ذکرِ شھادتِ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ پر رونا
محترم قارئینِ کرام : شہادتِ حضرت سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ تاریخ انسانی کا ایک غیر معمولی واقعہ ہے کہ پیغمبر کے پیروکاروں نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے کو بیدردی سے شہید کر کے اس کا سرِ اقدس نیزے پر سجایا ۔ یہی نہیں خاندانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شہزادوں اور اصحاب حسین رضی اللہ عنہم کو بھی اپنے انتقام کا نشانہ بنا کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ ان کا جرم یہ تھا کہ وہ ایک فاسق اور فاجر کی بیعت کر کے دین میں تحریف کے مرتکب نہیں ہوئے تھے ، انہوں نے اصولوں پر باطل کے ساتھ سمجھوتے سے صاف انکار کردیا تھا ۔ انہوں نے آمریت اور ملوکیت کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے سے انکار کر دیا تھا ، انہوں نے انسان کے بنیادی حقوق کے غاصبوں کی حکومت کی توثیق کرنے کی بزدلی نہیں دکھائی تھی ۔ حسین ابن علی رضی اللہ عنہ اور ان کے 72 جان نثاروں کے خون سے کربلا کی ریت ہی سرخ نہیں ہوئی ، بلکہ اس سرخی نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ واقعۂ کربلا کا غم ہر مسلمان کے دل میں ہونا چاہیے اور یہ اہل بیت رضی اللہ عنہم سے محبت کی علامت ہے۔ مگر شریعت محمدی ہمیں صبر کا درس دیتی ہے ۔ لہٰذا اس غم کا اظہار مرثیہ و ماتم اور چیخیں مار کر رونے کی صورت وغیرہ میں نہیں ہونا چاہیے ۔ جسے اس واقعۂ کربلا کا غم نہیں اس کی محبت اہل بیت رضی اللہ عنہم سے ناقص اور جس کی محبت اہل بیت رضی اللہ عنہم سے ناقص ہے اس کا ایمان ناقص ہے ۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : کون سا سنی ہوگا جسے واقِعۂ ہائلۂ کربلا (یعنی کربلا کے خوف ناک قصّے) کاغم نہیں یا اُس کی یاد سے اس کا دل محزون (یعنی رنجیدہ) اور آنکھ پُرنم (یعنی اشک بار) نہیں ، ہاں مصائب (یعنی مصیبتوں)میں ہم کو صبر کاحکم فرمایا ہے ، جزع فزع (یعنی رونے پیٹنے) کو شریعت منع فرماتی ہے ، اور جسے واقعی دل میں غم نہ ہو اُسے جھوٹا اظہارِغم رِیا ہے اور قصداً غم آوری وغم پروری (یعنی جان بوجھ کر غم کی کیفیت پیدا کرنا اور غم پالے رہنا) خلاف رِضاہے جسے اس کاغم نہ ہو اسے بے غم نہ رہناچاہئے بلکہ اس غم نہ ہونے کا غم چاہیے کہ اس کی محبت ناقص ہے اور جس کی محبت ناقص اس کاایمان ناقص ہے ۔ اعلیٰ حضرت سے سوال ہوا کہ میلاد شریف میں شہادت کا بیان اور نوحہ اشعاروں کے پڑھتے ہی میلاد خواں خود روتے ہیں اور دوسروں کو بھی رلاتے ہیں مثال کی زینب کلثوم صغریٰ وغیرہ وغیرہ اس طرح سے پڑھتی تھیں اور روتی تھیں یعنی اس طرح پڑھنا جائز ہے یا نہیں ۔ تو اس جواب میں امام اہلسنت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : نوحہ ماتم حرام ہے ، بیان شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ ناجائز طور پر جاہلوں میں رائج ہے خود ہی ممنوع اور مجلس میلاد مبارک میں کہ مجلس سرور عالم کے ساتھ اسکا ملانا اور حماقت ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ۲۴ صفحہ ۴۸۹ ، ۴۸۸) رضا فاؤنڈیشن لاہور)
لہٰذا ذکرِ شھادتِ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سن کر دل میں غم رکھے ۔ زور سے چیخیں مار کر رونا چلانا منع ہے ۔
محدثین علیہم الرحمہ بیان کرتے ہیں کہ امام عالی مقام کی شہادت پر نہ صرف دنیا روئی ، زمین و آسمان نے بھی آنسو بہائے ، شہادت حسین پر آسمان بھی نوحہ کناں تھا انسان تو انسان جنات نے بھی مظلوم کربلا کی نوحہ خوانی کی ۔ محدثین بیان کرتے ہیں کہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شہادت کے وقت بیت المقدس میں جو پتھر اٹھایا گیا اس کے نیچے سے خون نکلا ، شہادت حسین کے بعد ملک شام میں بھی جس پتھر کو ہٹایا گیا اس کے نیچے سے خون کا چشمہ ابل پڑا ۔ محدثین علیہم الرحمہ کا کہنا ہے کہ شہادت حسین پر پہلے آسمان سرخ ہوگیا ۔ پھر سیاہ ہو گیا ۔ ستارے ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے یوں لگتا تھا جیسے کائنات ٹکرا کر ختم ہوجائے گی یوں لگا جیسے قیامت قائم ہوگئی ہو دنیا پر اندھیرا چھا گیا ۔
امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ روایت نقل فرماتے ہیں : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْرَائِيلَ قَالَ: رَأَيْتُ فِي كِتَابِ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ بِخَطِّ يَدِهِ : نا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ قثنا الرَّبِيعُ بْنُ مُنْذِرٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ : كَانَ حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ يَقُولُ : مَنْ دَمَعَتَا عَيْنَاهُ فِينَا دَمْعَةً ، أَوْ قَطَرَتْ عَيْنَاهُ فِينَا قَطْرَةً ، أَثْوَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْجَنَّةَ ۔
ترجمہ : منذر بیان کرتے ہیں امام حسین رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے : جس کی آنکھ سے ایک قطرہ آنسو ہمارے غم میں ٹپک پڑا اللہ عزوجل اسے جنت میں جگہ دے گا ۔ (فضائل صحابہ رضی اللہ عنہم حدیث نمبر 1154)
امام طبرانی علیہ الرحمہ نے ابوقبیل سے سند حسن کے ساتھ روایت کیا ہے کہ : لما قتل الحسين بن علي انکسفت الشمس کسفة حتي بدت الکواکب نصف النهار حتي ظننا أنهاهي ۔
ترجمہ : جب سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا تو سورج کو شدید گہن لگ گیا حتی کہ دوپہر کے وقت تارے نمودار ہو گئے یہاں تک کہ انہیں اطمینان ہونے لگا کہ یہ رات ہے ۔ (مجمع الزوائد، 9 : 197)(معجم الکبير حدیث نمبر 2838)
امام طبرانی علیہ الرحمہ نے معجم الکبیر میں جمیل بن زید سے روایت کی ہے انہوں نے کہا : لما قتل الحسين احمرت السماء ۔
ترجمہ : جب حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا تو آسماں سرخ ہو گیا ۔ (معجم الکبير، ح : 2837،چشتی)(مجمع الزوائد، 9 : 197)
عیسی بن حارث الکندی علیہ الرحمہ سے مروی ہے کہ : لما قتل الحسين مکثنا سبعة أيام اذا صلينا العصر نظرنا الي الشمس علي أطراف الحيطان کأنها الملاحف المعصفرة و نظرنا إلي الکواکب يضرب بعضها بعضاً ۔
ترجمہ : جب امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا گیا تو ہم سات دن تک ٹھہرے رہے جب ہم عصر کی نماز پڑھتے تو ہم دیواروں کے کناروں سے سورج کی طرف دیکھتے تو گویا وہ زرد رنگ کی چادریں محسوس ہوتا اور ہم ستاروں کی طرف دیکھتے ان میں سے بعض، بعض سے ٹکراتے ۔ (معجم الکبير حدیث نمبر 2839)
امام طبرانی علیہ الرحمہ نے معجم الکبیر میں محمد بن سیرین سے روایت کی ہے ۔ فرماتے ہیں : لم يکن في السماء حمرة حتي قتل الحسين ۔
ترجمہ : حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت آسمان پر سرخی چھائی رہی ۔ (معجم الکبير، ح : 2840)(مجمع الزوائد، 9 : 197)
امام طبرانی علیہ الرحمہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کرتے ہیں ۔ سیدہ فرماتی ہیں : سمعت الجن تنوح علی الحسين بن علی رضی اللہ عنهما ۔
ترجمہ : میں نے جنوں کو سنا کہ وہ حسین بن علی کے قتل پر نوحہ کر رہے ہیں ۔ (معجم الکبير، ح : 2862، 2867،چشتی)(مجمع الزوائد 9 : 199)
امام طبرانی نے زھری علیہما الرحمہ سے روایت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : لما قتل الحسين بن علی رضی اللہ عنہما لم يرفع حجر بيت المقدس الا وجد تحته دم عبيط ۔
ترجمہ : جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا تو بیت المقدس کا جو پتھر بھی اٹھایا جاتا اس کے نیچے تازہ خون پایا گیا ۔ (معجم الکبير، 3، ح : 2834)
امام طبرانی نے امام زہری علیہما الرحمہ سے اس قسم کی ایک اور روایت بھی نقل کی ہے ۔ انہوں نے کہا : مارفع حجر بالشام يوم قتل الحسين بن علی الاعن دم ۔
ترجمہ : شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ کے دن شام میں جو بھی پتھر اٹھایا جاتا تو وہ خون آلود ہوتا ۔ (معجم الکبير، ح : 2835)(مجمع الزوائد، 9 : 194)
عن أبی أمامة قال قال رسول الله صلی الله علیه و آلہ وسلم لنسائه لا تبکوا هذا الصبی یعنی حسینا قال وکان یوم أم سلمة فنزل جبریل فدخل رسول الله صلی الله علیه و آلہ وسلم الداخل وقال لام سلمة لا تدعی أحدا أن یدخل علی فجاء الحسین فلما نظر إلی النبی صلی الله علیه وسلم فی البیت أراد أن یدخل فأخذته أم سلمة فاحتضنته وجعلت تناغیه وتسکنه فلما اشتد فی البکاء خلت عنه فدخل حتی جلس فی حجر النبی صلی الله علیه وسلم فقال جبریل للنبی صلی الله علیه وسلم إن أمتک ستقتل ابنک هذا فقال النبی صلی الله علیه وسلم یقتلونه وهم مؤمنون بی قال نعم یقتلونه فتناول جبریل تربة فقال بمکان کذا وکذا فخرج رسول الله صلی الله علیه وسلم قد احتضن حسینا کاسف البال مغموما فظنت أم سلمة أنه غضب من دخول الصبی علیه فقالت یا نبی الله جعلت لک الفداء انک قلت لنا لا تبکوا هذا الصبی وأمرتنی ان لا أدع أحدا یدخل علیک فجاء فخلیت عنه فلم یرد علیها فخرج إلی أصحابه وهم جلوس فقال إن أمتی یقتلون هذا ۔
ترجمہ : حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن سے فرمایا : اس بچے (حسین رضی اللہ عنہ) کو نہ رلایا کرو ۔ اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تھے کہ جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوۓ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اے ام سلمہ رضی اللہ عنہ کسی کو میرے کمرے میں آنے کی اجازت نہ دینا ۔ حسین رضی اللہ عنہ آئے جونہی اپنے نانا کو دیکھا تو چاہا کہ کمرے میں داخل ہوں ۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے سینے سے لگایا تو حسین رضی اللہ عنہ نے رونا شروع کر دیا ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بہت کوشش کی لیکن حسین رضی اللہ عنہ کا گریہ بڑھتا گیا اور اسی گریے کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کمرے میں چلے گئے اور جا کر اپنے نانا کی گود میں بیٹھ گئے ۔ (مجمع الزوائد، الهیثمی، ج 9، ص 189،چشتی)(المعجم الکبیر، الطبرانی، ج 8، ص 285 – 286)(تاریخ مدینة دمشق، ابن عساکر، ج 14، ص 190 – 191)(ابن عساکر، ص 245 – 246)
واقعۂ کربلا کا غم ہر مسلمان کے دل میں ہونا چاہیے اور یہ اہل بیت سے محبت کی علامت ہے ۔ مگر شریعت محمدی ہمیں صبر کا درس دیتی ہے لہذا اس غم کا اظہار مرثیہ وماتم اور چیخیں مار کر رونے کی صورت وغیرہ میں نہیں ہونا چاہیے ۔ جسے اس واقعۂ کربلا کا غم نہیں اس کی محبت اہل بیت رضی اللہ عنہم سے ناقص اور جس کی محبت اہل بیت رضی اللہ عنہم سے ناقص ہے اس کا ایمان ناقص ہے ۔
مصیبت پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اپنی مصیبت یا مصائب اہل بیت رضی اللہ عنہم کو یاد کرکے ماتم کرنا یعنی ہائے ہائے ، واویلا کرنا ، چہرے یا سینے پر طمانچے مارنا ، کپڑے پھاڑنا ، بدن کو زخمی کرنا ، نوحہ و جزع فزع کرنا ، یہ باتیں خلاف صبر اور ناجائز و حرام ہیں ۔ جب خود بخود دل پر رقت طاری ہو کر آنکھوں سے آنسو بہہ نکلیں اور گریہ آجائے تو یہ رونا نہ صرف جائز بلکہ موجب رحمت و ثواب ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ولاتقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء ولٰکن لاتشعرون ۔
ترجمہ : اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں ، انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں ۔ (سورۃ البقرہ آیت 154)
ماتم تو ہے ہی حرام ، تین دن سے زیادہ سوگ کی بھی اجازت نہیں ہے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا ۔ جو عورت اللہ عزوجل اور آخرت پر ایمان لائی ہو ، اس کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ سوگ کرے ۔ البتہ اپنے خاوند کی (موت پر) چار ماہ دس دن سوگ کرے ۔ (بخاری حدیث 299، الکتاب الجنائز، مسلم، حدیث 935، مشکوٰۃ حدیث 3471 کتاب الجنائز،چشتی)
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : لیس لاحد ان یعداً اکثر من ثلاثۃ ایام الا المراۃ علی زوجہا حتی تنقضی عدتہا ۔
ترجمہ : کسی مسلمان کو کسی کی موت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنا سوائے عورت کے کہ وہ عدت کے ختم ہونے تک اپنے خاوند کی موت پر سوگ کرسکتی ہے ۔ (من لایحضرہ الفقیہ ج 1)
اس حدیث سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو ہر سال حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا سوگ مناتے ہیں اور دس دن سینہ کوبی کرتی ہیں۔ چارپائی پر نہیں سوتے، اچھا لباس نہیں پہنتے اور کالے کپڑے پہنتے ہیں۔ ہاں ایصال ثواب کرنا ان کی یاد منانا اور ذکر اذکار جائز ہے، یہ سوگ نہیں ہے ۔
امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : کون سا سنی ہوگا جسے واقعہ ہائلہ کربلا کا غم نہیں یا اس کی یاد سے اس کا دل محزون اور آنکھ پرنم نہیں ، ہاں مصائب میں ہم کو صبر کاحکم فرمایا ہے ، جزع فزع کو شریعت منع فرماتی ہے ، اور جسے واقعی دل میں غم نہ ہو اسے جھوٹا اظہارِغم ریاء ہے اور قصداً غم آوری وغم پروری خلافِ رضاہے ۔ جسے اس کاغم نہ ہو اسے بیغم نہ رہنا چاہئے بلکہ اس غم نہ ہونے کا غم چاہئے کہ اس کی محبت ناقص ہے اور جس کی محبت ناقص اس کاایمان ناقص ۔ (فتاوى رضویہ جلد 24 صفحہ 500 ، 501 رضا فاؤنڈیشن لاہور،چشتی)
امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : تعزیہ آتا دیکھ کر اعراض و روگردانی کریں۔ اس کی طرف دیکھنا ہی نہیں چاہیے ۔ (عرفان شریعت ، حصہ اول صفحہ 15)
امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : غرض عشرۂ محرم الحرام کہ اگلی شریعتوں سے اس شریعت پاک تک نہایت بابرکت محل عبادت ٹھہرا تھا، ان بے ہودہ رسوم نے جاہلانہ اور فاسقانہ میلوں کا زمانہ کر دیا ۔ یہ کچھ اور اس کے ساتھ خیال وہ کچھ کہ گویا خودساختہ تصویریں بعینہٖ حضرات شہداء رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جنازے ہیں ۔
کچھ اتارا باقی توڑا اور دفن کر دیے ۔ یہ ہر سال اضاعت مال کے جرم دو وبال جداگانہ ہیں۔ اب تعزیہ داری اس طریقۂ نامرضیہ کا نام ہے ۔ قطعاً بدعت و ناجائز حرام ہے ۔ تعزیہ پر چڑھایا ہوا کھانا نہ کھانا چاہیے ۔ اگر نیاز دے کر چڑھائیں ، یا چڑھا کر نیاز دیں تو بھی اس کے کھانے سے احتراز کریں ۔ (رسالہ تعزیہ داری) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment