رئیس المنافقین کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کا لافانی کردار و محبّت رسول ﷺ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عبداللہ بن اُبی رئیس المنافقین تھا، مدینہ منورہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے قبل اسے یثرب کا بادشاہ بنانے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں، لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے یہ منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا اور ریاستِ مدینہ کا قیام عمل میں آیا۔ عبداللہ بن ابی اور دیگر منافقینِ مدینہ اسلام اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا راستہ روکنے کے لئے در پردہ سازشوں کا جال بننے لگے اور مہاجرینِ مکہ کی راہ میں روڑے اٹکانے شروع کر دیئے۔ اسی طرح منافقینِ مدینہ طبقاتی کشمکش کو ہوا دے کر ریاستِ مدینہ کے امن کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔
1۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ اسی عبداللہ بن اُبی کے بیٹے تھے لیکن منافق باپ کے سازشی ذہن سے انہیں دُور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جاں نثار صحابی تھے اور اپنے باپ کی حرکتوں پر اندر ہی اندر کھولتے رہتے تھے۔ وہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور اپنے باپ کی جملہ منفی سرگرمیوں کے پس منظر میں عرض پرداز ہوئے۔ یا رسول اﷲ! مجھے حکم دیجئے کہ میں اپنے باپ کا کانٹا راستے سے ہٹا دوں تاکہ دینِ مبین کی پیش رفت میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے۔
روایت کے الفاظ اس طرح ہیں :
أنه استأذن النبی صلی الله عليه وآله وسلم أن يقتل أباه، قال : لا تقتل أباک.
’’(حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ بن عبداللہ بن ابی) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے باپ (عبداللہ بن ابی) کو قتل کرنے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے باپ کو قتل نہ کر۔‘‘
حاکم، المستدرک، 3 : 679، رقم : 26490
عبد الرزاق، المصنف، 3 : 538، رقم : 36627
شيباني، الاحادو المثاني، 4 : 23، رقم : 41967
هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 5318
عسقلاني، الاصابه، 4 : 155
2۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :
مرّ رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم بعبد اﷲ بن أبی و هو فی ظل أطم، فقال : عبر علينا ابن أبي کبشة، فقال ابنه عبداﷲ بن عبداﷲ : يا رسول اﷲ! والذي أکرمک لئن شئت لاتيتک برأسه، فقال : لا، ولکن بر أباک و أحسن صحبته.
’’عبداللہ بن ابی ایک بلند ٹیلہ کے سایہ میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس کے پاس سے گزر ہوا تو عبداللہ بن ابی کہنے لگا : ابن ابی کبشہ کا یہاں سے گذر ہوا۔ اس پر اس کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عبد اﷲ نے عرض کی : یا رسول اللہ ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو مکرم و محترم بنایا ہے، اگر آپ چاہیں تو میں (اپنے) اس (بدبخت باپ) کا سر (قلم کرکے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں اپنے والد کے ساتھ حسنِ سلوک اور حسنِ محبت سے پیش آؤ۔‘‘
ھيثمي نے ’مجمع الزوائد (9 : 318)‘ میں کہا ہے کہ اُسے بزار نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔
ابن حبان، الصحيح، 2 : 170، 171، رقم : 3428
هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 498، رقم : 42029
طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 80، رقم : 5229
عسقلانی، الاصابه، 4 : 155
یہ بات حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ ایسا مخلص شخص ہی کہنے کی جرات کر سکتا ہے جس نے محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنی ذات کو گم کر دیا تھا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو جب اپنا حقیقی باپ ابن ابی، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستے کی دیوار بنتا نظر آیا تو اُنہوں نے اس دیوار کو ہی گرانے کا فیصلہ کر لیا۔
3۔ غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر ایک مقام پر ابن ابی نے حضور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں بعض گستاخانہ الفاظ کہے۔ اس پراس کا حقیقی بیٹا حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ تلوار سونت کر اپنے باپ کے سر پر کھڑے ہو گئے اوراسے خوب ذلیل کیا۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں :
لما رجع رسول اﷲ من بنی المصطلق، قام ابن عبداﷲ بن أبی : فسَلّ علی أبيه السيف، و قال : ﷲ علي ألا أغمده حتي تقول محمد الاعز وأنا الأذل، قال : ويلک! محمد الأعز و أنا الأذل، فبلغت رسول اﷲ فأعجبه و شکرها له.
’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوہ بنی المصطلق سے واپس لوٹے تو ابن عبداللہ بن ابی اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنے باپ پر تلوار سونتی اور فرمایا : بخدا! میں اس وقت تک اپنی تلوار میان میں نہیں رکھوں گا جب تک تو زبان سے یہ نہیں کہہ دیتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معزز ہیں اور میں ذلیل ہوں۔ اس نے کہا : تو ہلاک ہو، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معزز ہیں اور میں ذلیل ہوں۔ جب یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی جرات کو پسند فرمایا اور سراہا۔
هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 317، 2318
حميدي، المسند، 2 : 520، رقم : 31240
قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 18 : 4129
آلوسي، روح المعاني، 28 : 116
No comments:
Post a Comment