Sunday 29 October 2017

حضرت علی رضی اللہ کی کی شان حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی زبانی

0 comments
حضرت علی رضی اللہ کی کی شان حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی زبانی

رافضی شیعہ اور تفضیلی رافضی سنیوں کے لبادے میں چھپے ہوئے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ایسے الفاظ پیش کر نے سے قاصر ہیں جس میں انہوں نے حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیں ہوں لیکن ہم یہاں ان کے ایسے الفاظ پیش کرتے ہیں جن میں علی رضی اللہ عنہ کی تعریف کی گئی ہے۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعریف سنتے تھے اور لوگوں کو فرمائش کرتے کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعریف سنائیں اگر برائی کرتے تو لوگوں سے ان کی برائی کرنے کو کہتے لیکن ایسی کو ئی روایت نہیں جس میں انہوں نے کسی کو کہا کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی برائی کریں ، بلکہ تعریف روایات ہیں اور بہت ہیں میں ان میں سے چند پیش خدمت ہیں ۔

ابن کثیر البدایہ و النہایہ جلد ۷ ص 129 پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا قول  نقل کرتے ہیں:علی رضی اللہ عنہ مجھ سے بہت بہتر تھے میں صرف ان مخالفت قصاص عثمان رضی اللہ عنہ کے مسئلہ پر کرتا ہوں اگر وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قصاص لیں تو شامیوں میں سے سب سے پہلے میں ان کی بیعت کرلوں گا ۔

ضرار بن ضمرہ ایک بار حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو آپ نے اس کہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خوبیاں بیاں کرو اس نے کہا جب آپ تبسم فرماتے تو گویا موتی جھڑتے تھے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کچھ اور بیان کرو ضرار بولا علی رضی اللہ عنہ پر اللہ رحم فرمائے وہ کم سونے والے زیادہ شب بیدار اور رات دن قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے تھے یہ سن کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ رو پڑے اور فرمانے لگے بس کرو ضرار خدا کی قسم علی رضی اللہ عنہ ایسے ہی تھے خدا ابوالحسن رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے (املی شیخ صدوق ص 371 ، حلیۃ الابرار جلد 1 ص 338)

حافظ ابن کثیر  اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ : ابن جریر بیان کیا ہے کہ جب  حضرت معاویہ رضہ کے پاس حضرت علی رضہ کے قتل کی خبر پہنچی تو آپ رونے لگے آپ کی بیوی نے کہا  آپ اس پر روتے ہیں حالانکہ آپ نے ان سے جنگ کی ہے آپ نے فرمایا تو ہلاک ہو جائے تجھے معلوم نہیں کہ ہم نے کس قدر علم ، فقہ و  فضل کو کھو دیا ہے ۔

ان روایات سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مدح ثابت ہوتی ہے ۔

سند أحمد .. أول مسند الكوفيين .. حديث زيد بن أرقم رضي الله تعالى عنه حدثنا ‏ ‏محمد بن بشر ‏ ‏حدثنا ‏ ‏مسعر ‏ ‏عن ‏ ‏الحجاج ‏ ‏مولى ‏ ‏بني ثعلبة ‏ ‏عن ‏ ‏قطبة بن مالك ‏ ‏عم ‏ ‏زياد بن علاقة ‏ ‏قال ‏ :‏نال ‏ ‏المغيرة بن شعبة ‏ ‏من ‏ ‏علي ‏ ‏فقال ‏ ‏زيد بن أرقم ‏ ‏قد علمت أن رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏كان ‏ ‏ينهى عن سب الموتى فلم تسب ‏ ‏عليا ‏ ‏وقد مات ‏
تخریج حدیث امام احمد
اس روایت میں حجاج بن ایوب مولی بنی ثعلبہ ایک مجہوں حال راوی ہے لہذا یہ روایت کسی صحابی پر الزام بازی کے لئے ہر گز استمعال نہیں ہوسکتی۔پھر  اس روای سے جو روایت ابن مبارک نے کی ہے وہی سند ہے  لیکن وہاں مغیرہ رضی اللہ عنہ کا نام نہیں ہے اس کے علاوہ  امام احمد کی حدیث میں نال کے الفاظ ہیں (جس کی معنی شکایت کرنے کی ہیں ) اور اسی سند سے حدیث ابن مبارک میں پھر سب  امیر کا الفاظ ہیں چناچہ اسی ہی سند سے روایت کی گئی حدیث میں الفاظ بھی ایک جیسے نہیں ہین اس لئے یہ حدیث خود ہی اختلاف کا شکار ہے اور یہ اس کی ضعف پر دلالت ہے ۔
حدیث مستدرک ، طبرانی وغیرہ
حدثنا أبو بكر محمد بن داود بن سليمان ثنا عبد الله بن محمد بن ناجية ثنا رجاء بن محمد العذري ثنا عمرو بن محمد بن أبي رزين ثنا شعبة عن مسعر عن زياد بن علاقة عن عمه أَنَّ المغيرة بن شعبة نَالَ : مِن عَلِيٌّ فَقَامَ إليه زيد بن أرقم فقال : يا مغيرةُ أَلمْ تَعلم أَن رسولَ اللَّه ﷺ : نهى عن سَبِّ الأَمْوَاتِ ؛ فَلِمَ تَسُبَّ عَلِيًّا وقد مَاتَ؟!”.
تخریج حدیث مستدرک وغیرہ
اس حدیث کی سند جو کہ شعبہ عن مسعر ہے اس میں اسی طرح اختلاف ہے
طبرانی حاکم وغیرہ نے اس حدیث تین مختلف سندوں سے  بیاں کیا ہے جو یہ ہیں
 فَرَوَاهُ عمرو بن محمد بن أَبي رَزِينٍ ، عن شعبة ، عن مِسعر ، عن زياد بن عِلاَقَة ، عن عَمِّهِ ،[أن] المغيرة بن شعبة
وَرَوَاهُ عمرو بن محمد بن أَبي رَزِينٍ مرةً ، عن شعبة ، عن مِسعر ، عن زيادٍ ، عن المغيرة
وَرَوَاهُ جَمْعٌ ، عن مِسعر ، عن مَولَى بني ثعلبة ، عن عَمِّ زياد بن عِلاقة (یعنی قطبہ بن مالک)
اس حدیث کے بارے میں دارالقطنی علل 7/126 #1249 میں فرماتے ہیں

حديث شعبة عن مسعر وهم ، والآخران محفوظان
یعنی حدیث شعبہ عن مسعر مین عیب  پایا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ سفیان اثوری سے روایت کی گئی حدیث میں سب کے الفاظ نہیں ہین جو کہ صحیح ہے اور اس تین سندوں میں بقول دارقطنی عیب ہے ۔
اس کے علاوہ راوی عمرو بن محمد بن أَبي رَزِينٍ کے بارے میں تقریب 8/8مین حافظ ابن حجر لکہتے ہیں ذكره ابن حبان فى كتاب ” الثقات ” ، و قال : ربما أخط یعنی ابن حبان نے ان کو ثقہ کہا ہے لیکن یہ بہت غلطیان کرنے والا ہے

زیاد بن علاقہ کے بارے میں حافظ تقریب 3/381 میں لکہتے ہیں : سىء المذهب ، كان منحرفا عن أهل بيت النبى صلى الله عليه وآله وسلم ۔
یع۔ی یہ بدمذہب تھے اور اہل بیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منحرف تھے
اس حدیث کی جتنی سندیں مختلف اتنے ہی الفاظ بھی مختلف ہین چناچہ کہا جا سکتا ہے کہ اس میں روایوں کی خطا شامل ہے
حدیث ابن المبارك اپنی المسند میں نقل کرتے ہیں ان سے پھر طبرانی معجم کبیر 5/168 (4975  حاکم  ابو نعیم وغیرہ نے ابن مبارک سے یہ روایت کی ہے 1/156(253) مستدرک میں ۔
ابن المبارك، ووكيع، عن محمد بن بشرٍ، عن مِسعر عن الحجَّاج مولى بني ثعلبة ،عن قُطْبة بن مالكٍ،قال: سَبَّ أَمِيرٌ مِنَ الأُمَرَاءِ عَلِيًّا ، فَقَامَ إليه زيد بن أرقم فقال : أَمَا لقد عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ e نهى عن سَبِّ الْمَوْتَى فَلِمَ تَسُبُّ عَلِيًّا وقد مَاتَ ۔
تخریج حدیث ابن مبارک
یہاں روایت  شعبہ کے بغیر عن مسعر عن مولی بنی ثعلبہ (حجاج بن ایوب) ہے اس میں پھر مغیرہ رضہ کا نام نہیں ہے بلکہ امیر کا لفظ ہے جس یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ امیر مغیرہ تھے ۔
اور پھر حدیث ابن مبارک کے اسناد بھی ضعیف ہیں کیوں کہ اس میں ایک مجھول راوی ہے یعنی مولی بنی ثعلبہ حجاج بن ایوب .
اس سب سے یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ روایت راویوں کی خطا ہے اس لئے جتنی اسانید ہیں اتنے اختلاف ہیں پھر بالفرض اس حدیث کو صحیح مان بھی لیں تو امام احمد کی حدیث کے الفاظ ہیں نال مغیرہ یعنی مغیرہ نے شکایت کی یا پھر دوسری حدیث کے الفاظ ہیں سب مغیرہ یعنی مغیرہ نے تنقید کی ۔ ہو سکتا ہے حضرت مغیرہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے عثمان رضی اللہ عنہ کا قصاص نہ لینے  یا پھر فتنہ میں شامل ہونے پر ان پر تنقید کی ہو اور زید بن ارقم رضی اللہ عنہما نے انہیں یہ کہکر منع کیا کہ وہ وفات پا چکے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ مرنے کے بعد کسی پر تنقید نہ کی جائے اس میں کوئی اسیی بات نہیں ہے کیوں کہ نہ تو اس سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ گستاخی ہوتی اور نہ ان ٘مغیرہ رضی اللہ عنہ ان کو گالیاں دے رہے ہیں وہ ان سے اختلاف کر رہے ہیں اس سے وہ گناہ گار نہین ہوتے  اور پھر حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ فتنہ کے دوران الگ رہے تھے انہوں نے نہ تو علی رضی اللہ عنہ کو سپورٹ کیا تھا نہ ہی معاویہ رضہ کو سپورٹ کیا تھا اس لئے غالب گمان یہی ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں خاموش ہی رہتے تھے  جیسا کہ تاریخ کی کتب میں آتا ہے کہ کوفیون کی شرارتیں وہ برداشت کر لیتے تھے اور ان پر سختی نہیں کرتے تھے

حدیث سنن ابوداود ۔کتاب السنہ باب خلفاء
حدثنا أبو كامل حدثنا عبد الواحد بن زياد حدثنا صدقة بن المثنى النخعي حدثني جدي رياح بن الحارث قال كنت قاعدا عند فلان في مسجد الكوفة وعنده أهل الكوفة فجاء سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل فرحب به وحياه وأقعده عند رجله على السرير فجاء رجل من أهل الكوفة يقال له قيس بن علقمة فاستقبله فسب وسب فقال سعيد من يسب هذا الرجل قال يسب عليا قال ألا أرى أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يسبون عندك ثم لا تنكر ولا تغير ۔
ریاح بن حارث کھتے ہیں کہ ہم ایک شخص کے ساتھ کوفہ کی جامع مسجد میں بیٹھے تھے اتنے میں سعید بن زید رضہ آئے ان کا استقبال کرنے کے بعد ان کو بٹھایا گیا اس دوران اہل کوفہ میں سے ایک شخص جس کو قیس بن علقمہ کہتے ہیں برا بھلا کہنے لگا۔سعید بن زید رضہ کے معلوم کرنے پر بتایا گیا کہ حضرت علی رضہ کو برا بھلا کہ رہا ہے راوی کہتا ہے کہ جس شخص کے ساتھ ہم بیٹھے تھے اس پر سعید بن زید نے ان کو زجروتوبیخ کی اور فرمایا کہ یہ سب آپ کے سامنے ہو رہا اور ان کو روکتے نہیں ۔
یہ ابی داؤد کی روایت ہے اس میں میزبان کا نام نہیں لیکن مسند امام احمد کے مطابق یہ حضرت مغیرہ ہیں۔
اس روایت میں حضرت معاویہ کا دور تک زکر نہیں تو ان پر اس روایت کی وجہ سے الزام لگانا جہالت ہے ۔
ابی داؤد میں ذکر نہیں کہ میزبا کون تھے تو حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ پر بہی الزام نہیں لگتا وہ کو ئی اور بہی ہوسکتا ہے۔بلکہ گمان یہی ہے کیوں کہ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ گورنر تھے انہیں راوی جانتا ہوگا۔
مسند امام احمد میں حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کا نام آیا ہے ۔ پر حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ واضع لکھا ہے کہ وہ کوفہ میں لوگوں سے نرمی برتتے تھے۔یہ شخص جس نے برا بھلا کہا قیس بن علقمہ تھا اور یہ خوارج میں سے تھا ۔ جس طرح حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ شیعان علی رضی اللہ عنہ سے نرمی برتتے تھے بلکل ویسے دوسروں کے ساتھ بھی نرمی کرتے تھے ۔

روایت تاریخ طبری کے ص ۱۸۷ سے ۱۸۸ تک جلد ۴ ۔ ابو مخنف کی روایت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا تو دوسری باتوں کے ساتھ ان کو اس بات کی وصیت کی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب کو برا بھلا کہنا نہیں چھوڑنا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب کی تعریف کرنا۔ آگے راوی کہتا ہے حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ بہیت اچھے آدمی تھے( کیوں کہ شیعوں سے نرمی برتتے تھے اس لئی راوی نے کہا آدمی اچھے تھے) لیکن وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنا نہیں چھوڑتے تھے۔
اسی صفحہ پر اسی روایت کے آگے لکھا ہے کہ وہ کیا کہتے تھے : حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو کہنا تھا کہا ان کے الفاظ یہ تھے ۔ یا اللہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما پر رحم فرما اور ان سے درگزر فرما اور ان کے بہتر عمل کی انہیں جزا دے کیونکہ انہوں نے تیرے کتاب پر عمل کیا تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی اور ہماری بات ایک کی ہمارے خون کو بچایا اور مظلوم ہو کر قتل ہو گئے۔یا اللہ ان کےدوستوں ان کے قصاص کا مطالبہ کرنے والوں پر رحم فرما اور انکے قاتلوں کے لئے بد عا کرتے  تھے۔
اس میں نہ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا کہنے کی بات ہے اور نہ ہی ان کے ساتھیوں کو۔ قاتلوں کو بد دعا کرتے تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نعوذ باللہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل تو نہیں تھے کہ یہ بد دعا ان کے لئے ہو لیکن ان لوگوں کے لئے تھی جو خود کو شیعہ علی کہتے تھے کیوں کی یہی لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل میں ملوث تھے اس لئے جب حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ یہ الفاظ کہتے تو یہ لوگ بھڑک جاتے اور کہتے ” تم مجرموں کے لئے دعا کرتے ہو اور نیکوں کو بد دعا کرتے ہو۔ ” حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کے استمال کئے گئے الفاظ کا مطلب آپ خود جائزہ لیں کیا ان سے یہ تاثر ملتا ہے جو شیعہ راویوں نے لیا ہے۔
وضاحت:حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو کہنا تھا کہا ۔ اس کے الفاظ آگے راوی نے خود بتا دیئے یہ روی کا کہنا ہے کیوں کہ اکثر لوگ پہلے جملے کو پڑھ کر الزام تراشی کردیتے ہیں حالانکہ راوی نے خود ہی آگے الفاظ نقل کئے ہیں ، مطلب یہ کہ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تعریف کرتے اور قاتلوں کے لئے بد دعا کرتے ، اسے راوی نے ” حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو کہنا تھا کہا” ان الفاظ سے تعبیر کیا ہے ۔
اس روایت میں راوی شیعہ ہیں ابو مخنف  شیعہ خبیث ہے
دوسرا ھشام کلبی ہے جس کے بارے میں تمام علماء رجال کہتے ہیں  یہ امامی شیعہ اور جہوٹا تھا ۔
فضیل بن خدیج یہ اشتر کے غلام سے روایت کرتا ہے اور ابن حجر نے اسے مجہول کہا ہے۔
مروان بن  الحکم یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا عمزاد تھا ان کے والد الحکم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حقیقی چچا تھے ۔ یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے کاتب تھا اور اسی کے قتل کے لئے باغیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے سے مطالبہ کیا تھا ۔

ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے مدینہ میں گورنر تھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ کو ابو تراب کہہ کر پکارتے تھے حالانکہ بیچارے کو معلوم نہیں تھا کہ یہ لقب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضو علیہ السلام نے خود دیا ہے پھر  راویوں نے تو یہاں تک غلو کیا ہے کہ یہ اگر حسنین رضی اللہ عنہما کو مسجد میں  نہ دیکھتے تو ان کے گھر جا کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہ آتے لیکن یہ سب صرف غلو ہے ۔

صحیح بخاری میں باب مناقب علی رضی اللہ عنہ میں ہے کہ : ان رجل جاء الی سھل بن سعد  فقال ھذا فلان لامیر المدینہ یدعو علیا عندالمنبر قال فیقول ماذا قال یقول لہ ابا تراب فضحک وقال واللہ مااسماء الانبی صلی اللہ علیہ وسلم وما کان لہ اسم احب الیہ منہ۔
ایک شخص حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ امیر مدینہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی منبر پر برائی کرتا ہے سہل رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا کہتا ہے اس نے کہا کہ انہیں ابو تراب کہتا ہے سہل رضی اللہ عنہ ہنس پڑے کہا کہ یہ نام تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا تھا ان کے لئے انہیں یہ سب سے پیارہ تھا۔
یہ حدیث  مختلف جگہوں پر مختلف طریق سے حضرت سہل سے روایت ہے لیکن مفہوم بلکل یہی ہے ۔
اس میں کہیں بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دینے کا زکر نہیں ہاں حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے پو چھنے والے نے لفظ ابو تراب (یعنی مٹی کا باپ) کو بھی برا ہی سمجھا (یعنی سب سے تعبیر کیا) تبھی آپ کو اکہ شکایت کی کیوں کہ اس کو پتا نہیں تھا کہ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا پیارہ نام جو رسول اللہ نے خود رکہا تھا یعنی یہ ان کی مناقبت میں سے ہے تبھی امام بخاری نے اس کو مناقب علی رضی اللہ عنہ میں ذکر کیا ۔

اور سہل بن سعد رضی اللہ عنہ ۸۸ یا ۹۰ ھجری میں وفات کر گئے ۔ (تاریخ ابن کثیر جلد ۸ زکر وفات سہل بن سعد ، التہزیب الکمال میں لکہا ہے کہ صحابہ میں یہ آخری وفات کرنے والے ہیں ) مطلب حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے جو احادیث سب علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہیں وہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نہیں بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بنی مروان کے دور کی ہوںوہ بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابا تراب کہتے تھے جسے ناواقف لوگ برائی (سب) سے تعبیر کرتے تھے۔
اس سے ایک بات واضع ہوتی ہے کہ راویوں نے جو اکثر بھر مار کی ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کھنے کی وہ لفظ ابو تراب کی وجہ سے ہے۔ جس بعد کے لوگوں نے گالی سمجھ لیا۔

رافضی شیعوں اور سنیوں کے لبادے میں چھپے تفضیلی رافضیوں کو چیلینج : ہم یہاں رافضی شیعوں اور سنیوں کے لبادے میں چھپے تفضیلی رافضیوں کو چلینج کرتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی بھی ایسے الفاظ یا خطبہ صحیح روایات سے پیش کریں جس میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں ہو یا پھر آپ کی بیعزتی کی گئی ہو  یا پھر آپ پر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے معاذاللہ لعنت کی ہو  آپ کے کسی گورنر کا ایسا خطبہ جس میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو جی بھر کر برا بھلا کہا گیا ہو۔

اعتراض : چلو ہم مان لیتے ہیں کہ حضرت معاویہ تنقید کرتے تھے لیکن حضو ر علیہ اسلام نے تو فرمایا ہے کہ جس نے علی رضی اللہ عنہ پر تنقید کی اس نے مجھ پر تنقید کی۔ روایت ایک مستدرک حاکم ج  س 122 3 ۔ احمد بن كامل القاضى ثنا محمد بن سعد العوفي ثنا يحيى بن ابى بكير ثنا اسرائيل عن ابي اسحاق عن ابي عبد الله الجدلي قال دخلت على ام سلمة رضى الله عنها فقالت لى ايسب رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فيكم فقلت معاذ الله أو سبحان الله أو كلمة نحوها فقالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله يقول من سب عليا فقد سبني
یعنی ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ تمہارے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب کیا جاتا ہے میں نے کہا معاذاللہ سبحان اللہ کیا کہتی ہیں آپ انہوں کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا تھا کہ جس نے علی رضی اللہ عنہ کو سب کیا اس نے مجھ کو سب کیا ۔
اس روایت میں محمد بن سعد بن محمد بن الحسن بن عطية بن سعد بن جنادة العوفی جس کے بارے میں خطیب کہتے ہین کہ یہ ضعیف ہین حدیث مین  ،
دوسرے راوی ابی اسحاق عمرو بن عبد الله بن عبيد ہیں جس کے ابن عینیہ کہتے ہیں یہ تشیع کی طرف ہیں اور مدلس ہیں ابن صلاح کہتے ہیں کہ یہ غلطیاں کرتے ہین ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ مدلس ہیں اور یہ یہاں پر ابی عبداللہ سے عن سے روایت کر رہے ہیں اس لئے تدلیس ممکن ہے یہاں پر ۔
تیسرے راوی ابی عبداللہ الجدلی ہین  جس کے بارے مین ابن سعد کہتے ہیں کہ حدیث میں ضعیف ہیں اور ان میں شد ید شیعت پائی جاتی ہے امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ حاسد شیعہ ہے حافظ ابن حجر تہذیب میں کہتے ہیں کہ حدیث میں ضعیف ہیں اور شیعت میں سخت ہیں مختار کی پولیس کے رکن تھے۔

دوری روایت : أبو جعفر احمد بن عبيد الحافظ بهمدان ثنا احمد بن موسى بن اسحاق التميمي ثنا جندل بن والق ثنا بكير بن عثمان البجلى قال سمعت ابا اسحاق التميمي يقول سمعت ابا عبد الله الجدلي يقول حججت وانا غلام فمررت بالمدينة وإذا الناس عنق واحد فاتبعتهم فدخلوا على ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وآله فسمعتها تقول يا شبيب بن ربعى فأجابها رجل جلف جاف لبيك يا امتاه قالت يسب رسول الله صلى الله عليه وآله في ناديكم قال وانى ذلك قالت فعلي بن ابي طالب قال انالنقول اشياء نريد عرض الدنيا قالت فاني سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله يقول من سب عليا فقد سبنى ومن سبنى فقد سب الله تعالیٰ ۔
جندل بن والق : البذار کہتے ہیں کہ یہ قوی نہیں ہیں ، ابو زرعہ الرازی کہتے ہیں کہ حدیث کو بگاڑ دیتے ہیں ابن حجر کہتے ہیں کہ غلطیاں کرتے ہیں اور حدیث کو بگاڑ دیتے ہیں امام مسلم کہتے ہیں کہ متروک الحدیث (ترک کرنے کے لائق ہیں)
بکیر بن عثمان یہ راوی مجہوں الحال ہیں : ابو عبداللہ الجدلی کی بارے میں آپ پہلی روایت میں پڑھ آئے ہیں کہ اس کی حدیث حجت کیسے ہوسکتی ہے جو کہ شیعت میں شدید بھی ہو اور بغض رکہنے والا بھی ہو۔پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف ایسی کوئی روایت ثابت نہیں جس میں انہون نے علی رضی اللہ عنہ کو سب کیا ہو۔یہ روایت تقریبن ہر جگہ پر ابو عبداللہ الجدلی سے ہی روایت ہے جس کا حاسد شیعہ ہو نا سورج کی طرح صاف ہے۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔