Tuesday 29 December 2015

نبی کریم ﷺ کی سیرت کے فکری و تعلیماتی پہلو سے اِجتماعی زندگی کی لاتعلقی

0 comments
نبی کریم ﷺ کی سیرت کے فکری و تعلیماتی پہلو سے اِجتماعی زندگی کی لاتعلقی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسلام کے اعمال و اقدار کے مجرد رسم میں بدل جانے کا قدرتی نتیجہ یہ ہوا کہ ملت اسلامیہ کی انفرادی اور اجتماعی زندگی سیرت سے دور ہو گئی۔ زندگی کے کسی بھی پہلو پر سیرت کے واضح اور نمایاں اثرات نہیں رہے۔ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بصیرت پر مبنی فہم نہ ہونے اور سیرت کے ساتھ زندہ عملی، قلبی اور روحانی تعلق نہ ہونے کے سبب سے نسل نو میں عمل کے نتائج کے باب میں بے یقینی پیدا ہو گئی اور اس بے یقینی نے ملت اِسلامیہ کو اجتماعی سطح پر لادینی طرز فکر اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس بے یقینی کے سبب سے نہ صرف یہ کہ ملتِ اِسلامیہ سے عمل کا داعیہ چھن گیا بلکہ راہِ عمل پر گامزن لوگ بھی اپنے عمل کی مؤثریت سے محروم ہوتے چلے گئے۔ حالانکہ اس سیرت مبارکہ کو جسے اﷲ رب العزت نے اسوۂ حسنہ قرار دے کر اہل اِسلام کے لئے تا ابد نمونہ بنایا تھا۔ ایسا نمونہ کامل جس میں حصول نتائج کی ضمانت ہے اور اُنہی احوال و کیفیات اور حالات و واقعات کے پھر سے منصہ شہود پر آنے کی ضمانت ہے جن کے سبب سے دورِ نبوت میں انسانیت تاریکی سے نکل کر روشنی، زوال سے نکل کر عروج اور جہالت سے نکل کر دورِ نو میں داخل ہوئی تھی، وہ اسوۂ حسنہ صرف بیان تک محدود ہو کر رہ گئی۔ ان حالات میں نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام عقیدے کی حد تک تو دین رہا لیکن عملاً ہماری زندگیوں میں بطور ایک مکمل دین کے موجود نہیں رہا اور اس کے نتیجے میں ہماری اجتماعی زندگی کم و بیش ہر دائرے میں تغیرات کی نذر ہو گئی جن میں سیاسی فکر، معاشی و اقتصادی فکر، قانونی فکر، عمرانی اور سماجی فکری، تہذیبی اور ثقافتی فکر، مذہبی فکر اور تعلیمی فکر شامل ہیں۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔