ضرورتِ مرشد و شرائطِ مرشد حصّہ دوم
کسی جامع شرائط مرشد کی بیعت بھی ایک مستحب اور بابرکت کام ہے ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مرشد کامل کی چار شرائط ارشاد فرمائی ہیں ان کے بغیر اس کا بیعت لینا جائز نہیں ۔صحیح العقیدہ مسلمان ہو یعنی اہل سنت و جماعت سے وابستہ ہو ، بد عقیدہ اور بد مذہب نہ ہو ۔ عقائد کے دلائل اور تمام احکامِ شرعیہ کا عالم ہو حتیٰ کہ ہر پیش آمدہ مسئلہ کا حل بیان کر سکتا ہو (یعنی مفتی ہو) ۔ علم کے مطابق عمل کرتا ہو ۔ فرائض ، واجبات ، سنن اور مستحبات پر دائمی عمل پیرا ہو اور تمام محرمات و مکروہات سے بچتا ہو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک اس کی نسبت متصل ہو ، یعنی اس کے مشائخ کا سلسلہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچتا ہو ۔ ہمارے زمانے میں بعض بے علم لوگ وعظ و تبلیغ کرتے ہیں اور جب کچھ حلقہ بن جاتا ہے تو لوگوں سے بیعت لینا بھی شروع کر دیتے ہیں ۔ یہ لوگ اپنی بے علمی کا عیب چھپانے کےلیے علماء کی تنقیص کرتے ہیں ، ان کو منافق اور بے عمل کہتے ہیں۔ ساتھ ہی خود کو اہل اللہ کا محب کہتے ہوئے اولیاء اللہ کی صف میں شمار کروانے کی ترغیب دیتے ہیں ۔ سادہ لوح عوام علماء کو چھوڑ کر ایسے بے علم واعظین اور بے عمل ’’مرشدین‘‘ کے حلقہ ارادت میں کثرت کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں ۔ ہم اس جہالت اور تعصب سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں ۔ (فتاویٰ افریقہ صفحہ 147۔ 146 مطبوعہ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی)
مذکورہ شرائط کو سامنے رکھتے ہوئے اگر موجودہ پاکستانی معاشرہ پر نظر ڈالیں تو ہمیں ہر طرف ایسے کاروباری پیروں کی فوج ظفر موج نظر آئے گی جن میں مذکورہ شرائط کا دور دور تک پتہ نہیں ہو گا ۔ کسی کا عقیدہ خراب ہے تو کسی کا سلسلہ غیر متصل ۔ کوئی پابند سنت نہیں ہے تو کوئی اعلانیہ فاسق و فاجر ۔ علم کی شرط ملاحظہ کریں تو اس پر پورے ملک میں معدودے چند پیر صاحبان ہی بمشکل پورے اترتے نظر آئیں گے ۔ جعلی پیروں کا بہت بڑا لشکر نہ صرف یہ کہ قرآن و حدیث اور فقہ و کلام سے بے خبر ہے بلکہ وہ علم اور علماء کا سخت دشمن بھی ہے ۔ کیونکہ جس طرح سرمایہ دار ، جاگیردار اور سیاستدان کی خیر اسی میں ہے کہ قوم جاہل مطلق رہے اسی طرح جھوٹے پیروں کی شان و شوکت کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہے کہ قوم علم و عمل سے بے گانہ رہے ۔ کیونکہ ان پڑھ لوگ ان کو جس طرح چومتے چاٹتے ہیں اس طرح پڑھے لکھے لوگ نہیں کرتے ۔ کسی بھی پیر کے ملاقاتیوں کو ملاحظہ کر لیجیے آپ کو ان پڑھ اور پڑھے لکھے لوگوں کے اندر ملاقات میں نمایاں فرق نظر آئے گا ۔
انتہائی افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس طرح کے تمام جعلی، بناوٹی اور کاروباری پیر اپنے آپ کو مسلک حق اہل سنت وجماعت سے منسوب کرکے اس کی بدنامی اور رسوائی کا سبب بنتے ہیں ۔ نیز وہ علماء سے یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ وہ ان کی نام نہاد بزرگی پر مہر تصدیق ثبت کریں۔ یہ ننگِ ملت ، ننگ دیں ، ننگ وطن لوگ ایسے زہریلے ہیں کہ انہوں نے اپنی شہوت کاریوں سے مسلک حق کو ادھ موا کرکے رکھ دیا ہے ۔ ان میں سے کچھ لوگ نامور بزرگوں کی گدیوں سے منسوب ہیں ۔ عمل صالح اور شریعت کی پابندی تو کجا وہ کرپٹ لوگوں کی سرپرستی کرتے ہیں رسہ گیروں سے ان کی دوستیاں ہیں ۔ الیکشن میں مسلک کے نام کو استعمال کرتے ہوئے یہ لوگ ممبر اسمبلی بنتے ہیں اور پھر سیکولر جماعتوں کے ساتھ مل کر انہی کے ایجنڈے کو فروغ دینے کا باعث بنتے ہیں ۔ اس تمام خرابی کی بنیاد درحقیقت ان کاروباری مولویوں نے فراہم کی ہے جو انہیں (معمولی خدمت کے عوض) لوگوں کے سامنے غوث زماں، قطب عالم ، شہنشاہ ولایت وغیرہ بنا کر پیش کرتے ہیں ۔
ان حضرات کی سیرت و کردار کو قریب سے دیکھیں تو ان کے فرعونی لہجے ، شیطانی عادات و اطوار ، یزیدی رسوم و رواج ۔ غنڈوں اور بدمعاشوں کی سرپرستی ، چوروں اور ڈاکوؤں کی پشت پناہی ۔ باطل اعمال اور عقیدے ، اعراس کے نام پر اسلام کش میلے ٹھیلے ۔ کتوں اور ریچھوں کے مقابلے ، قبروں اور مزاروں کی تجارت ۔ صالحین کی تعلیمات پر عمل کی بجائے تعمیرات سے ولایت کی پیمائش ۔ علماء کے خلاف سینوں میں بھڑکتی آگ ، جہالت و رعونت میں اپنی مثال آپ ۔ دین و شریعت کی بات پر منہ سے نکلتے انگارے ۔ نماز روزے کا وقت آنے پر مرض اسہال ، زکوۃ و جہاد کا نام سنتے ہی پیٹ میں درد قولنج ۔ غیر محرم عورتوں کو بے پردہ مرید کرنا اور ان سے ٹانگیں دبوانا ۔ یہ ہیں وہ کالے کرتوت جو ان ’’پیروں‘‘ کے نامہ اعمال میں درج ہیں ۔ اگر آپ ان کے کفریہ و شرکیہ اور مبالغہ آمیز اشعار پر مصنوعی طور پر بدمست ہو کر جھومنے اور ناچنے والے جاہل مریدوں کو دیکھیں تو گویا انہیں ذبح کیا جا رہا ہے ۔ ان کے تعویذوں اور وظیفوں کو دیکھیں تو شیاطین سے استغاثہ پر مبنی جادو ٹونے کے پلندے معلوم ہوں ۔ ان کی ’’مقدس مسندوں‘‘ کو دیکھیں تو ان پر کسی نیک سے نیک آدمی کا بیٹھ جانا یا صرف پاؤں لگ جانا بھی اعلیٰ درجے کی گستاخی شمار ہو ۔ پھر پیران عظام کی ان گدیوں میں بھی مال و جائیداد کی طرح وراثت چل نکلی ہے (کیونکہ یہ بھی اب ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے) باپ کی گدی پر اولاد ہی بیٹھے گی خواہ وہ کیسی ہی کیوں نہ ہو ۔ کسی مرید کی کیا مجال کہ وہ پیر مغاں کی سجادگی کا حقدار ٹھہرے خواہ وہ کیسا ہی رازی و غزالی کیوں نہ ہو اور یہی نااہلی اور وراثت سب سے بڑا سبب ہیں خانقاہی نظام کی تباہی کا ۔
مرشد (شیخ طریقت) کی ضرورت
دنیا کے ہر کام ، ہر فن اور پیشہ کی طرح فن روحانیت یعنی سلوک الی اللہ طے کرنے اور حق تعالیٰ کا قرب و معرفت حاصل کرنے کےلیے استاد کی ضرورت ہے ۔ علم تصوف کی اصطلاح میں ایسے روحانی استاد کو شیخ (مرشد) کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔
لفظ شیخ کی اصل
لفظ شیخ کی اصل یہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے : الشیخ فی قبیلۃ کالنبی فی امۃ ’’ اپنے قبیلہ میں شیخ اسی طرح ہے جس طرح ایک نبی اپنی امت میں ہے ۔ (حدیث امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ)
امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃفرماتے ہیں کہ : جاننا چاہیے کہ شیخ بننے اور حق کی طرف خلق کو دعوت دینے کا مقام بہت عالی ہے ۔ آپ نے سنا ہوگا ۔ ’’الشیخ فی قبیلۃ کالنبی فی امۃ‘‘۔ شیخ اپنی قوم میں ایسا ہے جیسے نبی اپنی امت میں ہے ۔ (مکتوبات شریف دفتر اول مکتوب ۲۲۴)
جس طرح اللہ عزوجل تک پہنچنے کےلیے پیغمبر کی ضرورت ہے اسی طرح رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچنے کےلیے مرشد (شیخ طریقت) کی حاجت ہے اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دنیا کسی وقت بھی اہل اللہ سے خالی نہیں ہوتی ۔ آج بھی بندگان خدا ایسے ہیں جن کی ذات اور صفات سے ان مبارک سلسلوں (سلاسل تصوف) کی آبرو قائم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : یٰٓا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُو ااتَّقُو اللّٰہَ وَ کُونُوْ ا مَعَ الصَّادِقِیْنَ ۔ (سورۃ توبہ:آیت۱۱۹)
ترجمہ : اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ رہو ۔
محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صادقین ہر دور میں موجود رہیں گے اسی لیے ان کی رفاقت اور معیت اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اگر وہ بالکل ختم ہوجائیں تو پھر یہ آیت قرآنی ساقط العمل ہوجائے گی اور یہ قرآن کی شان کے خلاف ہے ۔
صاحب ’’کتاب اللمع‘‘ لکھتے ہیں کہ : قرآن مجید کے الفاظ صادقین ، مقربون ، متوکلین ۔ مخلصین، سارعین الی الخیرات ، اولیاء ، ابرار ، اور شاہدین سے صوفیاء (اہل اللہ) ہی مراد ہیں ۔ اور اہل طریقت کی حقانیت پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جناب خضر علیہ السلام سے یوں مستدعی ہونا ۔ ھل اتبعک علی ان تعلمنی مما علمت رشدا ۔ آیا میں آپ کی پیروی کروں اس شرط پر کہ آپ اپنے خداداد علم سے مجھے اصلاح و تقویٰ کی تعلیم دیں ۔ کسی دنیاوی غرض پر مبنی نہ تھا ۔ بلکہ یہ واقعہ اس بات پر دلالت ہے کہ جس طرح علمِ شریعت حاصل کرنا فرض ہے اسی طرح علم حقیقت و معرفت حاصل کرنا بھی فرض ہے ۔ اور یہ علم (سلوک و معرفت) کسی شیخ کامل کی صحبت اور اس کی رشدو ہدایت ہی سے حاصل ہوتا ہے ۔
ضرورت شیخِ طریقت
قرآن حکیم میں اللہ جل شانہ نے ضرورت شیخ کو یوں بیان فرمایا ہے :
یٰا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمنُو اتَّقُواللّٰہَ وَابْتَغُوْ آ اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَ جَاھِدُوْ فِی سَبِیلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْن ۔ (سورۃ مائدہ۔آیت۳۵)
ترجمہ : اے ایمان والو! ڈرو اللہ سے اور تلاش کرو وسیلہ اس تک رسائی کے لیے اور اسکی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ ۔
اس آیتِ مبارکہ سے دو باتوں کا حکم نازل ہوا ۔ اول ۔ حق تعالیٰ تک رسائی حاصل کرنا ۔ اور دوسرا ۔ اس تک رسائی کرنے کےلیے وسیلہ تلاش کرنا ۔
وسیلہ سے مراد وہ ہادی ، مرشد یا پیر ہے جس نے راہ سلوک طے کیا ہوا ہو ۔ راستے کے نشیب و فراز سے واقف ہو اور خدا رسیدہ ہو ۔ بعض لوگ لفظ وسیلہ سے مراد ایمان لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن و حدیث ہمارے پاس موجود ہے لہذا ان سے بڑھ کر کون وسیلہ ہوگا ۔ ان کا یہ فرمان بالکل درست ہے لیکن قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لیے بھی تو کسی عالم کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور یہ عالم یا مولوی وسیلہ ہے قرآن و حدیث کا علم سمجھانے میں ۔ جیسا کہ ہم اسی مضمون کے شروع میں عرض کر چکے ہیں کہ ہر کام کےلیے استاد کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ استاد وسیلہ ہوگا ۔ اس وسیلے کے بغیر کوئی فن نہیں سیکھا جا سکتا ۔ اللہ جل شانہ فرماتے ہیں : فَسْءَلُوْ اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْن ۔ (سورۃ النحل آیت ۴۳)
ترجمہ : اہل ذکر یعنی جاننے والوں سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے ۔
اللہ تعالیٰ نے خود وسیلہ پکڑنے اہل ذکر سے پوچھنے اور صادقین کے پاس بیٹھنے کا حکم فرمایا ہے۔بہرحال وسیلہ عقلاً ونقلاً ضروری ہے اور تمام مفسرین خواہ مقتدمین ہوں یا متاخرین کے وسیلہ کا مطلب شیخ طریقت ہے کیونکہ یا ایھاالذین امنوا کا خطاب ان لوگوں سے کیا گیا ہے جو ایمان لاچکے ہیں ۔ حضرت شاہ عبدالرحیم ، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی قدس اللہ اسرارہم جو اہل طریقت میں مقبول ہیں وسیلہ سے مراد شیخ طریقت لیتے ہیں ۔ اس کے سوا نہ اللہ جل شانہ تک رسائی اور قرب حاصل ہوتا ہے اور نہ ہی راستہ کا علم ممکن ہو سکتا ہے۔ کیونکہ کامل مکمل کی ایک التفات سے اس قدر تصفیہ باطن ہوتا ہے کہ ریاضات کثیرہ سے بھی نہیں ہو سکتا۔ اور تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن کے لیے امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’ اللہ رب العزت کی نعمتوں کے ادائے شکر کا پہلا درجہ یہ ہے کہ بندہ اپنے عقائد فرقہ ناجیہ اہلسنت والجماعت کی آراء کے مطابق احکام شریعہ بجا لاتا رہے۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ بلند درجہ صوفیا کے سلوک کے موافق اپنے نفس کا تصفیہ و تزکیہ کرے ۔ (مکتوبات شریف دفتر اول مکتوب ۷۱)
اگر ان دو امور میں پختہ ہوجاؤ تو پھر کوئی غم نہیں ایک تو صاحب شریعت علیہ وآلہ الصلوٰ ۃ والتسلیمات کی متابعت اور دوسری شیخ طریقت سے محبت و اعتقاد۔ آگاہ رہیں اور التجا تضرع کریں کہ ان دو دولتوں میں فتور نہ آنے پائے پھر جو کچھ ہو آسان ہے اوراس کی تلافی ممکن ہے ۔(مکتوبات شریف دفتر سوم مکتوب ۱۳،چشتی)
کاملوں سے ملتا ہے یہ گوہر میاں
کاغذوں میں ہے بھلا ہمت کہاں
قرآن حکیم میں اللہ جل شانہ نے منصب نبوت کی یوں وضاحت فرمائی ہے : ھُوَالَّذَیْ بَعَثَ فِیْ الاُمِّیّٖنَ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ یَتْلُوْ ا عَلَیْھِمْ آیاتہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلَّھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃِ ۔ (سورۃ جمعہ آیت ۲)
ترجمہ : اللہ وہ ہے جس نے بھیجا ان پڑھوں کے درمیان پیغمبر انہی میں سے جو پڑھتا ہے ان لوگوں کے سامنے اللہ کی آیات اور پاک کرتا ہے ان کو اور سکھاتا ہے ان کو کتاب و حکمت ۔
کتاب کے ساتھ معلم کتاب یعنی سکھانے والے کو استاد کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔ نسخہ کے ساتھ طبیب کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔
جو لو گ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن کی موجودگی میں شیخ کی کیا ضرورت ہے ان سے ہم پوچھتے ہیں کہ قرآن کی موجودگی میں نبی یا رسول کی کیا ضرورت تھی ۔ چنانچہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ضرورت تھی آج ہمیں بھی وہی ضرورت درپیش ہے ۔ جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر ہدایت ناممکن تھی اب بھی نائب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر ہدایت نا ممکن ہے ۔ حیرت ہے کہ علمائے ظاہر لوگوں کے درمیان تو اپنی ضرورت محسوس کرتے ہیں لیکن ایسے شیخ کامل کی ضرورت محسوس نہیں کرتے جو ان سے کئی گنا زیادہ عبادات ، مجاہدات و ریاضات کرکے ذات حق کے قرب ومعرفت کا شرف حاصل کر چکے ہیں ۔ (تذکرہ نقشبندیہ خیریہ صفحہ ۵۰،چشتی)
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (۶۹۹۔۷۶۷ء)۸۰۔۱۵۰ہجری ۔ نے بہ ہمہ علم و تفقہ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی ۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ پہلے تصوف او ر صوفیاء کی مخالفت میں مشغول تھے ۔ لیکن بعد میں حضرت بِشر حافی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں رہ کر حلاوتِ ایمان نصیب ہوئی ۔ جو شخص احکام شریعت ان سے دریافت کرنے آتا تو خود بتا دیتے لیکن جب کوئی شخص راہ حقیقت دریافت کرنے آتا تو حضرت شیخ بِشر حافی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بھیج دیتے ۔ یہ دیکھ کر ان کے شاگرد وں کو غیرت آئی اور عرض کیا کہ آپ اتنے بڑے عالم ہو اکر ایک صوفی کے حوالے کیوں کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ مجھے اللہ کے احکام کا علم ہے اور ان کو خود اللہ کا علم ہے ۔ اس لیے طالبان حق کو ان کے پاس بھیجتا ہوں ۔
سلطان العارفین حضرت با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جس کا کوئی امام نہ شیطان اس کا امام ہو تاہے ۔ (من لیس لہ شیخ فشیخہ ابلیس) ۔ امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ قول ان الفاظ میں حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب کیا ہے ۔ من لم یکن لہ استاذ فامامہ الشیطان ۔ (رسالہ قشیریہ صفحہ ۳۳۸،چشتی)
حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی علیہ الرحمۃ حاشیہ قول الجمیل میں فرماتے ہیں کہ : وسیلہ سے مراد ارادت و بیعت مرشد کی ہے ۔ (القول الجمیل شرح شفاء العلیل)
حضرت علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : کمالات باطنی حاصل کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے اس لیے پیر کامل کی تلاش بھی ضروریات دین میں سے ہے کیونکہ وصول الی اللہ پیر کامل کے توسط کے بغیر نادرات میں شامل ہے ۔ (ارشاالطالبین)
حضرت علامہ اسمعیل علیہ الرحمۃ آیت’’یا ایھا الذین امنو ا اتقواللہ و کونو مع الصادقین‘‘ کے تحت فرماتے ہیں : صادقین وہ لو گ ہیں جو وصول الی اللہ کے طریق کے رہنما ہیں جب سالک ان کی صحبت میں شامل ہو جاتا ہے تو ان کی محبت و تربیت قوت و ولایت سے سیر الی اللہ اور ترک ماسوا کے مراتب پر پہنچ جاتا ہے ۔ (تفسیر روح البیان)
حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ : شیخ کامل کی تلاش کرنی چاہیے اور اپنے باطنی امراض کا علاج ان سے کرانا چاہیے ۔ (مکتوباتِ ربانی مکتوب ۲۳۰ دفتر اول)
وہ لوگ جو اس امت کے اولیاء کی صحبت میں زندگانی گزارتے ہیں وہ بھی ان رذائل سے پاک ہوجاتے ہیں ۔ (مکتوباتِ ربانی دفتر سوم مکتوب ۲۴)
اہل اللہ قلبی امراض کے طبیب ہیں باطنی امراض کا ازالہ ان بزرگوں کی توجہ سے وابستہ ہے ان کا کلام دوا اور ان کی نظر شفاء ہے ۔ حدیث شریف میں وارد ہے ۔ ھم قوم لا یشقی جلیسھم ۔ (بخاری و مسلم) ’’ یہ ایسی قوم ہے جن کا ہم نشین بد نصیب نہیں ہوتا‘‘۔ (مکتوبات دفتر اول مکتوب ۱۰۹)
پس کامل بنانے والے شیخ کی صحبت کبریت احمر ہے اس کی نظر دوا اور اس کی باتیں شفاء ہیں ۔ (مکتوبات ربانی دفتر اول مکتوب۲۳،چشتی)
مشائخ نقشبندیہ سے نسبت ان سے عقیدت اور ان کی متابعت دین و دنیا دونوں میں باعث سعادت ہے ۔ ابو الکلام آزاد ان عظیم ہستیوں سے اپنی ارادت ان الفاظ میں ظاہر کرتے ہیں : یہی نسبت اور ارادت ایک دولت ہے جو ہم بے مائیگان کا ر اور تہی دستان راہ کے لیے توشہ آخرت اور وسیلہ نجات ثابت ہو۔ اگر اس کے دامن تک ہاتھ نہ پہنچ سکا تو اس کے دوستوں کا دامن پکڑ سکتے ہیں ۔ اللہ اس راہ میں ثبات و استقامت ورزی عطا فرمائے اور اس کے دوستوں کی محبت و ارادت سے ہمارے قلوب ہمیشہ معمور اور آباد رہیں‘‘ *۔ اللہ جل شانہ فرماتے ہیں : یَوْمَ نَدْ عُوْ ا کُلَّ اُنَاس بِاِ مَامِھِمْ ۔ (سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر71)
ترجمہ : قیامت میں ہم سب کو امام کے ساتھ بلائیں گے اگر شیخ طریقت یا پیر و مرشد نہ ہو تو کس کے ساتھ اٹھیں گے ۔
حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : شیخ اپنے مرید کو اپنی باطنی قوت سے علم الہی سکھاتاہے اور شیخ کا کلام مرید کے باطن کو معمور کردیتا ہے اور اس کو قرب الہی پر چلا دیتا ہے ۔ (ترجمہ عوارف المعارف)
اسی لیے ان ہدایت یافتہ حضرات کی پیروی کا حکم اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمایا ہے : اُولئک الذین ھدی اللہ فبھدھم اقتدہ ۔ (سورۃ انعام آیت ۹۱)
ترجمہ : یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت فرمائی تو تو بھی ان ہدایت یافتہ کی پیروی کر ۔
بزرگان دین اپنے پیروکاروں کے قلب و دماغ اور رگ و رشتے میں اللہ کی عبادت اور بندگی کا ایسا داعبہ پیدا کرتے ہیں کہ ان کی نظر وں سے ماسویٰ اللہ معدوم ہو جاتاہے ۔ اور وہ ہر لمحہ دل کی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو دیکھتے اور مشاہدہ حق میں مشغول رہتے ہیں اور سالکان طریقت اپنے مرشد کامل کے روئے انور میں نور حق کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔
عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ⬇
فیض حق اندر کمال اولیاء نور حق اندر جمال اولیاء
ہر کہ خواہد ہم نشینی با خدا اور نشیند در حضور اولیاء
چوں شوی دور از حضور اولیاء در حقیقت گشتہ دور از خدا
یک زمانہ صحبت با اولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
تصورِ شیخ
بعض نادان لوگ تصورِ شیخ کو شرک کہتے ہیں حالانکہ یہ شرک نہیں اس کے شرک نہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس کی تعلیم صلف صالحین سے چلی آتی ہے اور مشائخ طریقت نے اس کو ہدایت و رہنمائی کا ایک ذریعہ سمجھا ہے اس میں نہ شیخ کی عبادت ہوتی ہے اور نہ ہی شیخ کا ذکر ہوتا ہے بلکہ اپنے دل کے پراگندہ خیالات کو ایک طرف باندھ لینا ہے اور شیخ کو اپنے اور اللہ کے درمیان ہادی اور رابطہ سمجھنا ہے جیسے کعبہ عابدو معبود کے درمیان رابطہ ہے نماز ، زکوۃ یہ سب عابدو معبود کے درمیان رابطہ ہیں اسی طرح مرشد مرید اور اللہ کے درمیان رابطہ ہے اللہ تعالیٰ جو کچھ دیتا ہے مرشد کے ہاتھ سے دیتا ہے اس لیے مرید صادق کے لیے لازم ہے کہ با ادب بیٹھ کر اپنے مرشد کی تصویر کو دل میں پکائے اور نعمت فیض حاصل کرے اور یہ اعتقاد رکھے کہ شیخ مظہر حق ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے میرے فیض دینے کے واسطے مقرر کیا ہے ۔
بیعت کی اہمیت
امت مسلمہ کے اولیاء اللہ میں بیعت کا طریقہ تواتر کے ساتھ ثابت ہے ۔درویشی یا فقیری تب تک حاصل نہیں ہوتی جب تک کسی شیخ وقت کی بیعت نہ کی جائے کیونکہ طریقت کی خاردار راہ میں سالک کو قدم قدم پر قطاع الطریق کے ہاتھے چڑھنے کا خطرہ درپیش ہوتا ہے ۔ حدیث رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے : الرفیق ثم الطریق (پہلے ہم سفر بعد سفر) ۔ (جواہر غیبی کنز چہارم صفحہ ۲۳۲)
حضرت مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمۃ (۶۷۲ھ/۱۲۷۳ء) فرماتے ہیں : ⬇
یار باید راہ تنہا مرد از سر خود اندردیں صحرا مرو
ہر کہ او بے مرشدے در راہ شد او زغولاں گمراہ درچاہ شد
گر نہ باشد سایہ پیرائے فضول پس تیرا سر گشتہ دارد بانگ غول
بیعت کا لفظ بیع سے بنا ہے جس کے معنی بیچنا یا فروخت کر دینا ۔ چونکہ مرید شیخ طریقت کے ہاتھ پر بِک جاتا ہے لہذا اس سے بیعت ہو گیا ۔ اصطلاحی طور پر بیعت اس تغیر حال کو کہتے ہیں کہ بندہ شیخ یا مرشد کے واسطہ سے اپنا سب کچھ اپنی مرضی سے چھوڑ کر اپنے مالک و خالق کی رضا کو اپنا نصب العین قرار دے۔ اس سلسلہ میں مرشد یا شیخِ طریقت کچھ حکم دے تو اس پر چوں چراں عمل کرے ۔
حیاتِ بشری کے ایک ایک لمحہ میں شیخ مرید کا خضر راہ ہوتا ہے اور مرید بھی اپنے علم و عقل اور انا و خودی سے دست بردار ہو کر شیخ کے سامنے ایسی مکمل سپردگی کرتاہے کہ کسی معاملہ میں وہ صاحب اختیار نہیں رہتا ۔ شیخ کے سامنے مرید کی وہی حیثیت ہوتی ہے جو غسال کے ہاتھ میں مردہ کی ہوتی ہے جس طرح چاہے الٹتا پلٹتا رہے ۔ (لطائف اشرفی جلد اول صفحہ ۱۷۴،چشتی)(جواہر غیبی کنز چہارم صفحہ ۲۴۱)
بیعت جب کسی شیخ کامل کے دست حق پر کی جاتی ہے تو بمعہ آداب و شرائط وہ سلسلہ شیخ کے کامل توسط سلسلہ بہ سلسلہ جناب سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچتی ہوئی اللہ رب العزت پر ختم ہوتی ہے۔ اگر بیعت کرنے والا اپنے اس عہد پر قائم رہے تو اللہ رب العزت کی طرف سے انتہائی انعامات و مراتب سے نوازا جاتا ہے ۔
مرید کا لفظ ارادہ سے بنا ہے۔ جس کے معنی ہیں قصد کرنا اس کا ماخذ یہ آیت ہے ۔ یریدون وجہ اللّٰہ اولئک ھم الفائزون ۔ لہٰذا مرید کے معنی ہوئے ارادہ کر نے والا چونکہ مرید اللہ کی رضا کا طالب ہو کر شیخ کے پاس جاتا ہے لہٰذا سے مرید کہتے ہیں اور مرید بننے کا مقصد یہ ہوتاہے کہ اللہ سے عہد کرنا کہ مولیٰ میں تیرا بندہ فرمانبردار بنوں گا ۔ مگر چونکہ اللہ جل شانہ تک ہماری رسائی نہیں تو اس کے کسی نیک بند ے (شیخ طریقت ) کے ہاتھ یہ عہد کرتے ہیں جیسے جب خدا کو سجدہ کرنا ہو تو کعبہ کو سامنے لے کر سجدہ کر لیتے ہیں ۔ کعبہ قبلہ نماز ہے۔ اور پیرومرشد قبلہ عہدو پیمان ہوتا ہے ۔ (اسرار الاحکام)
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے رہبر کامل خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے ۔ اور انہوں نے زمانہ رسالت میں مختلف اوقات میں مختلف مقاصد کےلیے بیعتیں کیں ۔ اولاً اسلام لاتے وقت حضور پرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی پھر خاص معاہدوں کےلیے بیعت جیسے حدیبیہ کے مقام پر ’’بیعت الرضوان‘‘ پھر خلفاء راشدین کے ہاتھوں پر بیعت کی لہذا حضرا ت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی مریدینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور اب صرف بیعت توبہ کی جاتی ہے جو دراصل ان تمام امور پر منحصر ہوتی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اِنَّ الَّذِینَ یُبَایِعُونَکَ اَنَّمَا یُبَایِعُونَ اللّٰہ ۔ یَدُ اللّٰہِ فَوقَ اَیْدِ یْھِمْ فَمَن نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنْکُثُ عَلیٰ نَفْسِہٖ وَمَن اَوْفٰی بِمَا عٰھَدَ عَلَیہُ اللّٰہ فَسَیُوتِیہِ اجراً عَظِیْمَا۔(سورۃ فتح ۱۰)
ترجمہ : جو لوگ بیعت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وہ اللہ سے بیعت کرتے ہیں اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے سو جو عہد شکنی کرتاہے تو وہ اپنی ذات کے نقصان پر عہد توڑتا ہے ۔ اور جس نے پورا کیا اس کو جس پر اللہ سے عہد کیا تھا سو عنقریب ان کو اجر عظیم عنایت کرے گا ۔
بیعت چند قسم کی ہوتی ہے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پہلی بیعت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ شریف پر تھی ۔ پھر خاص موقعوں پر بیعت خاضہ ہوئیں۔پھر خلفاء راشدین کے ہاتھ پر بیعت دو بیعتوں پر مشتمل تھی بیعت سلطنت اور بیعت طریقت خلفاء راشدین کے زمانہ تک ہر سلطان شیخ بھی ہوتا تھا کیونکہ ان کی خلافت خلافتِ راشدہ تھی ان کے بعد سلاطین اس پائے کے نہ رہے لہٰذا ان سے صرف سلطنت کی وفاداریاں کی بیعت کی گئی جسے آج کے دور میں ’’حلف وفاداری‘‘ کہتے ہیں ۔ اور مشائخ عظام سے بیعت طریقت ہوئیں ۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمۃ نے ایک مشہور حدیث نقل فرمائی ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لوگ بیعت کرتے تھے کبھی ہجرت اور جہاد پر اور گاہے اقامت ارکان اسلام یعنی صوم و صلٰوۃ حج پر ، گاہے ثبات و قرار پر ، معرکہ کفار میں کبھی سنتِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمسک پر کبھی بد عت سے بچنے اور عبادات کے شائق اور حریص ہونے پر اور ابن ماجہ نے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند محتاج مہاجرین سے بیعت کی اس بات پر کہ وہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کریں ۔ (قول الجمیل فی شرح شفاء العلیل صفحہ ۱۳،چشتی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلیفۃ اللہ تھے ۔ معلم قرآن و حدیث تھے اور امت کا تزکیہ فرمانے والے تھے۔ اس لیے ان کا فعل ان کے خلفاء کے واسطے ہو گیا ۔ (قول الجمیل فی شرح شفاء العلیل صفحہ ۱۴)
اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد باوجود دین کامل و مکمل ہونے کےلیے جمیع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت خلافت و توحید کی ۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اتبعو ا با لذین من بعدی ابو بکر و عمر ۔
ترجمہ : میرے بعد ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہم کی تابعداری کرو ۔
اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہ (حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ، عمر رضی اللہ عنہ ، عثمان رضی اللہ عنہ ، اور علی رضی اللہ عنہ) کی بیعت فقط خلافت کی بیعت نہیں کی بلکہ باطنی امور میں بھی بیعت کی تھی ۔
مفسر قرآن علامہ حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی علیہ الرحمۃ بالصراحت فرماتے ہیں : حضرت مجدد رضی اللہ عنہ فرمودہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیعت ابو بکر و عمروعثمان و علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کردند مقصود ازیں بیعت فقط امور دنیا نبود بلکہ کسب کمالات باطنی ہم بود ۔ (ارشاد الطالبین صفحہ ۱۲۵)
ترجمہ : حضرت مجدد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ صحابہ رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر ، عمر ، عثمان ، اور علی رضوا ن اللہ علیہم اجمعین کی بیعت کی اس بیعت کا مقصد صرف امور دنیا ہی نہ تھا ۔ بلکہ کمالات باطنی کا حصول بھی تھا ۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ : خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے بعد ملوک و سلاطین میں بیعت یعنی بیعت توبہ و تقویٰ معدوم ہوگئی تو حضرات صوفیا نے فرصت کو غنیمت جان کر سنیت بیعت اختیار کی ۔ چنانچہ توبہ اور ترک معاصی کا عزم کرنا اور تقوی کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا امر مخفی ہے اور پوشیدہ ہے تو بیعت کو اس کے قائم مقام کر دیا ۔ (القول الجمیل صفحہ ۱۷)
صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ انسان علم و تفقہ اور زُہد و ورع میں کتنا ہی بلند مقام کیوں نہ ہو وہ پیرومرشد (شیخ طریق) سے بے نیاز نہیں رہ سکتا ۔ چنانچہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ نے بہ ہمہ علم و تفقہ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی ۔ ان سے خرفہ خلافت پایا تھا اور تلقین ذکروفکر حاصل کی تھی ۔ نیز انہوں نے تبرکاً خرقہ اجازت حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ سے پہنا تھا ۔ (جواہر غیبی چہارم صفحہ ۲۳۲،چشتی)
حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ حضرت ہبیرہ بصری رحمۃ اللہ علیہ سے ارادت تھی ۔ آپ نے ان کی بیعت بھی کی تھی اوران سے خرقہ اجازت بھی پایا تھا ۔ (جواہر غیبی چہارم صفحہ ۲۳۲)
حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ کی بیعت کر کے ان سے خرقہ اجازت حاصل کیا تھا ۔ (جواہر غیبی چہارم ص۲۳۲)
حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ (۱۳۲۔۱۸۹ ہجری) ۷۴۹۔۸۰۴ء۔ نے حضرت داؤد طائی رحمۃ اللہ علیہ کی بیعت کی تھی اور ان سے خرقہ اجازت پایا تھا ۔ حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ (۱۱۳۔۱۸۳ ہجری) ۷۳۱۔۷۹۹ء حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ (م۔۲۳۷ ہجری) ۸۵۱ء کے مرید تھے ۔
ان شواہد کی روشنی میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سالک کےلیے مرشد یا شیخ طریقت کی تلاش ضروری اور لازمی ہے کیونکہ شیخ یا مرید کے بغیر تربیت و تزکیہ اخلاق نا ممکن ہے ۔ جس طرح امت ہدایت و رہنمائی کےلیے نبی کی محتاج ہوتی ہے اسی طرح طالب بھی شیخ کا محتاج ہوتا ہے ۔ نبوت کے بعد نیابت سے فاضل کوئی درجہ نہیں ہے اور یہ نیابت خلق کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقہ پر حق تعالیٰ کی دعوت دینا ہے ۔ اس سے مراد یہی نیابت ہے ۔ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے : الشیخ فی قومہ کا لنبی فی امتہٖ ’’ شیخ اپنی قوم میں ایسا ہے جیسے نبی اپنی امت میں ۔
شیخ طریقت کی تلاش و جستجو میں طالب کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ وہ ہر انسان کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہ دیدے ۔ بلکہ جس طرح جسمانی بیماری کےلیے کسی حاذق طبیب کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اسی طرح باطنی یا روحانی بیماریوں کےلیے بھی مرشد کامل کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اگر نیم حکیم جان کےلیے خطرہ ہوتا ہے تو ناقص شیخ طالب کے ایمان کےلیے خطرہ ہوتا ہو ۔ نیم حکیم مرض کی صحیح تشخیص نہیں کر سکتا اسی طرح ناقص شیخ تربیتِ سالک نہیں کر سکتا ۔ اس لیے بیعت کرنے والے کو کسی مرشد کامل جو کی صحیح جانشینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو کی بیعت کرنی چاہیے ورنہ بجائے فائدہ کے نقصان و ضرر کا احتمال زیادہ ہے ۔ مرید کامل ہی اس کو واصل بااللہ کر سکتا ہے ۔ عارف کامل حضرت میاں محمد بخش علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : ⬇
مرد ملے تے درد نہ چھوڑے اوگن دے گن کر دا
کامل لوگ محمد بخشا لعل بنان پتھر دا
پیر ناقص کی مثال ایسی ہے کہ وہ مریض جو طبیب ناقص سے علاج کرائے ۔ وہ درحقیقت اپنے مرض میں زیادتی کر رہا ہے اگر چہ ابتدا میں اس کی دو ا قدرے تخفیف کر دے مگر فی الحقیقت وہ عین ضرر و نقصان ہے ۔(مکتوبات شریعت دفتر اول مکتوب ۶۱)
دوسری جگہ فرماتے ہیں : دنیا آخرت کی کھیتی ہے اس شخص پر افسوس جس نے اس میں کچھ نہ کمایا اور جاننا چاہیے کہ زمین کو خالی رکھنا دو طرح پر ہے پہلے یہ کہ اس میں کچھ نہ بوئے اور دوسرا یہ کہ اس میں خبیث اور ردّی تخم ڈالے اور بیج ضائع کرنے کی یہ دوسری قسم ضرر فساد میں پہلی قسم سے بہت زیادہ ہے جیسا کی مخفی اور پوشیدہ نہیں ۔ بیج کی خرابی اور فساد یہ ہے کہ انسان پیر ناقص سے طریقہ اخذ کرے اور اس کے راستے پر چلے کیونکہ پیر ناقص اپنی خواہش نفس کا تابع اور پیروکار ہوتا ہے۔ اور جس چیز میں ہوائے نفس کی آمیزش ہو تو وہ خواہش نفس کی ہی معاونت کرے گی ۔ اس طرح تاریکی پر تاریکی میں اضافہ ہوگا ۔ دوسری خرابی یہ ہے کہ پیر ناقص اللہ سبحانہ و تعالیٰ تک پہنچانے والے راستوں اور نہ پہنچانے والوں راستوں میں تمیز نہیں کر سکتا ۔ کیونکہ وہ خود اب تک غیر واصل ہے تو طالب کو بھی گمراہی میں ڈال دے گا ۔ جس طرح خود گمراہی میں پڑا ہے ۔ (مکتوبات دفتر مکتوب اول ۲۳)
شیخ کامل کا انتخاب
آج کل زندگی کے ہر شعبہ میں مکار اور گند م نما جو فروشوں کی اکثریت ہے۔ اور اصل و نقل کی تمیز جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ آجکل خالص اور ضروریاتِ زندگی اور ادویات ملنا بھی محال ہے ۔ لیکن دنیا کے کام چل رہے ہیں ۔ اسی طرح جب یہ مسلمہ بات ہے کہ زمانہ اہل اللہ کے وجود سے کبھی خالی نہیں ہوتا ۔ (تفصیل پہلے گزر چکی ہے) تو انتخاب شیخ اگرچہ مشکل مسئلہ ہے لیکن شیخِ کامل سے روحانی فیض حاصل کرنے کی خاطر تصوف میں آداب و شرائط مقرر کیے گئے ہیں ۔ جن پر عمل کر نے سے یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے ۔ پھر اس بارے میں قرآن و حدیث اور اولیائے ربانی کے اپنے ارشادات بھی موجود ہیں جس سے ولی کامل کی پہچان آسان ہو جاتی ہے اس بارے میں اہل تصوف کی ہدایت یہ ہے کہ مجذوبوں اور مغلوب الحال درویشوں کو ہرگز شیخ نہیں بننا چاہیے اگرچہ یہ لوگ واصل باللہ ہی کیوں نہ ہوں ۔ تربیت ، مشیحیت اور پیری کے لیے یہ لوگ بالکل موزوں نہیں ہوتے ۔ (جواہر غیبی کنز چہارم صفحہ ۲۳۳،چشتی)
حضرت غوثُ الاعظم شیخ عبدالقاد ر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے طالب کےلیے ایک تیر بہ ہدف دعا کا طریقہ یوں بتلایا ہے کہ طالب نصف شب کو جاگ کر دو رکعت نماز پڑھے سجدہ کرے اور آہ وزاری کے ساتھ یہ دعا پڑھے : یا رب دلنی علی عبد من عبادک المقربین ید لنی علیک و یعلمنی طریق الوصول الیک ۔
ترجمہ : اے میرے ربّ! مجھے اپنے مقرب بندوں میں سے کسی بندے کی طرف رہنمائی کر جو مجھے تیری طرف رہنمائی کرے اور تجھ تک پہنچنے کا طریقہ بتلادے ۔
اللہ تعالیٰ اس دعا کے نتیجہ میں اسے اپنے اولیاء اللہ میں سے ضرور کسی شیخ کی طرف رہنمائی کر ے گا جو اس کا رہبر ہو ۔ (جواہر غیبی کنز چہارم صفحہ ۲۳۱)
حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی قدس سرہ فرماتے ہیں : نعمتیں عطا کرنے والے رب کے ادائے شکر کا پہلا درجہ یہ ہے کہ بندہ اپنے عقائد ناجیہ اہل سنت و جماعت کے مطابق صحیح اور درست رکھے ۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ اس بلند مرتبہ گروہ کے مجتہدین کی آراء کے مطابق احکامِ شرعیہ بجا لاتا رہے ۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ بلند درجہ گروہ صوفیہ کے سلوک کے موافق اپنے نفس کا تصفیہ و تزکیہ کرے ۔ (مکتوبات شریف۔ دفتر اول مکتوب ۷۱،چشتی)
شیخ کامل کی تلاش کرنی چاہیے اور اپنے باطنی امراض کا علاج اس سے کرانا چاہیے اور جب تک شیخ کامل نہ ملے ان احوا ل کو ’’لا‘‘ کے نیچے لا کر نفی کریں اور معبود برحق کا جو بے چوں و بے چگوں ہے اثبات کرے ۔ (مکتوبات ربانی دفتر اول مکتوب ۲۳)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : آج کل جو بیعت رائج ہے اسے بیعتِ تبرک کہتے ہیں جو نہ فرض ہے نہ واجب اور نہ ایسا کوئی حکم شرعی کہ جس کو نہ کرنے پر گناہ یا آخرت میں مواخذہ ہو ۔ ہاں ! اگر کوئی جامع شرائط پیر مل جائے تو ہاتھ دے کر اس کا مرید ہونا ایک نیک عمل اور باعث خیر و برکت اور بہت سے دینی و دنیاوی فائدے کا حامل ہے ۔
بعض لوگ اپنے من پسند پیروں اور ان کے صاحبان ثروت مریدین کو خوش کرنے کےلیے ” من لا شیخ لہ فشیخه الشیطٰن” یعنی جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیر شیطان ہے ، سے مراد آج کل کی مروجہ پیری ، مریدی لیتے ہیں ، اور اپنی اس جاہلانہ فکر کو بڑے دهڑلے سے اپنی تقریر و تحریر یہاں تک کہ جلسہ و جلوس کے پوسٹرز کے ذریعے خوب پھیلاتے ہیں تا کہ عوام کی خاطر خواہ بهیڑ اکٹھی ہو جائے ، ان کے مخصوص پیر صاحب ان سے خوش ہو جائیں اور صلے میں مولوی صاحب کو “طوقِ خلافت” عطا فرما دیں ۔
حضرت فاضل بریلوی فرماتے ہیں کہ : پہلے یہ ذہن نشین کر لیں کہ یہ کوئی حدیث نہیں بلکہ حضرت بایزید بسطامی رحمة اللہ علیہ کا قول ہے ۔ واضح رہے کہ اس شیخ سے مراد ، مرشدِ عام ہے نہ کہ مرشدِ خاص ، اور مرشدِ عام درج ذیل ہیں : ⬇
1 ۔ کلام خدا
2 ۔ کلام رسول
3 ۔ کلام ائمہ شریعت و طریقت
4 ۔ کلام علمائے ظاہر و باطن
اس سلسلہ صحیحہ پر کہ : عوام کا ہادی ، کلامِ علما ۔ علما کا رہ نما ، کلامِ ائمہ ۔ ائمہ کا مرشد ، کلامِ رسول ۔ رسول کا پیشوا ، کلامِ خدا ” سنی صحیح العقیدہ کہ ائمہ کرام کو مانتا ، تقلید ائمہ ضروری جانتا ، اولیائے کرام کا سچا معتقد ، تمام عقائد میں راہ حق پر مستقیم وہ ہرگز بے پیر نہیں ، وہ چاروں مرشدانِ پاک یعنی کلام خدا و رسول ، ائمہ کرام و علمائے ظاہر و باطن اس کے پیر ہیں ۔ اگر چہ بظاہر کسی خاص بندہء خدا کے دست (ہاتھ ) مبارک پر شرف بیعت سے مشرف نہ ہوا ہو ۔ (نقاء السلافة فی احکام البیعة والخلافة صفحہ 40)
ایک دوسرے مقام پر اعلیٰ حضرت رحمة اللہ علیہ نے فرمایا : جہنم سے نجات اور چهٹکارے کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مرشد جاننا کافی ہے ۔ (فتاوی افریقہ صفحہ 136) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment