حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورمحبت رسول ﷺ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر جو کیفیت گزرتی تھی اس کے بارے میں وہ خود روایت کرتے ہیں کہ میں نے بارگاہِ نبوی میں عرض گزاری :
إنی إذا رأيتک طابت نفسي و قرت عيني، فأنبئني عن کل شيء، قال صلي الله عليه وآله وسلم : کل خلق اﷲ من الماء.
’’جب میں آپ کی زیارت سے مشرف ہوتا ہوں (تو تمام غم بھول جاتا ہوں اور) دل خوشی سے جھوم اٹھتا ہے اور آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتی ہیں، پس مجھے تمام اشیاء (کائنات کی تخلیق) کے بارے میں آگاہ فرمائیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ہر شے کی تخلیق پانی سے کی ہے۔‘‘
احمد بن حنبل، المسند، 2 : 2323
حاکم، المستدرک، 4 : 176، رقم : 37278
ابن حبان، الصحيح، 6 : 699، رقم : 42559
هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 168، رقم : 5641
هيثمي، مجمع الزوائد، 5 : 616
ابن راهويه، المسند، 1 : 84، رقم : 7133
طبراني، المعجم الکبير، 3 : 63، رقم : 82676
بيهقي، شعب الايمان، 6 : 252، رقم : 8051
ایک دن حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے جاں نثار صحابہ رضی اللہ عنھم کی محفل میں تشریف فرما تھے کہ اچانک ان کے درمیان سے اٹھ کر کہیں تشریف لے گئے، واپسی میں ذرا تاخیر ہوگئی تو غلامانِ مصطفیٰ کے چہرے مرجھا گئے، وہ پریشان ہوئے کہ کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نقصان نہ پہنچا دیا ہو۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ دوسروں کی نسبت زیادہ مضطرب تھے۔ جب انتظار کی گھڑیاں طویل ہوگئیں تو وہ سب تلاشِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نکل پڑے۔ چلتے چلتے ایک باغ تک جا پہنچے، کوشش کے باوجود باغ کا دروازہ کہیں نظر نہ آیا، ایک چھوٹی سی نالی باغ میں داخل ہو رہی تھی۔ باقی تو باہر ٹھہر گئے لیکن حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سمٹتے سمٹاتے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے، وہاں حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر جان میں جان آئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اچانک اپنے درمیان پا کر پوچھا : ’’ابوہریرہ! تم ۔ ۔ ۔ یہاں؟‘‘ جی آقا! غلام حاضر ہے۔ ’’کیا بات ہے؟‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حیران ہو کر پوچھا۔ وہ عرض کرنے لگے : یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک وسلم! میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپ ہمارے درمیان سے اٹھ آئے تھے، واپسی میں دیر ہوگئی تو ہمیں اضطراب نے آگھیرا، چنانچہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکل پڑے اور چونکہ باغ میں داخل ہونے کا کوئی دروازہ نہ تھا اس لئے میں ایک نالی کے ذریعہ سمٹ سمٹا کر باغ کے اندر آیا ہوں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور دوسرے جاں نثار بھی میرے پیچھے تھے اور وہ باہر کھڑے ہیں۔
مسلم، الصحيح، 1 : 60، کتاب الايمان، رقم : 231
ابن حبان، الصحيح، 10 : 409، رقم : 34543
ابو عوانه، المسند، 1 : 21، رقم : 417
ابن منده، الايمان، 1 : 226، رقم : 588
ابو نعيم، المسند المخرج علي صحيح الامام مسلم، 1 : 125، رقم : 11141
No comments:
Post a Comment