Monday, 1 May 2023

سجدہ سے متعلق شرعی احکام اور حرمت سجدہ تعظیمی

سجدہ سے متعلق شرعی احکام اور حرمت سجدہ تعظیمی
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبْلِیۡسَ ؕ اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیۡنَ ۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر 34)
ترجمہ : اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہو گیا ۔
 اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام موجودات کا نمونہ اور عالَم روحانی و جسمانی کا مجموعہ بنایا اور فرشتوں کے لیے حصولِ کمالات کا وسیلہ بنایا تو انہیں حکم فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں کیونکہ اس میں حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت کا اعتراف اور اپنے مقولہ’’اَتَجْعَلُ فِیۡہَا ‘‘ کی معذرت بھی ہے ۔ بہرحال تمام فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا گیااور ملائکہ مقربین سمیت تمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور تکبر کے طور پر یہ سمجھتا رہا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام سے افضل ہے اوراس جیسے انتہائی عبادت گزار ، فرشتوں کے استاد اور مقربِ بارگاہِ الٰہی کو سجدہ کا حکم دینا حکمت کے خلاف ہے ۔ اپنے اس باطل عقیدے ، حکمِ الٰہی سے انکار اور تعظیم نبی سے تکبر کی وجہ سے وہ کافر ہو گیا ۔ حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس کا واقعہ قرآن پاک کی سات سورتوں میں بیان کیا گیا ہے ۔ جب حضرت آدم علیہ السلام کی فرشتوں پر فضیلت علمی ظاہر ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت علمی کا اعتراف کرانے کےلیے انہیں سجدہ کرنے کا حکم دیا ۔ ایک اور آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کا جسم بناتے ہی فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا :  فاذا سویتہ و نفخت فیہ من روحی فقعوا لہ سٰجدین ۔ (ورہ الحجر : ٢٩) 
ترجمہ : سو جب میں اس کو پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی پسندیدہ روح پھونک دوں تو تم اس کےلیے سجدہ کرتے ہوئے گرجانا ۔

اس آیت کے اعتبار سے فرشتوں کا امتحان ہے اور حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت کا اظہار اور فرشتوں کی اطاعت گزاری کا بیان ہے ۔

سجدہ کا لغوی اور شرعی معنی

علامہ مجدالدین فیروزآبادی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ سجدہ کا معنی ہے : سر نیچے کیا اور جھک گیا ۔ (قاموس ج ١ ص ٥٧٩‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت ‘ ١٤١٢ ھ)

علامہ راغب اصفہانی (رح) لکھتے ہیں : سجدہ کا لغوی معنی ہے : تذلل کے ساتھ جھکنا ‘ سجدہ کو اللہ کی عبادت سے تعبیر کرتے ہیں ‘ سجدہ کی دو قسمیں ہیں : ایک سجدہ اختیاری ہے اور دوسرا سجدہ تسخیر ہے ‘ سجدہ اختیاری باعث ثواب ہے ‘ قرآن مجید میں ہے : فاسجدوا للہ واعبدوا ۔ (سورہ النجم ٦٢) 
ترجمہ : سو اللہ کےلیے سجدہ کرو اور اس کی عبادت کرو ۔

اور سجدہ تسخیر ‘ انسان ‘ حیوان اور نباتات سب ادا کرتے ہیں : (المفردات صفحہ ٢٢٣ مطبوعہ المکتبۃ المرتضویہ ‘ ایران ‘ ١٣٤٢ ھ)

وللہ یسجدمن فی السموت والارض طوعا وکرھا ۔ (سورہ الرعد : ١٥) 
ترجمہ : اور جو آسمانوں اور زمین میں ہیں سب خوشی یا مجبوری سے اللہ ہی کو سجدہ کررہے ہیں ۔

سجدہ کے شرعی معنی کے متعلق علامہ بیضاوی (رح) لکھتے ہیں : عبادت کے قصد سے پیشانی کو زمین پر رکھنا سجدہ ہے ۔ (انوار التنزیل (درسی) صفحہ ٦٢ مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز کراچی)

پیشانی کو زمین پر رکھنا ہاتھوں کو اور گھٹنے یا پیروں میں سے کسی ایک کے زمین پر رکھنے پر موقوف ہے ‘ اس لیے سجدہ کا رکن پیشانی، ہاتھوں اور گھٹنوں اور پیروں میں سے کسی ایک کو زمین پر رکھنا ہے ‘ اور سنت کے مطابق سجدہ سات اعضاء پر ہوتا ہے : چہرہ ‘ دونوں ہاتھ اور دونوں پیر ۔ فرشتوں کو جس سجدہ کا حکم دیا گیا تھا اس سے یا تو شرعی سجدہ مراد ہے اس صورت میں سجدہ اللہ تعالیٰ تھا اور حضرت آدم کو ان کی عزت افزائی کے لیے قبلہ بنایا گیا تھا ‘ اور یا یہ لغوی سجدہ تھا یعنی سجدہ تعظیم ‘ اور فرشتوں کو حضرت آدم (علیہ السلام) کی تعظیم اور تحیث کے لیے تو اضعا جھک جانے کا حکم دیا گیا تھا جیسے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی تواضعا سجدہ کر کے تعظیم کی تھی ۔

سجدے کی دو قسمیں ہیں : (۱) عبادت کا سجدہ (۲) تعظیم کا سجدہ ۔ ’’عبادت کا سجدہ‘‘ کسی کو معبود سمجھ کر کیا جاتا ہے اور’’ تعظیم کا سجدہ‘‘ وہ ہوتا ہے جس سے مسجود(یعنی جسے سجدہ کیا جائے اس) کی تعظیم مقصود ہوتی ہے ۔

(2) یہ قطعی عقیدہ ہے کہ’’ سجدئہ عبادت‘‘ اللہ تعالیٰ کےلیے خاص ہے کسی اور کےلیے نہیں ہوسکتا اورنہ کسی شریعت میں کبھی جائز ہوا ۔

(3) فرشتوں نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تعظیمی سجدہ کیا تھا اور وہ باقاعدہ پیشانی زمین پر رکھنے کی صورت میں تھا ،صرف سر جھکانا نہ تھا ۔

(4) تعظیمی سجدہ پہلی شریعتوں میں جائز تھا ہماری شریعت میں منسوخ کردیاگیا اب کسی کے لیے جائز نہیں ہے۔ لہٰذا کسی پیر یا ولی یا مزار کو تعظیمی سجدہ کرنا حرام ہے لیکن یہ یاد رہے کہ تعظیمی سجدہ کرنے والوں پر یہ بہتان باندھنا کہ یہ معبود سمجھ کر سجدہ کرتے ہیں یہ اس تعظیمی سجدہ سے بڑا جرم ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کو مشرک و کافر کہنا ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْ نے غیرُاللہ  کو تعظیمی سجدہ کرنے کے حرام ہونے پر ایک عظیم کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے: ’’اَلزُّبْدَۃُ الزَّکِیَّہْ فِیْ تَحْرِیْمِ سُجُوْدِ التَّحِیَّہْ (غیرُ اللہ کےلیے سجدۂ تعظیمی کے حرام ہونے کا بیان) ‘‘ یہ کتاب فتاویٰ رضویہ کی 22 ویں جلد میں موجود ہے اور اس کا مطالعہ کرنا انتہائی مفید ہے ۔

غیر اللہ کو سجدہ کسی طرح جائز نہیں نہ بطورِ عبادت نہ بطریق تعظیم۔ حرمت سجدہ پر قرآن و احادیث شاہد و ناطق ہیں۔ آیاتِ قرآنی ملاحظہ ہوں۔ (1) یا ایھا الذین آمنوا ارکعوا واسجدوا واعبدوا ربکم۔(سورۃ الحج آیت۷۷) اے ایمان والو اپنے رب کے لئے رکوع کرو، سجدہ کرو اور عبادت کرو۔ (2) فاسجدوا للّٰہ واعبدوہ۔(سورۃ النجم آیت۲۶) اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرو اور اس کی عبادت کرو۔ (3) واسجدو للّٰہ الذی خلقھن ان کنتم ایاہ تعبدون۔(سورۃ فصّلت آیت ۷۳)اور اللہ ہی کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیداکیا اگر تم اس کے بندے ہو۔

اور اس سلسلے میں احادیث کثرت سے وارد ہیں۔ ان میں سے ایک حدیث جسے امام ترمذی نے روایت فرمایا ہے لکھی جاتی ہے ۔

عن ابی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم لو کنت آمرا احدا ان یسجد لاحد لامرت المرأۃ ان تسجد لزوجھا۔
ترجمہ :  اگر میں کسی کو کسی کے لئے سجدہ کرنے کا حکم کرتا تو عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ۔ (جامع ترمذی رقم ۹۵۱۱)(مسنداحمدبن حنبل رقم۲۲۴۹۱،چشتی)(مسندالبزار رقم۸۱۳۴)(السنن الکبری للبیہقی رقم ۱۰۱۵۱)

البتہ امم سابقہ میں سجدۂ تعظیمی جائز تھا اور حضرت آدم علیہ السلامکو جو فرشتوں نے سجدہ کیا اور حضرت یوسف علیہ السلام کو جو ان کے بھائیوں نے اور والد نے سجدہ کیا وہ اسی قبیل سے تھا مگر سجدۂ تعظیمی ہمیں جائز نہیں کہ ہماری شریعت نے ہمیں اس سے روکا ہے جیسا کہ مذکور ہو چکا ہے ۔

امام ابوبکر جصاص حنفی رحمۃ اللہ علیہ احکام القرآن میں فرماتے ہیں۔وقدکان السجود جائزا فی شریعۃ آدم علیہ السلام للمخلوقین و یشبہ ان یکون قد کان باقیا الی زمان یوسف علیہ السلام الخ ۔
ترجمہ : مخلوق کو سجدہ کرنا آدم علیہ السلام کی شریعت میں جائز تھااور شاید حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے تک باقی رہا ۔ 
اسی میں ہے۔الا ان یکون السجود لغیر اللّٰہ تعالی علی وجہ التکرمۃ والتحیۃ منسوخ بماروت عائشۃ و جابر ابن عبداللّٰہ و انس ان النبی علیہ السلام قال ما ینبغی لبشر ان یسجد لبشر و لو صلح لبشر ان یسجد لبشر لامرت المرأۃ ان تسجد لزوجھا من عظم حقہ علیھا۔(احکام القرآن ص 35 ج1،چشتی)
ترجمہ : مگر یہ کہ غیراللہ کوسجدہ تکریم یا تحیۃ کے طورپرمنسوخ ہے اس وجہ سے جوحضرت عائشہ،جابربن عبداللہ اور حضرت انس سے روایت کیا گیا۔کسی انسان کی شان نہیں کہ وہ دوسرے کو سجدہ کرے اگر ایک انسان کا دوسرے انسان کو سجدہ کرناممکن ہوتاتوضرورمیں عورت کو اپنے شوہر کے حق کی عطمت کی وجہ سے سجدہ کرنے کاحکم دیتا۔ اور جس کو زیادہ تحقیق مطلوب ہو وہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمہ اللہ تعالی کے رسالہ ”الزبدۃ الزکیۃ فی تحریم سجدۃ التحیۃ“ کا مطالعہ کرے ۔ ایسا شخص جس کا عقیدہ وہ ہو جو سوال میں مذکورہوا عند الشرع فاسق و فاجر و مستحق سزا ہے۔ حاکم وقت اپنی صوابدید پر اسے مناسب سزا دینے کا مجاز ہے اور لوگوں پر لازم ہے کہ ایسے شخص سے بچیں اس سے اُٹھنا بیٹھنا و سلام و کلام سب ترک کر دیں ۔

قال اللّٰہ تعالی و اما ینسینک الشیطن فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظالمین ۔ (سورۃ الانعام آیت ۸۶) 

علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں : ففیہ تحریم السجود لغیراللّٰہ تعالٰی (الاکلیل فی استباط التنزیل) ، یعنی اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لیے سجدہ حرام قرار دیا گیا ۔

کسی شخص کا اونٹ بگڑ گیا کسی کو پاس نہ آنے دیتا حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے عرض کی ،آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم صحابہ کے ساتھ جب باغ پہنچے تو اونٹ کی طرف چلے لوگوں نے کہا کہ وہ اونٹ بائولا ہوگیا ہے مبادا حملہ نہ کردے۔ فرمایا ہمیں اس کا اندیشہ نہیں اونٹ حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو دیکھ کر آپ کی طرف چلا اور قریب آکر حضور کے لیے سجدے میں گراحضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے اس کے ما تھے کے بال پکڑکر کام میں دے دیا ۔صحابہ نے عرض کی کہ یہ چوپایہ ہے عقل نہیں رکھتا اور آپ کو سجدہ کر رہا ہے ہم توعقل والے ہیں زیادہ مستحق ہیں کہ آپ کو سجدہ کریں حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا کسی بشر کو یہ لائق نہیں کہ بشر کو سجدہ کرے ۔ (سنن نسائی)
ایک اور جگہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا بیشک سب لوگوں سے بدتر وہ لوگ ہیں جنکے جیتے جی قیامت قائم ہوگی اور وہ لوگ جو قبور کو جائے سجود ٹھراتے ہیں ۔ (مسند امام احمد بن حنبل،چشتی)

عالموں اور بزرگوں کے سامنے زمین چومنا حرام ہے اور چومنے والا اور اس پرراضی رہنے والا دونوں گناہ گار ہیں ۔ (درمختار، مجمع الانھر، فتاوٰی عالمگیری، تبیین الحقائق)

سجدہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو جائزنہیں ۔ (فتاوٰی عالمگیری)

امام اہل سنت امام، احمد رضا فاضل بریلوی رحمتہ اللہ علیہ سجدہ تحیت کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں : مسلمان اے مسلمان ! اے شریعت مصطفوی کے تابع فرمان ، جان اور یقین جان کہ سجدہ حضرت عزت عزوجل کے سوا کسی کے لئے نہیں ۔ اس کے غیرکو سجدہ عبادت تو یقینا اجماعا شرک مہین و کفرمبین اور سجدہ تحیت حرام و گناہ کبیرہ بالیقین ۔ ہاں ! مثل صنم و صلیب و شمس و قمر کے لئے سجدے پر مطلقا اکفار ۔ تو قرآن عظیم نے ثابت فرمایا کہ سجدہ تحیت ایسا سخت حرام ہے کہ مشابہ کفرہے ۔ والعیاذباللہ تعالی ۔ صحابہ کرام علیھم الرضوان نے حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو سجدہ تحیت کی اجازت چاہی ۔ اس پر ارشاد ہوا کہ کیا تمھیں کفر کا حکم دیں ۔ معلوم ہوا کہ سجدہ تحیت ایسی قبیح چیز ہے جسے کفر سے تعبیر فرمایا ۔ جب خود حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے لئے سجدہ تحیت کا یہ حکم ہے تو پھر اوروں کا کیا ذکر ؟ واللہ الھادی ۔ (الزبدۃ الزکیہ لتحریم سجود التحۃ ۔ کتب خانہ سمنانی میرٹھ ۔ صفحہ 05 اور 10،چشتی)

نوٹ : حضرت فاضل بریلوی رحمتۃ اللہ علیہ کی یہ کتاب اتنی مدلل اور وقیع ہے کہ اس کے بارے میں علامہ ابو الحسن علی ندوی دیوبندی نے لکھا ہے کہ : یہ ایک جامع رسالہ ہے جس سے مولانا بریلوی کے وفور علم اور ان کی وسعت معلومات کا پتہ چلتا ہے " .(نزھۃ الخواطر صفحہ 40 جلد 8)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ : غیر خدا کو سجدہ کرنا شرک ہے اور سجدہ تعظیم حرام ہے ۔ (تفسیر نعیمی جلد 3)

مفتی اجمل قادر ی رضوی رحمۃ اللہ علیہ : ہماری شریعت میں یہ سجدۂ تعظیمی حرام ہے ۔ (فتاویٰ اجملیہ جلد 4)

اصل میں سجدہ کی دو بنیادی اقسام ہیں : اور اسلامی و شرعی لٹریچر میں واضح بیان کی گئی ہیں: ایک قسم سجدہء عبادت دوسرا سجدہء تعظیمی۔۔۔جناب سیدناآدم و سیدنایوسف علی نبینا و علیہ السلام کو جو سجدہ ہوا وہ سجدہ تعظیمی تھا  ۔ ۔دوسری شریعتوں میں سجدہ تعظیمی ،رب العزت کے علاوہ جائز رکھا گیا تھا۔۔سجدہ عبادت کسی بھی شریعت میں کسی بھی حالت میں کبھی بھی جائز نہیں رہا اور نہ ہی یہ عملا ممکن تھا،بلکہ یہ تو منطق کی اصطلاح میں "ممتنع" ہے۔۔۔سجدہ تعظیمی دوسری شرائع میں جائز تھا ۔۔۔مگر ہماری شریعت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے اسے بھی حرام فرمادیا۔۔۔جی ہاں! حرام ،،یعنی اگر کوئی شخص سجدہ، عبادت کی نیت سے کرتا ہےتو ''شرک'' ہے،لیکن اگر تعظیما کرتاہےتو''حرام "ہے ۔

 سجدہ تعظیمی (کسی کی عزت و تعظیم کی نیت سے کیا گیا سجدہ) تو اس کے بارے میں چاروں آئمہ امت حتی کہ غیر مقلدین سمیت ساری امت متفق ہے کہ سجدہء تعظیمی شریعت محمدی :صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم : سے پہلے بعض امتوں میں جائز تھا ۔ حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں کا سجدہ یا حضرت یوسف علیہ السلام کو کیا گیا سجدہ بھی اسی سجدہء تعظیمی کی مثالیں ہیں ۔ لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم : کے بعد شریعت اسلامیہ میں یہ سجدہ بھی حرام و ممنوع قرار دے دیا گیا ۔ یہ حکم براہ راست سنن ابن ماجه ، كتاب النكاح ، باب حق الزوج على المراة ، حدیث نمبر : 1926 اس حدیث پاک سے ثابت ہے ۔ 

صحابی رسول صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ایک بار ملک شام گئے ۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ شامی لوگ اپنے اکابرین اور بزرگوں کو سجدہ کرتے ہیں ۔ وہ جب واپس لوٹے تو انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو آکر سجدہ کیا ۔ آقا کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے پوچھا : معاذ - یہ کیا بات ہے ؟ ۔ تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم میں نے اہلِ شام کو اپنے بڑوں اور بزرگوں کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو آقا آپ : صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم : تو اس (سجدہ) کے سب سے زیادہ مستحق ہیں ۔ اس پر حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا ـ (حسن صحيح سنن ابن ماجة ( 1853)
ترجمہ : اگر میں کسی کو کسی کےلیے سجدے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کے سامنے سجدہ کرے (لیکن سجدہ کسی کےلیے جائز نہیں) ۔
نتیجہ یہ نکلا کہ بطور امتِ محمدی ہمارے لیے سجدہ سوائے اللہ تعالی وحدہُ لاشریک کے کسی کو بھی کسی بھی نیت سے کرنا جائز نہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں شرعی احکام کو سمجھنے اور اُن پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...