وجہ وجود کائنات ، باعث تخلیق کائنات ، مقصودِ کائنات ﷺ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
٭ محترم حضرات! یہ ربیع الاول کا نورانی مہینہ، وہ مقدس مہینہ ہے جس میں سید الطیبین والطاہرین، سید المرسلین جناب احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اس دنیا میں جلوہ گر ہوئے۔
٭ اے ماہ ربیع الاول تیری عظمتوں کو سلام تیرے دامن میں اللہ کے محبوب کی ولادت باسعادت کے جلوے نظر آ رہے ہیں جو مومنین کے دِلوں کو روشن کر رہے ہیں۔ میرا ایمان ہے کہ نبی کریمﷺ کی ولادت باسعادت نے حقائق کائنات کو منور کر دیا۔ حضورﷺ خود نور ہیں اور اس نور نے تمام عالم کو ’’نُورٌ علیٰ نُور‘‘ کر دیا۔ حضور نبی کریمﷺ کی ذات مقدسہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا
ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی (س توبہ آیت ۳۳)
ترجمہ٭ وہ وہی ہے جس نے بھیجا اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ
لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا (س آل عمران آیت ۱۶۳)
ترجمہ٭ اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں سے رسول کو بھیجا
قَدْ جَآئَکُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتَابٌ مُّبِیْن ط(س مائدہ آیت ۱۱)
ترجمہ٭ تمہارے پاس نور آیا اور روشن کتاب آئی۔
یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّا اَرْسَلْنَاکَ شَاہِدًا (س احزاب آیت ۴۴)
ترجمہ٭ اے پیارے نبی! ہم نے آپ کو شاہد بنا کر بھیجا۔
٭ قرآن پاک کے عنوانات کو دیکھئے کہ حضورﷺ کے آنے، بھیجے جانے، مبعوث ہونے، جلوہ گر ہونے کیلئے کیسے کیسے عنوانات اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیان فرمائے ہیں اور اس سے حضورﷺ کے تشریف لانیکی عظمت کا اظہار ہوتا ہے۔ ایک اورمقام پر فرمایا
وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن ط (س انبیاء آیت ۱۰۷)
٭ نبی کریمﷺ کی ذات مقدسہ تمام کائنات کیلئے رحمت ہے اور حضورﷺ تمام عالم کیلئے ہدایت بن کر تشریف لائے اور قرآن نے صاف کہا
ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی (س توبہ آیت ۳۳)
٭ میرے دوستو اور عزیزو! حضورﷺ کی ولادت با سعادت کا مضمون جب ذہن میں آتا ہے تو تین چیزیں اپنے ساتھ لاتا ہے۔
(۱) خلقت محمدی (۲) ولادت محمدی (۳) بعثت محمدی
٭ خلقت سے مراد ہے ساری کائنات سے پہلے حضورﷺ کا پیدا ہونا زبانِ نبوت نے فرمایا
٭ اول ما خلق اللّٰہ نوری سب سے پہلے اللہ نے میرا نور پیدا کیا۔ایک اور حدیث میں ارشاد ہوا
یا جابر اول ماخلق اللّٰہ نور نبیک …… (روح المعانی)
ترجمہ٭ اے جابر جو چیز اللہ نے سب سے پہلے پیدا کی وہ تیرے نبی کا نور ہے۔
٭ حضرت امام مجدد الف ثانی سیدی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ نے مکتوبات شریف میں ایک حدیث نقل کی ہے اسکے الفاظ ہیں
قال رسول اللّٰہ ا خلقت من نور اللّٰہ
ترجمہ٭ حضورﷺ نے فرمایا میں اللہ کے نور سے پیدا کیا گیا ہوں۔
٭ یہ ہمارا عقیدہ ہے، ہمارا مسلک ہے، ہمارا مذہب ہے کہ حضورﷺ نور ہیں اور حضورﷺ اللہ کے نور سے پیدا ہوئے اور حضورﷺ نے فرمایا اَنَا اَوَّلُہُمْ خَلْقًا میں سب سے پہلے پیدا ہوا ہوں۔ وَاٰخِرُہُمْ بعثاً اور سب نبیوں کے بعد آیا۔ حضور نبی کریمﷺ نے اپنی اولیت کا ذکر اور مقامات پر بھی فرمایا ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے
٭ کُنْتُ نَبِیًّا وَّاٰدَمُ بَیْنَ الْمَائِ وَالطِّیْن یعنی میں نبی تھا جب آدم مٹی اور پانی میں تھے۔ ایک اور مضمون اسی حدیث کا ترمذی شریف میں بروایت حسن، امام ترمذی نے روایت کیا
٭ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ کُنْتُ نَبِیًّا وَّ اٰدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ فرمایا میں نبی تھا اور آدم علیہ السلام ابھی جسد اور روح میں تھے۔ یعنی ان کی روح ان کے جسم میں داخل نہیں ہوئی تھی اس وقت بھی میں نبی تھا۔
٭ بعض لوگوں نے یہ کہا کہ اسکا مطلب یہ ہے کہ جب آدم علیہ السلام کی روح ان کے بدن میں نہیں پڑی تھی تو میں اللہ کے علم میں نبی تھا۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ خدا کے بندو! کیا اسوقت حضورﷺ ہی اللہ کے علم میں تھے اور کوئی نبی اللہ کے علم میں نہیں تھا؟ بھائی یہ کیا تماشا ہے اور اگر حضورﷺ کے علاوہ سب نبی اللہ کے علم میں تھے تو پھر حدیث کا کیا مطلب ہوا؟ اسلئے محققین نے صاف کہا کہ ’’کُنْتُ نَبِیًّا وَّ اٰدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ میں مسند نبوت پر جلوہ گر تھا اور ارواحِ انبیاء علیہم السلام کو نبوت کا فیض عطا فرما رہا تھا۔
٭ ہمارا مسلک ہے کہ حضورﷺ مبدیِٔ کائنات ہیں، حضورﷺ مخزنِ کائنات ہیں۔ حضورﷺ منشاء کائنات ہیں اور مجھے کہنے دیجئے کہ حضورﷺ مقصودِ کائنات ہیں۔
٭ ایک حدیث میں آیا ہے ’’لو لاک لما خلقت الدنیا‘‘ یعنی اے پیارے حبیب تو نہ ہوتا تو میں دنیا کو نہ بناتا۔ ایک حدیث میں آیا لولاک لما خلقت الافلاک یعنی میرے نبی اگر تجھے پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو میں آسمانوں کو بھی پیدا نہ کرتا ۔ اور تفسیر حسینی میں ایک حدیث نقل کی گئی لولاک لما اظہرت الربوبیۃ پیارے اگرتو نہ ہوتا تو میں اپنے رب ہونے کو ظاہر نہ کرتا۔
٭ اب بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ احادیث ضیعف ہیں، یہ نہیں کہتے کہ ہمارا عقیدہ ضیعف ہے۔ اور میں تو حضورﷺ کے اول ہونے کا مضمون قرآن سے سمجھتا ہوں۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صاف فرمایا ہے۔
وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃَ لِّلْعٰلَمِیْن ط (س انبیاء آیت ۱۰۷)
ترجمہ٭ پیارے حبیب ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر سارے عالموں کے لئے رحمت بنا کر۔
٭ اب بتائیے کہ سارے عالموں میں سوائے اللہ کے سب کچھ شامل ہے یا نہیں؟ ہم سے جو پہلے تھے وہ بھی العالمین میں شامل ہیں تو بتائیے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا حضورﷺ سب کے لئے رحمت کرنے والے ہیں کہ نہیں؟ ہیں اور ضرور ہیں۔
٭ رحمت مصدر ہے اور راحم کے معنی میں ہے۔ صاحب روح المعانی علامہّ سید محمود آلوسی حنفی بغدادی نے ’’وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃَ لِّلْعٰالَمِیْن‘‘ کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھا
وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَاحِماً لِّلْعٰالَمِیْن ط
ترجمہ٭ یعنی اے پیارے حبیب ہم نے آپ کو نہیں بھیجا۔ مگر سارے عالموں کے لئے رحم کرنے والا بنا کر ۔
٭ اب میں آپ سے پوجھتا ہوں کہ سارے عالموں میں اللہ کے سوا سب کچھ شامل ہے کہ نہیں؟ زمین بھی، آسمان بھی، فرش بھی، عرش بھی، ملک بھی فلک بھی، تمام جواہر بھی، عناصر بھی، تمام عالم اجسام، تمام عالم ارواح، موالید ثلاثہ، عالم خلق، عالم امر، عالم تحت، عالم فوق، کل کائنات، العالمین میں داخل ہے۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
٭ ’’میرے پیارے میں نے آپ کو سارے عالموں کے لئے رحمت بناکر بھیجا‘‘
٭ میرے پیارے دوستواور عزیزو! یہ بات ہمارے سامنے قرآن کی آیت میں ہے کہ آپ سارے عالموں کیلئے رحمت ہیں اور رحمت مصدر ہے اور فاعل کے معنیٰ میں ہے یعنی آپ سارے عالموں کیلئے راحم ہیں۔ جو سارے عالموں کیلئے رحمت کرنے والے ہوں تو ایمان سے کہنا کہ سارے عالموں کی حاجت ان کے دامن سے وابستہ ہوگی کہ نہیں۔ بے شک ہوگی۔
٭ صاحب روح المعانی نے عارفین کا ایک قول نقل کیا ہے اور یہ بتایا کہ حضورﷺ کے رحمۃ للعالمین ہونے کی وجہ کیا ہے؟ فرماتے ہیں وجہ یہ ہے کہ حضورﷺ اصل ہیں اور العالمین فرع، اصل جڑ کو کہتے ہیں اور فرع شاخ کو۔
٭ اب یہ بتائیے کہ جڑ نہ ہو توکیا شاخیں باقی رہیں گی؟ اگر درخت کی جڑ سوکھ جائے تو کیا شاخیں ہری رہیں گی؟ یقینا نہیں۔ ارے درخت کی جڑ سے تو سارا کام ہوتا ہے۔ جڑ تنے کو غذا پہنچاتی ہے اور جڑ کی پہنچائی ہوئی غذا تنے سے موٹی شاخوں میں پہنچتی ہے اور پھر چھوٹی چھوٹی شاخوں میں پہنچتی ہے پھر پتوں میں پہنچتی ہے اور پھر پھولوں اور پھلوں میں پہنچتی ہے۔ تو معلوم ہوا کہ سارا تنا اس جڑ کا محتاج ہے اور شاخیں اس جڑ کی محتاج ہیں اور ہر پتہ او رہر پھول اور پھل اس کا محتاج ہے۔ جب تک اس جڑ کا فیض جاری ہے تو شاخیں ہری ہیں اور اگر جڑ کا فیض ختم ہو جائے تو شاخیں بھی سوکھ جائیں گی۔ جس طرح جڑ کو شاخوں کے ساتھ طبعا ً رحمت کا جذبہ پایا جاتا ہے، اسی طرح حضورﷺ کی ذات پاک میں العالمین کے ہر ذرے کے لئے رحمت کا جذبہ پایا جاتا ہے۔
٭ میرے آقا حضرت محمد ﷺ تمام کائنات کے ذرے ذرے کیلئے اصل ہیں اور اس کائنات کا ہر ذرہ، ہر فرد اور ہر گل جو ہمیں نظر آتا ہے اور جو ہمیں نظر نہیں آتا خواہ وہ زمین کے اوپر ہے ، خواہ زمین کے نیچے، وہ ہواؤں میں ہو یا خلاؤں میں، وہ فضاؤں میں ہو یا دریاؤں میں یا پہاڑوں میں ہو، وہ کہیں بھی ہو، زمین میں ہو یا آسمان میں، تحت میں ہو یا فوق میں ہے جہاں بھی کوئی ذرہ ہے، مصطفیٰ ﷺ کی جڑ کیلئے شاخ ہے اور حضورﷺ کا فیض اسیطرح کائنات کے ہر ذرے کو پہنچ رہا ہے، جیسے جڑ کا فیض شاخ کے ہر جز کو پہنچ رہا ہے۔
٭ اب یہ بتائیے کہ جڑ پہلے ہو گی یا شاخ، یقینا جڑ پہلے ہو گی تو یوں کہئے کہ شاخیں تو العالمین ہیں اور جڑ حضورﷺ ہیں، تو حضورﷺ پہلے ہوئے اور العالمین بعد میں۔ اب آپ یہ بتائیں کہ شاخ کو جڑ کی حاجت ہے کہ نہیں؟ یقینا ہے۔ تو یوں کہئے کہ ساری کائنات کو مصطفیٰ ﷺ کی حاجت ہے اور میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ جس کی حاجت ہو وہ پہلے ہوتا ہے اور حاجت والا بعد کو ہوتا ہے۔ تمام کائنات کو حضورﷺ کی حاجت ہے۔ اسلئے حضورﷺ پہلے ہیں اور … کائنات بعد میں ہوئی۔ میرا تو ایمان ہے کہ اگر حضورﷺ نہ ہوں تو کائنات زندہ نہیں رہ سکتی۔
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا، وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہاں کی جان ہے تو جہان ہے
٭ یہ کیا تصور ہے کہ وہ مر کر مٹی میں مل گئے (نعوذ باللہ) ارے وہ مر گئے تو ہم کیسے زندہ رہ گئے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ پاور ہاؤس میں تو بجلی ہے نہیں مگر میرے گھر کے تمام بلب روشن ہیں، کیا آپ اس کی بات کو مان لیں گے؟ یقینا نہیں۔ اے خدا کے بندے پاور ہاؤس میں تو بجلی ہے نہیں تو تیرے گھر کے بلب کیسے روشن ہیں؟ یہ تو ہو سکتا ہے کہ پاور ہاؤس میں بجلی موجود ہو اور تیرے گھر میں اندھیرا ہو۔ اس لئے کہ تونے فٹنگ نہ کرائی ہو اور شاید فٹنگ بھی کرائی ہو تو کنکشن نہ لیا ہو اور ممکن ہے کنکشن بھی لیا ہو تو ابھی بلب نہ لگایا ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بلب بھی لگا ہو مگر فیوز ہی اڑ گیا ہو۔ معلوم ہوا کہ اگر پاور ہاؤس میں بجلی ہو تو تیرے گھر اندھیرا ہو سکتا ہے مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ پاور ہاؤس میں تو بجلی نہ ہواور تیرے گھر میں روشنی ہو۔ یہ تو ممکن ہے کہ حضورﷺ زندہ ہوں اور ہم مردہ ہو جائیں لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ حضورﷺ معاذ اللہ مردہ ہوں اور ہم زندہ رہیں۔ کیوں کہ حضورﷺ اصل ہیں، حضورﷺ مخزنِ حیات ہیں، منبع حیات ہیں، معدن حیات ہیں اور ساری کائنات کے لئے بنیاد ہیں اور بنیاد کے بغیر کوئی شے زندہ نہیں رہ سکتی۔
٭ یہاں شاید کسی کے دل میں یہ شبہ پیدا ہو کہ حضورﷺ پانی بھی پیتے تھے، حضورﷺ زمین پر چلتے تھے، ہوا میں سانس لیتے تھے تو پھر حضورﷺ کو بھی ان ساری چیزوں کی حاجت ہوئی۔ اگر ہمیں حاجت ہے تو پھر حضورﷺ کو بھی حاجت ہوئی۔ اگر کوئی اپنے ذہن میں یہ تصور رکھتا ہے تو معراج کی رات کا تصور قائم کرے۔ اگر زمین ہمارے پاؤں تلے نہ ہو تو ہم کیسے ٹھہریں گے، ہوا نہ ہو تو ہم سانس کہاں لیں گے، پانی نہ ہو تو ہماری زندگی کیسے برقرار رہے گی لیکن جب معراج کی رات آئی تو مسئلہ حل ہو گیا، کیا ہوا، ایمان سے کہنا زمین نیچے رہی مصطفیٰ ﷺ اوپر چلے گئے تم زمین چھوڑ کر ذرا اوپر جاکر دکھاؤ تو پتہ چلے۔ معراج کی رات یہ مسئلہ حل ہو گیا اور بتا دیا کہ دیکھ لو زمین نیچے ہے، مصطفیٰﷺ اوپر ہیں۔ اگر وہ اس کے محتاج ہوتے تو اس کے بغیر کیسے رہ گئے۔ سمجھ لو کہ مصطفیٰ ﷺانکے محتاج نہیں ہیں اور جب حضورﷺ معراج پر گئے تو ایمان سے کہنا کہ پانی نیچے رہا کہ نہیں رہا۔ آگ نیچے رہی، ہوا نیچے رہی۔ پتہ چلا کہ حضورﷺ نہ آگ کے محتاج تھے نہ پانی کے محتاج تھے، نہ ہوا کے محتاج تھے اور نہ زمین کے محتاج تھے۔
٭ شاید کوئی یہ گمان کرے کہ حضورﷺ آسمان کے محتاج ہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا پیارے پہلے آسمان کو چھوڑ کر دوسرے آسمان پر آجا تو آسمان کا بھی محتاج نہیں ہے اور شاید یہ سمجھتا کہ دوسرے کے محتاج ہیں۔ اللہ نے فرمایا پیارے حبیب دوسرے کو چھوڑ کر تیسرے پر آجا کہ لوگوں کو پتہ چلے کہ یہ دوسرے کا بھی محتاج نہیں ہے، پھر چوتھے پر بلایا، پانچویں، چھٹے اور ساتویں پر بلایا پھر عرش پر بلایا حضورﷺ جب عرش پر پہنچے تو شاید لوگ سمجھتے کہ یہ عرش کے محتاج ہیں۔ اللہ نے فرمایا پیارے عرش کو نیچے چھوڑ دے تو اوپر چلا آ۔
٭ اگر مجھ سے پوچھتے ہو تو میں ایک بات کہتا ہوں کہ حضورﷺ تو وہاں گئے جہاں نہ مکان تھا نہ لا مکان۔ کیا مطلب ہوا، مکان نیچے رہا، مصطفیٰ ﷺ اوپر ہوئے لامکان نیچے رہا مصطفیٰ ﷺ اوپر ہوئے۔ معلوم ہوا کہ جو کسی کا محتاج ہو وہ اسکے بغیر نہیں رہ سکتا اور ہمارے نبی ﷺ نہ زمین کے محتاج ہیں نہ آسمان کے نہ وہ مکان کے محتاج ہیں نہ لا مکان کے محتاج ہیں، ارے وہ تو ساری کائنات میں کسی کے محتاج نہیں، کائنات ان کی محتاج ہے وہ تو فقط خالق کائنات کے محتاج ہیں۔
٭ یہاں ایک شبہ پیدا ہو گیا کہ جو کسی کا محتاج ہو وہ اسکے بغیر نہیں رہ سکتا کیوں کہ پرندہ ہوا کا محتاج ہے اور مچھلی پانی کی محتاج ہے۔ پرندوں کو ہوا سے الگ کر دو تو پرندے ہوا کے بغیر مر جائیں گے۔ اسیطرح اگر مچھلی کو پانی سے الگ کر دو تو پانی کے بغیر مچھلی مر جائے گی۔
٭ اگر یہ بات ہے تو شبہ یہ ہے کہ معراج کی رات حضورﷺ ساری کائنات کو چھوڑ کر لامکان پر چلے گئے بلکہ لا مکان کو بھی چھوڑ کر اوپر چلے گئے تو اگر یہ کائنات حضورﷺ کی محتاج تھی تو یہ حضورﷺ کے بغیر کیسے رہ گئی؟ … کیوں کہ جو کسی محتاج ہوتا ہے وہ اس کے بغیر رہ نہیں سکتا۔ یہ کیا بات ہوئی کہ حضورﷺ ہیں نہیں اور زمین ہے۔ حضورﷺہیں نہیں اور آسمان ہے۔ حضورﷺہیں نہیں اور پانی ہے۔ حضورﷺ ہیں نہیں اور آگ ہے۔ حضورﷺہیں نہیں اور ہوا ہے۔ حضورﷺ ہیں نہیں اور جواہر ہیں۔ حضورﷺ ہیں نہیں اور اجسام ہیں۔ حضورﷺ ہیں نہیں اور ارواح ہیں۔ حضورﷺ ہیں نہیں اور عرش ہے۔ حضورﷺ ہیں نہیں اور فرش ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے یہ تو حضورﷺ کے محتاج ہیں تو اگر حضورﷺ نہیں تو یہ کیسے رہ گئے؟
٭ میرے دوستو، عزیزو!میں یہی بات آپ کے ذہن میں ڈالنا چاہتا ہوں کہ ہم نے سمجھا ہی نہیں کہ مصطفیٰ ﷺ ہیں کیا؟
٭ میرے دوستو اور عزیزو!خدا کی قسم! حضورﷺ خدا نہیں ہیں، وہ خدا کے شریک نہیں ہیں، حضورﷺ خدا کے بیٹے نہیں ہیں۔ خدا بیٹے سے پاک ہے، خدا شریک سے پاک ہے۔ خدا وحدہٗ لاشریک ہے۔ حضورﷺ نہ خدا ہیں نہ خدا کے شریک ہیں، ارے وہ تو خدا کے حبیب ہیں اور خدا کے عبد ِ مقدس ہیں۔
٭ اب آپ کہیں گے جب وہ عبد ِ مقدس ہیں تو مخلوق ان کے بغیر کیسے رہ گئی۔ بس یہ بات آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ قرآن حکیم نے ان سب مسائل کو ہمارے سامنے رکھ دیا اور فرمایا
یَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ ط (س نور آیت ۳۵)
ترجمہ٭ یعنی اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے۔
٭ اللہ کی بیان کی ہوئی مثالوں کو دیکھو اور حقائق کو سمجھو، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے متعلق ارشاد فرمایا
وَکَذٰلِکَ نُرِیْ اِبْرَاہِیْمَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ ط (سورئہ انعام آیت ۷۵)
٭ اور اپنے پیارے حبیب ﷺ کے بارے میں فرمایا
اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا وَّدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا ط (سورئہ احزاب آیت ۴۴۔ ۴۵)
ترجمہ٭ پیارے حبیب! ہم نے آپ کو شاہد بنا کر بھیجا، ہم نے آپ کو مبشر بنا کر بھیجا، ہم نے آپ کو نذیر بنا کر بھیجاہے۔ ہم نے آپ کو اپنی طرف سے اپنے حکم سے دعوت دینے والا بنا کر بھیجا ہے اور اے حبیب! ہم نے آپ کو سراج منیر بنا کر بھیجا۔
٭ اللہ تعالیٰ نے میرے آقا حضور پر نورﷺ کو سراج کس لئے بنایا؟ یقینا العٰلمین کے لئے بنایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلیٰ عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْرًا (س: فرقان، آیت: ۱)
٭ تو بھائی جیسا ماحول ہو گا سراج بھی ویسا ہوگا۔ کوئی کسی چھوٹے کمرے کا چراغ ہو گا، کوئی کسی بڑے حال کا چراغ ہو گا، کوئی پورے گھر کا چراغ ہوگا، کوئی پورے شہر کا چراغ ہوگا اور کوئی پورے ملک کا چراغ ہوگا۔ لیکن محمد مصطفیﷺتو ساری کائنات کے چراغ ہیں۔ اب بتائیے کہ چراغ ایک جگہ ہوتا ہے اس کی لَو ایک جگہ ہوتی ہے لیکن اس کی روشنی کہاں تک جاتی ہے۔ اس کی روشنی چھتوں پر ہوتی ہے اس کی روشنی سب جگہ ہے۔
٭ میرے دوستو! عزیزو! میرے آقائے نامدار ﷺ تو سراج منیر ہیں تو سمجھ لو کہ میرے آقافرش پر ہیں تو ان کی روشنی عرش پر جاتی ہے۔ اگر وہ مدینے کا چراغ عرش پر ہے تو اس کی روشنی فرش تک جا رہی ہے اگر وہ چرا غ مکان میں ہے تو لامکان تک اس کی روشنی جاتی ہے اور اگر وہ چراغ لا مکان میں ہے تو مکان تک اس کی روشنی جا رہی ہے تو جہاں اس کی روشنی ہے وہاں مصطفی ﷺموجود ہیں اور جب موجود ہیں۔ تو یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ ان کے بغیر کائنات زندہ رہ سکے۔
٭ میرے دوستو! عزیزو! یہ مصطفیﷺکا کمال، یہ حضورﷺ کاکمال، یہ حضورﷺ کا حسن، یہ حضورﷺ کا جمال حضور کا نہیں، حضورﷺ تو خدا تعالیٰ کی ذات و صفات کا آئینہ ہیں۔ میں نہیں کہتا۔ اے زبان نبوت تجھ پر کروڑوں درود اور سلام، حضورﷺ نے فرمایا!
٭ قال رسول اللّٰہ ﷺ من رأنی فقد رأی الحق فرمایا ’’جس نے مجھے دیکھا اس نے حق کو دیکھا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ بخاری میں بھی ہے اور مسلم شریف میں بھی۔
٭ ہم حضورﷺ کو خدا کا شریک نہیں مانتے، ہم حضورﷺ کو خدا تعالیٰ کی مثیل نہیں مانتے، ہم حضورﷺ کو خدا کا نظیر نہیں مانتے تعالی اللّٰہ عن ذالک علوا کبیراط اللہ تعالیٰ نظیر سے پاک ہے، وہ مثیل سے پاک ہے، وہ شریک سے پاک ہے، ارے حضورﷺ اللہ کے شریک نہیں ہیں۔ واللہ باللہ ثم تاللہ! حضورﷺ تو خدا کی ذات و صفات کا آئینہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے جمال الوہیّت کو اپنے حبیب ﷺ کی ذات میں ظاہر کیا۔ میں حیران ہوں کہ اگر یہ شرک ہے تو پھر ساری کائنات شرک سے بھری پڑی ہے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ میں اور مجھ میں کوئی خوبی ہے تو وہ کس کی ہے میری اور تمہاری ہے یا خدا کی دی ہوئی ہے؟ یقینا خدا کی عطا کردہ ہے تو جب خدا کا کمال تم میں اور مجھ میں ظاہر ہو تو کوئی شرک نہیں اور حضورﷺ میں ظاہر ہو تو شرک ہوجائے کیا تماشہ ہے؟
ٔ٭ میرے دوستو اور عزیزو!ہم حضورﷺ کو خدا کا جزو نہیں سمجھتے بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ تم تو حضورﷺ کو خدا کے نور سے مانتے ہو تو جتنا نور حضورﷺمیں آیا اتنا نور خدا میں کم ہوگیا لہٰذا تم نے حضورﷺ کو خدا کے نور سے مان کر خدا کے نور کو ناقص کردیا۔ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ ط
٭ عزیزانِ گرامی!دیکھئے یہ بات تو تب ہوگی کہ جب خدا کا کوئی جز ہو، وہ تو جز سے پاک ہے اور مجھے کہنے دیجئے وہ جز ہی نہیں بلکہ وہ تو کل سے بھی پاک ہے نہ خدا کو جزو کہہ سکتے ہیں اور نہ کُل کہہ سکتے ہیں۔ ہاں وہ جز کا بھی خالق ہے اور کُل کا بھی خالق ہے خود نہ جز ہے نہ کُل ہے۔ جز اس لئے نہیں کہ اگر ہم خدا کو جز مان لیں تو ترکیب ہوگی اور جہاں ترکیب ہوگی وہاں حدوث ہوگا۔ اگر حدوث ہو تو خدا تعالیٰ کا وجود ختم ہوگیا اور اگر ہم خدا کو کل مان لیں گے تب بھی یہی بات ہوگی۔
کیوں کہ کُل کے معنیٰ تو یہ ہیں کہ بہت سے اجزاء کو جمع کرلو اور سب کو ملالو۔ اجزاء کے مجموعے کا نام کُل ہوتا ہے اجزاء ہوں گے تو مجموعہ ہوگا اور اگر مجموعہ نہیں تو کل نہیں اور اجزاء نہیں تو کل نہیں اگر خدا کو کُل کہو گے تو پہلے اجزاء ماننے پڑیں گے۔ ایمان سے کہنا کہ کیا خدا کے اجزاء ہیں، اگر اجزاء نہیں تو مجموعہ کہاں سے آئے گا۔ مجموعہ نہیں تو کُل کس کو کہو گے اسلئے مان لو کہ خدا کُل نہیں، خدا تو ہر کُل کا خالق ہے۔ ہر کُل کو خُدا نے پیدا کیا۔ خدا جز نہیں ہے بلکہ وہ تو ہر جزو کا خالق ہے اور ہر جزو کو خدا نے پیدا کیا۔ لہٰذا حضورﷺ خدا کا جز نہیں ہیں۔
٭ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضورﷺ خدا کے نور سے کیسے پیدا ہوگئے کیونکہ خدا کا نور تو کبھی جز نہیں ہوا۔میں سمجھاتا ہوں، دیکھے سورج آسمان پر چمک رہا ہے، آپ نیچے زمین پر آئینہ رکھ دیں، ایمان سے کہنا کہ اس شیشے میں سورج چمکتا ہوا نظر آئے گا یا نہیں؟ اس آئینے میں روشنی اور نور آئے گا یا نہیں۔ یقینا آئے گا۔ اب بتائیے کہ اس میں جو روشنی ہے وہ سورج کی ہے یا نہیں؟ (اس کے بعد بھی) اگر کوئی یہ کہے کہ نہیں جناب یہ سورج کی روشنی نہیں ہے (تو ایسے کم فہم نے حقائق سے اعراض کیا) اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ جتنی روشنی اس (آئینہ) میں آئی اتنی روشنی سورج میں کم ہوجانی چاہئے؟ کیا آپ اس بات کو مان لیں گے؟ یقینا نہیں مانیں گے، آپ دوسرا آئینہ رکھ دیں، تیسرا رکھ دیں، لاکھوں بلکہ کروڑ وں شیشے زمین پر بچھادیں، ہر آئینہ میں پورا سورج نظر آئے گا۔ مگر وہاں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ اگر کوئی یہ کہے کہ نہیں صاحب کمی تو ہوگی تو میں اُن سے یہ پوچھتا ہوں کہ ایک دو شیشے رکھنے سے کچھ کمی ہو اگر ہزاروں لاکھوں شیشے رکھ دئے جائیں تو سورج کا بالکل صفایا ہی ہوجاناچاہئے اور سورج کا سارا نور ان آئینوں میں تقسیم ہوکر ختم ہوجائے تو بھائی اگر کروڑوں شیشے بھی رکھ دئے جائیں تو وہاں کمی نہیں آئے گی۔ جب وہاں کمی نہیں آئی تو پتہ چلا کہ شیشہ جو سورج کے نیچے رکھا ہے وہ سورج کا جز نہیں ہے اور سورج جو اس میں چمکتا ہوا نظر آرہا ہے آپ اس شیشے کے نور کو کیا کہیں گے، سورج کا جز نہیں کہہ سکتے، بلکہ سورج کا جلوہ کہیں گے۔ کیوں کہ نہ تو اصل سورج شیشے میں آیا او رنہ ہی شیشہ سورج کا حصہ بنا بلکہ شیشہ سورج کے نور کا مظہر بنا۔
٭ میرے آقا حضور پُر نور ﷺ نے فرمایا
’’انا مرأۃ جمال الحق‘‘ یعنی ’’میں تو حق کے جمال کا آئینہ ہوں‘‘
٭ شیشے میں جو نور نظر آئے گا وہ آفتاب کا نور ہوگا اور مصطفیﷺ میں جو نور نظر آئے گا وہ خدا کا نور ہوگا۔ بس میں یہ کہتا ہوں کہ حضورﷺ میں جو علم نظر آیا وہ حضورﷺ کا نہیں بلکہ خدا کا علم ہے، جو قدرت حضورﷺ میں نظر آئی وہ حضورﷺ کی نہیں وہ خدا کی ہے اگر حضورﷺ میں خدا کی قدرت کا ظہور نہ ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ جبل ابوقبیس پر حضورﷺ نے چاند کو انگلی کا اشارہ فرمایا اور چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ یہ حضورﷺ کی قدرت نہ تھی بلکہ خدا کی قدرت کا ظہور تھا۔
٭ میرے دوستو اور عزیزو!ہمیں دین ملا تو رسول اللہ ﷺکی زبان سے، خدا کی معرفت ملی تو رسول کی زبان سے، قرآن ملا تو رسول اللہ ﷺ کی زبان سے، قرآن اللہ کا کلام ہے لیکن اللہ کا کلام ہونیکے باوجود وہ رسول اللہ ﷺکا کہا ہوا ہے، میں نہیں کہتا قرآن کہتا ہے۔
اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ ط (س معارج آیت ۴۰)
ترجمہ٭ یعنی ’’قرآن کلام میرا ہے قول رسول کریم کا ہے۔‘‘
٭ اگر رسولِ کریمﷺکہہ کر نہ بتاتے تو تمہیں کیا پتہ چلتا کہ کیا ہے، لہٰذا خدا کے کلام کا جلوہ حضورﷺکے کلام میں، اللہ تعالیٰ کے علم کا جلوہ، حضورﷺ کی سمع میں سبحان اللہ! وہ کیسی سمع ہے، بخاری شریف کی حدیث ہے حضور نبی کریمﷺ معراج سے واپس تشریف لائے تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا بلال! تو وہ عمل بتا جو تو کرتا ہے۔ میں نے جنت میں اپنے آگے تیرے چلنے کی آواز سنی ہے؟ یہاں لوگوں نے کہا، اگر حضورﷺ کو علم ہوتا تو آپ حضرت بلال سے کیوں پوچھتے، ارے یہ بات نہ تھی کیوں کہ بلال نے ایسا کوئی عمل نہیں کیا جس کا حضورﷺ کو علم نہ ہو جس عمل کرنے سے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو یہ مرتبہ ملا اگر اس عمل کا علم حضورﷺ کو نہ ہوتو عمل کرنے والا جنت میں کیسے جاسکتا ہے۔ دراصل بات یہ تھی کہ بلال تم خود اپنے منہ سے کہو تاکہ اس اہمیت والے عمل کا پتہ چلے اور لوگوں کو شوق پیدا ہو۔ یہ ایک نفسیاتی بات ہے۔
٭ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے آقا تحیۃ الوضو بھی پڑھتا ہوں اور تحیۃ المسجد بھی پڑھتا ہوں۔ اب یہاں میں ایک بات آپ سے پوچھتا ہوں کہ جب حضور نبی کریمﷺ معراج پر تشریف لے گئے تو کیا حضرت بلال ساتھ گئے تھے؟ یقینا نہیں گئے تھے اور جب گئے نہیں تو وہاں تھے نہیں اور جب تھے نہیں تو چلے بھی نہیں، اور جب چلے نہیں تو چلنے کی آواز پیدا نہیں ہوئی اور جب آواز پیدا نہیں ہوئی تو حضورﷺ نے کیا سنا؟ تو یہ کیا بات ہوئی۔
٭ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بلال زمین پر چل رہے تھے۔ حضورﷺنے وہاں ان کی آواز سن لی۔ اگر یہ بات ہے تو یہ بھی تمہارے لئے مصیبت ہے تم تو کہتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ کو یارسول اللہ مت کہو، کیوں کہ آپ دور سے نہیں سنتے تو بھائی جو جنت میں رہ کر یہاں کی آواز سن لے تو وہ یا رسول اللہ کی آواز کیسے نہیں سنیں گے۔ مگر یہاں تو زمین پر چلنے کی بات نہیں۔ حضورﷺ فرما رہے تھے، اے بلال! میں تیرے چلنے کی آواز اپنے کانوں سے سن رہا ہوں۔ بات تو جنت میں چلنے کی ہے اور حضرت بلال حضورﷺ کیساتھ گئے نہیں تو یہ کیا ہوگیا؟
٭ اب میرے ذوق کی بات ہے کوئی مانے یا نہ مانے مجھے چھوڑ دیں بات یہ ہے کہ حدیث میں آتا ہے کہ جنت میں کوئی نبی داخل نہ ہوگا جب تک حضورﷺ داخل نہ ہوجائیں اور کسی نبی کی امت داخل نہ ہوگی جب تک حضور کی اُمت داخل نہ ہوجائے۔ حضورﷺ کی حدیث ہے۔ اَنَا اَوَّلُ مَنْ یَّقْرَعُ بَابَ الْجَنَّۃِ یعنی ’’سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹانے والا میں ہوں‘‘ اور حضورﷺ بڑی شان سے جنت میں جائیں گے۔ حضورﷺاپنی اونٹنی (ناقہ) پر سوار ہوں گے اور اسکی مہار بلال کے ہاتھ میں ہوگی۔ اب ایمان سے کہنا کہ جسکے ہاتھ میں مہار ہو وہ پہلے آگے ہو گا کہ نہیں؟ یقینا وہ آگے ہوگا۔ شاید آپ دِل میں یہ سوچیں کہ ہم تو سنتے تھے کہ حضورﷺ سے پہلے تو نبی بھی نہیں جائیں گے، یہاں تو بلال پہلے چلے گئے۔ تو سنئے حضرت بلال پہلے نہیں گئے یہ تو مہار کی برکت ہے۔ مہار چھوڑ دیں پھر دیکھیں بلال کیسے جنت میں جاتے ہیں۔ حقیقت میں تو حضورﷺ ہی پہلے جا رہے ہیں، ورنہ بلال تو حضورﷺ کیساتھ لگ کر جارہے ہیں تو حضورﷺ ناقہ سواری پر سوار ہوں گے، حضرت بلال کے ہاتھ میں مہار ہوگی۔ بلال آگے آگے چلتے ہوں گے جب جنت میں چلیں گے تو آواز پیدا ہوگی تو جو آواز لاکھوں برس بعد پیدا ہوگی۔ حضورﷺ نے وہ پہلے سن لی۔ سبحان اللہ! میرے آقا آپ کی قوت سمع پر لاکھوں سلام۔
No comments:
Post a Comment