آیتِ تطہیرِ اور شانِ اہلبیت و ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہم حصّہ دوم
سورہ الاحزاب آیت نمبر 33 اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کے جمیع فضائل ، رفعتوں ، عظمتوں اور قدر و منزلت کے بیان کا منبع و مصدر اور سب سے اہم علمی اور قرآنی سر چشمہ ہے ۔ یہ آیت کلمہ حصر ’’اِنَّمَا‘‘ سے شروع ہوتی ہے ۔ ’’حصر‘‘ کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ بات کی اہمیت اور تاکید کو بیان کرتا ہے ۔ اس سے مقصود سننے اور پڑھنے والوں کو بھر پور طریقے سے متوجہ کرنا ہوتا ہے تاکہ جو بات بیان کی جارہی ہے ، لوگ توجہ سے اسے سنیں ، سمجھیں اور اپنے فکر و عقیدہ میں اس کو جگہ دیں ۔ آیتِ مبارکہ میں حصر اللہ کے ارادہ پر ہے ۔ اللہ کے ارادے اور مخلوق کے ارادے میں فرق ہے ۔ ارشاد فرمایا : فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ ۔ (سورہ البروج آیت نمبر 16)
ترجمہ : ہمیشہ جو چاہے کر لینے والا ۔
اللہ جس چیز کا ارادہ فرماتا ہے وہ ہمارے ارادوں کی طرح نہیں ہوتا ۔ جب ہم کسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے پورا ہونے کے حوالے سے کئی سوال ہیں مثلاً : وہ ارادہ کب پورا ہو گا ؟ پورا ہوتا بھی ہے یا نہیں؟ کس قدر پورا ہوتا ہے اور کس قدر رہ جاتا ہے ؟ کتنے زمانے کے بعد جاکر پورا ہوگا؟ یہ ہمارے ارادوں کا حال ہوتا ہے جبکہ اللہ کا ارادہ ایسا نہیں ہے ۔ اللہ کا ارادہ ازلی ، ابدی اور قدیم ہے ۔ وہ جس شے کا ارادہ فرماتا ہے ، وہ شے ہو کر رہتی ہے ۔ قرآن مجید نے یہ اصول بیان فرما دیا ہے ۔ ارشاد فرمایا : اِنَّمَآ اَمْرُهٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ کُنْ فَیَکُوْنُ ۔ (سورہ یٰسین آیت نمبر 82)
ترجمہ : اس کا کام تو یہی ہے کہ جب کسی چیز کو چاہے تو اس سے فرمائے ہو جا وہ فوراً ہو جاتی ہے ۔
جب اللہ رب العزت یہ ارشاد فرمادیں کہ ’’میرا ارادہ تو یہی ہے‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کا اس نے ارادہ فرمایا ہے ، اب اس ارادے کی تکمیل میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی ۔ یہ حتمی ، قطعی اور یقینی ہے ، یہ (بغیر کسی کمی و نقص کے) اکمل و احسن طریق سے پورا ہو کر رہے گا ، اس پر اگر اور لیکن نہیں لگ سکتے اور نہ ہی بحث و تکرار اور مختلف قسم کے اصرار کی گنجائش رہتی ہے ۔
اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے اپنے جس ارادہ کا اظہار فرمایا اس کے بارے میں ارشاد فرمایا : لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ ۔
ترجمہ : تم سے ہر ناپاکی دور فرما دےاور تمہیں پاک کر کے ۔
رجس سے مراد گناہ ، شکوک و شبہات اور نقائص ہیں ۔ جن سے اللہ رب العزت اہل بیت رضی اللہ عنہم کو ہمیشہ کےلیے ایسا پاک اور صاف کر دینا چاہتا ہے کہ ان چیزوں کی گنجائش بھی ان کی زندگیوں میں نہ رہے ۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا :وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا ۔
ترجمہ : خوب ستھرا کر دے ۔
یعنی اہل بیت رضی اللہ عنہم کو ایسی کامل طہارت اور پاکیزگی عطا کر دے جو نہ صرف عظیم اور کثیر ہو بلکہ بڑی عجیب بھی ہو ۔ ایسی طہارت جو کبھی کسی نے دیکھی اور سنی نہ ہو ۔ تَطْہِیْرًا کے لفظ میں تنوین مبالغہ کےلیے ہے کہ اللہ نے جو ارادہ کیا وہ بتمام و کمال پورا ہو گیا اور بطریقِ اعلیٰ و اولیٰ اللہ تعالیٰ نے اس کی تکمیل کر دی ۔ تطہیراً کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کو ایسی طہارت سے نوازا جو عرفِ عام کی پاکیزگی اور طہارت جیسی نہیں ہے بلکہ یہ اس سے کہیں زیادہ بلند تر طہارت ہے ۔ یہ طہارت ہماری سمجھ اور فہم و ادراک سے بھی بالا تر ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کے ارادے کے بیان کے بعد یُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا کا معنی یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے بڑی عظیم ، نادر الوجود ، عدیم المثال اورہمارے فہم و فراست سے بالا تر طہارت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت رضی اللہ عنہم کو عطا فرمائی ۔
مذکورہ آیتِ مبارکہ میں مذکور اہل بیت رضی اللہ عنہم سے کون سی شخصیات مراد ہیں ۔ اس کو سمجھنے کےلیے اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے تعین کے حوالے سے درج ذیل چار اقوال بیان کیے جاتے ہیں : ⬇
آلِ علی ، آل عقیل ، آلِ جعفر ، آلِ عباس رضی اللہ عنہم
اہل بیت رضی اللہ عنہم کے تعین کے حوالے سے ایک قول یہ ہے کہ اہل بیت رضی اللہ عنہم سے مراد وہ ہستیاں اور مبارک گھرانے ہیں جن پر اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے زکوٰۃ اور صدقات حرام قرار دیے ہیں ۔ اس لیے کہ زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ مال سے نکلنے والا میل کچیل ہوتا ہے جو ان ہستیوں اور گھرانوں کے شایانِ شان نہیں اور ان کی عظمتوں کے منافی ہے ۔ وہ چار گھرانے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خانوادہ نبوت کا حصہ مانے جاتے ہیں ، ان میں آل علی رضی اللہ عنہ ، آل عقیل رضی اللہ عنہ، آل جعفر رضی اللہ عنہ اور آل عباس رضی اللہ عنہ شامل ہیں ۔ پہلے قول کے مطابق اہل بیت کا اطلاق ان چار گھرانوں کے افراد پر ہوگا ۔ یہ قول امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، امام عینی رحمۃ اللہ علیہ ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ، امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اور بعض مالکیہ سے بھی مروی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث سے اس کا اشارہ ملتا ہے کہ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کھیل رہے تھے ، قریب ہی صدقہ و زکوٰۃ کی تقسیم کے لیے کچھ کھجوریں پڑی تھیں ان میں سے کسی ایک نے کھجور اٹھا کر منہ میں ڈال لی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیکھا تو اپنی انگلی مبارک ان کے منہ کے اندر ڈال کر اس کھجور کو نکال دیا اور فرمایا : اما علمت ان آل محمد لا یاکلون صدقه ۔
ترجمہ : تمہیں معلوم نہیں کہ آل محمد صدقہ نہیں کھاسکتے ۔ (صحیح بخاری کتاب الزکوٰة باب اخذ صدقة التمر جلد 2 صفحہ 541 حدیث نمبر 1414)
یہ حدیثِ مبارکہ اس بات کی تائید میں ہے کہ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کا اطلاق ان مذکورہ گھرانوں پر ہوتا ہے ۔ یہ معنی صحیح مسلم کی حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے جسے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے ۔ اس حدیث کا آخری حصہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمہیں اپنی اہل بیت کی محبت و مودت کے لیے اللہ کی یاد دلاتا ہوں کہ اللہ اور اس کے حکم کو میری اہل بیت کے بارے میں کبھی نہ بھولو ۔
اس حدیث کے راوی حضرت حصین رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اہل بیت کا اتنا عظیم ذکر فرمایا ہے ، ان اہل بیت سے مراد کون ہیں ؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں سے ہیں ؟
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اس میں شک نہیں کہ ازواج مطہرات اہل بیت میں سے ہیں : ولکن اهل بیته من حرم صدقة ۔
ترجمہ :مگر حقیقت میں اہل بیت سے مراد وہ سارے گھرانے اور افراد و نفوس ہیں جن پر صدقہ کو حرام کردیا گیا ہے ۔ (شرح النووی علی صحیح مسلم، باب من فضائل علی بن ابی طالب صفحہ 180،چشتی)
پھر فرمایا : وهم آل علی وآل عقیل وآل جعفر وآل عباس ۔
ترجمہ : یہ چار گھرانے آل علی ، آل عقیل ، آل جعفر اور آل عباس رضی اللہ عنہم ہیں ۔
اہلِ بیت کے تعین کے حوالے سے دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج مطہرات اور آپ کی ذریت طیبہ (اولاد پاک) ہے ۔
متفق علیہ حدیث ہے جسے حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی : اِنَّ اللہ وَ مَلٰٓئِکَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ط یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا ۔ (سورہ السجده آیت نمبر 56)
ترجمہ : بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی ﷺ) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یارسول الله کیف نصل علیک ؟
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! ہم آپ پر کیسے درود پڑھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : قولو اللهم صل علی محمد وازواجه وذریته کما صلیت علی ابراهیم وعلی آل ابراهیم ۔ مجھ پر درود ایسے پڑھو : اے اللہ! محمد پر اور محمد کی ازواج مطہرات پر اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اولاد اور ذریت پر درود بھیج جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر درود بھیجا ۔ (صحیح مسلم باب التسمیع والتحمید والتامین جلد 1 صفحہ 306 حدیث نمبر 407،چشتی)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آلِ پاک رضی اللہ عنہم پر درود و سلام پڑھنے کا نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر پڑھنے کا پوچھا تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اوپر درود پڑھنے کے معنی میں اپنی ذات کے ساتھ اپنی ازواج اور اپنی اولاد رضی اللہ عنہم کو بھی شامل فرمایا ۔ اس وجہ سے نماز میں درود پڑھتے ہوئے ازواج اور ذریت رضی اللہ عنہم کو بھی شامل کرتے ہیں ، اس لیے کہ آل محمد میں ازواج بھی آجاتی ہے اور ذریت یعنی اولاد بھی آجاتی ہے ۔
اس دوسرے قول کے مطابق آپ کی اولاد اور ازواج اہل بیت رضی اللہ عنہم میں شامل ہو گئے اور بقایا گھرانے جیسے آل علی ، آل جعفر ، آل عقیل ، آل عباس رضی اللہ عنہم ہیں تو وہ اس قول میں شامل نہیں ۔ گویا یہاں اہل بیت رضی اللہ عنہم سے مراد صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اولاد یعنی بنو فاطمہ شامل ہیں ۔ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اولاد و ذریت سیدہ کائنات سے چلی ہے ، اس لیے بنو فاطمہ اس دوسرے قول کے مطابق اہل بیت رضی اللہ عنہم میں آجاتے ہیں ۔
اہل بیت رضی اللہ عنہم کے تعین کے حوالے سے تیسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت صرف ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی شان میں نازل ہوئی ۔ اس کے راوی حضرت عکرمہ ہیں جو حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہم کے شاگرد ہیں ۔ اس قول کو ائمہ تفسیر و حدیث اور علماء امت نے قبول نہیں کیا کیونکہ یہ قول خارجی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے ۔ حضرت عکرمہ بازار و گلی کوچوں میں جاکر آواز بلند کرتے تھے کہ جو تم سمجھتے ہو (یعنی اہل بیت سے مراد حضرت علی ، حضرت فاطمہ ، حسنین کریمین رضی اللہ عنہم) اس سے مراد وہ نہیں ہیں بلکہ اس سے مراد صرف ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ہیں ۔ یہ قول مردود ہے ، اسے اکابرین امت علیہم الرحمہ نے قبول نہیں کیا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت عکرمہ بربری تھے اور ان کا تعلق مراکو سے تھا ، مراکو میں قیام کے دوران وہاں کے نجدہ الحروری نامی شخص جو خارجیوں کا بڑا لیڈر تھا ، آپ اس کی صحبت میں 6 مہینے رہے اور اس کی خارجی فکر سے متاثر ہو گئے جس کے نتیجے میں ان کے بعض امور میں خارجی فکر کا غلبہ ہو گیا ۔ خارجی فکر کی نمایاں خصوصیات میں بغضِ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم بھی شامل ہے ۔ خارجیوں کے دل اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی محبت سے خالی ہوتے ہیں اور یہ لوگ اہل بیت رضی اللہ عنہم کی عظمت و رفعت اور ان کی شان کے قائل نہیں ہوتے ۔ حضرت عکرمہ ان سے متاثر ہوئے تو اہل بیت رضی اللہ عنہم کی شان میں نازل ہونے والی آیات و احادیث میں تاویل کرلیتے تھے ۔ لہٰذا جس آیت میں اہل بیت رضی اللہ عنہم کا ذکر آجائے اور اس کی تفسیر میں ان کی وہ تاویل آئے جو اہل بیت رضی اللہ عنہم کی شان کو کم کرنے والی ہو تو اس میں ان کا قول قبول نہیں کیا جاتا ۔ باقی امور میں یہ ثقہ اور معتبر ہیں ، البتہ اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے حوالے سے خارجی فکر سے متاثر ان کی تاویلات والے اقوال کو قبول نہیں کیا گیا ۔ بعد میں حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے خارجی نظریات سے رجوع فرما لیا تھا ۔ (چشتی)
ایک قول یہ ہے کہ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم سے مراد صرف اصحاب الکِسَاء ہیں ۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جن چار ہستیوں کو اپنی چادر میں لے کر فرمایا تھا کہ یہ میری اہل بیت ہیں، اس قول کے مطابق اہل بیت سے مراد صرف یہی ہیں۔ ان کے نظریے میں صرف پنجتن یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات پاک، سیدنا مولا علیٰ، سیدہ فاطمہ، امام حسن، امام حسین رضی اللہ عنہم ہی اہل بیت ہیں ۔ یہ شیعہرافضیوں کا قول ہے ۔ یہ قول بھی تیسرے قول کی طرح انتہا پر ہے ۔ تیسرے قول کو خوارج نے اپنایا ہے اور چوتھے قول کو اہل تشیع روافض نے اپنایا ہے اور یہ دونوں اقوال مردود ہیں ۔ تیسرے قول والوں نے اہل الکِسَاء کو اہل بیت رضی اللہ عنہم سے نکال دیا اور اس قول کے قائلین نے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو خارج کردیا ۔ اس قول کو مردود کہنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ ہم پنجتن پاک رضی اللہ عنہم کو نہیں مانتے ۔ انہیں ہم مانتے ہیں اور ہم پنجتن کہنا بھی جائز سمجھتے ہیں ۔ پنجتن کا لفظ حدیث پاک سے ثابت ہے اور یہ پنجتن اس آیت تطہیر میں شامل ہیں ۔ اس وقت میں فقیر جو نفی کر رہا ہے وہ اس بات کی ہے کہ آیت کریمہ میں لفظ اہل بیت سے مراد صرف پنجتن نہیں ہیں ۔
راجح قول یہ ہے کہ : اہل بیت سے مراد ازواجِ مطہرات اور پنجتن رضی اللہ عنہم ہیں ۔ ان چار اقوال کو پڑھنے کے بعد اب راجح قول کے بارے میں پڑھتے ہیں : ⬇
سورہ احزاب کی مذکورہ آیت نمبر 33 جس میں اہل بیت رضی اللہ عنہم کا ذکر اور ان کی شانِ تطہیر آئی ہے، اس آیت میں مذکور اہل بیت سے مراد پنجتن بھی ہیں اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم بھی ہیں ۔ ان دونوں کو جمع کر دیں تو اہل بیت کا معنی مکمل ہو جاتا ہے ۔ اہل بیت سے صرف ازواج مطہرات مراد لینا اور پنجتن کو نکال دینا بھی درست نہیں ہے ۔ اسی طرح اہل بیت سے صرف پنجتن مراد لینا اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو نکال دینا بھی درست نہیں ۔ ایسا کرنا خود قرآن مجید کے سیاق و سباق کے خلاف ہے ۔ صحیح اور راجح قول یہ ہے کہ اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات بھی ہیں اور پنجتن رضی اللہ عنہم بھی ہیں ۔
آیت تطہیر سورہ الاحزاب آیت نمبر 33 کے مصداق ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن بھی ہیں ، اس لیے کہ سورۃ احزاب کی تین آیات (32 ، 33 ، 34) نازل ہی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے بارے میں ہوئی ہیں ۔ ان تینوں آیات کا سبب نزول امہات المومنین رضی اللہ عنہن ہیں اور سبب نزول کبھی غایتِ نزول سے خارج نہیں ہوتا ۔ جس کےلیے آیت نازل ہوئی ہو وہ آیت کے مقصود اور معنی سے خارج نہیں ہوتا بلکہ سبب نزول معنیٔ آیت کا حصہ ہوتا ہے کیونکہ اس کےلیے ہی آیت نازل ہوئی تھی ۔ سوال یہ ہے کہ حدیث مبارکہ میں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی ، حضرت فاطمہ ، امامِ حسن و امامِ حسین رضی اللہ عنہم کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : اَللّٰهُمَّ هٰؤلآءِ اَهْلُ بَیْتِیْ ’’اے اللہ یہ اہل بیت ہیں ۔‘‘ جبکہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی طرف تو اس طرح کی کوئی صراحت نہیں ملتی پھر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اہل بیت میں کیسے شامل ہو گئیں ؟
اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ زوجہ تو ہوتی ہی گھر والی ہے ۔ ان پر تو سوال ہی نہیں ہو سکتا کہ وہ کیسے اہل بیت میں شامل ہو گئیں ؟ اہل بیت کا مطلب ہی ’’گھر والے‘‘ ۔ جیسے لوگ کہتے ہیں کہ ’’میری گھر والی نے یہ کہا‘‘ یعنی بیوی کو کہتے ہی گھر والی ہیں اور اسی گھر والی کا معنی ہے اہل بیت ۔ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 32 شروع ہی یہاں سے ہوتی ہے ، ارشاد فرمایا : یٰـنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ ۔ (الاحزاب آیت 32)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خطاب ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیویوں رضی اللہ عنہ۔ سے کیا ہے ، اس لیے کوئی ان کے اہل بیت سے ہونے کا انکار نہیں کر سکتا کیونکہ قرآن مجید کی ان آیات کا نزول بھی ان کےلیے ہوا اور خطاب بھی ان سے ہوا ۔ لہٰذا اس امر میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں رہتی کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اہل بیت ہیں ۔
ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے اہل بیت میں شامل ہونے کی وضاحت کے بعد اب سوال ہے کہ پنجتن اہل بیت میں کیسے شامل ہوئے ؟ سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا تو شہزادی مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہما شہزادے ہیں ، اس لیے اہل بیت میں شامل ہو گئے مگر حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ تو کزن اور داماد ہیں ، وہ اہل بیت میں کیسے ہوئے ؟
یہ ہستیاں بھی قرآن مجید کی اسی آیت کریمہ آیتِ تطہیر سے ہی اہل بیت قرار پاتی ہیں ۔ یہاں اس مغالطہ کا بھی ازالہ پیشِ خدمت ہے کہ بعض اوقات لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال آتا ہے کہ ازواج مطہرات کا اہل بیت میں شامل ہونا تو قرآن مجید سے ثابت ہے ، چار تن (سیدنا علی المرتضیٰ ، سیدہ فاطمہ ، سیدنا حسنین کریمین رضی اللہ عنہم) کیسے اہل بیت ہو گئے ؟ اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ حدیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ یہ پنجتن اہل بیت ہیں ۔ یاد رکھیں ! حدیث سے ان کا اہل بیت ہونا بھی ثابت ہے مگر یہ ثانوی حیثیت رکھتا ہے ، اس سے پہلے قرآن مجید ہی کے ذریعے ان کا اہل بیت کا حصہ ہونا ثابت ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اہل بیت کی اصطلاح کو وسیع کر کے اپنے امر سے ان چار شخصیات کو اہلِ بیت میں شامل نہیں کیا ۔ بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ان چار ہستیوں کو اہل بیت میں شامل کر سکتے ہیں ، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان و اختیار کے متعلق قرآن میں آیا ہے کہ : وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰی. اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی ۔ ’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے‘‘ ۔ (سورہ النجم آیت 3-4)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جو کچھ شامل کر لیں تو وہ بھی اللہ کی طرف سے ہو گا ۔ مگر یاد رکھیں کہ اس طریق پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اہل بیت میں پنجتن کو اضافتاً شامل نہیں فرمایا بلکہ وہ بھی از روئے قرآن اہل بیت میں اصلاً شامل ہیں ۔ لفظ اہل بیت سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 32 اور 34 دونوں میں نہیں آیا ۔ ان دونوں آیات میں خطاب ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے ہے ، لفظ اہل بیت اور یُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا کی شان کا بیان آیت نمبر 33 کا مضمون ہے ۔ آیت 32 اور 34 میں ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی فضیلت کا ذکر ، دوسری عورتوں کے ساتھ ان کی عدم مثلیت کا ذکر کہ یہ دوسری خواتین جیسی نہیں ہیں ، تقویٰ کا حکم آیا ہے ، ترغیب و ترہیب آئی ہے ، گفتگو کے طریقے ، انداز اور احکام آئے ہیں اور اللہ کی آیات کی تلاوت اور یاد کرنے کی بات آئی ہے ۔ ان سارے احکامات میں مخاطب ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ہیں ۔ آیت نمبر 33 جو آیت تطہیر ہے ، اس کا سیاق و سباق اس امر پر غماز ہے کہ چونکہ اس سے پہلے اور اس کے بعد خطاب ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے ہی ہے اس لیے آیت تطہیر کی مخاطب ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن بھی ہیں ۔ اس آیت کا خطاب صرف ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے نہیں بلکہ اس خطاب میں خود اللہ رب العزت نے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے ساتھ مولیٰ علی ، سیدہ فاطمہ ، امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہم سب کو شریک فرمایا ہے ۔ جس طرح اہل بیت میں ازواج مطہرات شریک ہوگئیں اسی طرح پنجتن کا بھی اہل بیت کا حصہ ہونا سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 33 کے اصل میں شامل ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے فرمان کے ذریعے بعد میں ان کو شامل نہیں فرمایا ۔ احادیث میں اہل بیت کے حوالے سے جو کچھ ارشاد فرمایا ، وہ اس آیت کی تفسیر ، تائید اور وضاحت میں فرمایا تاکہ کسی کو شک و شبہ نہ رہے ۔ وضاحت کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ آیات کا نزول ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کےلیے آرہا ہے لہٰذا کسی کو مغالطہ نہ ہو کہ اہل بیت میں صرف ازواج مطہرات شامل ہیں ۔ پنجتن اصل میں (قرآن کی رو سے) شامل ہیں ، احادیث کی رو سے درجہ اضافی میں شامل نہیں ہیں ۔ پنجتن رضی اللہ عنہم بھی آیتِ تطہیر میں اصلاً شامل ہیں ، اس کو سمجھنے کےلیے ان آیاتِ مبارکہ کے اسلوب میں غور کرنا ہو گا ۔ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 32 میں خطاب کے سارے صیغے مونث کے ہیں ، ایک صیغہ بھی مرد کےلیے نہیں ہے ۔ ارشاد فرمایا : یٰـنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَـلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا ۔ (سورہ الاحزاب آیت نمبر 32)
اس آیت میں لَسْتُنَّ ، اتَّقَیْتُنَّ ، تَخْضَعْنَ ، قُلْنَ یہ سارے مونث کے صیغے ہیں ۔ اسی طرح آیت نمبر 34 میں بھی تمام صیغے مونث کے استعمال کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ ﷲِ وَالْحِکْمَةِط اِنَّ ﷲَ کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا ۔ (سورہ الاحزاب آیت نمبر 34)
اس آیت میں بھی وَاذْکُرْنَ اور بُیُوْتِکُنَّ مونث کے صیغے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ سارے خطاب صرف ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کےلیے تھے ۔ اب علمی اعتبار سے بڑا دلچسپ نکتہ ہے کہ آیت نمبر 32 اور آیت نمبر 34 میں بھی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے خطاب ہے اور ان دونوں آیات کے درمیان میں آیت تطہیر ہے ۔ آیت تطہیر آیت نمبر 32 بھی نہیں اور آیت نمبر 34 بھی نہیں ہے بلکہ آیت تطہیر آیت نمبر 33 کا عنوان ہے ۔ اس آیت کے سیاق و سباق میں ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کو خطاب چل رہا تھا اور مونث کے صیغے استعمال ہو رہے تھے مگر اس آیت نمبر 33 یعنی آیت تطہیر میں خطاب یک لخت بدل گیا اور اب مونث کے بجائے مذکر کا صیغہ آگیا ۔ ارشاد فرمایا : لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا ۔ اس آیت میں ’’عَنْکُمُ‘‘ بھی مذکر کا صیغہ ہے اور یُطَهِرَکُمْ بھی مذکر کا صیغہ ہے ۔ گویا اس سے پہلے بھی مونث کے صیغے استعمال فرمائے اور اس کے بعد بھی مونث کے صیغے استعمال فرمائے ، درمیان میں اس مقام پر آیت تطہیر میں مونث کا صیغہ ہٹا کر مذکر کا صیغہ لگا دیا ۔ اس اسلوب سے معلوم ہوا کہ اس جگہ پر خطاب صرف ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو نہیں ہے ۔ اس لیے کہ اگر مخاطب صرف ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ہوتیں تو مونث کا صیغہ ہی استعمال کیا جاتا ہے ۔ لیذہب عنکن اور ویطہرکن کہا جاتا جیسے پہلے مونث صیغے استعمال کیے ۔ ظاہری طور پر جب مذکر کا صیغہ آئے تو اس میں عورتیں شامل نہیں ہوتیں ، صرف مرد شامل ہوتے ہیں لیکن عربی زبان کا قاعدہ یہ ہے کہ عورتیں اور مرد اکٹھے ہوں تو غلبہ ذکور کی وجہ سے وہاں مذکر کا صیغہ آجاتا ہے ۔ مخاطب صرف عورتیں ہوں تو مونث کا صیغہ آتا ہے لیکن مذکر کا صیغہ دو صورتوں میں آتا ہے ، جب صرف مرد مخاطب ہوں تب مذکر کا صیغہ آئے گا اور جب مرد اور عورتیں اکٹھے ہوں تو پھر بھی مذکر کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے مخاطب کیا جاتا ہے ۔ مذکورہ آیت تطہیر سے اب مونث خارج نہیں ہو سکتی ، اس لیے کہ آیت کے آگے پیچھے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کےلیے مونث کا صیغہ آرہا ہے ، لہٰذا جب مذکر کا صیغہ درمیان میں آگیا تو اس کا مطلب ہے کہ یہاں آکر کچھ مرد بھی اس خطاب میں شامل ہو گئے یعنی وہ لوگ جو آیت نمبر 32 اور آیت نمبر 34 میں نہیں تھے ، وہ آیت نمبر 33 میں شامل ہو گئے ۔ پس پنجتن رضی اللہ عنہم کا اہل بیت میں شامل ہونا درجہ اصل میں ہے اور اسے اللہ نے خود اہل بیت میں شامل کیا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں شامل نہیں کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس دائرے کو نہیں بڑھایا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ ، سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا ، امام حسن رضی اللہ عنہ اور امام حسین رضی اللہ عنہ کو شامل کیا ۔ پس مذکر کا صیغہ استعمال کرکے اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات میں پنجتن رضی اللہ عنہم کا اضافہ کیا ۔ یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ پنجتن کا اضافہ ہوا تب اہلِ بیت بنے اور جب تک پنجتن اس میں شامل نہیں تھے ، تب تک ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن تھیں ، نساء النبی تھیں ، وہ امہات المومنین تھیں ، ان کےلیے اہل بیت کا صیغہ نہیں تھا ، اہلِ بیت کا ٹائٹل اس وقت ملا جب ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے ذکر کے ساتھ پنجتن رضی اللہ عنہم بھی شامل ہو گئے ۔ قرآن مجید میں اس مقام کے علاوہ کسی اور مقام پر بھی اگر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کا ذکر آیا ہے تو وہاں بھی اہلِ بیت نہیں کہا گیا بلکہ صرف ازواج اور امہات المومنین رضی اللہ عنہن کہا گیا ۔ اہل بیت کا ٹائٹل پورے قرآن میں فقط اسی جگہ استعمال ہوا ہے اور یہاں یہ ٹائٹل ازواج مطہرات کے ساتھ پنجتن رضی اللہ عنہم کو شامل کرکے استعمال کیا گیا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے احادیث مبارکہ میں حضرت علی ، حضرت فاطمۃ الزہراء اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہم ان چار نفوس قدسیہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : اللهم هولاء اهل بیتی ۔ ’’اے اللہ یہ میری اہل بیت ہے‘‘ ۔ (المعجم الاوسط، باب من اسمه علی جلد 4 صفحہ 236،چشتی)
بعض لوگوں نے یہ معنٰی لیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حدیث مبارکہ کے ذریعے ان چار نفوس کو اہل بیت میں شامل کیا ۔ یہ معنٰی غلط ہے ، اس لیے کہ پنجتن کا اہلِ بیت میں شامل ہونا بھی قرآن کی نص سے ثابت ہے ۔ کچھ لوگوں نے یہ معنٰی مراد لیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اہل بیت سے مراد صرف پنجتن ہیں ۔ اس معنٰی کی رو سے نی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو اہل بیت سے خارج کرنے کا سوچا گیا ۔ یہ معنٰی بھی غلط ہے ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو تو آیت کی شانِ نزول کے ذریعے ہی اہل بیت میں شامل فرماچکا ہے اور جن کو اللہ تعالیٰ نے شامل کیا ، ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خارج تو نہیں کر سکتے ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ھولاء اہل بیتی فرما کر صرف چار نفوس ہی کی طرف اشارہ کیوں فرمایا ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ آیتِ مبارکہ میں ان کے اسماء مبارکہ نہیں آئے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تصریح کردی کہ آیت مبارک میں اللہ نے جن کو میری اہل بیت میں شامل کیا ہے ، ان میں سے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو تو ہر کوئی جانتا ہے ، اس لیے کہ ان کے بارے تو آیات اتریں ، آیت تطہیر کی شکل میں اہل بیت رضی اللہ عنہم کا عنوان دیا ہے مگر نام لے کر بتانے کا مقصود یہ تھا تاکہ پتہ چل جائے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے ساتھ ساتھ اور کون کون اہل بیت میں شامل ہے ۔ (چشتی)
صحیح مسلم کتاب الفضائل صحابہ میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب آیت تطہیر نازل ہوئی تو اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اوپر کالی چادر مبارک اوڑھی ہوئی تھی ، اس میں اونٹوں کے کجاووں کے نشان بنے ہوئے تھے ۔ اتنے میں حسن مجتبیٰ آگئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چادر اٹھا کر ان کو اندر داخل کر لیا ، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے تو ان کو بھی چادر کے اندر داخل کر لیا ۔ پھر سیدہ فاطمۃ الزہراء تشریف لائیں تو ان کو بھی چادر کے اندر داخل کر لیا ۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے تو ان کو بھی چادر کے اندر داخل کرلیا اور ان چاروں کو داخل کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیت تطہیر کی تلاوت کی کہ : اِنَّمَا یُرِیْدُ ﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا ۔ (سورہ الاحزاب آیت نمبر 33)
عام طور پر ایسا ہوتا نہیں ہے کہ ایک چادر اتنی بڑی ہو کہ پہلے ہی ایک ہستی بیٹھی ہو ، پھر چار اور بھی اس میں داخل کیے جائیں ، یہ عام معمول نہیں ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت اس آیت کی تفسیر بتانا چاہ رہے تھے ۔
قرآن مجید کا اسلوب یہ ہے کہ اُس میں کسی کا نام نہیں لیا ۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ، عثمان رضی اللہ عنہ و علی رضی اللہ عنہ کسی کا نام بھی نہیں لیتا بس گنتی کے چند پیغمبروں علیہم السلام کے نام لیے اور جب کفار و مشرکین کو رد کیا تو سوائے ابولہب کے کسی کا نام نہیں لیا ۔ قرآن ازواج مطہرات ، صحابہ اور اہل بیت رضی اللہ عنہم میں سے کسی کانام نہیں لیتا ۔ اب آیت تطہیر کے ذیل میں اجتماعی طور پر نساء النبی آگیا تھا (اے نبی کی بیویو) تو خاص ہو گیا اور مغالطہ نہ رہا کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی بات ہوئی ہے ۔ اسلوبِ بیان میں عترت رضی اللہ عنہم کے بھی اہل بیت میں داخل ہونے کی صراحت ہے مگر نام موجود نہیں ۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نام لینا چاہ رہے ہیں، اس لیے ایک ایک کو پکڑ کر اپنی کملی میں داخل کیا تاکہ ساری دنیا دیکھ لے اور کسی کو شک و شبہ نہ رہے کہ آیتِ تطہیر میں مذکور اہلِ بیت میں یہ شخصیات رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں ۔
بعض احباب کہتے ہیں کہ پنجتن تو شیعوں کا تصور ہے ، آپ کیوں ان کے نام لیتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ام المونین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ روایت سے ثابت ہے کہ انہوں نے ایک چادر مبارکہ میں اِن پانچ تنوں کے اکٹھا ہونے کے منظر کو بیان کیا ہے ۔
قرآن مجید کی سورہ آل عمران آیت نمبر 61 میں بھی پنجتن کا ذکر آیا ہے ۔ جب نصاریٰ کا وفد مباہلہ کے لیے مدینہ آیا تو یہ آیت نازل ہوئی جسے آیتِ مباہلہ کہتے ہیں، ارشاد فرمایا : فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآئَکُمْ وَنِسَآئَناَ وَنِسَآئَکُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ ۔ (سورہ آل عمرن آیت نمبر 61) ۔ جب یہ آیت اتری تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی ، حضرت فاطمہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ’’نِسَآئَنَا‘‘ کی جگہ بلا لیا ، حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو اَبْنَائَنَا کی جگہ پر بلا لیا اور خود اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اَنْفُسَنَا کی جگہ پر بلا لیا ۔ اس طرح یہ پانچ تن اکٹھے ہوئے ۔ ان کو ساتھ لیا اور مباہلہ کےلیے تشریف لے آئے ۔ قرآن مجید کی اس آیت کریمہ نے پانچ تن ثابت کردیے ۔ تن مصطفی ، تن علی المرتضیٰ ، تن فاطمۃ الزہراء ، تن حسن مجتبیٰ ، تن حسین ابن المرتضیٰ رضی اللہ عنہم ۔
پس قرآن مجید نے سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 33 میں پنجتن کو اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کو ملا کر اہل بیت ڈکلیئر کر دیا تھا اور چونکہ نام معلوم نہ تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان چاروں کو بلا کر اپنی چادر مبارک میں بٹھا کر اپنے دستِ اقدس سے اشارہ کر کے بتا دیا کہ یہ میری اہل بیت ہیں تاکہ کسی کو اس بات کے تعین میں مغالطہ ، شبہ اور اعتراض نہ رہے اور کل کوئی اس چیز پر اصرار نہ کرے کہ اہل بیت میں صرف ازواج مطہرات شامل ہیں بلکہ اُسے معلوم ہو جائے کہ ازواج مطہرات اور پنجتن رضی اللہ عنہم مل کر اہل بیت قرار پاتے ہیں ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بھی فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری تو 6 ماہ تک (بعض روایتوں میں 7 اور 8 ماہ کا ذکر بھی ہے) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا معمول تھا کہ ہر روز جب نماز فجر کےلیے نکلتے تو حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے دروازے کے سامنے کھڑے ہوکر آوازدیتے : الصلوة یا اهل البیت ۔ ’’ اے اہل بیت نماز کا وقت ہو گیا‘‘ ۔ اور پھر یہ آیت پڑھتے : اِنَّمَا یُرِیْدُ ﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا ۔
کتب تفاسیر و احادیث میں ہے کہ : نزلت فی خمسة فی رسول الله و علی و فاطمة و الحسن و الحسین ۔
ترجمہ : یہ آیت پانچ تن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، حضرت علی ، حضرت فاطمہ اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کے حق میں نازل ہوئی ۔ (المعجم الاوسط باب من اسمه الحسن جلد 3 صفحہ 380)
یہی وجہ ہے کہ نبی کرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے محبت و مودت کی حد درجہ تلقین فرمائی ۔ محبت اہل بیت رضی اللہ عنہ عمر بھر رہنی چاہیے ، اس لیے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت ہی کا حصہ ہے مگر بطورِ خاص اس محبت کے اظہار کا مہینہ محرم الحرام کا مہینہ ہے ۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح محبتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اظہار تو ہم پورا سال کرتے رہتے ہیں مگر ماہِ ربیعُ الاوّل میں بطور خاص اظہارِ محبت کرتے ہیں ۔ اس لیے جب اہل بیت رضی اللہ عنہم سے محبت کے اظہار کا یہ مہینہ آئے تو اس کا بالخصوص اہتمام کیا کریں ۔ اہل بیت کی محبت ، عترت و ذریت پاک رضی اللہ عنہ کی محبت بالخصوص حسنین کریمین رضی اللہ عنہ کی محبت نہ صرف ہمارے ایمان کاحصہ ہے بلکہ عینِ ایمان ہے ۔ یا اللہ ہمیں تمام ازواجِ مطہرات ، صِحابہ کرام اور اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم اور تمام صالحین علیہم الرحمہ کی محبت و ادب کرنے کی توفیق عطا فرما آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment