محبت و مودتِ اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم حصّہ سوم
امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور محبتِ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم
حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں جتنے آئمہ اہل بیت رضی اللہ عنہم حیات تھے ، آپ ان میں سے ہر ایک کے شاگرد بنے۔ خود کو حنفی کہلانے والے امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی اہل بیت اطہار کے ساتھ محبت کو دیکھیں کہ حنفیت میں کتنی مؤدتِ اہل بیت موجود ہے ۔ امام ابن ابی حاتم ، امام مزی (تہـذیب الکمال) ، امام ذہبی ، علامہ عسقلانی ، امام سیوطی اور دیگر آئمہ علیہم الرحمہ نے بیان کیا کہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کئے ۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے مناقب پر سب سے عظیم کتاب ’’مناقب امام ابی حنیفہ‘‘ (امام موفق بن احمد المکی) میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مبارک روایت کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جب مدینہ گئے تو سیدنا امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا : فَاِنَّ لَکَ عِنْدِی حُرْمَةً کَحُرْمَةِ جَدِّکَ صلیٰ الله عليه وآله وسلم فِيْ حَيَاتِهِ عَلٰی اَصْحَابِهِ ۔
ترجمہ : آپ کی حرمت اور تعظیم و تکریم میرے اوپر اس طرح واجب ہے جس طرح صحابہ کرام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعظیم و تکریم واجب تھی ۔
یعنی جو تعظیم و تکریم صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کیا کرتے تھے ، میں اسی طرح وہ تعظیم آپ کی کرتا ہوں چونکہ آپ کی حرمت و تعظیم اور محبت اور مؤدت میں مجھے حرمت و تعظیم اور مؤدت و محبتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نظر آتی ہے ۔ (المناقب للموفق المکی صفحہ 168،چشتی)
حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو امام محمد جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا ۔ امام ابن المکی ’’مناقب ابوحنیفہ‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ جب سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کوفہ تشریف لائے اور سیدنا امام ابوحنیفہ کو آپ کی آمد کا پتہ چلا تو آپ اپنے بہت سے اکابر تلامذہ کو لے کر سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں زیارت و علمی استفادہ کےلیے حاضر ہوئے ۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ آپ کی مجلس میں ادب و احترام سے پاؤں اور گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔ گھٹنوں کے بل بیٹھنے کا یہ خاص طریقہ کسی کا خوف ، ہیبت اور کمال درجے کا ادب و احترام طاری ہونے کو ظاہر کرتا ہے ۔ آپ کے شاگردوں نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو اس طرح بیٹھے دیکھا تو سارے اسی طرح گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے ۔
امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ سارے لوگوں نے اپنے بیٹھنے کا طریقِ نشست بدل لیا ہے اور اس شخص کی طرح سارے بیٹھ گئے ہیں تو آپ نے ان سے پوچھا یہ کون ہیں جن کی تم سب اتنی تعظیم و توقیر کررہے ہو کہ جس طرح انہیں میرے سامنے بیٹھتے ہوئے دیکھا تم ساروں نے اپنی ہئیت اور طریقہ بدل لیا ؟ انہوں نے کہا : یہ ’’ہمارے استاد ابوحنیفہ ہیں ۔ یہ امام اعظم رضی اللہ عنہ کی حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے ساتھ پہلی ملاقات تھی ۔ بعد ازاں امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے علمی و فکری استفادہ کیا۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد امام حسن بن زیاد لولؤی روایت کرتے ہیں : سَمِعْتُ اَبَا حَنِيْفَهَ وَسُئِلَ مَنْ اَفْقَهَ مَنْ رَايْتَ ؟
ترجمہ : امام ابوحنیفہ سے پوچھا گیا کہ اس پوری روئے زمین پر جتنے اکابر آئمہ علماء کو آج تک آپ نے دیکھا سب سے زیادہ فقیہ کس کو پایا ؟ آپ نے جواب دیا : مَارَاَيْتُ اَفْقَهَ مِنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمّد الصَّادِق .
ترجمہ : میں نے روئے زمین پر امام جعفر محمد صادق رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی فقیہ نہیں دیکھا ۔
علاوہ ازیں سیدنا امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو درج ذیل آئمہ اہل بیت اطہار کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے کا اعزاز حاصل ہوا : ⬇
امام زید بن علی (یعنی امام زین العابدین کے بیٹے اور امام حسین کے پوتے)
امام عبداللہ بن علی (یعنی امام زین العابدین کے بیٹے اور سیدنا امام حسین کے پوتے)
امام عبداللہ بن حسن المثنیٰ (امام عبداللہ الکامل)
امام حسن المثلث (امام حسن مجتبیٰ کے پڑپوتے)
امام حسن بن زید بن امام حسن مجتبیٰ
حسن بن محمد بن حنفیہ (سیدنا علی شیر خد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے)
امام جعفر بن تمام بن عباس بن عبدالمطلب (حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس کے پوتے)(رضی اللہ عنہم)
الغرض امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں اہل بیت اطہار کے نو اِمام حیات تھے اور آپ نے ہر ایک کے پاس جاکر زانوئے تلمذ طے کیا۔ آئمہ اطہار اہل بیت میں سے جو امام بھی بنو امیہ یا بنو عباس کی ظالمانہ حکومت یا کسی حکمران کے خلاف خرو ج کرتے، آپ خفیہ طور پر اپنے تلامذہ کے ذریعے بارہ/ بارہ ہزار درہم تک بطور نذرانہ آئمہ اطہار اہل بیت رضی اللہ عنہم کی خدمت میں بھیجتے ۔ آپ نے چیف جسٹس بننے کی حکمرانوں کی طرف سے دی جانے والی پیشکش کو قبول نہ کیا، اس کا بہانہ بناکر آپ کو قید میں ڈال دیا گیا حتی کہ آپ کا جنازہ بھی قید خانے سے نکلا۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ نے چیف جسٹس بننا قبول نہیں کیا تو کیا یہ اتنا بڑا جرم تھا کہ عمر بھر قید کی سزا دے دی جائے اور جنازہ بھی قید خانے سے نکلے ؟ دراصل یہ حکمرانوں کا بہانہ تھا کہ ہمارا حکم نہیں مانا اور چیف جسٹس کا عہدہ قبول نہیں کیا۔ سبب یہ تھا کہ حکمران جانتے تھے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ گھر بیٹھ کر اہل بیت کے ہر شہزادے کی خدمت کرتے ہیں، ان کے ساتھ محبت و مؤدت کا اظہار کرتے ہیں۔ لہذا ان کو محبت اہل بیت کی سزا دی جائے۔ پس آپ نے محبت اہل بیت میں شہادت پائی ۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور محبتِ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو اہل بیت اطہار سے شدید محبت و مؤدت تھی ۔ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ جیسی ہستیوں کے پاس اگر کوئی مسئلہ پوچھنے جاتا تو فرماتے : اِذْهَبْ اِلٰی مَالِک عِنْدَهُ عِلْمُنَا .
ترجمہ : مالک کے پاس چلے جاؤ ، ہم اہل بیت کا علم اس کے پاس ہے ۔
آپ کل آئمہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کے شاگرد تھے اور ان کی محبت و مودت میں فنا تھے ۔ ایک طلاق کے مسئلے کو بہانہ بناکر بنو عباس کے حکمرانوں نے ان کو محبت و مودتِ اہل بیت کی سزا دی۔ یہاں تک کہ ان کے سر اور داڑھی کو مونڈھ دیا اور سواری پر بٹھا کر مدینے کی گلیوں میں گھمایا اور حکم دیا کہ سب کو بتاؤ کہ میں امام مالک ہوں ۔ آپ کہتے جاتے : جو مجھے پہچانتا ہے پہچان لے کہ میں کون ہوں اور جو مجھے اس حال میں دیکھ کر نہیں پہچان رہا وہ جان لے کہ میں مالک بن انس ہوں۔ اس واقعہ کے بعد آپ 25 سال تک گھر میں گوشہ نشین ہوگئے اور باہر نہیں نکلے ۔ یہ دور بنو امیہ اور بنو عباس کے حکمرانوں کا تھا کہ جہاں آئمہ اہلبیت اطہار کا نام نہیں لیا جاسکتا تھا ۔ بنو عباس نے اہل بیت کے نام پر حکومت پر قبضہ کرلیا اور پھر چن چن کے ایک ایک اہل بیت کے امام اور اہل بیت کے محب کو شہید کیا ۔ بنو عباس کا تعلق چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب کے ساتھ تھا لہٰذا اس تعلق کی وجہ سے یہ آئمہ کرام ان سے بھی محبت کرتے ۔ ان کے ایمان اور محبت و مودت کا عالم یہ تھا کہ بنو عباس اُن پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے مگر یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاندان کے ساتھ اُن کو حاصل نسبت کی وجہ سے معاف کر دیتے ۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو عباسی خلیفہ جعفر بن سلیمان عباسی کے حکم پر جب کوڑے مارے جاتے تو آپ بے ہوش ہوجاتے، جب ہوش آتا تو کہتے : اَعُوْذُ بِاللّٰهِ وَاللّٰه مَاارْتَفَعَ مِنْهَا سَوْطٌ عَنْ جِسْمِيْ اِلَّا وَاَنَا اجعله فِيْ حِلٍّ من ذٰالِکَ الْوَقْت لقرابته من رسول الله ۔
ترجمہ : لوگو گواہ ہوجاؤ! باری تعالیٰ میں نے کوڑے مارنے اور مروانے والے کو معاف کردیا۔ جوں ہی ہوش آتا؟ پہلا جملہ یہی بولتے کہ میں نے معاف کردیا، پھر کوڑے لگتے، پھر کوڑے کھا کھا کر بے ہوش ہوجاتے۔ مگر ہوش میں آتے ہی انہیں معاف کردیتے ۔
ذرا سوچیے ! ان آئمہ کرام علیہم الرحمہ کے ہاں مودت ، محبت ، نسبت اور حرمتِ اہل بیت رضی اللہ عنہم کا کیا عالم تھا ۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ اتنا بڑا ظلم آپ کی ذات کے ساتھ ہوا مگر آپ جوں ہی ہوش میں آتے تو کہتے کہ معاف کردیا ، ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : مجھے لگ رہا تھا کہ شاید کوڑے کھاتے کھاتے میں مرجاؤں گا ۔ ساتھ ہی ساتھ معاف اس لیے کرتا جارہا ہوں کہ بے شک مجھ پر ظلم ہورہا ہے مگر یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا کے خاندان میں سے ہیں ۔ میں نہیں چاہتا کہ قیامت کے دن میری وجہ سے میرے آقا صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا کے خاندان کا کوئی فرد دوزخ میں جائے ۔ بے شک اس نے ظلم ہی کیوں نہ کیا ہو مگر میں اس کا سبب نہ بنوں ۔ اس لئے ہوش میں آتے ہی ساتھ ہی ساتھ معاف کرتا جاتا ہوں ۔ اس قدر ظلم و ستم کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خانوادے کے ساتھ حیاء کا تعلق برقرار رکھا۔ یہ عقیدہ اہل سنت و جماعت ہے ۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور محبتِ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم
امام شافعی پر اہل بیت کی محبت و مؤدت کی وجہ سے ملاؤں نے شیعہ اور رافضی ہونے کے فتوے اور تہمت لگائی ۔ یاد رہے کہ چاروں آئمہ فقہ علیہم الرحمہ کی فطرت میں محبت اور مودت اہل بیت تھی ، ان کے علم اور ایمان کا خمیر محبت اور مودت اہل بیت سے اٹھا تھا۔ امام شافعی نے اپنے دیوان میں ایک رباعی لکھی : ⬇
يَا آلَ بَيْتِ رَسُوْلِ اللّٰهِ حُبُّکُمْ
فَرْضٌ مِّنَ اللّٰهِ فِی الْقُرْآنِ اَنْزَلَهُ
ترجمہ : اے اہل بیت رسول تمہاری محبت اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرض کردی ہے اور اس کا حکم قرآن میں نازل ہوا ہے ۔
يَکْفِيْکُمْ مِنْ عَظِيْمِ الْفَخْرِاَنَّکُمْ
مَنْ لَمْ يُصَلِّ عَلَيْکُمْ لَا صَلاَة لَهُ
ترجمہ : اے اہل بیت تمہاری عظمت اور تمہاری شان اور تمہاری مکانت کی بلندی کے لئے اتنی دلیل کافی ہے کہ جو تم پر درود نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی ۔
دوسرے مقام پر فرمایا
اِنْ کَاْن رَفْضًا حُبُّ آلِ مُحَمَّدٍ
فَلْيَشْهَدِ الثَّقَلاَن اَنِّيْ رَافِضٌ
ترجمہ : اگر آل محمد سے محبت کرنے کا نام رافضی/ شیعہ ہوجانا ہے تو سارا جہان جان لے کہ میں شیعہ ہوں ۔(دیوان امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ)
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور محبتِ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ آپ یزید کے بارے میں کیا حکم کرتے ہیں ؟ انہوں نے جو فتویٰ دیا آفاقِ عالم میں آج تک اس کی آواز گونجتی ہے ، فرمایا : میرے نزدیک یزید کافر ہے ۔ آپ کے صاحبزادے عبداللہ بن احمد بن حنبل نے اس کو روایت کیا اور کثیر کتب میں آج تک بلااختلاف امام احمد بن حنبل کی تکفیر کا فتویٰ یزید پر آج تک قائم ہے۔ آپ کی مودت اور محبت بھی اہل بیت کے ساتھ لاجواب تھی ۔(ماخوذ سوانح امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ،چشتی)
حضرت مجدد الف ثانی شیح احمدفاروقی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجد کا جب اخیر وقت آیا تو امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ نے حالت دریافت کی ، والد محترم نے فرمایا : میں اپنے دل کو اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم کی محبت کے سمندر میں موجزن پارہا ہوں ۔ اورآپ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایاکہ حسنِ خاتمہ کے لئے اہل بیت کرام کی محبت کو بڑا دخل ہے ۔ (مجدد الف ثانی عقائد و نظریات)
امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ اور محبتِ اہلبیت رضی اللہ عنہم
امامِ اہلسنَّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کو ساداتِ کرام سے بے حد عقیدت ومحبت تھی اور یہ عقیدت و محبت صرف زبانی کلامی نہ تھی بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے ساداتِ کرام سے محبت فرماتے اور اگر کبھی لاشعوری میں کوئی تقصیر واقع ہو جاتی تو ایسے انوکھے طریقے سے اس کا اِزالہ فرماتےکہ دیکھنے سننے والے وَرْطَۂ حیرت میں ڈوب جاتے چنانچہ اِس ضمن میں ایک واقعہ پیشِ خدمت ہے : مدینۃُ المرشد بریلی شریف کے کسی محلہ میں میرے آقا اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ مدعو تھے ۔ اِرادت مندوں نے اپنے یہاں لانے کےلیے پالکی کا اِہتمام کیا ۔ چُنانچِہ آپ رحمۃ اللہ علیہ سُوار ہو گئے اور چار مزدور پالکی کو اپنے کندھوں پر اُٹھا کر چل دیے ۔ ابھی تھوڑی ہی دُور گئے تھے کہ یکایک امامِ اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ نے پالکی میں سے آواز دی : پالکی روک دو ۔ پالکی رُک گئی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ فوراً باہر تشریف لائے اور بھرّائی ہوئی آواز میں مزدورو ں سے فرمایا : سچ سچ بتائیں آپ میں سیِّد زادہ کون ہے ؟ کیونکہ میرا ذَوقِ ایمان سرورِ دوجہاں صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کی خُوشبو محسوس کر رہا ہے ۔ ایک مزدور نے آگے بڑھ کر عرض کی : حُضُور ! مَیں سیِّد ہوں ۔ ابھی اس کی بات مکمّل بھی نہ ہونے پائی تھی کہ عالمِ اِسلام کے مقتدر پیشوا اور اپنے وقت کے عظیم مجدِّد اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا عِمامہ شریف اس سیِّد زادے کے قدموں میں رکھ دیا ۔ امامِ اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ کی آنکھوں سے ٹَپ ٹَپ آنسو گر رہے ہیں اور ہاتھ جوڑ کر اِلتِجا کر رہے ہیں ،معزز شہزادے ! میری گستاخی مُعاف کر دیجیے ، بے خیالی میں مجھ سے بھول ہوگئی ، ہائے غضب ہو گیا ! جن کی نعلِ پاک میرے سر کا تاجِ عزّت ہے ، اُن کے کاندھے پر میں نے سُواری کی ، اگر بروزِقیامت تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پوچھ لیا کہ احمد رَضا ! کیا میرے فرزند کا دوشِ ناز نین اس لئے تھا کہ وہ تیر ی سُواری کا بوجھ اُٹھائے تو میں کیا جواب دو ں گا ! اُس وقت میدانِ مَحشرمیں میرے ناموسِ عشق کی کتنی زبردست رُسوائی ہوگی۔کئی بار زَبان سے مُعاف کر دینے کا اِقرار کروا لینے کے بعد امامِ اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ نے آخِری اِلتجائے شوق پیش کی،محترم شہزادے ! اس لاشُعوری میں ہونے والی خطا کا کفّارہ جبھی اَدا ہوگا کہ اب آپ پالکی میں سُوار ہوں گے اور میں پالکی کو کاندھا دوں گا۔ اِس اِلتجاپر لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور بعض کی تو چیخیں بھی بُلند ہوگئیں ۔ ہزار اِنکار کے بعد آخرِکا ر مزدور شہزادے کو پالکی میں سُوار ہونا ہی پڑا ۔ یہ منظر کس قدر دِل سوز ہے ، اہلسنّت کا جلیلُ الْقَدْر امام مزدوروں میں شامل ہو کر اپنی خداداد عِلمیّت اور عالمگیر شُہرت کا سارا اِعزاز خوشنودیِٔ محبوب کی خاطر ایک گُمنام مزدور شہزادے کے قدموں پر نثار کر رہا ہے ۔ (اَنوارِرضا صفحہ ٤١٥،چشتی)
اِمامِ اَہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں سوال ہوا کہ ” سید کے لڑکے سے جب شاگر ہو یا ملازم ہو دینی یا دنیاوی خدمت لینا اور اس کو مارنا جائز ہے یانہیں؟ توآپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے جواباً ارشاد فرمایا :ذلیل خدمت اس سے لینا جائز نہیں۔ نہ ایسی خدمت پر اسے ملازم رکھنا جائز اور جس خدمت میں ذِلَّت نہیں اس پر ملازم رکھ سکتاہے۔بحالِ شاگرد بھی جہاں تک عُرف اور معروف ہو(خدمت لینا) شرعاً جائز ہے لے سکتا ہے اور اسے(یعنی سید کو ) مارنے سے مُطلَق اِحتراز (یعنی بالکل پرہیز) کرے ۔ (فتاویٰ رضویہ ،۲۲/۵۶۸)
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی احتیاط اور عظمتِ سادات کرام ملاحظہ فرمائیے،چنانچہ حیاتِ اعلیٰ حضرت میں ہے:جناب سیِّد ایُّوب علی صاحِب رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے:ایک کم عُمر صاحِبزادے خانہ داری کے کاموں میں اِمداد کےلیے (اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے) کاشانۂ اقدس میں ملازِم ہوئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سیِّد زادے ہیں لہٰذا (اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے) گھر والوں کو تاکید فرما دی کہ صاحِبزادے صاحب سے خبر دار کوئی کام نہ لیا جائے کہ مخدوم زادہ ہیں (یعنی پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کے فرزندِ ارجمند ہیں ان سے خدمت نہیں لینی بلکہ ان کی خدمت کرنی ہے لہٰذا) کھانا وغیرہ اور جس شے کی ضَرورت ہو (ان کی خدمت میں)حاضِر کی جائے ۔ جس تنخواہ کا وعدہ ہے وہ بطورِ نذرانہ پیش ہوتا رہے،چُنانچِہ حسبُ الارشاد تعمیل ہوتی رہی ۔کچھ عرصہ کے بعد وہ صاحِبزادے خود ہی تشریف لے گئے ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت،۱/۱۷۹)
تعظیم وتوقیر اور احترام سادات کے تعلق سے آپ کے طرزِ عمل کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ساداتِ کرام جز ورسول ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ مستحق توقیر و تعظیم ہیں اور اس پر پورا عمل کرنے والا ہم نے اعلٰی حضرت قدس سرہ العزیز کو پایا۔ اس لیے کہ وہ کسی سید صاحب کو اس کی ذاتی حیثیت و لیاقت سے نہیں دیکھتے بلکہ ا س حیثیت سے ملاحظہ فرماتے کہ سرکار دو عالم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کا جزو ہیں ۔ (حیاتِ اعلٰی حضرت 165/1،چشتی)
تعظیم کےلیے نہ یقین دَرْکار ہے اور نہ ہی کسی خاص سند کی حاجت لہٰذا جو لوگ سادات کہلاتے ہیں ان کی تعظیم کرنی چاہیے ، ان کے حَسَب و نَسَب کی تحقیق میں پڑنے کی حاجت نہیں اور نہ ہی ہمیں اس کا حکم دیا گیا ہے ۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے ساداتِ کرام سے سیِّد ہونے کی سند طلب کرنے اور نہ ملنے پر بُرا بھلا کہنے والے شخص کے بارے میں اِستفسار ہوا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواباً اِرشاد فرمایا : فقیر بارہا فتویٰ دے چکا ہے کہ کسی کو سید سمجھنے اور اس کی تعظیم کرنے کےلیے ہمیں اپنے ذاتی علم سے اسے سید جاننا ضروری نہیں ، جو لوگ سید کہلائے جاتے ہیں ہم ان کی تعظیم کریں گے ، ہمیں تحقیقات کی حاجت نہیں ، نہ سیادت کی سند مانگنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اورخواہی نخواہی سند دِکھانے پر مجبور کرنا اور نہ دکھائیں تو بُرا کہنا ، مَطْعُون کرنا ہر گز جائز نہیں ۔ اَلنَّاسُ اُمَنَاءُ عَلٰی اَنْسَابِھِم ۔ (لوگ اپنے نسب پر امین ہیں ) ۔ ہاں جس کی نسبت ہمیں خوب تحقیق معلوم ہو کہ یہ سید نہیں اور وہ سید بنے اس کی ہم تعظیم نہ کرینگے ، نہ اسے سید کہیں گے اور مناسب ہو گا کہ ناواقفوں کو اس کے فریب سے مُطَّلع کر دیا جائے ۔ میرے خیال میں ایک حکایت ہے جس پرمیرا عمل ہے کہ ایک شخص کسی سیِّد سے اُلجھا ، انہوں نے فرمایا:میں سید ہوں ، کہا : کیا سند ہے تمہارے سید ہونے کی ؟ رات کو زیارتِ اَقدس سے مشرف ہوا کہ معرکۂ حشر ہے،یہ شفاعت خواہ ہوا، اِعراض فرمایا ۔ اس نے عرض کی: میں بھی حضور کا اُمتی ہوں ۔ فرمایا: کیا سند ہے تیرے اُمتی ہونے کی ؟ ۔ (فتاویٰ رضویہ،٢٩/٥٨٧-٥٨٨،چشتی)
تعظیمِ ساداتِ کرام
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نےسید صاحب کے ہاتھ چوم لیے
جناب سید ایوب علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ : فقیر اور برادرم سید قناعت علی کے بیعت ہونے پر بموقع ِعید الفطر بعد ِنماز دست بوسی کے لیے عوام نے ہجوم کیا، مگر جس وقت سید قناعت علی رحمۃ اللہ علیہ دست بوس ہوئے سید ی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اُن کے ہاتھ چوم لئے ، یہ خائف ہوئے اور دیگر مقربان ِ خاص سے تذکرہ کیا تو معلوم ہوا کہ آپ کا یہی معمول ہے کہ بموقع عیدین دوران ِمصافحہ سب سے پہلے جو سید صاحب مصافحہ کرتے ہیں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ اس کی دست بوسی فرمایا کرتے ہیں ۔ غالباً آپ موجود سادات کرام میں سب سے پہلے دست بوس ہوئے ہوں گے ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفرالدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور صفحہ نمبر 286،چشتی)
سادات کودوگنا حصّہ عطا فرماتے
جناب سید ایوب علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اعلیٰ حضر ت کی محبتِ سادات کا ایک اورواقعہ یوں بیان کرتے ہیں : اعلیٰ حضر ت رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں مجلس ِ میلاد مبارک میں سادات کرام کو بہ نسبت اور لوگوں کے دوگنا حصہ بروقت تقسیم شیرینی ملا کرتا تھا اور اسی کا اتباع اہلِ خاندا ن بھی کرتے ہیں ۔ ایک سال بموقع بارہویں شریف ماہ ربیع الاول ہجو م میں سید محمود جان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو خلاف ِمعمول اکہر ا(ایک) حصہ یعنی دو تشتریاں شیر ینی کی بلا قصد پہنچ گئیں ۔ موصوف خاموشی کے ساتھ حصہ لے کر سیدھے حضورِ اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضور کے یہاں سے آج مجھے عام حصہ ملا ۔ فرمایا : سید صاحب تشریف رکھیے ! اور تقسیم کرنے والے کی فوراً طلبی ہوئی اور سخت اظہار ناراضی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا : ابھی ایک سینی (بڑی پلیٹ) میں جس قدر حصے آسکیں بھر کر لاؤ چنانچہ فوراً تعمیل ہوئی ۔ سید صاحب نے عرض بھی کیا کہ حضور میرا یہ مقصد نہ تھا ، ہاں دل کو ضرور تکلیف ہوئی جسے برداشت نہ کر سکا ۔ فرمایا سید صاحب ! یہ شیرینی تو آپ کو قبول کرنا ہوگی ورنہ مجھے سخت تکلیف رہے گی ۔ اور شیر ینی تقسیم کرنے والے سے کہا کہ ایک آدمی کو سید صاحب کے ساتھ کر دو جو اس خوان کو ان کے مکان پر پہنچا آئے انہوں نے فوراً تعمیل کی۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفرالدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور صفحہ 288)
سید صاحب کے گھر جا کر بچے کو دم کیا
قاری احمد صاحب پیلی بھیتی بیان کرتے ہیں کہ : اعلیٰ حضرت’’مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت‘‘میں قیام فرما ہیں،سید شوکت علی صاحب خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں کہ حضرت! میرا لڑکا سخت بیمار ہے ،تمام حکیموں نے جواب دے دیا ہے ، یہی ایک بچہ ہے صبح سے نزع کی حالت طاری ہے ،سخت تکلیف ہے ،میں بڑی اُمید کے ساتھ آپ کی خدمت میں آیا ہوں ۔
اعلیٰ حضرت سید صاحب کی پریشانی سے بہت متاثر ہوئے اور خود اُن کے ہمراہ مریض کو دیکھنے کے لیے گئے ، مریض کو ملاحظہ فرمایا پھر سر سے پیر تک ہاتھ پھیر پھیر کر کچھ دُعائیں پڑھتے رہے ، سید صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت کے ہاتھ رکھتے ہی مریض کو صحت ہونا شروع ہو گئی اور صبح تک وہ مرتا ہوا بچہ اعلیٰ حضرت کی دعا کی برکت سے بالکل تندرست ہو گیا ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور صفحہ نمبر 978 ،چشتی)
غیرِ سیِّد ، سیِّد ہونے کا دعویٰ کرے تو اس کا شرعی حکم کیا ہے ؟
جو واقع میں سیِّد نہ ہو اور دِیدہ ودِانستہ(جان بوجھ کر ) سید بنتا ہو وہ ملعون(لعنت کیا گیا) ہے، نہ اس کا فرض قبول ہو نہ نفل۔رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمفرماتے ہیں:جو کوئی اپنے باپ کے سِوا کسی دوسرے یا کسی غیر والی کی طرف منسوب ہونےکا دعویٰ کرے تو اس پر اللّٰہتعالیٰ،فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے اللّٰہتعالیٰ قیامت کے دن اس کا نہ کوئی فرض قبول فرمائے گا اور نہ ہی کوئی نفل۔ (مُسلِم،کتاب الحج،باب فضل المدینة...الخ ،ص۷۱۲،حدیث:۱۳۷۰) مگر یہ اس کا مُعامَلہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے یہاں ہے ، ہم بِلادلیل تکذیب نہیں کر سکتے ، اَلْبَتَّہ ہمارے علم (میں) تحقیق طور پر معلوم ہے کہ یہ سیِّد نہ تھا اور اب سیِّد بن بیٹھا تو اُسے ہم بھی فاسِق و مُرتکبِ کبیرہ ومستحق لعنت جانیں گے ۔ (فتاویٰ رضویہ ،٢٣/١٩٨)
بد مذ ہب سیِّد کا حکم
اگر کوئی بد مذہب سیِّد ہونے کا دعویٰ کرے اور اُس کی بدمذہبی حدِّ کفر تک پَہُنچ چکی ہو تو ہرگزاس کی تعظیم نہ کی جائے گی ۔ امامِ اہلسنّت ، مجدِّدِ دین وملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ساداتِ کرام کی تعظیم ہمیشہ (کی جائے گی) جب تک ان کی بدمذہبی حدِّ کفر کو نہ پَہُنچے کہ اس کے بعد وہ سیِّد ہی نہیں،نسب مُنْقَطَع ہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآنِ پاک میں اِرشاد فرماتا ہے : قَالَ یٰنُوۡحُ اِنَّہٗ لَیۡسَ مِنْ اَہۡلِکَ ۚ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیۡرُ صَالِحٍ ۔ (پ۱۲، ھُود:۴۶) ۔ ترجَمہ : فرمایا اے نوح ! وہ (یعنی تیرابیٹا کنعان) تیرے گھر والوں میں نہیں بے شک اس کے کام بڑے نالائق ہیں ۔ بدمذہب جن کی بد مذہبی حدِّ کفر کو پَہُنچ جائے اگرچہ سیِّد مشہور ہوں نہ سیِّد ہیں ، نہ اِن کی تعظیم حلال بلکہ توہین و تکفیر فرض ۔ (فتاویٰ رضویہ،٢٢/٤٢١)
صَدرُالْافاضِل حضرتِ علامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدِّین مُراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ بالا آیتِ کریمہ کے تحت فرماتے ہیں:اس سے ثابت ہوا کہ نَسْبی قَرابت سے دِینی قَرابت زیادہ قوی ہے ۔ (خَزائنُ العِرفان،پ ۱۲،ھود،تحت الآیۃ:۴۶)
سادات كا احترام : اعليٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سادات كرام كا بے پناه ادب و احترام كرتے۔ مولوي محمد ابراهيم صاحب فريدي صدر مدرس مدرسه شمس العلوم بدايوں كا بيان ہے كه حضرت مهدی حسن سجاده نشين سركار كلاں مارهره شريف نے فرمايا كه : ٫٫ميں جب بريلي آتا تو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ خود كھانا لاتے اور ہاتھ دھلاتے ۔ حسبِ دستور ایک بار ہاتھ دھلاتے وقت فرمايا ۔ حضرت شهزاده صاحب انگوٹھی اور چھلے مجھے دے ديجيے ، ميں نے اتار كر دے ديے اور وہاں سے ممبئی چلا گيا ۔ ممبئی سے مارهره واپس آيا تو ميری لڑكی فاطمه نے كہا ابا بريلی كے مولانا صاحب كے يہاں سے پارسل آيا تھا جس ميں چھلے اور انگوٹھی تھے ، يه دونوں طلائی تھے اور نامه ميں مذكور تھا ، شهزادی يه دونوں طلائی اشيا آپ كي ہيں ۔ (حيات اعليٰ حضرت صفحہ نمبر 112 ، 111،چشتی)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری کے اساتذہ کرام علیہم الرحمہ
امام احمد رضا قادری محدث بریلوی (متوفی ۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱) رحمۃ اللہ علیہ چودہویں صدی کے وہ عظیم عالم اور دنیائے اسلام کے نامور مفتی ہیں جنہوں نے ساری زندگی عقائد اسلامیہ کے تحفظ اور سنت کی اشاعت میں گزاری۔ ذیل میں اسی عظیم جلیل فقیہ و محدث اسلام کے ان اساتذہ کرام کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جن کی بارگاہ میں آپ نے زانوائے تلمذ تہہ کر کے رفعت و سربلندی حاصل کی ۔
حضرت مولانا نقی علی خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مولانا نقی علی خان بریلوی ۱۲۴۶ھ/۱۸۳۰ء رحمۃ اللہ علیہ میں بریلی شریف میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے آباٶ اجداد قندھار (افغانستان) کے معزز قبیلہ بڑھیج کے پٹھان تھے ۔ آپ نے تمام علوم عقلیہ و نقلیہ کی تعلیم اپنے والد ماجد مولانا رضا علی خان ہی سے حاصل کی تحصیل علوم کے بعد اپنے والد ماجدکی مسند افتا ء کی ذمہ داری بھی سنبھالی ۔
آپ حضرت مولانا عبدالقادر بدایونی رحمۃ اللہ علیہ (م ۱۳۱۹ھ) کی معیت میں ۱۲۹۴ھ میں مارہرہ شریف ضلع ایٹہ یوپی حاضر ہوکر حضرت سید شاہ آل رسول قادری برکاتی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہوئے اور تمام سلاسل میں اجازت و خلافت حاصل کی۔ ۱۲۹۵ھ میں حج بیت ﷲ کےلیے تشریف لے گئے۔ مکہ مکرمہ میں مفتی شافعیہ سید احمد بن ذینی دحلان مکی رحمۃ اللہ علیہ سے مکرر سند حدیث کی اجازت لی ۔
آپ کے اخلاق و عادات بہت عمدہ تھے ۔ پوری زندگی عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور اتباع سنت میں گزاری ۔ اپنی ذات کےلیے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ دوسروں کو بھی یہی تلقین کرتے تھے ۔ سلام کرنے میں ہمیشہ سبقت کرتے ‘ قبلہ کی طرف کبھی پاٶں نہ کرتے اور نہ احتراماً کبھی قبلہ کی طرف تھوکتے تھے ۔ غرباء و مساکین اور طلبہ کے ساتھ انتہائی شفقت سے پیش آتے تھے اور اکثر ان کی مالی مدد بھی کرتے تھے۔ علماء و طلباء کا بہت احترام کرتے تھے۔ ان کے آنے پر بہت خوش ہوتے تھے‘ انتہائی خوش مزاج اور بااخلاق تھے۔ غرور وتکبر نام کو نہ تھا۔ خدام اور ملازمین سے بہت خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے۔ خدا کی رضا کےلیے خدمت دین آپ کا مشغلہ تھا۔ کسی غرض یا ذاتی مفاد کا معمولی شائبہ بھی نہ تھا۔
آپ کے مشہور تلامذہ میں مندرجہ ذیل حضرات کا نام بطور خاص ذکر کیے جانے کے قابل ہے : ⬇
(۱) اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ
(۲) مولانا حسن رضا خان رحمۃ اللہ علیہ
(۳) مولانا برکات احمد بریلوی رحمۃ اللہ علیہ
(۴) مولانا ہدایت رسول لکھنؤی رحمۃ اللہ علیہ
(۵) مفتی حافظ بخش آٹولوی رحمۃ اللہ علیہ
(۶) مولانا حشمت ﷲ خان رحمۃ اللہ علیہ
(۷) مولانا سید امیر احمد بریلوی رحمۃ اللہ علیہ
(۸) مولانا حکیم عبدالصمد رحمۃ اللہ علیہ
۳۰ ذی قعدہ ۱۲۹۷ھ کو اپنے عہد کے یہ جید عالم دین خالق حقیقی سے جاملے ۔
مولاناحکیم مرزا غلام قادر بیگ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مولانا حکیم مرزا غلام قادر بیگ لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ یکم محرم الحرام ۱۲۴۳ھ/۱۲۷۷ء کو محلہ جھوائی ٹولہ لکھنؤ (یوپی) میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد ماجد نے لکھنؤ سے ترک سکونت کرکے بریلی میں سکونت اختیار کرلی تھی ۔ آپ کا خاندان نسلاً ایرانی یا ترکستانی مغل نہیں ہے بلکہ مرزا اور بیگ کے خطابات اعزازی و شاہان مغلیہ کے عطا کردہ ہیں ۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت خواجہ عبدﷲ احرار رحمۃ اللہ علیہ سے ملتا ہے ۔ حضرت احرار رحمۃ اللہ علیہ نسلا فاروقی تھے ۔ اس طرح آپ کا سلسلہ نسب حضرت سیدنا عمر فاروق رضی ﷲ عنہ سے ملتا ہے ۔
مولانا مرزا غلام قادر بیگ اور امام احمد رضا بریلوی کے والد ماجد مولانا نقی علی خاں کے درمیان بڑے دیرینہ تعلقات تھے ۔ اس لیے مولانا مرزا غلام قادر بیگ نے امام احمد رضا خاں علیہم الرحمہ کی تعلیم اپنے ذمہ لے لی تھی ۔ امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائی کتابیں میزان‘ منشعب وغیرہ انہیں سے پڑھیں ۔ آپ کا وصال یکم محرم الحرام ۱۳۶۳ھ/ ۱۸ اکتوبر ۹۱۷ء کو نوے سال کی عمر میں ہوا اور محلہ باقر گنج واقع حسین باغ بریلی میں دفن ہوئے ۔
مولانا عبدالعلی خان رام پوری رحمۃ اللہ علیہ
مولانا عبدالعلی خان رحمۃ اللہ علیہ رام پور یوپی میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم مولوی حیدر علی ٹونکی غیر مقلد سے حاصل کی پھر مفتی شرف الدین رام پوری (المتوفی ۱۲۲۸ھ) ملا عبدالرحیم خاں اور مولوی رفیع اور حکیم صادق علی دہلوی سے طب پڑھی‘ مولانا فضل حق خیرآبادی سے رام پور میں حاشیہ قدیمہ پڑھا‘ علوم حکمیہ سے خصوصی دلچسپی رکھتے تھے ۔ نہایت منکسر المزاج اور خلیق تھے ۔ رسالہ قوشجیہ پر فارسی میں حاشیہ لکھا جو مطبع سرور قیصری رام پور میں طبع ہوا۔ امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ نے تقریبا ۱۳۹۰ھ میں رام میں حاضر ہوکر آپ سے شرح چغمینی کے چند اسباق پڑھے۔آپ کا وصال ۱۳۰۳ھ میں ہوا ۔
حضرت مخدوم شاہ آل رسول قادری مارہروی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت سید شاہ آل رسول مارہروی رحمۃ اللہ علیہ تیرہویں صدی ہجری کے اکابر اولیاء ﷲ سے تھے ۔ آپ کی ولادت باسعادت ۱۲۰۹ھ میں ماہرہ ضلع ایٹہ (یوپی) میں ہوئی ۔ آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے والد ماجد سید شاہ آل برکات ستھرے میاں رحمۃ اللہ علیہ (م ۱۲۸۱ھ) کے آغوش شفقت میں ہوئی ۔ آپ نے علوم دینیہ کی تحصیل حضرت عین الحق شاہ عبدالمجید بدایونی رحمۃ اللہ علیہ (م ۱۲۶۳ھ) مولانا شاہ سلاست ﷲ کشفی بدایونی (م ۱۲۸۱ھ) حضرت شاہ نورالحق رزاق فرنگی محلی لکنھوی رحمۃ اللہ علیہ (۱۲۶۳ھ) ملا عبدالواسع رحمۃ اللہ علیہ سے کی ۔
۱۲۶۶ھ میں مخدوم شیخ العالم عبدالحق رودولوی رحمۃ اللہ علیہ (م ۸۷۰) کے عرس مبارک کے موقع پر مشاہیر علماء و مشائخ کی موجودگی میں دستار بندی ہوئی ۔ اسی سال حضرت سید شاہ آل احمد اچھے میاں مارہروی رحمۃ اللہ علیہ (م ۱۲۳۵) کے ارشاد پر سراج الہند حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (۱۲۳۹ھ) کے درس حدیث میں شریک ہوئے ۔ صحاح ستہ کا دورہ کرنے کے بعد حضرت محدث دہلوی قدس سرہ سے علویہ منامیہ کی اجازت اور احادیث و مصافحات کی اجازتیں پائیں ۔
امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ۵ جمادی الاول ۱۲۹۴ھ کو اپنے والد ماجد مولانا نقی علی خاں رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر شرف بیعت سے مشرف ہوئے ۔ ان سے آپ نے قرأت ‘ تصوف ‘ اخلاق ‘ اسماء الرجال ‘ تاریخ ‘ لغت ‘ ادب اور حدیث وغیرہ کی اجازت لی اور مجلس بیعت میں ہی خلافت سے سرفراز کردیے گئے ۔
حضرت سید شاہ ابوالحسین احمد نوری مارہروی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مولانا سید ابوالحسین نوری رحمۃ اللہ علیہ ۱۹ شوال ۱۲۵۵ھ بروز پنج شنبہ مارہرہ شریف میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم شاہ محمد سعید عثمانی بدایونی (م ۷۷ھ) مولانا فضل ﷲ جالیسری (م ۱۲۸۳ھ) مولانا نور احمد عثمانی بدایونی (م ۱۳۰۱ھ) مولانا ہدایت علی بریلوی (م ۱۳۲۲ھ) سے حاصل کی ۔ ۱۲ ربیع الاول ۱۲۲۷ھ کو دادا بزرگوار حضرت سید شاہ آل رسول مارہروی قدس سرہ سے بیعت ہوئے اور اجازت مطلقہ سے مشرف ہوئے ۔ آپ بہت بڑے شیخ طریقت تھے اور حلقہ بیعت بہت وسیع تھا ۔ اصلاح عقیدہ آپ کا خاص مشغلہ تھا ۔ امام احمد رضا قادری رحمہم اللہ علیہم اجمعین کو آپ سے اذکار اور ادب‘ کتب حدیث اور فن تفسیر کی اجازت ہے ۔ گیارہ رجب ۱۳۶۴ھ کو وصال فرمایا ۔
حضرت شیخ عبدالرحمن سراج مکی قدس سرہ رحمۃ اللہ علیہ
حضرت علامہ شیخ عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ مکہ مکرمہ میں مفتی حنفیہ تھے ۔ امام احمد رضا قادری رحمۃ اللہ علیہ ۱۲۹۵ھ میں پہلے حج کےلیے مکہ مکرمہ حاضر ہوئے تو شیخ عبدالرحمن سراج مکی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو تفسیر‘ حدیث‘ فقہ‘ اصول فقہ کی سند سے نوازا اور اپنے سلسلہ طریقت میں اجازت بھی عطا فرمائی۔ شیخ عبدالرحمن سراج مکی رحمۃ اللہ علیہ نے جو سند فقہ حنفی امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کو عنایت فرمائی ۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ اس سند کے تمام اساتذہ و مشائخ حنفی ہیں ۔ ۳۵ واسطوں سے یہ سند حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تک پہنچتی ہے ۔ حضرت عبدالرحمن سراج کی رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ۱۳۰۱ھ میں مکہ مکرمہ میں ہوا اور جنت المعلیٰ میں دفن ہوئے ۔
حضرت سیدی شیخ احمد بن زینی دحلان شافعی مکی رحمۃ اللہ علیہ
سیدی احمد بن زینی دحلان مکی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ۱۲۳۲ھ مکہ مکرمہ میں ہوئی ۔ آپ اپنے وقت کے بہتر مشہور و معروف عالم دین تھے ۔ آپ حضرت شیخ عثمان و میاطی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے تھے ۔ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے حج کے موقع پر آپ سے سند حدیث‘ فقہ و اصول‘ تفسیر اور دیگر علوم میں اجازت پائی۔ آپ نے ۱۳۰۴ھ میں وصال فرمایا اور جنت البقیع مدینہ منورہ میں دفن ہوئے ۔
حضرت شیخ حسین بن صالح جمل اللیل شافعی مکی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت شیخ سیدی حسین بن صالح جمل اللیل علوی فاطمی قادری مکی رحمۃ اللہ علیہ حرمِ مکہ میں شافعیہ کے مشہور ترین امام و خطیب تھے ۔ آپ عجیب خوش اوقات اور بابرکت بزرگ تھے ۔ بلاد عرب میں آپ کا حلقہ ارادت بہت وسیع تھا ۔
امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ جب پہلی بار حج بیت ﷲ کےلیے تشریف لے گئے تو ایک دن مقامِ ابراہیم میں نماز مغرب کے بعد حضرت شیخ حسین بن صالح نے بلا تعارف سابق آپ کا ہاتھ اپنے دست مبارک میں لے کر اپنے دولت کدہ لے گئے اور دیر تک آپ کی پیشانی کوپکڑ کر فرمایا : بے شک میں اس پیشانی میں ﷲ کا نور پاتا ہوں ۔ اور تاقیام مکہ معظمہ حاضری کا تقاضا و اصرار فرمایا ۔ آپ کو صحاح ستہ اور سلسلہ قادریہ کی اجازت اپنے دست مبارک سے لکھ کر عنایت فرمائی اور فرمایا ’’ تمہارا نام ضیاء الدین احمد ہے ۔ اس سند کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ تک فقط گیارہ واسطے ہیں ۔ پھر آپ کو اپنی کتاب ’’الجوہرۃ المضیہ‘‘ سنائی اور فرمایا : اکثر اہلِ ہند اس سے مستفید نہیں ہو سکتے ۔ ایک تو عربی زبان میں ہے ۔ دوسرے مذہبِ شافعی میں ہے اور اہل ہند اکثر حنفی ہیں ۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کی تشریح آپ اردو زبان میں کردیں اور اس میں مذہبِ حنفیہ کی توضیح بھی کردیں ۔ امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی کتاب ’’الجواہرۃ المضفیہ‘‘ جوکہ مسلکِ شافعی میں مناسک حج کے بیان پر مشتمل ہے‘ اس کا اردو ترجمہ کیا اور صرف دو دن میں اس کی اردو تشریح تحریر فرمائی اور اس کا تاریخی نام ’’النیرۃ الوضیہ فی شرح الجوہرۃ المضیہ‘‘ رکھا ۔ پھر بعد میں تعلیقات و حواشی کا اضافہ فرمایا اور اس کا تاریخی نام ’’الطرۃ الرضیہ علی نیرۃ الوضیہ‘‘ رکھا ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment