کھجور کے تنے کی نبی کریم ﷺ سے محبّت کا بے مثال واقعہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسلام کے ابتدائی دور میں آقا دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجدِ نبوی میں کھجور کے ایک خشک تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر وعظ فرمایا کرتے تھے اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کافی دیر کھڑے رہنا پڑتا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ مشقت شاق گزری۔ ایک صحابی جس کا بیٹا بڑھئی تھا، نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے منبر بنانے کی درخواست کی تاکہ اُس پر بیٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ دیا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس درخواست کو پذیرائی بخشی، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کے تنے کو چھوڑ کر اس منبر پر خطبہ دینا شروع کیا۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ اس تنے سے گریہ و زاری کی آوازیں آنے لگیں۔ اُس مجلسِ وعظ میں موجود تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اُس کے رونے کی آواز سنی۔ آقا ئے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب یہ کیفیت دیکھی تو منبر سے اُتر کر اس ستون کے پاس تشریف لے گئے اور اُسے اپنے دستِ شفقت سے تھپکی دی تو وہ بچوں کی طرح سسکیاں بھرتا ہوا چپ ہو گیا۔
ابن ماجہ، 1 : 2455
دارمی، السنن، 1 : 29، رقم : 332
طبرانی، المعجم الاوسط، 2 : 367، رقم : 2250
اُس ستون کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کی روایت اس طرح ہے :
کان النبی صلی الله عليه وآله وسلم يخطب إلی جذع، فلما اتخذ المنبر تحوّل إليه فحن الجذع، فأتاه فمسح يده عليه.
’’رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک کھجور کے تنے کے ساتھ خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ جب منبر تیار ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُسے چھوڑ کر منبر پر جلوہ افروز ہوئے۔ اُس تنے نے رونا شروع کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے پاس تشریف لے گئے اور اُس پر دستِ شفقت رکھا۔‘‘
بخاری، الصحيح، 3 : 1314، کتاب المناقب، رقم : 23390
ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 594، ابواب المناقب، رقم : 33627
ابن حبان، الصحيح، 14 : 435، رقم : 46506
بيهقي، السنن الکبري، 3 : 195، رقم : 5489
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اﷲ عنہما تنے کی کیفیت بیان کرتے ہیں :
فصاحت النخله صياح الصبي، ثم نزل النبي صلي الله عليه وآله وسلم فضمها إليه، تئن أنين الصبي الذي يسکن.
’’کھجور کے تنے نے بچوں کی طرح گریہ و زاری شروع کر دی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبرسے اُتر کر اُس کے قریب کھڑے ہو گئے اور اُسے اپنی آغوش میں لے لیا، اس پر وہ تنا بچوں کی طرح سسکیاں لیتا خاموش ہو گیا۔‘‘
بخاري، الصحيح، 3 : 1314، رقم : 23391
بيهقي، السنن الکبري، 3 : 195، رقم : 5489
حضرت انس بن مالک اور حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنھم اُس تنے کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
فسمعنا لذالک الجذع صوتا کصوتِ العشار، حتی جاء النبی صلی الله عليه وآله وسلم فوضع يده عليها فسکنت.
’’ہم نے اُس تنے کے رونے کی آواز سنی، وہ اُس طرح رویا جس طرح کوئی اُونٹنی اپنے بچے کے فراق میں روتی ہے حتٰی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تشریف لا کر اُس پر اپنا دستِ شفقت رکھا اور وہ خاموش ہو گیا۔‘‘
بخاري، الصحيح، 3 : 1314، کتاب المناقب، رقم : 23392
دارمي، السنن، 1 : 30، رقم : 334
بيهقي، السنن الکبري، 3 : 195، رقم : 45487
ابن سعد، طبقات الکبري، 1 : 5253
ابن جوزي، صفوۃ الصفوه، 1 : 98
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم فرماتے ہیں :
لولم أحتضنه لحن إلی يوم القيامة.
’’اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس ستون کو بانہوں میں لے کر چپ نہ کراتے تو قیامت تک روتا رہتا۔‘‘
ابن ماجه، السنن، 1 : 454، کتاب اقامة الصلوٰة والسنة فيها، رقم : 21415
احمد بن حنبل، المسند، 1 : 3363
ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 319، رقم : 431746
ابويعلي، المسند، 6 : 114، رقم : 53384
عبد بن حميد، المسند، 1 : 396، رقم : 1336
یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشتِ اقدس کے لمس کا اثر تھا کہ ایک بے جان اور بے زبان لکڑی میں آثارِ حیات نمودار ہوئے جس کا حاضرینِ مجلس نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی حدیثِ مبارکہ میں اس طرح ہیں :
کان جذع نخلة فی المسجد يسند رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ظهره إليه إذا کان يوم الجمعة أوحدث أمر يريد أن يکلم الناس، فقالوا : ألانجعل لک يارسول اﷲ شيئاً کقدر قيامک، قال : لا، عليکم أن تفعلوا. فصنعوا له منبراً ثلاث مراق. قال : فجلس عليه، قال : فخار الجذع کما تخور البقرة جزعا علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فالتزمه و مسحه حتي سکن.
’’مسجد نبوی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ پڑھنے کے لئے جمعہ کے دن یا کسی ایسے وقت میں جب لوگوں کو کوئی حکمِ الٰہی پہنچانا ہوتا، کھجور کے ایک ستون سے پشت مبارک لگا کر کھڑے ہوا کرتے تھے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا کہ اگر آپ حکم فرمائیں تو آپ کے لئے کوئی ایسی شے تیار کی جائے جس پر آپ کھڑے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر ایسا کر سکتے ہو تو اجازت ہے۔ چنانچہ تین درجوں والا ایک منبر تیار کرایا گیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کہتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس پر کھڑے ہو کر خطبہ پڑھنے لگے تو ستون سے رونے کی آواز سنی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوراً منبر سے اُترے، اُسے سینہ سے لگایا اور (جیسا کہ بچوں کے چپ کرانے کے لئے کیا جاتا ہے) اُس پر محبت اور شفقت سے ہاتھ پھیرتے رہے، یہاں تک کہ وہ پرسکون ہو گیا۔‘‘
احمد بن حنبل، المسند، 2 : 109
مثنوی مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ : ہجرِ نبی کا پیکرِ شعری
مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے اِسی واقعہ کو اپنے پیار بھرے اشعار میں بیان کیا ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے مع ترجمہ حاضر ہیں :
استنِ حنانہ در ہجرِ رسول
نالہ میزد ہمچو اربابِ عقول
(رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فراق میں کھجور کا ستون انسانوں کی طرح رو دیا۔)
درمیانِ مجلسِ وعظ آنچناں
کزوے آگاہ گشت ہم پیر و جواں
(وہ اس مجلسِ وعظ میں اس طرح رویا کہ تمام اہلِ مجلس اس پر مطلع ہوگئے۔)
در تحیر ماند اصحابِ رسول
کز چہ مے نالد ستوں با عرض و طول
(تمام صحابہ حیران ہوئے کہ یہ ستون کس سبب سے سرتاپا محوِ گریہ ہے۔)
گفت پیغمبر چہ خواہی اے ستوں
گفت جانم از فراقت گشت خوں
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ستون تو کیا چاہتا ہے؟ اس نے عرض کیا : میری جان آپ کے فراق میں خون ہوگئی ہے۔)
مسندت من بودم از من تاختی
بر سرِ منبر تو مسند ساختی
(پہلے تو میں آپ کی مسند تھا، آپ نے مجھ سے کنارہ کش ہوکر منبر کو مسند بنالیا۔)
پس رسولش گفت کای نیکو درخت
اے شدہ باسر تو ہمراز بخت
گرہمے خواہی ترا نخلے کنند
شرقی و غربی ز تو میوہ چنند
(آپ نے فرمایا : اے وہ درخت جس کے باطن میں خوش بختی ہے، اگر تو چاہے تو تجھ کو پھر ہری بھری کھجور بنا دیں حتی کہ مشرق و مغرب کے لوگ تیرا پھل کھائیں۔)
یا دراں عالم حقت سروے کند
تا ترو تازہ بمانی تا ابد
(یا اللہ تعالیٰ تجھے اگلے جہاں بہشت کا سرو بنا دے تاکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تروتازہ رہے۔)
گفت آن خواہم کہ دائم شد بقاش
بشنو اے غافل کم از چوبے مباش
(اس نے عرض کیا : میں وہ بننا چاہتا ہوں جو ہمیشہ رہے۔ اے غافل! تو بھی بیدار ہو اور ایک خشک لکڑی سے پیچھے نہ رہ جا (یعنی جب ایک لکڑی دار البقاء کی طلب گار ہے تو انسان کو تو بطریقِ اولیٰ اس کی خواہش اور آرزو کرنی چاہئیے۔)
آں ستون را دفن کرد اندر زمین
تاچو مردم حشر گردد یومِ دیں
(اس ستون کو زمین میں دفن کردیا گیا، تاکہ قیامت کے دن اسے انسانوں کی طرح اٹھایا جائے۔)
بھت خوب ہے اللہ تعالیٰ آپ کو جزاءے خیر عطا فرماءے اٰمین
ReplyDelete