Tuesday 22 December 2015

کیا میلاد النبی ﷺ منانا بدعت ہے ؟

0 comments
کیا میلاد النبی ﷺ منانا بدعت ہے ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جواب : ۔ ہر وہ نیا کام جس کی کوئی شرعی دلیل، شرعی اصل مثال یا نظیر پہلے سے کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ میں موجود نہ ہو وہ ’’بدعت‘‘ ہے لیکن ہر بدعت غیر پسندیدہ یا ناجائز و حرام نہیں ہوتی بلکہ صرف وہی بدعت ناجائز ہوگی جو کتاب و سنت کے واضح احکامات سے متعارض و متناقص (contradictory) ہو۔دوسرے لفظوں میں بدعتِ سیئہ یا بدعتِ ضلالہ صرف اُس عمل کو کہیں گے جو واضح طور پر کسی متعین سنت کے ترک کا باعث بنے اور جس عمل سے کوئی سنت متروک نہ ہو وہ نا جائز نہیں بلکہ مباح ہے۔ اِسی مؤقف کی تائید کرتے ہوئے معروف غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان بھوپالی (1307ھ) لکھتے ہیں کہ ہر نئے کام کو بدعت کہہ کرمطعون نہیں کیا جائے گا بلکہ بدعت صرف اس کام کو کہا جائے گا جس سے کوئی سنت متروک ہو۔ جو نیا کام کسی امرِ شریعت سے متناقص نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ مباح اور جائز ہے ۔

 نواب وحید الزّمان بھوپالی غیر مقلد وھابی اھلحدیث کا یہ قول نقل کرتے ہیں :

البدعة الضّلالة المحرّمة هی التی ترفع السّنة مثلها والتی لا ترفع شيئا منها فليست هی من البدعة بل هی مباح الاصل.۔’’ہدیۃ المہدی‘‘ کے صفحہ نمبر 117

’’بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے۔‘‘

رہی وہ بدعت جو مستحسن اُمور کے تحت داخل ہے اور وہ قرآن و حدیث کے کسی حکم سے ٹکراتی بھی نہیں تو وہ مشروع، مباح اور جائز ہے، اسے محض بدعت یعنی نیا کام ہونے کی بنا پر مکروہ یا حرام قرار دینا کتاب و سنت کے ساتھ نا اِنصافی ہے۔

ذیل میں ہم جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرعی حیثیت اور اُس کے فضائل و ثمرات کے حوالے سے تصورِ بدعت کے مختلف پہلوؤں پر غور کریں گے۔ بہ طورِ خاص اس بے بنیاد تصور کا اِزالہ کریں گے کہ ہر وہ کام جو عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہیں تھا اور نہ خلفائے راشدین و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں اس کا ثبوت ملتا ہے، اسے اگر بعد میں کیا جائے تو - قطعِ نظر اچھائی یا برائی کے - وہ بدعت (یعنی نیا کام) ہونے کی بناء پر کلیتاً ناجائز اور حرام تصور ہوگا۔ اِس خود ساختہ تصور کو قرآن و حدیث کی روشنی میں پرکھا جائے گا اور کتاب وسنت کے واضح دلائل سے ثابت کیا جائے گا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر فرحت و اِنبساط کا اِظہار کرنا ایک مشروع، مباح اور جائز عمل ہے۔
بدعت کا لغوی مفہوم

’’بدعت‘‘ کا لفظ بَدَعَ سے مشتق ہے۔ اس کا لغوی معنی ہے :

’’کسی سابقہ مثال کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا اور بنانا۔‘‘

1۔ ابن منظور افریقی (630۔711ھ) لفظِ بدعت کے تحت لکھتے ہیں :

اَبدعت الشيئ : اخترعته لا علی مثال.

ابن منظور، لسان العرب، 8 : 6

’’میں نے فلاں شے کو پیدا کیا یعنی اُسے بغیر کسی مثال کے ایجاد کیا۔‘‘

2۔ حافظ ابن حجرعسقلانی (773۔852ھ) بدعت کا لُغوی مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

البدعة أصلها ما أحدث علی غير مثال سابق.

1. عسقلانی، فتح الباری، 4 : 253

2. شوکانی، نيل الأوطار شرح منتقی الأخبار، 3 : 63

’’اَصلِ بدعت یہ ہے کہ اُسے بغیر کسی سابقہ نمونہ کے ایجاد کیا گیا ہو۔‘‘
معنی بدعت کی قرآن حکیم سے توثیق

قرآنِ مجید میں مختلف مقامات پر لفظِ بدعت کے مشتقات بیان ہوئے ہیں جن سے مذکورہ معنی کی توثیق ہوتی ہے۔ صرف دو مقامات درج ذیل ہیں :

1۔ اللہ تعاليٰ نے زمین و آسمان بغیر کسی مثالِ سابق کے پیدا فرمائے، اس لیے خود کو بدیع کہا۔ فرمایا :

بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط وَاِذَا قَضٰی اَمْراً فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهُ کُنْ فَيَکُوْنُo

البقرة، 2 : 117

’’وہی آسمانوں اور زمین کو عدم سے وجود میں لانے والا ہے، اور جب وہ کسی چیز (کے ایجاد) کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو پھر اس کو صرف یہی فرماتا ہے : تو ہو جا، پس وہ ہوجاتی ہےo‘‘

2۔ ایک دوسرے مقام پر فرمایا :

بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ.

الانعام، 6 : 101

’’وہی آسمانوں اور زمین کا مُوجد ہے۔‘‘

درج بالا آیات سے ثابت ہوا کہ کائناتِ اَرضی و سماوی کی تخلیق کا ہر نیا مرحلہ بدعت ہے اور اِسے عدم سے وجود میں لانی والی ذاتِ باری تعاليٰ ’’بدیع‘‘ہے۔
بدعت کا اِصطلاحی مفہوم

اہلِ علم کے نزدیک بدعت کی اِصطلاحی تعریف درج ذیل ہے :

1۔ اِمام نووی (631۔ 677ھ) بدعت کی تعریف اِن الفاظ میں کرتے ہیں :

البدعة هی إحداث مالم يکن فی عهد رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم .

نووی، تهذيب الأسماء واللغات، 3 : 22

’’بدعت سے مراد ایسے نئے کام کی ایجاد ہے جو عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہ ہو۔‘‘

2۔ شیخ ابن رجب حنبلی (736۔795ھ) بدعت کی اِصطلاحی تعریف درج ذیل الفاظ میں کرتے ہیں :

المراد بالبدعة ما أحدث مما لا أصل له فی الشريعة يدل عليه، وأما ما کان له أصل من الشّرع يدل عليه فليس ببدعة شرعاً، وإن کان بدعة لغة.

1. ابن رجب، جامع العلوم والحکم فی شرح خمسين حديثاً من جوامع الکلم : 252

2. عظيم آبادی، عون المعبود شرح سنن أبی داود، 12 : 235

3. مبارک پوری، تحفة الأخوذی شرح جامع الترمذی، 7 : 366

’’بدعت سے مراد ہر وہ نیا کام ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے، لیکن ہر وہ معاملہ جس کی اصل شریعت میں موجود ہو وہ شرعاً بدعت نہیں اگرچہ وہ لغوی اعتبار سے بدعت ہوگا۔‘‘

حافظ ابنِ حجر عسقلانی (773۔852ھ) بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیّئہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

والتحقيق أنها إن کانت مما تندرج تحت مستحسن فی الشّرع فهی حسنة، وإن کانت مما تندرج تحت مستقبح فی الشّرع فهی مستقبحة.

1. عسقلانی، فتح الباری، 4 : 253

2. شوکانی، نيل الأوطار شرح منتقی الأخبار، 3 : 63

’’تحقیق یہ ہے کہ اگر بدعت کوئی ایسا کام ہو جو شریعت میں مستحسن اُمور میں شمار ہو تو وہ حسنہ ہے اور اگر وہ شریعت میں ناپسندیدہ اُمور میں شمار ہو تو وہ قبیحہ ہوگی۔‘‘

اِن تعریفات سے واضح ہوتا ہے کہ ہر نئے کام یعنی بدعت کو محض نیا کام ہونے کی وجہ سے مطلقاً حرام یا ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ اُس کے جواز یا عدمِ جواز کو پرکھنے کا پیمانہ یہ ہے کہ اگر وہ نیا کام شریعت میں مستحسن و مباح ہے تو اُسے بدعتِ حسنہ کہیں گے اور اگر وہ نیا کام شریعت میں غیر مقبول و ناپسندیدہ ہو تو اُسے بدعتِ سیئہ یا بدعتِ قبیحہ کہیں گے۔

اِس اُصولی بحث کے بعد یہ اَمر واضح ہو گیا کہ جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگرچہ قرونِ اُوليٰ میں اِس شکل میں موجود نہیں تھا جس ہیئت میں آج موجود ہے،لیکن چوں کہ قرآن حکیم کی تلاوت، ذِکرِ اِلٰہی، تذکارِ رسالت، ثنا خوانی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صدقہ و خیرات کرنا، فقراء و مساکین کو کھانا کھلانا جیسے اَعمال اِس جشن کے مشتملات ہیں، اور اِن میں سے کوئی اَمر بھی شریعت میں ممنوع نہیں، لہٰذا یہ ایک جائز، مشروع اور مستحسن عمل ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ سابقہ اَدوار کے لوگ اپنے رسوم و رواج اور ثقافت کے مطابق نعمتِ عظميٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملنے کے دن شکرِ اِلٰہی بجا لاتے تھے، جب کہ موجودہ دور میں جس طرح زندگی کے ہر گوشہ میں تبدیلی رُونما ہوئی ہے اُسی طرح جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کے اَطوار بھی تبدیل ہوئے ہیں۔ ذیل میں ہم اِس اَمر کی وضاحت کرتے ہیں :

کیا علاقائی ثقافت کا ہر پہلو بدعت ہے ؟

ہم اپنی روز مرّہ زندگی میں جوکچھ کرتے ہیں اُسے قرآن و سنت کی روشنی میں شرعاً ثابت کرنے پر زور دینا ہمارا مزاج بن چکا ہے۔ ہم ہر چیز کو بدعت اور ناجائز کہہ دیتے ہیں۔ اس میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوس اور بہت سے مستحسن اُمور جو ہمارے ہاں رواج پا چکے ہیں ان کو معترضین بدعت سے تعبیر کرتے نہیں تھکتے۔ کچھ چیزیں اصلاً دینی ہوتی ہیں ان کی اصل توضیح اور استدلال کو کتاب وسنت میں تلاش کرنا چاہیے کہ وہ احکامِ دین کا حصہ ہوتی ہیں۔ اس کے ثبوت یاعدمِ ثبوت پر تو حکم شرعی ہونا چاہیے کہ ثابت ہے تو حکم ہے اور اگر غیر ثابت ہے تو حکم نہیں اور باقی چیزوں کی تقسیم کر سکتے ہیں :

اَوّلاً : کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں علاقائی اور سماجی رواج شامل ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک اہم اور نئی جہت ہے کہ علاقائی رواج دینی اُمور نہیں بن جاتے اور وہ چیزیں کلچر یعنی تہذیب و ثقافت کا رُخ اختیار کرلیتی ہیں۔
ثانیاً : کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو وقتی مصالح، بدلتے ہوئے حالات، لوگوں کے رُجحانات اور اجتماعی میلانات کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔
ثالثاً : بعض علاقائی، سماجی اور کلچرل ضرورتیں اور تقاضے بعض چیزوں کو ناگزیر بنا دیتے ہیں۔

1۔ ثقافتی اِعتبار سے دورِ صحابہ ث

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دور ثقافتی اِعتبارسے سادہ تھا۔ اس دور کا ثقافتی اور تاریخی نقطہ نظر سے جائزہ لیں تو اس دور میں مسجدیں سادگی سے بنائی جاتی تھیں، گھر بھی بالعموم سادہ اور کچے بنائے جاتے تھے، کھجور کے پتوں اور شاخوں کو استعمال میں لایا جاتا، جب کہ خانہ کعبہ پتھروں سے بنا ہوا موجود تھا۔ وہ چاہتے تو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی پختہ بنا سکتے تھے مگر اس دور کے معاشرے کی ثقافت اور رسم رواج سادہ اور فطرت سے انتہائی قریب تھے۔ ابتدائی تہذیب کا زمانہ تھا۔ کپڑے بھی ایسے ہی تھے جیسے انہیں میسر تھے۔ کھانا پینا بھی ایسا ہی تھا۔ یعنی ہر ایک عمل سادگی کا انداز لیے ہوئے تھا۔ ان کے کھانے پینے، چلنے پھرنے، رہن سہن الغرض ہر چیز میں سادگی نمایاں طور پر جھلکتی نظر آتی تھی۔ توجب ہر چیز میں یہ انداز واضح طور پر جھلکتا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی منانے میں بھی اُن کا اپنا انداز اس دور کے کلچر کی انفرادیت کا آئینہ دار تھا۔
2۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ثقافتی مظاہر

ہم یومِ پاکستان اور یومِ قائدِ اعظم مناتے ہیں، اس موقع پر جلوس نکالتے ہیں۔ یہ ہمارے علاقائی رسم و رواج کا حصہ ہے، اسے شرعی نہیں بلکہ ثقافتی نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف پر خوشی منانا قرآن و سنت سے ثابت ہے اور اس کاتقاضا ہے کہ مومن کا دل خوشی و انبساط سے لبریز ہوجائے، البتہ اس کے اظہار کے مختلف ثقافتی طریقے ہیں جن کا وقت کے ساتھ ساتھ بدلنا ناگزیر ہوتا ہے۔

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر جلوس نکالنا ثقافت کا حصہ ہے

اگر یومِ پاکستان منانا ثقافتی نقطہ نظر سے درست ہے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کا دن جو انسانی تاریخ کا اہم ترین دن ہے کیوں نہ منایاجائے؟ اگر یومِ آزادی پر توپوں کی سلامی دی جاتی ہے تو میلاد کے دن کیوں نہ دی جائے؟ اس طرح اور موقعوں پر چراغاں ہوتا ہے تو یومِ میلاد پر چراغاں کیوں نہ کیا جائے؟ اگر قومی تہوار پر قوم اپنی عزت و افتخار کو نمایاں کرتی ہے تو حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے دن وہ بہ طور اُمت اپنا جذبہ افتخار کیوں نمایاں نہ کرے؟ جس طرح ان ثقافتی مظاہر پر کسی اِستدلال کی ضرورت نہیں اُسی طرح میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوس کے جواز پر بھی کسی اِستدلال کی ضرورت نہیں۔ خوشی اور احتجاج دونوں موقعوں پر جلوس نکالنا بھی ہمارے کلچر کا حصہ بن گیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر اگر ہم جلسہ و جلوس اور صلوٰۃ و سلام کا اہتمام کرتے ہیں تو اس کا شرعی جواز دریافت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

یہ پوچھا جاتا ہے کہ عرب کیوں جلوس نہیں نکالتے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عرب کے کلچرمیں جلوس نہیں، جب کہ عجم کے کلچر میں ایسا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور مصر وغیرہ میں لوگ میلاد مناتے ہیں لیکن جلوس نکالنا ان کے کلچر میں بھی نہیں، جب کہ ہمارے ہاں تو ہاکی کے میچ میں کامیابی پر بھی جلوس نکالنا خوشی کامظہر سمجھا جاتا ہے۔ جیتنے والی ٹیموں اور الیکشن جیتنے والے اُمیدواران کا استقبال جلوس کی شکل میں کیا جاتا ہے۔

لہٰذا جو عمل شریعت میں منع نہیں بلکہ مباح ہے اور ثقافتی ضرورت بن گیا ہے اور اس کا اصل مقصد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی منانا ہے تو اس پر اعتراض کرنے کی کیا گنجائش اور ضرورت ہے؟

(2) محفلِ میلاد میں کھڑے ہو کر سلام پڑھنا ثقافت کاحصہ ہے

برصغیر پاک و ہند میں لوگ محافل کے دوران میں کھڑے ہو کر صلوۃ و سلام پڑھتے ہیں جب کہ اہلِ عرب کے ہاں اکثر بیٹھ کر صلوۃ و سلام پڑھا جاتا ہے، لیکن مکہ مکرمہ میں اکثر لوگ قیام بھی کرتے ہیں۔ لہٰذا اِس پر بلا جواز اعتراض کرنا اور اسے باعثِ نزاع بنانا کوئی مستحسن اقدام نہیں۔ بحالتِ قیام صلوۃ و سلام کا اگرچہ شرعی جواز موجود ہے مگر اس کادوسرا پہلو علاقائی اور ثقافتی ہے۔ یہ اپنے اپنے ذوق کی بات ہے، کوئی کھڑے ہوکر سلام پڑھتا ہے، کوئی بیٹھ کر سلام پڑھتا ہے۔

 میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آرائش و زیبائش ثقافت کا حصہ ہے

قرونِ اُوليٰ میں لوگوں کی طبیعت کے اندر نیکی اور خیر کے پہلو اتنے غالب ہوتے تھے کہ انہیں کسی اِہتمام کی ضرورت نہیں پڑتی تھی بلکہ حکم ہی کافی تھا۔ لیکن آج صورت حال بدل چکی ہے۔ حکم کے وہ اَثرات نہیں رہے اس لیے جامد طبیعتوں کو نیکی کی طرف راغب کرنے کے لیے مسجدیں خوبصورت بنانے کا رُحجان زور پکڑ گیاہے، جب کہ مساجد کی زیب و زینت کا قرآن و حدیث میں کہیں حکم نہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لیے ہے کہ ظاہری اَسباب رغبت کا باعث بنتے ہیں۔ اسی لیے فرمایا :

يٰـبَنِيْ اٰدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ.

الاعراف، 7 : 31

’’اے اَولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو۔‘‘

اس پہلو کا تعلق اَحکامِ شریعت سے نہیں ثقافت سے ہے۔ داڑھی کے بال سنوارنا، سرمہ ڈالنا، سر میں تیل لگانا، اچھے کپڑے زیب تن کرنا اَعمالِ سنت ہیں، اور ظاہری رغبت دلانے والی چیزیں ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِن اَفعال کی ترغیب دلائی ہے۔ اِسی لیے فرمایا :

من أکل من هذه البقلة فلا يقربن مساجدنا، حتی يذهب ريحها يعنی الثوم.

1. مسلم، الصحيح، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب نهی من أکل ثوماً أو بصلاً أو کراثاً أو نحوهما، 1 : 394، رقم : 561

2. أبو داود، السنن، کتاب الأطعمة، باب فی أکل الثوم، 3 : 160، 161، رقم : 3824، 3825

’’جو شخص اِس ترکاری (یعنی لہسن، پیاز) کو کھائے وہ ہماری مساجد میں نہ آئے یہاں تک کہ اِس کی بو (اُس کے منہ سے) ختم ہو جائے۔‘‘

کیا لہسن، پیاز کھانے والا کسی قبیح جرم کامرتکب ہوگیاہے کہ اسے مسجد میں آنے سے روکا گیا ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظاہری اَسباب کی بناء پر ہی فرمایا کہ اگر کوئی لہسن، پیاز کھا کر مسجد میں آئے گا تو مسجد میں بیٹھے لوگوں کی طبیعت میں اِنقباض پیدا ہوگا۔ جسمانی آرائش و زینت سے متعلقہ یہ اور اِس موضوع کی حامل دیگر احادیث ثابت کرتی ہیں کہ اسلام میں ظاہری اَسباب پیداکیے جانے کو قرینِ حکمت اور قرینِ مصلحت سمجھا جاتا ہے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔