Monday, 31 July 2023

قرآنِ پاک میں لفظی یا معنوی تحریف کرنا ریاض شاہ پنڈوی کی ہفوات کا جواب

قرآنِ پاک میں لفظی یا معنوی تحریف کرنا ریاض شاہ پنڈوی کی ہفوات کا جواب
محترم قارئینِ کرام : ریاض شاہ پنڈوی نے قرآن کی آیت جو کہ حضرت ادریس علیہ السلام کے متعلق نازل ہوٸی جس کی تفصیل ہم اس سے پہلے مضمون میں لکھ چُکے ہیں ریاض شاہ پنڈوی کے ویڈیو کلپ کے ساتھ جس میں وہ کہتا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام کو دفن کےلیے وہ مکان ملا جو حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو ملا ۔ اس جواب ہم لکھ چُکے صرف ایک بات عرض کرنی ہے کہ اِس شخص کو اتنی عقل نہیں کہ حضرت ادریس علیہ السلام نبی ہیں اور غیر نبی نبی سے کیسے فضیلت والا ہو سکتا ہے ؟ ۔ دوسری بات حضرت ادریس علیہ السلام کا مزار کہاں ہے یہ کس دلیل سے کہہ رہا ہے کہ نجفِ اشرف میں ہے ؟ ۔ اور یہ بھی یاد رہے حضرت ادریس علیہ السلام کے صدیوں بعد مولا علی رضی اللہ عنہ کا وصال مبارک ہوا پنڈوی بتاۓ بقول اُس کے نجفِ اشرف میں پہلے کون مدفون ہوا اور بعد میں کسے وہاں مدفون ہونے کا شرف ملا ؟

تحریف دو طرح کی ہوتی ہے :  ایک لفظ میں تبدیلی کر دینا ۔ دوسرا : لفظ کو اسی حالت میں رہنے دینا ، لیکن اس کے معنی میں ہیر پھیر کردینا ۔ خلیل بن احمد الفراہیدی لکھتے  ہیں : والتحريف في القرآن تغيير الكلمة عن معناها ۔ (العين جلد 4 صفحہ 210)
ترجمہ : قرآنِ کریم میں تحریف کا مطلب یہ ہے کہ  کلمات کے معانی تبدیل کردینا ۔

شریعت میں تحریف جیسی خصلتِ بد اور جرمِ عظیم میں یہودی بہ کثرت مبتلا تھے ، جیسا کہ قرآنِ کریم میں اس کا بالخصوص ذکر ہے ۔ ارشادِ باری تعالی ہے : اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَ قَدْ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ ۔ (سورہ البقرة آیت نمبر 75)
ترجمہ :  تو اے مسلمانو کیا تمہیں یہ طمع ہے کہ یہ یہودی تمہارا یقین لائیں گے اور ان میں کا تو ایک گروہ وہ تھا کہ اللہ کا کلام سنتے پھر سمجھنے کے بعد اسے دانستہ بدل دیتے ۔

یہ آیت ان انصار کے متعلق نازل ہوئی ہے جو یہود کے حلیف تھے ‘ وہ ان کے پڑوسی بھی تھے اور ان کے درمیان رضاعت بھی تھی وہ یہ چاہتے تھے کہ یہ یہودی مسلمان ہوجائیں ۔ انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس بات کی بہت حرص تھی کہ یہودی اسلام قبول کر لیں کیونکہ وہ یہودیوں کے حلیف تھے اور ان کے پڑوسی بھی تھے ، اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے مسلمانو ! کیا تم یہ امید رکھتے ہو کہ یہ یہودی تمہارا یقین کریں گے یا تمہاری تبلیغ کی وجہ سے ایمان لے آئیں گے حالانکہ ان میں ایک گروہ وہ تھا جوصرف علماء پر مشتمل تھا ، وہ اللہ تعالیٰ کا کلام یعنی تورات سنتے تھے اور پھر اسے سمجھ لینے کے بعد جان بوجھ کر بدل دیتے تھے ، اسی طرح ان یہودیوں نے بھی تورات میں تحریف کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نعت بدل ڈالی ، تو ایسے لوگ کہاں ایمان لائیں گے ؟ لہٰذا تم ان کے ایمان کی امید نہ رکھو ۔ (تفسیر قرطبی جلد ۱ صفحہ ۳ - ۴ الجزء الثانی،چشتی)(تفسیر بیضاوی جلد ۱ صفحہ ۳۴۷ - ۳۴۸)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مسلمان یہ خواہش رکھتے تھے کہ ان کے زمانہ میں جو یہودی ہیں وہ مسلمان ہو جائیں کیونکہ وہ اہل کتاب تھے اور ان کے پاس شریعت تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے ساتھ نرمی کرتے تھے اور ان کی وجہ سے دوسروں پر سختی کرتے تھے تاکہ وہ یہودی مسلمان ہوجائیں ۔ (البحر المحیط جلد ١ صفحہ ٤٣٧ مطبوعہ دارالفکر بیروت ١٤١١ ھ)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : حالانکہ ان کا ایک فریق اللہ کا کلام سنتا تھا ، پھر اس کو سمجھنے کے باوجود اس میں دانستہ تبدیلی کردیتا تھا ۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر ٧٥) 
 
اس آیت میں جو یہ فرمایا ہے کہ ایک فریق اللہ کا کلام سنتا تھا اس کی تفسیر میں دو قول ہیں ‘ ایک قول یہ ہے کہ انہوں نے بِلا واسطہ اللہ تعالیٰ کا کلام سنا تھا اور پھر اس میں تبدیلی کی اور دوسرا قول یہ ہے کہ اس کلام اللہ سے مراد تورات ہے جس میں وہ تحریف کرتے تھے ۔ پہلے قول کے متعلق امام ابن جریر علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : امام محمد بن اسحاق علیہ الرحمہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے بعض اہل علم سے یہ حدیث پہنچی ہے کہ بنو اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا : اے موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے دیدار اور ہمارے درمیان کڑک حائل ہو گئی لیکن جب اللہ تعالیٰ آپ سے ہم کلام ہو تو آپ ہمیں اس کا کلام سنا دیں حضرت موسیٰ علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ‘ اللہ تعالیٰ نے اس کو قبول فرما لیا ‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ تم غسل کرو ‘ صاف کپڑے پہنو اور روزے رکھو ‘ پھر وہ ان کو لے کر کوہ طور پر آئے ‘ جب بادل نے ان کو ڈھانپ لیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے فرمایا : سجدہ میں گر جائیں ‘وہ سجدہ میں گر گئے‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب سے کلام کیا اور انہوں نے اس کلام کو سنا ‘ اللہ تعالیٰ نے بعض چیزوں کا امر کیا اور بعض چیزوں سے منع کیا ‘ انہوں نے اس کو سن کر سمجھ لیا ‘ جب بنواسرائیل کے پاس پہنچے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اس چیز کا حکم دیا ہے اور اس چیز سے منع کیا ہے ‘ تو ان لوگوں نے اس میں تحریف کر دی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام) کے بتائے ہوئے احکام کو بدل دیا ۔ (جامع البیان جلد ١ صفحہ ٢٩١ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ،چشتی)

امام ابن جوزی علیہ الرحمہ اس روایت پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں : بعض اہلِ علم نے اس روایت کا شدید انکار کیا ہے ‘ ان میں سے امام ترمذی علیہ الرحمہ صاحب ” نوادرالاصول “ بھی ہیں انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ کے کلام کو بِلا واسطہ سننا صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خصوصیت ہے ‘ ورنہ ان میں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام میں کیا فرق رہے گا ؟ اس قسم کی احادیث کو کلبی نے روایت کیا ہے اور وہ جھوٹا شخص ہے ۔ (زادالمیسر جلد ١ صفحہ ١٠٣ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت ‘ ١٤٠٧ ھ)

دوسرے قول کے متعلق امام ابن جریر علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : ابن زید نے کہا : اس کلام اللہ سے مراد تورات ہے ‘ بنو اسرائیل اس میں تحریف کرکے اس کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرتے تھے اور حق کو باطل اور باطل کو حق بیان کرتے تھے۔ جب ان کے پاس صاحب حق رشوت لے کر آتا تو کتاب سے اس کی منشاء کے مطابق مسئلہ بیان کرتے اور جب باطل پر قائم کوئی شخص ان کے پاس رشوت لے کر آتا تو کتاب سے اس کی مرضی کے مطابق حکم بیان کرتے ‘ اور جب کوئی شخص رشوت لے کر نہ آتا تو پھر کتاب سے صحیح حکم نکال کر بیان کردیتے ۔ (جامع البیان جلد ١ صفحہ ٢٩١ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ١٤٠٩ ھ)

امام ابن جریر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : زیادہ صحت کے قریب یہ ہے کہ : تورات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جو صفات مذکور تھیں ان میں دانستہ تحریف کرتے تھے اور آپ کی صفات کو تبدیل کر کے بیان کرتے تھے ۔ (جامع البیان جلد ١ صفحہ ٢٩٢ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ) ۔ جیسے ریاض شاہ پنڈوی نے حضرت ادریس علیہ السلام کے متعلق آیت میں معنوی تحریف کی ہے ۔

علامہ آلوسی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ تورات میں مذکور تھا کہ آپ کا گورا رنگ ہے اور متوسط قد ہے اور جب ان سے آخری نبی کی صفات پوچھی جاتیں تو یہ کہتے : ان کا سانولا رنگ ہے اور لمبا قد ہے ۔ (جامع البیان جلد ١ صفحہ ٢٩٨ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جب وہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں : ہم ایمان لے آئے ۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر ٧٦)

علامہ ابن جریر طبری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب منافقین یہود نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم سے ملتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے اور ابوالعالیہ اور قتادہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب یہ آپس میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ تمہاری کتاب میں جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صفات بیان کی گئی ہیں وہ تم مسلمانوں کے سامنے کیوں بیان کرتے ہو ‘ وہ اس بیان کو تمہارے خلاف بنالیں گے کہ جب یہ وہی آنے والے نبی ہیں تو تم ان پر ایمان کیوں نہیں لائے ؟ ۔ (جامع البیان جلد ١ صفحہ ٢٩٢ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ،چشتی)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ان میں سے بعض ان پڑھ ہیں جو زبانی پڑھنے کے سوا (اللہ کی) کتاب کا علم نہیں رکھتے ۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر ٧٨)

اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں کئی گمراہ فرقوں کا بیان فرمایا ہے ‘ پہلے اس فرقہ کا بیان کیا جو اللہ تعالیٰ کے کلام میں تحریف کرتا ہے ‘ پھر دوسرے فرقہ کا بیان کیا جو منافقین ہیں ‘ پھر تیسرے فرقہ کا بیان کیا جو مجادلین (بحث میں ضد سے کام لینے والے) تھے اور یہ کہتے تھے کہ مسلمانوں کے سامنے تورات کی ایسی آیات بیان کرو جو خود تمہارے خلاف حجت ہوں ‘ اس کے بعد اب چوتھے فرقہ کا بیان کیا جو عوام اور ناخواندہ لوگ ہیں ‘ ان کو اللہ تعالیٰ نے امیین فرمایا ‘ امی وہ شخص ہے جو لکھتا ہو نہ پڑھتا ہو یعنی جس طرح مان کے بطن سے ناخواندہ پیدا ہوا تھا اسی حالت پر ہو اور کسی سے علم حاصل نہ کیا ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وہ کتاب کا علم نہیں رکھتے ماسوا ”امانی“ کے ”امانی“ ”امنیہ“ کی جمع ہے ‘ ”امنیہ“ کا ایک معنی ہے : پڑھنا ‘ یعنی یہ عام ان پڑھ لوگ صرف زبانی تورات کو پڑھ لیتے ہیں اس کا معنی نہیں جانتے ‘ جیسے برِ صغیر پاک و ہند میں عام خواندہ لوگ قرآن مجید کی عبارت کو معنی سمجھے بغیر پڑھتے ہیں ‘ اور اس کا دوسرا معنی ہے : تمنا اور آرزو ‘ یعنی ان کی تمنائیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو معاف کر دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا اور ان گناہوں پر گرفت نہیں فرمائے گا ‘ اور ان کے آباء و اجداد میں جو انبیاء ہیں وہ ان کی شفاعت کریں گے ‘ یا ان کے علماء کی جو تمنائیں تھیں کہ دوزخ کی آگ ان کو صرف چند دن جلائے گی ‘ یا اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ سوائے ان جھوٹی اور من گھڑت باتوں کے کتاب کا علم نہیں رکھتے جو انہوں نے اپنے علماء سے سن لی ہیں اور ان کو بہ طور تقلید کے مانتے چلے آرہے ہیں ‘ لیکن یہاں ” امنیہ “ کو تمنا کے معنی پر محمول کرنا زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس کے بعد کی آیت میں ان کی اس تمنا کا ذکر آرہا ہے کہ ان کو صرف چند دن آگ جلائے گی ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : پس عذاب ہے ان لوگوں کےلیے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہیں ۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر ٧٩)

علامہ راغب اصفہانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :اصمعی نے کہا : ”ویل“ بری چیز ہے اور اس کا استعمال حسرت کے موقع پر ہوتا ہے اور ”ویح“ کا استعمال ترحم کے طور پر ہوتا ہے ۔ (المفردات صفحہ ٥٣٥ مطبوعہ المکتبۃ المرتضویہ ‘ ایران ‘ ١٣٤٢ ھ)

امام ابن جریر طبری علیہ الرحمہ اپنی اسانید کے ساتھ روایت کرتے ہیں : 
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : ”فویل لھم“ کا معنی ہے : ان پر عذاب ہوا ابوعیاض نے کہا : ویل اس پیپ کو کہتے ہیں جو جہنم کی جڑ میں گرتی ہے ‘ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کیا کہ ویل ‘ جہنم میں ایک پہاڑ ہے اور حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کیا کہ ویل جہنم میں ایک وادی ہے ‘ کافر اس کی گہرائی تک پہنچنے سے پہلے چالیس سال تک گرتا رہے گا۔ ان احادیت اور آثار کے اعتبار سے ویل کا معنی یہ ہے کہ جو یہودی اپنی طرف سے لکھ کر کتاب اللہ میں تحریف کرتے ہیں ان کو جہنم کی گہرائی میں اہل جہنم کی پیپ پینے کا عذاب ہوگا ۔ (جامع البیان ج ١ ص ٣٠٠۔ ٢٩٩‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

ابو العالیہ نے کہا کہ یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات میں تحریف کرتے تھے اور دنیاوی مال کی وجہ سے اس میں تبدیلی کرتے تھے ‘ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ یہود نے اپنی خواہش کے مطابق تورات میں احکام لکھ دیئے اور جو احکام ان کو ناپسند تھے ان کو انہوں نے تورات سے مٹا دیا ‘ نیز انہوں نے تورات سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام مٹا دیا ‘ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر غضب فرمایا ۔ (جامع البیان ج ١ ص ٣٠١۔ ٣٠٠ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ١٤٠٩ ھ)

مزید فرمایا : مِنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 46)
ترجمہ : کچھ یہودی کلاموں کو ان کی جگہ سے پھیرتے ہیں ۔

ایک اور آیت میں ہے : يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ ۔ (سورہ المائدة آیت نمبر 13)
ترجمہ : اللہ کی باتوں کو ان کے ٹھکانوں سے بدلتے ہیں ۔

اسی طرح فرمایا : يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِهِ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَذَا فَخُذُوهُ وَإِنْ لَمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا ۔ (سورہ المائدة آیت نمبر 41)
ترجمہ : اللہ کی باتوں کو ان کے ٹھکانوں کے بعد بدل دیتے ہیں کہتے ہیں یہ حکم تمہیں ملے تو مانو اور یہ نہ ملے تو بچو اور ۔

کسی عام شخص کے بیان میں تبدیلی کرنا ، بہت بڑا جرم ہے ، جبکہ اللہ کے کلام میں تبدیلی و تحریف تو کبائر میں سے ہے ۔ اور ایسے لوگوں کے متعلق اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ : لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ۔ (سورہ المائدة آیت نمبر 41)
ترجمہ : انہیں دنیا میں رسوائی ہے ، اور انہیں آخرت میں بڑا عذاب ۔

ایک اور جگہ پر اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وَ لٰـكِنْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 46)
ترجمہ : لیکن ان پر تو اللہ نے لعنت کی ان کے کفر کے سبب تو یقین نہیں رکھتے مگر تھوڑا ۔

مذکورہ حوالہ جات سے یہ بات واضح ہوئی کہ لفظ کو بدلنا تو تحریف ہے ہی ، اس کے معنی  اور ترجمہ میں تبدیلی بھی تحریف ہی کہلاتی ہے ، اور ایسا شخص دنیا و آخرت میں رسوائی اور عذاب کا مستحق ہے ، اور ایسے شخص کے دل سے حلاوتِ ایمان ختم ہو کر، اس کی جگہ کفر لےلیتا ہے ۔
تحریف شدہ تراجمِ قرآنِ کریم کو پرنٹ کرنے والے ، اور ان کی نشر و اشاعت کرنے والے بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں ۔

قرآنِ کریم کے ساتھ یوں کھلواڑ کرنے والوں کو روکنا اربابِ اقتدار کی ذمہ داری ہے ، مشہور قاضی ابو یعلی الفراء علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : وإن وجد فيمن يتصدى لعلم الشرع من ليس مِنْ أَهْلِهِ، مِنْ فَقِيهٍ أَوْ وَاعِظٍ، وَلَمْ يأمن اغترار النَّاسِ بِهِ فِي سُوءِ تَأْوِيلٍ، أَوْ تَحْرِيفِ جواب، أنكر عليه التصدي لما ليس مِنْ أَهْلِهِ، وَأَظْهَرَ أَمْرَهُ، لِئَلَّا يُغْتَرَّ بِهِ… وكذلك لَوْ ابْتَدَعَ بَعْضُ الْمُنْتَسِبِينَ إلَى الْعِلْمِ قَوْلًا خَرَقَ بِهِ الْإِجْمَاعَ وَخَالَفَ فِيهِ النَّصَّ وَرَدَّ قَوْلَهُ عُلَمَاءُ عَصْرِهِ أَنْكَرَهُ عَلَيْهِ وَزَجَرَهُ عَنْهُ، فَإِنْ أَقْلَعَ وَتَابَ وَإِلَّا فَالسُّلْطَانُ بِتَهْذِيبِ الدِّينِ أحق. وإذا انفرد بَعْضُ الْمُفَسِّرِينَ لِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى بِتَأْوِيلٍ عَدَلَ فِيهِ عَنْ ظَاهِرِ التَّنْزِيلِ إلَى بَاطِنِ بِدْعَةٍ، متكلف لَهُ غَمْضَ مَعَانِيهِ…كَانَ عَلَى الْمُحْتَسِبِ إنْكَارُ ذَلِكَ ۔ (الأحكام السلطانية صفحہ 293،چشتی)
ترجمہ : اگر شرعی علم میں نا اہل فقیہ ، واعظ وغیرہ کود پڑیں ، اور  ان کی تاویلات و تحریفات کی وجہ سے لوگوں کی گمراہی کا امکان ہو ، تو ایسے شخص کی نقاب کشائی کرنا ، اور اسے روکنا ضروری ہے ، تاکہ لوگ دھوکے سے محفوظ رہیں ۔ اسی طرح اگر کسی نے خلاف اجماع رائے بیان کی ، اور صریح نصوص کی تردید کی ، اور علمائے کرام نے اس کی تردید و مذمت کر دی ، تو حاکم وقت کو ایسے شخص کو روکنا اور ڈانٹ ڈپٹ کرنا ضروری ہے ، اگر وہ باز آجائے ، تو ٹھیک ، ورنہ حاکم کو اختیار ہے کہ وہ دین کی حمایت کےلیے مناسب اقدام کرے ۔ اسی طرح اگر کسی نے قرآن کی تفسیر کرتے ہوئے ، واضح معانی کو چھوڑ کر دور از کار تاویل و تحریف کی ، تو  اربابِ احتساب کی طرف سے اس کو روکنا ضروری ہے ۔

بلکہ اگر  غیر مسلموں کو بھی اسلامی ملک میں رہنے کی اجازت دینی ہے ، تو ان کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے انہیں یہ شرط منوانا ضروری ہے کہ وہ  کتاب اللہ پر کسی قسم کا طعن یا اس میں تحریف نہیں کریں گے ، اور اہلِ اسلام کو ان کے دین سے بھٹکانے سے گریز کریں گے ۔ (الأحكام السلطانية للماوردي صفحہ 225،چشتی)

اگر ہم تاریخ کا جائزہ لیں  تو خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور مسلمان حکمرانوں نے تمام دنیا میں قرآن پاک کو لفظی اور معنوی تحریف سے ہر دور میں محفوظ رکھنے میں اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے ادا کرتے ہوئے اسلام دشمن قوتوں ، نبوت کے جھوٹے  دعوے داروں اور دیگر فتنوں  کی سرکوبی کی۔  کیونکہ ، چاہے یہ نبوت کا جھوٹا دعوے دار مسیلمہ کذاب ہو یا دیگر کوئی اور ، ان تمام فتنوں نے  قرآن پاک کی معنوی تحریف کے ذریعے ہی اپنے باطل نظریات کو سہارا دینے کی سعی لا حاصل کی ہے ۔ بطور مثال چند ایک کا ذکر درج ذیل ہے : ⬇

مسلیمہ کذاب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں ہی نبوت کا دعوی کر دیا تھا ، اور ،،بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ،، وغیرہ آیات میں آنے والی اللہ تعالی کی صفت ’رحمان‘ میں معنوی تحریف کرتے ہوئے ، دعویٰ کیا کہ اس سے مراد میں ہوں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کا قلع قمع کرنے کےلیے لشکر روانہ فرمایا ، پھر بعد میں خلافت صدیقی میں ایک بڑی جنگ کے بعد اس فتنے کا خاتمہ ہوا ۔

مغیرہ بن سعید عجلی نامی ایک مدعی نبوت تھا ، اس نے ،،سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى،، ۔ (سورہ الأعلى آیت نمبر 1) جیسی کچھ آیات کی معنوی تحریف کی ، تو اس وقت کے گورنر خالد بن عبد اللہ قسری نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو قتل کردیا ۔  (تاریخ طبری:7/128، تاریخ ابن کثیر:9/323)

اسی طرح ایک اور بدبخت بیان بن سمعان تمیمی تھا ، اس نے قرآن کریم کی بعض وہ آیات جن میں اللہ تعالی کی الوہیت کا ذکر ہے ، ان میں تحریف معنوی کرتے ہوئے کہا کہ اس سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اسے بھی اس جرم کی پاداش میں قتل کیا گیا ۔ ( تاریخ  الاسلام للذہبی:3/214، الفرق بین الفرق:228)

مندرجہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ عالم کا بگڑنا عوام کے بگڑنے سے زیادہ تباہ کن ہے کیونکہ عوام علماء کو اپنا ہادی اور رہنما سمجھتے ہیں ، وہ علماء کے اقوال پر عمل کرتے اور ان کے افعال کو دلیل بناتے ہیں اور جب علماء ہی کے عقائد و اعمال میں بگاڑ پیدا ہو جائے تو عوام راہ ہدایت پر کس طرح چل سکتی ہے ، اور کئی جگہ پر شایدیہ عالم کہلانے والوں کی بد عملی کا نتیجہ ہے کہ آج لوگ دیندار طبقے سے متنفر ہو رہے ہیں اور ان کے خلاف اپنی زبان طعن دراز کر رہے ہیں ۔ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : ائمہ دین فرماتے ہیں : اے گروہ علماء ! اگرتم مستحبات چھوڑ کر مباحات کی طرف جھکو گے ( تو) عوام مکروہات پرگریں گے ، اگرتم مکروہ کرو گے (تو) عوام حرام میں پڑیں گے ، اگرتم حرام کے مرتکب ہو گے (تو) عوام کفر میں مبتلا ہوں گے ۔ یہ ارشاد نقل کرنے کے بعد فرمایا ’’ بھائیو !  لِلّٰہِ اپنے اوپر رحم کرو ، اپنے اوپر رحم نہ کرو ( تو) اُمتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  پر رحم کرو ، چرواہے کہلاتے ہو بھیڑئیے نہ بنو ۔ (فتاوی رضویہ جلد ۲۴ صفحہ ۱۳۲ - ۱۳۳) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی) ۔ پہلا جوابی مضمون اور ہم نے ادریس علیہ السلام کو بلند مکان پر اٹھا لیا ۔ مکمل مضمون اس لنک میں پڑھیں : https://faizahmadchishti.blogspot.com/2023/07/blog-post_85.html

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...