حضرت ابو خیثمہ رضی اللہ عنہ کا فقید المثال جذبۂ حبّ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
غزوۂ تبوک کے موقع پر مسلمان اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلانِ جہاد کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اطاعت و اتباع اور ایثار و بے نفسی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ وہ اپنی جان کی پروا کر رہے تھے اور نہ انہیں مال و دولت اور اہل و عیال کی محبت مرغوب تھی۔ ایسے میں بعض مخلص اور سچے اہلِ ایمان بھی بوجوہ پیچھے رہ گئے لیکن جب انہیں محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یاد آئے اور ان کی چشمِ تصور میں اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنِ بے مثال منور و تاباں ہوا تو وہ دنیا کی تمام آسائشوں اور مرغوبات کو ٹھکراتے ہوئے سیدھے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں آ گرے۔ ایسے عشاقانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ایک جاں نثار صحابی حضرت ابو خیثمہ مالک بن قیس رضی اللہ عنہ کا نام بھی آتا ہے۔ وہ بھی بوجوہ بروقت لشکرِ اسلام کے ساتھ روانہ نہ ہوسکے تھے لیکن احساسِ ندامت نے انہیں جلدی رختِ سفر باندھنے پر مجبور کر دیا اور وہ سیدھے جا کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں قدم بوسی کے لئے حاضر ہوگئے۔ ان کی روانگی کا واقعہ بڑا ہی ایمان افروز اور حبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آئینہ دار ہے۔ اہلِ سیر لکھتے ہیں کہ ان کی دو بیویاں تھیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بڑے حسن و جمال سے نوازا تھا۔ جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے غزوۂ تبوک کے موقع پر خطۂ عرب شدید قحط کی زد میں تھا اور اوپر سے سورج بھی آگ برسا رہا تھا۔ انہی ایام میں جب مجاہدینِ اسلام تبوک کی طرف روانہ ہونے کو تھے حضرت ابو خیثمہ رضی اللہ عنہ اپنے کھجوروں کے باغ میں آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان کی دونوں بیویوں نے باغ کے اندر اپنے سائبانوں کو خوب اچھی طرح آراستہ پیراستہ کر کے اور پانی کے چھڑکاؤ سے خوب ٹھنڈا کر رکھا تھا۔ شدید گرمی کے اس موسم میں جب ہر ذی روح العطش العطش پکار رہا تھا ٹھنڈے پانی کا بھی وافر بندوبست تھا۔
علاوہ ازیں دونوں بیگمات خوب بن سنور کر ان کے لئے سراپا انتظار تھیں۔ انہوں نے اپنے شوہر نامدار کے لئے کھانا بھی تیار کر رکھا تھا اور دونوں کی یہی خواہش تھی کہ وہ پہلے اس کے خیمے میں آئیں۔ جب حضرت ابو خیثمہ رضی اللہ عنہ باغ کے اندر آئے تو دروازے پرکھڑے ہوکر دونوں بیویوں کے بناؤ سنگھار کو دیکھا، ان کے خیموں کا خوب جائزہ لیا جنہیں انہوں نے بلا کی گرمی میں بے حد آرام دہ اور ٹھنڈا بنا رکھا تھا۔ اس موقع پر حضرت ابو خیثمہ رضی اللہ عنہ کے عشق کا امتحان ہوا، لیکن انہوں نے اس ظاہری اور عارضی آرام اور عیش و عشرت پر اس دائمی و ابدی آرام کو ترجیح دی جو بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ان کا منتظر تھا۔ اہلِ سیر لکھتے ہیں کہ اس موقع پر انہوں نے فرمایا :
رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فی الضح والرّيح والحر، وأبو حيثمة في ظل بارد و طعام مهيا، و امرأة حسناء في ماله مقيم، ما هذا بالنصف! ثم قال : واﷲ! لا أدخل عريس واحدة منکما حتي الحق برسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فهيأ لي زاداً، ففعلتا.
ابن هشام، السيرة النبويه، 5 : 2200
ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 37
ابن کثير، السيرةالنبويه، 3 : 413
ابن قيم، زاد المعاد، 3 : 5530
ابن عبد البر، الاستيعاب، 4 : 61642
ابو عبدالله الدورقي، مسند سعد بن ابي وقاص، 1 : 140، رقم : 80
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو دھوپ، آندھی اور گرمی میں سفر پر ہوں اور ابو خیثمہ یہاں ٹھنڈے سائے، تیار کھانے اور خوبرو حسین و جمیل بیویوں کے ہمراہ اپنے مال و متاع میں محوِ استراحت ہو، یہ قرینِ انصاف نہیں۔ پھر (اپنی بیویوں کو مخاطب کر کے) فرمایا : خدا کی قسم! میں تم دونوں میں سے کسی ایک کے بھی سائبان میں داخل نہیں ہوں گا یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جاملوں، لہٰذا تم دونوں فوراً میرے لئے زادِراہ کا انتظام کرو، چنانچہ دونوں بیویوں نے ان کے لئے زادِ راہ تیار کیا۔‘‘
لشکرِ اسلام سوئے تبوک روانہ ہوچکا تھا۔ چنانچہ بلاتاخیر حضرت ابو خیثمہ رضی اللہ عنہ بلاتاخیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش و جستجو میں روانہ ہوگئے، یہاں تک کہ تبوک پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا سارا ماجرا کہہ سنایا، جسے سن کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبسم فرمایا اور ان کے لئے خیر و برکت کی دعا فرمائی۔ یوں یہ عاشقِ صادق اور اسیرِ حسن مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلووں سے فیض یاب ہوا۔
No comments:
Post a Comment