Saturday 6 May 2023

فضائل و مناقب حضرت سیّدُنا امیرِ حمزہ رضی اللہ عنہ حصّہ اوّل

0 comments
فضائل و مناقب حضرت سیّدُنا امیرِ حمزہ رضی اللہ عنہ حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام : سید الشہداء حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو شرف صحابیت کے ساتھ ساتھ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نسبت قرابت بھی حاصل ہے اور رشتۂ رضاعت بھی ، آپ نسبی رشتہ کے لحاظ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا جان ہیں اور چونکہ حضرت ثُوَیْبَہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو بھی دودھ پلایا ہے، اس لحاظ سے آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دودھ شریک بھائی بھی ہیں۔ چونکہ شوال المکرم کی 11 تاریخ کو اور ایک روایت کے مطابق 7 یا 15 شوال المکرم کو اسلام کا ایک عظیم معرکہ "غزوۂ احد" رونما ہوا اور اس معرکہ میں ستر (70) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے جامِ شہادت نوش فرمائے ‘ جن میں سرفہرست نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا جان سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔

سیدالشہداء امیر طیبہ حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ اسمِ گرامی : امیرِحمزہ ۔ کنیت : ابوعمارہ ۔ لقب : اسدُ اللہ و اسدِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔ سید الشہداء حضرت سیدنا امیرحمزہ رضی اللہ عنہ بہادر ، سخی ، نرم مزاج والے ، خوش اخلاق ، قریش کے دلآور جوان اور غیرت مندی میں انتہائی بلند مقام کے مالک تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو پہلا جھنڈا تیار کیا وہ سید الشہداء ہی کےلیے تھا ، جب 2ھ/623ء میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں قوم جھینہ کے علاقے سیف البحر کی طرف (ایک دستے کے ہمراہ) بھیجا ۔ ابن ہشام نے سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے یہ اشعار نقل کیے ہیں : ترجمہ اشعار : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم پر میں پہلا تلوار چلانے والا تھا جس کے سر پر جھنڈا تھا ، یہ جھنڈا مجھ سے پہلے ظاہر نہ ہوا تھا ۔ حضرت سید الشہداء جنگ احد کے دن خاکستری اونٹ اور پھاڑنے والے شیر دکھائے دیتے تھے ۔ انہوں نے اپنی تلوار سے مشرکین کو بری طرح خوف زدہ کر دیا ، کوئی ان کے سامنے ٹھہرتا ہی نہ تھا ۔ غزوہ احد میں آپ نے 31 مشرکوں کو جہنم رسید کیا ۔ پھر آپ کا پاؤں پھسلا تو آپ تیر اندازوں کی پہاڑی کے پاس واقع وادی میں پشت کے بل گر گئے ، زرہ آپ کے پیٹ سے کھل گئی ، جبیر بن مطعم کے غلام وحشی بن حرب نے کچھ فاصلے سے خنجر پھینکا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھوں آپ کو مرتبہ شہادت سے سرفراز فرمایا ۔

غزوہ اُحد کو رُونما ہوئے 46 سال کا عرصہ گزر چُکا تھا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰه عنه کے دورِ حکومت میں میدانِ اُحُد کے درمیان سے ایک نہر کی کھدائی کے دوران شہدائے اُحد کی بعض قبریں کھل گئیں۔ اَہلِ مدینہ اور دوسرے لوگوں نے دیکھا کہ شہدائے کرام کے کفن سلامت اور بدن تَرو تازہ ہیں اور انہوں نے اپنے ہاتھ زخموں پر رکھے ہوئے ہیں ۔ جب زخم سے ہاتھ اٹھایا جاتا تو تازہ خون نکل کر بہنے لگتا ۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ پُرسُکون نیند سو رہے ہیں ۔ (سبل الہدی، 252/4۔ کتاب المغازی للواقدی، 267/1،چشتی)(دلائل النبوۃ للبیہقی، 291/3)

اس دوران اتفاق سے ایک شہید کے پاؤں میں بیلچہ لگ گیا جس کی وجہ سے زخم سے تازہ خون بہہ نکلا ۔ (طبقات ابن سعد، 7/3)

یہ شہید کوئی اور نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے معزر چچا اور رضائی بھائی خیرُ الشُّہَداء ، سیّد الشُّہَداء حضرت امیر حمزہ بن عبد المطلب رضیَ اللّٰهُ عنه تھے ۔ (طبقات ابن سعد، 87/1)(الاستیعاب، 425/1)

راجح قول کے مطابق آپ رضی اللّٰهُ عنه کی ولادت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس دنیا میں جلوہ گری سے دو سال پہلے ہوئی ۔ (اسد الغابہ، 66/2)

آپ رضی اللّٰهُ عنه کی کنیت ابو عّمارہ ہے ۔ (معجم کبیر، 173/3)

آپ رضیَ اللّٰهُ عنه بہت حیسن و جمیل تھے، خوبصورت پیشانی ، درمیانہ قد ، چَھرِیرا (وبلا پتلا) بدن ، گول بازو جبکہ کلائیاں چوڑی تھیں ۔ شعر و شاعری سے شغف تھا ۔ شمشیر زنی ، تیر اندازی اور پہلوانی کا بچپن سے شوق تھا ۔ سیرو سیاحت کرنا ، شکار کرنا مَن پسند مشغلہ تھا ۔ (تزکرہ سیدنا امیر حمزہ صفحہ 17،چشتی)

قبولِ اسلام

ایک مرتبہ شکار سے لوٹ کر گھر پہنچے تو اطلاع ملی کہ ابوجہل نے آپ کے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ناروا اور گستاخانہ سلوک کیا ہے ۔ یہ سنتے ہی جوشِ غَضَب میں آپے سے باہر ہو گئے پھر کمان ہاتھ میں پکڑے حرمِ کعبہ میں جا پہنچے اور ابوجہل کے سر پر اور اس زور سے ضرب لگائی کہ اس کا سر پھٹ گیا اور خون نکلنے لگا ، پھر فرمایا : میرا دین وہی ہے جو میرے بھتیجے کا ہے ، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللّٰه کے رسول ہیں ، اگر تم سچے ہو تو مجھے مسلمان ہونے سے روک کر دکھاؤ ۔ (معجمِ کبیر، 140/3، حدیث:2926)

گھر لوٹے تو شیطان نے وسوسہ ڑالا کہ تمہارا شمار قریش کے سرداروں میں ہوتا ہے کیا تم اپنا دین بدل دو گے ؟ آپ رضیَ اللّٰهُ عنه کی پوری رات بے چینی اور اضطراب میں گزری، صبح ہوتے ہی بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہوئے اور اس پریشانی کا حل چاہا تو رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کی طرف توجہ فرمائی اور اسلام کی حقانیت اور صداقت ارشاد فرمائی ، کچھ ہی دیر بعد آپ رضیَ اللّٰهُ عنه کے دل کی دنیا جگمگ جگمگ کرنے لگی اور زبان پر یہ کلمات جاری ہو گئے ، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ سچے ہیں ۔ (مستدرک، 196/4، حدیث:4930،چشتی)

سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا تھے، ابو عمارہ ان کی کنیت تھی اور وہ عمر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو چار سال بڑے تھے۔ ابو لہب کی لونڈی ثویبہ نے انہیں بھی دودھ پلایا تھا، اس حوالے سے یہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے رضاعی بھائی بھی تھے ۔ اسلام کے دامنِ رحمت سے وابستہ ہوئے تو تحریکِ اسلامی کے اراکین کو ایک ولولۂ تازۂ عطا ہوا۔ آپ کے مشرف بہ اسلام ہونے کا واقعہ بڑا ہی ایمان افروز ہے جس سے سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی حق گوئی، جرات اور بے باکی کا پتہ چلتا ہے ۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو داعئ اعظم کی حیثیت سے فریضۂ تبلیغ سرانجام دیتے ہوئے چھ سال ہو گئے تھے لیکن کفار و مشرکینِ مکہ کی اکثریت نہ صرف یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوتِ حق پر کان نہیں دھرتی تھی بلکہ انہوں نے شہر مکہ کو قریۂ جبر بنا رکھا تھا اور مسلمانوں پر جو اقلیت میں تھے عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا تھا اور خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ صرف دشنام طرازیوں اور طعن و تشنیع کا ہدف بنایا جاتا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کے منصوبے تک بنائے جا رہے تھے۔ پورے مکہ کی فضا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خون کی پیاسی تھی۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ابھی شرفِ اسلام سے محروم تھے۔ وہ شمشیر زنی، تیراندازی اور شکار و تفریح کے مشاغل میں اس قدر مشغول تھے کہ دعوتِ اسلام پر غور کرنے کی فرصت ہی نہ مل سکی تھی ۔

ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوہِ صفا (یا ایک روایت کے مطابق حجون) کے مقام سے گزر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو دینِ حق کی طرف بلا رہے تھے کہ ابوجہل بھی ادھر آنکلا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو آپے سے باہر ہوگیا۔ وہ بدبخت اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ہذیان بکنے لگا، لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جبینِ اقدس پر ایک بھی شکن نمودار نہ ہوئی۔ ابوجہل گالیاں بکتا رہا، حروفِ ناروا اُس کی گندی زبان سے کانٹوں کی طرح گرتے رہے۔ اس بدبخت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جسمانی اذیت کا نشانہ بھی بنایا لیکن تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لبِ اقدس پر حرفِ شکوہ تک نہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے اور اس کی ہرزہ سرائی و اذیت رسانی پر کمال صبر و تحمل سے کام لیا۔ ایک عورت اپنے گھر میں بیٹھی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ شکار سے لوٹے تو اس خاتون سے نہ رہا گیا اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے کہنے لگی : کاش آپ تھوڑی دیر پہلے یہاں ہوتے اور اپنی آنکھوں سے دیکھتے کہ ابوجہل نے آپ کے بھتیجے سے کتنا برا سلوک کیا ہے، انہیں گالیاں دی ہیں اور اُن پر ہاتھ بھی اٹھایا ہے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ یہ سن کر طیش میں آ گئے، چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا اور کہنے لگے : ابوجہل کی یہ جرات کہ اُس نے میرے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہاتھ اٹھایا ہے، تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے خانہ کعبہ میں پہنچے، ابوجہل کو دیکھا کہ کفار و مشرکین کی ایک مجلس میں بیٹھا لاف زنی کر رہا ہے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن ابوجہل کو دیکھ کر آگ بگولہ ہو گئے اور اس کی دریدہ دہنی اور شرارت کی سزا دینے کے لئے اپنی کمان اس کے سر پر دے ماری، جس سے اُس بدبخت شاتمِ رسول کا سر پھٹ گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اسے آڑے ہاتھوں لیا اور کہا : ابوجہل! تیری یہ ہمت کہ میرے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالی دے اور ان سے بدسلوکی کرے۔ اس کے بعد حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا باطن نورِ ایمان سے روشن ہو گیا اور ان کے مقدر کا ستارا اوجِ ثریا پر چمکنے لگا، اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آنکھوں میں غیرتِ ایمانی کا چراغ بن کر جل اٹھی۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ابوجہل سے کہنے لگے : أتشتمه وأنا علی دينه أقول ما يقول؟ فرد ذلک علي إن استطعت  ۔ (ابن هشام، السيرة النبويه، 2 : 2129،چشتی)(طبري، التاريخ، 1 : 3549)(حلبي، السيرة الحلبيه، 1 : 4477)(طبري، ذخائر العقبي، 1 : 173)
ترجمہ : کیا تو (میرے بھتیجے) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالیاں دیتا ہے ؟ میں (بھی اُن کے دین پر ہوں اور) وہی کہتا ہوں جو وہ فرماتے ہیں ، میرا راستہ روک سکتے ہو تو روک کر دیکھو ۔

اور پھر چشمِ فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بارگاہِ نبوی میں حاضر ہونے کے لئے آ رہے تھے تو اصحابِ رسول کو تردد ہوا لیکن جان نثارِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ پورے اعتماد سے گویا ہوئے کوئی بات نہیں ، عمر آتا ہے تو اُسے آنے دو، اگر نیک ارادے سے آیا ہے تو ٹھیک اور اگر برے ارادے سے آیا ہے تو اس کی تلوار ہی سے اس کا سر قلم کر دوں گا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ رضی اللّٰهُ عنه سے بے حد محبّت کیا کرتے اور فرماتے تھے کہ میرے چچاؤں میں سب سے بہتر حضرتِ حمزہ (رضیَ اللّٰهُ عنه) ہیں ۔ (معرفتہ الصحابۃ، 21/2، رقم:1839)

محبّت کے اظہار کے انداز جداگانہ ہوتے ہیں ایک نرانہ انداز ملاحظہ کیجیے : ایک جاں نثار صحابی رضیَ اللّٰهُ عنه نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کی : میرے ہاں لڑکے کی ولادت ہوئی ہے میں اس کا کیا نام رکھوں ؟ تو رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ اپنے چچا حمزہ سے محبّت ہے لہٰذا انہیں کے نام پر اپنے بچے کا نام رکھو ۔ (معرفتہ الصحابۃ، 21/2، رقم:1839)

ایک مرتبہ آپ رضیَ اللّٰهُ تعالیٰ عنه نے بارگاہِ رسالت میں درخواست کی کہ میں حضرتِ جبریل علیهِ السَّلام کو اصلی صورت میں دیکھنا چاہتا ہوں ، ارشاد ہوا : آپ دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے ، آپ نے اصرار کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : زمین پر بیٹھ جائیے ۔ کچھ دیر بعد حضرت جبریل امین علیهِ السَّلام حرمِ کعبہ میں نصب شدہ ایک لکڑی پر اترے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : چچا جان نگاہ اٹھائیے اور دیکھیے ، آپ نے جونہی اپنی نگاہ اٹھائی تو دیکھا کہ حضرتِ جبریل علیهِ السَّلام کے دونوں پاؤں سبز زَبَرجَر کے ہیں ، بس اتنا ہی دیکھ پائے اور تاب نہ لا کر بے ہوش ہو گئے ۔ (الطبقات الکبریٰ، 8/3،چشتی)

ایک (1) ہجری میں 30 سواروں کی قیادت کرتے ہوئے اسلامی لشکر کا سب سے پہلا علَم آپ رضیَ اللّٰهُ عنه نے سنبھالا ۔ اگرچہ لڑائی کی نوبت نہ آئی لیکن تاریخ میں اسے “سرِیّہ حمزہ” کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ (طبقات اب سعد، 6/3)

دو (2) ہجری میں حق و باطل کا پہلا معرکہ میدانِ بدر میں پیش آیا تو آپ رضیَ اللّٰهُ عنه بڑے جوش و جذبے کے ساتھ شریک ہوئے اور مشرکین کے کئی سورماؤں کو ٹھکانے لگایا ۔ آپ رضیَ اللّٰهُ عنه اپنے سَر پر شتر مرغ کی کلغی سجائے ہوئے تھے جبکہ دونوں ہاتھوں میں تلواریں تھامے اسلام کے دشمنوں کو جہنَّم واصِل کرتے اور فرماتے جاتے کہ میں اللّٰه اور اس کے رسول کا شیر ہوں ۔ (معجمِ کبیر، 150،149/3، رقم:2957-2953،چشتی)

سورۂ آل عمران کی آیت 169 میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون ۔
ترجمہ : اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہرگز انہیں مردہ نہ خیال کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزی پاتے ہیں ۔

وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآءٌ وَلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ ۔ (سورہ البقرہ:١٥٤)
ترجمہ : جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں ان کو مردہ نہ کہو، وہ تو زندہ ہیں ، مگر تم کو خبر نہیں ۔

ان آیاتِ مبارکہ میں عمومی طور پر تمام شہداء کرام کی حیات اور انہیں ملنے والی نعمتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے ، بعض مفسرین کے نزدیک یہ آیت کریمہ سید الشہداء حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھ شہید ہونے والے حضرات کی شان میں نازل ہوئی ۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ الحج، حدیث 3414)

سورۂ زمر میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : أفمن شرح الله صدره للإسلام فهو على نور من ربه ۔
رجمہ : تو کیا وہ جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لئے کھول دیا تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہے ۔

تفسیر روح البیان میں لکھا ہے کہ : یہ آیت کریمہ بطور خاص سیدنا امیر حمزہ اور سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہما کی شان میں نازل ہوئی ۔ (تفسیر روح البیان، سورۃ الزمر 22)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : شبِ معراج جب میں جنت میں داخل ہوا تو حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے میرا استقبال کیا ، میں نے ان سے دریافت کیا کہ وہ کون سا عمل ہے جس کو آپ سب سے زیادہ فضیلت والا ، اللہ تعالی کے دربار میں محبوب ترین اور میزان میں سب سے زیادہ وزنی سمجھتے ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا : آپ کی خدمت میں درود پیش کرنا اور آپ کی شان و عظمت بیان کرنا ‘ نیز حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حق میں خدائے تعالی سے درخواست رحمت کرنا ۔ (نزہۃ المجالس و منتخب النفائس باب مناقب أبی بکر وعمر جمیعا رضی اللہ عنہما جلد 1 صفحہ 348)

حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : گزشتہ شب جب میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ (حضرت) جعفر (رضی اللہ عنہ) جنت میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کر رہے ہیں اور (حضرت) حمزہ (رضی اللہ تعالی عنہ) ایک عظیم تخت پر ٹیک لگائے بیٹھے ہیں ۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم، ذکر إسلام حمزۃ بن عبد المطلب، حدیث 4878)

حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے فرمایا : جب سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرمانے لگے : آپ کی جدائی سے بڑھ کر میرے لیے کوئی اور صدمہ نہیں ہو سکتا ، پھر آپ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور اپنی پھوپھی جان حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : خوش ہو جاؤ ! ابھی جبریل امین علیہ السلام میرے پاس آئے تھے ، انہوں نے مجھے خوشخبری سنائی کہ یقینا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا نام مبارک آسمان والوں میں لکھا ہوا ہے : حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شیر ہیں ۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم، ذکر إسلام حمزۃ بن عبد المطلب،حدیث 4869،چشتی)

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : ہمارے قبیلہ کے ایک صاحب کو لڑکا تولد ہوا،تو انہوں نے عرض کیا کہ اس لڑکے کا کیا نام رکھا جائے ؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مجھے سب سے زیادہ محبوب جو نام ہے وہی اس لڑکے کا نام رکھا جائے ! (مجھے سب سے پسندیدہ نام) "حمزہ بن عبد المطلب" رضی اللہ عنہ کا ہے ۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم ذکر إسلام حمزۃ بن عبد المطلب حدیث 4876)

حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا : جس دن اللہ تعالی تمام مخلوق کو جمع فرمائے گا ان میں سب سے افضل انبیاء و مرسلین علیہم السلام ہی رہیں گے اور رسولوں کے بعد سب سے افضل شہداء کرام ہوں گے اور یقیناً شہداء کرام میں سب سے افضل حضرت حمزہ رضی اللہ عنہم ہونگے ۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم، ذکر إسلام حمزۃ بن عبد المطلب،حدیث 4864)(المعجم الأوسط للطبرانی، حدیث 930)(جامع الأحادیث للسیوطی، حدیث 4003)(کنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال، حدیث 36937)

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ نے ارشاد فرمایا : حمزہ بن عبد المطلب تمام شہیدوں کے سردار ہیں ۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم، ذکر إسلام حمزۃ بن عبد المطلب ،حدیث 4872،چشتی)(المعجم الأوسط للطبرانی، باب العین من اسمہ علی، حدیث 4227)

حضرت ابن شاذان رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی ہے کہ : ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کبھی اتنا اشک بار نہیں دیکھا جتنا کہ آپ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت پر اشک بار ہوئے ، آپ نے انہیں قبلہ کی جانب رکھا ، پھر آپ جنازہ کے سامنے قیام فرما ہوئے ، آپ اس قدر اشک بار ہوئے کہ سسکیاں بھی لینے لگے ، قریب تھا کہ رنجیدگی کے سبب آپ پر بیہوشی طاری ہوجائے، آپ یہ فرماتے جاتے : اے حمزہ ! اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے چچا ، اے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے شیر ! اے حمزہ! اے نیکیوں کو انجام دینے والے ! اے حمزہ ! اے مصیبتوں کو دور کرنے والے ! اے حمزہ ! اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی جانب سے دفاع کرنے والے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب نماز جنازہ ادا فرماتے تو چار مرتبہ تکبیر فرماتے اور آپ نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی ستر (70) مرتبہ تکبیر کے ساتھ نمازِ جنازہ ادا فرمائی ۔ امام بغوی نے اس روایت کو اپنی معجم میں نقل کیا ہے ۔ (شرح مسند أبی حنیفۃ، ج1، ص 526)(ذخائر العقبی۔ ج 1 ، ص 176،چشتی)(السیرۃ الحلبیۃ، ج 4، ص 153)(المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی)

شہادت : پندرہ (15) شّوالُ المکرم 3 ہجری غزوہ اُحد میں آپ رضیَ اللّٰهُ تعالیٰ عنه نہایت بے جگری سے لڑے اور 31 کفّار کو جہنّم واصِل کر کے شہادت کا تاج اپنے سر پر سجا کر اس دنیا سے رُخْصت ہو گئے۔ (معرفتہ الصحابۃ، 17/2) دشمنوں نے نہایت بے دردی کے ساتھ آپ رضیَ اللّٰهُ تعالیٰ عنه کے ناک اور کان جسم سے جُدا کر کے پیٹ مبارک اور سینئہ اقدس چاک کر دیا تھا اس جگر خراش اور دل آزار منظر کو دیکھ کر رسولُ اللّٰه صلی اللّٰهُ علیہ و آلہ وسلم کا دل بے اختیار بھر آیا اور زبانِ رسالت پر یہ کلمات جاری ہو گئے: آپ پر اللّٰه تعالیٰ کی رحمت ہو کہ آپ قرابت، داروں کا سب سے زیادہ خیال رکھتے اور نیک کاموں میں پیش پیش رہتے تھے۔ (دارِ قطنی، 207/5، حدیث:4209، معجمِ کبیر، 143/3، حدیث:2937)

جب سیدنا امیرحمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو رحمۃ للعالمین صلی اللّٰهُ علیہ و آلہ وسلم نے شدید رنج و ملال کا اظہار فرمایا اور نہایت غمگین ہو گئے یہاں تک کہ آپ کی چشمان مقدس سے آنسو رواں ہو گئے اور جب حضور صلی اللّٰهُ علیہ و آلہ وسلم نے شہداء احدکی نماز جنازہ پڑھائی تو ہر شہید کی نمازِ جنازہ کے ساتھ سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ بھی پڑھائی ، اس لحاظ سے آپ کو یہ اعزاز و امتیاز حاصل ہے کہ ستر مرتبہ آپ کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی ‘ چنانچہ شرح مسند ابو حنیفہ ، ذخائر عقبی اور سیرت حلبیہ میں روایت ہے : و عن ابن شاذان من حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ : ما رأینا رسول اللہ صلی اللّٰهُ علیہ و آلہ وسلم باکیا قط أشد من بکائہ علی حمزۃ رضی اللہ عنہ ، وضعہ فی القبلۃ ، ثم وقف علی جنازتہ ، وأنحب حتی نشغ، أی شہق ، حتی بلغ بہ لغشی من البکاء یقول : یا حمزۃ یا عم رسول اللہ وأسد رسولہ : یا حمزۃ یا فاعل الخیرات ، یا حمزۃ یا کاشف الکرب ، یا حمزۃ یا ذاب عن وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، وکان صلی اللہ تعالی علیہ وسلم إذا صلی علی جنازۃ ، کبر علیہا أربعا.وکبر علی حمزۃ سبعین تکبیرۃ ، رواہ البغوی فی معجمہ ۔
ترجمہ : حضرت ابن شاذان رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی ہے کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کبھی اتنا اشک بار نہیں دیکھا جتنا کہ آپ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت پر اشک بار ہوئے،آپ نے انہیں قبلہ کی جانب رکھا ،پھرآپ جنازہ کے سامنے قیام فرما ہوئے ، آپ صلی اللّٰهُ علیہ و آلہ وسلم اس قدر اشک بار ہوئے کہ سسکیاں بھی لینے لگے ، قریب تھا کہ رنجیدگی کے سبب آپ صلی اللّٰهُ علیہ و آلہ وسلم پر بیہوشی طاری ہو جائے ، آپ صلی اللّٰهُ علیہ و آلہ وسلم یہ فرماتے جاتے : اے حمزہ ! اے رسول اللہ صلی اللّٰهُ علیہ و آلہ وسلم کے چچا ، اے رسول اکر م صلی اللّٰهُ علیہ و آلہ وسلم کے شیر ! اے حمزہ ! اے نیکیوں کو انجام دینے والے ! اے حمزہ ! اے مصیبتوں کو دور کرنے والے ! اے حمزہ ! اے رسول اللہ صلی اللّٰهُ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے دفاع کرنے والے ، حضور صلی اللّٰهُ علیہ و آلہ وسلم جب نمازِ جنازہ ادا فرماتے تو چار مرتبہ تکبیر فرماتے اور آپ نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی ستر (70) مرتبہ تکبیر کے ساتھ نمازِ جنازہ ادا فرمائی ۔ امام بغوی علیہ الرحمہ نے اس روایت کو اپنی معجم میں نقل کیا ہے ۔ (شرح مسند أبی حنیفۃ جلد 1 صفحہ 526)(ذخائر العقبی جلد 1 صفحہ 176)(السیرۃ الحلبیۃ جلد 4 صفحہ 150)(سمط النجوم العوالی فی أنباء الأوائل والتوالی جلد 1 صفحہ 161)(المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی)(شرح الزر قانی علی المواہب جلد 4 صفحہ 474)

نمازِ جنازہ و مدفن

شہدائے احد میں سب سے پہلے آپ رضیَ اللّٰه عنه کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی پھر ایک ایک شہید کے ساتھ آپ کی بھی نماز پڑھی گئی جبکہ ایک روایت کے مطابق دس دس شہیدوں کی نماز ایک ساتھ پڑھی جاتی اور ان میں آپ بھی شامل ہوتے یوں اس فضیلت میں آپ رضیَ اللّٰهُ عنه منفرد ہیں اور کوئی آپ کا شریک نہیں ہے ۔ (الطبقات اکبری 7/3)(سنن کبریٰ للبیہقی 18/4 حدیث : 6804)

جبلِ اُحد کے دامَن میں آپ رضیَ اللّٰهُ عنه کا مزار دعاؤں کی قبولیّت کا مقام ہے فقیر چشتی کو زیارت و حاضری کا شرف حاصل ہوا الحَمْدُ لِله ۔ اللہ سبحانہ و تعالی اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے توسل اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی سیرت مبارکہ کی روشنی سے ہماری تاریک زندگیوں کو روشن و منور فرمائے آمین ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔