(6) عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم احادیث مبارکہ کی روشنی میں
عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي صَالِحٍ قَالَ : أَقْبَلَ مَرْوَانُ يَوْمًا فَوَجَدَ رَجُـلًا وَاضِعًا وَجْهَهُ عَلٰی الْقَبْرِ، فَقَالَ : أَتَدْرِي مَا تَصْنَعُ؟ فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ فَإِذَا هُوَ أَبُوْ أَيُوْبَ رضی الله عنه فَقَالَ : نَعَمْ، جِئْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَلَمْ آتِ الْحَجَرَ (وفي رواية : وَلَا الْخَدَرَ) سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : لَا تَبْکُوْا عَلٰی الدِّيْنِ إِذَا وَلِيَهُ أَهْلُهُ وَلٰـکِنِ ابْکُوْا عَلَيْهِ إِذَا وَلِيَهُ غَيْرُ أَهْلِهِ.رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
ترجمہ : حضرت داود بن ابی صالح رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز (خلیفہ وقت) مروان آیا اور اس نے دیکھا کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور پر اپنا چہرہ رکھے ہوئے کھڑا ہے، تو اس آدمی سے کہا : کیا تو جانتا ہے کہ کیا کررہا ہے؟ جب اُس شخص نے مروان کی طرف رُخ کیا تو وہ (صحابی رسول) حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ تھے، اُنہوں نے (جواب میں) فرمایا : ہاں (میں جانتا ہوں کہ) میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوا ہوں، کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔ (ایک روایت کے الفاظ ہیں : میں کسی بے حس اور بے جان شے کے پاس نہیں آیا۔) میں نے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے : دین پر مت رؤو جب اس کا ولی اس کا اہل ہو، ہاں دین پر اس وقت رؤو جب اس کا ولی نا اہل ہو.اِس حدیث کو امام اَحمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 422، الرقم : 23632، والحاکم في المستدرک، 4 / 560، الرقم : 8571، والطبراني في المعجم الکبير، 4 / 158، الرقم : 3999، وأيضًا في المعجم الأوسط،1 / 94، الرقم : 284، وأيضًا، 9 / 144، الرقم : 9366، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 57 / 249، 250، والسبکي في شفاء السقام / 113، والهيثمي في مجمع الزوائد، 5 / 245، والهندي في کنز العمال، 6 / 88، الرقم : 14967.
عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ الْأَوْدِيِّ رضی الله عنه قَالَ : رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضی الله عنه قَالَ : يَا عَبْدَ اﷲِ بْنَ عُمَرَ، اِذْهَبْ إِلٰی أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ عَاءِشَةَ رضي اﷲ عنها فَقُلْ : يَقْرَأُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَيْکِ السَّـلَامَ، ثُمَّ سَلْهَا أَنْ أُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَيَّ قَالَتْ : کُنْتُ أُرِيْدُهُ لِنَفْسِي فَـلَأُوْثِرَنَّهُ الْيَوْمَ عَلٰی نَفْسِي. فَلَمَّا أَقْبَلَ قَالَ لَهُ : مَا لَدَيْکَ؟ قَالَ : أَذِنَتْ لَکَ يَا أَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ، قَالَ : مَا کَانَ شَيءٌ أَهَمَّ إِلَيَّ مِنْ ذَالِکَ الْمَضْجَعِ، فَإِذَا قُبِضْتُ فَاحْمِلُوْنِي ثُمَّ سَلِّمُوْا، ثُمَّ قُلْ : يَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ. فَإِنْ أَذِنَتْ لِي فَادْفِنُوْنِي وَإِلَّا فَرُدُّوْنِي إِلٰی مَقَابِرِ الْمُسْلِمِيْنَ … الحديث. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
ترجمہ : حضرت عمرو بن میمون اَودی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے بیان کیا : میں نے دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (بوقتِ وصال اپنے صاحبزادے سے) فرمایا : اے عبد اﷲ بن عمر! اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے پاس جاو اور عرض کرو کہ عمر بن خطاب آپ کو سلام کہتا ہے اور عرض کرتا ہے کہ مجھے میرے دونوں رفقاء کے ساتھ (روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں) دفن ہونے کی اجازت دی جائے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما نے جب اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ درخواست پیش کی تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : وہ جگہ میں اپنے لیے رکھنا چاہتی تھی لیکن آج میں انہیں (یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو) اپنی ذات پر ترجیح دیتی ہوں۔ جب حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما واپس گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت فرمایا : کیا خبر لائے ہو؟ انہوں نے عرض کیا : اے امیر المومنین! اُمّ المومنین نے آپ کے لیے اجازت دے دی ہے، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس (متبرک و مقدس) مقام سے زیادہ میرے لیے (بطور آخری آرام گاہ) کوئی جگہ اہم نہیں تھی۔ سو جب میرا وصال ہو جائے تو مجھے اٹھا کر وہاں لے جانا اور سلام عرض کرنا۔ پھر عرض کرنا (آقا!) عمر بن خطاب اجازت چاہتا ہے۔ اگر مجھے اجازت مل جائے تو وہاں دفن کر دینا ورنہ مجھے عام مسلمانوں کے قبرستان میں لے جا کر دفن کر دینا۔‘‘ اِس حدیث کو امام بخاری اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجنائز، باب ما جاء في قبر النبي صلی الله عليه وآله وسلم وأبي بکر وعمر، 1 / 469، الرقم : 1328، وأيضًا في کتاب المناقب، باب قصة البيعة والاتفاق علی عثمان بن عفان ص، 3 / 1353.1355، الرقم : 3497، ونحوه ابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 34، الرقم : 11858، وأيضًا، 7 / 435. 436، الرقم : 37059، 37074.
عَنْ عَاءِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : کُنْتُ أَدْخُلُ بَيْتِي الَّذِي دُفِنَ فِيْهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَأَبِي فَأَضَعُ ثَوْبِي فَأَقُوْلُ : إِنَّمَا هُوَ زَوْجِي وَأَبِي، فَلَمَّا دُفِنَ عُمَرُ مَعَهُمْ فَوَاﷲِ، مَا دَخَلْتُ إِلَّا وَأَنَا مَشْدُوْدَةٌ عَلَيَّ ثِيَابِي حَيَائً مِنْ عُمَرَ.رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ. وَقَالَ الزَّرْکَشِيُّ : صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.
ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب میں اُس حجرہ مبارک میں داخل ہوتی جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میرے والد (حضرت ابو بکر صدیق ص) مدفون ہیں تو میں پردے کا کپڑا اُتار دیتی تھی اور کہتی تھی : بے شک وہاں میرے خاوند اور میرے والد ہیں (جن سے پردہ ضروری نہیں ہوتا) لیکن جب وہاں اُن کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی مدفون ہو گئے تو میں وہاں حضرت عمر سے حیاء کی خاطر مکمل حجاب میں داخل ہوتی تھی۔اِس حدیث کو امام اَحمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ اور امام ہیثمی نے بھی فرمایا : اِس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔ اور امام زرکشی نے بھی فرمایا : یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 202، الرقم : 25701، والحاکم في المستدرک، 3 / 63، الرقم : 4402، وأيضًا، 4 / 8، الرقم : 6721، والزرکشي في الإجابة لما استدرکت عائشة / 68، الرقم : 68، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 26، وأيضًا، 9 / 37.
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا بَکْرٍ الْوَفَاةُ أَقْعَدَنِي عِنْدَ رَأْسِهِ وَقَالَ لِي : يَا عَلِيُّ، إِذَا أَنَا مِتُّ فَغَسِّلْنِي بِالْکَفِّ الَّذِي غَسَّلْتَ بِهِ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَحَنِّطُوْنِي وَاذْهَبُوْا بِي إِلَی الْبَيْتِ الَّذِي فِيْهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَاسْتَأْذَنُوْا فَإِنْ رَأَيْتُمُ الْبَابَ قَدْ يُفْتَحُ فَادْخُلُوْا بِي وَإِلَّا فَرُدُّوْنِي إِلٰی مَقَابِرِ الْمُسْلِمِيْنَ حَتّٰی يَحْکُمَ اﷲُ بَيْنَ عِبَادِهِ قَالَ : فَغُسِّلَ وَکُفِّنَ وَکُنْتُ أَوَّلَ مَنْ يَأْذُنُ إِلَی الْبَابِ فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، هٰذَا أَبُوْ بَکْرٍ مُسْتَأْذِنٌ فَرَأَيْتُ الْبَابَ قَدْ تَفَتَّحَ وَسَمِعْتُ قَاءِـلًا يَقُوْلُ : أَدْخِلُوا الْحَبِيْبِ إِلٰی حَبِيْبِهِ فَإِنَّ الْحَبِيْبَ إِلَی الْحَبِيْبِ مُشْتَاقٌ. رَوَاهُ بْنُ عَسَاکِرَ وَالسُّيُوْطِيُّ.
ترجمہ : حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے بیان فرمایا : جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے مجھے اپنے سرہانے بٹھایا اور فرمایا : اے علی! جب میں فوت ہو جاؤں تو آپ خود مجھے اپنے ان ہاتھوں سے غسل دینا جن ہاتھوں سے آپ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دیا تھا اور مجھے (بھی وہی) خوشبو لگانا اور (میری میت) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ اقدس کے پاس لے جانا اگر تم دیکھو کہ (خود بخود) دروازہ کھول دیا گیا ہے تو مجھے وہاں دفن کر دینا ورنہ واپس لا کر عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا اس وقت تک کہ جب اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ نہ فرما دے (یعنی قیامت نہ آ جائے۔ اور پھر ان کی خواہش کے مطابق ہی) انہیں غسل اور (متبرک خوشبو والا) کفن دیا گیا اور (حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ) سب سے پہلے میں نے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے پر پہنچ کر اجازت طلب کی اور عرض کیا : یارسول اﷲ ! یہ ابو بکر ہیں جو اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ پھر میں نے دیکھا کہ روضہ اَقدس کا دروازہ (خود بخود) کھل گیا اور میں نے سنا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے۔ حبیب کو اس کے حبیب کے ہاں داخل کردو۔ بے شک حبیب بھی ملاقاتِ حبیب کے لیے مشتاق ہے۔اِسے امام ابن عساکر اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق،30 / 436، والسيوطي في الخصائص الکبری، 2 / 492.
عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الْقُرَشِيِّ رضی الله عنه يَقُوْلُ : کَانَ عِنْدَنَا رَجُلٌ بِالْمَدِيْنَةِ إِذْ رَأَی مُنْکَرًا لَا يُمْکِنُهُ أَنْ يُغَيِّرَهُ أَتَی الْقَبْرَ فَقَالَ :
أيَا قَبْرَ النَّبِيِّ وَصَاحِبَيْهِ
أَلَا يَا غَوْثَنَا لَوْ تَعْلَمُوْنَا
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
ترجمہ : حضرت ابو اسحاق قرشی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ یہاں مدینہ منورہ میں ہمارے پاس ایک آدمی تھا جب وہ کوئی ایسی برائی دیکھتا جسے وہ اپنے ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا تو وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کے پاس آتا اور (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں یوں) عرض کرتا :
اے (سرورِ دوعالم) صاحب قبر! (اور اپنی قبور میں آرام فرما) آپ کے دونوں رفقاء! اور اے ہمارے مددگار (اور ہمارے آقا و مولا) کاش آپ ہماری (حالتِ زار پر) نظر کرم فرمائیں۔اِس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔ أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 3 / 495، الرقم : 4177.(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment