امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ حصّہ نمبر 7
امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ اپنے مرشد کے در پر : مارہرہ مطہرہ، یہ وہ مقدس مقام ہے ، جو علما ، عرفا ، صوفیا ، صلحا کے دل کی دھڑکن ہے ۔ شاہانِ وقت بھی یہاں سر کے بل حاضری دینا فخر سمجھتے تھے ۔ یہی جگہ ، جو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا پیر خانہ ہے ، امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے قلب و نظر کا قبلہ و کعبہ تھی ۔ آپ یہاں کب اور کیسے پہنچے ، ۱۲۹۴ ھجری سے پہلے حاضری کا سراغ نہیں ملتا ۔ یہ صرف فقیر چشتی کی معلومات کی حد تک ہے ۔ ۱۲۹۴ ھجری سے حاضری کی متواتر رواتیں دستیاب ہیں ۔ کتنی بار یہاں حاضری ہوئی ہے ، حتمی تعداد کا تعین نہیں کیا جا سکتا ۔ البتہ متعدد بار حاضری دی ہے اور کبھی پا پیادہ اور ننگے پاٶں بھی حاضر ہوئے ہیں ۔ یہ تو جسم و جسد کی حاضری تھی ۔ ورنہ جان و دل کی حاضری ہمہ وقت ہوتی رہتی تھی ۔ تصورِ شیخ میں وہ اتنے محو اور مگن تھے ۔ بس دل میں ہے تصویر یار ، جب ذرا گردن جھکائی ، دیکھ لی ، کے مصداقِ اتم تھے اور پیر بھی کیسا ، جو امام احمد رضا کو آخرت کی پونجی ، سامانِ اخروی اور پیشِ پروردگار حاضر کرنے پر فخر ومباہات فرماتے تھے ۔
وہ عرش آشیاں، وہ خلد آشیاں، وہ شاہانِ بے تاج ، جن کی بارگاہیں منگتوں کی امید گاہیں ہیں ۔ داتاوں کی نگری ہے ۔ آنکھیں بند ہیں ۔ لب وا ہیں ۔ جھولیاں پھیلی ہیں ۔ دینے والا نظر نہیں آتا، مگر دامن بھر جاتا ہے ۔ آنکھیں سیر ہوتی ہیں ۔ دل شاد ہوتا ہے ۔ روتا منہ آیا تھا، ہنستا منہ جا تا ہے ۔ چہرہ پسورتا ہوا آیا تھا ، مسکراتا مکھڑا جاتا ہے ۔ دامن پسارکر آیا تھا ، اتنا ملتا ہے کہ دامن تنگ پڑ جاتا ہے ۔ آیا تھا ، تو گناہوں سے لت پت تھا ، پلٹتا ہے ، تو پاک پوتر ہو کر پلٹتا ہے ۔ آہ!یہ کیسی داتا نگری ہے ۔ یہ کیسی دیالو بستی ہے ۔ لجپال گاوں ہے ۔ آئیے ۔ وقت کے مجدد امام احمد رضا کی حاضریوں اور پیشیوں پر ایک نظر ڈالیے ۔
ڈاکٹر ایوب قادری (کراچی) لکھتے ہیں : ۱۲۹۴ھجری میں فاضلِ بریلوی اور مولانا نقی علی خان ، بدایوں حضرت مولانا محبِ رسول عبد القادر بدایونی کے پاس تشریف لائے اور پھر اکابرِ علمائے بدایوں حضرتِ شاہ اچھے میاں مارہروی کے عرس میں شرکت کے لیے مارہرہ پہنچے۔ مولانا عبد القادر بدایونی کی تحریک و تعارف پر حضرت فاضلِ بریلوی اور ان کے والد حضرت مولانا نقی علی خان حضرت شاہ آلِ رسول مارہروی زیبِ سجادہ درگاہِ عالیہ مارہرہ شریف سے بیعت ہوئے ۔ (سال نامہ معارفِ رضاکراچی:۱۹۹۳ ء، ص۹۰)
ڈاکٹر ایوب قادری نے دیدہ نہیں ، شنیدہ لکھا ہے ۔ اعلیٰ حضرت کی سنیے، جوداخلی شہادت ہے ۔ صحیح اور ثقہ ہے ۔ اپنے جدِ امجد شاہ رضا علی خان بریلوی کا ذکرِ جمیل کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : ایک دن میں روتا ہوا دوپہر کو سو گیا۔ دیکھا (خواب میں) حضرتِ جدِ امجد رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے اور ایک صندوقچی عطا فرمائی اور فرمایا:عنقریب آنے والا ہے وہ شخص، جو تمہارے دردِ دل کی دوا کرے گا۔ دوسرے یا تیسرے روز حضرت مولانا عبد القادر صاحب رحمۃ اللہ علیہ بدایوں سے تشریف لائے اور اپنے ساتھ مارہرہ شریف لے گئے۔ وہاں جا کر شرفِ بیعت حاصل کیا ۔ (الملفوظ: طبع بریلی، ص۶۸/حیاتِ الیٰ حضرت: طبع لاہور، ۲۰۰۳ ء ، ص۴۲۶،چشتی)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا اپنے والدِ کریم شاہ نقی علی خان کے احوالِ حیات رقم کر تے ہوئے لکھتے ہیں : ۵ جمادی الاولیٰ ۱۲۹۴ھ کومارہرہ شریف میں دستِ حق پرست حضرتِ آقائے نعمت دریائے رحمت سید الواصلین سند الکاملین قطب اوانہ وامام زمانہ حضور پر نور سیدنا و مرشدنا مولاناوماواناذخری لیومی و غدی حضرتِ سیدنا سید شاہ آلِ رسول احمدی تاجدارِ مسندِ مارہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ وافاض علینا من برکاتہ و نعماہ پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ حضور پیر ومرشد نے مثالِ خلافت واجازت جمیع سلاسل وسندِ حدیث عطا فرمائی۔ یہ غلام ناکارہ بھی اسی جلسہ میں اس جناب (والد ماجد)کے طفیل ان برکات سے شرف یاب ہوا۔ والحمد للہ رب العالمین ۔ (تفسیر سورہ الم نشرح: از نقی علی خان، رضوی کتاب گھرطبع بھیونڈی)
اعلیٰ حضرت اپنے مرشدِ گرامی کا ذکر اپنی کتاب الاجازۃ المتینۃمیں یوں کرتے ہیں : میں اپنے مولیٰ، اپنے مرشد، اپنے سردار سے راوی ہوں، جو میرے لیے سہارا بھی ہیں اور خزانہ بھی اوردنیا وآخرت میں ذخیرہ بھی، جو شریعت و طریقت کے جامع ہیں اور پاک لوگوں کی دونوں جماعتوں عالموں، عارفوں کے مرجع بھی، جن کی توجہ اصاغر کو اکابر بنا دیتی ہے، یعنی سیدنا الشاہ آلِ رسول احمدی رضی اللہ عنہ بالرضا السرمدی ۔ (الاجازۃ المتینۃ: مشمولہ رسائلِ رضویہ،ادارہ اشاعتِ تصنیفاتِ رضا ، بریلی ، صفحہ ۱۸۱،چشتی)
مشہور محقق و مصنف علامہ عبد الحکیم اختر شاہ جہاں پوری نقل کرتے ہیں : حضرتِ پیرو مرشد (شاہ آلِ رسول)اس بیعت کے چند روز پہلے ہی سے یوں نظر آرہے تھے، جیسے کسی کا انتظار کر رہے ہوں اور جب یہ دونوں حضرات(شاہ نقی علی واعلیٰ حضرت)وہاں پہنچے، تو بشاش ہو کر فرمایا:تشریف لایئے۔ آپ کا تو بڑا انتظار ہو رہا تھا ۔ (سیرتِ امام احمد رضا، پروگریسیو بکس لاہور،۱۹۹۴ ء صفحہ ۴،چشتی)
حضرتِ سید شاہ اسماعیل حسن شاہ جی میاں ، جو رازدارِ درونِ خانہ بھی ہیں ، ذرا تفصیل سے بیان کرتے ہیں : تاج الفحول محب الرسول مولانا شاہ عبد القادر صاحب بدایونی قدس سرہ العزیز نے فقیر سے بیان فرمایا کہ مولانا نقی علی خان صاحب والد ماجد حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب نے اپنی بیعت کے ارادے کا اظہار فرمایا۔ اس سے پہلے حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب بہ خیالِ بیعت مولانا فضلِ رحماں صاحب گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس جا چکے تھے اور وہاں سے کسی وجہ سے واپس آ چکے تھے۔ مولانا بدایونی نے مولانا نقی علی خان صاحب کو یہ جواب دیا کہ : آپ امر بیعت میں مجھ پر اعتماد رکھتے ہیں، تو جس جگہ مناسب جان کر میں آپ کو بیعت کرا دوں ، وہاں منظور کر لیجیے ۔ مولانا بریلوی کی طرف سے اس پر رضا مندی ہونے پر مولانا بدایونی، مولانا نقی علی خان صاحب، مولانا احمد رضا خان صاحب اور مرزا عبد القادر بیگ صاحب کو ہمراہ لے کر مارہرہ تشریف لائے۔ چوں کہ مولانا نقی علی خان صاحب نے فرما یا کہ میں بغیر تجدیدِ غسل کیے ہوئے خانقاہِ برکاتیہ میں حاضر نہ ہوں گا۔ لہٰذا سب حضرات پہلے مارہرہ میں ایک سرائے میں جاکر فرو کش ہوئے۔ مگر سرائے کے راستے میں سواری کا یکہ الٹ گیااور مولانا نقی علی خان صاحب کو چوٹ لگی۔ پھر اسی حالت میں انہوں نے نہا دھو کر کپڑے پہنے اور سب حضرات خانقاہ برکاتیہ میں تشریف لائے اور فقیر ہی کے مکان موسوم بہ مدرسہ پر، جو درگاہِ معلی برکاتیہ کے دروازے کے سامنے تھا اور اس وقت ٹوٹا پڑا ہے ، فروکش ہوئے ۔ فقیر کے والد ماجد حضرت سید شاہ محمد صادق صاحب وبرادرِ مکرم حضرت سید شاہ ابو الحسین احمد نوری میاں صاحب قدس سرہما بھی ان دنوں مارہرہ ہی میں تشریف فرما تھے۔ اسی دن ظہر کے وقت مولانا بدایونی، مولانا نقی علی خان صاحب اور مولانا احمد رضا خان صاحب اور مرزا عبد القادر بیگ صاحب کو ہمراہ لے کر حضرت خاتم الاکابر سید شاہ آلِ رسول صاحب قدس سرہ العزیزکی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ فقیر اور فقیر کے والد ماجد اور میاں صاحب بھائی مرحوم بھی ہمراہ گئے ۔ حضرت خاتم الاکابر نے پہلے مولانا نقی علی خان صاحب، پھر مولانا احمد رضا خان صاحب، پھر مرزا عبد القادر بیگ صاحب کو داخلِ سلسلہ عالیہ قادریہ جدیدہ فرمایا ۔ پھر حضور کی جانب سے ایما ہونے پر کہ مولانا نقی علی خان صاحب اور مولانا احمد رضا خان صاحب کو خلافت بھی دے دی جائے۔ حضرت میاں صاحب بھائی نے اپنے جدِ امجد حضرت خاتم الاکابر کی خدمت میں اس کے لیے بھی عرض کیااور جلسہ میں حضرت نے خلافت و اجازت جملہ سلاسل واسناد وتبرکاتِ خاندان عالیہ قادریہ برکاتیہ سے بھی مولانا نقی علی خان صاحب اور مولانا احمد رضا خان صاحب کو مشرف فرمایا۔ بیعت وخلافت کے بعد بھی کچھ عرصے تک ان سب حضرات نے فقیر کے مکان پر قیام فرمایا۔ اسی دوران تاج الفحول بدایونی نے فقیر سے ارشاد فرمایا کہ : مولانا احمد رضا خان صاحب کا حضرت صاحب سے بیعت ہو جانا، ان کےلیے بھی اچھا ہوا اور میرے لیے بھی اچھا ہوا ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، مکتبہ نبویہ لاہور،۲۰۰۳ء ص۶۹۸، ۹۹ ۶)
تاج الفحول شاہ محمد عبد القادر بدایونی کی ہمرہی میں مارہرہ کا سفر ، اعلیٰ حضرت رقم طراز ہیں : مولانا ! سات ادلہ والے رسالہ کا اشتیاق ہے۔ شاید بدایوں پہنچا ہو۔ حضرت تاج الفحول محب الرسول مولانا مولوی عبد القادر صاحب بھی سفر مارہرہ میں ہمراہ تھے۔ اب وہاں استفسار کیا جائے گا ۔ (کلیاتِ مکاتیبِ رضا، طبع کلیر شریف، ۲۰۰۵ء ص ۲/۳۰۰،چشتی)
حضرت سید شاہ اسماعیل حسن شاہ جی میاں مارہروی بیان کرتے ہیں : ایک مرتبہ حضرت جدی سیدنا سید شاہ برکت اللہ صاحب قدس سرہ العزیز کے عرس میں مولانا احمد رضاخان صاحب تشریف لائے ۔ اس سفر میں ان کے بہنوئی بھی ان کے ساتھ تھے ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت ،مکتبہ نبویہ،لاہور، ۲۰۰۳ء ص۱۰۵)
حضرت سید شاہ اسماعیل حسن شاہ جی میاں مارہروی کاہی بیان ہے : حضرت جدِ امجد سیدنا شاہ برکت اللہ صاحب قدس سرہ العزیز کا عرس شریف ایک زمانہ میں میرے والد صاحب قدس سرہ نہایت اہتمام و انتظام اور اعلیٰ پیمانے پر کیا کرتے تھے۔ اس میں بارہا حضرت مولانا (احمد رضا) بھی تشریف لائے اور میرے اصرار سے بیان بھی فرمایا۔ مگر اس طرح کہ حاضرینِ مجلس سے فرماتے ہیں۔ ابھی اپنے نفس کو وعظ نہیں کہہ پایا۔ دوسروں کو وعظ کے کیا لائق ہوں۔ آپ حضرات مجھ سے مسائلِ شرعیہ دریافت فرمائیں۔ ان کے بارے میں جو حکمِ شرعی میرے علم میں ہوگا، چوں کہ بعد سوال اس کو ظاہر کر دینا، حکمِ شریعت ہے، میں ظاہر کر دوں گا ۔ فقیر غفر لہ عرض کرتا ہے۔ اتنا سن کر حاضرین میں سے کوئی صاحب حسبِ حال سوال کر دیتے۔ حضور پر نور اپنی تقریر دلپذیر سے ایک موثر بیان اس مسئلہ پر فرما دیتے ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت ،مکتبہ نبویہ، لاہور، ۲۰۰۳ء صفحہ ۱۰۶،چشتی)
حضرت سید شاہ اسماعیل حسن شاہ جی میاں مارہروی کاہی بیان ہے : ایک بار میرے اصرار سے مولانا (احمد رضا) نے مزار صاحب البرکات قدس سرہ پر اپنے والد ماجد قبلہ کا مولفہ مولود شریف (سرور القلوب فی ذکر المحبوب) بھی پڑھا ہے ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت ،مکتبہ نبویہ،لاہور، ۲۰۰۳ء صفحہ ۱۰۶)
حضرت سید شاہ اسماعیل حسن شاہ جی میاں مارہروی کاہی بیان ہے : ایک بار بہ زمانہ عرس حضرت جدی شاہ برکت اللہ قدس سرہ درگاہِ معلی میں میاں جی صاحب کے مکتب کے متصل کوٹھری میں، جہاں ہماری ہمشیرہ والدہ مسعود حسن کی اب قبر ہے، مولانا (احمد رضا) تشریف فرما تھے ۔ ہم نے مولانا عبد المجید بدایونی کا شجرہ عربی درود شریف میں دِکھایااور کہا کہ ہمارا شجرہ بھی عربی درود میں لکھ دیجیے۔ اسی وقت میاں صاحب بھائی مرحوم کے قلم دان سے قلم لے کر قلم برداشتہ بغیر کوئی مسودہ کیے ہوئے ہمارے وظیفے کی کتاب پر نہایت خوش خط اور اعلیٰ درجے کے مرصع و مسجع صیغۂ درود شریف میں شجرہ قادریہ برکاتیہ جدیدہ تحریر فرمایا اور اسے حضرت میاں صاحب بھائی کی کتاب پر بھی نقل فرما دیا۔ یہ واقعہ محرم الحرام۱۳۰۵ ھ کا ہے ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، مکتبہ نبویہ،لاہور، ۲۰۰۳ء صفحہ ۲۹۹۔ ۱۷۶،چشتی)
حضرت سید شاہ اسماعیل حسن شاہ جی میاں مارہروی کاہی بیان ہے : مولانا احمد رضا خان صاحب کا حسنِ ادب بارگاہِ رسالت میں اس قدر تھا کہ ایک درود میں لفظ حسین وزاہد تھا۔ آپ نے اس کو اپنے ہاتھ سے نقل کرنا بھی پسند نہیں کیا۔ بلکہ نہایت لطافت کے ساتھ اسے وہاں اس طرح استعمال فرمایا ہے کہ یہی صیغہ تصغیر حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی عظمتِ شان ظاہر کر رہا ہے ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، طبع لاہور، ۲۰۰۳ء صفحہ ۲۹۹۔ ۱۷۶ ۔ ۶۱۸)
رضویات کے موسسِ اول ملک العلما ء حضرت مفتی محمد ظفر الدین قادر ی رضوی لکھتے ہیں :
جامعِ حالات (ملک العلماء) غفرلہ کہتا ہے ۔ اس درود کی عبارت یہ ہے : الہم صل و سلم وبارک علی سیدنا و مولانا محمد المصطفیٰ رفیع الشان المرتضیٰ علی الشان والذی رجیل من امتہ خیر من رجال السابقین حسین من زمرتہ حسن من کذا و کذا من السابقین ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، مکتبہ نبویہ،لاہور، ۲۰۰۳ء ص۶۹۹۔ ۲۱۸)
حضرت سید شاہ اسماعیل حسن شاہ جی میاں مارہروی کا بیان ہے : مولانا (احمد رضا) کو علمِ تکسیر کی تشویق و تحریک کا سبب میں ہی ہوا تھا۔ میں اس علم کے بہت تذکرے کرتا۔ کتابیں دِکھاتا۔ ایک بار کسی خاندانی کتاب میں ایک نیا وفق سپر مرتضوی نظر سے گذرا۔ مولانا کو بھی دکھا یا۔ اس کے قاعدے کی تشریح و تو ضیح میں کچھ گفتگو رہی۔ مولانا نے وہ کتاب رکھ لی اورایک دو روز کے بعد ایک مفصل رسالہ میں اس وفق کے بہت سے صور اور اس کے لیے کئی ضابطے کا یہ مفصل و مشرح رسالہ تحریر فرما کر مجھے دے دیا۔ جو میرے پاس بفضلہ تعالیٰ اس وقت بھی محفوظ ہے ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، مکتبہ نبویہ،لاہور، ۲۰۰۳ء ص۶۹۹۔ ۲۱۸)
رضویات کے موسسِ اول ملک العلماء حضرت علامہ مفتی محمد ظفر الدین قادر ی رضوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ۱۳۱۵ھ میں اردو میں دو قصیدے تحریر فرمائے۔ ایک تاج الفحول محب الرسول حضرت مولانا شاہ عبد القادر صاحب بدایونی قدس سرہ العزیز کی مدح میں، جس کا نامِ تاریخی’’ چراغِ انس‘‘۱۳۱۵ھ رکھا۔ اس کا مطلع یہ ہے : ⬇
اے امام الہدیٰ محب رسول
دین کے مقتدا محبِ رسول
دوسرا قصیدہ حضرت سیدنا سید شاہ ابو الحسن نوری میاں صاحب قدس سرہ کی مدح و ثنا میں ہے۔ اس کا تاریخی نام مشرقستانِ قدس رکھا۔ اس کا مطلع یہ ہے : ⬇
ماہِ سیما ہے احمدِ نوری
مہر جلوہ ہے احمدِ نوری
اور مقطع یہ ہے : ⬇
کیوں رضاؔ تم ملول ہوتے ہو
ہاں تمہارا ہے احمدِ نوری
اس قصیدے کو استماع فرما کر حضرت ممدوح(نوری میاں) نے اعلیٰ حضرت قدست اسرارہماکو ایک نہایت ہی نفیس معطر ومعنبر عمامہ عطا فرمایااور اپنے دستِ اقدس سے اعلیٰ حضرت کے سر پر باندھا ۔ حاضرینِ جلسہ سے حضرت مولانا محمد عبد المقتدر مطیع الرسول صاحب قادری برکاتی عثمانی بدایونی نے فی البدیہہ اس عطیہ بہیئہ کی تاریخ ۱۳۱۵ھ تاج الفخر سے نکالی ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، مکتبہ نبویہ،لاہور، ۲۰۰۳ء ص۶۹۹۔ ۷۲۳)
اس قصیدے کی تفصیل یہ ہے ۔ یہ۱۳۱۷ ھ کا سن تھا، جب اعلیٰ حضرت نے قصیدہ نور لکھا۔ اسی برس عرسِ قادری بدایوں میں پڑھا بھی گیا۔ یہ عرس سراپا قدس یکم جمادی الثانی تا جمادی الثانی منعقد ہوا تھا۔ یہ قصیدہ ۵ جمادی الثانی کو ۱۰ بجے دن سے قبلِ ظہر تک سنایا گیا۔ سنانے والے بدایوں کے مشہور نعت خواں مولانا حافظ عبد الحبیب قادری نے پڑھا اور مجمع، جو رندوں کا تھا، نور علی نور ہو گیا۔ اس عرس کی روداد مولانا ضیاء القادر ی بدایونی (ف۱۳۰۰ھ/۱۹۷۰ء) مصنف اکمل التاریخ نے لکھی۔ اس وقت۱۳۱۷ ھ میں روداد نگار کی عمر ستر برس کی تھی۔ یہ روداد مولانا ضیاء القادری کی کتاب’’ چراغِ صبحِ جمال‘‘ میں پہلی بار شائع ہوئی ۔ ایک مدت بعد اکتوبر ۱۹۹۳ء میں مجلہ بدایوں کراچی سے بھی شائع ہوئی۔ پھر قریب دو دہے بعد ماہ نامہ جامِ نوردہلی شمارہ جولائی۲۰۱۳ ء میں بھی سہ بارہ شائع ہوئی ۔
روداد نگار مولانا ضیاء القادری لکھتے ہیں : ۵ جمادی الثانی۱۳۱۷ ھ ہے۔ خوش گوار گرمی کا موسم ہے۔ آستانہ عالیہ قادریہ میں مولانا ہادی علی لکھنوی علیہ الرحمہ کی شہادت کا بیان ہو چکا ہے۔ مسندِ علما و مشائخ پر اکابر عظمارونق افروز ہیں۔ ایک در میں گاوں تکیے سے پشت لگائے صدرِ خانوادہ قادریہ مسند نشینِ آستانہ برکاتیہ نورِ مجسم فیضِ ہمہ تن فرزندِ محبوبِ ذو المنن قطبِ زمن حضرت سیدنا شاہ ابوالحسین قبلہ احمد نوری رحمۃ اللہ علیہ جلوہ فرما ہیں۔ صحنِ درگاہِ معلی میں ہم شبیہِ غوث الثقلین سیدنا مولانا حضرت شاہ علی حسین اشرفی میاں، حضرت مولانا شیخ المشائخ سیدنا شاہ تجمل حسین جمن میاں شاہجہاں پوری، حضرت سید شاہ فخر عالم قادری، حضرت نوشہ میاں قادری چشتی سنبھلی، وحضرت سجادہ نشین آستانہ قادری رزاقیہ بانسہ شریف، حضرت سجادہ نشین آستانہ عالیہ کالپی شریف، حضرت مولانا حافظ سید شاہ عبد الصمد مودودی چشتی حافظِ بخاری سہسوانی، حضرت مولانا مجددماۃ حاضرہ شاہ احمد رضا خان فاضلِ بریلوی، حضرت مولانا سیدنا شاہ وصی احمد محدث سورتی، مولانا ہادی علی خان سیتا پوری، مولانا ہدایت رسول لکھنوی رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین، نیز مارہرہ، بریلی، بدایوں، پیلی بھیت وغیرہ کے اکابر علما وادبا و شعرا موجود ہیں ۔ دس بجے دن کے بعد قصیدہ نور شروع ہوا تھا۔ صحنِ درگاہ تمام مقدس نورانی بزرگوںسے بھرا ہوا تھا۔ آفتاب کی شعاعیں سرخ شامیانے سے چھن چھن کر نعت خوانوں کے لب و دہن اور حاضرین کے رخہائے روشن کو چومنے میں مصروف تھیں۔ شامیانے سے نور چھن رہا تھا۔ در دیوار سے نور نور کا نغمہ بلند ہو رہا تھا ۔ علما و مشائخ ، ادبا و شعرا، حاضرینِ محفل کیف و سرور کے عالم میں سبحان اللہ و صل علی کے مودبانہ تحسین و آفرین میں مشغول تھے۔ ایک ایک شعر چار چار پانچ پانچ بار پڑھوایا جا رہا تھا۔ ہر شخص پر وجد طاری تھا۔ یہ معلوم ہو رہا تھا کہ انوارِ الٰہی کی بارش ہورہی ہے۔ حافظ حبیب صاحب نے پورا قصیدہ صاحبِ عرس کے حضور اور مصنفِ قصیدہ (اعلیٰ حضرت) کی موجودگی میں پڑھا اور ایک بجے کے قریب ختم کیا۔ جس وقت حافظ صاحب نے مقطع پڑھا : ⬇
اے رضاؔ یہ احمدِ نوری کا فیضِ نور ہے
ہو گئی میری غزل بڑھ کر قصیدہ نور کا
حضرت سیدنا شاہ احمد نوری قدس سرہ نے (جو گردن جھکائے مراقب نظر آرہے تھے) گردن مبارک بلند فرمائی۔ دستِ دعا اٹھائے۔ حضرت فاضلِ بریلوی والہانہ انداز کے ساتھ اٹھے۔ زبان سے چینخ نکلی اور حضرت میاں صاحب قبلہ کے زانوئے اقدس پر سر رکھ دیا ۔ (ماہ نامہ جامِ نور دہلی جولائی ۲۰۱۳ ء ص۴۵۔۴۴)
ڈاکٹر ایوب قادری نے اس سفر اور قصیدہ کا تذکرہ یوں کیا ہے : ۱۳۱۷ ھجری میں فاضلِ بریلوی نے اپنا مشہور قصیدہ نور لکھا۔ جس کا پہلا شعر : ⬇
صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا
صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا
اور آخری شعر : ⬇
اے رضاؔ یہ احمدِ نوری کا فیضِ نور ہے
ہو گئی میری غزل بڑھ کر قصیدہ نور کا
سب سے پہلے یہ قصیدہ عرسِ قادری بدایوں میں ۵ جمادی الثانی۱۳۱۷ ھ کو پڑھا گیا۔ جس میں ہندوستان کے نامور علما اور مشائخ مولانا عبد القادر بدایونی ، مولانا وصی احمد محدث سورتی، مولانا ہادی علی خان سیتا پوری، مولانا ہدایت رسول، شاہ محمد فاخر الہ آبادی، مولانا عبد الصمد سہسوانی، شاہ علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی، شاہ تجمل حسین شاہجہاں پوری وغیرہ موجود تھے۔ حضرت شاہ ابوالحسین نوری میاں صدرِ مشائخ تھے۔ حضرت فاضلِ بریلوی بھی تشریف فرما تھے۔ بدایوں کے مشہور نعت خواں حبیب قادری مرحوم نے اپنے مخصوص انداز میں قصیدہ نور پڑھا۔ لوگ بیان کرتے تھے کہ محفل سراپا نور بن گئی۔ ایک ایک شعر چار چار پانچ پانچ بار پڑھا گیا۔ کیف و سرور کی ایک کیفیت برپا تھی۔ تحسین و آفرین کے نعرے تھے۔ دس بجے یہ قصیدہ شروع ہوا اور قبلِ ظہر ختم ہوا ۔ حضرت شاہ احمد نوری قدس سرہ نے، جو گردن جھکائے مراقب نظر آرہے تھے، گردن اٹھائی اور دست بدعا ہوئے۔ حضرت فاضلِ بریلوی والہانہ انداز کے ساتھ اٹھے اور بے ساختہ ایک چینخ نکلی اور حضرت نوری کے زانوئے مبارک پر سر رکھ دیا ۔ سبحان اللہ و بحمدہ ۔ (سال نامہ معارفِ رضاکراچی، ۱۹۹۳ء صفحہ نمبر ۱۹۲۔۱۹۱،چشتی)
واضح رہے کہ تاج الفحول سے اعلیٰ حضرت بہت متاثر تھے ۔ ۱۲۹۴ ھجری میں اعلیٰ حضرت شاہ آلِ رسول علیہ الرحمہ سے مرید ہوئے۔۱۲۹۶ ھ میں اعلیٰ حضرت اپنے والدِگرامی کے ہمراہ سفرِ حج پر تھے اور یہاں ان کے مرشدِ مکرم شاہ آلِ رسول علیہ الرحمہ کا وصال ہو گیا۔ اس کے بعد اعلیٰ حضرت سید شاہ ابو الحسین احمد نور ی میا ں کی روحانی تربیت اور صحبتِ فیض میں آئے۔ نوری میاں سے علمی استفادہ کیااور علمِ جفر وغیرہ تذکرۃََ سیکھا۔ خلافت و اجازت کی سعادت بھی پائی ۔ اب آگے دیکھیے ۔ حضرت سید شاہ اسماعیل حسن شاہ جی میاں مارہروی فرماتے ہیں : میاں صاحب بھائی قبلہ یعنی حضرت سید شاہ ابوالحسین احمد نوری مارہروی قدس سرہ العزیزنے مجھ سے فرمایا کہ بیٹا! اب اس وقت دینداری کی علامت یہ ہے کہ جو شخص مولانا عبد القادرصاحب بدایونی اورمولانا احمد رضا خان سے محبت رکھے ۔ اسے دیندار جانو اور جو شخص ان دونوں سے بغض و عداوت رکھے، اسے سمجھ لو کہ بدمذہب ہے یا کسی بد مذہب کے پھیرے میں پھنسا ہوا ہے اور جس مسئلہ پر ان دونوں کا اتفاق ہوا ہے جانو کہ یہ مسئلہ بہت ہی محقق ہے اور جس مسئلہ سے ان دونوں کو اختلاف ہو، اسے جان لو کہ یہ غیر محقق اور غلط ہے اور فرماتے تھے کہ بیٹا!ہمارا تو اب یہی دستور العمل ہے (اور فقیر کا بھی یہی دستور العمل رہا) کہ جو مسئلہ، جو مولانا احمد رضا خان صاحب نے فرمایا۔ اس پر فوراََ دل مطمئن ہو گیااور ان کی اعلیٰ تحقیق اور غور و تدبر کے کثیر در کثیر مشاہدات و واقعات نے یہ حالت کر دی تھی کہ جو مسئلہ دریافت کرتا اور اس کی نسبت لکھ دیتا کہ مسئلہ کا حکم لکھ دیجیے ۔ دلیل کی ضروت نہیں ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، مکتبہ نبویہ،لاہور، ۲۰۰۳ء ص۶۹۹۔ ۱۰۰۴)
سراج السالکین سید شاہ ابوالحسین احمد نوری میاں قبلہ علیہ الرحمہ کاعالی شان فرمان : ’’چشم وچراغِ خاندانِ برکات‘‘ حضرت اقدس سیدنا شاہ ابو الحسین احمد نوری میاں صاحب قبلہ قدس سرہ العزیز کو جو خصوصیت اعلیٰ حضرت قبلہ سے تھی، محتاجِ بیان نہیں۔ ہمیشہ جملہ مسائل و عقائدمیں اعلیٰ حضرت مد ظلہ العالی اور تاج الفحول محب الرسول مولانا شاہ عبد القادر صاحب عثمانی بدایونی قدس سرہ العزیز سے مشورہ فرماتے اور جو جو مدائح فرمایا کرتے، ہر باریابِ صحبت پر واضح ہیں۔ ایک صحیفہ شریفہ میں اعلیٰ حضرت مد ظلہ العالی کو تحریر فرمایا : مولوی صاحب ! خدا کی قسم میں حضرت شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے سے بہتر جانتا ہوں۔ اکثر دعا فرمایا کرتے تھے۔ الٰہی!میری عمر میںسے اعلیٰ حضرت کو عمر عطا فرما ۔ ۱۳۲۳ھ میں جب اعلیٰ حضرت قبلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حرمین طیبین حاضر ہوئے۔ اکثر دعا فرمایا کرتے تھے۔ الٰہی! مجھے موت نہ آئے۔ جب تک مولانا احمد رضا خان صاحب کو بالخیر واپس آیا دیکھ نہ لوں۔ محرم ۱۳۲۱ھ کو ایک خط بصیغہ رجسٹری بھیجا۔ جس کی نقل مطابقِ اصل یہ ہے :
چشم و چراغِ خاندانِ برکاتیہ مارہرہ مولانا احمد رضا خان صاحب دام عمرہم و علمہم، ازابوالحسین ، بعد دعاۓ مقبولیت فقرہ محررہ معلی القاب سطر بالا واضح ہو کہ یہ خطاب حضرت صاحب رضی اللہ عنہ نے مجھ کو دیا تھا۔ باوجودیکہ میں لائق اس کے نہ تھا۔ تحریر فرمایا کرتے تھے۔ چوں کہ اب میں بظاہر اسبابِ انواعِ امراض میں ایسا مبتلا ہوں کہ مصداق اس مصرع کا ہو گیا ہوں : اگر ماند شبے ماند شبے دیگر نمی ماند ۔ اور مولانا عبد القادر صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی اٹھ گئے اور جگہ خالی کر گئے۔ تو اب سوائے آپ کے حامی کار اس خاندان عالی شان کا خلفا میں کوئی نہ رہا۔ لہٰذا یہ خطاب میں نے آپ کو بایمائے غیبی پہنچا دیا۔ بطوع و رغبت آپ کو قبول کرنا ہوگااور میں نے بطیبِ خاطر بلا جبر و اکراہ و رغبتِ قلب یہ خطاب آپ کو ہبہ کیا اور بخش دیا۔ یہی خط اس کی سند میں با ضابطہ ہے۔ فقیر ابوالحسین از مارہرہ،۲۲ محرم ۱۳۲۰ ھ ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، مکتبہ نبویہ،لاہور، ۲۰۰۳ء صفحہ ۶۹۹۔ ۱۰۰۶،چشتی)
۱۳۲۸ھ/۱۹۱۰ء میں مارہ مطہرہ میں سیدنا شاہ ابوالحسین احمد نوری میاں کا عرس تھا۔ جس میں آپ(اعلیٰ حضرت) شریک ہوئے اور نہایت عارفانہ خطاب فرمایا۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ جس دن آپ کا بیان ہونے والا تھا، اس دن عجب کیفیت تھی۔ مخلوقِ خدا کی اتنی کثرت تھی کہ شمار و قطار سے باہر ہے۔ نہایت پرکیف اور پر لطف مجلس تھی اور ہر شخص محوِ سماعت تھا۔ آپ نے بیحد عمدگی سے وعظ فرمایا۔ آپ کی خوش بیانی اور خوش کلامی گاہے ہنسا، گاہے رُلا اور گاہے تڑپا دیتی تھی۔ کوئی وعظ و خطاب سننا چاہے، تو وہ امام احمد رضا کی زبان سے سنے ۔ (ہفت روزہ دبدبہ سکندری رام پور، یکم اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۶)
۱۳۳۲ھ میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ خود اپنے ایک مکتوب میںلکھتے ہیں:سرکار مارہرہ مطہرہ حاضر ہوا۔ چھ روز میں واپس آیا اور صعوبتِ سفر اور ناسازی طبع سے اکیس روز معطلِ محض رہا ۔ اب مبتلائے بعض افکار ہوں۔ طالبِ دعاہوں ۔ (کلیات مکاتیبِ رضا، طبع کلیر شریف،۲۰۰۵ ء ،۱/ ۳۳۴)(ماہ نامہ سنی دعوت اسلامی : نومبر ۲۰۱۵ء) ۔ (مزید حصّہ نمبر 8 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment