(7) عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم احادیث مبارکہ کی روشنی میں
عَنِ الْحَسَنِ رضی الله عنه يَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : افْرِشُوْا لِي قَطِيْفَتِي فِي لَحْدِي، فَإِنَّ الْأَرْضَ لَمْ تُسَلَّطْ عَلٰی أَجْسَادِ الْأَنْبِيَاءِ.رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ وَالْهِنْدِيُّ.
ترجمہ : حضرت حسن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے لیے لحد میں میری مخملیں چادر بچھا دینا، بیشک زمین کو انبیاء کرام علیھم السلام کے اجسام پر تسلط نہیں دیا گیا۔‘‘ اِسے امام ابن سعد اور ہندی نے روایت کیا ہے۔
أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 2 / 299، والهندي في کنز العمال، 15 / 577، الرقم : 42245، والسيوطي في شرحه علی سنن النسائي، 4 / 84، وأيضًا في الخصائص الکبری، 2 / 278.
عَنِ الْحَسَنِ رضی الله عنه يَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَأْکُلُ الْأَرْضُ جَسَدَ مَنْ کَلَّمَهُ رُوْحُ الْقُدُسِ.رَوَاهُ الْجَهْضَمِيُّ وَابْنُ الْقَيِّمِ، وَقَالَ ابْنُ کَثِيْرٍ : مُرْسَلٌ حَسَنٌ.
وفي رواية عنه : قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ کَلَّمَهُ رُوْحُ الْقُدُسِ، لَمْ يُؤْذَنْ لِلْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ مِنْ لَحْمِهِ. رَوَاهُ الْمَقْرِيْزِيُّ وَالسُّيُوْطِيُّ.
ترجمہ : حضرت حسن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس سے روح القدس (جبرائیل) نے کلام کیا ہو، زمین اُس کا جسم نہیں کھائے گی.اِسے امام جہضمی، ابن القیم نے روایت کیا ہے۔ حافظ ابن کثیر نے کہا ہے : یہ حدیث مرسل حسن ہے۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے آپ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس سے رُوح القدس نے کلام کیا ہو، زمین کو اُس کا گوشت کھانے کی اِجازت نہیں دی گئی.‘‘ اِسے امام مقریزی اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔
أخرجه الجهضمي في فضل الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 1 / 38، الرقم : 23، وابن القيّم في جلاء الإفهام / 41، الرقم : 59، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 515، والسخاوي في القول البديع / 169، والمقريزي في إمتاع الأسماع، 10 / 306، والسيوطي في الخصائص الکبری، 2 / 280، وأيضًا في الدر المنثور، 1 / 87.
قَالَ الْعَـلَّامَةُ الشُّرَنْبَـلَالِيُّ فِي الإِيْضَاحِ فِي فَصْلِ زِيَارَةِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : وَمِمَّا هُوَ مُقَرَّرٌ عِنْدَ الْمُحَقَّقِيْنَ أَنَّهُ صلی الله عليه وآله وسلم حَيٌّ يُرْزَقُ مُمَتَّعٌ بِجَمِيْعِ الْمَـلَاذِّ وَالْعِبَادَاتِ غَيْرَ أَنَّهُ حُجِبَ عَنْ أَبْصَارِ الْقَاصِرِيْنَ عَنْ شَرِيْفِ الْمَقَامَاتِ.
ترجمہ : علامہ شرنبلالی نے اپنی کتاب ’’نور الاِیضاح‘‘ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی فصل قائم کی ہے جس میں اُنہوں نے فرمایا : محققین کے نزدیک یہ اَمر طے شدہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کے لائق) رزق دیا جاتا ہے اور آپ جملہ حلاوتوں اور عبادات سے مستفید ہوتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے اُن لوگوں کی نگاہوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اوجھل ہیں جو مقاماتِ عالیہ سے قاصر ہیں۔ذکره الشرنبلالي في نور الإيضاح / 391.
عَنْ سَعِيْدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيْزِص قَالَ : لَمَّا کَانَ أَيَّامُ الْحَرَّةِ لَمْ يُؤَذَّنْ فِي مَسْجِدِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ثَـلَاثًا وَلَمْ يُقَمْ وَلَمْ يَبْرَحْ سَعِيْدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ رضی الله عنه مِنَ الْمَسْجِدِ، وَکَانَ لَا يَعْرِفُ وَقْتَ الصَّـلَاةِ إِلَّا بِهَمْهَمَةٍ يَسْمَعُهَا مِنْ قَبْرِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَذَکَرَ مَعْنَاهُ.رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالْخَطِيْبُ التَّبْرِيْزِيُّ.
ترجمہ : حضرت سعید بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ایام حرّہ (جن دنوں یزید نے مدینہ منورہ پر حملہ کروایا تھا) کا واقعہ پیش آیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد میں تین دن تک آذان اور اقامت نہیں کہی گئی اور حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ نے (جو کہ جلیل القدر تابعی ہیں اُنہوں نے مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پناہ لی ہوئی تھی اور انہوں نے تین دن تک) مسجد نہیں چھوڑی تھی اور وہ نماز کا وقت نہیں جانتے تھے مگر ایک دھیمی سی آواز کے ذریعے جو وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور سے سنتے تھے۔ پھر انہوں نے اس کا معنی بھی بیان کیا۔اِس حدیث کو امام دارمی اور خطیب تبریزی نے روایت کیا ہے۔
أخرجه الدارمي في السنن، 1 / 56، الرقم : 93، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 400، الرقم : 5951، والسيوطي في شرح سنن ابن ماجه، 1 / 291، الرقم : 4029.
وفي رواية عنه، قَالَ : وَمَا يَأْتِي وَقْتَ صَلَاةٍ إِلَّا سَمِعْتُ الْأَذَانَ مِنَ الْقَبْرِ. رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالسُّيُوْطِيُّ.
ترجمہ : اور آپ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ایک روایت میں ہے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کسی نماز کا وقت بھی ایسا نہیں آیا کہ میں نے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی) قبرِ انور سے اذان کی آواز نہ سنی ہو.‘‘ اِسے امام ابو نعیم اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔
أخرجه أبو نعيم في دلائل النبوة / 496، والسيوطي في الخصائص الکبری، 2 / 280، وأيضًا في الحاوي للفتاوی، 2 / 266، والمقريزي في إمتاع الأسماع، 14 / 615، والزرقاني في شرح أيضًا، 7 / 365، والشيخ عبد الحق الدهلوي في جذب القلوب إلی ديار المحبوب / 44.
وفي رواية عنه قَالَ : فَکُنْتُ إِذَا حَانَتِ الصَّلَاةُ أَسْمَعُ أَذَانًا يَخْرُجُ مِنْ قِبَلِ الْقَبْرِ الشَّرِيْفِ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ.وفي رواية عنه قَالَ : لَمْ أَزَلْ أَسْمَعُ الْأَذَانَ وَالإِقَامَةَ مِنْ قَبْرِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَيَّامَ الْحَرَّةِ حَتّٰی عَادَ النَّاسُ. رَوَاهُ الْمَقْرِيْزِيُّ وَالسُّيُوْطِيُّ.
ترجمہ : اور آپ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ فرمایا : جب نماز کا وقت آتا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کی جانب سے اذان کی آواز سنتا تھا۔اِسے امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
اور اُن ہی سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں ایام حَرّہ کے دوران مسلسل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ اَنور سے اَذان اور اِقامت کی آواز سنتا رہا، یہاں تک کہ لوگوں (کے حالات) معمول کی صورت حال پر واپس لوٹ آئے (یعنی مسجد نبوی میں باقاعدہ آذان و اِقامت شروع ہو گئی).اِسے امام مقریزی اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔
أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 5 / 132، والسيوطي في الرسائل التسع / 238.239، وأيضًا في الحاوي للفتاوی، 2 / 266، وأيضًا في الخصائص الکبری، 2 / 281، والمقريزي في إمتاع الأسماع، 14 / 616، والزرقاني في شرح أيضًا، 7 / 365.
عَنْ عُرْوَةَ رضی الله عنه لَمَّا سَقَطَ عَلَيْهِمُ الْحَاءِطُ فِي زَمَانِ الْوَلِيْدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ أَخَذُوْا فِي بِنَائِهِ فَبَدَتْ لَهُمْ قَدَمٌ فَفَزِعُوْا وَظَنُّوْا أَنَّهَا قَدَمُ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَمَا وَجَدُوْا أَحَدًا يَعْلَمُ ذَالِکَ حَتّٰی قَالَ لَهُمْ عُرْوَةُ : لَا وَاﷲِ مَا هِيَ قَدَمُ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم مَا هِيَ إِلَّا قَدَمُ عُمَرَ رضي الله عنه.رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ سَعْدٍ.
ترجمہ : حضرت عروہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ جب ولید بن عبد الملک کے زمانے میں (حجرہ مبارک کی) دیوار اُن (لوگوں) پر گری تو ایک قدم ظاہر ہوا۔ لوگ ڈر گئے اور سمجھے کہ شاید یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قدم مبارک ہے۔ اُنہیں پہچاننے والا کوئی نہ ملا یہاں تک کہ حضرت عروہ رضی اللہ عنہ نے (پہچان لیا اور) کہا : خدا کی قسم، یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قدم مبارک نہیں بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قدم ہے۔اسے امام بخاری اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجنائز، باب ما جاء في قبر النبي صلی الله عليه وآله وسلم وأبي بکر وعمر، 1 / 468، الرقم : 1326، وابن سعد في الطبقات الکبری، 3 / 368.
وقال المـلا علي القاري في ’’الوسائل‘‘ : إِنَّهُ لَمْ يَقُلْ أَحَدٌ أَنَّ قُبُوْرَهُمْ خَالِيَةٌ عَنْ أَجْسَادِهِمْ، وَأَرْوَاحِهِمْ غَيْرَ مُتَعَلَّقَةٍ بِأَجْسَامِهِمْ، لِئَـلَّا يَسْمَعُوْا سَلَامَ مَنْ يُسَلِّمُ عَلَيْهِمْ، وَکَذَا وَرَدَ أَنَّ الْأَنْبِيَاءَ يُلَبُّوْنَ وَيَحُجُّوْنَ، فَنَبِيُنَا صلی الله عليه وآله وسلم أَوْلٰی بِهٰذِهِ الْکَرَامَاتِ.
ترجمہ : امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’جمع الوسائل في شرح الشمائل‘‘ میں فرمایا : بیشک کسی نے یہ نہیں کہا کہ اُن کی قبریں اُن کے جسموں سے خالی ہیں اور اُن کی اَرواح کا اُن کے اجسام سے کوئی تعلق نہیں اور جو کوئی اُن پر سلام پیش کرتا ہے وہ اُسے نہیں سنتے. تو ایسا ہی انبیاء کے بارے میں آیا ہے کہ بیشک انبیاء کرام علیہم السلام تلبیہ کہتے ہیں اور حج کرتے ہیں، اور ہمارے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے تو یہ کرامات بدرجہ اَولیٰ ثابت ہیں۔ذکره الملا علي القاري في جمع الوسائل، 2 / 300.
وقال القَسطـلاني في ’’المواهب‘‘ : وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ الْأَنْبِيَاءَ يَحُجُّوْنَ وَيُلَبُّوْنَ. فَإِنْ قُلْتَ : کَيْفَ يُصَلُّوْنَ وَيُحُجُّوْنَ وَيُلَبُّوْنَ وَهُمْ أَمْوَاتٌ فِي الدَّارِ الآخِرَةِ، وَلَيْسَتْ دَارِ عَمَلٍ؟ فَالْجَوَابُ : أَنَّهُمْ کَالشُّهَدَاءِ، بَلْ أَفْضَلُ مِنْهُمْ، وَالشُّهَدَاءُ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُوْنَ، فَـلَا يَبْعُدُ أَنْ يَحُجُّوْا وَيُصَلُّوْا.
ترجمہ : اور امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’المواھب‘‘ میں فرمایا : بیشک یہ ثابت ہو چکا ہے کہ انبیاءِ کرام علیھم السلام حج کرتے ہیں اور تلبیہ کہتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ وفات پا چکے ہیں اور اُخروی گھر میں ہیں نہ کہ دار العمل میں تو اِس بات کا جواب یہ ہے کہ اُن کا حال شہداء کی طرح بلکہ اُن سے بھی افضل ہے۔ جب شہداء اپنے ربّ کے ہاں زندہ ہیں اور اُنہیں (اُن کی شان کے لائق) رزق دیا جاتا ہے، تو اگر انبیاء کرام علیھم السلام حج کریں اور نماز پڑھیں تو اِس میں کیا بعید ہے!ذکره القسطلاني في أيضًا، 2 / 695، والزرقاني في شرح أيضًا، 7 / 365.366.
وقال العـلامه محمد أنور شاه الکاشميري : وَاعْلَمْ أَنَّهُ قَدْ تَکَلَّمْنَا مَرَّةً فِي مَعْنٰی حَيَاةِ الشُّهَدَاءِ وَالْأَنْبِيَاءِ عليهم السلام، وَحَاصِلُهُ أَنَّ الْحَيَاةَ بِمَعْنٰی أَفْعَالِ الْحَيَاةِ، وَإِلَّا فَالْأَرْوَاحُ کُلُّهَا أَحْيَاءٌ، وَلَوْ کَانَتْ أَرْوَاحُ الْکُفَّارِ.
علامہ محمد انور شاہ کاشمیری دیوبندی نے کہا : جان لو! ہم پہلے حیاتِ انبیاء اور حیاتِ شہداء کے متعلق بحث کر چکے ہیں، جس کا ماحصل یہ ہے کہ اُن کے زندہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ زندوں جیسے اَفعال بجا لاتے ہیں، اور رہ گئیں اَرواح، وہ تو تمام کی تمام (برزخ میں) زندہ ہیں اگرچہ وہ کافروں کی اَرواح ہی کیوں نہ ہوں۔ذکره أنور شاه الکشميري في فيض الباري، 3 / 425.(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)۔(مکمل شد)
No comments:
Post a Comment