے بر عکس تاریخ سے ہمیں یہ روشنی ملتی ہے کہ نکاح کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر 15 سال ہجرت کے وقت اٹھارہ سال اور رخصتی کے وقت انیس سال تھی اور اس کے ثبوت بھی قوی اور کثیر ہیں تو ممکن ہے بہت سے لوگوں کےلیے یہ بات بالکل نئی ہو ۔ اس قدر واضح اور روشن تاریخی حقیقت دانستہ یا نا دانستہ نجانے کیوں چھپائی گئی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زیادہ عمر والی روایات کے مقابلہ میں ، کم سنی یا بچبن پر دلالت کرنے والی روایات کو کس بناء پر ترجیح دی گئی ؟ ۔ اس موضوع پر مزید گفتگو سے پہلے ہم عام طور پر بیان کی جانے والی روایات کا جائزہ لیتے ہیں ۔

بتایا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ولادت اعلان نبوت کے چار برس بعد شوال کے مہینہ میں ہوئی ۔ نبوت کے دسویں سال جبکہ آپ رضی اللہ عنہا کی عمر چھ سال تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نکاح ہوا ۔ اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بچپن غالب تھا اور آپ رضی اللہ عنہا بچیوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں ۔ آپ کی اماں آئی اور اندر لے گئی۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آ کر نکاح پڑھا دیا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ جملہ بھی منسوب ہے کہ “جب میرا نکاح ہوا تو مجھ کو خبر تک نہ ہوئی ۔ جب میری والدہ نے باہر نکلنے میں روک ٹوک شروع کی تب میں سمجھی کہ میرا نکاح ہو گیا ۔ اس کے بعد میری والدہ نے مجھے سمجھا بھی دیا ۔

آگے ہم جو حقائق پیش کریں گے ان میں قارئین کو تاریخ سمجھنے میں مشکل پیش آ سکتی ہے ۔ آپ کی آسانی کے لئے اس کی وضاحت پیش ہے ۔ جس طرح ہم انگریزی سال بیان کرنے میں سن کے ساتھ عیسوی لکھتے ہیں اور اسلامی سن کے ہمراہ ہجری لکھتے ہیں ۔ اسی طرح آگے ہم نبوی اور محمدی کی اصطلاح بھی استعمال کریں گے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ولادت سے اعلان نبوت کے دورانیے کو “محمدی“ اور برس کو “سال محمدی“ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب ایک برس کے ہوئے تو اسے یکم محمدی کہیں گے ۔ اعلانِ نبوت سے ہجرت تک کا دورانیہ “نبوی“ اور ہجرت کے بعد “سن ہجری“ کہلاتا ہے ۔ یعنی ہجرت سے پہلے کے سالوں کو نبوی اور نبوت سے پیشتر کے سالوں کو محمدی کے نام سے پہنچانا جاتا ہے ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی کم سنی پر دلالت کرنے والی روایات مورخ ابن سعد کی کتاب طبقات میں ہونے کی وجہ سے مستند گردانی جاتی ہے ۔ اس پر مزید کوئی تبصرہ کیے بغیر ہم چند دوسری مستند کتابوں سے رجوع کرتے ہیں جو ہمارے موقف کی تائید کرتی ہیں ۔ چونکہ یہ استدلال کئی کتابوں کا ہے اس لیے زیادہ ثبوت کی وجہ سے اس پر ہی یقین کیا جانا چاہیے ۔

مورخ ابی جعفر محمد بن جریر ا لطبری نے اپنی مشہور عالم کتاب تاریخ طبری میں خلیفہ اول سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ازواج کا تذکرہ کیا ہے اسی کے آخر میں ایک جملہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ولادت آمد اسلام سے پہلے ہوئی تھی ۔ علی بن محمد کی روایت ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے زمانہ جاہلیت میں قتیلہ سے نکاح کیا تھا ۔ واقدی اور کلبی بھی اس روایت سے متفق ہیں وہ کہتے ہیں کہ قتیلہ کا شجرہ یہ ہے قتیلہ بنت عبد ا للعزیٰ بن عبد بن اسعد بن جار بن مالک بن حمل بن عامر لوئی ۔ قتیلہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے یہاں عبداللہ اور اسماء (عبدا للہ بن زبیر کی والدہ) پیدا ہوئیں ۔ نیز زمانہ جاہلیت میں آپ نے ام رومان بنت عامر بن عمیرہ بن ذاہل بن وہمان بن ا لحارظ بن غنم بن مالک بن کنانہ سے نکاح کیا تھا اور بعض لوگوں کا قول ہے کہ وہ اُم رومان بنت عامر بن عویمر بن عبد شمس بن عتاب بن اذینہ بن سبیع بن وہمان بن ا لحاث بن غنم بن مالک بن کنانہ تھیں ۔ ان کے بطن سے آپ کے یہاں عبد الرحمان اور عائشہ رضی اللہ عنہما پیدا ہوئیں ۔ آپ کی یہ چاروں اولادیں جو ان دو بیویوں سے پیدا ہوئیں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے ۔ قبل از اسلام کے زمانے میں پیدا ہوئی تھیں ۔ (تاریخ طبری مترجم صفحہ 271)

یہاں طبری نے چاروں اولادوں کی سن پیدائش کا تو ذکر نہیں کیا لیکن یہ تذکرہ موجود ہے کہ یہ سب اولادیں بعثت نبوی سے قبل پیدا ہوئیں ۔ حضرت عائشہؓ جوان چاروں میں سے سب سے چھوٹی تھیں آپ بھی نبوت سے قبل پیدا ہوئی تھیں ۔

سیرت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مشہور کتاب سیرة ابن ہشام کی جانب آئیے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے چالیس سال کی عمر میں نبوت کا اعلان فرمایا ۔ ابتدائی اسلام قبول کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم السابقون الاولون کہا جاتا ہے ۔ ابن ہشام نے سابقون الاولون کی جو فہرست اپنی کتاب میں بیان کی ہے اس میں اٹھارویں نمبر پر حضرت اسماءبنت ابوبکر اور انیسویں نمبر پر حضرت عائشہ بنت ابوبکر رضی اللہ عنہم کا نام دیا ہے ۔ (تفصیل کےلیے دیکھیے سیرة ابن ہشام صفحہ نمبر 126،چشتی)

کہاں تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا سال ولادت ہی 4 نبوی یعنی نبوت کا چوتھا سال بتایا جاتا ہے ۔ دوسری طرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اسلام قبول کرنے والی انیسویں صحابیہ ہیں اور ظاہر ہے قبول اسلام ایسی صورت میں ہی کیا ہوگا کہ آپ رضی اللہ عنہا کو کفرو اسلام کو سمجھنے کا شعور حاصل تھا ۔ اس سے بھی ثابت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بعثت نبوی سے قبل مکہ میں پیدا ہوئی تھیں ۔

تاریخ طبری اور سیرت ابن ہشام سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی پیدائش بعثت نبوی سے قبل ہو گئی تھی لیکن آپ کی پیدائش کب ہوئی ۔ آئیے یہ تلاش کرتے ہیں ۔ حدیث کی معروف کتاب مشکٰوة المصابیح کی کتاب اسماءا لرجال متعلقہ مشکٰوة میں ہے “ حضرت اسماء بنت ابی بکر صحابیہ ہیں اور حضرت عائشہ کی سوتیلی بہن ہیں اور ان سے دس برس بڑی ہیں ۔ قدیم ا لاسلام ہیں ۔ سترہ آدمیوں کے بعد اٹھارویں اسلام قبول کرنے والی ہیں ۔ ان کی وفات ان کے صاحبزادہ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کی شہادت کے چند دن بعد 73 ہجری میں ہوئی اس وقت ان کی عمر سو برس کی تھی ۔

اسما الرجال کی ایک اہم کتاب اسد الغابہ میں حضرت اسما رضی اللہ عنہا کے بارے میں اسی بات کی تصدیق یوں ہوتی ہے : حضرت اسما حضرت عائشہ سے بڑی تھیں ۔ حضرت عائشہ والد کی جانب سے ان کی بہن تھیں ۔ عبداللہ بن ابی بکر ان (حضرت اسما) کے حقیقی بھائی تھے ۔ ابو نعیم نے کہا کہ ان کی پیدائش ہجرت سے ستائیس سال پہلے ہوئی تھی اور جب ان کی پیدائش ہوئی تو ان کے والد (یعنی حضرت ابو بکر) کی عمر کچھ اوپر بیس سال کی تھی حضرت اسما سترہ آدمیوں کے بعد اسلام لائی تھیں رضی اللہ عنہم ۔ (اسد ا لغابہ جلد 5 صفحہ 292،چشتی)

ابن کثیر نے اپنی شہرہ آفاق تالیف البدایہ والنہایہ میں حضرت اسما کا تذکرہ بالکل اسی طرح کیا ہے : اور حضرت اسما موت کے اعتبار سے تمام مہاجرین و مہاجرات میں سب سے آخری ہیں ۔ ان کی بہن حضرت عائشہ ہیں۔ ان کے والد ابوبکرصدیق ہیں ۔ ان کے دادا ابو عتیق ہیں ۔ ان کے بیٹے عبداللہؓ ہیں اور ان کے شوہر حضرت زبیر ہیں اور یہ سب کے سب صحابی ہیں ۔ حضرت اسماء اپنے بیٹے اور شوہر کے ساتھ معرکہ یرموک میں شریک تھیں ۔ یہ اپنی بہن عائشہ سے دس سال بڑی تھیں ۔ 73ھ میں جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے انہیں اپنے بیٹے عبداللہ کے قتل کا واقعہ دیکھنا پڑا اس واقعہ کے پانچ دن بعد اور ایک قول ہے کہ دس دن بعد ، تیسرا قول ہے کہ بیس دن بعد اور چوتھا قول ہے کہ کچھ اوپر بیس دن بعد اور پانچواں قول ہے کہ سو دن بعد اور یہی قول مشہور ہے ۔ حضرت اسما نے وفات پائی ۔ وفات کے وقت ان کی عمر سو سال تھی ۔ رضی اللہ عنہم ۔ (البدایہ و النہایہ جلد 8 صفحہ 346،چشتی)

اسلمت اسماء قديما وهم بمکة فی اول الاسلام ... وهی آخر المهاجرين والمهاجرات موتا. وکانت هی اکبر من اختها عائشة بعشر سنين .. بلغت من العمر ماته سنة ۔
ترجمہ : اسماء مکہ میں اوائل اسلام میں مسلمان ہوئیں ۔ مہاجرین مردوں عورتوں میں سب سے آخر فوت ہونے والی ہیں۔ اپنی بہن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  سے دس سال بڑی تھیں ۔ (ابن کثير، البدايه والنهايه 8 / 346 طبع بيروت)

اسلمت قديما بعد اسلام سبعة عشر انسانا ... ماتت بمکة بعد قتله بعشره ايام وقيل بعشرين يوماً وذلک فی جمادی الاولیٰ سنة ثلاث وسبعين ۔
ترجمہ : مکہ معظمہ میں سترہ آدمیوں کے بعد ابتدائی دور میں مسلمان ہوئیں۔۔۔ اور مکہ مکرمہ میں اپنے بیٹے (عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ) کی شہادت کے دس یا بیس دن بعد فوت ہوئیں اور یہ واقع ماہ جمادی الاولیٰ سن 73ھ کا ہے ۔ (علامه ابن حجر عسقلانی، تهذيب التهذيب 12 ص 426 طبع لاهور، الامام ابوجعفر محمد بن حرير طبری، تاريخ الامم والملوک ج 5 ص 31 طبع بيروت، حافظ ابونعيم احمد بن عبدالله الاصبهانی م 430ه، حلية الولياء وطبقات الاصفياء 2 ص 56 طبع بيروت)

اسلمت قديما بمکة وبايعت رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم .. ماتت اسماء بنت ابی بکرالصديق بعد قتل ابنها عبدالله بن الزبير وکان قتله يوم الثلثاء لسبع عشرة ليلة خلت من جمادی الاولیٰ سنة ثلاث وسبعين ۔
ترجمہ : سیدہ اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  مکہ معظمہ میں قدیم الاسلام ہیں ۔ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیعت کی ۔ اپنے بیٹے عبداللہ بن زبیر کی شہادت کے چند دن بعد فوت ہوئیں ۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  کی شہادت بروز منگل 12 جمادی الاولیٰ 73ھ کو ہوئی ہے ۔ (محمد ابن سود الکاتب الواقدی 168ه م 230ه الطبقات الکبریٰ ج 8 / 255 طبع بيروت)

کانت اسن من عائشة وهی اختها من ابيها.. ولدت قبل التاريخ لسبع وعشرين سنة ۔
ترجمہ : سیدہ اسمائ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  سے زیادہ عمر کی تھیں۔ باپ کی طرف سے سگی بہن تھیں ۔ ہجرت سے 27 سال قبل پیدا ہوئیں ۔ (امام ابن الجوزی، اسدالغايه فی معرفة الصحابة ج 5 ص 392 طبع رياض)

اسلمت قديما بمکة قال ابن اسحق بعد سبعة عشر نفسا .. بلغت اسماء مائة سنة ولدت قبل الهجرة لسبع وعشرين سنة ۔
ترجمہ : سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا  مکہ مکرمہ میں ابتدائً مسلمان ہوئیں ۔ ابن اسحاق نے کہا سترہ انسانوں کے بعد سو سال عمر پائی ہجرت سے 27 سال پہلے پیدا ہوئیں ۔ (شهاب الدين ابوالفضل احمد بن علی بن حجر عسقلانی، الاصابة فی تميز الصحابة 4 ص 230 م 773ه طبع بيروت، سيرة ابن هشام م 1 ص 271 طبع بيروت، علامه ابن الاثير، الکامل فی التاريخ 4، ص 358 طبع بيروت،چشتی،علامه ابوعمر يوسف ابن عبدالله بن محمد بن عبدالقرطبی 363ه، الاستيعاب فی اسماء الاصحاب علی هامش الاصابة 463ه ج 4 ص 232 طبع بيروت، حافظ شمس الدين محمد بن احمد الذهبی، تاريخ الاسلام ودفيات المشاهير والاسلام ج 5 ص 30 طبع بيروت، الروض الانف شرح سيرة ابن هشام ج 1 ص 166 طبع ملتان،چشتی)

حضرت عائشہ کی عمر اور حضرت اسماء کی عمر کی نسبت
بقول عبدالرحمن ابن ابی الذناد۔ حضرت اسماء، حضرت عائشہ سے دس سال بڑی تھیں ۔ (سیار العلم النبالہ، الذہابی ، جلد 2 ، صفحہ 289 عربی ۔ موسستہ الرسالہ، بیروت ، 1992)

بقول ابن کثیر: حضرت اسماء اپنے بہن حضرت عائشہ سے 10 سال بڑی تھیں۔ (البدایہ والنہایہ، ابن کثیر، جلد 8، ص371، دار الفکر العربی الجزاہ، 1933)

بحوالہ ابن کثیر : حضرت اسماء نے اپنے بیٹے کو 73ھ میں مرتے ہوئے دیکھا۔ اور پھر 5 دن، یا 10 دن یا 20 دن یا' کچھ دن' یا 100 دن بعد( دنوں کی تعداد مورخ یا محدث پر منحصر ہے) ان کی وفات 100 برس کی عمر میں ہوئی ۔ (البدیاہ والنہایہ، ابن کثیر، جلد 8، ص 372، دار الفکر العربی، الجزاہ، 1933)

بحوالہ ابن حجار الاثقلینی : حضرت اسماء - 100 سو برس زندہ رہیں اور 73ھ یا 74 ھجری میں وفات پائی ۔ (تقریب التہذیب، ابن حجار الاثقلینی، ص 654، عربی۔ باب فی النساء، الحرف الیف، لکھنئو،چشتی)

تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت اسماء کی وفات - سو برس کی عمر میں 73ھ یا 74 ھ میں ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ھجرت کے وقت ، 27 یا 28 برس کی تھیں ۔ جس کے حساب سے حضرت عائشہ کی عمر ہجرت کے وقت 17 یا 18 سال اور رسول اللہ کے گھر 19 یا 20 سال کی عمر سے رہنا شروع کیا ۔

حجار ، ابن کثیر ، اور عبدالرحمن کی درج روایات کے مطابق ، حساب کرنے سے ، حضرت عائشہ کی عمر ، شادی کے وقت 19 یا 20 سال بنتی ہے ۔

یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں سن ہجری کا آغاز نہیں ہوا اور سن عیسوی یا کسی اور سن کا عرب معاشرے میں تعارف یا چلن نہ تھا۔

اہل عرب کسی مشہور تاریخی واقعہ سے سالوں کا حساب کرتے تھے مثلاً واقعہ اصحاب فیل ، سے اتنا عرصہ پہلے یا بعد وغیرہ ۔ باقاعدہ سن ہجری کا آغاز حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  نے اپنے دور خلافت میں کیا اور اس کا آغاز سال ہجرت سے کیا ۔

پہلی سن ہجری ، دوسری سن ہجری ، تیسری سن ہجری میں کم سے کم امکانی مدت ۔ پہلی سن ہجری کا آخری دن یعنی 30 ذی الحجہ لیں اور دوسری سن ہجری کا پہلا دن یعنی یکم محرم ، دو سنوں میں وقفہ ایک دن ۔ دوسرے رخ سے دیکھیں پہلی سن ہجری کا پہلا دن یعنی یکم محرم ، دوسری سن ہجری کا آخری دن یعنی 30 ذی الحجہ، کل مدت دو سال مکمل ۔ دونوں صورتوں میں سن بدل گئے مگر ایک طرف ایک دن ملا اور دوسری طرف پورے دو سال ۔ جب تک تاریخ اور مہینہ متعین نہ ہو یہ فرق باقی رہ کر ابہام پیدا کرتا رہے گا ۔

آج کل پرنٹ میڈ یا کتنی ترقی کر چکا ہے مگر کتابوں میں ، اخبارات میں ، حد تو یہ کہ قرآن کریم کی طباعت و کتابت میں غلطی ہوجاتی ہے ، پہلا دور تو ہاتھوں سے کتابت کا دور تھا ، ممکن ہے ’’تسع عشر‘‘ انیس سال عمر مبارک ہو ، مگر کتابت کی غلطی سے تسع یا تسعاً رہ گیا اور عشر کا لفظ کتابت میں ساقط ہوگیا ہو ، تسع عشر انیس سال کی جگہ تسعاً یا تسع یعنی نو سال باقی رہ گیا اور آنے والوں نے نقل درنقل میں اسی کو اختیار کرلیا کہ نقل کرنے والے اعلیٰ درجہ کے ایماندار ، پرہیزگار ، علوم وفنون کے ماہر ، صحیح و سقیم میں امتیاز کرنے والے ، نہایت محتاط لوگ تھے ۔ وجہ سقوط کچھ بھی ہونا ممکن نہیں ۔ حقائق بہر حال حقائق ہوتے ہیں ، ان کے چہرے پر گردو غبار تو پڑ سکتا ہے مگر ہمیشہ کےلیے اسے مسخ نہیں کیا جا سکتا ۔ احادیث کی تمام کتب میں ایسے تسامحات کا ازالہ کیا جانا چاہیے تاکہ بد اندیش کو زبان طعن دراز کرنے کی ہمت نہ رہے ۔

متذکرہ بالا تاریخی کتابوں کی شہادتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ 73 ھ میں حضرت اسما کی وفات سو سال کی عمر میں ہوئی ۔ اس حساب سے حضرت اسما ہجری میں 28 سال کی تھیں اور ان کی ولادت 2 قبل از ہجری مطابق 15 قبل نبوت مطابق 26 محمدی میں ہوئی تھی ۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ان سے عمر میں دس سال چھوٹی تھیں اس لیے ولادت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 36 محمدی مطابق 5 قبل ہجرت کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر اٹھارہ سال کی تھی ۔ ہجرت سے دو سال قبل آپ کا نکاح ہوا تھا ہجرت کے ایک سال بعد یعنی انیس سال کی عمر میں آپ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حرم میں داخل ہوئیں ۔

صحیح بخاری میں امام بخاری علیہ الرحمہ نے کتاب الہجرت باب نکاح عائشہ رضی اللہ عنہا کے زیر عنوان ایک روایت درج کی ہے ۔ حدیث بہت طویل ہے او ر اس کا مکمل متن و ترجمہ یہاں نقل کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔ تفصیل صحیح بخاری کی کتاب الہجرت میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ البتہ اس کے ابتدائی حصہ کا ترجمہ مندرجہ ذیل ہے : ⬇

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا اپنے والدین کو دین سے مزین پایا اور کوئی دن ایسا نہ ہوتا تھا کہ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صبح و شام دونوں وقت ہمارے ہاں تشریف نہ لاتے ہوں ۔ پھر جب مسلمانوں کو ستایا جانے لگا تو ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی ہجرت کے ارادے سے ارض حبشہ کی طرف چل دیے ۔ حتیٰ کہ مقام برک الغماد پہنچے تو قبیلہ قارہ کے سردار ابن الدغنہ سے ملاقات ہوئی ۔ اس نے پوچھا اے ابوبکر رضی اللہ عنہ کہاں جانے کا ارادہ ہے ؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ اب زمیں کی سیاحت کروں اور اپنے رب کی عبادت کروں ۔ ابن الدغنہ نے کہا کہ تم جیسا آدمی نہ نکل سکتا ہے اور نہ نکالا جا سکتا ہے ۔ تم حاجت مند کی مدد کرتے ہو ۔ رشتہ داروں سے سلوک کرتے ہو بے کسوں کی کفالت کرتے ہو ۔ مہمان کی ضیافت کرتے ہو اور دوسروں کےلیے راہ حق میں تکلیف اٹھاتے ہو ۔ میں تمہیں اپنی پناہ میں لیتا ہوں ۔ چلو لوٹ چلو اور اپنے وطن میں رہ کر اپنے رب کی عبادت کرو ۔ چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ابن الدغنہ کے ساتھ واپس آئے ۔

تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ حبشہ کی اولین ہجرت 5 نبوی کے دوران ہوئی اور اسی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی حبشہ روانہ ہونے کا ارادہ کیا لیکن ابن الدغنہ کی حمایت پر واپس آ گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر صبح شام آنے جانے کا متذکرہ بالا معمول یقیناً 5 نبوی سے پہلے کا ہے ۔ یعنی 5 نبوی سے قبل ہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اتنے شعور کو پہنچ چکی تھیں کہ کفر و اسلام کا فرق جانتی تھیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روزانہ دو مرتبہ آمد ، مسلمانوں کو اسلام قبول کرنے کی پاداش میں ستائے جانے ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ابن الدغنہ سے ملاقات و گفتگو اور اس کی حمایت میں واپسی کا گہرا مشاہدہ ان کی نظر میں تھا ۔ اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا چار نبوی میں پیدا ہوئیں تو ان کو شعور سنبھالنے میں بھی کم از کم پانچ سال کا عرصہ لگتا یعنی نو نبوی تک لیکن اس کے برعکس آپ رضی اللہ عنہا 5 نبوی سے قبل کے واقعات مشاہداتی انداز میں بیان فرما رہی ہیں ۔ اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ آپ اتنا شعور رکھتی تھیں کہ ان معاملات کو سمجھ سکیں ۔

بعثت نبوی سے پہلے اور بعد کے کئی واقعات میں سن و سال کا اختلاف تاریخ کے قاری کےلیے پرایشانی کا سبب بنتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سفر معراج بھی ایسے ہی واقعات میں سے ایک ہے جس میں بہت اختلاف ہے ۔ ہجرت سے تین سال پیشتر سے لے کر ہجرت سے چھ ماہ قبل تک دس اقوال ملتے ہیں ۔ اس کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ واقعہ معراج حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عقد سے پہلے کا ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نکاح 10 نبوی میں ہوا یعنی واقعہ معراج اس نکاح سے پہلے پیش آیا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سفر معراج کے مشاہدات لوگوں میں بیان فرمائے تو فوراً ہی یہ موضوع زبان زد عام ہو گیا ۔ مخالفین اس ما ورائے عقل واقعہ پر تنقید کرتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سوالات کرتے اور آپس میں اس موضوع پر تبادلہ خیال کرتے ۔ اس واقعہ کو روایت کرنے والوں میں پینتالیس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام ملتے ہیں ۔ ان میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نام بھی شامل ہے ۔ نکاح سے پہلے کا یہ وہ دور ہے جس کے بارے میں اکثر لوگ جھوم جھوم کر یہ بتاتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اتنی کم سن تھیں کہ محلے کی بچیوں کو بلا کر گڑیوں سے کھیلا کرتی تھیں ۔ اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس وقت اتنی کم عمر تھیں تو اتنے سنجیدہ اور عمیق موضوع پر رائے کیوں دی اور اس میں دلچسپی کیوں لی ؟

سب جانتے ہیں کہ سنجیدہ موضوعات پر چار پانچ سالہ بچوں کی رائے کو کبھی اور کہیں کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تو پھر معراج کے معجزہ بیان واقعہ پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رائے کیوں دی اور آپ کا نام راویان کرام میں کیوں شامل کیا گیا ؟

اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا واقعہ معراج کے وقت عالمِ شباب میں تھیں اور شعور میں بلوغت نمایاں ہو چکی تھی ۔ آپ کی عقلی فراست کی تاریخ گواہ ہے چنانچہ آپ رضی اللہ عنہا کی رائے کو بھی اس میں شامل کرلیا گیا ۔

ہمارا منشا یہ نہیں ہے کہ قدیم روایات پر شخصی رائے کو غالب کر دیا جائے چنانچہ تمام جگہ مستند تسلیم کی جانے والی کتابوں کے حوالے پیش کیے ہیں چونکہ یہ تمام ثبوت بہت زیادہ ہیں اور زیادہ واضح ہیں اس لیے ان کی شہادت کو کسی بھی طرح رد نہیں کیا جا سکتا ۔ اب ہم چند دیگر گزارشات کی جسارت بھی کریں گے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی کم عمری میں یا بچپن میں نکاح اور شادی عقلی اصولوں کے خلاف اور باعثِ شرم بھی ہے ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ظاہری دور میں یا بعد میں کسی صحابی ، تابعی ، تبع تابعین ، ولی اللہ ، مفسر ، محدث ، فقیہہ یا عالم نے نہ اپنی بیٹی کی شادی چھ یا نو سال میں کی نہ ان کے متبعین میں سے کسی ایک نے بھی اس کی جرات کی ۔ کیوں؟ صرف اس لیے کہ ایسی شرمناک حرکت کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا ۔ چھ سال کی عمر ہی کتنی ہوتی ہے ؟ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا آج ہم میں سے کوئی اپنی بچی ، بہن ، بیٹی ، بھانجی ، بھتیجی یا کسی عزیز کی بیٹی کی شادی چھ یا نو سال میں کرنے کے بارے میں سوچ سکتا ہے ؟

کچھ لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں پرانے زمانے میں لڑکیاں جلد بالغ ہو جاتی تھیں اس لیے ممکن ہے ایسا ہو ا ہو ۔ ہم ان سے سوال کرتے ہیں اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے تو اس دور میں صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین رضی اللہ عنہم سے لے کر عام آدمی تک کسی سے بھی منسوب ایسا واقعہ کیوں نہیں ملتا ۔ ہمارا ذاتی طور پر خیال یہ ہے کہ ابتدائی صدیوں کے صحابہ ، تابعین اور دیگر اصحاب رضی اللہ عنہم یہ جانتے تھے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا شادی کے وقت انیس برس کی تھیں اور عالمِ شباب میں تھیں ۔ آج بھی طبعی ، جسمانی اور ذہنی اعتبار سے انیس سال کی یہ عمر شادی کےلیے بہترین تسلیم کی جاتی ہے ۔ ہماری اپنے مسلمان بھائیوں سے درخواست ہے کہ خدا را کچھ کہنے سے پہلے غور بھی کر لیا کیجیے سیرت کا مطالعہ محض رٹا لگا لینے کا نام نہیں اس میں تفکر کرنا بھی ہمارا فرض ہے ۔ جو فعل اپنی بہن بیٹیوں کےلیے معیوب سمجھا جاتا ہو اسے نعوذ باللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر کیوں کر ڈالا جا سکتا ہے ؟ ۔ ہم میں سے اکثر مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام پر گردنیں کٹوانے سے بھی دریغ نہیں کرتے لیکن محترم دوستو ! ہمیں ایسی چیزیں بھی ضرور مدِ نظر رکھنی چاہئیں جن سے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اسلام پر حرف آ سکتا ہے ۔ عام طور پر کسی بھی مذہبی موضوع پر گفتگو سے پہلے اس کا ثبوت مانگا جاتا ہے جو فقیر چشتی نے مستند کتابوں کے حوالہ جات کی صورت میں دے دیا ہے ۔ اب فیصلہ آپ کے اوپر ہے کہ اسلام کے اس پہلو کا جواب غیر مسلموں کو کیا دیتے ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...