عظمت و محبتِ اہلِ بیتِ اطہار و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
محترم قارئینِ کرام : حضرات اہلِ بیتِ اطہار و صحابہ کرام رضی اللہ عنہمٍ کی مبارک زندگیاں امت مسلمہ کے لئے معیار رشد وہدایت ہيں ، قرآن وسنت سے اہل بیت اطہار کی شان وعظمت اور صحابہ رضی اللہ عنہمٍ کی شان وعظمت دونوں ثابت ہیں ، ان کے دل ہر قسم کی آلائش وآلودگی سے پاک ہیں ، حضرات اہل بیت کرام رضی اللہ عنہمٍ کو اللہ تعالی نے ہر قسم کی فکری ، عملی اور اعتقادی گندگی سے محفوظ رکھا ، ان کی پاکیزگی و طہارت کا بیان قرآن میں نازل فرمایا،ارشاد الہی ہے : إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ۔
ترجمہ : اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والوکہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کر دے - (سورۃ الاحزاب آیت نمبر 33)
اسی طرح اللہ تعالی نے قرآن کریم میں پیکر ادب صحابۂ کرام کے قلوب کی طہارت وپاکیزگی کا اعلان کیا ، ارشاد الہی ہے : اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ ۔
ترجمہ : بیشک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں رسولُ اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کےلیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے ۔ (سورۃ الحجرات آیت نمبر 3)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت مسلمہ کو محفوظ کشتی بھی عطا فرمائی اوردرخشاں ستارے بھی عطا فرمائے ،آپ نے حضرات اہلبیت کرام کو سفینۂ نوح کی مانند قرار دیا،ارشاد مبارک ہے:مثل أهل بيتي مثل سفينة نوح من ركبها نجا ، ومن تخلف عنها هلك ۔
ترجمہ : بیشک تم میں میرے اہل بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے،جو اس میں سوار ہوگیا نجات پالیا اورجو اس سے دور رہا ہلاک ہوگیا - (مسندا ما م احمد- المستدرك على الصحيحين للحاكم-حدیث نمبر:3270،چشتی)
اور حضرات صحابۂ کرام کی بابت ارشاد فرمایا:إنما أصحابي كالنجوم ، فبأيهم اقتديتم اهتديتم۔
ترجمہ : میرے صحابہ ہدایت کے درخشاں ستاروں کی مانند ہیں،تم ان میں جس کسی کی پیروی کروگے ہدایت پالوگے ۔ (الإبانة الكبرى لابن بطة- حدیث نمبر709،چشتی)
دنیا کے سمندر میں راستہ طئے کرنے کے لئے سورای کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور راستہ دیکھنے کے لئے چمکتے ستاروں کی بھی، ان حضرات سے وابستگی کے ذریعہ انسان منزل مقصود کو پہنچ سکتا ہے-انہوں نےامام رازی کے حوالہ سے کہا کہ اہل سنت وجماعت کا بیڑا پار ہے کیونکہ وہ حضرات اہل بیت کی کشتی میں سوار ہیں اور صحابۂکرام سے روشنی حاصل کررہےہیں ۔
اللہ تعالی نے تمام صحابۂ کرام سے جنت کا وعدہ فرمایا اور انہیں اپنی رضا وخوشنودی کا مژدۂ جاں فزا عطا فرمایا،ارشاد الہی ہے:وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى ۔
ترجمہ : اور اللہ تعالی نے ان تمام(صحابہ)سے جنت وعدہ کرلیا ہے - (سورۃ الحدید:10)
عقیدہ قرآن کریم اور حدیث شریف سے بنتا ہےتاریخی روایات نہیں، اس میں شک نہیں کہ تاریخی روایات کو نقل کرنے میں ناقلین سے فروگزاشت بھی ہوئی ہےاور بہت سے الحاقیات بھی،اس لئےتاریخ کی کتابوں میں کہيں اہل بیت وصحابہ کی عظمت کا پہلو ملتا ہے تو کہیں کوئی ایسی بات بھی ملتی ہے جو ان کی قدرو منزلت اور پاکیزہ کردار کے منافی ہے،اسی لئے مکمل دیانت داری کے ساتھ اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تاریخ کا مطالعہ کرناچاہئیے کہ اہل بیت اطہار وصحابۂ کرام دونوں معیار حق وصداقت ہيں ۔
ان بزرگ حضرات کے درمیان جو مشاجرات ہوئے ہيں ان سے متعلق کسی قسم کی لب کشائی یا خامہ فرسائی نہيں کرنی چاہئیے ، ہمارے لئے یہی نجات وسلامتی کا طریقہ ہے ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف غلط روایتیں منسوب کی گئی ہيں اسی طرح صحابہ اور اہل بیت رضی اللہ عنہمٍ کی طرف بھی غلط باتیں منسوب کی گئی ہیں ، اہل اسلام کے لئے قرآن وسنت کسوٹی ہيں ، اگر کسی تاریخی روایت سے ان سے متعلق کوئی نامناسب بات ثابت ہوتی بھی ہو تو اسے غلط اور باطل قرار دیا جائے گا اور قرآن وسنت میں مذکور ان کی شان وعظمت ،طہارت وپاکیزگي ہی پر ایمان واعتقاد رکھا جائے گا ۔
جب کسی مسئلہ میں مجتہد اجتہاد کرے اور وہ حق کو پالے تو اسے دوہراثواب دیا جاتا ہے اور اگر وہ خطا کرجائے تو اسے ایک ثواب دیا جاتا ہے ، جب عام مجتہد کا اجتہادی خطا پر مؤاخذہ نہیں کیا جاتا بلکہ ایک ثواب دیا جاتا ہے تو پھر کوئی باعظمت صحابی رضی اللہ عنہ اگراپنے اجتہاد میں حق کو نہ پائيں تو کسی کو یہ اجازت نہیں کہ ان کے خلاف اپنی زبان کھولے ، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہمٍ کے مابین جو مشاجرات ہوئیں ان میں کسی کو خوض کرنے اور کلام کرنے کی اجازت نہیں ، ائمۂ دین اور علماء اعلام نے امت کو یہی تعلیم دی کہ ہم تمام صحابۂ کرام سے محبت کرتے ہیں اورہمیشہ خیر وبھلائی کے ساتھ ہی ان کا ذکر کریں گے ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرات اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم کو سفینۂ نجات اور سلامتی کا ذریعہ قراردیا اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہدایت کے درخشاں ستارے قرار دیا ارشاد فرمایا :
أصحابي كالنجوم ، فبأيهم اقتديتم اهتديتم ۔
ترجمہ:میر ے صحابہ ہدایت کے درخشاں ستارے ہیں ،تم ان میں سے جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پالوگے ۔ (مشکوۃ المصابیح ص 554، زجاجۃ المصابیح ج 5 ص 334)
مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح میں حضرت ملاعلی قاری رحمہ اللہ الباری امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ کے حوالہ سے رقمطراز ہیں : نحن معاشر اهل السنة بحمد الله رکبنا سفينة محبة اهل البيت واهتدينا بنجم هدی اصحاب النبی صلی الله عليه وسلم فنرجوا النجاة من اهوال القيامة ودرکات الجحيم والهداية الی مايوجب درجات الجنان والنعيم المقيم - (حاشیہ زجاجۃ المصابیح ج 5 ص 315 ، باب مناقب اہل بیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،مرقاۃالمفاتیح ج5ص610،چشتی)
ترجمہ:الحمد للہ ہم اہل سنت و جماعت اللہ کے فضل وکرم سے اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم کی محبت کی کشتی میں سوار ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہدایت کے ستاروں سے رہبری پارہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ قیامت کی ہولناکیوں سے اورجہنم کے طبقات سے نجات عطا فرمائے گا، ہمیشہ رہنے والی اور نعمتوں والی جنت کے اونچے مقاما ت پر پہونچائیگا ۔
حجۃالوداع سے واپسی کے وقت محبت اہل بیت پر خطبہ
صحیح مسلم شریف میں حدیث پاک ہے : عن زيد بن ارقم ۔۔۔۔ قَالَ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمًا فِينَا خَطِيبًا بِمَاءٍ يُدْعَى خُمًّا بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَوَعَظَ وَذَكَّرَ ثُمَّ قَالَ « أَمَّا بَعْدُ أَلاَ أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِىَ رَسُولُ رَبِّى فَأُجِيبَ وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللَّهِ وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ ». فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ وَرَغَّبَ فِيهِ ثُمَّ قَالَ « وَأَهْلُ بَيْتِى أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِى أَهْلِ بَيْتِى أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِى أَهْلِ بَيْتِى أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِى أَهْلِ بَيْتِى ۔
ترجمہ : حضرت سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں حضرت رسول اللہ صلی علیہ وسلم ایک روز مقام غدیر خم میں خطبہ ارشادفرمانے کےلیے جلوہ گرہوئے جو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ہے ۔ پس آپ نے اللہ تعالیٰ کاشکر بجالایا ، تعریف بیان کی اور وعظ فرمایا، نصیحتیں فرمائیں اورآخرت کی یاد دلائی پھر ارشادرفرمایا: امابعد: اے لوگو !بیشک میں جامۂ بشری میں جلوہ گرہوا ہوں عنقریب میرے رب کا قاصد میری بارگاہ میں حاضرہوگا اورمیں اس کی دعوت کو قبول فرماؤنگا ، اور میں تم میں دوعظیم ترین نعمتیں چھوڑے جارہا ہوں ان میں سے ایک کتاب اللہ ہے جس میں ہدایت اور نور ہے ۔ پس تم اللہ کی کتاب کو تھام لو اور مضبوطی سے پکڑے رہو،اس کے بعد قرآن کریم کے بارے میں تلقین فرمائی اوراس کی طرف ترغیب دلائی پھر ارشاد فرمایا :(دوسری نعمت )اہل بیت کرام ہے ۔ میں تمھیں اللہ کی یاد دلاتا ہوں میرے اہل بیت کے بارے میں، میں تمھیں اللہ کی یاد دلاتا ہوں میرے اہل بیت کے بارے میں ۔ (مسلم شریف ج 2 ص 279 حدیث نمبر:2408،چشتی)(مشکوۃ المصابیح ص68 - زجاجۃ المصابیح ج 5 ص317/318/319)
اذکرکم اللہ : میرے اہل بیت کرام کے بارے میں ، میں تمہیں اللہ کی یاد دلاتاہوں ‘‘ یہ اس لیے فرمایاکہ اہل بیت کرام سے محبت سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کےلیے ہے او رآپ سے محبت اللہ کےلیے ہے لہذا اہل بیت کرام کی محبت اللہ تک پہنچانے والی ہے تو ان کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو کہ کبھی تمہاری زبان سے ان کے خلاف کوئی نامناسب لفظ نہ نکلے ۔
اس حدیث شریف کی شرح میں حضرت ملاعلی قاری رحمہ اللہ الباری فرماتے ہیں : کرر الجملة لافادة مبالغة ولايبعد ان يکون اراد باحدهما اٰله وبالاخری ازواجه لماسبق من اهل البيت يطلق عليهما ۔ (مرقاۃالمفاتیح ج5ص594)
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اذکرکم دومرتبہ فرمایا اس میں حکمت یہ ہے کہ پہلی مرتبہ جوفرمایا اس سے مراد اٰل پاک رضی اللہ عنہم ہیں اوردوسرے سے مراد امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن ہیں۔
صحابہ کی اذیت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اذیت کاباعث
سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق تاکیدی حکم فرمایا کہ ان کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہیں اور اس کے ساتھ ساتھ حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بھی تاکیدی امر فرمایا جیسا کہ جامع ترمذی شریف ج 2 ص 225 ابواب المناقب میں ارشاد مقدس ہے:عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: اللَّهَ اللَّهَ فِى أَصْحَابِى اللَّهَ اللَّهَ فِى أَصْحَابِى لاَ تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِى فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّى أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِى أَبْغَضَهُمْ وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِى وَمَنْ آذَانِى فَقَدْ آذَى اللَّهَ وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ سے ڈرتے رہو ،میرے بعد انہیں ہدف ملامت نہ بناؤ ،پس جس کسی نے ان سے محبت کی توبالیقین اس نے میری محبت کی خاطر ان سے محبت کی ہے اور جس کسی نے ان سے بغض رکھا تواس نے مجھ سے بغض کی بناء پر ان سے بغض رکھاہے اور جس کسی نے ان کو اذیت پہونچائی یقیناً اس نے مجھ کو اذیت دی ہے اور جس نے مجھ کو اذیت دی یقینا اس نے اللہ کو اذیت دی ہے اور جس نے اللہ کو اذیت دی قریب ہے کہ اللہ اس کی گرفت فرماے ۔
قرآن و اہل بیت رضی اللہ عنہم سے وابستگی ہدایت کی ضمانت
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم سے تعلق و وابستگی کو باعث نجات اور گمراہی وضلالت سے حفاظت کا ذریعہ قراردیا جو ان حضرات سے وابستہ ہوجاتا ہے وہ کبھی گمراہ نہیں ہوتا توغور کرنا چاہیے ! کیاوہ نفوس قدسیہ بے راہ روی ودنیا طلبی کا شکار ہوسکتے ہیں ۔ العیاذباللہ ۔
چنانچہ حجۃ الوادع کے موقع پر جہا ں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ساری دنیا کو پیغام امن وسلامتی دیا اوراتمام دین کا اعلان فرمایا وہیں قرآن کریم اور حضرات اہل بیت کرام سے وابستگی کا حکم فرمایا جن سے تعلقِ غلامی ابدی سعادتوں کا ذریعہ ہے اور بے دینی وبدمذہبی اور بداعتقادی وگمراہی سے بچنے کیلئے مضبوط قلعہ ہے ۔
سنن بیہقی وجامع ترمذی شریف کی روایت ہے : عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِى حَجَّتِهِ يَوْمَ عَرَفَةَ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ الْقَصْوَاءِ يَخْطُبُ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّى قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِى أَهْلَ بَيْتِى ۔
ترجمہ : حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات میں دیکھا کہ آپ اپنی مبارک اونٹنی قصواء پرجلوہ گر ہیں اورخطاب فرمارہے ہیں ،میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا : ’’اے لوگو !بیشک میں تم کودوعظیم نعمتیں دے کر جارہاہوں جب تک تم انہیں تھامے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہو گے : وہ کتاب اللہ اور میری عترت اہل بیت ہیں ۔ ( ترمذی شریف جلد 2 صفحہ 219۔حدیث نمبر:3718،چشتی)
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کے مطابق اہل بیت کرام گمراہی سے بچانے والے ہوئے جن سے وابستہ ہونے والا غلط راہ پر نہیں ہوسکتا تو کیا ان پاکباز ومقدس ہستیوں کے متعلق غلط باتیں منسوب کرنا یا ان پر دنیا داری کا الزام لگانا یا ان کے، کے گئے اقدام کو سیاسی اقدام کہنا درست ہوسکتا ہے ؟ جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مبارک میں انکی پاکیز گی کے متعلق فرمایا : انمايريد الله ليذهب عنکم الرجس اهل البيت ويطهرکم تطهيرا-
ترجمہ : یقیناً اللہ تعالیٰ تویہی چاہتا ہے اے نبی کے گھروالوکہ تم سے ہر ناپاکی دور فرمادے او رتمہیں پاک کرکے خوب ستھراکردے ۔ (سورۃالاحزاب ۔33)
اور جن کےلیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعافرمائی : اللهم هؤلاء اهل بيتی فاذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا ۔
ترجمہ : اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں تو ان سے رجس و گندگی کو دور فرما اور انہیں مکمل پاکیزگی عطا فرما ۔ (ترمذی شریف ، ج 2ص 219 حدیث نمبر:3129
احادیثِ صحیحہ کے مطابق خلفائے راشدین (رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین) میں سب سے برتر فضیلت حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کو حاصل ہے ، اس کے بعد حضرت عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو ، پھر حضرت عثمان (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو اور پھر حضرت علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو ۔
حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
امام زہری علیہ الرحمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا : ’’کیا تم نے ابوبکر (صدیق رضی اللہ عنہ) کے بارے کچھ کہا ہے‘‘۔ انہوں نے عرض کی، ہاں (یا رسول اللہ!)۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’وہ کلام مجھے سناؤ میں سنوں گا۔‘ حضرت حسان رضی اللہ عنہ یوں گویا ہوئے ’’وہ غار میں دو میں سے دوسرے تھے۔ جب وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے کر پہاڑ (جبل ثور) پر چڑھے تو دشمن نے اُن کے ارد گرد چکر لگائے اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہے کہ وہ (حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی شخص کو اُن کے برابر شمار نہیں کرتے ہیں‘‘۔
(یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندانِ مبارک ظاہر ہو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’اے حسان تم نے سچ کہا، وہ (ابوبکر رضی اللہ عنہ) بالکل ایسے ہی ہیں جیسے تم نے کہا۔ (الحاکم، المستدرک، 3 : 67، کتاب معرفة الصحابة، رقم : 441،چشتی)(ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 174)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میرے اوپر لوگوں میں اپنی رفاقت اور مال میں سب سے زیادہ احسان ابو بکر کا ہے ...
اور اگر میں اپنے رب کے سوا کسی اور کو دوست بناتا تو ابو بکر کو بناتا ، لیکن ان کے ساتھ اسلامی اخوت و محبت کا تعلق ہے ۔ مسجد میں ہر دروازہ بند کر دیا جائے سوائے ابو بکر کے دروازے کے ۔ (صحیح بخاری ، کتاب المناقب ۔ حدیث : 3654 )
حضرت ابو یحییٰ حکیم بن سعد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ کواللہ کی قسم اُٹھا کر کہتے ہوئے سُنا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا لقب’’صدیق‘‘ آسمان سے اُتارا گیا ۔ (تاريخ الکبير، 1 : 99، رقم : 277)(الآحاد والمثانی، 1 : 70، رقم : 6)(فتح الباری، 7 : 9)(شرح الزرقانی علی مؤطا، 1 : 90،چشتی)(صفة الصفوه 1 : 236)(تحفة الأحوذی، 10 : 96رياض النضره، 1 : 407)(مجمع الزوائد 9، 41)
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے انہیں حديث بیان کی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جبل احد پر تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی تھے، اچانک پہاڑ اُن کے باعث (جوش مسرت سے) جھومنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے اُحد! ٹھہر جا، تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں ۔ (بخاری شریف، 3 : 1344، کتاب المناقب، رقم : 3472 (2.) 3 : 1348، رقم : 34833)(ترمذی شریف، 5 : 624، رقم : 36974)(ابوداؤدشریف، 4 : 212، رقم : 46515)(نسائی، 5 : 43، رقم : 8135)
حضرت نزال بن سبرہ سے روایت ہے کہ ہم نے (حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ) سے عرض کی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں کچھ بیان فرمائیں تو انہوں (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا : ابو بکر رضی اللہ عنہ وہ شخصیت ہیں جن کا لقب اﷲ رب العزت نے حضرت جبرئیل علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے ’’صِدِّیق‘‘ رکھا ۔ (مستدرک، 3 : 65، رقم : 4406)(رياض النضرة، 1 : 406 ، (2. ) 2 : 161)(تهذيب الاسماء، 2 : 479)
حضرت ابو یحیٰی سے روایت ہے انہوں نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو قسم اُٹھا کر کہتے ہوئے سُنا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا لقب ’’صدیق‘‘ اﷲ تعالیٰ نے آسمان سے نازل فرمایا ۔ (مستدرک، 3 : 65۔ رقم : 4405)
حضرت عمر بن الخطاب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : تم سے سابقہ قوموں میں صاحبِ الہام یا صحیح گمان رکھنے والے لوگ ہوا کرتے تھے، پس اگر میری امت میں ان میں سے کوئی ہے تو وہ عمر ہیں ۔ (صحیح بخاری ، کتاب المناقب ۔ حدیث : 3689)
'' بے شک ، اللہ نے " حق" کو عمر کی زبان اور دل پر ثابت کر دیا ہے ۔ (جامع ترمذی ۔ حدیث : 3682)
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت عثمان (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی ایک فضیلت ایسی تھی جو ان کی شناخت اور پہچان بن گئی تھی۔ وہ فضیلت '' حیا و شرم '' کی صفت تھی۔
حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہما) نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : جب ابوبکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے کوئی خاص اہتمام نہیں فرمایا۔ پھر جب عمر آئے تو اس وقت بھی آپ نے کوئی اہمیت نہیں دی لیکن جب عثمان آئے تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لیے تھے ۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : کیا میں ایسے آدمی سے شرم نہ کروں جس سے فرشتے بھی شرماتے ہیں ۔ (صحیح مسلم ۔ حدیث : 6209،چشتی)
حضرت علی بن ابی طالب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
حضرت علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے فضائل و مناقب میں جو صحیح احادیث مروی ہیں ، ان کی روشنی میں اگر حضرت علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی سیرت مرتب کی جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے۔
حضرت علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے محبت ایمان کی علامت اور ان سے کسی بھی درجے میں بغض و نفرت ، نفاق کی علامت ہے ۔ جو لوگ ایک خاص طبقے کی مخالفت کی آڑ میں حضرت علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے مقام و مرتبہ کو گھٹانے کی کوشش کرتے ہیں ، ان کو درج ذیل ارشادِ نبوی کے آئینہ میں اپنا خراب چہرہ دیکھ لینا چاہیے ۔
حضرت علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے فرمایا : مجھ سے نبی اُمی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ وعدہ ہے کہ مجھ سے صرف مومن محبت رکھے گا اور صرف منافق مجھ سے بغض رکھے ۔ (صحیح مسلم ۔ حدیث : 240)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی عیب جوئی سے منع فرمایا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس بات کو سخت ناپسند فرماتے تھے کہ لوگ حضرت علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) پر تنقید کریں اور ان کی ذات میں کیڑے نکالیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : علی میں عیب نہ نکالو ۔ بے شک ، علی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ اور میرے بعد وہ ہر مومن کا دوست اور خیرخواہ ہے ۔ (ترمذی ، كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، باب : مناقب علي بن ابي طالب رضى الله عنه ، حدیث : 4077)(سنن نسائی ، مسند احمد ، المستدرک الحاکم،چشتی)
حضرت زید بن ارقم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : میں جس کا مولیٰ ہوں ، علی اس کا مولیٰ ہے ۔ اے اللہ ! تو اس کو دوست بنا جو اس سے محبت کرے اور اس سے دشمنی کر جو اس سے عداوت رکھے ۔ (ترمذی ، كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، باب : مناقب علي بن ابي طالب رضى الله عنه ، حدیث 4078)
صحابہ کرام اور اہلبیت رضی اللہ عنہم کا باہمی تعلق
صحابہ کرام اہلبیت سے اور اہل بیت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بے حد محبت کیا کرتے بالخصوص چاروں خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اور اہلبیت رضی اللہ عنہم اس قدر مضبوط و مستحکم ، خاندانی و ایمانی رشتوں میں بندھے ہوئے تھے کہ اس تعلق کو کوئی بھی ایک دوسرے سے ختم نہیں کر سکا ۔ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضور سرور انبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سسر ہیں ۔ کیونکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ حضور اکرم رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئی تھیں۔ خلیفہ سوم سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور خلیفہ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے داماد ہیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دو صاحبزادیاں حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہ اور حضرت رقیہ رضی اللہ عنہ یکے بعد دیگرے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں اور خاتون جنت سیدہ حضرت فاطمہ زہرہ رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں ۔
سبحان اللہ ۔ کیا عالی شان تقسیم ہے کہ دو خلفاء رضی اللہ عنہما حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سسر اور دو خلفاء داماد ہیں ۔ جب ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نکاح میں آئیں تو ان کے والد حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سسر ہوئے اس طرح حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی اور حضرت ابو سفیان کے بیٹے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بہنوئی ہوئے۔ ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہ مومنوں کی ماں تو ان کے بھائی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مومنوں کے ماموں جان ہوئے۔ حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہ اور حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا چونکہ حضرت فاطمہ زہرہ رضی اللہ عنہا کی بہنیں تھیں لہٰذا حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما کی خالہ ہوئیں اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ خالو جان ہوئے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا چونکہ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما کے نانا جان حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نکاح میں آئیں تھیں تو یہ تینوں مقدس خاتون حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما کی نانیاں ہوئیں ۔
غور کیجیے صحابہ کرام اور اہلبیت رضی اللہ عنہمکو اللہ تعالٰی نے کتنی گہری وابستگی عطا فرمائی ہے ۔ حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حقیقی نواسی ہیں ۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ ان کی خاندانِ نبوت سے رشتہ داری قائم ہو جائے چنانچہ آپ نے اپنی اس خواہش کا اظہار حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کر دیا ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے آپ کی اس درخواست کو قبول فرما لیا اور اپنی صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کر دیا ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت زید بن عمر رضی اللہ عنہما ، حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا ہی کے شکم مبارک سے پیدا ہوئے ۔ (صحیح بخاری شریف بحوالہ کرمانی 403)
معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سسر تھے اور خاتون جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خوش دامن تھیں اور سیدنا حضرت امام حسن اور سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما کے آپ بہنوئی ہوئے ۔
مسلمانو : سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا خاندان اہلبیت رضی اللہ عنہم سے رشتہ کرنے کےلیے خواہشمند ہونا اس حقیقت کی واضح دلیل ہے کہ ان کے دل میں خاندان اہلبیت رضی اللہ عنہم کا بڑا ادب اور اعلٰی مقام تھا ۔ ان کی نگاہ میں خاندان اہلبیت سے رشتے داری کرنا باعث سعادت تھا ، اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے انتہائی محبت اور عقیدت رکھتے تھے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عمر زیادہ تھی مگر اس کے باوجود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی کم عمر بیٹی کا ان سے نکاح کر دیا ۔ یہ واقعہ ان سلام دشمن قوتوں کےلیے عبرت کا تازیانہ ہے جو بظاہر اہلبیت رضی اللہ عنہم سے اپنی محبت کا ظاہری دم بھرتے ہیں اور جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شانِ اقدس میں گستاخی کر کے اپنی آخرت کو برباد کرتے ہیں اور نعوذ باللہ انہیں ظالم ، غاصب ، مرتد اور بے دین کہہ کر اپنے اعمال کو سیاہ اور داغدار کرتے ہیں ۔ کوئی ان ظالموں سے پوچھے اے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی گستاخی کرنے والو ! تمہارا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا خیال ہے ۔ جنہوں نے بقول تمہارے ایک غاصب ، ظالم اور مرتد سے اپنی کمسن صاحبزادی کا نکاح کر دیا ۔ ذرا سوچیے ۔ اگر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ظالم ہوتے تو کیا حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی انہیں دیتے ؟ ہرگز نہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment