Tuesday, 11 July 2023

ماہِ محرم الحرام کے فضائل و مسائل

ماہِ محرم الحرام کے فضائل و مسائل
محترم قارئینِ کرام : اسلام میں سن ہجری کا آغاز نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی مناسبت سے ہوا ہے ۔ اسلامی کینڈر کا پہلا مہینہ محرم الحرام کا ہے ۔ ماہ سال ہر لحظہ و ساعت اللہ عزوجل کے بنائے ہوئے ہیں۔ اور قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر ان ماہ و سِنین کا ذکر آیا ہے لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِن ماہ و ایام اور لیل و نہارکو ایک دوسرے پر فضیلت و برتری بخشی ہے ۔ مقصد اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے امتی اللہ تبارک وتعالیٰ کے ان انعامات و احسانات اور فضائل و برکات کو اپنے دامن میں سمیٹ سکیں اور اس کی تاکید خود قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرما دی ہے فرمایا ’’اُن کو اللہ کے دنوں کی یاد دلاٶ‘‘ اب اللہ عزوجل جب دنوں کی یاد دلانے کی تاکید فرما رہے ہیں وہ دن ہیں کہ جن دنوں میں اللہ عزوجل نے اپنے بندوں پر اپنے انعامات و احسانات فرمائے ہیں۔ اب ان انعامات و احسانات کو یاد کرنے اور اُن پر خوش ہونے کے مختلف طریقے ہیں ۔

محرم کے لغوی عظمت والا ، لائق احترام ، حرام کردہ کے آتے ہیں ، اللہ تعالی کی تخلیق کردہ کائنات کے حسن کا راز یہ ہے کہ تمام اشیاء رنگ و بو کے اعتبار سے نفع و نقصان کے لحاظ سے صورت و شکل کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں ، جنس کے اتحاد کے باوجود اسی اختلاف میں ان کا جمال اور ان کی نافعیت اور جامعیت پہناںہے ، آفتاب میں جو تیزی اور حدت ہے وہ ماہتا ب میں نہیں پائی جاتی ، ستاروں میں جو جمال نظر آتا ہے دوسرے سیاروں میں وہ تابناکی نہیں ہیں اور مرتبہ و مقام کے لحاظ سے سے بھی تمام خطوں میں یکسانیت نہیں ہے ،جو مقام و مرتبہ مسجد کے حصے کو حاصل ہے عام جگہ اس سے محروم ہیں ، حرمین شریفین کو جو امتیازی حیثیت حاصل ہے وہ دوسرے علاقے کا مقدر نہیں ـ ٹھیک اسی طرح ربِ کائنات نے زمانوں اور لمحات میں بھی انفرادی شان رکھی ہے ، ایک کو دوسرے پر فوقیت عطا کی ہے اور مرتبے کے اعتبار سے اور برکتوں اور سعادتوں کی دولت کے لحاظ سے، کچھ ایام کو دوسرے ایام پر ، کچھ مہینوں کو دوسرے مہینوں پر فضیلت اور امتیازی مقام اور انفرادی شان حاصل ہے ،چنانچہ سال کے بارہ مہینوں میں چار مہینے ذو القعدہ ، ذو الحجہ محرم اور رجب اپنی ذات کے اعتبار سے دوسرے مہینوں پر فضیلت اور حیثیت رکھتے ہیں ، اللہ تعالی کی رحمت ان ایام میں جوش میں ہوتی ہے ، ان لمحات میں برکتوں کی بارش میں موسلادھار ہوجاتی ہے، توبہ کے دروازے کھل جاتے ہیں، مغفرت کی گھٹائیں ہرسو چھا جاتی ہیں ۔

مختلف ادیان و مِلل خوشیوں کا اظہار مختلف انداز سے کرتے ہیں مسلمانانِ عالم اپنے رب کے احسانات و انعامات کے حصول پر اس کے حضور سجدہ ریز ہو جاتے ہیں ۔ تلاوت قرآن مجید سے اپنے رب کو یاد کرتے ہیں ۔ تسبیح و تحمید اور تہلیل سے اپنی زبانوں کو تر کرتے ہیں ۔ اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتِ بابرکات پر درودوسلام کے نذرانے پیش کرتے ہیں اس کے اصحاب اور ان کی طیب و طاہر اھل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین کے تذکروں سے اپنی آنکھوں کو نم کرتے ہیں اسی حوالے سے یہ ماہ محرم الحرام بھی فضیلتوں بھرا مہینہ ہے ۔

سال میں بارہ مہینوں کا تقرر کسی انسان کی کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ جس دن سے اللہ تعالی نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اسی دن سے سال کے بارہ مہینہ مقرر فرمائے ۔ چنانچہ اللہ کریم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : ترجمہ : بےشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان و زمین بنائے ان میں سے چار حرمت والے ہیں یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے ہر وقت لڑو جیسا وہ تم سے ہر وقت لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے ۔(سورہ التوبہ آیت: 36)

قمری یعنی اسلامی سال کا آغاز محرم الحرام کہ مہینہ سے ہوتا ہے محرم کو محرم اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس ماہ میں جنگ و قتال حرام ہے ۔ یہ مہینہ چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے اس مہینہ کی عظمت زمانہ جاہلیت میں یوں تھی کہ لوگ اس مہینہ میں جنگ و جدال اور قتل و غارت گری سے اجتناب کرتے تھے اور اسلام نے اسے برقرار رکھا ۔ یہ مہینہ انتہائی فضیلت و عظمت اور عزت و برکت والا مہینہ ہے اس مہینہ کو تاریخِ عالم اور تاریخِ اسلام سے ایک خاص نسبت حاصل ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کے فرامینِ مبارکہ نے اس مہینہ کی عظمت میں مزید اضافہ کر دیا ہے ۔

اس ماہ مبارک میں روزوں کا بہت زیادہ ثواب ہے حدیث پاک میں آتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے ارشاد فرمایا : محرم الحرام کے ہر دن کا روزہ ایک ایک ماہ کے برابر ہے ۔ (معجم صغیر جزء 2 صفحہ:71،چشتی)

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم فرماتے ہیں : رمضان کے بعد محرم کا روزہ افضل ہے اور فر ض کے بعد افضل نماز رات کے نوافل ہیں ۔ (مسلم کتاب الصیام، باب فضل صوم المحرم حدیث نمبر 1163)

حضرتِ ابن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم مَدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے یہود کو عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے دیکھ کر پوچھا کہ تم اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو ؟ انہوں نے کہا : یہ ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالی نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اِسرائیل کو فرعون اور اس کی قوم پر غلبہ عطا فرمایا تھا لہٰذا ہم تعظیماً اس دن کا روزہ رکھتے ہیں ، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے فرمایا کہ ہم موسیٰ علیہ السلام سے تمہاری نسبت زیادہ قریب ہیں چنانچہ آپ نے بھی اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔(مسلم،کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء حدیث نمبر 1130،چشتی)

عاشوراء کے دن کے ساتھ بہت سی باتیں مخصوص ہیں ، ان میں سے چند یہ ہیں : ⬇

اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرتِ آدم علیہ السلام کی اجتہادی خطا سے درگزر کیا، اسی دن انہیں پیدا کیا گیا، اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا ۔

اسی دن عرش ، کرسی ، آسمان ، زمین ، سورج ، چاند ، ستارے اور جنت پیدا کیے گئے ۔

اسی دن حضرتِ ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے ، اسی دن انہیں آگ سے نجات ملی ۔

اسی دن حضرتِ موسیٰ علیہ السلام اور آپ کی امت کو نجات ملی اور فرعون اپنی قوم سمیت غرق ہوا ۔

اسی دن حضرتِ عیسٰی علیہ السلام پیدا کیے گئے ، اسی دن انہیں آسمانوں کی طرف اٹھایا گیا ۔

اسی دن حضرتِ اِدریس علیہ السلام کو مقامِ بلند کی طرف اٹھایا گیا ۔

اسی دن حضرتِ نوح علیہ السلام کی کشتی کوہِ جودی پر ٹھہری ۔

اسی دن حضرتِ سلیمان علیہ السلام کو مُلکِ عظیم عطا کیا گیا ۔

اسی دن حضرتِ یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے نکالے گئے ۔

اسی دن حضرتِ یعقوب علیہ السلام کی بینائی لوٹائی گئی ۔

اسی دن حضرتِ یوسف علیہ السلام گہرے کنوئیں سے نکالے گئے ۔

اسی دن حضرتِ ایوب علیہ السلام کی تکلیف رَفْع کی گئی ۔

آسمان سے زمین پر سب سے پہلی بارش اسی دن نازل ہوئی اور اسی دن کا روزہ امتوں میں مشہور تھا یہاں تک کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس دن کا روزہ ماہِ رَمضان سے پہلے فرض تھا پھر منسوخ کر دیا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے ہجرت سے پہلے اس دن کا روزہ رکھا ۔

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے اس دن کی جستجو کی تاکید کی تاآنکہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے آخر عمر شریف میں فرمایا کہ اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو آئندہ نویں اور دسویں کا روزہ رکھوں گا مگر آپ نے اسی سال وِصال فرمایا اور دسویں کے علاوہ روزہ نہ رکھا مگر آپ نے اس دن یعنی نویں اور دسویں اور گیارہویں محرم کے دنوں میں روزہ رکھنے کو پسند فرمایا ۔ (مکاشفۃ القلوب)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے عاشوراء کے دن خود روزہ رکھا اور اس کے رکھنے کا حکم بھی ارشاد فرمایا ۔ (بخاری ،کتاب الصوم ،باب صیام یوم عاشوراء حدیث : 2004،چشتی)

حضرت سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے فرمایا مجھےاللہ تعالی پر گمان ہے کہ عاشوراء (یعنی دسویں محرم) کا روزہ ایک سال پہلے کے گناہ مٹادیتا ہے ۔ (مسلم،کتاب الصیام، باب استحباب ثلاثۃ ایام من کل شھر و صوم یوم عرفۃ و عاشوراء والاثنین ،حدیث:1162)

احادیث مبارکہ میں بہت سارے ایسے اعمال بیان کیے گئے ہیں جن پر عمل کی برکت سے رزق میں برکت ہوتی ہے ہمیں چاہیے کہ ایسے اعمال کو اپنا کر رزق مین برکت کے حق دار بنیں چنانچہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے جس نے عاشوراء کے روز اپنے گھر میں رزق کی فراخی کی اللہ پاک اس پر سارا سال فراخی فرمائے گا ۔ (معجم اوسط ،ج :6 ،صفحہ:432)

اسلام کی آمد کے بعد بھی اس ماہ کی حرمت و عظمت کو اس کے سابقہ حالت میں برقرار رکھا گیا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام کے باقیات میں سے تھے جس کو لوگ اپناتے آ رہے تھے ، چنانچہ حدیث میں اس ماہ کو ’’ شھر اللہ‘‘ ( اللہ کا مہینہ) ۔ ( مسلم باب فضل صوم المحرم، حدیث :۲۸۱۳) قرار دیا گیا ہے ۔

امام نووی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : اس روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے ماہِ محرم کو اللہ عزوجل کا مہینہ قرار دیا ہے جو اس کی عظمت اور تقدس کو بتلانے کےلیے کافی ہے ؛ چونکہ اللہ عزوجل اپنی نسبت صرف اپنے خصوصی مخلوقات کے ساتھ ہی فرماتے ہیں ۔ (شرح النووی علی مسلم:۸؍۵۵،چشتی)

ماہِ محرم الحرام سے اسلامی سال نو کی ابتدا ہوتی ہے ، زمانے جاہلیت میں لوگ اپنے فوائد منافع کی خاطر مہینوں کو آگے پیچھے کیا کرتے تھے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے حج الوداع کے موقع سے یہ اعلان کر دیا کہ اللہ عزوجل نے جب سے آسمان و زمین کو پیدا فرمایا ہے اسی دن سے اس نے مہینوں کی ترتیب و تنظیم قائم کر دی ، چنانچہ آیت ہے : ’’ بے شک مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں جب سے اس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا‘‘ ۔ (سورہ التوبہ: ۳۶)

اسلامی تاریخ جس کو ہجری تاریخ کہا جاتا ہے ، روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اس کی بنیاد رکھی گئی اور یہ تاریخ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشورے سے طے پائی تھی ، چنانچہ علامہ ابن اثیر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ صحیح اور مشہور یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہجری تاریخ کی بنیاد رکھی ، اس کی وجہ یہ بنی کہ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ آپ کی طرف سے خطوط موصول ہوتے ہیں ؛ مگر اس پر تاریخ لکھی نہیں ہوتی ہے ، یہ پتا نہیں چلتا کہ یہ خط کب کا لکھا ہوا ہے ، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا ، بعض حضرات نے مشورہ دیا کہ نبوت کے سال سے تاریخ لکھی جائے ، بعض نے سال ہجرت کا اور بعض نے وفات کے سال کا مشورہ دیا ؛مگر اکثر کی رائے یہ تھی ہجرت سے ہی اسلامی تاریخ کی ابتداء ہو ، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی پر فیصلہ دیا ۔ (الکامل فی التاریخ : ۱؍۹، دارالکتاب العربی،چشتی)

کیوں کہ ہجرت نے ہی حق اور باطل کے درمیان حدِ فاصل کا کام کیا ، بعض روایتوں میں ہے کہ پھر ان لوگوں نے کہا کہ کس مہینے سے ابتدا ہو تو بعض نے کہا : رمضان سے ، بعض نے محرم سے ؛ کیونکہ لوگ اس مہینے میں حج سے واپس ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ یہ محترم اور معزز مہینہ ہیے ۔ (الکامل فی التاریخ: ۱؍۱۰)

اس کے علاوہ ماہِ محرم سے سال کی ابتدا کی وجہ یہ بھی بتائی گئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے ہجرت کا جو عزم و ارادہ فرمایا تھا وہ محرم میں ہی فرمایا تھا ، البتہ ہجرت عملی طور پر ماہ ربیع الاول میں ہوئی ۔ ( فتح الباری: ۷؍۲۶)

بڑا افسوس ہوتا ہے کہ قمری ماہ و سال اور تاریخ جس پر ہماری ساری عبادتیں اور ہماری عیدیں اور خصوصی فضیلت کے حامل ایام موقوف ہیں مثلاً رمضان ، عید ، حج کے ایام ، محرم ، شب برات کے روزے ، عشرہ ذی الحجہ کے اعمال یہ سارے کے سارے امور قمری تاریخ سے متعلق ہیں ، آج ہم نے قمری تاریخ کو بالکل فراموش کر دیا ہے ، شمسی تاریخ سے اپنے امور میں مدد ضرور لیجیے ، لیکن قمری تاریخ سے بے اعتنائی یہ ہماری غیرت قومی اور حمیت ایمانی اور ملی دیوالیہ پن ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے فرمایا : سب سے زیادہ فضیلت والے روزے رمضان کے روزوں کے بعد اللہ کے مہینہ محرم الحرام کے روزے ہیں ۔ ( مسلم شریف ، باب فضل صوم المحرم، حدیث۲۸۱۳)

نعمان بن سعد ، علی رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم رمضان کے علاوہ کون سے مہینے کے روزے رکھنے کا حکم فرماتے ہیں ، حضرت علی نے فرمایا : میں نے صرف ایک آدمی کے علاوہ کسی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم سے سوال کرتے ہوئے نہیں سنا ، میں اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کی خدمت میں حاضر تھا ، اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ مجھے رمضان کے علاوہ کون سے مہینے میں روزے رکھنے کا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا : اگر رمضان کے بعد روزہ رکھنا چاہے تو محرم کے روزے رکھا کرو ؛ کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالی نے ایک قوم کی توبہ قبول کی تھی اور اس دن دوسری قوم کی بھی توبہ قبول کرے گا ۔ (ترمذی: صوم المحرم ، حدیث:۷۴۱،چشتی)

اس حدیث میں مکمل مہینہ کے روزوں کے استحباب کو بتلانا ہے ۔ اس لیے اس مہینہ میں روزہ رکھنے کا اہتمام کیا جائے ۔ (مرعاۃ المفاتیح، ۷؍۴۳،الجامعۃ السلفیۃ بنارس)

ماہِ محرم کی دسویں تاریخ کو ’’عاشورہ ‘‘ کہتے ہیں ، ’’عاشورہ‘‘ یہ عشر سے ماخوذ ہے ، اس سے مراد محرم الحرام کی دسویں تاریخ ہے ۔ بطور مبالغہ کے’’ عاشورہ ’’ فاعولا‘‘ کے وزن پر استعمال کیا گیا ۔ اس کے علاوہ یوم عاشورہ سے انبیاء علیہم السلام کی خصوصی وابستگی اور ان کی حیات سے متعلق اہم واقعات کا اس روز میں پیش آنا ، یوم عاشورہ کی فضیلت کی بین دلیل ہے ۔ چنانچہ صاحب عمدۃ القاری یوم عاشورہ سے متعلق وقائع کا تذکرہ کرشتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : عاشورہ کے دن حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی ، اسی دن وہ جنت میں داخل کیے گئے ۔ اور اسی دن ان کی توبہ قبول ہوئی ، اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی بھی جبل جودی پر آٹھہری ، اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے ، اسی دن نمرود کی دہکتی ہوئی آگ میں ڈالے گئے ، اسی دن حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات ملی اور فرعون اپنے لشکر کے ساتھ دریائے نیل میں غرق ہوگیا ۔ حضرت ایوب علیہ السلام کو ان کی بیماری سے شفاء نصیب ہوئی ، حضرت ادریس علیہ السلام کو اسی دن آسمانوں کی جانب اٹھالیا گیا ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملک کی عظیم بادشاہت نصیب ہوئی ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی لوٹ آئی ، اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کنویں سے نکالے گئے ، حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ نکالا گیا ، حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت اسی دن ہوئی اور اسی دن آسمانوں کے جانب اٹھا لئے گئے ۔ (عمدۃ القاری شرح البخاری، باب صیام یوم عاشوراء :۷؍۸۹،چشتی)

بے شمار فضائل یوم عاشورہ سے متعلق ہیں ، جس سے یوم عاشورہ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔

عاشورہ کے روزے بے انتہا فضیلت کے حامل ہیں ، چنانچہ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے فرمایا : یوم عاشورہ کے روزے کے تعلق سے امید کرتا ہوں کہ وہ پچھلی سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائیں گے ۔ (ترمذی: الحث علی صوم یوم عاشوراء، حدیث:۷۵۲)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے نہیں دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کسی دن روزہ کا ارادہ کرتے ہوں اور اس دن کو کسی دوسرے دن پر فضیلت دیتے ہوں ۔ مگر اس دن یعنی یومِ عاشوراء کو اور اس مہینہ یعنی ماہ رمضان کو دوسرے دن اور دوسرے مہینہ پر فضیلت دیتے تھے ۔ (بخاری: باب صیام یوم عاشوراء حدیث نمبر ۱۹۰۲،چشتی)

بنی اسرائیل فرعون اور اس کے ظلم و ستم سے نجات کی خوشی میں یوم عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے ، حضرت موسی علیہ السلام کے دور سے ان کا یہ معمول تھا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو اس دن روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو اس روزہ کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے بتلایا کہ ہم موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے فرعون سے نجات کے شکرانے میں یہ روزہ رکھتے ہیں ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے فرمایا : ہم موسی علیہ السلام کی موافقت کرنے کے زیادہ حق دار ہیں ۔ (مسلم : باب صوم یوم عاشوراء، حدیث: ۲۷۱۲)

لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے یہودیوں کے ساتھ مشابہت نہ رہے اس کےلیے فرمایا کہ دسویں محرم الحرام کے روزہ کے ساتھ نویں یا گیارہویں کا روزہ بھی ملالیا جائے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے عاشورا کے دن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم یہ تو وہ دن ہے جو یہود و نصاری کے ہاں بڑا باعظمت ہے اور چونکہ یہود و نصاری کی مخالفت ہمارا شیوہ ہے ؛ لہٰذا ہم روزہ رکھ کر اس دن کی عظمت کرنے میں یہود و نصاری کی موافقت کیسے کریں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے فرمایا اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نویں تاریخ کو ضرور روزہ رکھوں گا ۔ (مسلم: باب أی یوم یصام ، حدیث:۱۱۳۴)

اسی مشابہت سے بچنے کےلیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : نویں اور دسویں کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو  (ترمذی: عاشوراء أی یوم ھو،حدیث:۷۵۵،چشتی)

مسند البزار میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے عاشوراء کے روزے کے تعلق سے فرمایا : یہ روزے رکھو ، یہودیوں کی مخالفت کرو اور اس سے ایک دن پہلے یا اس کے ایک دن بعد بھی روزہ رکھو ۔ (مسند بزار، مسند ابن عباس، حدیث:۵۲۳۸)

محقق علامہ ابن ہمام علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ عاشورے کے دن روزہ رکھنا مستحب ہے ؛ مگر اس کے ساتھ ہی عاشورہ سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد میں بھی روزہ رکھنا مستحب ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف عاشورا کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہے ؛ کیونکہ اس سے یہود کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے ۔ (مرقاۃ المفاتیح:باب صیام التطوع:۴؍۱۴۱۲،چشتی)

رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے عاشورہ کا فرض تھا ؛ لیکن رمضان کی روزوں کی فرضیت نازل ہونے کے بعد محرم کے روزہ کو مستحب قرار دیا گیا اور اس کی فرضیت منسوخ ہوگئی ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں قریش زمانہ جاہلیت میں عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم بھی روزہ رکھتے تھے جب مدینہ منورہ آئے تو وہاں خود اس کا روزہ رکھا ۔ اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے ، تو عاشورہ کے دن روزہ رکھنا چھوڑ دیا ۔ جس کی خواہش ہوتی اس دن روزہ رکھتا اور جس کی خواہش نہ ہوتی اس دن روزہ نہ رکھتا ۔ (بخاری: سورۃ البقرۃ: حدیث:۴۲۳۴،چشتی)

ان احادیث کی روشنی میں عاشورہ کے روزہ کی فضیلت اور اس کا مستحب ہونا اور رمضان کے روزوں کے بعد اس کی فرضیت کا منسوخ ہونا معلوم ہوا ؛ لہٰذا اب دسویں محرم کا روزہ نویں یا گیارہوں کو ملاکر رکھنا مستحب ہے ۔ محرم الحرام عظمت و برکت والا مہینہ ہےاور اس مہینہ میں روزوں کی فضیلت ہے بالخصوص عاشورہ کے روزہ کی ۔ 

ماہِ محرّم الحرام یا کسی بھی مہینے میں نکاح کرنا

محترم قارٸینِ کرام : آج کل رافضیوں اور بعض ان کے ہمنوا لوگوں نے اس مسلہ کو لے کر اہلِ اسلام کو ایموشنل بلیک میل کرتے ہوئے مسلمانانِ اہلسنّت کے خلاف ہفوات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے گذشتہ سال فقیر نے اس موضوع پر تفصیل سے لکھا تھا اب اس میں مزید کچھ اضافہ جات پیشِ خدمت ہیں اہلِ علم کہیں غلط پائیں تو فقیر کو ضرور آگاہ فرمائیں تاکہ درستگی کی جا سکے جزاکم اللہ خیرا آمین ۔

یہ ایک شرعی مسلہ ہے شرعی مسلے کو شرعیت کی روشنی میں دیکھیں اسے کسی تعصب کی نظر نہ کریں باقی احترام دس محرم الحرام مدِّ نظر رہے کیونکہ اس دن اہلبیت اطہار اور سیّدنا امام حسین علیہم السّلام اور آپ کے رفقاء رضی اللہ عنہم کی عظیم شہادتیں ہوئی ہیں ۔ جس چیز کے بارے میں کوئی مخصوص حکم نہ ہو تو وہ کام اصل کے اعتبار سے مباح ہوتا ہے ، اور علمائے کرام کے مابین یہ متفق علیہ قاعدہ ہے کہ عادات میں جب تک حرمت کی دلیل نہیں ملتی تو اصل جواز ہی ہے ، چنانچہ کتاب وسنت ، اجماع ، یا قیاس ، اور آثار وغیرہ میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی جو ماہِ محرم میں نکاح وغیرہ سے مانع ہو ، اس لئے اباحتِ اصلیہ کی بنا پر ماہِ محرم یا کسی بھی ماہ میں نکاح جائز ہے ۔

اس بارے میں علمائے کرام کا کم از کم اجماعِ سکوتی ہے ، کہ ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین ، ائمہ کرام علیہم الرّحمہ اور ان کے علاوہ دیگر متقدمین یا متاخرین میں سے کوئی بھی ایسا عالم نہیں ملا جو اس ماہ میں شادی ، بیاہ ، اور منگنی کو حرام یا کم از کم مکروہ ہی سمجھتا ہو ۔

لہٰذا اگر کوئی منع کرتا ہے تو اسکی تردید کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ اسکے پاس کوئی دلیل نہیں ہے ، اور علمائے کرام میں سے کوئی بھی اس کے موقف کا قائل نہیں ہے ہاں احترام دس محرم الحرام مد نظر رہنا چاہیئے ۔

امیر الموٴمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا سے شادی اسی ماہِ مبارک میں ہوئی ، اگرچہ اس قول کے علاوہ دیگر اقوال بھی ملتے ہیں ۔ (تاریخ مدینة الدمشق لابن عساکر، باب ذکر بنیہ وبناتہ علیہ الصلاة والسلام وأزواجہ: ۳/۱۲۸، دار الفکر۔ تاریخ الرسل والملوک للطبري، ذکر ما کان من الأمور في السنة الثانیة، غزوة ذات العشیرة، ۲/۴۱۰، دار المعارف بمصر،چشتی)

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اور حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کا نکاح سنہ ۲/ ہجری میں ہوا؛ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ مہینہ کون سا تھا، توا س میں تین طرح کے اقوال ملتے ہیں، محرم الحرام، صفر المطفر اور ذوالحجہ۔ ابن عساکر اور طبری رحمہما اللہ نے محرم الحرام کے مہینے میں نکاح ہونے کی روایت کو ترجیح دی ہے ۔

ماہِ محرم کو ماتم اور سوگ کا مہینہ قرار دینا جائز نہیں ، حدیث میں ہے کہ عورتوں کو ان کے خویش واقارب کی وفات پر تین دن ماتم اور سوگ کرنے کی اجازت ہے اور اپنے شوہر کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ منانا ضروری ہے ، دوسرا کسی کی وفات پر تین دن سے زائد سوگ منانا جائز نہیں ، حرام ہے، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : لا یحل لامرأة توٴمن باللہ والیوم الآخر إن تحد علی میت فوق ثلٰث لیال إلا علٰی زوج أربعة أشھر وعشراً
ترجمہ : جو عورت خدا اور قیامت کے دن پر ایمان رکھے، اس کے لیے جائز نہیں کہ کسی کی موت پر تین رات سے زیادہ سوگ کرے؛ مگر شوہر اس سے مستثنیٰ ہے کہ اس کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ کرے“۔ (بخاري، باب: تحد المتوفی عنھا أربعة أشھر وعشراً إلخ، ص: ۸۰۳، ج:۲، پ:۲۲)، ( صحیح مسلم، باب: وجوب الإحداد في عدة الوفات، إلخ، ص: ۴۹۶، ج:۱)، (مشکوٰة، باب العدة، الفصل الأول، ص: ۲۸۸)

ماہ محرم الحرام میں شادی وغیرہ کرنے کو نامبارک اور ناجائز سمجھنا سخت گناہ اور اہل سنت و جماعت کے عقیدے کے خلاف ہے ، اسلام میں جن چیزوں کو حلال اور جائز قرار دیا گیا ہو ، اعتقاداً یا عملاً ان کو ناجائز اور حرام سمجھنے میں ایمان کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے ، مسلمانوں کو چاہیئے کہ روافض اور شیعہ سے پوری احتیاط برتیں ، ان کی رسومات سے علیحدہ رہیں ، ان میں شرکت حرام ہے ۔

قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : مسلم ر اتشبہ بہ کفار وفساق حرام است۔“ یعنی: مسلمانوں کو کفار وفساق کی مشابہت اختیار کرنی حرام ہے ۔ (مالا بد منہ صفحہ نمبر 131،چشتی)

فتویٰ منہاج القرآن محرم الحرام میں نکاحِ مسنون کرنا یا کسی بھی دن کرنا منع نہیں مگر محرم میں دھوم دھام سے شادی کرنا سمجھ سے بالا تر ہے ۔ (منہاج الفتاویٰ جلد اوّل صفحہ نمبر 480)

امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ سے ایک سوال ہوا سوال اور جواب پڑھیئے :

فتاویٰ رضویہ میں یہ مسئلہ مجھے دو مقام پر ملا ہے آپ بھی ملاحظہ فرمائیں
مسئلہ ۹۰ تا ۹۱ : ماہ محرم الحرام وصفر المظفر میں نکاح کرنا منع ہے یا نہیں ؟
الجواب : نکاح کسی مہینے میں منع نہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جلدنمبر 11صفحہ نمبر 265)
مسئلہ ۱۷۵ تا ۱۷۸:
۱۱محرالحرام ۱۳۳۹ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسائل ذیل میں :
(۱) بعض (لوگ) عشرہ ۱۰محرم الحرام کونہ تو دن بھر روٹی پکاتے ہیں اور نہ جھاڑو دیتے ہیں کہتے ہیں کہ بعد دفن تعزیہ روٹی پکائی جائے گی
(۲) ان دس دن میں کپڑے نہیں اُتارتے ہیں۔
(۳) ماہ محرم میں بیاہ شادی نہیں کرتے ہیں۔
(۴) ان ایّام میں سوائے امام حسن وامام حسین رضی ﷲ تعالٰی عنہ کے کسی کی نیاز فاتحہ نہیں دلاتے ہیں،آیا یہ جائز ہے یا نہیں ؟
الجواب : پہلی تینوں باتیں سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے ،اور چوتھی بات جہالت ہے ہر مہینہ ہر تاریخ میں ہر ولی کی نیاز اور ہر مسلمان کی فاتحہ ہوسکتی ہے . (فتاویٰ رضویہ جلد 24صفحہ488،چشتی)

سوال : (1) بعض سنی جماعت عشرہ محرم میں نہ تو دن بھر میں روٹی پکاتے ہیں اور نہ جھاڑو دیتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ بعد دفن تعزیہ روٹی پکائی جائے گی ۔ (2) ان دس دن میں کپڑے نہیں اتارتے ۔ (3) ماہِ محرم میں کوئی بیاہ شادی نہیں کرتے ، اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب : تینوں باتیں سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے ۔ ۔ (احکام شریعت، صفحہ نمبر 90 جلد نمبر 1)

مفتی اہلسنّت فقیہ ملّت مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ ماہِ محرّم میں شادی بیاہ کرنا کیسا ہے ؟ ۔ تو آپ نے جواب دیا جائز ہے شرعاََ کوئی ممانعت نہیں ہے ۔ (فتاویٰ فیض الرّسُول جلد اوّل صفحہ 562،چشتی)

اعتراض : نیم رافضی کہتا ہے کہ گھر میں بیٹے کی لاش پڑی ہو تو کوٸی شادی کرے گا ؟
جواب : اس کا الزامی جواب یہ ہے کہ ربیع الاول کے مہینے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا کاوصال ہوا تو تم خوشی کیوں مناتے ہو ؟ ماھوجوابکم فھو جوابنا ۔
دوسرے نمبر پر عرض ہے کہ چودہ سو سال بعد کونسی لاش گھر میں پڑی ہے ؟
ہاں اگر شیعوں کی طرح لاشوں کے مصنوعی پتلے بنا کر آپ نے گھر میں رکھ لیٸے ہوں تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ چاہے تم اس پر ماتم بھی کر لیا کرو ۔
تیسری بات یہ کہ علمائے اہلسنّت ترغیب نہیں دلاتے بلکہ حکمِ شرعی بیان فرماتے ہیں ۔

اعتراض : طبیعت نہیں مانتی کہ محرم الحرام میں شادی کی جاٸے ۔
جواب : طبیعت کو شریعت کے تابع کرو ، شریعت کو طبیعت کے تابع نہ کرو ۔ اگر یونہی عوام میں طبیعت طبیعت کی رٹ لگاٸی رکھی تو کل کو لوگ آپ سے اس طرح سوال کیا کریں گے ۔ اس مسٸلے پر حکمِ طبیعت بیان کر کے اجر کماٸیں ۔ طبیعت کے نہ ماننے پر حکمِ شرعی بدل نہیں جاتا ۔ دیکھو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ کھانے کی چیز میں مکھی گر جاٸے تو اسکو غوطہ دے کر نکال دو اور کھانا کھا لو (مفہوم حدیث) ، اب اگر کسی کی طبیعت نہیں مانتی تو کیا حکمِ شرع بدل دیا جاٸے گا ؟
طبیعت نہیں نہیں مانتی تو نہ کھاٸے لیکن اعتقادِ حلت تورکھے ۔

اعتراض : تم کہتے ہو کہ شریعت میں تین دن سے زیادہ سوگ منانا جاٸز نہیں حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت خدیجہ اور ابوطالب کی وفات کے پورے سال کا نام ہی عامُ الحزن رکھ دیا ۔

جواب : جناب نے اعتراض تو جڑ دیا مگر یہ نہیں سوچا کہ خود ہی پھنس جائیں گے ۔ جنابِ من آپ لوگوں کے قاعدے کے مطابق اگر محرم الحرام میں اس لیے نکاح جاٸز نہیں کہ اس مہینے نواسٸہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شہادت ہوٸی ۔ پھر تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت خدیجہ اور ابو طالب کی وفات والے سال کو عامُ الحزن (غم کا سال) کہا تو اس طرح 12 مہینوں میں ہی نکاح نہیں کرنا چاہیٸے ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بارہ مہینوں کو ہی غم قرار دے دیا ۔ بر سبیل تسلیم اگر ہم مان بھی لیں کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس سال کو عام الحزن قرار دیا جس میں ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابوطالب کی وفات ہوئی ، تو اس قاعدے کے مطابق پھر شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کی وجہ سے اسی سال کو عام الحزن کہا جاۓ گا جس سال میں ان کی شہادت ہوئی نہ کہ آج 1400 سال بعد پورے سال کو عام الحزن قرار دے دیا جاۓ ، دوسرے نمبر پر یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے میت پر مرد کو تین دن کا سوگ منانے کو کہا ہے ۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس پورے سال کو غم کا سال قرار دے دیا تو یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تخصیص ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جو چاہیں کریں ۔ کل کو کوٸی اٹھ کر یہ کہہ دے گا کہ دیکھو شریعت نے چار شادیوں کی رخصت دی ہے مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت فاطمة الزھرہ علی ابیھا وعلیھا السلام کی موجودگی میں مولا علی رضی اللہ عنہ پر دوسرا نکاح حرام کر دیا ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جس کے لٸے چاہیں شرع کے حکم کی تخصیص کر دیں ۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس سال کو غم کا سال کہہ کر اسی سال کی غم سے تخصیص کر دی ۔(چشتی)

حضرت سیّدُنا امام حسین رضی اللہ عنہ نہ صرف شہید بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابی اور نواسے بھی ہیں ان کے درجات کا بلند ہونا یقینی ہے ان کی شہادت جدائی کے احساس کی وجہ سے عارضی صدمے کا سبب ضرور بنی مگر ان سے محبت اور عقیدت رکھنے والوں کےلیے یہ بات قطعاً مناسب نہیں کہ وہ ان کی شہادت کی یاد میں ہر سال سوگ منائیں یہ سوگ صرف اور صرف وہی لوگ ہی منا سکتے ہیں جن کو اہل بیت رضی اللہ عنہم سے حسد کی وجہ سے یہ تکلیف ہے کہ حضرت امام حسین اور ان کے رفقائے کرام رضی اللہ عنہم کو شہادت کا بلند رتبہ کیوں ملا ؟ جس کا اندازہ سینہ کوبی کرنے والے اور ماتمی قوم کےالفاظ سے لگایا جا سکتا ہے ۔
اگر محرم الحرام میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے غم کی وجہ سے نکاح کرنا جائز نہیں تو پھر صرف اس مہینے نہیں بلکہ پورے سال میں کسی دن بھی نکاح کی گنجائش نہیں ہے ۔ کیونکہ پورے سال میں ایک دن بھی ایسا نہ ہوگا جس میں کسی نہ کسی نبی علیہ السلام ، کسی نہ کسی صحابی رضی اللہ عنہ یا کسی نہ کسی ولی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات یا شہادت نہ ہوئی ہو ۔

محرم الحرام میں صرف حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت نہیں بلکہ اس مہینے میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بہنوئی ، حضرت علی و حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما کے داماد ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سسر اور مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت بھی ہوئی ہے ۔ پھر یہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی شہادت کی وجہ سے اس میں نکاح کرنا کیوں معیوب نہیں قرار پایا بلکہ صرف حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی وجہ سے کیوں معیوب ہے ؟

ماہ صفر میں حضرت عاصم بن ثابت اور ان کے سات ساتھیوں رضی اللہ عنہم کی شہادت کا واقعہ پیش آیا ۔

ماہ ربیع الاول میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وصال مبارک ہوا اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے برادر اکبر حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی جدائی کا دلخراش سانحہ پیش آیا ۔

ماہ ربیع الثانی میں ام المومنین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی ۔

ماہ جمادی الاول میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نواسے حضرت عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہما کی وفات ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے منہ بولے بیٹے حضرت زیدبن حارث رضی اللہ عنہ اورحضرت امامحسین رضی اللہ عنہ کے چچا حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی ۔

ماہ جمادی الثانی میں اہل اسلام کے خلیفہ بلا فصل خلیفہ راشد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پھوپھی زاد اور رضاعی بھائی حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی ۔

ماہ رجب المرجب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نواسی اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی حقیقی بہن زینب بنت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہما ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہما اور برادر نسبتی کاتب وحی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی ۔

ماہ شعبان المعظم میں ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا ، دختر رسول حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی ۔

ماہ رمضان المبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دو ازواج مطہرات سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سب سے چھوٹی صاحبزادی حسنین کریمین کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہم کی وفات اور خلیفہ چہارم حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی ۔

ماہ شوال المکرم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دانت مبارک ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچا حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ ، آپ کے برادر نسبتی حضرت عبداللہ بن جحش ، آپ کے ہم زلف حضرت مصعب بن عمیر سمیت 70 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے ۔

ماہ ذو القعدہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجہ مبارکہ ام المومنین حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا کی وفات اور حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی ۔

ماہ ذوالحجہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دو بیٹیوں کی نسبت سے داماد اہل اسلام کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت ، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بھتیجے حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی ۔

مندرجہ بالا تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر باقی مہینوں میں صحابہ کرام ، اہل بیت عظام ، امہات المومنین ، خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قریبی رشتہ داروں اور خاندان والوں میں سے کسی کا ایسا سوگ نہیں منایا جاتا کہ اس مہینے میں نکاح وغیرہ نہ کیا جائے تو پھر کیا وجہ ہے صرف حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت والے مبارک مہینے میں ایک مسنون عمل کو معیوب سمجھا جائے ؟؟

محترم قارئینِ کرام : فقیر دستہ بستہ عرض کرتا ہے عشرہ محرّم الحرام کا تمام مسلمانانِ اہلسنّت احترام کرتے ہیں کوئی بھی مسلمان اوّل عشرہ محرّم میں نکاح و شادی بیاہ نہیں کرتا یہ صرف احترامِ شہداء کربلا رضی اللہ عنہم میں کیا جاتا ہے مگر شرعی طور پر جب بھی آپ کسی عالم سے یہ پوچھیں گے کہ ماہِ محرّم میں شادی بیاہ یا نکاح کر سکتے ہیں یا نہیں تو ہر صاحب علم عالم دین از روئے شرع یہی جواب دے گا کہ جائز ہے کوئی ممانعت شرعا نہیں ہے ۔ مگر حیرت کی بات ہے کچھ لوگ جس فعل کو اللہ رب العزت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم نے ناجائز و حرام نہیں کیا اُس پر فتوے بازی اور گالم گلوچ کر رہے ہیں ۔ خدا را شریعتِ مطہرہ کے ساتھ کھلوار مت کیجیے ہاں اگر کسی صاحب کے پاس نیا دین آگیا ہے یا نئی شریعت آگئی ہے تو اس کی روشنی میں حوالہ کے ساتھ ثابت کرے کہ ماہِ محرّم الحرام میں نکاح ، شادی بیاہ حرام ہے یاد رکھیے کسی بھی کام کو حرام ثابت کرنے کےلیے نصِ قطعی کی ضرورت ہوتی ہے ۔

آخری گزارش عشرہ محرّم الحرام کا احترام اور شہداء کربلا رضی اللہ عنہم کا غم و احترام ہر مسلمان کے دل میں ہے مگر جب بات شرعی مسلے کی ہو تو اس وقت شرعی دلائل کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے نہ کی گالم گلوچ اور ضد بازی کو بسا اوقات ضد کی وجہ سے انسان اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے توہین شریعت کر کے اس لیے پھر عرض ہے خدا را شرعی مسائل پر بغیر علم و دلیل کے اپنی رائے نہ دیا کریں اور بحث سے گریز کریں اللہ تعالیٰ ہم سب کو احترامِ شریعت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...