فضائل و برکات نقش نعلین مصطفیٰ ﷺ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جو سر پر رکھنے کو مل جائے نعل پاک حضور(ﷺ)
تو پھر کہیں گے کہ ہاں تاجدار ہم بھی ہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ جو سابقون الاولون اور بدری صحابہ میں سے ہیں، انہوں نے حضور اکرمﷺ کے نعلین مبارک اٹھائے رکھنے کی ڈیوٹی اپنے ذمہ لے رکھی تھی۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداﷲ بن مسعود کے مناقب میں ان کی پہچان ہی صاحب النعلین والوسادۃ والمطہرہ لکھی ہے (بخاری، کتاب المناقب، حدیث 948)
مواہب اللدنیہ اور علامہ ابن جماعہ کی مختصر السیر میں مذکور ہے کہ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ نبی اکرمﷺ کے نعلین بردار تھے جب کبھی حضورﷺ کہیں تشریف لے جانے کے لئے اٹھتے تو یہ آپﷺ کو نعلین پہناتے اور جب حضورﷺ نعلین اتار کر تشریف فرما ہوتے تو یہ آپﷺ کی نعلین اٹھا کر اپنے بازوئوں میں پہن لیتے تھے (مواہب الدنیہ)
التراتیب الاداریہ میں قاسم بن عبدالرحمن کی مراسیل سے حارث بن ابی عمر کی روایت میں مذکور ہے کہ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ حضورﷺ کو نعلین مبارک پہنایا کرتے اور جب حضورﷺ نعلین مبارک اتارتے تو یہ انہیں اپنے ہاتھوں میں پہن لیتے اور جب حضورﷺ کہیں تشریف لے جاتے تو یہ حضورﷺ کے ساتھ آگے چلتے تھے (الترتیب الاداریہ)
امام زرقانی مواہب اللدنیہ کی شرح میں لکھتے ہیں کہ ابن مسعود رضی اﷲ عنہ کا حضورﷺ کے نعلین مبارک کو اپنے بازوئوں میں پہن لینے کا راز یہ تھا کہ وہ اپنے ہاتھوں کو حضورﷺ کی خدمت کے لئے خالی رکھتے تھے تاکہ اگر ضرورت پڑے تو وہ اپنے ہاتھوں سے حضورﷺ کی خدمت بجالائیں۔
جامع ترمذی کی شرح قوت المغتذی میں علامہ بیضاوی کہتے ہیں کہ ابن مسعود رضی اﷲ عنہ حضورﷺ کی خدمت کرتے تھے اور ہر حال میں آپﷺ کے ساتھ رہتے تھے۔ جب آپﷺ وضو کے لئے اٹھتے تو وہ آپﷺ کا کوزہ اٹھاتے تھے اورنعلین سنبھالتے تھے اور نعلین کو اپنے بازوئوں میں پہن لیتے تاکہ دوبارہ پہننے تک محفوظ رہیں۔
احترام نعلین پاک جو صحابہ سے متوارث چلا آتا ہے، ہر دور میں عاشقان رسول کے ہاں یکساں رہا ہے بلکہ عام و خاص امراء و فقراء سبھی نعلین مبارکہ کو محترم سمجھتے رہے ہیں۔
علامہ ابن کثیر نے امیرالمومنین محمد المہدی کے مناقب بیان کرتے ہوئے تاریخ ابن کثیر میں لکھا ہے کہ ایک دن محمد المہدی کے پاس ایک شخص آیا جس کے پاس جوتوں کا ایک جوڑا تھا۔ اس نے کہا یہ نبیﷺ کے نعلین ہیں جو میں آپ کو تحفتاً پیش کرتا ہوں۔ پس اس نے یہ نعلین لے لئے، انہیں بوسہ دیا اور اپنے دائیں طرف رکھا اور اس شخص کو دس ہزار درہم دینے کا حکم دیا۔
جب وہ شخص چلا گیا تو مہدی نے کہا بخدا میں یہ بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ جوتے رسولﷺ نے پہنے تو کیا انہیں کبھی دیکھابھی نہ ہوگا لیکن اگر میں یہ اسے واپس کردیتا تو وہ جاکر لوگوں سے کہتا پھرتا کہ میں نے مہدی کو رسول اﷲﷺ کے نعلین کا تحفہ دیا جو اس نے لوٹا دیا اور لوگ اس کی بات کو سچ سمجھتے ۔
یہ تو تھا معاملہ برکات و احترام نعلین پاک کا۔ اب ذرا اس سے آگے بڑھئے تو معلوم ہوگا کہ عاشقان رسولﷺ تو نقش کف پائے رسولﷺ پر مرمٹنے کو تیار ہیں۔ حضرت علامہ عبدالرحمن جامی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:
چوں سوئے من گزر آری من مسکیں زنا داری
فدائے نقش نعلینت کنم جاں یا رسول اﷲ
ایک اور عاشق رسول نقش نعلین کو اپنا سرمایہ افتخار سمجھتے ہوئے یوں گویا ہیں:
نقش نعلین تو عزو جاہ من
سنگ باب تست سجدہ گاہ من
ایک اور خیال نشان کف پائے رسولﷺ کی عظمت کے سلسلہ میں ایک عاشق صادق کی زبانی سنئے۔
بمقامیکہ نشان کف پائے تو بود
سالہا سجدہ صاحب نظراں خواہد بود
بات صرف نقش نعلین پر ہی ختم نہیں ہوتی اور نہ نعلین و نقش نعلین کے احترام و برکات پر بلکہ بعض علماء نے تو عکس نقش نعلین رسول کو بھی باعث برکت بتایا ہے۔ چنانچہ مولوی اشرف علی تھانوی نے ایک مستقل رسالہ بعنوان نیل الشفاء بنعل المصطفیٰ تحریر کیا ہے۔ جس میں نقش نعلین رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو بے حد باعث خیروبرکت ثابت کیا ہے، لکھتے ہیں:
’’بعدالحمدوالصلوٰۃ یہ ناچیز اشرف علی عرض کرتا ہے کہ ان دنوں ہم لوگوں کے کثرت معاصی سے جو کچھ ہجوم بلیات صوریہ ومعنویہ ہے، ظاہر ہے اس کا علاج بجز اصلاح اعمال و توبہ و استغفار کے کچھ نہیں ہے مگر ہم لوگوں کے قلب و زبان کی جو کیفیت ہے، معلوم ہے، البتہ اگر کوئی وسیلہ قوی ہو تو اس کی برکت سے حضور قلب بھی میسر ہوسکتا ہے اور امید قبول بھی قریب ہے۔ منجملہ ان وسائل کے بتجربہ بزرگان دین نقشہ نعل مقدس حضور سرور عالم فخر آدم صلی اﷲ علیہ وسلم نہایت قوی البرکت، سریع الاثر پایا گیا ہے‘‘
یہ چند سطور تحریر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میری طرح اور بھی اگر کچھ دوست ’’تاجداری‘‘ کے حصول کے متمنی ہوں تووہ سرکار دوعالمﷺ کے نعلین پاک کے نقش و عکس سے یہ تمنا پوری کرنے کے لئے اس کے فضائل و برکات کا مطالعہ فرمائیں اور استفادہ کریں۔
نقش نعلین پاک کے بہت فوائد ہیں جو علمائے کرام نے معتبرہ و مستند حوالوں سے اپنی تالیفات میں نقل کئے ہیں۔ مولوی اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:
اس نقش شریف کے آثار و خواص و فضائل کو کون شمار میں لاسکتا ہے مگر اس مقام پر (یعنی رسالہ نیل الشفاء بنعل المصطفیٰ میں) نہایت اختصار کے ساتھ کتب معتبرہ علمائے محدثین و محققین سے چند برکات اور کچھ ابیات برائے ذوق و شوق نقل کئے جاتے ہیں۔
’’فتح المتعال فی مدح خیر النعال‘‘ میں علامہ محدث حافظ تلمسانی فرماتے ہیں کہ اس نقش پاک کے فوائد اس قدر واضح ہیں کہ محتاج بیان نہیں۔ ان فوائد عجیبہ میں سے ایک یہ ہے کہ ابو جعفر کا کہنا ہے کہ میں نے ایک طالب علم کو نقش نعلین بنوادیا تھا، چنانچہ ایک روز اس نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کل رات اس نقش پاک کی ایک عجیب برکت دیکھی۔ ہوا یوں کہ رات کو میری بیوی کے شدید درد اٹھا، میں نے یہ نقش پاک اس کی درد کی جگہ پر رکھ کر اﷲ تعالیٰ سے التجا کی۔ یااﷲ مجھے اس کی برکت سے صاحب نعلینﷺ کی برکت دکھلا اور میری بیوی کو شفا عطا فرما۔ چنانچہ اﷲ کے فضل سے فورا شفاء ہوئی۔
نقش نعل رسولﷺ کے فضائل وبرکات میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں۔ جن میں محدث تلمسانی کی مذکورہ بالا کتاب ’’فتح المتعال فی مدح خیر النعال‘‘ اور القول السیدید فی ثبوت استبراک نعل سید الاحرار و العبید، نیز المرتجبیٰ بالقبول فی خدمۃ قدم الرسول محمد بن عیسٰی المقری کی قرہ العینین فی تحقیق امر النعلین عبداﷲ بن محمد بن ہارون الطائی القرطبی کی باہر النظامو بارع الکلام فی صفۃ مثال نعل رسول علیہ الصلوٰۃ و السلام، ابو العباس المقری التلمسانی کی النفحات العنبریہ فی وصف نعل خیر البریہ قابل ذکر ہیں۔ علاوہ ازیں ابوالیمن ابن عساکر، سراج البلقینی البستی اور دیگر کئی علماء متقدمین و متاخرین نے نعلین پاک کے نقش کے فضائل وبرکات میں کم وبیش پچاس مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ محدث تلمسانی کی کتاب فتح المتعال فی مدح خیر النعال کی کئی شروح اور کئی خلاصے چھپ چکے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ محدث تلمسانی نے یہ کتاب موضوع کی مناسبت سے مسجد نبوی میں حضور اکرمﷺ کے قدمان ناز کی سمت بیٹھ کر لکھی ہے۔ ایسے ہی ان کے ایک کتاب عمامہ کے بارے میں ہے جو انہوں نے نبی اکرمﷺ کے سرہانے کی طرف بیٹھ کر تحریر کی۔ محدث بزرگ کا مزار مصر میں مرجع خلائق ہے۔ شیخ محقق، علامہ شاہ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ نقش نعلین کی تعریف و مدح میں اور اس کے فضائل میں بے شمار قصیدے لکھے گئے ہیں۔
ابو المحاسن علامہ یوسف بن اسماعیل نبھانی نے وصف و تعریف نعلین مبارکہ میں طویل قصیدہ لکھا ہے جس کے مندرجہ ذیل دو شعر ہدیہ قارئین ہیں۔
انی خدمت مثال نعل المصطفی
لاعیش فی الدارین تحت ظلالہا
سعد بن مسعود بخدمۃ نعلہ
وانا السعید لخدمتی لمثالہا
فرماتے ہیں، میں نے (یہ قصیدہ لکھ کر) نقش نعل مصطفیﷺ کی جو خدمت کی ہے، وہ اس نظریہ سے ہے تاکہ میں دنیا و آخرت میں ان کے سائے میں زندگی بسر کروں۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ حضورﷺ کے نعلین کی خدمت کرکے شاداں و فرحاں تھے، اور میں حضورﷺ کے نعلین کے نقشہ کی خدمت کرکے خوش ہوں۔
مواہب لدنیہ میں علامہ احمد قسطلانی تحریر فرماتے ہیں کہ نقش نعلین شریف مقام درد پر رکھنے سے درد سے نجات مل جاتی ہے اور پاس رکھنے سے راہ میں لوٹ مار سے محافظت ہوجاتی ہے اور شیطان کے مکروہ فریب سے امان میں رہتا ہے اور حاسد کے شروفساد سے محفوظ رہتا ہے۔ مسافت طے کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
مولوی اشرف علی تھانوی نے مختلف علماء و بزرگان دین کے حوالہ سے جن خواص و فضائل نقشہ نعل شریف کا ذکر کیا ہے وہ افادہ عامہ کے پیش نظر تحریر کئے جاتے ہیں۔
لکھتا ہے:
1… قاسم بن محمد کا قول ہے کہ اس نقشہ کی آزمائی ہوئی برکت یہ ہے کہ جو شخص اس کو تبرکاً اپنے پاس رکھے، ظالموںکے ظلم سے، دشمنوں کے غلبہ سے، شیطان سرکش سے اور حاسد کی نظر بد سے امن وامان میں رہے گا اور اگر حاملہ عورت زچگی کی تکلیف کے وقت اسے اپنے دائیں ہاتھ میں رکھے تو بفضلہ تعالیٰ اس کی مشکل آسان ہو۔
2… شیخ ابن حبیب النبی روایت فرماتے ہیں کہ ان کے ایک دنبل نکلا کہ کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ نہایت سخت درد ہوا کہ کسی طبیب کی سمجھ میں اس کی دوا نہ آئی۔ انہوں نے نقش شریف درد کی جگہ رکھ لیا، معاً ایسا سکون ہوگیا کہ گویا کبھی درد ہوا ہی نہ تھا۔
صاحب فتح المتعال علامہ تلمسانی فرماتے ہیں کہ ایک اثر خود میرا مشاہدہ کردہ ہے اور وہ یہ کہ ایک بار سفر دریائے شور کا اتفاق ہوا اور دوران سفر ایک بار ایسی حالت ہوئی کہ سب ہلاکت کے قریب تھے۔ کسی کے بچنے کی امید نہ تھی۔ میں نے نقشہ نعلین ناخدا کے پاس بھیج دیا تاکہ اس سے توسل کرے چنانچہ اسی وقت اﷲ تعالیٰ نے عافیت فرمائی۔
محمد بن الجزری سے منقول ہے کہ جو شخص اس نقشہ نعلین کو اپنے پاس رکھے خلائق میں مقبول رہے، اور خواب میں زیارت رسول اکرمﷺ سے مشرف ہو۔ یہ نقش شریف جس لشکر میں ہوگا اس کو شکست نہ ہوگی اور جس قافلہ میں ہو، وہ لوٹ مار سے محفوظ رہے، جس سامان میں ہو، وہ چوری سے محفوظ رہے، جس کشتی میں ہو وہ غرق ہونے سے بچے اور جس حاجت سے اس سے توسل کریں وہ پوری ہو۔
تھانوی صاحب نے نقشہ نعل رسولﷺ سے توسل کا طریقہ بھی لکھا ہے۔ فرماتے ہیں بہتر ہے کہ رات کے آخری حصہ میں اٹھ کر وضوکرکے جس قدر نوافل تہجد پڑھ سکے، پڑھے۔ پھر گیارہ مرتبہ درود شریف، گیارہ مرتبہ کلمہ طیبہ اور گیارہ مرتبہ استغفار پڑھ کر اس نقشے کو باادب اپنے سر پر رکھے اور بتضرع (نہایت گریہ وزاری سے) جناب باری تعالیٰ میں عرض کرے کہ الٰہی میں جس مقدس پیغمبرﷺ کے نقش نعل شریف کو اپنے سر پر لئے ہوئے ہوں، ان کا ادنیٰ درجہ کا غلام ہوں۔ الٰہی اس نسبت غلامی پر نظر فرماکر ببرکت اس نعل شریف کے میری فلاں حاجت پوری فرمایئے، مگر خلاف شرع کوئی حاجت طلب نہ کرے۔ پھر سر پر سے اسے اتار کر چہرے پر ملے اور اس کو محبت سے بوسہ دے اور اشعار ذوق و شوق بغرض از دیاد عشق محمدی پڑھے۔ انشاء اﷲ عجیب کیفیت پائے گا۔
حافظ زین الدین العراقی نے سیرت النبیﷺ ایک ہزار اشعار میں لکھی ہے۔ ان میں سے بعض اشعار حضورﷺ کے نعلین مبارکہ کے بارے میں ہیں۔ ہر ہر شعر عشق و محبت مصطفی کا آئینہ دار ہے۔لکھتے ہیں:
ونعلہ الکریمہ المصونہ طوبیٰ لمن مس بہا جبینہ
حضورﷺ کے نعلین بڑے برکت والے ہیں۔ خوش نصیب ہے وہ جس نے اپنی پیشانی کو ان سے مس کیا ۔
No comments:
Post a Comment