Saturday, 12 December 2015

لغت عرب کے امام علامہ جمال الدین محمد بن مکرم ابن منظور الافریقی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 711ھ) اور تعریف بدعت

علامہ جمال الدین ابن منظور افریقی اپنی معروف کتاب ’’لسان العرب‘‘ میں علامہ ابن اثیر جزری کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ حدیث پاک ’’کل محدثۃ بدعۃ‘‘ سے مراد صرف وہ کام ہے جو شریعت مطہرہ کے خلاف ہو اور وہ بدعت جو شریعت سے متعارض نہ ہو وہ جائز ہے۔ لکھتے ہیں :

بدعت سے مراد احداث ہے یا ہر وہ کام جو اکمالِ دین کے بعد کسی دینی مصلحت کے پیش نظر شروع کیا گیا ہو۔ ابن سکیت کہتے ہیں کہ ہر نئی چیز بدعت ہے جیسا کہ قیام رمضان کے حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے نعمت البدعۃ ہذہ. ابن اثیر کہتے ہیں بدعت کی دو قسمیں ہیں، بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ. جو کام اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو وہ مذموم اور ممنوع ہے، اور جو کام کسی ایسے عام حکم کا فرد ہو جس کو اللہ تعاليٰ نے مستحب قرار دیا ہو یا اللہ تعاليٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم پر برانگیختہ کیا ہو تو یہ اَمرِمحمود ہے اور جن کاموں کی مثال پہلے موجود نہ ہو جیسے سخاوت کی اقسام اور دوسرے نیک کام، وہ اچھے کام ہیں بشرطیکہ وہ خلاف شرع نہ ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے کاموں پر ثواب کی بشارت دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس شخص نے اچھے کام کی ابتداء کی اس کو اپنا اجر بھی ملے گا اور جو لوگ اس کام کو کریں گے ان کے عمل کا اجر بھی ملے گا اور اس کے برعکس یہ بھی فرمایا : جس شخص نے برے کام کی ابتداء کی اس پر اپنی برائی کا وبال بھی ہو گا اور جو اس برائی کو کریں گے ان کا وبال بھی اس پر ہو گا اور یہ اس وقت ہے جب وہ کام اللہ تعاليٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو۔ اور اِسی قسم یعنی بدعتِ حسنہ میں سے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ قول ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ ہے پس جب کوئی کام افعالِ خیر میں سے ہو اور مقام مدح میں داخل ہو تو اسے لغوی اعتبار سے تو بدعت کہاجائے گا مگر اس کی تحسین کی جائے گی کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس (باجماعت نماز تراویح کے) عمل کو ان کے لئے مسنون قرار نہیں دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند راتیں اس کو پڑھا پھر (باجماعت پڑھنا) ترک کردیا اور (بعد میں) اس پر محافظت نہ فرمائی اور نہ ہی لوگوں کو اس کے لئے جمع کیا بعد ازاں نہ ہی یہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں (باجماعت) پڑھی گئی پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اس پر جمع کیا اور ان کو اس کی طرف متوجہ کیا پس اس وجہ سے اس کو بدعت کہا گیا درآں حالیکہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول ’’علیکم بسنّتی و سنۃ الخلفاء الراشدین من بعدی‘‘ اور اس قول’’اقتدوا باللذین من بعدی ابی بکر و عمر‘‘ کی وجہ سے حقیقت میں سنت ہے پس اس تاویل کی وجہ سے حدیث ’’کل محدثۃ بدعۃ‘‘ کو اصول شریعت کی مخالفت اور سنت کی عدم موافقت پر محمول کیا جائے گا۔

مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم : 2554
ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359
ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة، رقم : 2676
ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب عن الرسول صلي الله عليه وآله وسلم ، باب مناقب ابي بکر و عمر، 5 / 609، رقم : 3662
ابن ماجه، السنن، باب في فضل اصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 / 37، رقم : 97
حاکم، المستدرک، 3 / 79، رقم : 4451
بيهقي، السنن الکبريٰ، 5 / 212، رقم : 9836
ابن منظور افريقي، لسان العرب، 8 : 6

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...