اہلسنت میں انتشار و افتراق کیوں ؟ درد دل رکھتا ہوں آپ کے سامنے
محترم قارئینِ کرام : اِس وقت اہلسنت و جماعت کے درمیان کافی اختلاف و انتشار برپا ہے کہیں چشتی ، قادری ، نقشبندی ، سہروردی ، رضوی ، اشرفی ، صابری ، گولڑوی ، عطاری ، وارثی ، جلالی ، مداری ، سیفی آپس میں متصادم ہیں تو کہیں چشتی ، قادری ، نقشبندی ، سہروردی ، رضوی ، اشرفی ، صابری ، گولڑوی ، عطاری ، وارثی ، جلالی ، مداری ، سیفی گتھم گتھا کہیں چشتی ، قادری ، نقشبندی ، سہروردی ، رضوی ، اشرفی ، صابری ، گولڑوی ، عطاری ، وارثی ، جلالی ، مداری ، سیفی آپس میں معرکہ آرائی کرتے دِکھ رہے ہیں کبھی چشتی ، قادری ، نقشبندی ، سہروردی ، رضوی ، اشرفی ، صابری ، گولڑوی ، عطاری ، وارثی ، جلالی ، مداری ، سیفی حضرات کے درمیان مُکّا بازی ہو رہی ہوتی ہے تو کبھی چشتی ، قادری ، نقشبندی ، سہروردی ، رضوی ، اشرفی ، صابری ، گولڑوی ، عطاری ، وارثی ، جلالی ، مداری ، سیفی حضرات آپس میں گرما گرمی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مشاہدہ یہ بھی ہے کہ چشتی ، قادری ، نقشبندی ، سہروردی ، رضوی ، اشرفی ، صابری ، گولڑوی ، عطاری ، وارثی ، جلالی ، مداری ، سیفی حضرات سبھی آپس میں لڑتے جھگڑتے ، مباحثہ و مبالغہ کرتے ہوئے اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، لہٰذا مذکورہ باتوں کو نہ ٹالتے ہوئے سنجیدگی کے ساتھ ان مسائل پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے اور آناً فاناً کسی ایسی تدبیر کی اشد ضرورت ہے جس کے ذریعہ کل اہلسُنَّت و جماعت کے درمیان اتحاد و اتفاق کی نئی صبح دیکھنے کو مل سکے غور طلب بات ہے کہ کہیں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ہم سے کوئی چوک کوئی تغافل تو نہیں ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ہماری ہی جماعت کے لوگ ہم سے دور ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں قابل توجہ بات یہ ہے کہ آخر وہ کون سے مسائل ہیں جن کی وجہ سے اہلسنت میں دراڑ پیدا ہو رہی ہے ؟ دوستو جب تک ان مسائل کا سراغ لگا کر ان کو حل نہیں کر لیا جاتا تب تک اہلسنت و جماعت میں اتحاد و اتفاق پیدا نہیں ہو سکتا امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے جنہوں نے تمام خانقاہوں کی نمائندگی کرتے ہوئے معمولات اہلسنت کو کفر و شرک بتانے والوں سے لڑائی لڑی سنیت کے تحفظ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا اور اسی حال میں داعئی اجل کو لبّیک کہا لیکن دوستو ! آج بعض خانقاہی حضرات اور سنی عوام کو کیا ہو گیا ہے جو خانوادہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے بغض و حسد کا شکار ہو گئے کہیں ان کی شہرت و مقبولیت سے تو حسد نہیں ہو گیا ہے ؟ آج رضوی حضرات دیگر سلسلے کے حضرات کی آنکھوں میں چبھ رہے ہیں چشتی ، قادری ، نقشبندی ، سہروردی ، رضوی ، اشرفی ، صابری ، گولڑوی ، عطاری ، وارثی ، جلالی ، مداری ، سیفی سبھی اس چکر میں ہیں کہ ہمارے سلسلہ کا نعرہ لگے ۔ چشتی ، قادری ، نقشبندی ، سہروردی ، رضوی ، اشرفی ، صابری ، گولڑوی ، عطاری ، وارثی ، جلالی ، مداری ، سیفی سبھی کو اس غم نے کمزور کر دیا کہ ہمارا سلسلہ ہندوستان میں قدیم ہے اس لیے ہمارا نعرہ لگے دوستو جس دن ہم نے اِن اختلافات کو نظر انداز کر کے یہ ٹھان لیا کہ تمام صحیحُ العقیدہ چشتی ، قادری ، نقشبندی ، سہروردی ، رضوی ، اشرفی ، صابری ، گولڑوی ، عطاری ، وارثی ، جلالی ، مداری ، سیفی بھی ہمارے ہیں اور تمام سنّی خانقاہیں اور سلسلے کے علماء کرام اور عوام سبھی صحیحُ العقیدہ لوگ ہمارے ہی ہیں ، ان شاء اللہ اسی دن سے اہلسنت و جماعت کے درمیان اتحاد و اتفاق کی فضاء ہموار ہونا شروع ہو جائے گی ۔
جب کسی قوم کا عہد زوال شروع ہوتا ہے تو وہ آپسی اختلا ف و انتشار اور مخاصمت ومعاندت کا خوگر ہو جاتی ہے۔باہمی اخوت و محبت کی فضا کو مکدر کر کے اپنی ہی قوم کے ساتھ بر سر پیکار ہو جاتی ہے۔ ان دنوں وطن عزیز میں کچھ ایسا ہی حال جماعت اہل سنت کا ہے۔ پچھلی ایک دہائی سے ہماری جماعت میں اختلاف وانتشار کی جو تشویش ناک صورت حال پیدا ہو گئی ہے اور اس کا گراف جس تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے، وہ ہماری اجتماعی قوت کوپارہ پارہ کر دینے کے لیے کا فی ہے۔پوری جماعت ٹکڑیوں او رریوڑوں میں تقسیم ہو تی جارہی ہے۔عوام تو عوام،خواص بھی جماعتی مفادات سے نا آشنا ہوتے جارہے ہیں۔نفع ِعاجل اور شہرت وخود نمائی کے چکر میں وہ کسی ایسے عمل کے لیے تیار نہیں جس میں پو ری قوم کی عزت و افتخار کا ساماں ہو۔
بہت دور جانے کی ضرورت نہیں، اہل سنت و جماعت کی ماضی قریب کی تاریخ پر ہی نظر ڈالیں تو ہمیں وہ زرّین دور بھی نظر آتا ہے۔ جب اتحاد واتفاق کا بول بالا تھا۔ ہمارے علما و مشائخ باہم شیرو شکر تھے۔مشربی تعصبات سے بالا تر ہوکرایک دوسرے کی عظمت و رفعت کا اعتراف کرتے، ایک دوسرے کا ادب و احترام بجا لاتے۔یہ قد سی صفات شخصیتیں دینی و مذہبی کاموں میں ایک دوسرے کی دست وبازو ہو تیں۔محبت و مودت کی یہ پاکیزہ فضا اس لیے قائم نہیں تھی کہ اس زمانے میں مسائل پیدا نہیں ہواکر تے تھے، یا خانقاہوں، اداروں اور تنظیموں کی تعداد بہت کم تھی۔ بلکہ اس دور میں بھی بڑے اہم مسائل پیدا ہوئے۔ فکری اور نظریاتی اختلافات بھی رونما ہوئے۔خانقاہیں اور ادارے بھی قائم تھے۔ لیکن ان تمام چیزوں کے ساتھ ان نفوس قدسیہ کے دلوں میں خدا کا خوف موج زن تھا۔ وہ خلوص وللہیت کے پیکر بھی تھے۔وہ ہردم دین کی سر بلندی کے لیے کوشاں رہتے۔وہ دینی و مذہبی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیتے۔ ان کا کوئی بھی عمل اپنی انا کی تسکین کے لیے نہیں ہوتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے مسائل نہایت آسانی کے ساتھ حل ہو جاتے۔کسی بھی اختلاف کو پنپنے کا موقع نہیں مل پا تا۔آپسی اتحاد و اتفاق بہر حال باقی رہتا۔لیکن آج کی صورت حال اس کے بالکل بر عکس ہے۔ اخلاص کی جگہ انا کی ہوس نے لے لی ہے۔ذاتی مفادات کے حصول کے لیے بڑا سے بڑا دینی و جماعتی نقصان بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کر لیا جا تا ہے۔اختلافات کو ختم کر نے کے بجاے ایک خود غرض طبقہ انہیں مسلسل ہوا دے رہا ہے۔نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
جماعت اہل سنت میں اختلاف و انتشار کا جو سلسلہ تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے اس کا ایک اہم اور بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ ابھی تک ہماری جماعت کسی ایسی مضبوط قیادت پر متفق نہیں ہو سکی ہے جسے مختلف فیہ اور متنا زع مسا ئل میں حکم بنا یا جا سکے۔جس کے فیصلے پر عمل در آمد ہر دو فریق اپنے لیے لازم و ضروری سمجھتا ہوں۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کے بعد اسلا میان ہند کے لیے مفتی اعظم ہند علامہ مصطفیٰ رضا خاں علیہ الرحمۃ کی ذات مرجع عوام وخواص تھی۔ان کا ہر حکم فیصلے کی حیثیت رکھتا تھا۔متنازع مسائل میں آپ کے فیصلے کو سبھی بسر و چشم قبول کیا کرتے اور آپ کا فیصلہ آخری فیصلہ ہو تا تھا۔افسوس کہ آپ کے وصال کے بعدجماعت کا شیرازہ اس طر ح بکھرا کہ پھر کسی شخصیت کی مرجعیت پر پوری جماعت متفق نہیں ہو سکی۔ ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ ان کے بعد جماعت میں کوئی ایسی شخصیت نہیں رہی جو مسلمانوں کی دینی قیادت کا فریضہ انجام دے سکے ۔ اللہ کے فضل سے آج بھی اپنی جماعت میں ایسی شخصیتیں موجود ہیں جو جماعتی مسائل سے نمٹ کر اپنے دینی و مذہبی فرائض بخوبی انجام دے سکتے ہیں ۔ بلکہ اس صورت حال کا اصل سبب یہ ہے کہ اب ہمارے دلوں میں دینی مفادات کی اہمیت نہیں رہ گئی۔ ہم دین ومذہب کے نام پر صرف اس لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہو سکتے کہ اس میں ہمارے بہت سارے دنیا وی مفادات کا خون ہوگا۔ہما ری شخصیت نمایاں نہیں ہو سکے گی،اور ہم دنیا وی جاہ و جلال کے حصول سے قا صر رہ جائیں گے ۔ یقینا اسی طرز فکرکی بنیاد پر جماعتی اتحاد واتفاق کی راہیں مسدود ہو تی جارہی ہیں ۔ خلوص و للہیت کے فقدان نے ہماری انا کی آگ کو شعلہ جوّالہ بنا دیا ہے جس کی لپٹ سے ہما رے دینی مفادات خاکستر ہو ئے جا رہے ہیں ۔
ادھر ایک دہائی کے اندر ہما ری جماعت میں شدت پسندو ں کا ایک ایسا طبقہ پر وان چڑھا ہے، جس نے آپسی اتحاد واتفاق کو پارہ پارہ کر نے میں سب سے اہم کردار اداکیا ہے۔علم ودانش اور فکر و تدبر سے نا آشنا یہ طبقہ تحقیق و تفتیش اور اصلاح کی سعی کے بغیر ہی کسی شخصیت کو جماعت سے خارج قرار دینے میں ذرا بھی دریغ نہیں کرتا۔ایسا محسوس ہو تا ہے کہ اہل سنت کا خار جہ رجسٹر ان دنوں ان ہی حضرات کے قبضے میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ طبقہ آئے دن اہل سنت کی کسی نہ کسی شخصیت، تنظیم اور ادرے کو جماعت کی فہرست سے خارج کرتی نظر آتی ہے۔ستم بالاے ستم یہ کہ وہ اپنی یہ نادانیاں دوسروں کو بھی تسلیم کرا نے کے درپے رہتے ہیں اور عدم اتفاق کی صورت ان کی سنیت بھی اس طبقے کے نزدیک مشکوک ہو جا تی ہے۔کسی کے لیے صلح کلیت کا حکم لگادینا گویا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ ’بائیکاٹ‘ کی اسلامی سزاکو ان لوگوں نے مذاق بنا دیا ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اختلاف انتشار کا یہ عمل ما ضی قریب کی ایک ایسی شخصیت کے نام پرا نجام دیا جا رہا ہے، جو بر صغیر میں اتحاد اہل سنت کے سب سے بڑے علم بردار تھے۔اس طبقے کی یہ سر گرمیاں جماعتی مفادات کے حق میں حد درجہ نقصان دہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان افراد کو صراط مستقیم پر گام زن فرمائے آمین ۔
ان دنوں بر صغیر میں گمراہ اور باطل فرقوں کی سر گرمیاں عروج پر ہیں۔ سوادِ اعظم اہل سنت و جماعت کے معتقدات و مسلمات کے خلاف باطل افکار و نظریات کی اشاعت پر پو ری توانائی صرف کی جا رہی ہے۔ باطل فرقے اپنے گمراہ کن نظریات کی اشاعت کےلیے جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال بھی بڑی مہارت سے کر رہے ہیں ۔ جس کی وجہ سے نئی نسل کے تعلیم یافتہ طبقے کی اکثریت ان فرقوں کے دام فریب میں پھنستی جا رہی ہے ۔ دیوبندی ، وہابی ، قادیانی ، جماعت اسلامی ، نیچری اور نہ جانے کتنے فرقے ہیں جن کا واحد نشانہ اہل سنت وجماعت ہے ۔ ان فرقوں کی ساری توانائی اسی جماعت حق کے خلاف صرف ہو رہی ہے ۔ ایسے حا لات میں ان فرقوں کی سرکوبی اور سوادِ اعظم اہل سنت و جما عت کے معتقدات کے تحفظ کےلیے اتحادِ اہل سنت کتنا ضروری ہو گیا ہے ، بیان کر نے کی ضرورت نہیں ۔
رئیس التحریر علامہ یسین اختر مصباحی علیہ الرحمہ کے بقول : وقت کا شدید مطالبہ ہے کہ متعدد غیر منظم سنی حلقے اپنے مسائل حل کر نے اور مخالفین کا مقابلہ کر نے کےلیے خلوص دل سے کوئی ایسی تدبیر نکالیں کہ یہ ساری ندیاں نالے مل کر ایک بیکراں سمندر میں تبدیل ہو جائیں یا کم از کم دیانت دارانہ وفا قی جماعت تشکیل دے کر ایک مضبوط و مستحکم اور بلند وبالاعمارت کی بنا ڈال کر اپنے خون جگر کا نقش جمیل اس کے درو دیوار میں ثبت کر یں اور اس کے فروغ و بقا کی راہ میں اپنی تمام تر کو ششیں صرف کر دیں ۔ جس روز ایسا نقشہ سامنے آگیا تو پھر ید اللہ علی الجماعۃ کے بموجب قدرت کی نوازشات اور اس کی عنایات کا دروازہ اس طرح کھل جائے گاکہ اطراف ہند ہی نہیں بلکہ اس کی موج رحمت سے نہ جانے کتنے ملک اور کتنی قومیں نہال اور شاد کام ہو جائیں گی ۔ (نقوشِ فکر صفحہ نمبر ۳۷،چشتی)
ظاہر ہے یہ سب اسی وقت ممکن ہو سکے گا جب ہماری خانقاہیں، ہمارے ادارے، ہماری تنظیمیں اور ہمارے قائدین اپنے دلوں سے نفع عاجل اور شہرت وخود نمائی کے جذبے کو نکال پھیکیں اور نہایت خلوص کے ساتھ کاروان اہل سنت کی زمام قیادت کو اپنے ہا تھوں میں لیں ۔ بنام اہل سنت ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر دین کی فلاح و بہبودی اور جماعتی مفادات کےلیے اپنی پوری توانائی صرف کر نے کا عہد کریں ۔ آپس میں محبت و خلوص کا ماحول پیدا کریں۔ ایک دوسرے کی عظمت ورفعت کا لحاظ اورادب و احترام کا خیال رکھیں ۔ تمام سنی ادارے اور تنظیمیں مسلک حق کی اشاعت ہی کے لیے ہیں ۔ کوئی تنظیم یا ادارہ کسی دوسرے ادارے کو اگر اپنا حریف سمجھتا ہے تو یہ بڑی بھول ہے ۔ اگر ہماری جماعت کا کوئی فرد کسی غلط راستے پر جا رہا ہے تو اس کے خلاف محاذ آرائی کے بجائے اس کی اصلاح کی کوشش ہو نی چاہیے ۔ غلطیاں کہاں نہیں ہوتیں ؟ غلطیوں کی اصلاح کی جائے ۔ اصلاح مفاسد کےلیے حکمت و تدبر کا قرآنی اصول اپنایا جائے ۔ کسی بھی معاملے میں عجلت اور بے جا شدت جما عتی اتحاد کے حق میں حد درجہ ضرر رساں ہے ۔ کاش ! ان امور پر توجہ دی جا ئے تو پھر اتحاد اتفاق کی وہی بہاریں ہماری نظروں کو خیرہ کریں گی جن کا مطالعہ ہم اپنے اسلاف کی تاریخ میں کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے کوئی ایسی سبیل پیدا فرمادے کہ ہم اپنے گزشتہ سارے اختلافات کو بھلا کر تلافی مافات کےلیے ایک پرچم تلے جمع ہو جائیں ۔
درد دل رکھتا ہوں آپ کے سامنے
محترم قارئینِ کرام : الحَمْدُ ِلله ہم مسلمان ہیں ۔ اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر پختہ ایمان رکھتے ہیں ۔ بحیثیت مسلمان زندگی بھر ہمیں تقویٰ اختیار کرنے ، اور اللہ عزوجل کی رسی مضبوطی سے پکڑنے اور آپس میں اختلافات نہ کرنے اور مسلمان مرنے کا حکم ہے ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ۔ وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا۪-وَ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًاۚ-وَ كُنْتُمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْهَاؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ ۔
ترجمہ : اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہرگز نہ مرنا مگر مسلمان اور اللہ کی رسی مضبوط تھام لو سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم میں بیر تھا اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ کردیا تو اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی ہوگئے اور تم ایک غار دوزخ کے کنارے پر تھے سے تم آپس میں بھائی ہوگئے اور تم ایک غار دوزخ کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچا دیا اللہ تم سے یوں ہی اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں تم ہدایت پاٶ ۔ (سورۂ آل عمران آیت نمبر 102 ، 103)
اللہ تعالیٰ نے دیگر احکام کے ساتھ ہمیں یہ حکم بھی دیا کہ ہم دین اسلام کی تبلیغ حکمت ، موعظت حسنہ اور سب سے بہتر گفتگو کے طریقے کے ذریعے کریں ، ارشاد ہوتا ہے : اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ ۔
ترجمہ : اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو بیشک تمہارا رب خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بہکا اور وہ خوب جانتا ہے راہ والوں کو ۔ (سورۂ نحل آیت نمبر 125)
ہمارا کام ہے نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے روکنا تاکہ دارین میں ہم فلاح پاجائیں ۔ ارشاد ہوتا ہے : وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۔
ترجمہ : اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری سے منع کریں اور یہی لوگ مراد کو پہنچے ۔ (سورۂ آل عمران آیت نمبر 104)
پھر اس کے ساتھ ساتھ ایک اصول بھی عطا فرمایا کہ حق واضح ہونے کے بعد اختلاف میں نہ پڑے رہنا ورنہ بڑے عذاب کے مستحق ٹھہرو گے ، ارشاد ہوتا ہے : وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْبَیِّنٰتُؕ ۔ وَ اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ۔
ترجمہ : اور ان جیسے نہ ہونا جو آپس میں پھٹ گئے اور ان میں پھوٹ پڑگئی بعد اس کے کہ روشن نشانیاں انہیں آچکی تھیں اور ان کےلیے بڑا عذاب ہے ۔ (سورۂ آل عمران آیت نمبر 105)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں تقویٰ سات قسم کا ہے : ⬇
(1) کفر سے بچنا یہ بفضلہ تعالیٰ ہر مسلمان کو حاصل ہے ۔
(2) بدمذہبی سے بچنا یہ ہر سنی کو نصیب ہے ۔
(3) ہر کبیرہ سے بچنا ۔
(4) صغائر سے بھی بچنا ۔
(5) شبہات سے احتراز ۔
(6) شہوات سے بچنا ۔
(7) غیر کی طرف التفات سے بچنا یہ اخص الخواص کا منصب ہے اور قرآن عظیم ساتوں مرتبوں کا ہادی ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ)
مگر ہمارا کردار کیا ہوتا جارہا ہے ۔ تقویٰ کی قسم نمبر تین سے آخری نمبر تک میں سے ہمارا کتنوں پر عمل ہے ؟ پھر کیا ان پر ندامت بھی ہے یا برائے نام ’’تقویٰ‘‘ ہے ؟ ہمارے آپس کے اختلافات کا عالم یہ ہے کہ آپس میں تکفیر و تضلیل اور تفسیق کے فتوئوں کا تبادلہ ۔ آپس میں فروعی معاملات میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ ۔ تبلیغ دین میں حکمت کا فقدان ، مستحب و مباحات پر بضد ڈٹے رہنا پہچان اگرچہ اس وقت ان پر عمل نہ کرنا بہتر بلکہ واجب ہو ، بے جا مباحثوں اور مناظروں میں پڑنا باعث فخر ، جبکہ بھائی چارے کی فضا قائم کرنا باعث خسران بنا ہوا ہے ۔ افسوس بالائے افسوس کہ حق واضح ہونے کے باوجود ہمارا اس طرح کا رویہ اختیار کرے رہنا ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حواس خمسہ کے ساتھ عقل کی نعمت بھی بخشی ہے تاکہ ہم حق کو دیکھ سکیں ، سن سکیں اور سمجھ سکیں ۔ اگر ہم یہ حواس ہوتے ہوئے بھی حق نہ دیکھ پائیں ، نہ حق سن سکیں اور نہ اسے سمجھ سکیں تو کیا جانوروں سے بھی بدتر اور مستحق نار نہیں ٹھہریں گے ۔ ارشاد ہوتا ہے : وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ ﳲ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا٘-وَ لَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَا٘-وَ لَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَاؕ-اُولٰٓىٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ ۔
ترجمہ : اور بے شک ہم نے جہنم کےلیے پیدا کیے بہت جن اور آدمی وہ دل رکھتے ہیں ، جن میں سمجھ نہیں اور وہ آنکھیں جن سے دیکھتے نہیں اور وہ کان جن سے سنتے نہیں وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بڑھ کر گمراہ وہی غفلت میں پڑے ہیں ۔ (سورۂ اعراف آیت نمبر 179)
ہمیں تو حق بات سمجھنے کےلیے قلبِ سلیم ، حق دیکھنے کےلیے نور بصیرت اور حق سننے کی سماعت عطا کی گئی تھی ۔ مگر کیا ہم حق دیکھتے ہوئے بھی اندھے نہیں ہیں ۔ کیا ہم حق سنتے ہوئے بھی بہرے نہیں ہیں ۔ کیوں شرما شرمی میں حق سمجھنے ، دیکھنے اور سننے سے رکے ہوئے ہیں ۔ امتِ مسلمہ ایک ہے ، ﷲ ایک ، قرآن ایک ، رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک ، دین ایک ، قبلہ ایک ، مگر کیا ہم بھی گزشتہ امتوں کی طرح آپس میں اختلافات کر کے فرقے فرقے نہیں ہو گئے ، کیا ہم میں سے ہر گروہ بس اسی پر اکتفا نہیں کیے بیٹھا جو اس خاص کے گروہ کے پاس ہے ، اگرچہ غلط ہی ہو ! ارشاد ہوتا ہے : وَ اِنَّ هٰذِهٖۤ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ اَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُوْنِ ۔ فَتَقَطَّعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَیْنَهُمْ زُبُرًاؕ-كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُوْنَ ۔
ترجمہ : اور بے شک یہ تمہارا دین ایک ہی دین ہے اور میں تمہارا رب ہوں تو مجھ سے ڈرو ۔ تو ان کی امتوں نے اپنا کام آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لیا ۔ ہر گروہ جو اس کے پاس ہے اس پر خوش ہے ۔ (سورۂ مومنون آیت نمبر 52 ، 53)
قرآن کریم مزید وضاحت کرتا ہے کہ اگر یہ گروہ بندی کسی غلط فہمی کی وجہ سے بلاقصد ہو گئی ، تو گناہ نہیں ۔ توبہ کر کے اس سے برأت کرلی جائے ۔ اللہ تعالیٰ بخش دے گا ۔ لیکن اگر جان بوجھ کر گروہ بندی کی ہے تو یہ بلاشبہ گناہ ہے ، ارشاد ہوتا ہے : وَ لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ فِیْمَاۤ اَخْطَاْتُمْ بِهٖۙ ۔ وَ لٰـكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْؕ ۔ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمً ۔
ترجمہ : اور تم پر اس میں کچھ گناہ جو نادانستہ تم سے صادر ہوا ، وہاں وہ گناہ ہے جو دل کے قصد سے کرو اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ (سورۂ احزاب آیت نمبر 5)
لہٰذا ہر سنی صحیح العقیدہ گروہ غور و فکر کرے کہ یہ گروہ بندی و اختلافات دانستہ ہیں یا نادانستہ ۔ استفت قلبک ۔ جب اخلاص کے ساتھ غور و فکر کریں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے دین کی خدمت کےلیے شرح صدر فرما کر نورِ بصیرت عطا کر دے گا اور اگر یہ غور و فکر نہ کی بلکہ ہٹ دھرمی رہی تو دل سخت ہو جائے گا اور یہ گمراہی کی علامت ہے ، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰى نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖؕ-فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِؕ-اُولٰٓىٕكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ۔
ترجمہ : تو کیا وہ جس کا سینہ اللہ نے اسلام کےلیے کھول دیا تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہے ، اس جیسا ہو جائے گا جو سنگ دل ہے تو خرابی ہے ان کی جن کے دل یاد خدا کی طرف سے سخت ہو گئے ہیں ، وہ کھلی گمراہی میں ہیں ۔ (سورۂ زمر آیت نمبر 22)
قرآن و سنت میں بے شمار روشن دلیلیں موجود ہیں ، جن سے بندہ اپنی گمراہی کو جان سکتا ہے ، کیا اپنا حال دنیا بھر میں دیکھنے کے باوجود ہمارے دل نرم نہیں ہوتے ، کیا قرآن پڑھ کر بھی نہیں ۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں سے فرماتا ہے : اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّۙ ۔ وَ لَا یَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْؕ-وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ ۔
ترجمہ : کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ ان کے دل جھک جائیں ﷲ کی یاد اور اس حق کےلیے جو اترا اور ان جیسے نہ ہوں جن کو پہلے کتاب دی گئی پھر ان پر مدت دراز ہوئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں بہت فاسق ہیں ۔ (سورۂ حدید آیت نمبر 16)
ہم اپنی تقریروں اور تحریروں میں صراحتاً اور کنایتاً ایک دوسرے کے خلاف زبان و قلم استعمال کرتے ہیں ، عیب جوئی کرتے ہیں ، خود ساختہ اصولوں پر سب کو پرکھتے ہیں ، حتیٰ کہ دنیا سے رخصت ہو جانے والوں کو بھی نہیں بخشتے ، حالانکہ بحیثیت مسلمان ہماری صفت یہ بتائی گئی تھی کہ : وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ ۔
ترجمہ : اور وہ جو اُن کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ اے رب ہمارے بے شک تو ہی نہایت مہربان رحم والا ہے ۔ (سورۂ حشر آیت نمبر 10)
مگر ہم کسی اور سمت چلے گئے ہیں ، اکثریت میں ہونے کے باوجود ، اقلیت کا تاثر دکھائی دیتا ہے، ہمارا دشمن تو ہمیں ایک متحد گروہ سمجھتا ہے ، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا رویہ اس کے برعکس ہے ، کیا ہم اس فرمان الٰہی کی عملی تصویر دکھائی نہیں دیتے : لَا یُقَاتِلُوْنَكُمْ جَمِیْعًا اِلَّا فِیْ قُرًى مُّحَصَّنَةٍ اَوْ مِنْ وَّرَآءِ جُدُرٍؕ ۔ بَاْسُهُمْ بَیْنَهُمْ شَدِیْدٌؕ ۔ تَحْسَبُهُمْ جَمِیْعًا وَّ قُلُوْبُهُمْ شَتّٰىؕ ۔ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُوْنَ ۔
ترجمہ : یہ سب مل کر بھی تم سے نہ لڑیں گے مگر قلعہ بند شہروں میں یا دُھسوں کے پیچھے آپس میں ان کی آنچ سخت ہے تم انہیں ایک جتھا سمجھو گے اور ان کے دل الگ الگ ہیں یہ اس لیے کہ وہ بے عقل لوگ ہیں ۔ (سورۂ حشر آیت نمبر 14)
کیا یہی حال ہمارا نہیں ہوتا جا رہا کہ بے عقل ہوتے جارہے ہیں ، جس کی وجہ سے دل مختلف ہوتے جا رہے ہیں بلکہ جو کچھ زبانوں پر ہے ، دلوں میں اس سے زیادہ دوسروں کےلیے غبار بھرا ہوا ہے ۔ آج ہمیں اہلسنت و جماعت کا ایک مضبوط مرکز بنانے اور اسے تقویت بخشنے کی ضرورت ہے ۔
دنیائے اہلسنت کے اجزائے ترکیبی افرادی اعتبار سے تین قسم کے ہیں : ⬇
1 ۔ علماء کرام ۔
2 ۔ عوام ۔
3 ۔ امراء یعنی اغنیا ۔
اعلیٰ حضرت ، صاحبِ بصیرت ، امام اہلسنت علیہ الرحمہ نے اہلسنت و جماعت کو مضبوط کرنے کےلیے تین نکاتی ایجنڈا عطا فرمایا ہے ۔ فرماتے ہیں : آج دنیائے اہلسنت کو خالص اہل سنت و جماعت کی ایک قوت اجتماعی کی ضرور ضرورت ہے ، مگر اس کےلیے تین چیزوں کی سخت حاجت ہے : ⬇
1 ۔ علماء کا اتفاق ۔
2 ۔ تحمل ساق قدر باطلاق ، یعنی : بقدر طاقت مشقت کو برداشت کرنا اور ۔ 3 ۔ امراء کا انفاق لوجہ الخلاق ۔ یعنی : اہلسنت کے مالدار ، رٶسا اور امراء کا ﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے مال خرچ کرنا ۔
پھر خود ہی ان نکات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : افسوس یہاں یہ سب باتیں مفقود ہیں ۔ فان ﷲ وانا الیہ راجعون ۔
ہمارے علماء کرام کی حالت
علماء کی یہ حالت ہے کہ :
1 ۔ رئیسوں سے بڑھ کر آرام طلب ہیں ۔
2 ۔ حمایت دین و مسلک کے نام سے گھبراتے ہیں ۔
3 ۔ جو بندۂ خدا اپنی جان دین و مسلک حق پر وقف کرے اسے احمق بلکہ مفسد سمجھتے ہیں ۔
4 ۔ مداہنت یعنی : سستی ان کے دلوں میں رچی بسی ہوئی ہے ۔
5 ۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں کہ ایام ندوہ میں ہندوستان بھر کا تجربہ ہوا ، عبارات ندوہ سن کر ضلالت ضلالت کی رٹ لگادیں اور جب کۂے : حضرت ! لکھ دیجیے ، فرماتے : ’’بھائی لکھوائو نہیں، ہمارے فلاں دوست برا مانیں گے‘‘ ’’ہمارے فلاں استاد کو برا لگے گا‘‘ ۔ آج بھی یہی حال ہے ، بند کمرے میں گمراہ کی گمراہی کا حکم ، باہر آکر خاموشی گویا حکم کالعدم ۔
6 ۔ اس میں سے بہت سوں کویہ خیال ہے کہ مفت میں اوکھلی میں سر دے کر موسل کون کھائے ، یعنی : مفت میں اپنی جان کو کیوں خطرے میں ڈالا جائے ، کیونکہ ایسا کیا تو :
ا ۔ بدمذہب دشمن ہو جائیں گے ۔
ب ۔ دانتوں پر رکھ لیں گے ۔
ت ۔ گالیاں پبھتیاں کسیں گے ، اخباروں اور اشتہاروں میں چھاپیں گے ۔
ث ۔ طرح طرح کے بہتان اور افتراء اچھالیں گے ۔ لہٰذا اچھی بھلی جان کو کون جنجال میں ڈالے ۔
7 ۔ بعض کو یہ فکر لاحق کہ حمایت مذہب کی ، تو صلح کلی نہ رہے گی اور ہر دل عزیزی جاکر پلاٶ ، قورمے ، نذرانہ میں فرق آئے گا ۔ یا کم از کم آٶ بھگت تو عام نہ رہے گی ۔ یعنی مفادات پورے نہ ہوں گے ۔
8 ۔ بلا تحقیق حقیقی اپنے طلبہ اور معتقدین کے کان بھرنے سے اکابرین کی مخالفت ، تضلیل و تفسیق بلکہ بعض جری تو تکفیر پر اتر آتے ہیں ۔
9 ۔ کبھی ایک ہی نشست میں جمع بھی ہوجائیں تو موقع ملتے ہی دوسروں پر بے جا تنقید شروع کر دیتے ہیں جس سے عوام اہلسنت پر بہت برا اثر پڑتا ہے ۔
10 ۔ زیادہ تر ایک ہی قسم کے فروعی مسائل پر ، ایک ہی جیسا مواد جمع کرنا شعاربن گیا ہے ، یقین نہ آئے تو دکانوں پر جاکر دیکھیں : ’’وسیلہ‘‘ ، ’’یارسول ﷲ کہنے کا جواز‘‘ ، ’’اعراس کا ثبوت ‘ج‘، ’’فلاں کا رد‘‘ ، ’’فلاں کی گمراہیاں‘‘ ، ’’میلاد منانے کے دلائل‘‘ وغیرہ جیسے موضوعات پر تقریباً سب ہی طبع آزمائی کر چکے ہیں ۔ ہنوز یہ ’’سلسلہ مبارکہ‘‘ جاری ہے
11 ۔ جن موضوعات پر قلم اٹھانا آج کے دور میں ضروری ہے ۔ ان پر قلم نہیں اٹھاتے ، مثلاً کتب حدیث خصوصاً سنن اربعہ میں سے ان کتب کی اردو شروحات ، جو اب تک لکھی نہیں گئیں ، احناف کے نزدیک اصول حدیث وغیرہ موضوعات ۔
12 ۔ میڈیا چینلز پر آنا تقریبا آج کے دور میں شاید سب ہی چاہتے ہیں ، لیکن جو آتے ہیں ، ان میں ماسوائے چند احکام و مسائل بتانے میں تسامح کا شکار نظر آتے ہیں ۔ ایک صاحب نے میڈیا چینل پر فرمایا : یہ حدیث امام طبرانی علیہ الرحمہ نے ’’معجم کبیر‘‘ کی ’’کتاب الطہارۃ‘‘ میں نقل کی ہے ۔ عقل مند را اشارہ کافی است ۔
علماۓ کرام کے اتفاق کاعالم ۔ اتفاق علماء کا یہ حال ہے کہ :
1 ۔ آپس میں حسد کابازار گرم ہے ۔
2 ۔ اگر ایک کا نام ’’جھوٹ موٹ‘‘ بھی مشہور ہو جائے تو بہت سے سچے مشہور و معروف علماء اس بے چارے کے مخالف ہو جاتے ہیں ، اس کی توہین و تشنیع میں دیگر گمراہوں اور بدمذہبوں کے ہم زبان ہو کر کہتے ہیں کہ ’’ہیں‘‘ لوگ اسے پوچھتے ہیں اور ہمیں نہیں پوچھتے ۔ میڈیا چینلز پر اس کی مثالیں باآسانی ملاحظہ کی جا سکتی ہیں ۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا کردار ۔ علماء کرام کےلیے مشعل راہ ہے ۔ آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : فقیر میں لاکھوں عیب ہیں ، مگر میرے رب نے مجھے حسد سے بالکل پاک رکھا ہے ، اپنے سے جسے زیادہ پایا اگر وہ دنیا کے مال و منال میں زیادہ ہے ، تو قلب نے اندر سے اسے حقیر جانا ، پھر حسد کیا حقارت پر ؟ اور اگر دینی شرف و افضال میں زیادہ ہے اس کی دست بوسی و قدم بوسی کو اپنا فخر جانا ، پھر حسد کیا اپنے معظم بابرکت پر ؟ اپنے میں جسے حمایت دین پر دیکھا ، اس کے نشر فضائل اور خلق کو اس کی طرف مائل کرنے میں تحریراً و تقریراً ساعی رہا ۔ اس کےلیے عمدہ القاب وضع کر کے شائع کیے ، جس پر میری کتاب ’’المعتمد المستند‘‘ وغیرہ شاہد ہیں‘‘ ۔
لمحہ فکریہ
کیا ہم دوسروں کے نشر فضائل ، خلق کو مائل کرنے کےلیے کرتے ہیں ۔ کیا تحریراً و تقریراً اس کی کوئی دس مثالیں ہر سنی عالم پیش کر سکتا ہے ۔
حسد کیوں پیدا ہوتا ہے ؟ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ’’حسد شہرت طلبی سے پیدا ہوتا ہے اور میرے رب کریم کے وجہ کریم کےلیے حمد ہے کہ میں نے کبھی اس کےلیے خواہش نہ کی بلکہ ہمیشہ اس سے نفور اور گوشہ نشینی کا دلدادہ رہا‘‘ ۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی قابلِ اتباع دو صفات
آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : میرا جلسوں اور انجمنوں کے دوروں سے دور رہنا انہی دو وجہ پر تھا ۔ اول : حب خمول یعنی : گمنامی اور دوم زمانہ می نخر و عیب وغیر از نیم نیست
کجا برم خر خود را بایں کساد متاع
عنی : زمانہ عیب دار کو خریدتا نہیں اور میرے پاس اس کے علاوہ نہیں ہے ، اس کھوٹے سامان کے ساتھ اپنے گدھے کوکہاں لے کر جاٶں ۔ اور اب تو سالہا سال سے شدت ہجوم کار وانعدام کجلی فرصت و غلبۂ ضعف و نقاہت نے بالکل ہی بٹھا دیا ہے، جسے میرے احباب نے نازک مزاجی بلکہ بعض حضرات نے غرور و تکبر پر حمل کیا ہے، اور ﷲ اپنے بندہ کی نیت جانتا ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 29 صفحہ 599-598،چشتی)
2 : ہمارے کارکنوں کی حالت ادھر بچارے ہمارے کارکنوں کا حال یہ ہے کہ : انہیں وہ چالیں اور وہ جال معلوم نہیں کہ جس سے خارجی ، ناصبی ، رافضی اور بدمذہب فرقے (خذلہم ﷲ تعالیٰ) بندگانِ خدا کو فریب دے کر نہ صرف اپنے ہم مذہبوں بلکہ اپنے ہم مشربوں سے روپیہ اینٹھتے ہیں ۔ اس کام کےلیے ریاکاری و نفاق ، مکر و خداع اور بے حیائی و بے عزتی لازم ہے ، وہ نہ ہم میں ہے نہ ہماری شریعت اس کی اجازت دے ، پھر کام کیوں کر چلے ۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے نام پر چندہ
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ کوئی ایک نمبری وہابی ایک با اثر صوفی کے یہاں چندہ لینے گیا ، انہوں نے فرمایا : سنا ہے تم احمد رضا کے مخالف ہو ، کہا : ’’حاشا ! میں تو اسی در کا کتا ہوں‘‘ اور کتا بن کر پانچ سو روپے لے آیا ۔
3 : ہمارے امیروں کی حالت بے چارے ہمارے امیر و اغنیاء لوگوں کا حال یہ ہے کہ : ⬇
1 ۔ یہ اغنیاء نام و نمود چاہتے ہیں ۔
2 ۔ معصیت بلکہ صریح گمراہی و ضلالت کے کاموں میں ہزاروں لاکھوں اڑادیں اور خزانوں کے منہ کھول دیں ۔
3 ۔ یونیورسٹی ، کالجز ، اسکولوں ، ریلیف فنڈ ، فیشن شو وغیرہ کاموں کےلیے تو بہت جلد لاکھوں جمع ہو جاتا ہے ۔
4 ۔ کراچی کے ایک مدرسہ و مسجد کو ، جو غیروں کے تصرف میں ہے ، صرف ایک سنی نے دو کروڑ روپے دیے ۔
5 ۔ مگر کیا کسی سنی مدرسہ یا مسجد کو بھی یہ دن نصیب ہوتا ہے ؟ الا ماشاء ﷲ
6 ۔ اول تو یہ لوگ دین و مسلک حق کی تائید کیا کریں گے ۔ یہ تو دین و مسلک حق کا نام لیتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں ۔
7 ۔ اور کہتے ہیں کہ میاں ! یہ تو ان مولویوں کے جھگڑے ہیں ، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ۔
8 ۔ اور اگر شرما شرمی میں کچھ معمولی رقم چندہ بھی مقرر کرلیں تو (جب تک اصرار اور سر پر سوار نہ ہوا جائے ، معمولی رقم بھی ادا کرنے سے جی چراتے ہیں) ۔ (سورۂ نسا ، 75/3)
9 ۔ بلکہ حال یہ ہے کہ اگر ان سے چندے کا تقاضا کرلیا جائے تو بگڑ جاتے ہیں ۔
10 ۔ اور اگر انہیں ڈھیل دے دی جائے تو سوئے رہتے ہیں ۔
11 ۔ ان سب کے علاوہ ایک بڑی کمی ہمارے ان امراء اور مالداروں کی بے توجہی اور لاپرواہی کی بھی ہے ۔
دنیائے اہلسنت سے سوال : اب دل پر ہاتھ رکھ کر سچ سچ فرمائیں کہ وہ قوم جوکہ اپنے میں سے کسی ’’عالم ذی فضل‘‘ کو ترقی کرتا نہ دیکھ سکے ۔ اپنے ناقصوں کو ’’کامل‘‘ اور اپنے قاصروں کو ’’ذی فضل‘‘ بنانے کی کیا کوشش کرے گی ؟ حاشا یہ کلیہ تو نہیں ہے ، مگر اکثر کا حکم کل کا حکم ہوتا ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 29 صفحہ 599-598،چشتی)
تعلیماتِ امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ
بدگمانی حرام ہے
القرآن: یایھا الذین امنوا احتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم ۔
ترجمہ : اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو بے شک بعض گمان گناہ ہیں ۔ (سورۂ حجرات آیت 12 پارہ 26)
(برے) گمان سے دور رہو کہ (برے) گمان سب سے بڑھ کر جھوٹی بات ہے ۔ (صحیح بخاری‘ کتاب الادب‘ حدیث 6066‘ جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 117،چشتی)
بعض گمان گناہ ہیں
ایک مرتبہ امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ تنہا ایک گدڑی پہنے مدینہ طیبہ سے کعبہ معظمہ کو تشریف لے جارہے تھے اور ہاتھ میں صرف ایک تاملوٹ (یعنی ڈونگا) تھا۔ شفیق بلخی علیہ الرحمہ نے دیکھا (تو) دل میں خیال کیا کہ یہ فقیر اوروں پر اپنا بار (یعنی بوجھ) ڈالنا چاہتا ہے۔ یہ وسوسہ شیطانی آنا تھا کہ امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ نے فرمایا! شفیق ۔ بچو گمانوں سے (کہ) بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ نام بتانے اور وسوسہ دلی پر آگاہی سے نہایت عقیدت ہوگئی اور امام کے ساتھ ہولیے ۔ راستے میں ایک ٹیلے پر پہنچ کر امام صاحب نے اس سے تھوڑا ریت لے کرتا ملوٹ (یعنی ڈونگے) میں گھول کر پیا اور شفیق بلخی سے بھی پینے کو فرمایا۔ انہیں انکار کا چارہ نہ ہوا جب پیا تو ایسے نفیس لذیذ اور خوشبودار ستو تھے کہ عمر بھر نہ دیکھے نہ سنے ۔ (عیون الحکایات حکایت نمبر 131صفحہ نمبر 150 / 149،چشتی)
شیخ الاسلام علامہ سید محمد مدنی میاں کچھوچھوی فرماتے ہیں کہ : محدث بریلی علیہ الرحمہ کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے از اول تا آخر مقلد رہے۔ ان کی ہر تحریر کتاب و سنت اور اجماع و قیاس کی صحیح ترجمان رہی۔ نیز سلف صالحین و ائمہ مجتہدین کے ارشادات اور مسلک اسلاف کو واضح طور پر پیش کرتی رہی ۔ وہ زندگی کے کسی گوشے میں ایک پل کے لئے بھی ’’سبیل مومنین صالحین‘‘ سے نہیں ہٹے ۔ اب اگر ایسے کرنے والوں کو ’’بریلوی‘‘ کہہ دیا گیا تو کیا بریلویت و سنیت کو بالکل مترادف المعنی نہیں قرار دیا گیا ؟ اور بریلویت کے وجود کا آغاز محدث بریلی علیہ الرحمہ کے وجود سے پہلے ہی تسلیم نہیں کرلیا گیا ؟
مزارات اولیاء پر ہونے والے خرافات
ﷲ تعالیٰ کے نیک بندوں کے مزارات شعائر ﷲ ہیں‘ ان کا احترام و ادب ہر مسلمان پر لازم ہے‘ خاصان خدا ہر دور میں مزارات اولیاء پر حاضر ہوکر فیض حاصل کرتے ہیں۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان اپنے مولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزار پر حاضر ہوکر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فیض حاصل کیا کرتے تھے ۔ پھر تابعین کرام صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مزارات پر حاضر ہوکر فیض حاصل کیا کرتے تھے‘ پھر تبع تابعین‘ تابعین کرام کے مزارات پر حاضر ہوکر فیض حاصل کیا کرتے تھے‘ تبع تابعین اور اولیاء کرام کے مزارات پر آج تک عوام وخواص حاضر ہوکر فیض حاصل کرتے ہیں اور ان شاء ﷲ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ۔
لادینی قوتوں کا یہ ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے کہ وہ مقدس مقامات کو بدنام کرنے کے لئے وہاں خرافات و منکرات کا بازار گرم کرواتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے دلوں سے مقدس مقامات اور شعائر ﷲ کی تعظیم و ادب ختم کیا جاسکے ۔ یہ سلسلہ سب سے پہلے بیت المقدس سے شروع کیا گیا ۔ وہاں فحاشی و عریانی کے اڈے قائم کئے گئے‘ شرابیں فروخت کی جانے لگیں اور دنیا بھر سے لوگ صرف عیاشی کرنے کےلیے بیت المقدس آتے تھے (معاذ ﷲ)
اسی طرح آج بھی مزارات اولیاء پر خرافات‘ منکرات‘ چرس و بھنگ‘ ڈھول تماشے‘ ناچ گانے اور رقص و سرور کی محافلیں سجائی جاتی ہیں تاکہ مسلمان ان مقدس ہستیوں سے بدظن ہوکر یہاں کا رخ نہ کریں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بعض لوگ یہ تمام خرافات اہلسنت اور امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کے کھاتے میں ڈالتے ہیں جوکہ بہت سخت قسم کی خیانت ہے۔
اس بات کو بھی مشہور کیا جاتا ہے کہ یہ سارے کام جو غلط ہیں‘ یہ امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی تعلیمات ہیں۔ پھر اس طرح عوام الناس کو اہلسنت اور امام اہلسنت علیہ الرحمہ سے برگشتہ کیا جاتا ہے۔ اگر ہم لوگ امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی کتابوں اور آپ کے فرامین کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ بدعات و منکرات کے قاطع یعنی ختم کرنے والے تھے۔ اب مزارات پر ہونے والے خرافات کے متعلق آپ ہی کے فرامین اور کتابوں سے اصل حقیقت ملاحظہ کریں اور اپنی بدگمانی کو دور کریں ۔
مزار شریف کو بوسہ دینا اور طواف کرنا
امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مزار کا طواف کہ محض بہ نیت تعظیم کیا جائے ناجائز ہے کہ تعظیم بالطواف مخصوص خانہ کعبہ ہے۔ مزار شریف کو بوسہ نہیں دینا چاہئے۔ علماء کا اس مسئلے میں اختلاف ہے مگر بوسہ دینے سے بچنا بہتر ہے اور اسی میں ادب زیادہ ہے۔ آستانہ بوسی میں حرج نہیں اور آنکھوں سے لگانا بھی جائز کہ اس سے شرع میں ممانعت نہ آئی اور جس چیز کو شرح نے منع نہ فرمایا وہ منع نہیں ہوسکتی۔ ﷲ تعالیٰ کا فرمان ’’ان الحکم الا ﷲ‘‘ ہاتھ باندھے الٹے پاؤں آنا ایک طرز ادب ہے اور جس ادب سے شرح نے منع نہ فرمایا اس میں حرج نہیں۔ ہاں اگر اس میں اپنی یا دوسرے کی ایذا کا اندیشہ ہو تو اس سے احتراز (بچا) کیا جائے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص 8‘ مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی،چشتی)
روضہ انور پر حاضری کا صحیح طریقہ
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ خبردار جالی شریف (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزار شریف کی سنہری جالیوں) کو بوسہ دینے یا ہاتھ لگانے سے بچو کہ خلافِ ادب ہے بلکہ (جالی شریف) سے چار ہاتھ فاصلہ سے زیادہ قریب نہ جاؤ۔ یہ ان کی رحمت کیا کم ہے کہ تم کو اپنے حضور بلایا‘ اپنے مواجہ اقدس میں جگہ بخشی‘ ان کی نگاہ کرم اگرچہ ہر جگہ تمہاری طرف تھی اب خصوصیت اور اس درجہ قرب کے ساتھ ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد نمبر 10 صفحہ نمبر 765‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور،چشتی)
روضہ انور پر طواف و سجدہ منع ہے
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں روضہ انور کا طواف نہ کرو‘ نہ سجدہ کرو‘ نہ اتنا جھکنا کہ رکوع کے برابر ہو۔ حضور کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعظیم ان کی اطاعت میں ہے ۔(فتاویٰ رضویہ شریف جدید جلد 10ص 769 مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
معلوم ہوا کہ مزارات پر سجدہ کرنے والے لوگ جہلا میں سے ہیں اور جہلاء کی حرکت کو تمام اہلسنت پر ڈالنا سراسر خیانت ہے‘ اور امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی تعلیمات کے خلاف ہے ۔
مزارات پر چادر چڑھانا
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے مزارات پر چادر چڑھانے کے متعلق دریافت کیا تو جواب دیا جب چادر موجود ہو اور ہنوز پرانی یا خراب نہ ہوئی کہ بدلنے کی حاجت ہو تو بیکار چادر چڑھانا فضول ہے بلکہ جو دام اس میں صرف کریں اﷲ تعالیٰ کے ولی کی روح مبارک کو ایصال ثواب کے لئے محتاج کو دیں ۔ (احکام شریعت حصہ اول صفحہ 42)
عرس کا دن خاص کیوں کیا جاتا ہے
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ بزرگان دین کے اعراس کی تعین (یعنی عرس کا دن مقرر کرنے) میں بھی کوئی مصلحت ہے ؟
آپ نے جواباً ارشاد فرمایا : ہاں اولیائے کرام کی ارواح طیبہ کو ان کے وصال کے دن قبور کریمہ کی طرف توجہ زیادہ ہوتی ہے چنانچہ وہ وقت جو خاص وصال کا ہے۔ اخذ برکات کے لئے زیادہ مناسب ہوتا ہے ۔ (ملفوظات شریف ص 383‘ مطبوعہ مکتبتہ المدینہ کراچی،چشتی)
عرس میں آتش بازی اور نیاز کا کھانا لٹانا حرام ہے
سوال : بزرگان دین کے عرس میں شب کو آتش بازی جلانا اور روشنی بکثرت کرنا بلا حاجت اور جو کھانا بغرض ایصال ثواب پکایا گیا ہو۔ اس کو لٹانا کہ جو لوٹنے والوں کے پیروں میں کئی من خراب ہوکر مٹی میں مل گیا ہو‘ اس فعل کو بانیان عرس موجب فخر اور باعث برکت قیاس کرتے ہیں۔ شریعت عالی میں اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب : آتش بازی اسراف ہے اور اسراف حرام ہے‘ کھانے کا ایسا لٹانا بے ادبی ہے اور بے ادبی محرومی ہے‘ تصنیع مال ہے اور تصنیع حرام۔ روشنی اگر مصالح شرعیہ سے خالی ہو تو وہ بھی اسراف ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 24ص 112‘ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
عرس میں رنڈیوں کا ناچ حرام ہے
سوال : تقویۃ الایمان مولوی اسمعیل کی فخر المطابع لکھنؤ کی چھپی ہوئی کہ صفحہ 329 پر جو عرس شریف کی تردید میں کچھ نظم ہے اور رنڈی وغیرہ کا حوالہ دیا ہے‘ اسے جو پڑھا تو جہاں تک عقل نے کام کیا سچا معلوم ہوا کیونکہ اکثر عرس میں رنڈیاں ناچتی ہیں اور بہت بہت گناہ ہوتے ہیں اور رنڈیوں کے ساتھ ان کے یار آشنا بھی نظر آتے ہیں اور آنکھوں سے سب آدمی دیکھے ہیں اور طرح طرح کے خیال آتے ہیں۔ کیونکہ خیال بدونیک اپنے قبضہ میں نہیں‘ ایسی اور بہت ساری باتیں لکھی ہیں جن کو دیکھ کر تسلی بخش جواب دیجئے ؟
جواب : رنڈیوں کا ناچ بے شک حرام ہے‘ اولیائے کرام کے عرسوں میں بے قید جاہلوں نے یہ معصیت پھیلائی ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 29ص 92‘ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
وجد کا شرعی حکم
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا کہ مجلس سماع میں اگر مزامیر نہ ہوں (اور) سماع جائز ہو تو وجد والوں کا رقص جائز ہے یا نہیں ؟
آپ نے جوابا ارشاد فرمایا کہ : اگر وجد صادق (یعنی سچا) ہے اور حال غالب اور عقل مستور (یعنی زائل اور اس عالم سے دور تو اس پر تو قلم ہی جاری نہیں ۔ اور اگر بہ تکلف وجد کرتا ہے تو ’’تشنی اور تکسر‘‘ یعنی لچکے توڑنے کے ساتھ حرام ہے اور بغیر اس کے ریا و اظہار کے لئے ہے تو جہنم کا مستحق ہے اور اگر صادقین کے ساتھ تشبہ بہ نیت خالصہ مقصود ہے کہ بنتے بنتے بھی حقیقت بن جاتی ہے تو حسن و محمود ہے حضور کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے ۔ (ملفوظات شریف صفحہ نمبر231 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی،چشتی)
حرمتِ مزامیر
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مزامیر یعنی آلات لہو و لعب بروجہ لہو و لعب بلاشبہ حرام ہیں جن کی حرمت اولیاء و علماء دونوں فریق مقتداء کے کلمات عالیہ میں مصرح‘ ان کے سننے سنانے کے گناہ ہونے میں شک نہیں کہ بعد اصرار کبیرہ ہے اور حضرات علیہ سادات بہثت کبرائے سلسلہ عالیہ چشت کی طرف اس کی نسبت محض باطل و افتراء ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد دہم صفحہ 54)
نشہ و بھنگ و چرس
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ نشہ بذاتہ حرام ہے ۔ نشہ کی چیزیں پینا جس سے نشہ بازوں کی مناسبت ہو اگرچہ حد نشہ تک نہ پہنچے یہ بھی گناہ ہے ہاں اگر دوا کےلیے کسی مرکب میں افیون یا بھنگ یا چرس کا اتنا جز ڈالا جائے جس کا عقل پر اصلاً اثر نہ ہو حرج نہیں ۔ بلکہ افیون میں اس سے بھی بچنا چاہیے کہ اس خبیث کا اثر ہے کہ معدے میں سوراخ کر دیتی ہے ۔ (احکام شریعت جلد دوم)
تبلٕغِ دین کے مشن میں ہمارا ساتھ دیجیے : ⬇
دین کا درد رکھنے والے تمام مسلمان بھائیوں اور سبھی احباب سے گذارش ہے کہ : فتنوں کے اس دور میں فتنوں کا مقابلہ کرنے ، دین کی نشر و اشاعت کرنے اور دینی تعلیم عام کرنے میں ہمارا ساتھ دیں ۔ ادارہ کےلیے جگہ کی خریداری و تعمیر ۔ دین کی نشر و اشاعت ، دینی کتب تفاسیر قرآن اور کتب احادیث عربی اردو کی شروحات و دیگر اسلامی کتب کی : آیئے تفاسیر قرآن اور کتب احادیث کی خریداری میں ہمارا ساتھ دیجیے اور مستحق بچوں اور بچیوں کو دینی تعلیم دینے کے اخراجات کے سلسلہ میں صاحب حیثیت مسلمان تعاون فرمائیں جزاکم اللہ خیرا ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : محمد جواد اکاؤنٹ نمبر 02520107640866 میزان بینک چوھنگ لاہور پاکستان ، موبی کیش اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : 03009576666 ، 03215555970 ، اللہ تعالیٰ آپ سب کو اجرِ عظیم عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment