Monday 14 December 2015

اِمام احمد شہاب الدین ابن الحجر المکی الہیتمی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 974ھ) اور تعریف و اقسام بدعت

0 comments
اِمام احمد شہاب الدین ابن الحجر المکی الہیتمی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 974ھ)
اور تعریف و اقسام بدعت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اِمام ابن حجر مکی ’’الفتاويٰ الحدیثیہ‘‘ میں ایک سائل کا جواب دیتے ہوئے رقمطراز ہیں :

و قول السائل نفع اﷲ به وهل الاجتماع للبدع المباحة جائز جوابه نعم هو جائز قال العزالدين بن عبدالسلام رحمه اﷲ تعالي البدعة فعل مالم يعهد في عهد النبي صلي الله عليه وآله وسلم و تنقسم إلي خمسه أحکام يعني الوجوب والندب الخ وطريق معرفة ذلک أن تعرض البدعة علي قواعد الشرع فأي حکم دخلت فيه فهي منه فمن البدع الواجبة تعلم النحو الذي يفهم به القرآن والسنة ومن البدع المحرمة مذهب نحو القدرية ومن البدع المندوبة احداث نحو المدارس والاجتماع لصلاة التراويح ومن البدع المباحة المصافحة بعد الصلاة ومن البدع المکروهة زخرفة المساجد والمصاحف أي بغير الذهب والا فهي محرمة وفي الحديث ’’کل بدعة ضلالة و کل ضلالة في النار‘‘(1) وهو محمول علي المحرمة لا غير. (2)

اور سائل کا یہ قول (اللہ تعاليٰ اس سائل کو نفع دے) کہ کیا بدعت مباحہ کے لئے اجتماع جائز ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں ایسا کرنا جائز ہے، شیخ عز الدین بن عبدالسلام فرماتے ہیں : بدعت ایسا فعل ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ تھا اور بدعت کو پانچ اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے یعنی واجب اور ندب۔ ۔ ۔ الخ، اور اس کی پہچان کا طریقہ کار یہ ہے کہ بدعت کو قواعد شرعیہ پر پرکھا جائے گا پس جس حکم میں وہ بدعت داخل ہو گی تو وہ حکم اس پر لاگو ہو گا الغرض بدعت واجبہ میں سے نحو کا علم سیکھنا ہے جس سے قرآن اور سنت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، اور بدعت محرمہ میں سے نئے مذہب کا بنانا جیسے قدریہ، اور بدعت مندوبہ میں سے قیام مدارس اور نماز تراویح جماعت کے ساتھ ادا کرنا، اور بدعت مباحہ میں نماز کے بعد مصافحہ کرنا، اور بدعت مکروہہ میں سے مساجد اور قرآن کی تزئین و آرائش کرنا یعنی سونا استعمال کئے بغیر بصورت دیگر یہ بدعت محرمہ ہوگی اور حدی۔ رضی اللہ عنھم میں جو یہ الفاظ ہیں کہ ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ اور ’’کل ضلالۃ فی النار‘‘ اس سے مراد بدعت محرمہ ہے اس کے علاوہ اور کچھ مراد نہیں ہے۔

1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة، رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
5. ابن حبان، الصحيح، 1 : 178، رقم : 5
ابن حجر مکي، الفتاويٰ الحديثية : 130

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔