Thursday 20 April 2023

عید الفطر کے فضائل ، فلسفہ ، احکام و مسائل اور پیغام

0 comments

عید الفطر کے فضائل ، فلسفہ ، احکام و مسائل اور پیغام

محترم قارئینِ کرام : عید کا لفظ عود سے بنا ہے ، جس کامعنیٰ لوٹنا اور خوشی کے ہیں ، کیونکہ یہ دن مسلمانوں پر باربار لوٹ کر آتا ہے اور ہر مرتبہ خوشیاں ہی خوشیاں دے جاتا ہے ، اس لیے اس کو عید کہتے ہیں ۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر سال اس دن اپنے بندوں پرانواع و اقسام اور طرح طرح کے انعامات اور احسانات لوٹاتا ہے اور اس دن خوشی ومسرت کا اظہار کرنا لوگوں کی عادت ہے ۔ یہ دن فرزندانِ اسلام کےلیے نہایت ہی مسرت و شادمانی کادن ہوتاہے ۔ یہ دن بچوں ، بوڑھوں ، جوانوں اورعورتوں سب کےلیے یکساں طور پر خوشیوں کا پیغام لاتا ہے اور ہر ایک بندہ اپنے غموں ، پریشانیوں اور مصائب و آلام کو یکسر بھول کر عید کی حقیقی خوشیوں اور جشنِ طرب سے لطف اندوز ہوتا ہے ۔ عید اور خوشی کا یہ دن مسلمانوں کا عظیم اور مقدس مذہبی تہوار ہے ، جو ہر سال ما ہِ شوال المکرم کی یکم تا ریخ کو انتہا ئی عقیدت واحترام ، جو ش و جذبے اور خوشی ومسرت کے سا تھ منا یا جا تا ہے ۔ عید الفطر دراصل تشکر وامتنان ، انعا م و اکرام اور ضیا فت ِخدا وندی کا دن ہے کہ رمضان المبا رک کا تمام مہینہ عبادت دریاضت ، روزوں اور نما زِ تراویح میں مشغول رہنے کے بعد شوال کی پہلی تا ریخ کو اللہ تعالیٰ اپنے عبادت گزار اور اطا عت گزار بندوں کو انعام و اکرام ، بے شماررحمتیں و برکتیں ، بے حساب اجرو ثواب اور اپنی رضا ایسی بیش بہا دو لت و نعمت عطا فر ما تا ہے ۔

اُمتِ محمدیہ کےلیے عید کا انعام

عید الفطر ! در حقیقت یو م الجا ئزہ اور یوم الانعام ہے ، کیوں کہ اس دن ﷲ تبا رک و تعا لیٰ اپنے بندوں کو انعام و اکرام ، اجرو ثواب اور مغفرت و بخشش کا مژدہ سنا تا ہے۔ عید الفطر کا دن گنا ہوں کی مغفرت اور نزوِ ل رحمت ِ با ری کا دن ہے۔جیسا کہ حضر ت عبد ﷲ بن عبا س رضی ﷲ عنہ سے رو ا یت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشا د فر ما یا کہ : ’’جب عید الفطر کی رات آتی ہے ، تو اس کا نا م آسما نوں پر لیلتہ الجائزہ (یعنی انعام و کرام کی رات) لیا جا تا ہے ۔ اور جب عید کی صبح ہو تی ہے ، تو ﷲ تعالیٰ فر شتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے ، وہ زمین پر اتر کر تما م گلیوں اور راستوں پر کھڑے ہوجا تے ہیں اور ایسی آواز سے(جسے جنات اور انسانوں کے علا وہ ہر مخلو ق سنتی ہے ) پکا رتے ہیں کہ اے امت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ! اس رب کر یم کی با رگاہ کی طرف چلو ، جو بہت زیا دہ عطا فر ما نے وا لا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معا ف فر ما نے وا لا ہے ۔

جب لو گ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو ﷲ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتاہے کہ اس مزدور کا کیا بدلہ ہے جو اپنا کام پورا کرچکا ہو ؟ ۔ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے باری تعالیٰ ! اس کابدلہ یہ ہے کہ اس کو پوری مزدوری دے دی جائے ۔ ﷲ تعالیٰ فرماتاہے کہ اے فرشتو ! میں تمھیں گواہ بناتاہوں کہ میں نے انہیں (رمضان المبارک کے روزوں اور قیام الیل کے بدلے) اپنی رضااور مغفرت عطاکردی ہے ۔

اورﷲ تعالیٰ بندوں سے ارشاد فرماتا ہے : اے میرے بندو مجھ سے مانگو ، مجھے میری عزت وجلال کی قسم آج کے دن تم اپنے اجتماعِ عیدمیں دنیاوآخرت کے بارے میں جوسوال کروگے میں تمھیں عطاکروں گا …… میری عزت وجلال کی قسم جب تک تم میرا خیال رکھوگے میں تمھارے عیوب پرپردہ ڈالوں گا اور تمہیں مجرموں اورکافروں کے سامنے رسواہ نہیں کروں گا ، پس اب تم مغفور(بخشے ہوئے) ہوکراپنے گھروں کو لوٹ جاؤ ، تم نے مجھے راضی کرلیا اور میں تم سے راضی ہوگیا۔ فرشتے آج عیدکے دن امت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کوملنے والے اس اجروثواب کودیکھ کر بہت خوشیاں مناتے ہیں ۔ (الترغیب والترھیب/ مجمع الزوائد،چشتی)

عید کا حقیقی مفہوم

دین ِاسلام چونکہ’’خیرالادیان‘‘ہے اور امت محمدیہ’’خیرالامم‘‘ہے،اس لئے اس کا عیدمنانے کاطریقہ بھی سب سے منفردوجدا،سب سے ممتاز،سب سے نرالااورسب سے بہترین بلکہ فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔دین اسلام کے فطری ہونے کی بڑی دلیل یہ ہے کہ اسلام زندگی کے ہرموڑپر کامل انسانی اورفطری ہدایات دیتاہے۔حیات وممات، خوشی وغمی بلکہ یہ زندگی کے ہر شعبہ میں بہترین اصول دیئے ہیں ۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی اصول وقوانین کے لحاظ سے عیدالفطر کی کیاحقیقت ہے اورایک دوسرے کوعیدکی مبارک بادپیش کرنے سے کیامراد ہے اور عید درحقیقت کس کیلئے ہے۔عربی کے کسی شاعر نے بہت ہی خوب صورت اور دلنشین انداز میں عید کا اسلامی مفہوم و مقصود بیان کیا ہے : ⬇

لَیْسَ الْعِیْدُلِمَنْ لَبِسَ الْجَدِیْدُ
اِنَّمَا الْعِیْدُ لِمَنْ خَافَ الْوَعِیْدُ

ترجمہ : عیداس کی نہیں ہے کہ جس نے نئے کپڑے پہن لیے بلکہ عیدتو درحقیقت اس کی ہے جو عذابِ الٰہی سے ڈر (کرگناہوں سے بازرہ) گیا ۔

یعنی عید اس شخص کی نہیں ہوتی جوصرف نئے اور جدید لباس پہن لے، خوشبو لگالے،زیب وزینت کرلے اور مختلف انواع واقسام کے کھانے وغیرہ سے لطف اندوزہوجائے بلکہ عیدتواس شخص کی ہے جس نے تقویٰ وپرہیزگاری کواختیار کیا اور اپنے نیک اعمال کی بہ دولت ﷲ تعالیٰ کی رضاکو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔جس نے رمضان المبارک میں خوب عبادت کے ذریعے نیکیوں،رحمتوں اوربرکتوں سے اپنے نامۂ اعمال کولبریز کیاہواور حقوق ﷲ وحقوق العبادکوپورا کرکے سعادت دارین کوپالیاہو،حقیقی عیدتو درحقیقت ایسے شخص کے لئے ہے۔

عید کس طرح منانی چاہیے ؟

اس سلسلے میں خلیفہ دوم امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق رضی ﷲ عنہ کا نمونہ عمل ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔عیدکے دن لوگ کاشانۂ خلافت فاروقی پر حاضر خدمت ہوئے توکیا دیکھتے ہیں کہ امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق رضی ﷲ عنہ دروازہ بند کرکے زاروقطار رورہے ہیں،لوگوں نے عرض کیا، اے امیرالمؤمنین!آج توعیدکادن ہے اورخوشی و مسرت منانے کادن ہے،آج یہ خوشی کی جگہ روناکیسا ہے؟ آپ رضی ﷲ عنہ نے اپنے آنسوپونچھتے ہوئے ارشادفرمایا کہ : ھٰذَاالْیَوْمُ الْعِیْدُ وَھَذَا الْیَومُ الْوَعِیْدُ ۔ آپ نے فرمایا کہ:’’ اے لوگو!یہ عیدکادن بھی ہے اور وعیدکادن بھی ہے۔آج جس خوش نصیب کی نمازیں،روزے اورصدقہ وخیرات مقبول ہوگئے ہیں،بلاشبہ اس کیلئے آج عید(حقیقی خوشی)کادن ہے لیکن آج جس کے نمازاور روزوں کومردود(غیر مقبول)کردیا گیاہو،اس کیلئے آج وعیدکادن ہے اورمیں تواس خوف سے ڈررہا ہوں کہ …… انالاادری اَمِن المقبولین ،اَمِن المطرودین…… یعنی مجھے یہ نہیں معلوم کہ میں ﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہواہوں یاغیرمقبول کردیا گیاہوں ۔ یعنی درحقیقت عیدتوان خوش نصیب مسلمانوں کیلئے ہے،جنہوں نے اس پورے ماہِ مقدس کاصحیح معنوں میں احترام کیااوراس کے دنوں کوروزوں میں اور راتوں کو قیام وسجوداور عبادت وریاضت میں گزارا اس لئے یہ عیدان کیلئے ﷲ تعالیٰ کی طرف سے مزدوری اور انعام واکرام ملنے کادن ہے۔

عید کی حقیقی اورانمول خوشی

روایت میں آتا ہے کہ خلیفہ انقلاب وخلیفۂ ثانی امیرالمؤمنین حضرت عمرفاروق رضی ﷲ عنہ نے عیدکے دن اپنے فرزندارجمندکوپرانی قمیص پہنے دیکھاتوآپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بیٹے نے کہا:’’اے ابا جان!آپ عید کے دن کیوں رو رہے ہیں‘‘۔آپ رضی ﷲ عنہ نے فرمایاکہ:’’اے پیارے بیٹے! مجھے اندیشہ ہے کہ آج عید کے دن جب لڑکے تجھے اس پرانی قمیص میں دیکھیں گے توتیرا دل ٹوٹ جائے گا۔آپ کے عظیم بیٹے نے بڑا ہی دل رُبااورپیاراجواب دیاکہ : اے اباجان!آج دل تواس کاٹوٹے گاجو رضائے الٰہی کونہ پاسکاہویااس نے اپنے والدین کی نافرمانی کی ہو۔اور مجھے امیدہے کہ آپ کی رضاکی بہ دولت ﷲ تعالیٰ بھی مجھ سے راضی ہوگا……یہ سن کرحضرت عمر فاروق رضی ﷲ عنہ نے اپنے عظیم بیٹے کو گلے سے لگا لیا اور اپنی مستجاب دعاؤں سے نوازا ۔ (مکاشفۃ القلوب،چشتی)

اسلام کا فلسفۂ عید الفطر

قرآن مجیدکامطالعہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ گزشتہ قومیں اورامتیں بھی عید منایاکرتی تھیں۔کسی خاص دن خوشی اورمسرت کااہتمام کرکے عیدمنائی جاتی تھی۔چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ سے پتہ چلتاہے کہ ان کی قوم بھی ایک خاص دن عیدوخوشی منایاکرتی تھی۔اور اس دن شہرسے باہرایک کھلے میدان میں تین دن تک میلہ لگاتے تھے،جہاں لوگ اپنے اپنے اندازمیں خوشی کااظہار کرتے تھے۔ ہرقوم کاخوشی منانے کادن اورعید منانے کا اپنااپناطریقہ ہوتاتھا،مگر حضور تاج دارِختم نبوت پیغمبر انقلاب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی بعثت مبارکہ کے بعدعیداورخوشی منانے کا انداز اور طریقہ ہی بدل گیا ۔ اسلام سے قبل عیدوں میں لہوولعب،کھاناپینااورکھیل کودہوتاتھااور اب عید کے دن نمازِعید اور ذکرالٰہی ہوتاہے ۔ پہلے عیدوں میں غریبوں کو دور کیاجاتاتھا اور اب غریبوں کوگلے لگایا جاتا ہے ۔ پہلے عیدوں میں فضول خرچی اورخرافات ہوتی تھیں اوراب عیدکے دن صدقہ وخیرات اور فطرانہ اداکیاجاتاہے ۔

ادائے صدقہ فطر

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خوشی کی وہ تقریب جس میں غریب اور نادار لوگوں کو شریک نہ کیا جائے،ﷲ تعالیٰ اور اسلام کی نظر میں وہ سخت ناپسندیدہ ہے۔ اس لئے حضور رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا فرمان عالیشان ہے کہ’’ روزوں کی عبادت اس وقت تک زمین وآسمان کے درمیان معلق(لٹکی ہوئی یعنی بارگاہ ِ خداوندی میں غیر مقبول) رہتی ہے جب تک کہ صاحب نصاب مسلمان صدقہ فطر ادا نہیں کرلیتا‘‘۔ (صحیح مسلم/ جامع ترمذی،چشتی)

اسی طرح ایک اورحدیث مبارک میں رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ : صدقہ فطرروزوں کو لغو اورگندی باتوں سے پاک کرنے کیلئے اور مسکینوں کی روزی کیلئے مقررکیا گیا ہے‘‘۔ (سنن ابی داؤد)

صدقہ فطرکی ادائیگی سے اہل ایمان کودوفائدے حاصل ہوتے ہیں، روزہ کی حالت میں جو خراب اور گندی باتیں زبان سے نکلیں، صدقہ فطرکے ذریعے روزہ ان سے پاک ہوجاتاہے اور دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ عید کے دن ناداروں اور مسکینوں کی مددہوجاتی ہے اور وہ بھی عیدکی خوشیوں میں شریک ہوجاتے ہیں۔

صدقۂ فطرادا کرنے کرنے والے شخص کو جس قسم کی گند م یاآٹا خود استعمال کرتا ہے اس کے سوادوکلو گرام یا اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔واضح رہے کہ صدقۂ فطر کے واجب ہونے کے لئے روزہ رکھنا یا بالغ ہو ناشرط نہیں ہے۔

صدقہ فطر !نمازِ عید سے پہلے پہل ادا کردیناچاہئے کہ یہی سنت ہے۔ لیکن اگر کسی مجبوری کی وجہ سے نمازِ عیدسے پہلے ادا نہیں کر سکا تو عمر بھر اس کی ادائیگی کا وقت ہے، جب بھی ادا کرے گا، واجب ساقط اور صدقہ فطر ادا ہو جائے گالیکن مسنون اور بہتر یہ ہے کہ صدقہ فطرنمازِعید سے پہلے ہی ادا کر دینا چاہئے بلکہ ہو سکے تو رمضان المبار ک کے مقدس ومتبرک مہینے میں ادا کردے کہ اس کا اجروثواب بے حدو بے حساب ہوگااور دوسرا یہ کہ صدقہ فطر کی ادائیگی سے غریب اور نادارلوگ بھی اپنی عید کیلئے خاطرخواہ سامان کر سکیں گے۔

صدقہ فطر میں تنوع/اقسام

جس طرح قربانی کے جانوروں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے تنوع کو مشروع و مسنون فرمایا۔ اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے صدقہ فطر میں بھی تنوع کو مشروع فرمایا ہے۔چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے زمانہ میں ہم ایک صاع(چار کلو گرام) طعام یا ایک صاع (چارکلو) کھجور یں یا ایک صاع (چارکلو) جَو یا ایک صاع (چار کلو) کشمش صدقہ فطر ادا کرتے تھے۔ جب حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ کا زمانہ آیاتو گندم آگیا اور انہوں نے کہا میری رائے میں نصف صاع (دو کلو) گندم ان کے چار کلو کے برابر ہے ۔ (صحیح بخاری،سنن ابوداؤد،سنن ترمذی،چشتی)

محدث اعظم پاکستان مفسرقرآن علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر’’تبیان القرآن ‘‘میں رقمطرازہیں کہ…… ’’جس طرح قربانی کے جانوروں میں تنوع ہے اور ان کی کئی اقسام ہیں، اس طرح صدقہ فطر میں بھی تنوع ہے اوراس کی کئی اقسام ہیں اور جو لوگ (مال ودولت کے حساب سے) جس حیثیت کے ہوں وہ اسی حیثیت سے صدقہ فطر ادا کریں، مثلاً جو کروڑ پتی لوگ ہیں وہ چار کلو پنیر کے حساب سے صدقہ فطر ادا کریں اور جو لکھ پتی ہیں وہ چار کلو کشمش کے حساب سے اور جو ہزاروں روپے کی آمدنی والے ہیں وہ چار کلو کھجور اور سینکڑوں کی آمدنی والے دو کلو گندم کے حساب سے صدقہ فطرادا کریں۔(تفسیرتبیان القرآن: جلد7صفحہ761،مطبوعہ فریدبک اسٹال لاہور،چشتی)

دینی تعلیم کی ترویج ، نشر و اشاعت میں آیئے ہمارا ساتھ دیجیئے

ہم میں سے ہر ایک کی یہ خواہش ہے کہ وہ اپنی پونچی ایسی جگہ لگائے جہاں سے اسے زیادہ سے زیادہ نفع حاصل ہو ، اس میں کیا شک ہے کہ جس سرمایہ کاری کو اللہ تبارک و تعالی بہترین فرما دیں وہ ہی بہترین ہے ۔ اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں۔إِنْ تُقْرِضُوا اللَّـهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعِفْهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّـهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ (سورہ التغابن) ترجمہ : اگر تم اللہ تعالیٰ کو قرضِ حسن دو تو وہ تمہیں کئی گنا بڑھا کر دے گا ، اور تمہارے گناہوں کو معاف فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ بڑا قدردان اور بردبار ہے ۔
فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ہے : إذا مات ابن آدم انقطع عمله إلا من ثلاث: صدقة جارية، أو علم ينتفع به، أو ولد صالح يدعو له، (رواه مسلم)
ترجمہ : جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل بند ہوجاتا ہے؛ مگر تین چیزیں: (1) ایک صدقہٴ جاریہ یعنی ایسا صدقہ جس سے زندہ لوگ نفع حاصل کرتے رہیں (2) دوسری ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے رہیں (3) تیسری ایسی نیک اولاد جو اپنے والدین کے لیے دعا کرتی رہے ۔
قرآنی آیت اور حدیث پاک سے یہ بات بخوبی معلوم ہو رہی ہے کہ اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے اللہ تعالی کی راہ اور دین کے کاموں میں خرچ کیا جائے اور اپنے خرچ کیے ہوئے کو اللہ تعالی کے ہاں بے حد و حساب اضافے کے ساتھ وصول کر لیا جائے ۔ نیز دین کے کام عظیم صدقہ جاریہ ہیں ۔ مثلا ، نادار و غریب بچوں کو دینی تعلیم دینا اور دلوانا ، دین کی نشر و اشاعت کرنا یا اس میں معاونت کرنا آیئے ان عظیم کاموں میں ہمارا ساتھ دیجیئے : ہمارا اکاؤنٹ نمبر 0001957900055503 حبیب بینک کیولری گراؤنڈ برانچ لاہور ۔ موبی کیش اکاؤنٹ نمبرز : 03009576666 ۔ 03085555970 ۔ آپ کا دیا ہوا عطیہ کئی مستحق بچوں کی زندگی بدل سکتا ہے اور کتنے ایسے لوگوں تک علم دین پہنچ سکتا ہے جن کے پاس وسائل نہیں ہیں اور آپ کے تعاون سے تبلیغ دین میں ہمیں سہولت میسر آسکتی ہے دینی کتب کی صورت میں اللہ تعالیٰ ہمیں نیک کام کرنے اور نیک کاموں میں شامل ہونے اور حسب حثیت مالی تعاون کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔

نمازِ عید اور فرزندان اسلام کا عظیم اجتماع

عیدکے دن تمام صاحبان ایمان مساجداورعیدگاہوں میں حاضرہوکراپنے رب تعالیٰ کے حضور نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ نمازِعیداداکرتے ہیں اوراشک ندامت بہاکراپنے گناہوں، خطاؤں اورلغزشوں سے توبہ کرتے ہیں اوراپنے ملک و قوم کی سلامی و استحکام اوربقاء کیلئے اور ملت اسلامیہ کے اتحادواتفاق،امن وسلامتی اورخوشحالی کیلئے دعائیں مانگتے ہیں اورنمازِعیدکایہ منظرکتناایمان افروز اور روح پروَر ہوتاہے کہ آج کے عظیم دن میں خصوصاًنمازعید میں امت مسلمہ کا اخوت وبھائی چارے اورمسلم برادری کاعظیم الشان منظر پیش ہوتا ہے جس میں تمام اہل ایمان کارنگ ونسل کے فرق وامتیاز کے بغیربڑایمان افروزاورروح پروراجتماع ہوتاہے اوراس میں امیر و غریب،حاکم ومحکوم،شاہ وگداسب کے سب اکٹھے ہوکرنمازعیداداکرتے ہیں اور ایک ہی وقت میں ﷲ تعالیٰ کے حضورسجدہ ریز ہوتے ہیں اور ایک ہی وقت میں سب کی زبان پر ایک ہی کلمہ … ایک ہی تلاوت…… ایک ہی ذکر…… ایک ہی تسبیح وتحمیداور ایک ہی دعاء ہوتی ہے……امت ِ مسلمہ اجتماع عید کے موقع پر اپنے خالق ومالک کے حضور سر بہ سجود ہو کر اطاعت و بندگی کی عملی تصویرپیش کی جاتی ہے۔

اجتماعِ نمازِ عید اوراتحادواتفاق کا درس

عیدالفطر کا عظیم تہواروسیع پیمانے پراخوت وبھائی چارے اوراتحاد اتفاق کا درس دیتاہے۔اسی اتحاد وا تفاق سے مسلمانوں کے قلوب واذہان کومعمور کرنے کے لئے آج کے مبارک اور عظیم دن نمازِعید کے اجتماع کااہتمام کیاجاتاہے۔یہ اجتماع ہزاروں،لاکھوں افرادکااجتماع ہوتاہے جوصرف ایک امام کی آوازپرسب کے سب بلاچوں وچراحرکت کرتاہے۔صرف ایک امام کی آوازپرسب کے سب رکوع وسجود کرتے ہیں اوراٹھتے بیٹھتے ہیں جسمانی ہم آہنگی کے اس دل کش اور دل آویز نظارے میں بڑی لذت اوربڑاکیف و سرور حاصل ہوتا ہے ۔

آئیے : آج عیدکے مبارک دن کے اس عظیم اجتماع میں ہم اپنے ﷲ تعالیٰ کے حضور خلوص دل سے یہ عزمِ مصمم کریں کہ آج سے ہمارا جو بھی قدم اٹھے گا ، آج سے ہماری جو بھی آواز اٹھے گی آج سے ہم جو بھی کام کریں گے ، وہ اسلام کی سربلندی، امت مسلمہ کے اتحاد واتفاق اور خصوصاً اپنے ملک و ملت اورقوم ومعاشرہ کی بہتری اور استحکام کےلیے کریں گے ۔ اور آج سے ہم اپنے درمیان پھیلی ہوئی ہرقسم کی نفرتوں ، اختلافات اور لسانی ومسلکی تعصبات کوختم کریں گے اور اتحاد و اتفاق ، مساوات اور بھائی چارے کو فروغ دیں گے اور ہر قدم پر محبتوں کے چراغ جلائیں گے ۔

نمازِ عید الفطرکی ادائیگی

یکم شوال المکرم 2 ہجری کو عیدالفطر کے موقع پر’’نمازِ عید‘‘کاآغاز کیا گیا۔فقہ حنفی کے مطابق نمازِ عید ہر اس شخص پر واجب ہے جس پر نمازِ جمعہ فرض ہے۔ نمازِعید بغیر اذان واقامت کے پڑھی جاتی ہے اوراس کاوقت چاشت سے لے کر نصف النہار شرعی تک ہے ۔ عیدالفطر کی نماز تاخیرسے پڑھنا اور نمازِ عید الاضحی جلدی سے پڑھنا مستحب ہے اور اس میں نمازِعید کے بعد دوخطبے پڑھنا بھی سنت ہیں ۔ اسی طرح فقہائے احناف کے نزدیک نمازِعیدمیں چھ زائد تکبیریں پڑھنا واجب ہیں۔ اس کے علاوہ نمازِعیدالفطر سے پہلے کچھ کھا پی لینا بھی سنت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سحبہ وسلّم ہے ۔

عیدکے سنن وآداب

عیدالفطر کے دن حسبِ ذیل کام کرنا سنت اور مستحب ہیں۔
(۱) حجامت بنوانا (۲)ناخن ترشوانا
(۳) مسواک کرنا (۴)غسل کرنا
(۵) نئے یاصاف ستھرے کپڑے پہننا (۶)خوشبو لگانا
(۷ ) عیدگاہ جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز(طاق عدد میں)کھانا
(۸) نمازِ عید سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا
(۹) صبح کی نماز مسجد میں پڑھ کر عیدگاہ چلے جانا
(۱۰) راستے میں تکبیرات تشریق پڑھنا(۱۱) عیدگاہ آتے جاتے راستہ تبدیل کرنا
(۱۲) خوشی ومسرت کا اظہارکرنا (۱۳) آپس میں عید کی مبارک باد دینا
(۱۴) بعدازنمازِعید مصافحہ ومعانقہ کرنا(یعنی گلے ملنا)،وغیرہ

عیدگاہ آتے جاتے راستہ تبدیل کرنا

مسنون یہ ہے کہ جس راستے سے نمازِعید پڑھنے کیلئے عیدگاہ جائے تو نمازِ عید پڑھ کر اس راستے کے بجائے دوسرے راستے سے گھر آئے۔چنانچہ حضرت جابر رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم عید کے دن (عیدگاہ آتے جاتے)راستہ تبدیل فرماتے تھے‘‘۔ (صحیح بخاری، مشکوٰۃ المصابیح،چشتی)
علماء کرام فرماتے ہیں کہ راستہ تبدیل کرنے میں چند حکمتیں یہ ہیں : دونوں راستے نمازی کی عبادت اورذکر کی گواہی دیں ۔ ان راستوں کے رہنے والے جن وانس اس کے ذکر اور عبادت کیلئے گواہ ہوں۔
دونوں راستوں کو ’’جائے عبادت‘‘کی گزر گاہ بننے کی فضیلت حاصل ہو۔
دونوں راستوں پر شعائر اسلام کا اظہار ہو۔
متعدد جگہوں پر ذکرالٰہی کا اظہار ہو۔
دونوں طرف کے رہنے والے رشتہ داروں اور دوست واحباب سے ملاقات ہوجائے۔
راستے میں اگر قبرستان ہو تو قبروں کی زیارت کاموقع بھی حاصل ہوجائے۔
دو راستے اختیار کئے جائیں تا کہ زیادہ محنت ومشقت کرنے سے زیادہ اجروثواب حاصل ہو۔

نمازِعید کیلئے جانے والے نمازیوں کے ذکر سے دونوں راستوں کے بے نمازیوں کے ضمیرپرضرب لگے اور انہیں یہ خیال آئے کہ ایک یہ لوگ ہیں جو ﷲ تعالیٰ کی عبادت کے لئے جا رہے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ جنہیں سال کے بعد بھی نماز پڑھنے کا ہوش نہیں ہے۔(شرح صحیح مسلم جلد ۲ صفحہ ۶۶۱ مطبوعہ فریدبک اسٹال لاہور،چشتی)

ماہِ شوال کے چھ (6) روزے

حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ ’’جس شخص نے رمضان المبارک کے (سارے) روزے رکھے اور پھر اس کے بعد شوال میں چھ (6) روزے رکھے تو یہ ہمیشہ روزے رکھنے کی مثل ہے‘‘۔ (صحیح مسلم،مشکوٰۃ المصابیح)

امام یحییٰ بن شرف نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (متوفی676ھ ) لکھتے ہیں کہ : عید الفطر کے بعد شوال المکرم کے یہ چھ روزے پے درپے اور متواتر رکھنے چاہئیں اور اگر یہ روزے متفرق کرکے رکھے یا شوال کے آخر میں رکھے تب بھی متابعت کی فضیلت حاصل ہو جائے گی ۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ یہ چھ روزے ہمیشہ روزے رکھنے کے برابر اس لئے ہوں گے کہ ایک نیکی کااجر وثواب دس گنا ہو تا ہے۔ اور رمضان المبارک کے تیس روزے اور شوال المکرم کے چھ روزے مل کر چھتیس (36) روزے ہوئے اور دس سے ضرب دینے کے بعد حاصل ضرب تین سو ساٹھ (360) ہوا اور چونکہ سال میں قمری مہینوں کے اعتبار سے تقریباً تین سو ساٹھ (360) دن ہوتے ہیں ، اس لئے جو شخص رمضان المبارک کے سارے روزے رکھنے کے بعد شوال المکرم کے چھ روزے بھی رکھتا ہے تو اس کو تین سو ساٹھ روزوں کا اجروثواب ملے گا ۔

عید کا پیغام اہلِ اسلام اور انسانیت کے نام

خوشی ومسر ت اور رنج وغم انسانی طبیعت پر آنے والے احوال ہیں ، جوں جوں طبیعت میں اختلاف آتا ہے احوال بھی مختلف ہوتے ہیں ، گویا یہ احوال فطرت انسانی میں داخل ہیں چنانچہ جب بھی روز عید آتا ہے بہ اقتضاء فطرت ،طبیعت پر فرحت کی چادر تنی جاتی ہے کیونکہ روز عید عطاء نعمت کادن ہوتا ہے ۔

عید ’’عَود‘‘ سے ماخوذہے جس کے معنی لوٹنے کے ہیں ،عید کو عید اس لئے کہتے ہیں کہ یہ دن ہر سال نئی فرحت وشاد مانی لاتاہے اور اس لئے بھی کہتے ہیں کہ اس دن اللہ تعالی بندوں کو منافع واحسانات سے سرفراز فرماتا ہے ، اورایک وجہ یہ کہ بندہ اس دن اللہ تعالی اور اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ والہ وصحبہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری کی طرف لوٹتا ہے اسی لیے اس کو عید کہا جاتاہے ۔

جو بندے اطاعت واتباع ، عبادت وتقوی کے ساتھ خوشی مناتے ہیں وہ اللہ تعالی کے محبوب ہیں اور جو تکبرونافرمانی کے ساتھ اظہار خوشی کرتے ہیں وہ اللہ تعالی کے پاس مبغوض وناپسند ہیں جیسا کہ ارشاد حق تعالی ہے: إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ ۔
ترجمہ : یقینا اللہ تعالی اِترانے والوں کو پسند نہیں فرماتا ۔ (سورہ القصص آیت نمبر 76)

دین اسلام کے سایۂ رحمت و ظلِ عاطفت میں رہنے والوں کو خالق کائنات نے بے عدد خوشیاں اور کئی عیدیں عطافرمائیں ہیں، جن میں مشہور عید یں یہ ہیں: (1) عیدالفطر (2) عیدالاضحی (3) عیدُالاعیاد (عیدمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم) (4) عیدُ المومنین (جمعہ)

احادیث شریفہ میں عیدالفطر کے فضائل واردہیں جن میں سے ایک حدیث شریف ذکر کی جارہی ہے جس کو امام طبرانی نے معجم کبیر میں ذکرفرمائی ہے:

عَنْ سَعِيدِ بن أَوْسٍ الأَنْصَارِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِذَا كَانَ يَوْمُ الْفِطْرِ وَقَفَتِ الْمَلائِكَةُ عَلَى أَبْوَابِ الطُّرُقِ ، فَنَادَوْا : اغْدُوا يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ إِلَى رَبٍّ كَرِيمٍ يَمُنُّ بِالْخَيْرِ ، ثُمَّ يُثِيبُ عَلَيْهِ الْجَزِيلَ ، لَقَدْ أُمِرْتُمْ بِقِيَامِ اللَّيْلِ فَقُمْتُمْ ، وَأُمِرْتُمْ بِصِيَامِ النَّهَارِ فَصُمْتُمْ ، وَأَطَعْتُمْ رَبَّكُمْ ، فَاقْبِضُوا جَوَائِزَكُمْ ، فَإِذَا صَلَّوْا ، نَادَى مُنَادٍ : أَلا إِنَّ رَبَّكُمْ قَدْ غَفَرَ لَكُمْ ، فَارْجِعُوا رَاشِدِينَ إِلَى رِحَالِكُمْ ، فَهُوَ يَوْمُ الْجَائِزَةِ ، وَيُسَمَّى ذَلِكَ الْيَوْمُ فِي السَّمَاءِ يَوْمَ الْجَائِزَةِ ۔ (معجم کبیرطبرانی ،حدیث نمبر:616)
ترجمہ : سیدنا سعیدبن اوس انصاری رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں،انہوں نے کہا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:جب عیدالفطرکا دن آتا ہے توفرشتے چوراہوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اورنداء دیتے ہیں:ائے مسلمانوں کی جماعت !رب کریم کی جانب چلو؛جوخیرسے نوازتاہے ،پھراجرعظیم عطافرماتاہے، یقیناًتمہیں رات میں عبادت کرنے کا حکم دیاگیا توتم نے عبادت کی اور تمہیں دن میں روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا توتم نے روزے رکھے، تم نے اپنے رب کی اطاعت کی، اب اپنے انعامات حاصل کرلو!پھرجب لوگ نمازعید اداکرتے ہیں تو ایک آوازدینے والاآوازدیتاہے،سنو!بے شک تمہارے پروردگار نے تمہیں بخش دیا ،اب تم اپنے گھرلوٹ جاؤ !اس حال میں کہ تم ہدایت والے ہو،تویہ یوم الجائزۃ(انعام کا دن)ہے اورآسمان میں اس دن کویوم الجائزۃ(انعام کا دن)کہاجاتاہے۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی حسنی حسینی غوث اعظم رضی اللہ عنہ غنیۃ الطالبین میں رقمطراز ہیں : قال وہب بن منبہ رحمہ اللہ:خلق اللہ الجنۃ یوم الفطر،وغرس شجرۃ طوبی یوم الفطر،واصطفی جبریل علیہ السلام للوحی یوم الفطر،والسحرۃ وجدوا المغفرۃ یوم الفطر ۔
ترجمہ : حضرت وہب بن منبہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے عید الفطر کے دن جنت پیدا فرمائی اور اسی دن درخت طوبی لگا یا اور حضرت جبرئیل علیہ السلام کو وحی کےلیے منتخب فرمایا اور اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابل آنے والے جادوگروں کو توبہ نصیب ہوئی ۔ (الغنیۃ لطالبی طریق الحق، ج 2،ص 18)

حقیقی عید کیا ہے : ⬇

زبدۃ المحدثین، خاتمۃ المحققین ، واقف رموز شریعت ودین،عارف باللہ حضرت ا بو الحسنات سید عبد اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری محدث دکن رحمۃ اللہ تعالی علیہ ارشاد فرماتے ہیں : بے شک عید کی خوشی منانا بھی مسنون ہے ، لیکن کیا معلوم کہ ہمارے لیے یہ عید ہے یا وعید ؟

حضرات ! اصلی عید تو اس روز ہوگی جس روز وہ جانِ جہاں ہم پر نظر فرمائیں گے ۔

عید گاہِ ما غریباں کوئے تو انبساطِ عید دیدن روئے تو
صد ہلال عید قربانت کنم اے ہلالِ ما خم ِ ابروئے تو

(ہم غریبوں کی عیدگاہ، اے دوست تیری گلی ہے اور عید کی خوشی ہمیں تیرے چہرے کو دیکھنے سے ملتی ہے)

(عید کے سو(100)چاند میں تجھ پر قربان کرتا ہوں، ہماری عید کا چاند تیرے ابرو کا خم ہے)

عید کی خوشی منانا چاہیے اس لیے کہ یہ بھی سنت ہے ۔

مگرصاحبو ! عید تو اس روز ہوگی جب ہم خدائے تعالی سے ملیں گے ، اس حالت میں کہ ہم اس سے راضی اور وہ ہم سے راضی ۔

ہمیشہ اسی کوشش میں رہنا چاہیے ۔

یہ عید اور اس کی خوشی دونوں فانی ہیں ، خدا کرے کہ وہ دن آئے جس میں دل کی اصلاح ہوکر دل' دلدار کا ہوجائے ، وہ دن حقیقی عید کا ہے ، یہ عید بھی باقی اور اس کی خوشی بھی باقی ۔

عید کے دن مغفرت ہوتی ہے اس لئے وہ خوشی کا دن ہے ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ بندے عید کے دن خداکے دربار (عیدگاہ) میں جاتے ہیں تو وہاں سے بخشے بخشوائے گھروں کو واپس ہوتے ہیں ۔ بعض لوگ خلاف ِ شریعت اُمور کے مرتکب ہوکر عید کی نماز کے لئے آتے ہیں ، ان سب خرافات سے باز آکر سرفرازیوں کے مستحق بن کر آنا چاہیے ۔ (مواعظِ حسنہ ، حصہ اول ، ص 277)

حضرت صالح رحمۃ اللہ تعالی علیہ ہر عید کے روز اپنے اہل وعیال کو اکٹھا کرتے اور سب مل کر روتے بیٹھتے ، لوگوں نے اس بارے میں دریافت کیا کہ آپ ایساکیوں کرتےہیں ؟ فر مانے لگے : میں غلام ہوں ، اللہ تعالی نے ہمیں نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کاحکم فرمایا ہے ، ہمیں معلوم نہیں کہ وہ ہم سے پورا ہوایا نہیں ؟ عید کی خوشی منانا اُسے مناسب ہے جو عذاب الہی سے امن میں ہو۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ عید کے دن گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر اتنا روئے کہ ریش مبارک تر ہوگئی ، لوگوں نے دریافت کیا تو فرمایا : جس کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس کے روزے قبول ہوئےیا نہیں وہ عید کیسے منائے ۔ (مواعظِ حسنہ ، حصہ دوم ، ص 315)

عید منانے کا طریقہ

مومن کی عید یہ نہیں ہوتی کہ وہ اس میں کھیل کود کرے اور لہوولعب میں مشغول رہے بلکہ وہ اللہ تعالی کی عبادت اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت میں عید مناتا ہے ۔

اور عید کا مفہوم ہی طاعت وعبادت ، فرحت ومسرت ، سلامتی وراحت ہے ، تقاضئہ عقل کے مطابق اس دن عبادت میں تخفیف ہونی چاہئے تھی اس کے برخلاف اللہ تعالی نے امت پر ایک اور نماز اضافہ واجب فرمائی ، جس میں اس بات کی تعلیم ہے کہ بندے جب ایک جا جمع ہوجائیں تومعاشرہ میں افرا تفری وانتشار پیدا ہونے کے بجائے رب کریم کی عبادت میں رہ کر انسانی معاشرہ کو اپنے اجتماع سے امن وسلامتی کا پیام دیں۔

عیدگا ہ جاتے وقت راستہ میں میانہ آواز میں تکبیر کہنا سنت ہے‘ تکبیر اس لئے مقرر کی گئی ہے کہ بشری تقاضے کے مطابق جب کثیر اجتماع ہوتا ہے تو بلاوجہ آوازیں بلند ہوتی ہیں اور راہ گیروں کےلئے اذیت کا سبب بنتی ہیں اور رفتہ رفتہ بات جھگڑے و فساد تک پہنچ جاتی ہے ، معاشرتی ومعاشی فضا کو تکدر سے دور کرنے کےلئے تکبیرکہنے کا حکم دیا گیا ، اس کے علاوہ عید کے دن نماز اور تکبیروں سے مومن بندے ذکر خدا وندی کرکے اس کی برکتوں اوررحمتوں سے عالم کو فیض یاب بناتے ہیں کیونکہ جب ابرکرم برستا ہے تووہ رحمت عامہ بن کر سب کو اپنے سایہ میں لیتاہے ۔

عید کے دن مالدار، صاحب نصاب مومن پر صدقۂ فطر (ایک کلو 106 گرام گیہوں یا اس کی قیمت) اداکرنا واجب ہے تاکہ غریب ، نادار ومحتاج افراد بھی عید کی خوشیوں سے محروم نہ رہیں‘ اس کے علاوہ ہر خطہ کے مسلمان نماز عید کے بعد فقراء ومساکین میں گھر واپس ہونے تک راستہ بھر اپنا مال اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں یہ عمل مسلمانوں کی سخاوت ‘ملت سے محبت اور ان پر مہربانی کو عیاں کرتا ہے ، اس طرح عید کی ابتداء سے انتہا ء تک مسلمانوں کا ہر عمل دنیا میں امن وسلامتی قائم کرنے کا پیام افرادِ وطن کے نام دیتا ہے ۔

عید کی خصوصی دعاء

امام طبرانی کی معجم اوسط میں عید الفطر اور عید الاضحی کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعامنقول ہے : ⬇

حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو تعلیم دینے کیلئے یہ دعاء فرمائی : عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : كَانَ دُعَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيْ الْعِيْدَيْنِ " اَللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ عِيْشَةً تَقِيَّةً ، وَمِيْتَةً سَوِيَّةً ، وَمَرَدًّا غَيْرَ مُخْزٍ وَلَا فَاضِحٍ ، اَللَّهُمَّ لَا تُهْلِكْنَا فَجْأَةً ، وَلَا تَأْخُذْنَا بَغْتَةً ، وَلَا تُعَجِّلْنَا عَنْ حَقٍّ وَّلَا وَصِيَّةٍ ، اَللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ الْعَفَافَ وَالْغِنَى ، وَالتُّقَى وَالْهُدَى ، وَحُسْنَ عَاقِبَةِ الْآخِرَةِ وَالدُّنْيَا ، وَنَعُوْذُ بِكَ مِنَ الشَّكِّ وَالشِّقَاقِ ، وَالرِّيَاءِ وَالسُّمْعَةِ فِيْ دِيْنِكْ ، يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبّْ! لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنْكَ رَحْمَةْ ، إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابْ ۔
ترجمہ : سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت انہوں نے فرمایا عیدین کے موقع پر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہ دعاء فرماتے اے اللہ ! ہم تجھ سے پرہیزگار زندگی اور بہترحالت میں حسن خاتمہ کا سوال کرتے ہیں ، ایسا انجام مانگتے ہیں جوذلیل اوررسوا کرنے والانہ ہو،ائے اللہ ! تو ہمیں اچانک ہلاک نہ فرما ، فوراً ہمارا مؤاخذہ نہ فرما اور کسی حق کی ادائیگی یا وصیت پوری کرنے سے پہلے ہمیں عجلت میں مت ڈال ، اے اللہ !ہم تجھ سے پاکدامنی وبے نیازی‘ پرہیزگاری و ہدایت مانگتے ہیں اور دنیا وآخرت کے اچھے انجام کا سوال کرتے ہیں ، ہم شک و اختلاف ‘ تیرے دین میں ریاء کاری اور شہرت سے تیری پناہ میں آتے ہیں ، اے دلوں کو پھیر نے والے ! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا مت کر، اورہمیں اپنی جانب سے رحمت عطا فرما ، بے شک تو ہی خو ب عطافرمانے والا ہے ۔ (معجم اوسط طبرانی ، باب العین ، حدیث نمبر: 7787)

یہ عید کے موقع سے مناسبت رکھنے والی ایسی جامع دعاء ہے کہ اس میں ان تمام چیزوں کی درخواست ہے، جوہر کسی کیلئے دنیاو آخرت میں مسرت وشادمانی ، امن وسلامتی اور اتحاد واتفاق کا باعث ہوتی ہیں۔

اللہ سبحانہ وتعالی سے دعا ہے کہ ہمیں اور تمام اہل اسلام کو اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صدقہ وطفیل راہ حق پر گامزن رکھے اور اس عیدِ سعید کی بھر پور خوشیاں عطا فرمائے آمین بجاہ طہ و یٰسین وصلی اللہ تعالی وبارک وسلم علیہ و علی الہ وصحبہ اجمعین والحمد للہ رب العالمین ، سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم -

دین کا درد رکھنے والے اہلِ اسلام سے گذارش ہے کہ : ادارہ پیغامُ القرآن پاکستان کے زیرِ انتظام دین کی نشر و اشاعت کرنے ، دینی تعلیم عام کرنے خصوصاً دور دراز دیہاتوں کے غریب بچوں کو مفت دینی و عصری تعلیم دینے ، ادارہ کےلیے جگہ کی خریداری و تعمیر ، دینی کتب تفاسیر قرآن ، کتبِ احادیث عربی اردو کی شروحات ، دیگر اسلامی کتب ،  کی خریداری کے سلسلہ میں تعاون فرمائیں جزاکم اللہ خیراً کثیرا آمین ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : محمد جواد اکاؤنٹ نمبر : 02520107640866 میزان بینک چوھنگ لاہور پاکستان ، موبی کیش اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں ۔ 03009576666 ، 03215555970 ، جزاكم اللهُ‎ خیراً کثیرا آمین ۔
(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔