محرم الحرام میں شہدائے کربلا رضی اللہ عنہم کےلیے ایصال ثواب کرنا
محترم قارئینِ کرام : عام دنوں کی طرح محرم الحرام کے مہینے میں بھی شہدائےکربلا رضی اللہ عنہم اور ان کے علاوہ کسی مسلمان کے ایصال ثواب کےلیے فاتحہ دِلا سکتے ہیں ، اس میں کچھ حرج نہیں ۔ زندوں کی عبادت ( بدنی و مالی) کا ثواب دوسرے مسلمان کو بخشنا جائز ہے جا کا ثبوت قرآن و حدیث اور اقوال فقہاء سے ثابت ہے ۔ ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا قرآن و حدیث پر ایمان و عمل ہے اور پھر معتزلہ کی طرح ایصالِ ثواب کا انکار کرتے ہیں انہیں اپنی سوچ پر نظر ثانی اور درج ذیل دلائل پر غور کرنا چاہیے ، فقیر اس مضمون میں چند حوالہ جات پیش کر رہا ہے انہیں پڑھنا ان پر غور کرنا اور پھر انصاف کرنا آپ کا کام ہے ۔ بقول شاعر :
کوئی منصف ہو تو انصاف کا چہرہ دمکے
کوئی عادل ہو تو زنجیر ہلائی جائے
اگر آپ تعصب ، بغض ، حسد اور میں نہ مانوں کی عینک اتار کریہ مضمون مکمل پڑھیں گے تو ان شاء اللہ ضرور فائدہ ہوگا ۔
ایصالِ ثواب کا جواز صراحتاً احادیث طیبہ میں مذکور ہے ۔ اس لیے مسلمان اپنے ماں باپ اور دیگر خویش و اقارب کے وفات کے بعد ان کے نام سے طرح طرح کے نیک کاموں کا ثواب ان کی روح کو پہونچاتے ہیں جو بلاشبہ جائز اور میت کےلیے نجات و مغفرت اور بلندی درجات کا سبب ہے ۔ مگر افسوس اب اس جائز عمل کو بھی لوگ اپنی طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں ۔ ایصال ثواب کا مطلب یہ ہے کہ کسی نیک کام جیسے تلاوت قرآن ،صدقات وخیرات وغیرہ کا ثواب میت کی روح کو پہونچانا ۔ اس کا جائز ہونا متعدد احادیث صحیحہ سے ثا بت ہے ۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ : ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا : میری والدہ اچانک فوت ہو گئی ہے اور میرا خیال ہے کہ اگر وہ (بوقت نزاع) گفتگو کر سکتی تو صدقہ کرتی ۔ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اسے ثواب پہونچے گا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہاں ۔ (بخاری ،حدیث:۱۳۲۲،چشتی)(مسلم،حدیث:۱۰۰۴)(ابوداود،حدیث:۲۸۸۱)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا :میرے والد کا انتقال ہو گیا ہے اور انہوں نے مال چھوڑا ہے مگر اس کے بارے میں کوئی وصیت نہیں کی کیا ہے ۔ اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا یہ صدقہ کرنا اس کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فر مایا ہاں ۔ (مسلم،حدیث:۱۶۳۰)(نسائی،حدیث:۳۶۵۲)(ابن ماجہ،حدیث:۲۷۱۶،چشتی)(مسند احمد بن حنبل،حدیث:۸۸۲۸)(صحیح ابن خزیمہ،حدیث:۲۴۹۸)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میری والدہ انتقال کر چکی ہے اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں تو کیا وہ اسے کوئی نفع دے گا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہاں ۔ اس نے عرض کیا : میرے پاس ایک باغ ہے آپ گواہ رہے میں نے یہ باغ اس کی طرف سے صدقہ کر دیا ۔ (تر مذی،حدیث:۶۶۹)(ابوداود،حدیث:۲۸۸۲)(نسائی،حدیث:۳۶۵۵)
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی والدہ انتقال کر گئی تو انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میری والدہ انتقال کر گئی ہے ۔ کیا میں اس کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں ؟ فر مایا ہاں ۔ انہوں نے عرض کیا : تو کونسا صدقہ بہتر رہے گا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : پانی پلانا ۔ پس مدینہ منورہ میں یہ سعد کی پانی کی سبیل ہے ۔ (نسائی حدیث نمبر ۳۶۶۲،۳۶۶۶)(ابن ماجہ،حدیث:۳۶۸۴،مسند احمد بن حنبل،حدیث:۲۲۵۱۲)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ : قبیلئہ جحنیہ کی ایک خاتون نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا : میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی لیکن وہ حج نہ کر سکی یہاں تک انتقال کر گئی ۔کیا میں اس کی طرف سے حج کروں ؟فر مایا :ہاںتم اس کی طرف سے حج کرو ۔ بھلا بتاٶ اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتیں ؟ اللہ تعالی کا حق ادا کیا کرو ، کیو نکہ اللہ تعالی زیادہ حقدار ہے کہ اس سے وفاء کی جائے ۔ (بخاری، حدیث:۱۷۵۴)(نسائی ، حدیث:۲۶۳۲)(صحیح ابن خزیمہ،حدیث:۳۰۴۱)
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت نے حاضر ہو کر عرض کیا : میں نے اپنی ماں کو ایک باندی صدقہ میں دی تھی اور اب میری ماں فوت ہوگئی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : تمہیں ثواب مل گیا اور وراثت نے وہ باندی تمہیں لوٹادی ہے ۔ اس عورت نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میری ماں پر ایک مہینے کے روزے باقی تھے کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟ فرمایا : ہاں ، اس کی طرف سے روزے رکھو ۔ اس نے عرض کیا : میری ماں نے حج کبھی نہیں کیا تھا ، کیا میں اس کی طرف سے حج ادا کر لوں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ہاں ، اس کی طرف سے حج بھی ادا کرو ۔(مسلم،حدیث:۱۱۴۹)(ترمذی،حدیث:۶۶۷)(سنن الکبری ،حدیث:۶۳۱۴،۶۳۱۶)
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کی کہ اُمِّ سعد (یعنی میری ماں) کا انتقال ہو گیا ہے ان کےلیے کونسا صدقہ افضل ہے ؟ اللہ عزوجل کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا پانی (بہترین صدقہ ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کہنے کے مطابق) حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کنواں کھدوایا اور (اسے اپنی ماں کی طرف منسوب کرتے ہوئے) کہا یہ کنواں سعد کی ماں کےلیے ہے ۔ (یعنی اس کا ثوا ب ان کو پہنچے)۔(سنن ابی داود،کتاب الزکاۃ،باب فی فضل سقی المائ،الحدیث۱۶۸۱،ج۲،ص۱۸۰)
حضرت سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے اس سوال کونسا صدقہ افضل ہے ؟ کا مطلب یہ ہے کہ میں کونسا صدقہ دے کر ان کی روح کو اس کا ثواب بخشوں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعدِ وفات میت کو نیک اعمال خصوصاً مالی صدقہ کا ثواب بخشنا سنّت ہے ۔ قرآن کریم سے تو یہاں تک ثابت ہے کہ نیکوں کی برکت سے بروں کی آفتیں بھی ٹل جاتی ہیں ۔ (سورۃ الکہف آیت نمبر ۸۲) ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواباً پانی کی خیرات کا حکم دیا ۔ کیونکہ پانی سے دینی دنیوی منافع حاصل ہوتے ہیں ۔ بعض لوگ سبیلیں لگاتے ہیں عام مسلمان ختم فاتحہ وغیرہ میں دوسری چیزوں کے ساتھ پانی بھی رکھ دیتے ہیں ان سب کا ماخذ یہ حدیث ہے ۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ ایصالِ ثواب کے الفاظ زبان سے ادا کر نا سنّتِ صحابہ ہے کہ خدایا اس کا ثواب فلاں کو پہنچے ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد ۳ صفحہ ۱۰۴ ، ۱۰۵،چشتی)
مذکورہ احادیث مبارکہ سے روزِ روشن کی طرح ثابت ہوگیا کہ میت کی طرف سے ہر نیک کام کرکے اس کا ثواب پہونچانا صحابہ وصحابیات رضی اللہ عنہم و عنہن میں رائج و معمول تھا جس کی اجازت خود اللہ عزوجل کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیا تھا ، اس لیے اس کے جائز ہونے میں کوئی شبہ بھی نہیں ۔
عوام میں جو یہ بات مشہور ہے کہ محرم الحرام کے مہینے میں شہدائے کربلا رضی اللہ عنہم کے علاوہ کسی کی فاتحہ نہیں دے سکتے ، بالکل غلط اور شریعت مطہرہ پر افتراء ہے ۔ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں : محرم وغیرہ ہر وقت ہر زمانہ میں تمام انبیاء علیہم السلام و اولیاءِ کرام علیہم الرحمہ کی نیاز اور ہر مسلمان کی فاتحہ جائز ہے ، اگر چہ خاص عشرہ کے دن ہو ۔ بکر غلط کہتا ہے اور شریعتِ مطہرہ پر افتراء کرتا ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد 24 صفحہ 499 رضا فاؤنڈیشن لاہور،چشتی)
حضرت صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بعض جاہلوں میں مشہورہے کہ محرم میں سوائے شہدائے کربلا کے دوسروں کی فاتحہ نہ دِلائی جائے ، ان کایہ خیال غلط ہے ، جس طرح دوسرے دنوں میں سب کی فاتحہ ہو سکتی ہے ، ان دنوں میں بھی ہو سکتی ہے ۔ (بہارِ شریعت جلد 3 صفحہ 644 مکتبۃ المدینہ کراچی)
دیوبندیوں کے نزدیک محرم میں سبیل اور ذکر امامِ حرام اور دیوالی کی پیاؤ جائز
دیوبندیوں کے نزدیک محرم میں ذکر شہادت امام حسین علیہ السلام اگرچہ بروایات صحیحہ ہو یا سبیل لگانا ، شربت پلانا یا چندہ سبیل اور شربت میں دینا یا دودھ پلانا سب نا درست اور تشبتہ روافض کی وجہ سے حرام ہے ۔ جبکہ اہلسنت و جماعت کے ہاں ہر زمانے میں سبیل لگانے کا طریقہ کار رہا ہے جو کتب بینی کا ذوق رکھتے ہیں وہ یہ بات اور تشبیہ کے کیا شرائط ہیں وہ بخوبی واقف ہیں اور یہی گنگوہی صاحب لکھتے ہیں ہندو اگر سود کے پیسوں سے سبیل لگائے جسے ہندی زبان میں پیاؤ کہتے ہیں اس کا پانی پینا مسلمان کو جائز ہے میں پوچھتا ہوں ہندو نے امام حسین علیہ السّلام کے نام پہ سبیل لگائی ہوگی یا شنکر کے نام پر ؟ افسوس ایسے بغض پر یہاں تو مال بھی سود کا سبیل بھی بت کے نام کی لیکن پھر بھی بلکل جائز ہوگئ جو کہ شریعت مطہرہ کی رو سے ہر حالت میں حرام و ناجائز ہے ۔
دیوبندیوں کے قطب العالم رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں : محرم میں ذکر شہادت امام حسین علیہ السلام اگرچہ بروایات صحیحہ ہو یا سبیل لگانا، شربت پلانا یا چندہ سبیل اور شربت میں دینا یا دودھ پلانا سب نا درست اور تشبتہ روافض کی وجہ سے حرام ہے ۔ (فتاویٰ رشیدیہ کتاب العلم صفحہ نمبر 149 مطبوعہ دارالاشاعت کراچی)
اِن کے نزدیک محرم میں ذکر امام عالی مقام علیہ السلام کرنا اگرچہ درست روایات کے ساتھ ہو پھر بھی نا درست اور حرام ہے ۔ میں کہتا ہوں تمہاری زبانوں پر تو پورا سال ہی یہ ذکر نہیں چڑھتا ۔ محرم میں تو پھر خاص تمہاری شامت آتی ہے لہٰذا کیونکر جائز ہونے کا فتوی دے سکتے ہو ۔ اور رہی بات سبیل وغیرہ لگانے کی تو یہ کس نص سے حرام ٹھہری اگر کوئی سُنی چندہ کرکے یا اپنی جیب سے فقط ایصالِ ثواب شہیدانِ کربلا کیلئے دودھ پانی کی سبیل لگاتا یا کھانا تقسیم کرتا ہے تو اس میں روافض کی تشبیہ کیسے ؟ اہلسنت نذر و نیاز اور ایصال ثواب اِن کے برصغیر میں قدم رکھنے سے پہلے سے کرتے چلے آرہے ہیں ۔
خیر گنگوہی مع ذریت اس سبیل کا پانی جو کہ مسلمانوں کے چندے سے لگایا گیا ہے وہ پینا پسند نہیں کریں گے اگر کوئی کافر ہندو دیوالی یا ہولی کا کھانا تحفتہ بھیجے وہ کھانا درست اور حلال ہے ۔
دیوبندیوں کے قطب العالم رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں : ہندوؤں کی دیوالی کی کھیلیں ، پوری اور ہندو جو اپنی سُود کی رقم سے پانی کی پیاؤ لگاتے ہیں مسلمانوں کو اس سودی رقم کے پانی پینے میں مضائقہ نہیں ۔ (فتاویٰ رشیدیہ کتاب الخطر و الاباحة صفحہ 575 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی،چشتی)
اگر کوئی ہندو "سود" کے پیسے سے پانی پِلائے تو اس پانی کے پینے میں کوئی حرج نہیں وہ پی لیں گے ۔ حرج ہے تو امام عالی مقام کے ایصال ثواب کیلئے لگائی گئی سبیل سے پانے پینے میں ۔ مسلمانانِ اہلسنت جو محرم الحرام میں نیاز و ایصالِ ثواب کرتے ہیں اُن سے گذارش ہے کہ یہ نیاز اُس منہ میں جانی چاہئیے جو منہ صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم دونوں کے فضائل و کمالات کا معترف ہو اور دل و جان سے اُن کو مانتا ہو بصورت دیگر یہ ایصال ثواب نہیں بلکہ وبال جان ہوگا ۔
پہلے سوال کے جواب میں گنگوہی نے امام حسین کے ساتھ "علیہ السلام" لکھا ہے اس بارے میں کیا کہتے ہیں مفتیانِ دیوبند گنگوہی شیعہ ہوئے کہ نہیں ؟
جب سید الشُھَدَاء حضرت امام حسین علیہ السلام کی نیاز اور آپ کے ایصالِ ثواب کےلیے پانی کی بات آتی ہے تو ساتھ ہی بدعت و حرام کے مروڑ اٹھنے لگ جاتے ہیں ۔ آخر حضرت سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ سے کیا دشمنی ہے کہ ان کے ایصالِ ثواب کا پانی ناجائز اور اس کے مقابلے میں ہندوؤں کے سودی رقم کا پانی اور ہولی دیوالی کی پوریاں جائز ؟
اگر حضرت سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے ایصال ثواب کی سبیل کا دودھ اور شربت تشبیہِ روافض کی وجہ سے حرام ہے تو یہ ہندوؤں سے ہولی دیوالی کی پوریاں لینے میں تشبیہِ کفار نہیں پائی جا رہی ؟ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment