سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
الحمدللہ مسلمانان عالم ہر سال حضور ﷺ کے یوم ولادت کو عقیدت و احترام اورجوش و جذبے سے مناتے ہیںعید میلاد النبی ﷺ کا مطلب حضور ﷺ کی ولادت کی خوشی منانا ہے اوراس خوشی کے اظہار کے لئے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنی فہم و بساط کے مطابق مختلف ذرائع اور طریقے استعمال کرتے ہیں جس میں جھنڈیاں لگانا، چراغاں کرنا، قرآن خوانی، نعت خوانی، درود و سلام و سیرت طیبہ کے بیان کی محافل کا انعقاد کرنا، لنگر تقسیم کرنا، گلیوں بازاروں کو سجانا وغیرہ اُمور شامل ہیں۔ اللہ عزوجل نے خود ایسے دنوں کی اہمیت یاد دلانے کا حکم دیا اور ان کو عام دنوں سے ممیز اور ممتاز فرمایا،چنانچہ آیت قرآنی ہےوَ ذَکِّرْھُمْ بِاَیَّامِ اللّٰہِ اور انہیں اللہ کے دن یاد دلا۔ (پارہ13،ابراھیم:05) ایک آیت کریمہ میں اللہ عزوجل نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت کے دن ، وفات کے دن اور دوبارہ اٹھنے کے دن پر سلامتی نازل فرمائی۔وَ سَلٰم’‘ عَلَیْہِ یَوْمَ وُلِدَ و َ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُبؑعَثُ حَیًّا اور سلامتی ہے اس پر جس دن پیدا ہوا اور جس دن مرے گا اور جس دن زندہ اٹھایا جائے گا۔(پارہ16، مریم: 15) قرآن پاک میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا منقول ہے وَالسَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَ یَوْمَ اَمُوْتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا اور وہی سلامتی مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا،جس دن مروں گا اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں گا۔(پارہ16،مریم:33) معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی ولادت و وصال کے دن عام دنوں جیسے نہیں، مذکورہ بالا آیت کریمہ میں اللہ عزوجل نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت و وصال کے دن پر سلامتی نازل فرمائی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ویسی سلامتی کی دعا فرمائی تو حضور ﷺ کی ولادت و وصال کے دن پر کس قدر سلامتی نازل ہوتی ہو گی اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔لہذا میلاد مصطفی ﷺ سے روکنا در حقیقت رب تعالیٰ کے انعام و اکرام، فیوض و برکات اور سلامتی سے محروم کرنا ہے۔ اب کچھ عرصہ سے بعض مدعیانِ اسلام نے احکام قرآنی کے برعکس و برخلاف عید میلادالنبی ﷺ کے رد میں اشتہارات ، پمفلٹ، رسالے تقسیم کرنا ، ایس ایم ایس کرنااپنا مشغلہ بنا رکھا ہے اور یوں میلاد شریف کے متعلق عوام الناس کے قلوب و اذہان میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی سعیِ مذموم کرتے ہیں۔ اپنی روایتی ہٹ دھرمی پر چلتے ہوئے اہل علم حضرات سے چھپ چھپ کر کم علم مسلمانوں سے بحث کرتے ہیںاور اہل علم حضرات سے کتراتے ہیں۔ ان کی بے سروپا باتوں سے کچھ ان پڑھ یا کم علم مسلمانوں کے دلوںمیں وسوسے جنم لینے لگتے ہیں۔ ہم اس رسالہ میں ان مسلمان بھائیوں کے وساوس رفع کرنے، علمی تشنگی مٹانے کے لئے منکرین میلاد کی طرف سے اب تک قائم کردہ اعتراضات کو مع جواب تحریر کر رہے ہیں، ملاحظہ فرمائیں؛اعتراض نمبر1: میلاد منانا شرک ہے۔ استغفراللہ العظیم، جاہلوں سے رب تعالیٰ کی پناہ، منکر میلاد بغضِ مصطفی ﷺ میں کس قدر علمی خیانت کا مرتکب ہو رہا ہے کہ عیدمیلاد پر شرک کا فتوی چسپاں کر دیا جب کہ عید میلادالنبی ﷺ کا مطلب ہی حضور ﷺ کی ولادت کی خوشی منانا ہے اور رب تبارک و تعالی کی شان تو لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ ہے۔ یعنی نہ اُس کو کسی نے جنا اور نہ ُاس نے کسی کو جنا۔تو میلاد النبی منانا تو درحقیقت شرک کی جڑ کاٹنا ہے ۔لہذا ولادت مصطفی ﷺ پر خوشی منانے کو اَن پڑھ ،جاہل، متعصب ہی شرک کہہ سکتا ہے۔ منکرمیلاد سے سوال: (۱)کسی کام کو شرک کہنے کے لئے دلیل قطعی کی حاجت ہے اگر میلاد شریف کے شرک ہونے پر آپ کے پاس کوئی دلیل قطعی ہے تو بیان کرو ،ورنہ بلا دلیل شرک کا فتوی لگا کر جہنم کے حق دار مت بنو۔ (۲) اگرعید میلاد النبی ﷺ منانا شرک ہے تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ تم لوگ ۱۲ ربیع الاول کے دن’ عیدمیلاد اللہ‘ کے قائل ہو، کیا تمہارے نزدیک رب کی پیدائش ثابت ہے؟ والعیاذ باللہ تعالی اعتراض نمبر2: میلاد منانا بدعت ہے یہ اعتراض بھی معترض کی جہالت کی دلیل ہے، کیونکہ بدعت اس کام کو کہتے ہیںجس کی کوئی حقیقت اسلام میں نہ ہو جب کہ حضور ﷺ کی آمد کی خوشی منانا ،حضور ﷺ کے ذکر پاک کی محافل کا انعقاد کرنا تو عین اسلام ہے اور اس کا قرآن و حدیث میں منقول ہونا اور انبیاء کرام و صحابہ کامعمول ہونا ہم ان شاء اللہ آگے ثابت کریں گے۔ یہاں ایک حدیث مبارکہ کو بیان کرنا ضروری ہے جس کو منکرین میلاد دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیںمَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدّ’‘۔ اس کاترجمہ یوں کرتے ہیں: جس نے ہمارے اس دین میں ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔(بخاری: 2499، مسلم:3241، سنن ابی داود:3990) جبکہ درست ترجمہ یہ ہے’’ جس نے دین میں وہ بات پیدا کی جو دین کی قسم سے نہیں (بلکہ دین کی ضد اور مخالف ہے)تو وہ مردود ہے۔‘‘ اگر ان حضرات کے مطابق ترجمہ کیا جائے تو صحیح مسلم شریف کی اس حدیث مبارکہ کا کیا معنی کیا جائے گا جس میں اسلام میں اچھی اچھی بدعتیں( یعنی نئے کام) ایجاد کرنے کی اجازت خود رسول اللہ ﷺ نے تعلیم فرمائی ہے۔؛ مَنْ سَنَّ فِي الْاِسْلاَمِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَعُمِلَ بِہَا بَعْدَہٗ کُتِبَ لَہ‘ مِثْلُ أَجْرِ َمنْ عَمِلَ بِہَا وَ لاَ یُنْقَصُ مِنْ أُجُورِہِمْ شَیْیئٌ ۔ ترجمہ: جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ رائج کیا اس کے لئے اس کا اجر ہے اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والوں کا بھی، اور ان کے اجر میں کچھ کمی نہ کی جائے گی۔(صحیح مسلم: حدیث: 4830،سنن ابن ماجہ :حدیث: 203،مسند احمد:18387، مصنف عبد الرزاق:حدیث:21025،معجم کبیرطبرانی:حدیث: 2384،سنن دارمی:حدیث: 521) پس ثابت ہوا کہ میلاد شریف کو بدعت کہنا بے بنیاد ہے اور معترض کی علم دین سے جہالت کی دلیل ہے۔منکر میلاد سے سوال: اگر میلاد منانا بدعت ہے تو رائیونڈ اجتماع،مرید کے اجتماع، جشن صد سالہ دیوبند، ختم بخاری، مقابلہ حسن قرأت، سیرت النبی ﷺ کانفرنسز، دفاع پاکستان کانفرنسز، طلبا کانفرنسز، یوم یکجہتیء کشمیر، مفتی محمود (والد مولوی فضل الرحمن دیوبندی)کی برسی منانا کیسے جائز ہے؟اعتراض نمبر3: کیا صحابہ ء کرام نے میلاد منایا؟ دورِ نبوت میں یہ دن 23 مرتبہ، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں 2 مرتبہ، عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں 10 مرتبہ ، عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں12 مرتبہ، علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے دور میں 5 مرتبہ آیا ، کیا انہوں نے میلاد منایا؟ ’شرم تم کو مگر نہیں آتی‘ اے منکر میلاد تیری چوری پکڑی گئی ۔ ہر وقت رَٹ تُو قرآن و حدیث کی لگاتا ہے اور جب میلاد کی بات آئی تو خاص صحابہ کرام کے فعل سے دلیل کیوں طلب کی حالانکہ خود تمہارے لوگوں نے لکھا ہے کہ’’ مدعی سے صرف دلیل طلب کی جائے گی نہ کہ دلیل خاص۔‘‘(انوارات صفدر، جلد1، صفحہ363 مطبوعہ اتحاد اہل السنۃ والجماعۃ، پاکستان)مشہور دیوبندی مناظر امین صفدر اوکاڑوی نے لکھا ہے :’’مدعی سے خاص دلیل کا مطالبہ کرنا کہ یہ خاص قرآن سے دکھاؤ یا خاص ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث دکھاؤ یا خاص فلاں فلاں کتاب سے دکھاؤ یہ محض دھوکا اور فریب ہے کتاب و سنت نے دلیل خاص کی ہر گز پابندی عائد نہیں کی، اَن پڑھ لوگوں سے اس قسم کی شرائط پر دستخط لئے جاتے ہیں جو شرعاََ باطل ہوتی ہیں یہ خاص مرزا قادیانی کی سنت ہے۔‘‘ (مجموعہ رسائل ، جلد1، ص165مطبوعہ ادارہ غلام احناف، لاہور) بہر حال ہم اولاََ قرآن پاک سے بیان میلاد ثابت کرتے ہیں، اللہ عزوجل نے اپنے پاک کلام میں حضور ﷺ اور دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کا میلاد (تشریف آوری کا)بیان فرمایا ہے۔ چند آیات پیش خدمت ہیں:فَبَشَّرْنٰھَا بِاِسْحٰقَ وَ مِنْ وَّرَآئِ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ تو ہم نے اسے اسحاق کی خوش خبری دی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی(پارہ 12، ھود:71) اَنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْییٰ بے شک اللہ آپ کو مژدہ دیتا ہے یحییٰ کا(پارہ 3، ال عمران:39)اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُ اسْمُہُ الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللہ تجھے بشارت دیتا ہے اپنے پاس سے ایک کلمہ کی جس کا نام ہے مسیح، مریم کا بیٹا (پارہ 3، ال عمران:45)میلاد مصطفی ﷺ بزبان عیسیٰ علیہ السلام:مُبَشِّرًا بِرِّسُوْلِ یَّاتِیْ مِنْ بَعْدِیْ اِسْمُہٗ اَحْمَدْ ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے۔(پارہ22، الصف:06) قرآن پاک اور بیان میلاد مصطفی ﷺ:وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثٰقَ النّبِیّٖٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّ حِکْمَۃِِ ثُمَّ جَآئَ کُمْ رَسُوْل’‘ مُّصَدِّق’‘ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنْصُرُنَّہ‘ اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیاجو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا(پارہ 3، ال عمران:81)قَدْ جَائَ کُمْ مِنَ اللّٰہِ نُوْر’‘ بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا(پارہ 6،المائدہ:15) یَاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَ مُبَشِّرًا وَ نَذِیْرًا وَ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی)بے شک ہم نے تم کو بھیجاحاظروناظر اور خوش خبری دیتا اور ڈر سناتا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا اور چمکا دینے والاآفتاب۔(پارہ22، الاحزاب:46۔45) وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِلْعٰلَمِیْن اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے(پارہ17، الانبیائ:107) وَ مَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر خوشی اور ڈر سناتا(پارہ19، الفرقان:56)لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُوْل’‘ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْز’‘ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْص’‘ عَلَیْکُمْ بِالْمُوْمِنِیْنَ رَئُ وْف’‘ رَّحِیْم’‘ بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراںہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان(پارہ11، یونس:128)یٰایُّھَا النَّاسُ قَدْ جَائَ کُمْ بُرْھَان’‘ مِّنْ رَّبِّکُمْ اے لوگو بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے واضح دلیل آئی۔ (پارہ06، النسائ:174) قرآن پاک میں اللہ عزوجل نے حضور ﷺ کے میلاد شریف کی قسم ارشاد فرمائی ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : وَ وَالِد’‘ وَّ مَاوَلَدْ قسم ہے والد کی اور قسم ہے مولود کی۔(پارہ30، البلد:3) اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ ’’وَلَدْ‘‘ سے مراد ذات مصطفی ﷺ ہے۔ (المظہری،ج1،ص264،الکشاف، ج4،ص255، غرائب القرآن للنیشاپوری،زیرآیت)حضور ﷺ اللہ عزوجل کا ’فضل‘، ’رحمت‘ اور ’نعمت‘ ہیں اور فضل، نعمت اور رحمت کے ملنے پر قرآنی حکم ہے کہ خوشیاں منائی جائیں، اور رب کی نعمت کا خوب خوب چرچا کیا جائے۔ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَ بِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ھُوَ خَیْر’‘مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ۔ تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اوراسی پر چاہیے کہ خوشی کریں وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے۔(پارہ11،یونس:58)وَ اَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ۔ اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔ (پارہ 30، الضحیٰ: 11)منکرمیلاد سے سوال: کیا وہابی دیوبندی حضور ﷺ کواللہ عزوجل کی نعمت ، فضل اور رحمت تسلیم نہیں کرتے؟ اگر کرتے ہیں تو پھر حکم قرآنی کے مطابق حضور ﷺ کی آمد کا چرچا کیوں نہیںکرتے؟
حضور ﷺ نے خود صحابہ کے مجمع میں اپنا میلاد بیان فرمایا:پہلی حدیث :اِنِّیْ عِنْدَ اللّٰہِ مَکْتُوْب’‘ خَاتِمُ النَّبِیِّیْنَ وَ اِنَّ اٰدَمَ لَمُنْجَدِل’‘ فِیْ طِیْنَتِہٖ وَسَاُخْبِرُکُمْ بِأَوَّلِ اَمْرِیْ دَعْوَۃُ اِبْرَاھِیْمَ وَ بَشَارَۃُ عِیْسٰی وَ رَؤیَا اُمِّیْ اَلَّتِیْ رَأَت حِیْنَ وَضَعَتْنِیْ وَ قَدْ خَرَجَ لَھَا نُوْر’‘ اَضَائَ لَھَا مِنْہُ قُصُوْرُ الشَّامَ ۔ بے شک میں اللہ عزوجل کے ہاں اس وقت بھی خاتم النبیین لکھا ہوا تھا جب آدم علیہ السلام ابھی مٹی کے خمیر میں تھے اور میں تمہیںپہلے کی خبر دیتا ہوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں ،عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں اور اپنی والدہ کا خواب ہوں جو کہ انہوں نے میری وقت ولادت دیکھا بے شک اُن سے ایک نور خارج ہوا جس سے اُن کے لئے شام کے محلات روشن ہو گئے۔ (مسنداحمد،حدیث:16525،مستدرک للحاکم:4140، معجم الکبیر للطبرانی :15032، صحیح ابن حبان:6150)دوسری حدیث: فَقَامَ النَّبِیُّ ﷺ عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ مَنْ اَنَا فَقَالُوْا اَنْتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ السَّلَامُ قَالَ اَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ اِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِیْ فِیْ خَیْرِھِمْ ثُمَّ جَعَلَھُمْ فِرْقَتَیْنِ فَجَعَلَنِیْ فِیْ خَیْرِھِمْ ثُمَّ جَعَلَھُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلَنِیْ فِیْ خَیْرِھِمْ قَبِیْلَۃً ثُمَّ جَعَلَھُمْ بُیُوتًا فَجَعَلَنِیْ فِیْ خَیْرِھِمْ بَیْتًا وَّ خَیْرِھِمْ نَفْسَاایک دن رسول اللہ ﷺ منبر پر جلوہ افروز ہوئے۔ آپ ﷺ نے صحابہء کرام سے پوچھا: میں کون ہوں؟صحابہ ء کرام نے عرض کیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا: میں محمدبن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق بنائی تو مجھے بہترین مخلوق میں رکھا، پھر اس کے دو گروہ بنائے تو مجھے بہترین گروہ میں رکھا، پھر قبیلے بنائے تو مجھے بہترین قبیلے میں رکھا، پھر ان قبائل کو گھروں میں تقسیم کیا تو مجھے بہترین گھرانے اور خاندان میں رکھا۔(ترمذی:3455،3541، مسند احمد:1692)
صحابہ کرام اور محفل میلاد مصطفیﷺ امام بخاری کے استاد امام احمد بن حنبل لکھتے ہیں ، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کا اپنے اصحاب کے ایک حلقہ سے گزر ہوا آپ ﷺ نے فرمایا: مَا اَجْلَسَکُمْ تم یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ انہوں نے کہا جَلَسْنَانَدْعُوا اللّٰہَ وَ نَحْمَدُہٗ عَلٰی مَا ھَدَانَا لِدِیْنِہٖ وَ مَنَّ عَلَیْنَا بِکَ ۔ہم اللہ عزوجل کا ذکر کرنے اور اس نے ہمیں جو اسلام کی ھدایت عطا فرمائی اس پر اس کی حمد و ثنا بیان کرنے اور اس نے آپ ﷺ کو بھیج کر ہم پر جو احسان کیا ، اس کا ذکر کرنے کے لئے یہ جلسہ منعقد کیا ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا :آللَّہِ مَا اَجْلَسَکُمْ اِلَّا ذٰلِکَ بخدا تم صرف اسی وجہ سے بیٹھے ہو؟صحابہ نے عرض کیا: آللّٰہِ مَا اَجْلَسَنَا اِلَّا ذٰلِکَ بخدا ہم اسی وجہ سے بیٹھے ہیں۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اَمَا اِنِِّیْ لَمْ اَسْتَحْلِفْکُمْ تُھْمَۃً لَّکُمْ وَ اِنَّمَا اَتَانِیْ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ فَاَخْبَرَنِیْ اَنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یُبَاھِی بِکُمُ الْمَلَائِکَۃَ میں نے کسی بدگمانی کی وجہ سے تم سے قسم نہیںلی لیکن ابھی میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے تھے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ اللہ عزوجل تمہاری وجہ سے فرشتوں پر فخر کر رہا ہے۔(مسند کبیر للطبرانی، رقم: 16057، مسند امام احمد بن حنبل رقم: 16960، نسائی، جلد2، ص310، رقم:5428 )مسلم شریف اور ترمذی شریف میں کچھ الفاظ کے فرق کے ساتھ یہ حدیث منقول ہے۔ قارئین کرام میلاد النبی ﷺ پر صحابہ کرام کی خوشیاں ملاحظہ کیں خود حضور اکرم نور مجسم ﷺہر سال نہیں بلکہ ہر پیر کے دن روزہ رکھ کر اپنے میلاد کی خوشی منائی، صحابہ کرام نے پیر کے دن روزہ رکھنے کی وجہ پوچھی تو آپﷺ نے فرمایا، ’’ اسی دن میں پیدا ہوا اور اسی روز مجھ پر قرآن نازل کیا گیا۔‘‘ (صحیح مسلم، رقم: 1977، ابوداؤد، رقم:2071، مسندا حمد بن حنبل، رقم الحدیث: 22997،22952،22917،22908، 22904) یہ تو چند ایک حوالہ جات قرآن و حدیث سے پیش کر دئیے ورنہ محفل میلاد کے جواز پر یہی دلیل کافی ہے کہ شریعت اسلامیہ میں اس سے منع نہیں کیا گیا اور یہ عام قاعدہ ہے کہ جو چیز منع نہ ہو وہ جائز ہوتی ہے۔اسی قاعدے کو وہابی مولوی ثناء اللہ نے مسجدوں میں محراب کے جواز پر بطور دلیل پیش کیا ہے۔ (فتاوی ثنائیہ، جلد1،ص 476،مطبوعہ ادارہ ترجمان السنہ، لاہور) ہم نے قرآن و حدیث و تعامل صحابہ سے میلاد کے دلائل پیش کئے اب ذرا خبر منکرین میلاد کے گھرکی بھی لینی ضروری ہے۔ قارئین کرام غور فرمائیں کہ صحابہ کے عمل سے دلیل کا تقاضا کرنے والوں کے نزدیک صحابہ کا قول و فعل حجت (دلیل) نہیں۔ چندحوالے پیش خدمت ہیں؛ وہابی مولوی محمد جوناگڑھی نے اپنی کتاب ’’طریق محمدی‘‘ میں لکھا، ’’ بہت سے صاف صاف موٹے موٹے مسائل ایسے ہیں کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ان میں غلطی کی۔‘‘ (طریق محمدی، صفحہ 78، مطبوعہ مکتبہ محمدیہ چیچہ وطنی ) وہابیوں کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری طلاق ثلاثہ کے بارے حضرت عمررضی اللہ عنہ کے فیصلہ کو رد کرتے ہوئے لکھتا ہے؛ ’’ہم اسے کیوں مانیں ہم ’’فاروقی‘‘تو نہیں، ہم محمدی ہیں ہم نے ان کا کلمہ تو نہیں پڑھا۔‘‘ (فتاوی ثنائیہ جلد2،صفحہ 252مطبوعہ ادارہ ترجمان السنۃ، لاہور)وہابیوں کے نزدیک فعل صحابہ حجت نہیں وہابیوں کے شیخ الکل مولوی نذیر حسین دہلوی نے لکھا ہے، ’’فہم صحابہ حجت شرعی نہیں ہے۔‘‘ (فتاوی نذیریہ ، جلد1،ص622مطبوعہ اہل حدیث اکیڈمی، کشمیری بازار لاہور) مزید لکھتا ہے : ’’اس سے حجت نہیں لی جا سکتی کیونکہ صحابی کا قول ہے‘‘(فتاوی نذیریہ، جلد1،ص340)وہابی نظریہ: صحابہ نے قرآن و سنت کے خلاف قانون جاری کیا: مولوی رئیس ندوی غیرمقلد وہابی لکھتا ہے: ’’ایک سے زیادہ واضح مثالیں ایسی موجود ہیں جن میں حضرت عمر یا کسی بھی خلیفہ راشد نے نصوص کتاب و سنت کے خلاف اپنے اختیار کردہ موقف کو بطور قانون جاری کر دیا تھا۔‘‘ (تنویر الآفاق، ص 108مطبوعہ صہیب اکیڈمی، کوٹلی ضلع شیخوپورہ)وھابی عقیدہ: نبی کی رائے بھی حجت نہیں: وھابی مولوی محمد جوناگڑھی اپنی کتاب طریق محمدی میں لکھتا ہے: ’’جس دین میں نبی کی رائے حجت نہ ہو ، اس دین والے آج ایک امتی کی رائے کو دلیل سمجھنے لگے۔‘‘ (طریق محمدی ، صفحہ 59مطبوعہ مکتبہ محمدیہ ، چیچہ وطنی )سوچنے کی بات:جب وہابیہ کے نزدیک نبی و صحابہ کی بات دلیل نہیں تو پھر محفل میلاد کے جائز ہونے کے لئے صحابہ کرام کے فعل سے دلیل کا تقاضا کیسا!!!منکرمیلاد سے سوال: اب ہم منکر میلاد کا سوال اسی پر لوٹاتے ہیں، قرآن و حدیث میں دکھاؤ کہ اللہ عزوجل نے حضور ﷺ کی ولادت شریفہ کی محفل کرنے سے منع کیا ہو، رسول اللہ ﷺ نے اپنی63 سالہ حیات ظاہری میں اس عمل سے منع کیا ہو ، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں 2 مرتبہ، عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں 10 مرتبہ ، عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں 12 مرتبہ، علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے دور میں 5 مرتبہ آیا ، کیا انہوں نے میلاد سے روکا ؟ اگر نہیں تو پھر وہابیہ کا آج میلاد سے روکنا، پمفلٹس چھاپنا، اشتہارات آویزاں کرنا، کتب تحریرکرنا، ایس ام ایس کرنا کہاں سے ثابت ہے ؟لاؤ کوئی ایک دلیل ہی لاو۔ فَاِنْ لَمْ تَفْعََلُوْا وَ لَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَ قُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃاعتراض نمبر4: اسلام میں صرف دو عیدیں ہیں یہ دن ’’عید‘‘ کیسے ہے؟ اور اگر عید ہے تو اس میں کتنے رکعت نماز ادا کرنی چاہیے اس کی تکبیرات کتنی ہیں؟یہ کہنا کہ اسلام میں صرف دو عیدیں ہیں سراسر جہالت ہے، حالانکہ احادیث کریمہ سے ثابت ہے کہ جمعہ ، ایام تشریق، یوم عرفہ بھی عید کا دن ہے۔ احادیث ملاحظہ فرمائیں:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا یَوْمُ الْجُمعۃ عید یعنی جمعہ کا دن عید ہے (مستدرک للحاکم، جلد1، ص603)جمعہ ایسی عید ہے کہ عیدالفطراور عیدالاضحٰی سے بھی افضل ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے اِنَّ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ سَیِّدُ الْاَیَّامِ وَاَعْظَمُھَا عِنْدَاللّٰہِ وَ ھُوَ اَعْظَمُ عِنْدَاللّٰہِ مِنْ یَوْمِ الْاَضْحٰی وَ یَوْمِ الْفِطْر جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار ہے اور اللہ کے ہاں تمام سے عظیم ہے اور یہ اللہ کے ہاں یوم الاضحٰی اور یوم الفطردونوں سے افضل ہے ۔ (مشکوۃ المصابیح، باب الجمعہ، سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث:1084،مسند ابن ابی شیبہ، رقم الحدیث:814،معجم الکبیر للطبرانی : 4511-4512) حضرت عقبیٰ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یَوْمُ عَرَفَۃَ وَ یَوْمُ النَّحْرِوَ اَیَّامُ التَّشْرِیْقِ عِیْدُنَا اَھْلَ الْاِسْلَامِ وَھِیَ اَیَّامُ اَکْلٍ وَّ شُرْبٍ عرفہ کادن ، قربانی کا دن اور تشریق کے دن ہمارے عید کے دن ہیںاور یہ کھانے پینے کے دن ہیں۔ (المستدرک للحاکم، جلد1، صفحہ 600) اس کے علاوہ قرآن پاک میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کی دعا منقول ہے:رَبَّنَآ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآئِ تَکُوْنَ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَۃً مِّنْکَ وَارْزُقْنَا وَاَ نْتَ خَیْرُالرّٰزِقِیْنَ اے ہمارے رب ہم پر آسمان سے نعمتوں کا دسترخوان نازل فرما تاکہ وہ ہمارے لئے عید قرار پائے اور وہ تیری طرف سے نشانی بنے اور تُو بہتر رزق عطا فرمانے والا ہے ۔ (پارہ7،مائدہ: 114)غور طلب بات: حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو دسترخوان نازل ہونے کے دن کو’’ عید‘‘ قرار دیں تو جس دن فخر موجودات ، باعث تخلیق کائنات ﷺ دنیا میں جلوہ گر ہوں وہ دن کیونکر نہ عید قرار پائیــ؟ رہا سوال نماز مع اضافی تکبیرات کا ، تو یہ اللہ عزوجل کا اس امت پر فضل در فضل ہے کہ اس نے اپنے پیارے حبیب ﷺ کے صدقے میں اس دن کوئی اضافی عبادت فرض نہ کی۔ جہاں تک منکرین کے اعتراض کی بات ہے تو ہم پوچھتے ہیں کہ یہ قاعدہ قرآن و سنت میں کہاں منقول ہوا کہ جو دن عید کا ہو گا اس میں لازماًاضافی عبادت بھی امت پر واجب ہو گی حالانکہ ایام تشریق ، یوم عرفہ، جمعہ بھی عید کے دن قرار پائے تو اس دن کون سی اضافی عبادت لازم ہوئی؟منکرمیلاد سے سوال:مذکورہ بالا احادیث کی رُو سے تو اہل اسلام کی پچاس (50)سے زائد عیدیں ثابت ہوتی ہیں آپ نے دو(2) عیدوں کی قید کہاں سے لگائی؟اعتراض نمبر5: حضور ﷺ کا یوم ولادت 12 ربیع الاول کو نہیں بلکہ9ربیع الاول ہے۔ حضور ﷺ کی ولادت شریفہ کی تاریخ کے متعلق مؤرخین کی آرا مختلف ہیں مگر جس تاریخ پر کثیر ائمہ محدثین و علمائے سِیرنے اتفاق کیا و ہ بارہ ربیع الاول ہی ہے، حوالہ جات پیش خدمت ہیں؛سند صحیح کے ساتھ ابن کثیر نے البدایہ والنھایہ ، جلد1، ص274 میں لکھی ہے ،امام ذھبی نے تلخیص المستدرک جلد2، ص 603، السیرۃ النبویہ لابن ھشام جلد1، ص 167، شعب الایمان للبیہقی جلد 2، ص 458، تاریخ الاممہ والملوک جلد1، ص125، دلائل النبوۃ جلد1، ص 74، عیون الاثر، جلد1، ص39، تاریخ ابن خلدون جلد 2، ص 4، مواھب اللدنیہ جلد 1، ص 142 وغیرہ بے شمار کتب تاریخ و سیرت میں مذکور ہے۔ خود منکرین میلاد کے سرکردہ حضرات کی کتب سے حضور ﷺ کی ولاد ت شریفہ کی تاریخ 12 ربیع الاول ثابت ہے۔چنانچہ مولوی اشرفعلی تھانوی دیوبندی نے ارشاد العباد فی عیدالمیلاد، صفحہ5، ابوالحسن علی الحسینی ندوی دیوبندی نے السیرۃ النبویہ، ص 99، مفتی شفیع کراچوی دیوبندی والدمفتی تقی عثمانی دیوبندی نے سیرت خاتم الانبیاء ، ص10، سلیمان ندوی نے رحمت عالم ، ص 8، اسلم قاسمی دیوبندی ولد قاری طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے سیرت پاک صفحہ22، ولی رازی دیوبندی نے ھادی عالم صفحہ43، مولوی مودودی نے سیرت سرور عالم ، صفحہ 93، نواب صدیق حسن خان بھوپالی وھابی نے الشمامۃ العنبریۃ ، ص17ور مولوی عبدالستار وہابی نے اکرام محمدی ، ص270، پر تاریخ ولادت 12 ربیع الاول ہی لکھی ہے۔منکر میلاد سے سوال: اگر آپ کی بات مان بھی لیں کہ میلاد شریف کی تاریخ 9 ربیع الاول ہے توکیا آپ حضرات 9 ربیع الاول کو عید میلاد منا یا کریں گے؟اعتراض نمبر 6: یہ مانا کہ ولادت 12 ربیع الاول کوہوئی تو وصال بھی تو 12 ربیع الاول کو ہوا ، اس دن صحابہ ء کرام رو رہے تھے لہذا اس دن خوشی منانا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ہم اس ضمن میںمنکرین میلادہی کے حوالہ جات پیش کرتے ہیں: مولوی اشرفعلی تھانوی نے نشرالطیب کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ وصال پیر کو ہوا اس روز بارہ(12) کسی طرح نہیں آتی۔ (نشرالطیب، ص 349) حافظ سعید کی جماعۃ الدعوۃ(اہل حدیث تنظیم) نے وصال نبوی کی تاریخ یکم ربیع الاول11 ہجری لکھی ہے۔ (مجلہ الدعوۃ مارچ 2007، ص14)مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی کے والد مفتی شفیع دیوبندی نے لکھا ہے کہ وفات کسی طرح بھی 12 ربیع الاول کو نہیں بنتی۔ (سیرت الانبیاء ، جلد1، ص 119) قدیم مورخ موسیٰ بن عقبہ جو ثقہ ترین مورخ تھے اس نے بھی یکم ربیع الاول لکھی ہے۔ علامہ سہیلی نے بھی اس کو صحیح قرار دیا ، علامہ شبلی نعمانی اور سید سلمان ندوی نے سیرت النبی ﷺ میں تفصیلی بحث کر کے یکم ربیع الاول کو ہی یوم وفات قرار دیا ہے۔ (سیرت النبی جلد2 ، ص104، قصص النبیین مترجم جلد 5، ص 351 ، مکتبۃ العلم، لاہور)اگر فرض کر لیں کہ وصال 12 ربیع الاول کو ہی مان لیا جائے تو یاد رکھیں سوگ صرف تین(3) دین ہے سوائے بیوہ کے لئے ( بخاری، رقم :1281، مسلم: 2730، ابوداؤد:1954، ترمذی: 1116، نسائی: 3443، ابن ماجہ:2072) یہ بھی یاد رکھیں کہ آپ ﷺ ایک لمحہ کے لئے موت کا ذائقہ اپنی شان کے لائق چکھنے کے بعد زندہ ہیں جیسا کہ صحیح احادیث مبارکہ میں ہے اور آپ ﷺ کی زندگی دنیا کی سی ہے جیسا کہ المھندعلی المفند(صفحہ ۳۸مطبوعہ ادارہ اسلامیات، انارکلی لاہور) میں آپ لوگوں نے تسلیم کیا ہے۔ اگر12 ربیع الاول کو ہی یو م ولادت اور یوم وصال تسلیم بھی کر لیا جائے تو پیدائش کی خوشی منائی جائے گی اور وفات کا غم نہیں کیونکہ حضور اکرم ﷺ کے ارشاد کے مطابق جمعہ کو سیدنا آدم علیہ الصلوۃ والسلام کی تخلیق ہوئی اور اپنی عمر مبارک گزار کر جمعہ کو ہی ان کا وصال ہوا۔ (ابوداؤد:1047، نسائی: 1375، ابن ماجہ: 1084، مسند احمد: 16262) اور جمعہ کو اللہ نے مسلمانوں کے لئے عید بنایا ہے۔ (ابن ماجہ:1098، موطا امام مالک: 131) دیوبندی مولوی اشرفعلی تھانوی نے لکھا ہے: ’’یہ وفات بھی امت کے لئے مظہر رحمت الٰہیہ ہوئی اور جب آپﷺ سبب رحمت ہیں تو خود کس درجہ موردِ رحمت ہوں گے تو یہ وفات خود آپ ﷺکے لئے بھی نعمتِ عظمی ہوئی‘‘ (نشرالطیب، ص196مطبوعہ مکتبہ لدھیانوی، کراچی) دیوبندی عالم شیخ عبدالرحمن اشرفی مہتمم جامعہ اشرفیہ کا فتوی بھی ملاحظہ فرمائیں: ’’حضور ﷺ انتقال فرمانے کے بعد بھی زندہ ہیںبلکہ پہلی حیات سے انتقال فرمانے کی حیات زیادہ قوی ہے ، اس لئے غمی کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ یہ بھی اہل سنت و جماعت کا عقیدہ ہے۔ (روزنامہ جنگ، لاہور27فروری1987جمعہ میگزین، ص :22 )سوگ کے بارے دیوبندیوں وہابیوں کے امام اسمعیل دہلوی کا قول: وہابی حضرات ذرا اپنے امام کا قول بھی ملاحظہ فرمائیں چنانچہ اسمعیل دہلوی نے لکھا ہے،’’عورت کو اپنے خاوند کے مر جانے پر چار ماہ دس دن تک سوگ کرنا فرض ہے اگر نہ کرے تو گناہ گار ہوگی اس کے سوا تمام سوگ حرام ہیں خواہ وہ کسی پیغمبر پر ہو یا صدیق پر یا شہید پر موت یا قتل یا شہادت کے دنوں میں ہو یا اور دنوں میں اس حکم میں کسی کی تخصیص نہیں‘‘ (صراط مستقیم، ص120، مطبوعہ اسلامی اکادمی ، اردو بازار ،لاہور)منکرین میلادسے سوال: دیوبندی وہابی حضرات کو کل قیامت کے دن اللہ سے یہ سوال ضرور کرنا چاہیے کہ جمعہ کو ہی تخلیق آدم اور وصال کے باوجود عید کیوں بنایا گیااور خوشی کا دن بنا کر سوگ اور افسوس سے منع کیوں کر دیا گیا؟اگر مان لیا جائے کہ12 ربیع الاول کو وصال ہے تو آپ حضرات کوئی غم کی مجلس کا ہی انتظام کر لیا کریں۔اعتراض نمبر7: اس دن چراغاں کرنا درست نہیں۔امر خیر میں خرچ کرنا ہر گز اسراف نہیں۔عربی کا مقولہ ہے: لَاخَیْرَ فِیْ الْاِسْرَافِ لَا اِسْرَافَ فِی الْخَیْریعنی اسراف میں کوئی خیر نہیں اور نیکی کے کام میں خرچ کرنا اسراف نہیں ۔غلامان مصطفی اپنی حسب توفیق چراغاں کرتے ہیں ورنہ حضور ﷺ کی شان تو ایسی ارفع و اعلیٰ ہے کہ ان کی ولادت کے موقع پر خود ربّ قدیر نے چراغاں فرمایااور ایسا چراغاں کہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اس روشنی میں شام کے محلات دیکھ لئے۔ حوالہ جات پیش خدمت ہیں;مسند احمد،حدیث:16525،مستدرک للحاکم:4140، معجم الکبیر للطبرانی :15032، دلائل النبوۃ للبیہقی: جلد 1، ص 20، شعب الایمان: 1374، صحیح ابن حبان:6150 حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں؛لَمَّا حَضَرَتْ وِلَادَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ رَاَیْتُ الْبَیْتَ حِیْنَ وَقَعَ قَدِ امْتَلَائَ نُوْرًاوَ رَاَیْتُ النُّجُوْمَ تَدْنُوْا حَتّٰی ظَنَنْتُ اَنَّھَا سَتَقَعُ عَلَیَّ آپ ﷺ کی ولادت کے موقع پر میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ کا گھر نور سے معمور ہو گیا اور میں نے ستاروں کو دیکھا کہ زمین سے اتنے نزدیک آ گئے کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ مجھ پر گر جائیں گے۔(دلائل النبوۃلابی نعیم، ج۱،ص40، دلائل النبوۃ للبیہقی،ج۱،ص111،الخصائص الکبریٰ، ج1،ص45، مجمع الزوائد، ج8، ص 220، نشر الطیب،ص44)تاہم چراغاں کرنے کے لئے چوری کی بجلی استعمال کرنا حرام ہے ۔منکرمیلاد سے سوال: کیا چراغاں کرنا مطلقََایعنی بالکل حرام ہے یا صرف میلاد مصطفی ﷺ کے لئے چراغاں کرنا حرام ہے اور اپنے خاندان کی تقریبات یعنی شادی وغیرہ کے موقع پر کرنا جائز ہے؟ اگراس موقع پر جائز ہے اور یہاں ناجائز تو کوئی ایک حدیث خواہ ضعیف ہی ہو پیش فرما دیں۔اعتراض نمبر8: جھنڈا لگانا کہاں سے ثابت ہے؟ولادت مصطفی ﷺ پر جھنڈالگانا سنت جبریل امین ہے (الخصائص الکبری للسیوطی، جلد 1،ص 82)شاہ فیصل کی لاہور آمد پر وہابی ہفت روزہ ’’تنظیم اہل حدیث ‘‘ نے شہر بھر کو جھنڈیوں سے سجانے کی اپیل کی۔(ہفت روزہ’’ تنظیم اہل حدیث‘‘30ذی الحجہ 1385ھ)منکرمیلاد سے سوال: کیا صرف میلاد کا جھنڈا لگانا ناجائز ہے اور اپنے ملک اور تنظیم کا جھنڈا لگانا جائز ہے؟ سپاہ صحابہ اور جماعۃ الدعوۃ ، جماعت اسلامی، اسلامی جمیعت طلبہ کا جھنڈا کہاں سے ثابت ہے؟اعتراض نمبر9: جلوس میلاد بے اصل ہے؟ یہ بھی آپ حضرات کا فریب ہے ،ہجرت مدینہ کے موقع پر جب حضور ﷺ’ موضع غمیم‘ پہنچے تو بریدہ اسلمی اپنے ستر (70)ساتھیوں کے ساتھ دامن اسلام سے وابستہ ہوئے اور عرض کیا کہ حضور ! مدینہ شریف میں آپ کا داخلہ جھنڈے کے ساتھ ہونا چاہیے اور اپنے عمامہ کو نیزے پر ڈال کر جھنڈا بنایا اور حضور ﷺ کے آگے آگے روانہ ہوئے۔ (وفاء الوفا، جلد1 ، ص 243) دیوبندی حضرات نے بھکرمیں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے یوم وفات پر جلوس نکالا۔ (روزنامہ جنگ، لاہورمورخہ6نومبر1996، صفحہ:2،کالم:5) دیوبندی امیر شریعت سید عطا اللہ بخاری نے عیدمیلاد النبی ﷺ پر جلوس نکالا۔(روزنامہ آزاد، لاہور26ستمبر1957) ہفت روزہ رسالہ ’’لولاک‘‘ کے ایڈیٹر مولوی تاج محمود9جنوری 1982کے شمارہ میں لکھتے ہیں:’’ربوہ میں بھی عیدمیلاد النبی ﷺ کے سلسلہ میں جلوس نکالا گیا، جس کی قیادت مولوی اللہ وسایا دیوبندی، مولوی اللہ بخش دیوبندی، مولوی احمد چاریاری امام مسجد محمدیہ اور قاری شبیراحمد نے کی۔‘‘ جماعت اسلامی کے بانی مودودی نے غلاف کعبہ کا جلوس نکالا۔(ترجمان القرآن،اپریل 1963) شاہ فیصل کی لاہور آمد پر جلوس میلاد کے منکرین نے شاہ فیصل کے اعزاز کے لئے بھر پور جلوس کی ترغیب دلائی اور تمام سرکاری اور پرائیوٹ ادارے بند رکھنے کی اپیل کی۔ حوالہ جات پیش خدمت ہیں: (ہفت روزہ’’ تنظیم اہل حدیث‘‘30ذی الحجہ 1385ھ،الاعتصام، لاہور23ذی الحجہ 1385ھ،ترجمان الاسلام،30ذی الحجہ 1385ھ،نوائے وقت،27ذی الحجہ،1385ھ،مشرق، لاہور،30ذی الحجہ 1385ھ) ہندو پنڈت جواہر لال نہرو25ستمبر1956ء کو سعودی عرب کے دورہ پر گیاتو شاہ سعود، وزرائ، فوجی افسران اور عوام نے بھر پور استقبال کیااور ’’مرحبا نہرو رسول السلام‘‘ اور ’’جے ہند‘‘ کے نعروں سے استقبال کیااور جلوس کی شکل میں نہرو کو شاہ سعود کے محل میں لے جایا گیا۔(روزنامہ جنگ،کراچی27/28دسمبر1956) ہندوصدر ڈاکٹر راجندرپرشاد 13جولائی 1957ء کودارالعلوم دیوبندکے دورہ پر گئے تو دیوبندی مولوی حسین احمد مدنی اور قاری طیب مہتمم دارالعلوم نے استقبال کیا ، ہار پہنائے، جلوس کی شکل میں دارالعلوم لے کر گئے اور تمام راستے کو خوشنما دروازوں اور رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجارکھا تھا اور دارالعلوم پہنچنے پر ’’اللہ اکبردارالعلوم زندہ باد‘‘ کے نعروں سے اسقبال کیا۔(ملخصاًماہنامہ دارالعلوم دیوبند، ستمبر1957) وہابیوں نے اپنے شیخ القرآن مولوی غلام علی خان کی آزاد کشمیر آمد پر جلوس نکالا، گولہ بازی کی، گیٹ، بازاروںاور مقام تقریر کو سجایا۔(ماہنامہ تعلیم القرآن راولپنڈی،اگست 1963) منکرین میلادکے جلوس نکالنے کے واقعات بہت زیادہ ہیں، اب ہم صرف حوالہ جات پیش کررہے ہیں:(روزنامہ تعمیر، روالپنڈی،2جون،1957،تنظیم اہل حدیث، 26اپریل1968،الافاضات اشرفعلی تھانوی، حصہ 6،ص166، ہفت روزہ ’’خدام الدین‘‘،لاہور، 22ستمبر1961،زمیندار، 27مئی1951) منکرمیلاد سے سوال: کیا صرف نبی اکرم ﷺ کی ولادت کے موقع پر جلوس نکالنا ناجائز ہے ؟ اور 5 فرور ی کو یوم یکجہتیء کشمیر پر کشمیر ریلی ، مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاجی ریلی، گو امریکہ گو ریلیاں نکالنا جائز ہے؟ جماعت اسلامی آئے روز احتجاجی ریلیاں اور دھرنوں کی کال دیتی ہے یہ کہاں سے ثابت ہیں؟اعتراض نمبر10: عید میلاد النبی ﷺ کی ابتداء ایک فضول خرچ ، عیاش طبع بادشاہ ملک مظفر ابوسعید (شاہ اربل) کی ایجاد ہے؟اول تو عرض ہے کہ میلاد کی ابتداء رب تعالی نے خود فرمائی اور پھر ہر دور کے انبیائے کرام علیہم السلام اس کا درس دیتے رہے ، خود حضور ﷺ نے اپنا میلاد بیان فرمایا جیسا کہ دلائل کے ساتھ اوپر وضاحت کی جاچکی، ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ شاہ اربل حکومتی سطح پر میلاد منانے کا اہتمام کرتا،لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ سب سے اول شاہ اربل نے حکومتی سطح پر عیدمیلاد منانے کو رواج دیا بلکہ امام عزالدین ابن اثیر شیبانی نے لکھا ہے کہ سن 484ھ میں جلال الدولہ سلطان ملک شاہ سلجوقی جنگی مہمات سے فارغ ہو کر دوسری مرتبہ بغداد آیا تو اس نے خوب دُھوم دھام سے میلاد منایا۔(الکامل فی التاریخ،جلد8، ص349)اس کو امام ذہبی نے بھی تحریر کیاہے۔ (تاریخ اسلام،حوادثات:ص484)مولوی حسن مثنی ندوی نے بھی اس کی تائید کی ہے۔(سیارہ ڈائجسٹ، رسول نمبر:جلد2، ص 411)شاہ اربل کے کردار کے متعلق ہمیں تمہارے مولویوں کی بجائے اپنے جلیل القدر عظیم الرفعت ائمہ و محدثین حضرات کی رائے عزیز ہے۔حافظ ابن کثیر ، امام جلال الدین سیوطی،شیخ ابن خلکان، امام ذہبی،امام قزوینی ،شیخ مبارک حفیانی،امام ابوشامہ ،شیخ محمد قادسی اور سبط ابن جوزی نے شاہ اربل کو نہایت سخی، عادل،کفایت شعار،بہادر، جرات مند، داناحاکم تحریر کیا ہے۔ حوالہ جات ملاحظہ ہوں: (الحاوی للفتاوی،جلد1، ص190،189،حسن المقصد للسیوطی، وفیات الاعیان، جلد3،ص539،العبرفی خبرمن غبر،جلد2،ص224،سیر الاعلام النبلائ،جلد16،ص275،آثار البلادواخبار العباد،ص290،شذرات الذہب،جلد5، ص140)منکرمیلاد سے سوال:بچہ بچہ جانتا ہے کہ قرآن پاک پر اعراب ایک نہایت ہی فاسق و فاجر حاکم حجاج بن یوسف نے لگوائے تھے تو کیا وہابی ،دیوبندی حضرات اس کے لگائے گئے اعرا ب والے قرآن پڑھنے کو بھی جائز سمجھتے ہیں یا نہیں؟ مزید یہ کہ حضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ نے ۶۴ھ میں رسول اللہ ﷺ کی خواہش کے مطابق کعبۃ اللہ میں دو دروازے شرقاً غرباً لگوا دئیے، حجاج نے اس کو بھی ختم کر کے دوبارہ قریش مکہ کی بنیادوں پر تعمیر کروا دی اور آج تک کعبۃ اللہ کی عمارت انہی بنیادوں پر ہے، کیا وہابیہ دیوبندیہ حضرات کے نزدیک اس فاسق فاجر کی قائم کردہ عمارت کا طواف کرنے سے حج بھی ہوتا ہے یا نہیں؟اعتراض نمبر11: شاہ اربل نے ایک کذاب دنیا پرست مولوی عمر بن حسن دحیہ کلبی کو ایک ہزار درہم کا لالچ دے کر یہ بدعت ایجاد کروائی؟ لعنۃ اللہ علی الکاذبین۔مولانا عمر بن حسن دحیہ کلبی المعروف شیخ دحیہ پر یہ سراسر بہتان ہے، ہم اس بابت بھی تمہارے دو ٹکے کے بازاری مولویوں کی نہیں بلکہ اپنے جلیل القدر ائمہ و محدثین کی رائے عزیز رکھتے ہیں چنانچہ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ میں نے شیخ دحیہ کلبی رحمۃ اللہ علیہ کی میلاد پر لکھی گئی کتاب التنویر فی مولد السراج المنیر کا مطالعہ کیا اور اس سے نہایت ہی قیمتی اور خوبصورت باتیں نوٹ کرلیں۔ (البدایہ، جلد13، ص 155)حافظ ابن کثیر نے آپ کو نہایت ہی ’’صالح‘‘ اور’’ زاہد‘‘ لکھا ہے، شیخ جمال عزون نے آپ کو’’ عالم‘‘ اور’’ حافظ حدیث‘‘ لکھا ہے(مقدمۃ الایات،101)شیخ ابن نجار، شیخ منصور بن سلیم سکندانی، امام ابن سیدالناس،اما م ذہبی، امام ابن ملقن نے آپ کی تصانیف کو نہایت سراہا ہے (حاشیۃ المختصر المحتاج،جلد3، ص99، الذیل علی تکملۃ الاکمال،ص 349، میزان الاعتدال، جلد3، ص188، البدرالمنیر، جلد1، ص291) اعتراض نمبر12: جو میلاد نہیں مناتا اس کو گستاخ کہا جاتا ہے۔العیاذ باللہ تعالی۔ یہ بھی آپ لوگوں کا بہتا ن ہے ورنہ اہل سنت میلاد نہ منانے والوں کو گستاخ نہیں کہتے ، ہاں یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ میلاد نہ منانے والے گستاخ ہی ہیں۔ اور یہ گستاخ ہونا ان کا میلادنہ منانے کی وجہ سے نہیں بلکہ دیگر کئی وجوہات کی وجہ سے ہے جس کا بیان یہاں کرنا مناسب نہیں۔آپ حضرات (وہابی، دیوبندی) اگر میلاد منا بھی لیں تو بھی گستاخی کے زمرے سے نہیں نکل سکتے جب تک ان صریح کلمات شنیعہ سے توبہ نہ کرلو جو کہ تم لوگوں نے شان الوہیت و رسالت میں اپنی کتب میں رقم کر رکھے ہیں۔تاہم تمہارے ہی سرکردہ مولوی نواب صدیق حسن بھوپالی نے لکھا ہے کہ جو میلادکی خوشی نہ کرے وہ مسلمان نہیں۔(الشمامۃ العنبریۃ، ص12مطبوعہ فاران اکیڈمی،اردو بازار لاہور)منکرمیلاد سے سوال: اہل سنت میں سے کئی حضرات ایسے ہیں جو اپنی مفلسی کی وجہ سے محافل میلاد کا انعقاد نہیں کر پاتے مگر وہ خود کو گستاخ نہیں سمجھتے آخر کار یہ کھٹکا آپ ہی کے دل میں کیوں پیدا ہوا؟ قارئین کرام آپ نے منکرین میلاد کے اعتراضات اور ان کے مختصر جوابات ملاحظہ فرمائے اور اب آپ کو چاہیے کہ ہر جواب کے آخر میں منکرین میلاد پر قائم کیے گئے سوالات کا جواب ان سے طلب کریں۔ جو کہ ان شاء اللہ تا صبح قیامت نہ دے سکیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عیدمیلاد النبیﷺ کے جواز پر منکرین میلاد کے اکابرین کی رائے
اب ہم عید میلاد کے جواز پر کچھ حوالہ جات منکرین میلاد کے اکابرین سے پیش کرتے ہیں ، ملاحظہ فرمائیں: حاجی امداد اللہ :محفل مولود شریف میں شریک ہوتا ہوں بلکہ ذریعہ برکات سمجھ کر ہر سال منعقد کرتا ہوںاور قیام میں لطف ولذت پاتاہوں (فیصلہ ہفت مسئلہ ص13امداد المشتاق ص88،شمائم امدادیہ ص68،پر بھی ذکر وقیام کو درست کہا ہے۔مزید اسی کتاب کے ص5پر فرمایا: ’’مولودشریف تمام اہل حرمین کرتے ہیں، اسی قدر ہمارے واسطے حجت کافی ہے۔‘‘ رشید احمد:جب ابو لہب جیسے کافر کے لیے میلاد النبی ﷺ کی خوشی کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ہوگئی جوکوئی امتی آپ کی ولادت کی خوشی کرے اور حسب وسعت آپ کی محبت میں خرچ کرے تو کیونکر اعلیٰ مراتب حاصل نہ کرے گا ۔(احسن الفتاوی ج1ص347) رشید گنگوہی نے خلیل انبیٹھوی کو کتاب’’ تواریخ حبیب الہٰ ‘‘دے کر محفل میلاد میں وعظ کے لیے بھیجا ۔(تذکرۃ الرشید ج2ص 284)تمام اکابر دیوبند کی مصدقہ کتاب’’المہند علی المفند‘‘ کے صفحہ 46مطبوعہ دارالاشاعت، کراچی میں ہے:’’ذکر میلاد النبی اعلیٰ درجہ کامستحب ہے اور منکرات شرعیہ سے پاک مجلس مولود سببِ خیروبرکت ہے۔‘‘ قاسم نانوتوی دیوبندی سے پوچھا گیا آپ میلاد نہیں کرتے مولانا عبد السمیع کرتے ہیں کہا ان کو حضور ﷺسے محبت زیادہ ہے دعا کرو ہمیں بھی زیادہ ہو جائے۔ (سوانح قاسمی ج1 ص471 سفر نامہ لاہور ولکھنو،ص228،مجالس حکیم الامت ص124) وہابیوں کے مرشد اول ، سیداحمد رائے بریلوی نے کشتی میں میلاد منایا، ذکر ولادت باسعادت کے قصائد پڑھے اور اختتام پر ’’حلوہ‘‘ تقسیم کیا۔ (ملخصاًمخزن احمدی، ص 85) ثناء اللہ امر تسری وہابی: بارھویں (میلاد شریف کرنا )ایصال ثواب کی نیت سے درست ہے اختلاف اٹھ جاتا ہے ۔ (فتاوی ثنائیہ ج2ص71) عبداللہ لاہوری وہابی:میلاد شریف کرتے وقت قیام کرنا مستحسن سمجھتے ہیں ۔(اہلحدیث کا مذہب ص35) وحید الزمان وہابی: فاتحہ ومیلاد کا انکار جائز نہیں (ھد یۃ المھدی ص118)مزید اس نے محفل میلاد کو اچھی چیز قرارر دیا ہے (تیسیر الباری ج2 ص177)مزید لکھا:کرسمس کے دن جو حضرت عیسیٰ کا یوم ولادت ہے خوشی کرنا،ہمارے نبی ﷺ کی ولادت والے دن کی خوشی کرنے کی طرح ہے اور ہم تو حضرت موسیٰ ،حضرت عیسیٰ اور تما م نبیوں کی ولادتوں کے دن خوشی کرنے کے زیادہ حق دار ہیں۔(ھدیۃ المھدی ص46 )مزید لکھا ہے:معتبر قول یہی ہے کہ محفل میلاد جائز ہے،کیونکہ یہ ثواب کی نیت سے ہی ہوتی ہے۔پھر اس میں بدعت کا کیا دخل ہے۔(ھدیۃ المھدی ص46 ) نواب صدیق وہابی نے کہا : جسے آپ کے میلاد کا حال سن کراور آپ کے میلاد کی خوشی نہ ہو وہ مسلمان نہیں (الشمامۃ العنبریہ ص12) وہابیوں کے شیخ الاسلام ابن تیمیہ لکھتا ہے، ’’اسی طرح نبی کریم ﷺ کی ولادت کے دن کی تعظیم کا معاملہ ہے مسلمان یہ چیز یا تو عیسائیوں کی تقلید میں کرتے ہیں جو حضرت عیسی علیہ السلام کے یوم ولادت میں عید مناتے ہیں یا پھر رسول اللہ ﷺ کی محبت وتعظیم کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ اللہ تعالی اس بدعت پر نہیں بلکہ اس محنت اور اجتہاد پر انہیں ثواب دے گا ۔‘‘ (اقتضاء الصراط المستقیم ترجمہ و تلخیص بنام فکرو عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے ، ص 73مترجم مولوی عبدالرزاق ملیح آبادی ) ابن تیمیہ اسی کتاب میں ایک اور جگہ لکھتا ہے،’’ ولادت نبوی کے وقت کی تعظیم اور اسے عید بنانے میں بعض لوگوں کو ثواب عظیم حاصل ہو سکتا ہے۔ یہ ثواب ان کی نیک نیتی اور رسول اللہ ﷺ کی تعظیم کی وجہ سے ہو گا ۔(اقتضاء الصراط المستقیم، ص 77مطبوعہ دارالسلام ، لوئرمال سیکرٹریٹ ، لاہور) مولوی ابتسام الٰہی ظہیر کہتا ہے: ’’بعض حلقے ہمارے مسلک کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ شاید ہم عیدمیلاد النبی ﷺ منانے کے حق میں نہیںہیں، یہ سراسر غلط اور بہتان ہے۔‘‘ (روزنامہ جنگ فورم رپورٹ، 29اپریل2005ء بحوالہ مومنو میلادالنبی مناؤ، مطبوعہ ادارہ رضائے مصطفی گوجرانوالہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
منکرین میلاد کے اعتراضا ت کا منظوم جواب
مدثر سرور چاندعاشقو
آؤ سناؤں تم کو میں اک واقعہ
ایک دن میں محفل میلاد سے جب گھر چلا
راستے میں روک کر اک معترض کہنے لگا
محفلِ میلاد کو تُو کیوں سجاتا ہے بت
اطنزیہ لہجے میں پھر وہ کھول کر اپنی زباں
مجھ سے یوں کہنے لگا لکھا ہوا ہے یہ کہاں
میں یہ بولا شان مجھ سے مصطفی کی اب سُنو
بند اپنے ذہن کے سارے دریچے کھول دو
آیت قرآن ہے یہ ترجمہ مجھ سے سنو
"اور اپنے رب کی نعمت کا بہت چرچا کرو"
نعمت رب العلی ہیں مصطفی خیرالبشر
اے خدا کے بندے رب کی نعمتوں کا شکرکر
پھر وہ بولا شرک ہے میلاد یہ کرنا تیرا
میں نے بولا شرک کا اس سے نہیں کچھ واسطہ
ہے بخاری میں رسول پاک کا قول مُبیں
شرک کا کچھ خوف مجھ کو اپنی امت پر نہیں
یا تو پھر اب مصطفی سے اپنا ناطہ توڑ دے
یا نبی کے عاشقوں سے بحث کرنا چھوڑ دے
بات سُن کر وہ میری پھر سوچ کر کہنے لگا
پھر سوالوں کا نیا اک جال وہ بُننے لگا
جشن آمد پر لگائے جھنڈے یوں کس نے کیا
میں نے بولا اُن کی آمد سے ہے جاری سلسلہ
نصب جھنڈے کر دیے جبریل نے سُن لے ذرا
ایک مشرق ایک مغرب اک مکان آمنہ
پھر وہ بولا مان لیتا ہوں تیری باتیں سبھی
عید ہے کیسے بتا یہ عید میلاد النبی
صرف دو عیدیں ہیں رائج دنیائے اسلام میں
میں یہ بولا عید تو جمعہ بھی ہے اسلام میں
ایسے تو پھر ہیں کئی عیدیں ہماری سال میں
کیوں پھنسا ہے دل تیرا وہم و گماں کے جال میں
ہو گیا خاموش میری بات جب اُس نے سُنی
پھر کہا کہ بات اک مجھ کو بتا دے آخری
کب تلک چلتی رہے گی عید میلاد النبی
میں یہ بولا پوچھتا ہے کب تلک ہے یہ خوشیآ
مدثرؔسے تُو نغمہ سن رضاؔ کا اور جُھوم
حشرتک ڈالیں گے ہم پیدائش مولیٰ کی دُھوم
حشر تک ڈالیں گے ہم پیدائش مولیٰ کی دُھوم
مثل فارس نجد کے قلعے گراتے جائیں گے
خاک جائیں عدُو جل کر مگر ہم تو رضا
دم میں جب تک دم ہے ذکر اُن کا سناتے جائیں گے
عیدمیلاد النبی منانے کے متعلق کچھ گزارشات
اب آخر میں ہم کچھ گزارشات عید میلادالنبی ﷺ منانے کے متعلق احباب اہل سنت سے کرنا چاہیں گے،تاکہ کامل آداب کے ساتھ عیدمیلاد النبی ﷺ کے فیوض و برکات کو حاصل کیا جاسکے اور منکرین میلاد کو بھی اعتراض کا موقع نہ مل سکے ۔ 1۔ عیدمیلاد النبی ﷺ کے دن قرآن خوانی، محافل نعت، محافل درود ، جلوس میلاد میں ادب و احترام کے ساتھ باوضو شرکت کریں۔۔ 2۔عید میلاد منانے کے ساتھ ساتھ سنت رسول ﷺ کو اپنانے کا ذہن بنائیں۔ 3۔محافل اوربازاروں ، محلوں کی سجاوٹ کے لئے زبردستی مت کریں ۔
No comments:
Post a Comment