Wednesday 3 May 2023

امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ حصّہ نمبر 4

0 comments

امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ حصّہ نمبر 4

عقیدہ ختم نبوت اور امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ : برصغیر پاک و ہند میں امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کے خانوادے نے منکرین ختم نبوت اور قادیانیت کا رد کیا ۔ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے مرزا قادیانی کو صرف کافر ہی نہیں قرار دیا بلکہ اس کو مزید منافق بھی کہا ہے اور اپنے فتوٶں میں اس کو اس کے اصلی نام کے غلام قادیانی کے نام سے تعبیر کیا ہے ۔ مرتد و منافق وہ شخص ہے جو کلمہ اسلام پڑھتا ہے ۔ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے ۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ یا نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم یا کسی نبی یا رسول کی توہین کرتا ہے‘ یا ضروریات دین سے کسی شے کا منکر ہے ۔ اس کے احکام کافر سے بھی سخت تر ہیں ۔ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے مرزا غلام قادیانی اور منکرین ختم نبوت کو رد ابطال میں متعدد فتویٰ کے علاوہ جو مستقل رسائل تصنیف کیے ہیں‘ ان کے نام یہ ہیں : ⬇

1 ۔ جزاء ﷲ عدو بآباہ ختم النبوۃ: یہ رسالہ 1317ھ میں تصنیف ہوا۔ اس میں عقیدہ ختم نبوت پر 120 حدیثیں اور منکرین کی تکفیر پر جلیل القدر ائمہ کرام کی تیس تصریحات پیش کی گئی ہیں ۔

2 ۔ السوء والعقاب علی المسیح الکذاب: یہ رسالہ 1320ھ میں اس سوال کے جواب میں تحریر ہوا کہ اگر ایک مسلمان مرزائی ہو جائے تو کیا اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکل جائے گی ؟ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے دس وجوہات سے مرزا غلام قادیانی کا کفر ثابت کر کے احادیث کے نصوص اور دلائل شرعیہ سے ثابت کیا کہ سنی مسلمہ عورت کا نکاح باطل ہو گیا ۔ وہ اپنے کافر مرتد شوہر سے فوراً علیحدہ ہو جائے ۔

3 ۔ قہرالدیان علی فرقہ بقادیان : یہ رسالہ 1323ھ میں تصنیف ہوا ۔ اس میں جھوٹے مسیح قادیان کے شیطانی الہاموں‘ اس کی کتابوں کے کفریہ اقوال سیدنا عیسٰی علیہ الصلواۃ والسلام اور ان کی والدہ ماجدہ سیدہ مریم رضی ﷲ عنہا کی پاک و طہارت اور ان کی عظمت کو اجاگر کیا گیا ہے ۔

4 ۔ المبین ختم النبین : یہ رسالہ 1326ھ میں اس سوال کے جواب میں تصنیف ہوا کہ ’’خاتم النبین میں لفظ النبین پر جو الف لام ہے‘ وہ مستغرق کا ہے ۔ یہ عہد خارجی کا ہے ۔ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے دلائل کثیرہ واضح سے ثابت کیا ہے کہ اس پر الف لام استغراق کا ہے اور اس کا منکر کافر ہے ۔

5 ۔ الجزار الدیان علی المرتد القادیان : یہ رسالہ 3 محرم الحرام 1340ھ کو ایک استفتیٰ کے جواب میں لکھا گیا اور اس سال 25 صفر المظفر 1340ھ کو آپ کا وصال ہوا ۔

6 ۔ المعتقد : امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کے مستند افتاء سے ہندوستان میں جو سب سے پہلا رسالہ قادیانیت کی رد میں شامل ہوا ‘ وہ ان کے صاحبزادے مولانا مفتی حامد رضا خان نے 1315ئ/1896ء الصارم الربانی علی اسراف القادیانی کی نام سے تحریر کیا تھا جس میں مسئلہ حیات عیسٰی علیہ السلام کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور غلام قادیانی کذاب کی مثیل مسیح ہونے کا زبردست رد کیا گیا ہے ۔ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے خود اس رسالے کو سراہا ہے ۔ مذکورہ بالا سطور سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ منکرین نبوت اور قادیانیوں کی رد میں امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کس قدر سرگرم ‘ مستعد متحرک اور فعال تھے ۔ وہ اس فتنے کے ظہور ہوتے ہی اس کی سرکوبی کے درپے تھے ۔ اس فتنے کی رد میں امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کی مساعی جمیلہ اس قدر قابل ستائش اور قابل توجہ ہے کہ ہر موافق و مخالف نے انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے ۔​

اللہ عزوجل نے سرزمین ہند کو دیگر بے شمار انعامات کے ساتھ علم و فن کی دولت سے بھی نوازا ہے، یہاں سےہزاروں جَلیل الْقَدْر اولیا و صوفیا اور علما نے دین اسلام کا پرچم بلند کیا ، ان ہی دین کے خدمت گاروں میں ایک نام امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے ، آپ نے اپنی زبان وقلم کے ذریعے نہ صرف دین ِاسلام کی تبلیغ واشاعت کی بلکہ دینِ اسلام پر ہونے والے اعتراضات اور اسلام کے تَشَخُّص کو داغدار کرنے والے باطل نظریات کا مُدَلَّل رَدّ بھی فرمایا ، ہر دور کی طرح آپ کے دور میں بھی دشمانانِ اسلام کے زرخرید مولویوں نے مسلمانوں کے دلوں سے خوفِ خدا ، عشقِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ، ادبِ صحابہ اور مقامِ اہلبیت رضی اللہ عنہم کو گھٹانے کےلیے کئی ہتھکنڈے آزمائے ، کبھی قرآن پاک کے غلط ترجمے کر کے ، کبھی مسلمانوں کے عقیدوں کو شرک و بدعت کہہ کر تو کبھی اولیا کی فیض گاہوں سے دور کر کے مگر قربان جایئے امام اہلسنت پر جنہوں نے بَفضلِ خداوندی قرآن و حدیث اور آثارِ اسلاف کے جامع دلائل سے ان باطل نظریات کا رَدّ فرما کر امت ِمُسلمہ کو ان کے چنگل میں پھنسنے اور گمراہ ہونے سے بچایا ۔ عقائدِ اسلام کے تحفظ کےلیے امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات میں سے چند مثالیں پیش خدمت ہیں : ⬇

جب قرآن مجید کی آیات متشابہات کو لے کر آریہ سماج ہندوؤں نے اعتراضات کیے تو امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے رد میں تحقیقی رسالہ ’’قَوَارِعُ الْقَہَّارِعَلَی الْمُجَسَّمَۃِ الْفُجَّارِ‘‘ لکھا اور تمام اعتراضات کا مُسکِت جواب دیا ۔ اس رسالہ کا مطالعہ کرنے کےلیے فتاوٰی رضویہ کی جلد انتیس 29 کو دیکھیے ۔

جس وقت ایسے تراجم قرآن کی کثرت ہونے لگی جس میں تقدیس الٰہی کا پا س تھا نہ عظمت رسول کا رنگ ، کوئی اللہ پاک کو دھوکا دینے والا لکھ رہا ہے تو کوئی رسولاللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو گمراہ ، ایسے ماحول میں ایک ایسے ترجمۂ قرآن کی سخت ضرورت تھی جو عظمتِ خداوندی کا آئینہ اور حرمتِ رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا سرچشمہ ہو ۔ اللہ پاک نے یہ عظیم کام امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ سےلیا ۔ آپ نے قرآن پاک کا ترجمہ کیا جو کہ کنز الایمان کے نام سے آج بہت مشہور ہے ۔ آپ کے ترجمہ قرآن کو پڑھنے سے دل میں اللہ عزوجل کی محبت اور عشق رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں اضافہ ہوتا ہے ۔

جب اس بات پر کتابیں لکھیں جانے لگیں کہ جھوٹ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت میں داخل ہے اور وہ جھوٹ بولنے پر قادر ہے تو امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے ’’سُبْحٰن السُّبُّوْحِ عَنْ کِذْب مّقْبُوْح‘‘ لکھ کر اس بات کو ثابت کیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ذات اس عیب سے پاک ہے ۔ مزید تفصیلات کےلیےفتاوٰی رضویہ کی پندرہویں 15جلد دیکھیں ۔

ختم نبوت کے انکاری نظریہ پر امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے مرزا غلام احمد قادیانی کا سخت تعاقب کیا اور اس کے رد میں کتب و رسائل بنام ’’اَلسّو ء وَالْعِقَاب عَلَی الَمَسِیْحِ الْکَذَّابِ‘‘ ، ’’قَھْرُ الدِّیَانِ عَلٰی مُرْتَدٍّ بِقَادِیَانِ‘‘ ، ’’اَلْجُرَازُ الدِّیَانِیْ عَلَی الْمُرْتَدِّ الْقَادِیَانِیْ‘‘، ’’ جَزَاءُ ﷲِ عَدُوِّہ بِاٰبَائِہٖ ختم النبُوَّۃِ‘‘ لکھے جس سے آپ کی علمیت اور رد مزائیت کا واضح ثبوت ملتا ہے مزید تفصیلات کےلیےفتاوٰی رضویہ کی پندرہویں 15جلد دیکھیں ۔

جب اس نظریہ کو عام کیا جانے لگاکہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو لفظِ یا کے ساتھ نداء کرنا شرک ہے تو امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے’’اَنْوَارُ الْاِنْتِبَاہِ فِیْ حَلِّ نِدَاءِ یَارَسْوْلَ اللہِ‘‘ نامی رسالہ لکھا اور یہ ثابت کیا کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو لفظِ یا کے ساتھ پکارنا نہ صرف جائز بلکہ اسلاف سے ثابت بھی ہے ، مزید تفصیلات کےلیے فتاوٰی رضویہ کی انتیسویں29 جلد دیکھیں ۔

جب اہل اسلام میں یہ بات پھیلائی جانے لگی کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دافع البلاء (مصیبتوں کودور کرنے والا) سمجھنا شرک ہے امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے قلم اٹھایا اور رسالہ ’’اَلْاَمْنُ وَالْعُلٰی لِنَا عَتِیِ الْمُصْطَفٰی بِدَافِعِ الْبَلَاءِ‘‘ لکھا اور اس بات کو ثابت کیا کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اللہ پاک کی عطا سے دافعُ البلاء ہیں یہ رسالہ فتاوٰی رضویہ کی تیسویں 30 جلد میں برکتیں لُٹا رہا ہے ۔

جب مسلمانوں کو نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے متعلق عطائی علم غیب رکھنے کے عقیدہ پر مشرک کہاجانے لگا تو امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے اس طرح کی باتیں کرنے والے تمام لوگوں کا علمی تعاقب کیا اور رسالہ ’’اِنْبَآءُ الْمُصْطَفٰی بِحَالِ سِرِّواَخْفٰی‘‘ لکھا اور ثابت کیا کہ اللہ پاک نے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو صبح قیامت تک کے جمیع امور کا علم عطا فرمایا اور یہ رسالہ فتاوٰی رضویہ کی انتیسویں 29 جلد میں پڑھنے والوں کے عشق میں اضافہ کا سبب بن رہا ہے ۔

جب غیر اللہ سے استغاثہ اور مدد کے متعلق مسلمانوں پر یہ الزام لگایا جانے لگا کہ وہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور اولیاء کرام رَحِمَہُمُ اللہُ علیہم کو معبود مان کر ان سے مدد مانگتے ہیں اور اس بات کی آ ڑ میں مَعَاذَ اللہ مسلمانوں کو مشرک اور بدعتی تک کہا جانے لگا تو امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے رسالہ ’’بَرَکَاتُ الْاِمْدَادِ لِاَھْلِ الْاِسْتِمْدَادِ‘‘ تالیف کیا اور ثابت کیا کہ مسلمانوں پر یہ کھلا بہتان ہے اور اس مسئلہ کی تمام صورتوں کو واضح کردیا۔اس رسالہ کو فتاوٰی رضویہ کی جلد اکیس 21 میں پڑھا جا سکتا ہے ۔

غیر مُقلد وھابی مولوی احسان الہیٰ ظہیر کذّابِ اعظم پیروکار ابن وھاب نجدی کی بدنام زمانہ کتاب البریلویہ میں امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ پر لگائے جانے والے ایک الزام کا منہ توڑ جواب : ⬇

مرزا غلام قادر بیگ کون تھے ؟ امام احمد رضا بریلو ی قدس سرہ ، العزیز کے مخالفین کی بے مائیگی کا یہ عالم ہے کہ پادر ہوا الزامات عائد کرنے سے بھی نہیں چوکتے اور یہ نہیں سوچتے کہ شکوک و شبہادت کی تاریکی چھٹتے کتنی دیر لگے کی اور جب ظلمتِ شبِ اعتراضات دور ہو گی تو امام احمد رضا بریلوی کا قداور اونچا ہو چکا ہو گا ۔

ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے : والجدیر بالذکر ان المدرس الذی کان یدرسہ مرزا غلام قادر بیک کان اخلال لمرزا غلام احمد المتنبی القادیانی ۔ (البریلویۃ صفحہ ۲۰)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ جو مدرس انہیں پڑ ھایا کرتا تھا ۔ مرزا غلام قادر بیگ نبوت کے جھوٹے دعوے دار مرزا غلام احمد قادیانی کا بھائی تھا ۔

اس سلسلے میں چند امور تو جہ طلب ہیں : ہمیں یہ کہنے کا حق ہے کہ ثابت کیا جائے کہ امام احمد رضا بریلوی کے استاذمرزا غلام قادر بیگ ، مرزا قادیانی کے بھائی تھے : فان لم تفعلو اولن تفعلوا فاتقو ا النار التی وقودھا الناس والحجارۃ ۔ کان یدرسہ کا یہ مطلب ہے کہ مرزا غلام قادر بیگ مستقل استاذ تھے جن سے امام احمد رضا بریلوی نے تمام یا اکثر و بیشتر کتابیں پڑ ھی تھیں ، حالانکہ ان سے صرف چند ابتدائی کتابیں پڑ ھی تھیں ۔ ملک العلماء مولانا ظفرالدین بہاری فرماتے ہیں : میزان منشعب وغیرہ جناب مرزا غلام قادربیگ صاحب سے پڑ ھنا شروع کیا۔(ظفر الدین بہاری ، مولانا: حیات اعلیٰ حضرت صفحہ ۳۲،چشتی)

جب عربی کی ابتدائی کتابوں سے حضور فارغ ہوئے ، تو تمام دینیات کی تکمیل اپنے والد ماجد حضرت مولانا مولوی نقی علی صاحب ۔ سے تمام فرمائی ۔ (ظفر الدین بہاری ، مولانا: حیات اعلیٰ حضرت صفحہ ۳۲)

امام احمد رضا بریلو ی کے مخالفین بھی تسلیم کریں گے کہ وہ مرزائیوں اور اسلام کے نام پر بد مذہبی پھیلانے والے تمام فرقوں کےلیے شمشیر بے نیام تھے ۔ مرزائیوں کے خلاف متعدد رسائل تحریر فرمائے چند نام یہ ہیں : ⬇

(۱) المبین ختم النبیین

(۲) السوء والعقاب علی المسیح الکذاب

(۳) قھرالدیان علیٰ مرتد بقا دیان

(۴) جزاء للہ عدوہ بابائہ ختم البنوۃ

(۵) الجرازالدیانی علی المرتد القادیانی

آخرالذکر رسالہ ایک سوال کا جواب ہے جو ۳ محرم۱۳۴۰ھ کو پیش ہوا ، جس کا آپ نے جواب تحریر فرمایا۔ اسی سال ۲۴ صفر کو آپ کا وصال ہو گیا ۔ یہ رسالہ مختصر مقدمہ کے ساتھ مرکزی مجلسِ رضا، لا ہور کی طرف سے چھپ چکا ہے ۔ ان رسائل کے علاوہ احکامِ شریعت ، المعتمد المستند اور فتاویٰ رضویہ میں رومرزائیت میں آپ کے فتاویٰ دیکھے جا سکتے ہیں ۔

پروفیسر خالد شبیر احمد، فیصل آباد، دیوبندی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں ، اس کے باوجود انہوں نے امام احمد رضا بریلوی کے فتویٰ سے قبل ان تاثرات کا اظہار کیا ہے : اس فتویٰ سے جہاں مولانا کے کمالِ علم کا احساس ہوتا ہے ، وہاں مرزا غلام احمد کے کفر کے بارے میں ایسے دلائل بھی سامنے آتے ہیں کہ جس کے بعد کوئی ذی شعور مرزا صاحب کے اسلام اور اس کے مسلمان ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔(خالد شبیر احمد: تاریخ محاسبہ قادیانیت قرطاس، فیصل آباد ص ۴۵۵)
مزید لکھتے ہیں : ذیل کا فتویٰ بھی آپ کی علمی استطاعت ، فقہی دانش و بصیرت کا ایک تاریخی شاہکار ہے ۔ جس میں آپ نے مرزا غلام احمد قادیانی کے کفر کو خود ان کے دعاوی کی روشنی میں نہایت مدلل طریقے سے ثابت کیا ہے ، یہ فتویٰ مسلمانوں کا وہ علمی و تحقیقی خزینہ ہے جس پر مسلمان جتنا بھی ناز کریں ، کم ہے ۔ (خالد شبیر احمد: تاریخ محاسبہ قادیانیت (قرطاس فیصل آباد ص ۴۶۰)

مرزائے قادیانی کا بھائی مرزا غلام قادر بیگ دنیا نگر کا معزول تھا نیدار تھا۔ (ابوالقاسم رفیق دلاوری: رئیس قادیان مجلس قادیان مجلس تحفظ ختمِ نبوت ، ملتان) ج۱ ، ص ۱۱)

جو پچپن برس کی عمر میں ۱۸۸۳ء میں فوت ہوا ، ( ابوالقاسم رفیق دلاوری: رئیس قادیان (مجلس قادیان ۔ (مجلس تحفظ ختمِ نبوت ، ملتان) ج۱ ، ص ۱۴)

جبکہ امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے بچپن کے چند کتابوں کے استاذ ، مرزا غلام قادر بیگ رحمہ اللہ تعالیٰ پہلے بریلی میں رہے ۔ پھر کلکتہ چلے گئے اور بریلی سے بذریعہ استفتا ء رابطہ رکھتے رہے ۔

ملک العلماء مولانا ظفر الدین بہاری فر ماتے ہیں : میں نے جناب مرزا صاحب مرحوم و مغفور (مرزا غلام قادر بیگ) کو دیکھا تھا، گورا چٹا رنگ عمر تقریباً اسی سال داڑ ھی سر کے بال ایک ایک کر کے سفید ، عمامہ باندھے رہتے ۔ جب کبھی اعلیٰ حضرت کے پاس تشریف لاتے ، اعلیٰ حضرت بہت ہی باعزت و تکریم کے ساتھ پیش آتے ۔ ایک زمانہ میں جناب مرزا صاحب کا قیام کلکتہ، امر تلالین میں تھا، وہاں سے اکثر سوالات جواب طلب بھیجا کرتے ، فتاویٰ میں اکثر استفتاء ان کے ہیں ۔ انہیں کے ایک سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت نے رسالہ مبارکہ تجلی الیقین بان نبینا سیدُ المرسلین تحریر فرمایا ہے ۔ ( ظفر الدین بہاری ، مولانا: حیات اعلیٰ حضرت، ج۱ ، ص ۳۲،چشتی)

فتاویٰ رضویہ جلد سوم مطبوعہ مبارک پورا ، انڈیا کے صفحہ ۸ پر ایک استفتاء ہے جو مرزا غلام قادر بیگ رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۲۱ جمادی الآ خرہ ۱۳۱۴ھ کو ارسال کیا تھا ۔

ان تفصیلات کو پیش نظر رکھیے ، آپ کو خود بخود یقین ہو جائے گا ۔ مرزائے قادیانی کا بھائی اور امام احمد رضا بریلوی کے استاذ دو الگ الگ شخصیتیں ہیں ۔ وہ قادیان کا معزول تھانیدار ۔ یہ مدرس ٹائپ مولوی ۔ وہ پچپن سال کی عمر میں مر گیا ۔ یہ اسی سال کی عمر میں حیات تھے ۔ وہ ۱۳۰۰ ھ /۱۸۸۳ء میں قادیان میں فوت ہوا ۔ یہ ۱۳۱۴ھ/۱۸۹۷ء میں زندہ تھے ۔ کیونکہ عادتاً ایسا تو ہو نہیں سکتاکہ وہ ۱۸۸۳ء میں قادیان میں فوت ہوا ہواور وفات کے ٹھیک چودہ برس بعد ۱۸۹۷ء میں کلکتہ سے بریلی استفتاء بھیج دیا ہو ۔

مولانا غلام قادر بیگ بریلوی علیہ الرحمہ کی وفات ۱۸اکتوبر ۱۹۱۷ء/یکم محرم الحرام۱۳۳۶ھ کوبعمر۹۰ سال بریلی میں ہوئی ، اور محلہ باقر گنج میں واقع حسین باغ میں دفن کئے گئے ، یہیں ان کے بڑ ے بھائی حضرت مولانا مطیع بیگ مرحوم دفن ہیں ، مولانا مرزا غلام قادربیگ کے بڑ ے بیٹے حکیم مرزا عبدالعزیز (متوفی۱۵شعبان ۱۳۷۴ھ) بھی بریلی میں لا ولد فوت ہوئے ، حضرت مرزا غلام قادر بیگ کی دو دختران تھیں دونوں فوت ہوگئیں ، بڑ ی دختر کے ایک پسر اور چھوٹی دختر کی اولاد اَب بھی بریلی میں سکونت پذیر ہے ۔ مضمون مرز ا غلام قادربیگ از مرزا عبدالوحید بیگ، بریلی نبیرۂ مرزا غلام قادر بیگ، ماہنامہ سنی دنیا، بریلی، شمارہ جون ۱۹۸۸ء: ص۳۷تا۴۱،چشتی)

پروفیسر محمد ایوب قادری نے ایک مکتوب میں لکھا : یہ افترائے محض ہے ، مرزا غلام قادر بیگ بریلوی قطعاً دوسری شخصیت ہیں ، میں تفصیلی جواب ارسالِ خدمت کروں گا، اطمینان فرمائیے “(مکتوب بنام راقم: تحریر۳۱ مئی ۱۹۸۳ء)نوٹ: افسوس کہ ۲۳ نومبر ۱۹۸۳ء کو پروفیسر محمد ایوب قادری صاحب ایک ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہو گئے ، اس لیے انہیں تفصیلات لکھنے کا موقع نہ مل سکا۔ ۱۲ شرف قادری ۔

شعبہ تاریخ احمدیت، ربوہ سے دوست محمد شاہد نے پروفیسر محمد مسعود احمد پرنسپل گورنمنٹ سائنس کالج، ٹھٹھہ کے نام کے ایک مکتوب میں لکھا ہے : بڑ ے بھائی مرزا غلام قادر صاحب نے آپ کے دعویٰ مسیحیت (۱۸۹۱ء) سے آٹھ سال قبل ۱۸۸۳ء میں انتقال کیا۔ آپ خود یا آپ کے کوئی بھائی، بانس بریلی ، رائے بریلی یا کلکتہ میں مقیم نہیں رہے (محمد مسعود احمد ، پروفیسر: مکتوب بنام راقم، ۲۳ دسمبر ۱۹۸۳ء)

اس کے بعد یہ کہنے کا کوئی جواز نہیں کہ امام احمد رضا کے استاذ مرزا غلام احمد قادیانی کے بڑ ے بھائی تھے ۔

مرزا غلام قادر بیگ ؟ ہٹلر کے دستِ راست گوئبلز کا قول ہے کہ ''جھوٹ اتنا بولو کہ اس پر سچ کا گمان ہونے لگے'' امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے چند ابتدائی کتب کے استاد، مرزا غلام قادر بیگ رحمۃ اللہ تعالیٰ کے بارے میں مخالفین نے اسی مقولے پر عمل کرتے ہوئے زور شور سے یہ پروپگینڈا کیا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کے بھائی تھے۔ نعوذ باللہ من ذالک ۔ مرزا کا بھائی ١٨٨٣ء میں فوت ہو گیا تھا ، جبکہ مرزا غلام قادر بیگ ١٨٩٧ء میں کلکتہ میں حیات تھے ۔ تفصیل آئندہ پیغامات میں ملاحظہ کی جائے ۔ دراصل نام کے اشتراک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے ایک صحیح العقیدہ مسلمان کو مرزائی اور کافر بنا دیا اور اس سے ان کے دل پر کوئی ملال نہیں آیا کہ کسی دلیل اور ثبوت کے بغیر ہم نے ایک مسلمان کو کافر کیوں قرار دیا ؟ اور ملال آئے بھی تو کیوں کر ؟ جبکہ یہ لوگ تما م عامتہ المسلمین کو کافر قرار دے کر بھی اپنے ضمیر پر کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتے ۔

عطیہ محمد سالم بھی اسی پروپگینڈا کے زیرِ اثر یہ کہہ گئے : ''بریلویۃ کے بانی کا پہلا استاذ، مرزا غلام قادربیگ ، مرزا غلام احمد قادیانی کا بھائی تھا ۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ قادیانیت اور بریلویت دونوں استعمار کی خدمت میں بھائی بھائی ہیں''۔ (عطیہ محمد سالم: تقدیم البریلویۃ' ص٤)

اگر کسی دعویٰ کا ثابت کرنا واقعی محتاج دلیل ہوتا ہے ، توہم ان سے مطالبہ کرتے ہیں، کہ اپنے دعوے کی صداقت پر کوئی دلیل پیش کریں۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ قیامت تک کوئی دلیل نہ لا سکیں گے ۔

محترم قارئینِ کرام : امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ پر کئی ایک جھوٹے‘ بے بنیاد اور من گھڑت الزام و اتہام لگائے گئے ہیں‘ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ : ’’والجدیر بالذکر ان المدرس الذی کان یدرسہ مرزا غلام قادر بیگ کان اخاللمرزا غلام احمد المتنبی القادیانی‘‘ ۔ (احسان الٰہی ظہیرغیر مقلد وہابی ‘البریلویہ (عربی) مطبوعہ لاہور ص 20)

ترجمہ: یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان کا استاد مرزا غلام قادر بیگ‘ مرزا غلام احمد قادیانی کا بھائی تھا ۔ (احسان الٰہی ظہیر‘ البریلویہ (اردو) ‘ مطبوعہ لاہور‘ صفحہ 41،چشتی)

عرب کے ایک نجدی قاضی عطیہ محمد سالم نے کتاب ’’البریلویہ‘‘ پر تقدیم لکھی اور قاضی ہونے کے باوجود بغیر تحقیق کے کہا!’’بریلویہ کے بانی کا پہلا استاذ‘ مرزا غلام قادر بیگ‘ مرزا غلام احمد قادیانی کا بھائی تھا‘ لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ قادیانیت اور بریلویت دونوں استعمار کی خدمت میں بھائی بھائی ہیں‘‘ ۔ (عطیہ محمد سالم‘ تقدیم البریلویہ‘ عربی‘ مطبوعہ لاہور صفحہ 4)

بغض اور حسد ایسی روحانی مہلک بیماریاں ہیں کہ جب انسانی دل و دماغ پر اثر انداز ہوتی ہیں تو انسان میں حق و انصاف کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔ تحقیق اور حق کی راہیں مسدود ہوجاتی ہیں اور انسان شکوک و شبہات کی عمیق دلدل میں پھنس کر راہ حق اور صراط مستقیم سے کوسوں دور ہوجاتا ہے۔

احسان الٰہی ظہیر غیر مقلد بھی ایسی خطرناک بیماریوںکا شکار ہوا اور ایک صالح عاشق رسول پر بے جا بہتان لگایا۔ دنیا مین تو تعصب کے اندھے حواری واہ واہ کردیں گے‘ مگر میدان محشر میں احسان الٰہی ظہیر ار اس کے حواریوں کے پاس اس بہتان کا کیا جواب ہوگا ؟

محترم قارئین کرام : امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ابتدائی کتب کے استاذ مولانا مرزا غلام قادر بیگ بریلوی علیہ الرحمہ اور مرزا غلام قادر بیگ گورداسپوری دو الگ الگ شخصیتیں ہیں ۔ امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے استاذ کو مرزا غلام احمد قادیانی کا بھائی کہنا تحقیق و مطالعہ سے یتیم‘ سراسر ظلم عظیم اور بغضِ رضا کا سبب ہے ۔ یہ دھاندلی اسی وقت تک چلتی ہے جب تک حقیقت سامنے نہ ہو‘ لیکن جب سحر طلوع ہوتی ہے تو اندھیرے بھاگنا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہاں پر اعلیٰ حضرت کے استاذ گرامی مولانا حکیم مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ و الرضوان اور فرقہ قادیانیت کا بانی اور انگریزوں کا ایجنٹ مرزا غلام قادر بیگ دونوں کی سوانحی جھلکیاں پیش کی جارہی ہیں۔ قارئین اندازہ لگاسکیں گے کہ دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔

مولانا حکیم مرزا غلام قادر بیگ بریلوی بن حکیم مرزا حسن جان بیگ علیہ الرحمہ ۔ حضرت مولانا حکیم مرزا غلام قادر بیگ بن حکیم مرزا حسن جان بیگ لکھنوی رحمہم ﷲ تعالیٰ علیہ‘ یکم محرم الحرام ۱۲۴۳ھ/ 25 جولائی 1827ء کو محلہ جھوائی ٹولہ لکھنؤ (یوپی ‘ ہندوستان) میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد ماجد نے لکھنؤ سے ترک سکونت کرکے بریلی میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ آپ کی رہائش بریلی شہر کے محلہ قلعہ میں جامع مسجد کے مشرقی جانب تھی ۔ آپ کا رہائشی مکان بریلی شریف میں اب بھی موجود ہے۔ آپ کے بھائی مولانا مرزا مطیع ﷲ بیگ بریلوی علیہ الرحمہ کے صاحبزادے مولانا مرزا محمد جان بیگ رضوی علیہ الرحمہ نے خاندانی تقسیم کے بعد 1914ء میں پرانے شہر بریلی میں سکونت کرلی تھی مگر مولانا مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ کی سکونت محلہ قلعہ ہی میں رہی۔

آپ کا خاندان نسلاً ایرانی یا ترکستانی مغل نہیں ہے بلکہ مرزا اور بیگ کے خطابات اعزاز‘ شاہان مغلیہ کے عطا کردہ ہیں۔ اسی مناسبت سے آپ کے خاندان کے ناموں کے ساتھ مرزا اور بیگ کے خطابات لکھے جاتے رہے ہیں۔ آپ کا سلسلہ نست حضرت خواجہ عبیدﷲ احرار نقشبندی علیہ الرحمہ سے ملتا ہے۔ حضرت احرار رحمتہ ﷲ علیہ نسلاً فاروقی تھی۔ اس طرح آپ کا سلسلہ نسب حضرت سیدنا عمر فاروق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے جاملتا ہے ۔

مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر اور اس کے والد‘ حضرت خواجہ عبیدﷲ احرار سے بیعت تھے۔ اس لئے بابر اور اس کے جانشین‘ حضرت خواجہ احرار کی اولاد سے فیض روحانی حاصل کرتے رہے۔ لیکن جلال الدین اکبر کے دور میں یہ سلسلہ منقطع ہوگیا اور اس خاندان کے بزرگ واپس وطن لوٹ گئے۔ مغل بادشاہ نور الدین جہانگیر نے اپنے دور میں اپنے خاندانی بزرگوں سے رجوع کیا‘ لہذا اس خاندان کے بزرگ تاجکستان سے پھر ہندوستان آگئے۔

امام احمد رضا خاں بریلوی رحمتہ ﷲ علیہ کے اجداد کرام بھی شاہان مغلیہ سے وابستہ رہے ہیں۔ اسی زمانے سے ان دونوں خاندانوں کے قریبی روابط رہے ہیں۔ مولانا حکیم مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ کے حقیقی بھائی مولانا مرزا مطیع ﷲ بیگ علیہ الرحمہ کے پوتے مرزا عبدالوحید بیگ بریلوی کی دو ہمشیرگان‘ امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ کے خاندان میں بیاہی گئیں۔ ایک حضرت مفتی تقدس علی خان رحمتہ ﷲ علیہ کے تایا زاد بھائی حافظ ریاست علی خاں مرحوم کو اور دوسری فرحت علی خاں کے فرزند شہزادے علی خاں مرحوم کو ۔ مولانا مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ کے بھائی مولانا مرزا مطیع ﷲ بیگ جب جامع مسجد بریلی کے متولی مقرر ہوئے تو آپ نے مسجد سے ملحقہ امام باڑے سے علم اور جھنڈے وغیرہ اتروادیئے۔ آپ کے اس فعل سے بعض جاہل شرپسند رافضی لوگ آپ کے خلاف ہوگئے تو اس وقت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے دادا مولانا رضا علی خاں رحمة ﷲ علیہ نے فتویٰ دیا تھا کہ متولی مسجد صحیح العقیدہ سنی حنفی ہیں اور عمارت مسجد سے امام باڑہ کو ختم کرنا شرعا جائز ہے ۔ یہ فتویٰ کرم خوردہ آج بھی بریلی شریف میں مولانا مرزا مطیع ﷲ بیگ علیہ الرحمہ کے پوتے مرزا عبدالوحید بیگ کے پاس موجود ہے ۔

مولانا مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ اور امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجد مولانا نقی علی خاں رحمة ﷲ علیہ کے درمیان محبت و مروت کے پرخلوص تعلقات تھے۔ اس لئے مولانا مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ نے امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیم اپنے ذمہ لے لی تھی ۔ آپ کے دیگر تلامذہ آپ کے مطب واقع محلہ قلعہ متصل جامع مسجد بریلی ہی میں درس لیا کرتے تھے‘ مگر صغرسنی اور خاندانی وجاہت کی وجہ سے امام احمد رضا علیہ الرحمہ کو ان کے مکان پر ہی درس دیتے تھے ۔ (ماہ نامہ ’’سنی دنیا‘‘ بریلی‘ مضمون ’’مولانا حکیم مرزا غلام قادر بیگ بریلوی‘‘ مضمون نگار‘ مرزا عبدالوحید بیگ‘ شمارہ جون 1988ء صفحہ 37)

امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائی کتابیں‘ میزان‘ منشعب وغیرہ مولانا مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ سے پڑھیں ۔ (مولانا ظفر الدین بہاری‘ حیات اعلیٰ حضرت‘ مطبوعہ کراچی‘ ج 1ص 32)

مولانا عبدالمجتبیٰ رضوی لکھتے ہیں : اردو اور فارسی کی ابتدائی کتب آپ (مولانا احمد رضا علیہ الرحمہ) نے مولانا مرزا غلام قادر بیگ بریلوی علیہ الرحمہ سے پڑھیں‘‘ ۔ (مولانا عبدالمجبتیٰ رضوی‘ تذکرہ مشائخ قادریہ رضویہ‘ مطبوعہ لاہور 1989ء ص 394)

پروفیسر محمد ایوب قادری (کراچی)‘ بریلی کے اسلامی مدارس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:مولانا محمد احسن نے بریلی کے اکابر وعمائد کے مشورے اور معاونت سے ایک مدرسہ باسم تاریخی ’’مصباح التہذیب‘‘ ۱۲۸۶ھ/1872ء میں قائم کیا… اس مدرسہ کے پہلے مہتمم مرزا غلام قادر بیگ تھے‘‘ ۔ (پروفیسر محمد ایوب قادری‘ مولانا محمد احسن نانوتوی‘ مطبوعہ کراچی 1966ء صفحہ نمبر 82،چشتی)

مولوی محمد حنیف گنگوہی دیوبندی لکھتے ہیں:اس مدرسہ (مصباح التہذیب) کے پہلے مہتمم مرزا غلام قادر بیگ تھے اور مولوی سخاوت حسین‘ سید کلب علی‘ مولوی شجاعت‘ حافظ احمد حسین اور مولوی حافظ حبیب الحسن درس دیتے تھے‘‘ ۔ (مولوی محمد حنیف گنگوہی‘ ظفر المحصلین باحوال المصنفین‘ مطبوعہ کراچی 1986ء صفحہ نمبر 295)

ملک العلماء مولانا ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:میں نے جناب مرزا صاحب مرحوم ومغفور (مولانا مرزا غلام قادر بیگ) کو دیکھا تھا۔ گورا چٹا رنگ‘ عمر تقریبا اسی سال‘ داڑھی سر کے بال ایک ایک کرکے سفید‘ عمامہ باندھے رہتے۔ جب کبھی اعلیٰ حضرت کے پاس تشریف لاتے‘ اعلیٰ حضرت بہت ہی عزت و تکریم کے ساتھ پیش آتے‘ ایک زمانہ میں جناب مرزا صاحب کا قیام کلکتہ امر تلالین میں تھا‘ وہاں سے اکثر سوالات کے جواب طلب فرمایا کرتے تھے۔ فتاویٰ رضویہ میں اکثر استفتا ء ان کے ہیں۔ انہیں کے ایک سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت نے رسالہ مبارکہ ’’تجلی الیقین بان نبینا سید المرسلین‘‘ (1305ھ/1887ئ) تحریر فرمایا ہے‘‘ ۔ (مولانا ظفر الدین بہاری‘ حیات اعلیٰ حضرت ‘ مطبوعہ کراچی جلد 1صفحہ 32)

فتاویٰ رضویہ جلد سوئم‘ مطبوعہ مبارک پور (ہندوستان) کے صفحہ 8 پر ایک استفتاء ہے جو مولانا مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ نے 21 جمادی الآخر 1314ھ کو ارسال کیا تھا ۔

فتاویٰ رضویہ ‘ جلد گیارہ‘ مطبوعہ بریلی (ہندوستان) بار اول کے صفحہ 45 پر ایک استفتاء ہے جو مولانا مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ نے کلکتہ دھرم تلا نمبر 1 سے 5 جمادی الآخر 1312ھ کو ارسال کیا تھا ۔

مولانا مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ کے دو فرزند اور دو دختران تھیں‘ دونوں دختران فوت ہوگئیں۔ بڑی دختر کے ایک پسر اور چھوٹی دختر کی اولاد بریلی شریف میں سکونت پذیر ہے۔ فرزند اکبر مولانا حکیم مرزا عبدالعزیز بیگ علیہ الرحمہ اور دوسرے فرزند حکیم مرزا عبدُ ُُالحمید بیگ علیہ الرحمہ تھے ۔
مولانا ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : خدا کے فضل سے (مولانا غلام قادر بیگ) صاحب اولاد ہیں۔ ایک صاحبزادہ جن کا نام نامی عبدالعزیز بیگ ہے‘ دینیات سے واقف اور طبیب ہیں… بریلی کی جامع مسجد کے قریب مکان ہے‘ پنج وقتہ نماز اسی مسجد میں ادا کیا کرتے ہیں‘‘ ۔ (مولانا ظفر الدین بہاری‘ حیات اعلیٰ حضرت ‘ مطبوعہ کراچی جلد 1 صفحہ 32،چشتی)

مولانا حکیم مرزا عبدالعزیز بیگ پہلے رنگون (برما) میں رہے‘ پھر کلکتہ میں طبابت کی‘ ایام جوانی میں کلکتہ ہی میں سکونت رکھی‘ چنانچہ مولانا مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ کبھی کبھی اپنے فرزند اکبر کے پاس کلکتہ تشریف لے جاتے تھے ‘ پھر حکیم مرزا عبدالعزیز بیگ آخری ایام میں کلکتہ سے ترک سکونت کرکے بریلی شریف آگئے تھے اور وفات تک اپنے آبائی مکان میں سکونت پذیر رہے۔ آپ بڑے ہی علم و فضل والے‘ عابد ‘ تہجد گزار‘ متقی اور صاحب کرامت بزرگ تھے ۔ (ماہنامہ ’’سنی دنیا‘‘ بریلی‘ شمارہ جون 1988ء صفحہ 40)

مولانا حکیم مرزا عبدالعزیز بیگ علیہ الرحمہ کا وصال 15/14 شعبان 1374ھ کی درمیانی شب کو بریلی شریف میں ہوا (مولوی عبدالعزیز خان عاصی (متوفی 14 اپریل 1964ئ) تاریخ روہیل کھنڈ و تاریخ بریلی‘ مطبوعہ کراچی 1963ء ص 299-300) اور آپ لاولد فوت ہوئے ۔ (ماہنامہ سنی دنیا‘ بریلی‘ شمارہ جون 1988ء صفحہ 40،چشتی)

دوسرے صاحبزادے مرزا عبدالحمید بیگ پہلے ریاست بھوپال میں رہے‘ پھر پیلی بھیت کے اسلامیہ انٹر کالج میں ملازم رہے‘ وہیں آپ کا وصال ہوا‘ مجرد تھے ۔

مرزا محمد جان بیگ رضوی کی بیاض کے مطابق مولانا حکیم مرزا غلام قادر بیگ بریلوی کا وصال یکم محرم الحرام 1336ھ / 18 اکتوبر 1917ء کو 90 سال کی عمر میں ہوا اور محلہ باقر گنج واقع حسین باغ بریلی میں دفن ہوئے۔ آپ کے بھائی مرزا مطیع ﷲ بیگ علیہ الرحمہ بھی وہیں دفن ہیں۔( ماہنامہ سنی دنیا‘ بریلی شمارہ جون 1988ء صفحہ 40)

حضرت پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد صاحب علیہ الرحمہ نے ’’حیات مولانا احمد رضا خاں بریلوی‘‘ مطبوعہ سیالکوٹ اور ’’حیات امام اہل سنت‘‘ مطبوعہ لاہور میں مولانا مرزا غلام قادر بیگ بریلوی علیہ الرحمہ کا جو سن وفات 1883ء تحریر کیا ہے‘ وہ درست نہیں ہے ۔

مرزا غلام قادر بیگ بن مرزا غلام مرتضیٰ : مرزا بشیر احمد بن غلام احمد قادیانی لکھتا ہے:مرزا غلام مرتضیٰ بیگ جو ایک مشہور اور ماہر طبیب تھا ۔ 1876ء میں فوت ہوا اور اس کا بیٹا غلام قادر اور اس کا جانشین ہوا ۔ مرزا غلام قادر لوکل افسران کی امداد کے واسطے ہمیشہ تیار رہتا تھا اور اس کے پاس ان افسران جن کا انتقامی امور سے تعلق تھا‘ بہت سے سرٹیفکیٹ تھے ۔ یہ کچھ عرصہ تک دفتر ضلع گورداسپور میں سپرنٹنڈنٹ رہا‘ اس کا اکلوتا بیٹا صغر سنی میں فوت ہوگیا اور اس نے اپنے بھتیجے سلطان احمد کو متبنیٰ بنالیا تھا‘ جو غلام قادر کی وفات یعنی 1883ء / 1301ھ تقریبا سے خاندان کا بزرگ خیال کیا جاتا تھا… اس جگہ یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ مرزا غلام احمد جو مرزا غلام مرتضیٰ کا چھوٹا بیٹا تھا‘ مسلمانوں کے ایک بڑے مشہور مذہبی سلسلہ کا بانی ہوا‘ جو احمدیہ سلسلہ کے نام سے مشہور ہوا‘‘ ۔ (سیرت المہدی‘ مطبوعہ قادیان ضلع گورداس پور (مشرقی پنجاب‘ انڈیا) 1935ء صفحہ 135،چشتی)

نوٹ : 7 ستمبر 1974ء کو پاکستان کے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں احمدیہ سلسلہ کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا تھا ۔

مولوی ابو القاسم رفیق دلاوری دیوبندی لکھتے ہیں : ان دنوں مرزا غلام احمد قادیانی کے بڑے بھائی غلام قادر دینا نگر (ضلع گورداسپور) کی تھانے داری سے معزول ہوکر عملہ کے پیچھے جوتیاں چٹخاتے پھرتے تھے‘‘ ۔ (مولوی ابوالقاسم محمد رفیق دلاوری‘ رئیس قادیان‘ مطبوعہ مجلس ختم نبوۃ حضوری باغ روڈ ملتان 1337ھ/ 1977ء جلد اول‘ صفحہ 11)

مولوی رفیق دلاوری دوسری جگہ لکھتے ہیں : مرزا غلام مرتضیٰ نے 1876ء میں 80 سال کی عمر میں دنیائے رفتنی و گزشتنی کو الوداع کہا۔ ان کی سب سے بڑی اولاد مراد بی بی تھیں‘ جن کی شادی مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کے بھائی محمد بیگ یعنی بیگم طال عمرہا کے حقیقی چچا سے ہوئی تھی۔ ان سے چھوٹے غلام قادر تھے‘ جنہوں نے اپنی حیات مستعار کے پچپن مرحلے طے کرکے 1883ء میں سفر آخرت کیا۔ ان سے شاہد جنت نامی ایک لڑکی تھی ۔ اور سب سے چھوٹے مرزا غلام احمد صاحب تھے‘‘ (سیرۃ المہدی) ۔ (مولوی ابوالقاسم محمد رفیق دلاوری‘ رئیس قادیان‘ مطبوعہ ملتان 1977ء جلد 1 صفحہ 11،چشتی)

مرزا غلام قادر بیگ کے نام انگریزی حکومت کا ایک مکتوب:دوستان مرزا غلام قادر رئیس قادیان حفظہ‘ آپ کا خط 2 ماہ حال کا لکھا ہوا ملاحظہ این جانب میں گزرا ۔ مرزا غلام قادر آپ کے والد کی وفات کا ہم کو بہت افسوس ہوا‘ مرزا غلام مرتضیٰ سرکار انگریز کا اچھا خیرخواہ تھا اور وفادار رئیس تھا۔ ہم خاندانی لحاظ سے آپ کی اسی طرح عزت کریں گے جس طرح تمہارے باپ کی کی جاتی تھی۔ ہم کسی اچھے موقع کے نکلنے پر تمہارے خاندان کی بہتری اور پا بحالی کا خیال رکھیں گے‘‘ المرقوم 29 جون 1876ء ۔ الراقم سر رابرٹ ایجرٹن صاحب فنانشل کمشنر پنجاب ( مرزا بشیر احمد بن غلام احمد قادیانی‘ سیرت المہدی‘ طبع قادیان 1935ء حصہ اول‘ ص 134)۔( پروفیسر محمد ایوب قادری‘ جنگ آزادی 1857ء مطبوعہ کراچی 1976ء ص 512)

سند خیرخواہی مرزا غلام مرتضیٰ ساکن قادیان : میں (مرزا غلام احمد قادیانی) ایک ایسے خاندان سے ہوں کہ جو اس گورنمنٹ کا پکا خیرخواہ ہے۔ میرا والد مرزا غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار اور خیرخواہ آدمی تھا‘ جن کو دربار گورنری میں کرسی ملتی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن کی تاریخ ’’رئیسان پنجاب‘‘ میں ہے اور 1857ء میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریزی کی مدد کی تھی۔ یعنی پچاس سوار اور گھوڑے بہم پہنچا کر عین زمانہ غدر کے وقت سرکار انگریزی کی امداد میں دیے تھے ۔ ان خدمات کی وجہ سے جو چٹھیات خوشنودی حکام ان کو ملی تھی‘ مجھے افسوس ہے کہ بہت سی ان میں سے گم ہوگئیں مگر تین چٹھیاں جو مدت سے چھپ چکی ہیں‘ ان کی نقلیں حاشیہ میں درج کی گئی ہیں۔ پھر میرے والد صاحب کی وفات پر میرا بڑا بھائی مرزا غلام قادر‘ خدمات سرکاری میں مصروف رہا۔ الخ ۔

پروفیسر محمد ایوب قادری لکھتے ہیں : یہ تحریر مرزا غلام احمد قادیانی کی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ یہ خاندان سرکار برطانیہ کا ہمیشہ وفادار رہا ہے اور 1857ء میں مرزا غلام احمد قادیانی کے والد غلام مرتضیٰ اور بڑے بھائی مرزا غلام قادر نے سرکار برطانیہ کی نمایاں خدمات انجام دی ہیں ۔ تفصیل کے لئے دیکھئے اشتہار ’’واجب الاظہار‘‘ از مرزا غلام احمد قادیانی (قادیان 1897ئ) نیز ’’کشف العطا‘‘ از مرزا غلام احمد قادیانی ‘ (قادیان 1906ئ)(۱۶)( پروفیسر محمد ایوب قادری‘ جنگ آزادی 1857ء مطبوعہ کراچی 1976ء ص 508-509)

یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے اسلام کی نظریاتی حدود کی حفاظت کی ہے ۔ اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر انوار پر اپنی رحمت و رضوان کی بارش نازل فرمائے ۔ اور ہمارے ایمان و عقیدہ کی حفاظت فرمائے آمین ۔ (مزید حصّہ نمبر 5 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔