Friday, 25 December 2015

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اول تا آخر محبوبِ خدا ﷺ سے والہانہ محبت کرتے تھے

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اول تا آخر محبوبِ خدا ﷺ سے والہانہ محبت کرتے تھے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کائنات کا تمام تر حسن و جمال ابد الآباد تک آفتابِ رسالت کے جلوؤں کی خیرات ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم دنیا کے خوش قسمت ترین انسان تھے کہ انہوں نے حالتِ ایمان میں آقائے محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی سعادت حاصل کی۔ اُنہیں ان فضاؤں میں جو تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انفاسِ پاک سے معطر تھیں، سانس لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے بڑھ کر کوئی چیز محبوب نہ تھی، دیدارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُنہیں دنیا و مافیہا کی ہر نعمت سے بڑھ کر عزیز تھا۔ وہ ہر وقت محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک جھلک دینے کے لئے ماہیء بے آب کی طرح تڑپتے رہتے تھے۔ اس حسنِ بے مثال کی جدائی کا تصور بھی ان کے لئے سوہانِ روح بن جاتا۔ وہ چاہے کتنے ہی مغموم و رنجیدہ ہوتے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آتے ہی ان کے دل و جاں کو راحت اور سکون کی دولت مل جاتی، پھر وہ عالمِ وارفتگی میں آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دائمی رفاقت کی آرزو اور تمنا کی فضائے دلکش میں گم ہو جاتے۔ انہیں یہ اندیشہ بے تاب رکھتا کہ کہیں اُن سے صحبتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گراں بہا نعمت چھن نہ جائے، اُن کے قلوبِ مضطر کو اس وقت قرار آیا جب اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال پر مر مٹنے والے عشاق کو اخروی زندگی میں ابدی رفاقتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مژدۂ جانفزا سنایا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہوا :

وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًاO ذَلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللّهِ وَكَفَى بِاللّهِ عَلِيمًاO

(القرآن، النساء، 4 : 69، 70)

’’اور جو کوئی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت)

اُن (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیںo یہ فضلِ (خاص) اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ جاننے والا کافی ہےo‘‘

اِس مقام پر مفسرینِ کرام نے آیتِ مذکورہ کی شانِ نزول بیان کرتے ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے محبوبِ حجازی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و وارفتگی کے احوال و واقعات کا تذکرہ بڑے پیارے اور دلآویز انداز سے کیا ہے۔ ذیل میں حوالے کے طور پر چند مثالیں بیان کی جاتی ہیں :

1۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے :

جاء رجل إلی النبی صلي الله عليه وآله وسلم فقال : يا رسول اﷲ! إنک لأحب إلي من نفسي، و إنک لأحب إلي من والدي، و إني لأکون في البيت، فاذکرک فما أصبر حتي آتی فانظر إليک، و إذا ذکرت موتی و موتک عرفت انک إذا دخلت الجنة رفعت مع النبيين، و أني إذا دخلت الجنة خشيت أن لا أراک، فلم يزد عليه النبي صلي الله عليه وآله وسلم شيئا حتي نزل جبريل بهذه الاية : (وَ مَنْ يطِعِ اﷲَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰئِکَ مَعَ الَّذِينَ اَنْعَمَ اﷲُ عليهمْ... ).

1.سيوطي، الدر المنثور، 2 : 2182
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 3523
هيثمي، مجمع الزوائد، 7 : 47
طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 5153
سيوطي، المعجم الصغير، 1 : 653
ابو نعيم، حلية الاولياء، 4 : 7240
ابو نعيم، حلية الاولياء، 8 : 125

’’ایک صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے کہ یارسول اﷲ! آپ مجھے میری جان اور میرے والدین سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ جب میں اپنے گھر میں ہوتا ہوں تو آپ کو ہی یاد کرتا رہتا ہوں اور اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک حاضر ہو کر آپ کی زیارت نہ کر لوں۔ لیکن جب مجھے اپنی موت اور آپ کے وصال مبارک کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ آپ تو جنت میں انبیاء کرام کے ساتھ بلند ترین مقام پر جلوہ افروز ہوں گے اور جب میں جنت میں داخل ہوں گا تو خدشہ ہے کہ کہیں آپ کی زیارت سے محروم نہ ہو جاؤں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صحابی کے جواب میں سکوت فرمایا، اس اثناء میں حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور یہ آیت نازل ہوئی : ’’اور جو کوئی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) اُن (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

2۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اور روایت اسی موضوع پر اس طرح ہے :

ان رجلا أتی النبی صلي الله عليه وآله وسلم، فقال : يا رسول اﷲ! إنی أحبک حتی إنی أذکرک فلولا أنی أجئ فانظر إليک ظننت أن نفسی تخرج، و أذکر انی ان دخلت الجنة صرت دونک فی المنزلة، فيشق علی وأحب أن أکون معک فی الدرجة. فلم يرد عليه شيئا. فأنزل اﷲ (وَمَنْ يُّطِع اﷲَ وَ الرَّسُوْل) فدعاه رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فتلاه عليه.

سيوطی، الدرالمنثور، 2 : 2182
طبرانی، المعجم الکبير، 12 : 86، رقم : 312559
هيثمی، مجمع الزوائد، 7 : 6، 47
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 523

’’ایک صحابی بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں آپ سے اس قدر محبت کرتا ہوں کہ (ہر وقت) آپ کو ہی یاد کرتا رہتا ہوں۔ پس جب تک میں آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر آپ کی زیارت نہ کر لوں تو یوں محسوس کرتا ہوں کہ میری جان نکل جائے گی۔ اور جب میں یہ خیال کرتا ہوں کہ اگر میں جنت میں چلا گیا تو آپ سے نچلے درجے میں ہوں گا، یہ خیال میرے لئے انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے کیونکہ میں جنت میں آپ کی دائمی معیت چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے کوئی جواب نہ دیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت ۔ ۔ ۔ اور جو کوئی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اِطاعت کرے ۔ ۔ ۔ نازل فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے بلا کر اس پر یہ آیت تلاوت فرمائی۔‘‘

3۔ حضرت شعبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

إن رجلا مِن الأنصار أتی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، فقال : يا رسول اﷲ! واﷲ! لأنت أحب إلی من نفسی و ولدی و أهلی و مالی، و لو لا انی آتيک فأراک لظننت إنی سأموت. و بکی الأنصاری، فقال له النبی صلي الله عليه وآله وسلم : ما أبکاک؟ فقال : ذکرت إنک ستموت و نموت فترفع مع النبيين، و نحن إذا دخلنا الجنة کنا دونک فلم يخبره النبی صلي الله عليه وآله وسلم بشیء، فأنزل اﷲ علی رسوله : (وَ مَنْ يُّطِعِ اﷲَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰئِکَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اﷲُ عَلَيْهِمْ... عَلِيْماً) فقال : ابشر يا أبا فلان.

سيوطی، الدر المنثور، 2 : 2182
هناد، الزهد، 1 : 118، باب منازل الانبياء
سعيد بن منصور، السنن، 4 : 1307، رقم : 4661
بيهقی، شعب الايمان، 2 : 131، رقم : 1380

’’ایک انصاری صحابی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ مجھے اپنی جان، والدین، اہل و عیال اور مال سے زیادہ محبوب ہیں۔ اور جب تک میں آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر آپ کی زیارت نہ کر لوں تو محسوس کرتا ہوں کہ میں اپنی جاں سے گزر جاؤں گا، اور (یہ بیان کرتے ہوئے) وہ انصاری صحابی زار و قطار رو پڑے۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ نالۂ غم کس لئے؟ تو وہ عرض کرنے لگے : یا رسول اﷲ! جب میں خیال کرتا ہوں کہ آپ وصال فرمائیں گے اور ہم بھی مر جائیں گے تو آپ انبیاء کرام کے ساتھ بلند درجات پر فائز ہوں گے، اور جب ہم جنت میں جائیں گے تو آپ سے نچلے درجات میں ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں کوئی جواب نہ دیا، پس اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر (یہ آیت مبارکہ) نازل فرمائی : ’’ اور جو کوئی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اِطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) اُن (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اس صحابی کو بلایا اور) فرمایا : اے فلاں! تجھے (میری ابدی رفاقت کی) خوش خبری مبارک ہو۔‘‘

4۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ ابن جریر نے حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :

جاء رجل من الأنصار إلی النبی صلي الله عليه وآله وسلم، و هو محزون، فقال له النبی صلي الله عليه وآله وسلم : يا فلان! ما لی أراک محزونا؟ قال : يا نبی اﷲ! شیء فکرت فيه. فقال : ما هو؟ قال : نحن نغدو عليک و نروح ننظر فی وجهک و نجالسک، غداً ترفع مع النبيين فلا نصل إليک. فلم يرد النبی صلي الله عليه وآله وسلم شيئا، فأتاه جبرئيل بهذه الآية : وَ مَنْ يُّطِعِ اﷲَ وَ الرَّسُوْلَ إلی قوله رَفِيْقًا، قال : فبعث إليه النبی صلي الله عليه وآله وسلم فبشره.

سيوطی، الدر المنثور، 2 : 2182
قرطبی، الجامع الاحکام القرآن، 7 : 397
طبری، جامع البيان فی تفسير القرآن، 5 : 4163
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 523

’’ایک انصاری صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں غمزدہ حالت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس سے دریافت فرمایا : اے فلاں! تم اتنے غمگین کیوں ہو؟ اس نے عرض کیا : یا نبی اللہ! مجھے آپ سے متعلق اپنی ایک فکر کھائے جا رہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ کیا ہے؟ اُس نے عرض کیا : ہم صبح و شام آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں، آپ کے دیدارِ سے اپنے قلب و روح کو تسکین پہنچاتے ہیں، آپ کی صحبت سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ کل (آخرت میں) آپ انبیاء کرام کے ساتھ بلند مقام پر فائز ہوں گے جبکہ ہماری آپ تک رسائی نہیں ہو گی۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابی کو کوئی جواب نہ دیا۔ جب جبرئیل علیہ السلام یہ آیتِ کریمہ لے کر حاضر ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس انصاری کو پیغام بھیجا اور اسے اس (دائمی رفاقت کی) بشارت دی۔‘‘

5۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا :

قد علمنا أن النبی صلي الله عليه وآله وسلم له فضل علی مَن آمن به فی درجات الجنة ممن اتبعه و صدقه، فکيف لهم إذا اجتمعوا في الجنة أن يري بعضهم بعضا؟ فأنزل اﷲ في ذلک، فقال له النبي صلي الله عليه وآله وسلم : ان الاعلين ينحدرون إلي من هم أسفل منهم، فيجتمعون في رياضها فيذکرون ما أنعم اﷲ عليهم و يثنون عليه.

طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 5 : 2164

سيوطي، الدر المنثور، 2 : 3182

ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 522

’’(یا رسول اللہ!) ہم جانتے ہیں کہ ہر نبی کو جنت کے درجات میں اپنے اس امتی پر فضیلت حاصل ہو گی جس نے ان کی اتباع اور تصدیق کی تو پھر جنت میں معیت و رفاقت کی کیا صورت ہو گی؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے (مذکورہ) آیت مبارکہ نازل فرمائی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صحابی سے ارشاد فرمایا کہ اوپر کے درجے والے اپنے سے نیچے کے درجے والوں کے پاس آئیں گے، ان کے پاس بیٹھیں گے اور اپنے اوپر ہونے والی اللہ کی نعمتوں کا ذکر کریں گے اور اس کی حمد و ثنا بیان کریں گے۔‘‘

کتبِ احادیث و سیر میں اس قسم کے متعدد واقعات کا ذکر ہے جو انفرادی و اجتماعی طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو پیش آئے۔ وہ اِس اَمر کی غمازی کرتے ہیں کہ اسیرانِ جمالِ مصطفی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے زندگی پاتے تھے اور انہیں محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک لمحہ کی جدائی بھی گوارا نہ تھی۔ وہ ایک دوسرے سے اقبال کی زبان میں یوں ہم نوا ہوتے تھے :

بیا اے ہمنشیں باھم بنالیم
من و تو کشتۂ شانِ جمالیم

(میرے ساتھی آ! مل کر روئیں، میں اور تُو ایک ہی شانِ حسن و جمال کے کشتہ ہیں۔)

ان مشتاقانِ دید کے دل میں ہر لمحہ یہ تمنا دھڑکتی رہتی تھی کہ ان کا محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی بھی ان سے جدا نہ ہو اور وہ صبح و شام اس محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے اپنے قلوب و اذہان کو راحت و سکون بہم پہنچاتے رہیں۔ ایسا کیوں نہ ہوتا کہ ربِ کائنات نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سیرت و صورت میں ایسا یکتا و تنہا اور بے مثال بنایا تھا کہ کائناتِ رنگ و بو میں کوئی دوسرا اس کا ہم سر نہ تھا۔ حضرت پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے یوں ہی نہیں کہہ دیا تھا :

کوئی مثل نئیں ڈھولن دی
چپ کر مہر علی ایتھے جا نئیں بولن دی

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اول تا آخر محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ محبت کرتے تھے اور اسی محبت کا کرشمہ تھا کہ نہ انہیں اپنی جان کی پروا تھی، نہ مال و اولاد کی۔ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اپنے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عزیز جانتے تھے۔ انہوں نے جس والہانہ عشق و محبت کا مظاہرہ کیا انسانی تاریخ آج تک اس کی نظیر پیش کر سکی اور نہ قیامت تک اس بے مثال محبت کے مظاہر دیکھنے ممکن ہوں گے۔

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...