Saturday, 26 December 2015

حضرت سُمَیّہ رضی اﷲ عنھا کا لازوال جذبہ حب رسول ﷺ جدا نہ کیا جا سکا

حضرت سُمَیّہ رضی اﷲ عنھا کا لازوال جذبہ حب رسول ﷺ جدا نہ کیا جا سکا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جس طرح سب سے پہلے اسلام کے دامنِ رحمت سے وابستہ ہونے کا اعزاز ایک معزز خاتون حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا کو حاصل ہوا اُسی طرح سب سے پہلے حق کی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کرنے کی سعادت بھی ایک خاتون کو حاصل ہوئی۔ یہ خاتون حضرت سمیہ رضی اﷲ عنہا تھیں۔ آپ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ تھیں، جنہوں نے ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لئے اپنی جان کی قربانی پیش کی۔ اسلام قبول کرنے کے ساتھ ہی ان کے جذبۂ ایمانی کو طرح طرح سے آزمایا گیا لیکن جان کا خوف بھی ان کے جذبۂ ایمان کو شکست نہ دے سکا۔ روایات میں مذکور ہے کہ انہیں گرم کنکریوں پر لٹایا جاتا، لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں کھڑا کر دیا جاتا، لیکن تشنہ لبوں پر محبتِ رسول کے پھول کھلتے رہے اور پائے استقلال میں ذرا بھی لغزش نہ آئی۔ عورت تو نازک آبگینوں کا نام ہے جو ذرا سی ٹھیس سے ٹوٹ جاتے ہیں لیکن حضرت سمیہ رضی اﷲ عنہا ایمان کا حصارِ آہنی بن گئیں۔

وروی أن ابا جهل طعنها فی قبلها بحربة فی يده، فقتلها، فهي أول شهيد في الإسلام، وکان قتلها قبل الهجرة، وکانت ممن أظهر الإسلام بمکة في أول الإسلام.

’’روایت ہے کہ ابوجھل نے ان کے جسم کے نازک حصے پر برچھی کا وار کیا جس سے وہ شھید ہو گئیں، یہ اسلام کی پہلی شہید خاتون ہیں، جن کو ہجرت سے پہلے شھید کر دیا گیا اور یہ وہ خاتون ہیں جنہوں نے مکہ مکرمہ میں اسلام کے ابتدائی دور میں اپنے اسلام کا اعلانیہ اظہار کیا تھا۔‘‘

ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 13، رقم : 233869
عسقلاني، فتح الباري، 7 : 24، رقم : 53460
مزي، تهذيب الکمال، 21 : 216، رقم : 34174
خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 1 : 4150
ابن اثير، اسد الغابه، 7 : 153

ابن اسحاق نے آل عمار بن یاسر کے کسی شخص سے روایت نقل کی ہے کہ :

أن سمية أم عمار عذبها هذا الحي من بني المغيرة علي الاسلام، و هي تأبي حتي قتلوها، وکان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يمر بعمار و أبيه و أمه و هم يعذبون بالأبطح في رمضاء مکة، فيقول : صبرًا، يا آل ياسر فإن موعدکم الجنة.

’’اُمِ عمار حضرت سمیہ رضی اﷲ عنہا کو بنی مغیرہ نے اسلام لانے کی پاداش میں تکلیفیں پہنچائیں مگر اس نے (اقرار اسلام کے سوا) ہر چیز کا انکار کیا حتی کہ اُنہوں نے اسے شھید کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جب حضرت عمار اور ان کے والد اور والدہ کے پاس سے گزر ہوتا جن کو کفار کی طرف سے مکہ کی شدید گرمی میں وادی ابطح میں عذاب دیا جا رہا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے اے آلِ یاسر! صبر کرو، جنت تمہارا انتظار کر رہی ہے۔

بيهقي، شعب الايمان، 2 : 239، رقم : 21631
حاکم، المستدرک، 3 : 432، رقم : 35646
طبراني، المعجم الکبير، 24 : 303، رقم : 4769
ابن سعد، الطبقات الکبري، 3 : 549
ابن هشام، السيرة النبويه، 2 : 6162
ابن اثير، اسد الغابه، 7 : 152

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...