حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ کا بے مثال جذبہ عشق رسول ﷺ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ کا شمار سابقین اولین میں ہوتا ہے۔ آپ مشرک اور اسلام دشمن عورت اُم انمار بنت سباع الخزعیہ کے غلام تھے۔ جب اسے پتہ چلا کہ شمعِ ایمان آپ کے سینے میں روشن ہوچکی ہے اور وہ چوری چھپے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملتے رہتے ہیں تو اس نے اس نور کو بجھانے کے لئے ظلم وبریریت کی حد کر دی۔ وہ آپ کے سر کو لوہا تپا کر داغتی لیکن اسے کیا خبر تھی کہ جو ایک دفعہ محبوب کی زلفوں کا اسیر ہو جائے وہ ایسی سزاؤں کو خاطر میں نہیں لاتا۔ کسی نے حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی حالتِ زار کی خبر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں ان کے حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا :
اللھم! انصرخباباً۔
حلبی، السيرة الحلبيه، 1 : 482
’’اے اللہ! خباب کی مدد فرما!‘‘
ہمہ وقت مستجاب الدعوات نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دعا کا فوری اثر یہ ہوا کہ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی مالکہ اُم انمار کو سر میں شدید درد کے دورے پڑنے شروع ہوگئے اور اس کی یہ حالت ہوگئی کہ وہ شدت درد سے کتے کی طرح بھونکتی تھی۔ کسی نے اسے مشورہ دیا کہ اس میں کمی کے لیے سر کو داغنا کارگر ہو گا۔ اس مشورہ پر عمل کرنے کے لئے حضرت خباب رضی اللہ عنہ کو اس کام پر مامور کیا گیا اور وہ اس کو لوہے کی گرم سلاخ سے داغتے رہے۔
اس کشتۂ وفا کو دامنِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستہ ہونے سے روکنے کے لئے طرح طرح کے حربے آزمائے جاتے رہے لیکن ان کے پائے استقلال میں ذرا بھی لغزش نہ آئی۔ انہیں شدت کی گرمی میں لوہے کی ذرہ پہنا کر دھوپ میں پھینک دیا جاتا اورکبھی برہنہ بدن جھلستی ہوئی ریت پر چت لٹا دیا جاتا، جس سے ان کی کمر کا گوشت تمازتِ آفتاب سے جھلس کررہ جاتا مگر ایمان کی قندیل جو حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے دل میں فروزاں تھی اس کی لَو ذرا مدھم نہ ہوئی۔
حضرت خباب رضی اللہ عنہ پیشہ کے اعتبار سے لوہار تھے۔ ایک دفعہ عاص بن وائل نامی مشرک نے ان سے لوہے کا کام عاریتاً کرایا لیکن جب انہوں نے طے شدہ رقم ادا کرنے کا مطالبہ کیا تو عاص بن وائل نے نہایت ڈھٹائی سے یہ کہہ کر کچھ رقم کرنے سے انکار کر دیا کہ میں اس وقت تک واجب الادا رقم نہیں دوں گا جب تک تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے سے انکار نہیں کر دیتے۔ اگر تم منحرف ہوگئے تو تمہیں تمہارا واجب الادا قرض لوٹا دوں گا ورنہ نہیں۔ اس پر اس پیکرِ وفا نے یہ کہہ کر اس کافر کا منہ بند کر دیا :
إنی لن أکفر بمحمدٍ صلی الله عليه وآله وسلم حتی تموت ثم تبعث.
میں ہرگز ہرگز حبیبِ خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار نہیں کروں گا حتی کہ تو مر کر دوبارہ زندہ کیا جائے ۔
بخاری، الصحيح، 4 : 1761، کتاب التفسير، رقم : 24455
مسلم، الصحيح، 4 : 2153، کتاب صفات المنافقين و احکامهم، رقم : 32795
ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 318، ابواب التفسير، رقم : 43162
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 5110
ابن حبان، الصحيح، 11 : 243، رقم : 64885
نسائي، السنن الکبري، 3 : 364، رقم : 711322
شاشي، المسند، 2 : 409، رقم : 81006
طبراني، المعجم الکبير، 4 : 69، رقم : 93665
بيهقي، شعب الايمان، 2 : 238، رقم : 101625
قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 11 : 11145
طبري، جامع البيان، 16 : 12120
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 3 : 13136
بغوي، معالم التنزيل، 3 : 14208
آلوسي، روح المعاني، 16 : 15129
ابن سعد، الطبقات الکبري، 3 : 16164
ابن کثير، البدايه والنهايه، 3 : 59
اس پر وہ لعین بولا کہ جب میں دوبارہ اپنے مال و اولاد کے ساتھ زندہ ہو کر آؤں گا تو تجھے تیرا ادھار ادا کردوں گا۔ اس کی کفر آمیز گفتگو کی مذمت میں قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات نازل ہوئیں :
أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لَأُوتَيَنَّ مَالاً وَوَلَدًاO أَطَّلَعَ الْغَيْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَنِ عَهْدًاO كَلاَّ سَنَكْتُبُ مَا يَقُولُ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّاO وَنَرِثُهُ مَا يَقُولُ وَيَأْتِينَا فَرْدًاO
القرآن، مريم، 19 : 77 - 80
’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا اور کہنے لگا کہ مجھے (قیامت کے روز بھی اسی طرح) مال و اولاد ضرور دیئے جائیں گےo وہ غیب پر مطلع ہے یا اُس نے (خدائے) رحمٰن سے (کوئی) عہد لے رکھا ہےo ہرگز ہرگز نہیں! اب ہم وہ سب کچھ لکھتے رہیں گے جو وہ کہتا ہے اور اس کے لئے عذاب (پر عذاب) خوب بڑھاتے چلے جائیں گےo اور (مرنے کے بعد) جو یہ کہہ رہا ہے اس کے ہم ہی وارث ہوں گے اور وہ ہمارے پاس تنہا آئے گا (اس کے مال و اولاد ساتھ نہ ہوں گے)o‘‘
ائمہ حدیث اور مفسرین نے ان آیات قرآنیہ کے شان نزول میں محولہ بالا واقعہ درج کیا ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی اس وفاداری بشرطِ اُستواری کے باعث ان سے بہ دل و جاں محبت کرتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے آپ کو اپنی مسند پر بٹھانے کا اعزاز بخشا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کفار کے ہاتھوں پہنچنے والی اذیت کی تفصیل دریافت کی تو انہوں نے اپنی کمر سے قمیض ہٹا کر امیرالمؤمنین کو وہ داغ اور نشانات دکھائے جو اس ظلم و تشدد کا نتیجہ تھے۔ خلیفۃ المسلمین نے ان کی کمر دیکھ کر فرمایا :
مارأيت کاليوم ظهر رجل.
’’میں نے تو آج تک کسی کی ایسی کمر نہیں دیکھی۔‘‘
اس کے جواب میں حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے یہ تفصیل آپ رضی اللہ عنہ کے گوش گذار کی :
لقد أوقدت ناراً و سحبت عليها، فما أطفأها إلا ودک ظهري.
مجھے آگ کے انگاروں پر ڈال کر گھسیٹا جاتا تھا حتی کہ میری کمر کی چربی (اور خون) سے وہ آگ بجھتی تھی۔
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 3 : 164، 2165
ابو نعيم، حلية الاولياء، 1 : 3144
حلبي، السيرة الحلبيه، 1 : 4483
ابن عبدالبر، الاستيعاب، 2 : 439، رقم : 5428
ابن اثير، اسدالغابه، 2 : 147 - 149
یہ حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کشش اور دلآویزی تھی کہ جو ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر ہو جاتا پھر خواہ اس کا جسم پرزے پرزے کیوں نہ کر دیا جاتا تو اسے کوئی پروا نہ ہوتی، عشق کا نشہ ایسا نہیں تھا کہ جسے کوئی ترشی اتار سکتی۔
حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے 37ھ میں وفات پائی اور کوفہ میں دفن ہوئے۔ ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ان کی قبر سے گزر ہوا تو انہوں نے اس عاشقِ زار کی شان میں ارشاد فرمایا :
رحم اﷲ خباباً، أسلم راغباً، و هاجر طائعاً، و عاش مجاهداً، و ابتلی فی جسمه.
اللہ تعالیٰ حضرت خباب پر رحم فرمائے، اپنی خوشی سے اسلام لائے اور خوشی سے ہجرت کی اور جہاد میں زندگی گزار دی اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے پر کفار و مشرکین کی طرف سے) جسمانی اذیتیں برداشت کیں۔
هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 299
ابن حجر عسقلاني، الاصابه، 2 : 258، رقم : 32212
طبري، تاريخ لامم والملوک، 3 : 4108
ابن اثير، اسد الغابه، 2 : 5149
عبد الرحمن مبارکپوري، تحفة الأحوذي، 4 : 39
No comments:
Post a Comment