حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کا ایک ایمان افروز واقعہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
غزوہء تبوک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا آخری معرکہ تھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنفسِ نفیس شرکت فرمائی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعض جنگی حکمتِ عملیوں اور مصلحتوں کے پیش نظر کسی غزوۂ پر روانہ ہونے سے پہلے اپنے عزائم عام لوگوں سے خفیہ رکھا کرتے تھے لیکن غزوہ تبوک ایسا پہلا موقع تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلانیہ طور پر مسلمانوں کو بھرپور جنگی تیاریوں کا حکم دیا حتی کہ نو مسلموں کے لئے بھی اس مہم میں حصہ لینا لازمی قرار دے دیا۔
جب جہاد کے لئے لشکرِ اسلام کی تیاری کا اعلانِ عام ہوا۔ اُن دنوں جزیرہ نمائے عرب شدید گرمی کی لپیٹ میں آیا ہوا تھا۔ فصلِ خرما پک چکی تھی، تمازتِ آفتاب کا وہ عالم تھا کہ ہر ذی روح کو سائے کی تلاش تھی۔ اس سے قبل کافی عرصے سے قحط سالی کے باعث مسلمان انتہائی عسرت کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ باربرداری اور سواری کے جانوروں کی شدید قلت تھی، سفر طویل تھا اور وسائل کا فقدان ایک پریشان کن مسئلہ تھا۔ اس پر مستزاد اسلام دشمن منافقین نے اس نازک صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لئے لشکرِ اسلام میں وسوسے اور پھوٹ ڈالنے کی کوششیں تیز کر دی تھیں۔ کبھی وہ مسلمانوں کو موسم کی شدت سے ڈراتے، کبھی بے آب و گیاہ صحرائی سفر کی صعوبتوں کا ذکر کر کے ان کے پائے استقلال کو ڈگمگانے کی سعی کرتے اور کبھی رومیوں کی فوجی قوت کو بڑھا چڑھا کر اُن کے حربی اسلحہ اور ساز و سامان سے مسلمانوں کے حوصلے (morale) پست کرنے کا جتن کرتے، الغرض مختلف نفسیاتی حربے بروئے کار لائے جا رہے تھے۔ اس عالم میں جہاد کا اعلان مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑا امتحان اور چیلنج تھا مگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم جو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و اتباع میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کے جذبے سے سرشار تھے وہ کب ان سازشیوں کو خاطر میں لاتے۔ انہوں نے کسی مصلحت اور اندیشۂ دور و دراز کو اپنے پاؤں کی زنجیر نہیں بننے دیا اور بغیر کسی تاخیر کے اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت میں ہر پیر و جوان سر پر کفن باندھ کر تبوک کے طویل سفر پر روانہ ہو گیا۔ لیکن تین مخلص صحابہ کرام رضی اللہ عنھم محض سستی اور غفلت کی وجہ سے پیچھے رہ گئے، اس واقعہ کی تفصیلات اہلِ سیر اور ائمہ تفسیر نے خود حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی زبانی بیان کی ہیں۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے دوسرے دو ساتھی جو غزوہء تبوک میں اسلامی لشکر کے ساتھ نہ جا سکے حضرت مرارۃ بن الربیع اور حضرت ہلال بن امیہ رضی اﷲ عنہما تھے۔
حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کا شمار صاحبِ ثروت لوگوں میں ہوتا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ سواری کے لئے ایک اونٹ خریدوں گا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ لشکر میں شامل ہو جاؤں گا۔ مرارہ بن الربیع رضی اللہ عنہ کا بھی یہی ارادہ تھا۔ وہ بھی اونٹ خرید کر لشکرِ اسلام میں شامل ہونا چاہتے تھے۔ دونوں حضرات اسی شش و پنج میں تھے کہ آج چلتے ہیں کل چلتے ہیں، جب زیادہ دن گزر گئے تو یہ سوچ غالب آگئی کہ اب تو روانگی میں غیر معمولی تاخیر ہو چکی ہے، ممکن ہے وہ اسلامی لشکر میں شامل ہی نہ ہوسکیں، اسی ادھیڑ بن میں سفرِ جہاد پر روانہ نہ ہوسکے۔ جب مدینہ میں گھر سے باہر نکلتے تو سوائے ضعیفوں اور منافقین کے انہیں کوئی نظر نہ آتا۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا اور وہ لشکرِ اسلام میں شمولیت کی سعادت سے محروم رہ گئے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب تبوک سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واپسی کی خبر ملی تو ندامت و شرمندگی کے مارے ہم میں سے ہر ایک کو یہی خیال ہر وقت دامن گیر رہنے لگا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا منہ دکھائیں گے۔ وہ کبھی اپنے اہلِ خانہ سے مشورہ طلب کر تے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائیں تو مجھے کیا کرنا چاہئے، کبھی ذہن میں یہ خیال ابھرتا کہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنالوں گا۔ پھر ہم میں سے ہر ایک نے یہ فیصلہ کرلیا کہ نتائج خواہ کچھ بھی ہوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں سچ کے سوا کچھ نہیں کہیں گے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دلوں کے پوشیدہ اَحوال نورِ نبوت سے جان لیتے ہیں، ان سے کوئی چیز مخفی نہیں رہ سکتی۔
تبوک سے واپسی پر جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں ٹھہرے تو وہاں پیچھے رہ جانے والے لوگ بھی اکٹھے ہوگئے، جن کی تعداد راویانِ حدیث نے اسّی پچاسی کے لگ بھگ بیان کی ہے۔ ان میں ہر کوئی قسمیں کھا کھا کر کوئی نہ کوئی عذر پیش کر رہا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی ظاہری قسموں پر اعتبار کر کے درگزر سے کام لیا۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب میری باری آئی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معنی خیز تبسم فرمایا، جس سے ناگواری اور ناراضگی جھلک رہی تھی۔ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : تمہیں کس بات نے پیچھے رکھا، کیا تم نے سواری نہیں خریدی تھی؟ عرض کیا : یا رسول اللہ! اگر میرا معاملہ کسی دنیا دار سے ہوتا تو میں بھی کوئی بہانہ بنا کر چھوٹ جاتا لیکن میرا معاملہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہے لہٰذا سچ سچ بیان کروں گا۔ آقا! سچی بات یہ ہے کہ میں آسودہ حال تھا کوئی عذر اور بہانہ نہیں بس غفلت کا شکار ہوگیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے سچ کہا، اس لئے اب انتظار کر یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تیرے بارے میں کوئی فیصلہ کر دے۔ فرماتے ہیں : میں محفل سے اٹھا تو بنی مسلمہ کے چند آدمی اٹھ کر میرے ساتھ باہر آئے اور مجھے ملامت کرنے لگے، حتیٰ کہ میں نے سوچا کہ واپس جا کر اپنا بیان بدل دوں کہ مجھے حضرت معاذ بن سہیل رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نظر آئے۔ انہوں نے میری ہمت بندھائی کہ سچ پر قائم رہو، اللہ تمہارے لئے کشادگی کی کوئی نہ کوئی راہ پیدا کر دے گا۔ اِسی طرح حضرت ہلال بن اُمیہ رضی اللہ عنہ اور مرارہ بن الربیع رضی اللہ عنہ کا یہی معاملہ رہا۔
یہ تینوں مخلصین کڑی آزمائش میں ڈالے گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کے سماجی مقاطعہ (social boycott) کا حکم صادر فرمایا تو نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ لوگوں نے ان سے بات چیت تک کرنا چھوڑ دی۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’سماجی مقاطعہ کے نتیجہ میں لوگ ہم سے اجتناب کرنے لگے۔ دوسرے دو ساتھی تو شرم کے مارے گھروں سے باہر نہ نکلے۔ میں ہمت کر کے بازار میں جاتا، مسجد میں نماز پڑھتا، لوگوں کو سلام کہتا لیکن کوئی جواب نہ دیتا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کرتا تو وہ منہ پھیر لیتے۔ جب میں نماز میں متوجہ ہو جاتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے دیکھتے لیکن جب میں دیکھتا تو اعراض فرماتے۔ ایک دن میں اپنے چچازاد اور بچپن کے دوست ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی دیوار پر چڑھ کر بڑے رنج اور کرب سے کہنے لگا کہ تم میرے سلام کا جواب کیوں نہیں دیتے، تم تو مجھے بچپن سے جانتے ہو، میں منافق نہیں، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں۔ میں نے یہ جملہ تین بار دہرایا تو اُس نے صرف اتنا کہا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ یہ جواب سن کر میری آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور بوجھل دل کے ساتھ واپس لوٹ آیا۔
یہ تینوں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم توفیقِ ایزدی سے اس کڑی آزمائش اور امتحان کے کڑے مرحلے سے گزرے لیکن زبان سے اُف تک نہ کی۔ جب اس سوشل بائیکاٹ کے پہاڑ جیسے چالیس دن گزر گئے تو بارگاہِ نبوی سے حکم صادر ہوا کہ اپنی بیویوں سے بھی علیٰحدہ ہوجاؤ۔ یہ بڑا نازک مرحلہ تھا۔ جذباتی سطح پر ایک طوفان کھڑا ہوسکتا تھا لیکن ایک لمحہ کا توقف کئے بغیر حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے سرِ تسلیم خم کر دیا۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا : کیا طلاق دے دوں؟ بتایا گیا کہ نہیں صرف وقتی طور پر علیحدگی اختیار کر لو۔ یہ حکم ملتے ہی میں نے اپنی بیوی کو اس کے میکے بھیج دیا۔ ادھر حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے رو روکر اپنا برا حال کر رکھا تھا۔ ان کی زوجہ محترمہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بیکس پناہ میں حاضر ہوئیں، عرض کیا : یا رسول اللہ! ہلال رضی اللہ عنہ بڑی عمر کے ہیں، رو رو کر ہلکان ہوئے جا رہے ہیں، جب سے سماجی مقاطعہ ہوا ہے فرطِ غم سے کھانا پینا بھی چھوڑ دیا ہے، کسی وقت چند لقمے لے لیتے ہیں، دن کو روزہ رکھتے ہیں، ساری ساری رات نوافل ادا کرتے اور توبہ و استغفار کرتے گزارتے ہیں، ڈر ہے کہیں وہ ہلاک نہ ہو جائیں۔ یا رسول اللہ صلی اللّٰہ علیک وسلم! کوئی خادم بھی نہیں کہ ان کی دیکھ بھال کر سکے، اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں حسبِ سابق ان کی خدمت بجا لاتی رہوں؟ کتبِ سیر و احادیث میں ہے کہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کو بھی کسی نے مشورہ دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی بیوی کو اپنے پاس ٹھہرنے کی اجازت لے لیں۔ فرماتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں یہ عرض کرتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے۔ نجانے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا جواب ارشاد فرمائیں، میں یہ سوال کرنے کی جرات نہیں رکھتا۔ اسی کشمکش میں پچاس دن گزر گئے۔
ان صبر آزما لمحات میں حضرت کعب بن مالک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک ایسی مصیبت اور آزمائش کا مرحلہ آیا جس نے ان کے دن کے سکون اور رات کے آرام کو غارت کر دیا۔ وہ فرماتے ہیں : ’’میں ایک روز مدینہ کے بازار میں گھوم رہا تھا کہ ایک شامی کسان جو مدینہ میں غلہ فروخت کرنے آیا کرتا تھا، وہ میرے بارے میں لوگوں سے پوچھتا پھر رہا تھا کسی نے اشارے سے میرا پتہ بتا دیا تو وہ میرے پاس آگیا۔ اس نے مجھے شاہِ غسان کا ریشمی غلاف میں ملفوف ایک خط دیا۔ اس میں جو کچھ لکھا تھا وہ اس طرح تھا :
أما بعد! فإنه قد بلغنی أن صاحبک قد جفاک ولم يجعلک اﷲ بدار هوان ولا مضيعة، فالحق بنا نواسک.
بخاری، الصحيح، 4 : 1606، کتاب المغازي، رقم : 24156
مسلم، الصحيح، 4 : 2125، کتاب التوبة، رقم : 32769
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 4458
ابن حبان، الصحيح، 8 : 160، رقم : 53370
بيهقي، السنن الکبري، 9 : 635
ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 424، رقم : 737007
عبد الرزاق، المصنف، 5 : 403، رقم : 89744
طبراني، المعجم الکبير، 19 : 45، رقم : 990
طبري، تفسير، 11 : 1060
ابن هشام، السيرة النبويه، 5 : 11218
ابن کثير، السيرة النبويه، 3 : 1245
ابن قيم، زاد المعاد، 3 : 13554
حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 14125
ابن عبد البر، الدرر، 1 : 15245
ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 25
’’اما بعد! مجھے اطلاع پہنچي ہے کہ تیرا صاحب (مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تجھ سے ناراض ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ذلت و رسوائی اور ضائع ہونے کے لئے پیدا نہیں کیا۔ ہمارے پاس چلے آؤ ہم تم سے بہتر سلوک کریں گے۔‘‘
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شاہی مکتوب پڑھنے کے بعد میں نے اپنے آپ سے کہا : یہ پہلے سے بھی زیادہ کڑی آزمائش ہے، (افسوس کہ) میرے ایمان پر حملہ کرنے کے لئے ایک مشرک بادشاہ بھی مجھ پر ڈورے ڈالنے لگا ہے۔ میں نے اس کا خط پھاڑ کر تنور میں پھینک دیا (اور اس کی مذموم پیشکش کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیا)۔
ان مخلص صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے آزمائش کا مرحلہ پچاس دنوں کے بعد مکمل ہوا، اللہ رب العزت نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور اس کا اعلان بذریعہ وحی فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بشارت دی اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم انہیں مبارک باد دینے کے لیے ان کے گرد جمع ہوگئے کہ وہ ہر کڑے امتحان میں سرخرو نکلے تھے۔ اللہ رب العزت نے قرآن میں اِرشاد فرمایا :
لَقَد تَّابَ الله عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِن بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌO وَعَلَى الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُواْ حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّواْ أَن لاَّ مَلْجَأَ مِنَ اللّهِ إِلاَّ إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُواْ إِنَّ اللّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُO
القرآن، التوبه، 9 : 117، 118
’’یقینا اللہ نے نبی (معظم) پر رحمت سے توجہ فرمائی اور ان مہاجرین اور انصار پر (بھی) جنہوں نے (غزوہ تبوک کی) مشکل گھڑی میں (بھی) آپ کی پیروی کی اس (صورت حال) کے بعد کہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل پھر جاتے، پھر وہ ان پر لطف و رحمت سے متوجہ ہوا، بیشک وہ ان پر نہایت شفیق، نہایت مہربان ہےo اور ان تین شخصوں پر (بھی نظر رحمت فرما دی) جن (کے فیصلہ) کو مؤخر کیا گیا تھا یہاں تک کہ جب زمین باوجود کشادگی کے ان پر تنگ ہوگئی اور (خود) ان کی جانیں (بھی) ان پر دوبھر ہوگئیں اور انہیں یقین ہوگیا کہ اللہ (کے عذاب)سے پناہ کا کوئی ٹھکانہ نہیں بجز اس کی طرف (رجوع کے) تب اللہ ان پر لطف و کرم سے مائل ہوا تاکہ وہ (بھی) توبہ و رجوع پر قائم رہیں، بے شک اللہ بڑا توبہ قبول فرمانے والا، نہایت مہربان ہےo‘‘
ایمان کی پختگی اور استقامت کا یہ واقعہ دراصل ان عاشقانِ زار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا تھا جو حقیقتاً حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسیر تھے، وہ تو اپنے آقا و مولا کو چھوڑ کر کسی اور کے در کی دریوزہ گری کا تصور بھی نہ کرسکتے تھے۔ انہوں نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دی گئی ہر کڑی سے کڑی آزمائش کو نہ صرف خندہ پیشانی سے قبول کیا بلکہ امتحان کی بھٹی سے کندن بن کر نکلے۔ اسلام دشمن صاحبانِ اقتدار و اختیار نے تو ایسے موقعوں پر بھی اُن کے قصرِ ایمان میں نقب لگانے کی اپنی سی کوشش کی مگر وہ کسی لالچ اور دُنیوی مفاد کو خاطر میں نہ لائے، اس لئے کہ وہ تو حسنِ مصطفیٰ کے اسیر تھے اور دنیا کی کوئی طاقت کسی قیمت پر ان کی وفاداری کا سودا نہیں کرسکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی سے بڑی پیشکش کو بھی انہوں نے پائے اِستحقار سے ٹھکرا دیا اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضی پر کسی پرکشش مادی منفعت کو بھی ترجیح نہ دی اور ہر نئی بلا اور مصیبت کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔
اللہ تعالیٰ ہمارا حشر بھی انہی نفوسِ قدسیہ کے ساتھ فرمائے اور ہمیں بھی ایسا مقبول اور تائب بندہ بنائے۔ رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ
ReplyDelete