Monday 24 July 2023

یومِ عاشور کے روزے و اعمال

0 comments
یومِ عاشور کے روزے و اعمال

محترم قارئینِ کرام : اسلامی سال کا پہلا مہینہ محرم الحرام ہے جو  نہایت عظمتوں اور برکتوں والا ہےبِالخصوص اس ماہ کی 10 تاریخ  یعنی عاشورا کےدن کو دینِ اسلام میں غیر معمولی حیثیت حاصل ہے ۔ سال بارہ مہینے کا ہے ، جن میں سے چار حُرمت (بڑائی) والے ہیں ۔ تین پے در پے یعنی ذوالقعدہ ، ذوالحجہ اور محرم الحرام اور ایک رجب المرجب ۔ (تفسیر مظہری جلد 5 صفحہ 272)(تفسیر روح البیان جلد 3 صفحہ 421)

یومِ عاشورہ کا لفظی معنیٰ  دسواں دن یا دسویں تاریخ ہے ۔ مگر اب عرف عام میں یومِ عاشورہ کا اطلاق محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو ہوتا ہے جس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے 72 نفوس قدسیہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ دینِ اسلام کی خاطر حق کےلیے راہِ خدا میں جامِ شہادت نوش فرمایا تھا ۔

حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ ’’ماثبت بالسنتہ ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ : ابن جوزی علیہ الرحمہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ذکر فرمایا کہ محرم کی دسویں تاریخ ایسی منفرد اور بے مثال تاریخ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا ۔

 اس دن ان کو جنت میں داخل کیا  اور اسی دن ان کی توبہ قبول فرمائی ۔ اسی دن عرش و کرسی ، جنت و دوزخ ، زمین و آسمان ، چاند و سورج ، لوح و قلم کو پیدا فرمایا ۔ اور بعض علماء کرام یہ فرماتے ہیں کہ یومِ عاشورہ کو یہ نام اس لیے دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس دن دس انبیاء کرام علیہم السلام کو دس عظمتوں سے نوازا ۔ (غنیتہ الطالبین صفحہ 55)
 
یومِ عاشورہ کو ’’یومِ زینت” بھی کہا جاتا ہے اور اس دن کا یہ نام حدیث مبارکہ میں وارد ہوا ہے ۔

عَنْ اِبْنِ عُمَرِ (رضی اللہ تعالیٰ عنہما)  قَا لَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلّیٰ اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّم مَنْ صَامَ یَوْمَ الزِّیْنَتِ اَدْرَکَ مَا فَاتَہُ مِنْ صِیَامِ السَّنَۃِ ۔
ترجمہ : ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے یومِ زینت یعنی یومِ عاشورہ کا روزہ رکھا اس نے اپنے باقی سال کے فوت شدہ کو بھی پا لیا ۔ ( غنیتہ الطالبین جلد 2 صفحہ 54)(ما ثبت من السُنَّتہ صفحہ 10)

عاشورا کے نفل روزوں کا بہت ثواب ہے 9 محروم اور دسویں محرم کو روزہ رکھیں ، صرف دسویں محرم الحرام کو ایک روزہ بھی رکھ سکتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی ان روزوں کا اہتمام فر تے تھے ۔

اسی یومِ عاشورہ کے دن قریش خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے اور اسی یومِ عاشورہ کے دن کوفی فریب کاروں نے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و جگر گوشہ حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کو کربلا میں شہید کیا ۔

مفسرین فقہا و علماء علیہم الرحمہ فرماتے ہیں کہ عاشورہ کے دن اگر کسی شخص نے یتیم و مسکین کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس کے بالوں کی مقدار کے مطابق ثواب عطاء فرمائے گا ۔ یومِ عاشورہ کا روزہ  بہت فضیلت رکھتا ہے ۔  یومِ عاشورہ کا روزہ اسلام سے قبل اہلِ مکہ اور یہودی لوگ بھی رکھا کرتے تھے ۔ حضرت عروہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے  کہ اُمُ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا قریش زمانہ جاہلیت میں یومِ عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی زمانہ جاہلیت میں اس دن روزہ رکھا کرتے تھے ۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے ، تب یومِ عاشورہ کا روزہ چھوڑ دیا گیا، جس کا جی چاہے وہ یوم عاشورہ کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے چھوڑ دے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس دن کا روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا ۔ عاشورہ کے دن انبیاء کرام روزہ رکھا کرتے تھے۔ حضور محسن کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو بھی اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم ارشاد فرمایا ۔ اور فرمایا نو ، دس کا رکھو یادس ، گیارہ کا رکھو ۔ صُوْ ْمُو یَوْمَ عَا شُوْرَآئَ یَوْمَ کَا نَتِ الْاَ نْبِیْآ ئُ  تَصُوْ مُہ ۔
ترجمہ : عاشورہ کے دن کا روزہ رکھو، کیوں کہ یہ وہ دن ہے کہ اس کا روزہ انبیاء کرام رکھتے تھے۔ (الجامع الصغیر جلد 4 صفحہ 215)۔
یومِ عاشورا کا روزہ رکھنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عام معمول میں شامل تھا اور آپ اس دن کا روزہ خاص اہتمام کے ساتھ رکھتے تھے ۔

ایک حدیث پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چار معمولات کا ذکر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انہیں کبھی ترک نہ فرماتے تھے ۔ ان چار معمولات میں ایک یوم عاشورا کا روزہ رکھنا بھی ہے ۔ روایت اس طرح سے ہے کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : چار چیزیں ایسی تھیں جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کبھی ترک نہیں کیا۔ یومِ عاشورا کا روزہ اور ذو الحجہ کا عشرہ یعنی پہلے نو دن کا روزہ اور ہر ماہ کے تین روزے (یعنی ایام بیض) کے روزے اور فرض نماز فجر سے پہلے دو رکعت (یعنی سنّتیں) ۔ (رواہ النسائی و مشکواۃ شریف صفحہ 180)

عاشورا کے دن سخاوت کرنا یعنی غریب پروری کرنا ، اپنے گھر کے دسترخوان کو وسیع کرنا ، گھر والوں پر خرچ کرنا رزق کے اندر وسعت و فراخی کا باعث بنتا ہے ۔

حدیث مبارکہ میں ہے سیدنا حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :  جس نے عاشورہ کے دن اپنے اہل و اعیال پر نفقے (خرچ) کو وسیع کیا اللہ پاک سارا سال اس پر رزق کی وسعت فراخی (زیادتی) فرماتا ہے ۔ حضرت سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ  ہم نے اس کا تجربہ کیا تو اسے بالکل ایسے ہی پایا ۔ (مشکواۃ شریف صفحہ  170)(غنیتہ الطالبین جلد 2 صفحہ 54)

احادیث میں مذکور ہے کہ جب نیا سال یا مہینہ شروع ہوتا تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس دعا کو سیکھا کرتے تھے اور بتایا کرتے تھے ۔ غرضیکہ اس دعا کو ہر ماہ کے شروع میں پڑھنا چاہیے ، اگرچہ نئے سال کے موقع پر بھی پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے : اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالأَمْنِ وَالإِيمَانِ وَالسَّلامَةِ وَالإِسْلامِ وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ وَجوَارٍ مِنَ الشَّيْطَانِ ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی حدیث نمبر 6410)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو بھی اس دن روزہ رکھنے کاحکم ارشاد فرمایا ۔ (صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 656 حدیث نمبر 2004،چشتی)

محرم کے ایک دن کے روزے کے ثواب کے متعلق نبی کرہم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے : مُحرَّمُ الحرام کے ہر دن کا روزہ ایک ماہ کے روزوں کے برابر ہے ۔ (معجم صغیر جلد 2 صفحہ 71)

بلکہ اسلام سے قبل بھی لوگ اس دن کا اَدب و اِحترام کرتے اور اس دن  روزہ رکھا کرتے تھے ۔

ہمیں بھی چاہیے کہ عاشورہ (10مُحَرَّمُ الْحَرَام) کا روزہ رکھیں اور  خوب عبادات کریں ۔

عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه قَالَ قَالَ رَسُولُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم : أَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ ﷲِ الْمُحَرَّمُ وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِیضَةِ صَلَاةُ اللَّیْلِ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے ۔ (مسلم الصحیح جلد 2 صفحہ 821 حدیث نمبر 1163 بیروت لبنان دار احیاء التراث العربي)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں یوم عاشورہ کا روزہ رکھنے کی وجہ بیان کی گئی ہے : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ قَدِمَ النَّبِيُّ صلی الله علیه و آله وسلم الْمَدِینَةَ فَرَأَی الْیَهُودَ تَصُومُ یَوْمَ عَاشُورَاءَ فَقَالَ مَا هَذَا قَالُوا هَذَا یَوْمٌ صَالِحٌ هَذَا یَوْمٌ نَجَّی ﷲُ بَنِي إِسْرَائِیلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ فَصَامَهُ مُوسَی قَالَ فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَی مِنْکُمْ فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِیَامِهِ ۔
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب مدینہ منورہ میں تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو دیکھا کہ عاشورے کا روزہ رکھتے ہیں ۔ فرمایا کہ یہ کیا ہے؟ عرض کی کہ یہ اچھا دن ہے ، اس روز اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اُن کے دشمن سے نجات دی تھی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کا روزہ رکھا ۔ فرمایا کہ تمہاری نسبت موسیٰ علیہ السلام سے میرا تعلق زیادہ ہے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کا روزہ رکھا اور اس کے روزے کا حکم فرمایا ۔ (بخاری الصحیح، جلد 2 صفحہ 704 حدیث نمبر 1900،چشتی)

اور دس محرم کے ساتھ نویں محرم کا روزہ رکھنے پر دلالت یہود کی مخالفت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اگلے سال نویں محرم کو روزہ رکھنے کا پختہ ارادہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : حِینَ صَامَ رَسُولُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم یَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بِصِیَامِهِ قَالُوا یَا رَسُولَ ﷲِ إِنَّهُ یَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْیَهُودُ وَالنَّصَارَی فَقَالَ رَسُولُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم : فَإِذَا کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاءَ اﷲُ صُمْنَا الْیَوْمَ التَّاسِعَ قَالَ فَلَمْ یَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ حَتَّی تُوُفِّيَ رَسُولُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم ۔
ترجمہ : جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور اس روزے کا حکم دیا تو صحابہ نے عرض کیا اس دن کی تو یہود اور نصاریٰ تعظیم کرتے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب اگلا سال آئے گا تو ہم ان شاء اللہ نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھیں گے ۔ راوی کہتے ہیں کہ ابھی سال آنے نہ پایا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات پا گئے ۔ (مسلم الصحیح جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 797 حدیث نمبر 1134،چشتی)

دسویں محرم کے ساتھ نویں محرم کا روزہ رکھنے کے بارے میں حضرت عبد ﷲ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : صُومُوا یَوْمَ عَاشُورَاءَ وَخَالِفُوا الْیَهُودَ ، صُومُوا قَبْلَهُ یَوْمًا ، أَوْ بَعْدَهُ یَوْمًا ۔
ترجمہ : عاشورے کا روزہ رکھو اور اس میں یہودیوں کی مخالفت کرو۔ ایک دن پہلے اور ایک دن بعد اس کے ساتھ روزہ رکھو ۔ (ابن خزیمة الصحیح جلد 3 صفحہ 290 حدیث نمبر 2095 بیروت المکتب الإسلامی،چشتی)

حضرتِ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے اللّٰہ تعالٰی پر گمان ہے کہ عاشورا  کا روزہ ایک سال پہلے کے گناہ مٹا دیتا ہے ۔ (صحیح مسلم صفحہ 454 حدیث نمبر 2746)

جو عاشورا کے دن روزہ رکھنا چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ 9 محرم یا 11محرم کا روزہ بھی رکھے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : عاشورا کے دن کا روزہ رکھو اور اِس میں یہودیوں کی (اس طرح) مخالفت کرو کہ اس سے پہلے یا بعد میں بھی ایک دن کا روزہ رکھو ۔ (مسندِ احمد جلد 1 صفحہ 518 حدیث نمبر 2154)

 احادیثِ مبارَکہ میں بہت سے ایسے اعمال بیان کیے گئے ہیں جن پر عمل کی بَرَکت سے رِزق میں برکت ہوتی ہے ہمیں چاہیے کہ ایسے اعمال اپنا کر رزق میں برکت کے حق دار بنیں ، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جس نے عاشُورا کے روز اپنے گھر میں رِزق کی فراخی کی اللّٰہ تعالٰی اُس پر سارا سال فراخی فرمائے گا ۔ (معجم اوسط جلد 6 صفحہ 432 حدیث نمبر 9302،چشتی)

حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بال بچّوں کےلیے دسویں (10) محرم کو خوب اچّھے اچّھے کھانے پکائے تو ان شاء اللہ سال بھر تک گھر میں برکت رہے گی ، بہتر ہے کہ حلیم (کھچڑا) پکا کر حضرت شہیدِ کربلا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فاتحہ کرے بہت مُجَرَّب (آزمایا ہوا) ہے ، اسی تاریخ کو غسل کرے تو تمام سال ان شاء اللہ بیماریوں سے اَمْن میں رہے گا کیونکہ اس دن آبِ زم زم تمام پانیوں میں پہنچتا ہے ۔ (اسلامی زندگی صفحہ 131)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص یومِ عاشورا اِثْمِد سرمہ آنکھوں میں لگائے تو اس کی آنکھیں کبھی بھی نہ دُکھیں گی ۔ (شعب الایمان جلد 3 صفحہ 367 حدیث نمبر 3797)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو دس محرم  کو اپنے بچّوں کے خرچ میں فَراخی (یعنی کشادگی) کرےگا تو ﷲ پاک سارا سال اس کو فراخی دےگا ۔ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ہم نے اس حدیث کا تجربہ کیا تو ایسے ہی پایا ۔ (مشکاۃ المصابیح جلد 1 صفحہ 365 حدیث نمبر 1926،چشتی)

عاشورہ کے دن 12 چیزوں کو عُلَما نے مستحب لکھا ہے : (1) روزہ رکھنا (2) صدقہ کرنا (3) نفل نماز پڑھنا (4) ایک ہزارمرتبہ قُلْ هُوَ اللّٰهُ پڑھنا (5) عُلَما کی زیارت کرنا (6) یتیم کے سَر پر ہاتھ پھیرنا (7) اپنے اہل و عِیال کے رِزْق میں وُسْعت کرنا (8) غسل کرنا (9) سُرمہ لگانا (10) ناخن تراشنا (11) مریضوں کی بیمار پُرسی کرنا (12) دشمنوں سے مِلاپ (یعنی صلح صفائی) کرنا ۔ (جنتی زیور صفحہ 158)

عاشورہ کے دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے رُفَقا (ساتھیوں) کے ہمراہ گلشنِ اسلام کی آبیاری کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ، لہٰذا ہمیں اس دن شہدائے کربلا کے ایصالِ ثواب کےلیے قرآن خوانی ، ذِکْر و دُرُوْد اور نذر و نیاز کا بھی اہتمام کرنا چاہیے ۔ عاشورے کے روزے رکھنا سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے اور یہود کی مخالفت میں نویں اور دسویں محرم کے روزے ملا کر رکھنا بھی سنت ہے ۔ اور مذکورہ اعمالِ خیر کرنے چاہیں ناچ گانوں ۔ ڈھول باجے و دیگر غیر شرعی کاموں سے بچنا چاہیے اللہ تعالیٰ ہمیں شریعتِ مطہرہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔