واقعہ کربلا کے بعد اور امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام
محترم قارئینِ کرام : حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا وجود مبارک یزید کی بے قیدیوں کےلیے ایک زبردست محتسب تھا ، وہ جانتا تھا کہ آپ کے زمانۂ مبارک میں اس کو بے مُہاری کا موقع میسر نہ آوے گا اور اس کی کسی کَجْ رَوی اور گمراہی پر حضرت امام رضی اللہ عنہ صبر نہ فرمائیں گے ، اس کو نظر آتاتھا کہ امام رضی اللہ عنہ جیسے دیندار کا تازیانۂ تعزیر ہروقت اس کے سر پر گھوم رہا ہے اسی وجہ سے وہ اور بھی زیادہ حضرت امام رضی اللہ عنہ کی جان کا دشمن تھا اور اسی لیے حضرت اما م رضی اللہ عنہ کی شہادت اس کےلیے باعث مسرت ہوئی ۔ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سایہ اٹھنا تھا ، یزید ُکھل کھیلا اور انواع و اقسام کے معاصی کی گرم بازاری ہو گئی ۔ زنا ، لواطت ، حرام کاری ، بھائی بہن کا بیاہ ، سود ، شراب، دھڑلّے سے رائج ہوئے ، نمازوں کی پابندی اٹھ گئی ، تَمَرُّد و سرکَشی انتہا کو پہنچی ، شَیْطَنَت نے یہاں تک زور کیاکہ مسلم ابن عقبہ کو بارہ ہزار یا بیس ہزار کا لشکرگراں لے کرمدینہ طیبہ کی چڑھائی کےلیے بھیجا ۔ یہ ۶۳ھ کا واقعہ ہے ۔ اس نامراد لشکر نے مدینۂ طیبہ میں وہ طوفان برپا کیا کہ العظمۃ للہ ، قتل ، غارت اور طرح طرح کے مظالم ہمسائیگانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرکیے۔ وہاں کے ساکنین کے گھرلوٹ لیے ، سات سو صحابہ علیہم الرضوان کو شہید کیا اور دوسرے عام باشندے ملا کر دس ہزار سے زیادہ کو شہید کیا ، لڑکوں کو قید کر لیا ، ایسی ایسی بد تمیزیاں کیں جن کا ذکر کرنا ناگوار ہے ۔ مسجدِ نبوی شریف کے ستونوں میں گھوڑے باندھے ، تین دن تک مسجد شریف میں لوگ نماز سے مشرف نہ ہو سکے ۔ صرف حضرت سعید ابن مسیب رضی اللہ عنہ مجنوں بن کر وہاں حاضر رہے ۔ حضرت عبداللہ ابن حنظلہ ابنِ غَسِیْل رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ یزیدیوں کے ناشائستہ حرکات اس حد پرپہنچے ہیں کہ ہمیں اندیشہ ہونے لگا کہ ان کی بدکاریوں کی وجہ سے کہیں آسمان سے پتھر نہ برسیں۔ پھریہ لشکر ِشرارت اثر مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوا ، راستہ میں امیرِ لشکر مر گیا اور دوسرا شخص اس کا قائم مقام کیا گیا ۔ مکہ معظمہ پہنچ کر ان بے دینوں نے مِنْجَنِیْق سے سنگ باری کی (منجنیق پتھر پھینکے کا آلہ ہوتا ہے جس سے پتھر پھینک کر مارا جاتا ہے اس کی زد بڑی زبردست اور دور کی مار ہوتی ہے) اس سنگ باری سے حرم شریف کاصحن مبارک پتھروں سے بھر گیا اور مسجدِ حرام کے ستون ٹوٹ پڑے اور کعبہ مقدسہ کے غلاف شریف اور چھت کو ان بے دینوں نے جلا دیا ۔ اسی چھت میں اُس دنبہ کے سینگ بھی تبرک کے طور پر محفوظ تھے جو سیدنا حضرت اسماعیل علی نبینا و علیہ الصلوٰۃوالسلام کے فدیہ میں قربانی کیا گیا تھا وہ بھی جل گئے کعبہ مقدسہ کئی روز تک بے لباس رہا اور وہاں کے باشندے سخت مصیبت میں مبتلا رہے ۔ (البدایۃ والنہایۃ ، سنۃ ثلاث وستین ، سنۃ اربع وستین ، ترجمۃ یزید بن معاویۃ ، ج۵، ص۷۲۹۔۷۵۰،چشتی)(تاریخ الخلفاء، یزید بن معاویۃ ابوخالد الاموی، ص۱۶۶۔۱۶۵)
آخرکار یزید پلید کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک فرمایا اور وہ بدنصیب تین برس سات مہینے تختِ حکومت پر شَیْطَنَت کرکے ۱۵ربیع الاول ۶۴ھ کو جس روز اس پلید کے حکم سے کعبۂ معظمہ کی بے حر متی ہوئی تھی ، شہر حمص ملک شام میں انتالیس برس کی عمر میں ہلاک ہوا۔ ہنوز قتال جاری تھا کہ یزید ناپاک کی ہلاکت کی خبر پہنچی، حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ندافرمائی کہ اہل شام! تمہارا طاغوت ہلاک ہوگیا۔ یہ سن کر وہ لوگ ذلیل و خوار ہوئے اور لوگ ان پرٹوٹ پڑے اور وہ گر وہِ ناحق پژوہ خائب وخاسر ہوا۔ اہل مکہ کو ان کے شر سے نجات ملی۔ اہل حجاز،یمن وعراق وخراسان نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دست مبارک پر بیعت کی اورا ہل مصر و شام نے معاویہ بن یزید کے ہاتھ پر ربیع الاول ۶۴ھ میں۔ یہ معاویہ اگرچہ یزید پلید کی اولاد سے تھا مگر آدمی نیک اور صالح تھا، باپ کے ناپاک افعال کو براجانتا تھا، عِنان حکومت ہاتھ میں لیتے وقت سے تادم مرگ بیمار ہی رہا اور کسی کام کی طرف نظر نہ ڈالی اور چالیس دن یا دوتین ماہ کی حکومت کے بعد اکیس سال کی عمر میں مرگیا۔ آخر وقت میں اس سے کہا گیا کہ کسی کو خلیفہ کرے اس کا جواب اس نے یہ دیا کہ میں نے خلافت میں کوئی حلاوت نہیں پائی تو میں اس تلخی میں کسی دوسرے کو کیوں مبتلا کروں۔(تاریخ الطبری، سنۃ اربع وستین، ذکر خبر وفاۃ یزید بن معاویۃ، خلافۃ معاویۃ بن یزید، ج۴، ص۸۷۔۹ ۔ وتاریخ الخلفاء، یزید بن معاویۃ ابوخالد الاموی، ص۱۶۷۔۱۶۸)
معاویہ بن یزید کے انتقال کے بعد اہل مصر و شام نے بھی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کی پھر مروان بن حکم نے خروج کیا اور اس کو شام و مصر پر قبضہ حاصل ہوا۔ ۶۵ھ میں اس کا انتقال ہوا اور اس کی جگہ اس کا بیٹا عبدالملک اس کا قائم مقام ہوا۔ عبد الملک کے عہد میں مختار بن عبید ثقفی نے عمر بن سعد کو بلایا، ابن سعد کا بیٹا حفص حاضر ہوا۔ مختار نے دریافت کیا: تیراباپ کہاں ہے ؟ کہنے لگا کہ وہ خلوت نشین ہوگیا ہے ،گھر سے باہر نہیں نکلتا۔ اس پر مختار نے کہاکہ اب وہ رے کی حکومت کہاں ہے جس کی چاہت میں فرزند ِرسول رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بے وفائی کی تھی، اب کیوں اس سے دست بردار ہوکر گھرمیں بیٹھا ہے۔ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہکے شہادت کے روز کیوں خانہ نشین نہ ہوا۔ اس کے بعد مختار نے ابن سعد اور اس کے بیٹے اور شمرناپاک کی گردن مارنے کا حکم دیا اور ان سب کے سر کٹواکر حضرت محمد بن حنفیہ برادر حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیج دئیے اور شمر کی لاش کو گھوڑوں کے سُمُوں سے روند وادیا جس سے اس کے سینہ اور پسلی کی ہڈیاں چکنا چور ہوگئیں۔ شمر حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہکے قاتلوں میں سے ہے اور ابن سعد اس لشکر کاقافلہ سالاروکماندارتھا جس نے حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہپر مظالم کے طوفان توڑے آج ان ظالمانِ ستم شعار و مغرور انِ نابکار کے سرتن سے جدا کرکے دشت بدشت پھرائے جارہے ہیں اور دنیا میں کوئی ان کی بیکسی پر افسوس کرنے والا نہیں۔ ہر شخص ملامت کرتاہے اور نظر ِحقارت سے دیکھتا ہے اور ان کی اس ذلت و رسوائی کی موت پرخوش ہوتاہے۔ مسلمانوں نے مختار کے اس کارنامہ پر اظہار فرح کیا اور اس کودشمنانِ امام سے بدلہ لینے پر مبارکباد دی۔(تاریخ الخلفاء، عبد اللّٰہ بن الزبیر، ص۱۶۹، والکامل فی التاریخ، سنۃ ست وستین، ج۴، ص۲۷۔۴۹)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اے ابن سعد! رے کی حکومت تو کیا ملی ظلم و جفا کی جلد ہی تجھ کو سزا ملی
اے شمر نابکار! شہیدوں کے خون کی کیسی سزا تجھے ابھی اے ناسزا ملی
اے تشنگانِ خونِ جوانانِ اہلِ بیت دیکھا کہ تم کو ظلم کی کیسی سزا ملی
کتوں کی طرح لاشے تمہارے سڑا کئے گُھورے پہ بھی نہ گور کو تمہاری جا ملی
رسوائے خلق ہوگئے برباد ہوگئے مردودو! تم کو ذلتِ ہر دو سرا ملی
تم نے اُجاڑا حضرتِ زہرا کا بوستاں تم خود اُجڑ گئے تمہیں یہ بد دعا ملی
دنیا پرستو! دین سے منہ موڑ کر تمہیں دنیا ملی نہ عیش و طرب کی ہوا ملی
آخر دکھایا رنگ شہیدوں کے خون نے سر کٹ گئے اماں نہ تمہیں اک ذرا ملی
پائی ہے کیا نعیم انہوں نے ابھی سزا
دیکھیں گے وہ جحیم میں جس دم سزا ملی
اس کے بعد مختار نے ایک حکمِ عام دیا کہ کربلا میں جوجو شخص عمر بن سعد کا شریک تھا وہ جہاں پایا جائے مارڈالا جائے۔ یہ حکم سن کر کوفہ کے جفا شعار سورمابصرہ بھاگنا شروع ہوئے، مختار کے لشکر نے ان کا تعاقب کیاجس کو جہاں پایا ختم کردیا، لاشیں جلاڈالیں ،گھرلوٹ لیے۔ خولی بن یزیدوہ خبیث ہے جس نے حضرت امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہکا سرِ مبارک تنِ اقدس سے جدا کیا تھا، یہ روسیاہ بھی گرفتار کرکے مختار کے اس لایا گیا۔ مختار نے پہلے اس کے چاروں ہاتھ پیر کٹوائے پھر سولی چڑھایا، آخر آگ میں جھونک دیا۔ اس طرح لشکر ِابن سعد کے تمام اشرار کو طرح طرح کے عذابوں کے ساتھ ہلاک کیا۔ چھ ہزار کوفی جو حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہکے قتل میں شریک تھے ان کو مختار نے طرح طرح کے عذابوں کے ساتھ ہلاک کردیا۔ (الکامل فی التاریخ، سنۃ ست وستین، ج۴، ص۲۷۔۴۹)
ابن زیاد کی ہلاکت
عبیداللہ ابن زیاد ، یزید کی طرف سے کوفہ کاوالی (گورنر) کیاگیاتھا۔ اسی بدنہاد کے حکم سے حضرت امام اور آپ کے اہل بیت علیہم الرضوان کو یہ تمام ایذا ئیں پہنچائی گئیں ، یہی ابن زیاد موصل میں تیس ہزار فوج کے ساتھ اترا۔ مختار نے ابراہیم بن مالک اشترکو اس کے مقابلہ کیلئے ایک فوج کولے کر بھیجا موصل سے پندرہ کوس کے فاصلہ پر دریائے فرات کے کنارے دونوں لشکروں میں مقابلہ ہوا اور صبح سے شام تک خوب جنگ رہی۔ جب دن ختم ہونے والا تھا اور آفتاب قریب غروب تھا اس وقت ابراہیم کی فوج غالب آئی، ابن زیادکوشکست ہوئی،اس کے ہمراہی بھاگے۔ ابراہیم نے حکم دیا کہ فوجِ مخالف میں سے جو ہاتھ آئے اس کوزندہ نہ چھوڑا جائے۔ چنانچہ بہت سے ہلاک کیے گئے۔ اسی ہنگامہ میں ابن زیاد بھی فرات کے کنارے محرم کی دسویں تاریخ ۶۷ھ میں مارا گیا اور اس کا سر کا ٹ کر ابراہیم کے پاس بھیجا گیا، ابراہیم نے مختار کے پاس کوفہ میں بھجوایا، مختار نے دار الامارت کوفہ کو آ راستہ کیا اوراہل کوفہ کو جمع کرکے ابن زیاد کا سرناپاک اسی جگہ رکھوایا جس جگہ اس مغرورِحکومت و بندۂ دنیانے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سرِ مبارک رکھا تھا۔ مختار نے اہل کوفہ کو خطاب کرکے کہا کہ اے اہل کوفہ! دیکھ لوکہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خونِ ناحق نے ابن زیادکو نہ چھوڑا، آج اس نامراد کا سر اس ذلت و رسوائی کے ساتھ یہاں رکھا ہوا ہے، چھ سال ہوئے ہیں وہی تاریخ ہے ،وہی جگہ ہے ،خدواند ِ عالَم نے ا س مغرور، فرعون خصال کو ایسی ذلت و رسوائی کے ساتھ ہلاک کیا، اسی کوفہ اور اسی دار الامارت میں اس بے دین کے قتل وہلاک پر جشن منایا جارہاہے۔ (الکامل فی التاریخ، سنۃ سبع وستین، ذکر مقتل ابن زیاد، ج۴، ص۶۰۔۶۲ملخصاً والبدایۃ والنہایۃ، سنۃ سبع وستین، وترجمۃ ابن زیاد، ج۶، ص۳۷۔۴۳ ملخصاً وروضۃ الشہداء (مترجم)، دسواں باب، فصل دوم، ج۲، ص۴۵۷)
ترمذی شریف کی صحیح حدیث میں ہے کہ جس وقت ابن زیاد اور اس کے سرداروں کے سر مختار کے سامنے لاکر رکھے گئے توایک بڑاسانپ نمودار ہوا، اس کی ہیبت سے لوگ ڈر گئے وہ تمام سروں پر پھرا جب عبیداللہ ابن زیاد کے سر کے پاس پہنچا اس کے نتھنے میں گھس گیا اور تھوڑی دیر ٹھہر کر اس کے منہ سے نکلا، اس طرح تین بار سانپ اس کے سر کے اندر داخل ہوا اور غائب ہوگیا۔(سنن الترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب ابی محمد الحسن۔۔۔الخ، الحدیث:۳۸۰۵، ج۵، ص۴۳۱)
ابن زیاد، ابن سعد،شمر، قیس ابن اشعث کندی ، خولی ابن یزید، سنان بن انس نخعی، عبداللہ بن قیس ، یزید بن مالک اور باقی تمام اشقیا جو حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہکے قتل میں شریک تھے اور ساعی تھے طرح طرح کی عقوبتوں سے قتل کیے گئے اور ان کی لاشیں گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کرائی گئیں۔(روضۃ الشہداء (مترجم)، دسواں باب، فصل دوم، ج۲، ص۴۵۵)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حدیث شریف میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ ہے کہ خونِ حضرتِ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہکے بدلے سترہزار شقی مارے جائیں گے۔(المستدرک للحاکم ، کتاب تواریخ المتقدمین ۔۔۔الخ، قصۃ قتل یحیی علیہ السلام، الحدیث: ۴۲۰۸، ج۳، ص۴۸۵)
وہ پور اہوا، دنیا پرستارانِ سیاہ باطن اور مغرورانِ تاریک دروں کیاامیدیں باندھ رہے تھے اورحضرت امام علیٰ جدہ وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی شہادت سے ان دشمنان حق کو کیسی کچھ توقعات تھیں۔ لشکریوں کو گراں قدر انعاموں کے وعدے دئیے گئے تھے، سرداروں کو عہدے اورحکومت کا لالچ دیا گیا تھا، یزید اور ابن زیاد وغیرہ کے دماغوں میں جہانگیر سلطنت کے نقشے کھنچے ہوئے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ فقط امام رضی اللہ تعالیٰ عنہہی کاوجود ہمارے لیے عیشِ دنیا سے مانع ہے ، یہ نہ ہوں تو تمام کرۂ زمین پر یزیدیوں کی سلطنت ہوجائے اورہزاروں برس کے لئے ان کی حکومت کاجھنڈا گڑجائے مگر ظلم کے انجام اور قہر الٰہی عزوجل کی تباہ کن بجلیوں اور درد رسید گانِ اہل بیت کی جہاں برہم کُن آہوں کی تاثیرات سے بے خبر تھے۔ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خونِ شہداء رنگ لائے گا اور سلطنت کے پرزے اڑجائیں گے، ایک ایک شخص جو قتلِ حضرتِ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہمیں شریک ہواہے طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک ہوگا، وہی فرات کا کنارہ ہوگا، وہی عاشورہ کا دن، وہی ظالموں کی قوم ہوگی اور مختار کے گھوڑے انھیں روندتے ہوں گے، ان کی جماعتوں کی کثرت ان کے کام نہ آئے گی، ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے جائیں گے، گھرلوٹے جائیں گے، سولیاں دی جائیں گی، لاشیں سڑیں گی،دنیا میں ہر شخص تُف تُف کرے گا، اس ہلاکت پر خوشی منائی جائے گی، معرکہ جنگ میں اگرچہ ان کی تعداد ہزاروں کی ہوگی مگر وہ دل چھوڑکر ہیجڑوں کی طرح بھاگیں گے اور چوہوں اور کُتّوں کی طرح انھیں جان بچا نی مشکل ہوگی، جہاں پائے جائیں گے ماردئیے جائیں گے، دنیا میں قیامت تک ان پر نفرت و ملامت کی جائے گی۔
حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہکی شہادت حمایت ِحق کے لئے ہے اس راہ کی تمام تکلیفیں عزت ہیں اور پھروہ بھی اس شان کے ساتھ کہ اس خاندان عالی کا بچہ بچہ شیر بن کر میدان میں آیا، مقابل سے اس کی نظرنہ جھپکی، دمِ آخر تک مبارزطلب کرتارہا اور جب نامردوں کے ہجوم نے اس کو چاروں طرف سے گھیرلیاتب بھی اُس کے پائے ثبات واِسْتِقْلال کو لغزش نہ ہوئی، اُس نے میدان سے باگ نہ موڑی نہ حق و صداقت کا دامن ہاتھ سے چھوڑا نہ اپنے دعوے سے دست برداری کی، مردانہ جانبازی کا نام دنیا میں زندہ کردیا، حق و صداقت کا ناقابلِ فراموشی درس دیا اور ثابت کردیا کہ فیوضِ نبوت کے پرتَو سے حقانیت کی تجلیاں اُن پاک باطنوں کے رگ وپے میں ایسی جاگزیں ہوگئی ہیں کہ تیر و تلوار اور تیر و سناں کے ہزارہا گہرے گہرے زخم بھی اُن کو گزند نہیں پہنچا سکتے۔ آخرت کی زندگی کا دلکش منظر اُن کی چشمِ حق بیں کے سامنے اِس طرح روکش ہے کہ آسایشِ حیاتِ دنیوی کووہ بے التفاتی کی ٹھوکروں سے ٹھکرا دیتے ہیں۔
حجاج ابن یوسف کے وقت میں جب دوبارہ حضرت زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسیر کئے گئے اور لوہے کی بھاری قید و بند کا بارِگراں ان کے تنِ نازنین پر ڈالا گیا اور پہرہ دارمتعین کردئیے گئے، زہری علیہ الرحمہ اس حالت کو دیکھ کر روپڑے اور کہا کہ مجھے تمنا تھی کہ میں آپ کی جگہ ہوتا کہ آپ پر یہ بارِمصائب دل پرگوارا نہیں ہے۔اس پر امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ
کیاتجھے یہ گمان ہے کہ اس قیدو بند ش سے مجھے کرب و بے چینی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر میں چاہوں تو اس میں سے کچھ بھی نہ رہے مگر اس میں اجر ہے اور تَذَکُّرہےاور عذابِ الٰہیعزوجل کی یادہے۔ یہ فرماکر بیڑیوں میں سے پاؤں اور ہتھکڑیوں میں سے ہاتھ نکال دئیے۔(المنتظم، سنۃ اربع وتسعین، ۵۳۰۔علی بن الحسین۔۔۔الخ، ج۶، ص۳۳۰)
یہ اختیارات ہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے کرامۃً انھیں عطا فرمائے گئے اور وہ صبر و رضا ہے کہ اپنے وجود اور آسایشِ وجود ، گھر بار،مال و متاع سب سے رضائے الٰہیعزوجل کیلئے ہاتھ اٹھالیتے ہیں اور اس میں کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتے۔ اللہ تعا لیٰ ان کے ظاہری و باطنی برکات سے مسلمانوں کو متمتع اور فیض یاب فرمائے اور ان کی اخلاص مندانہ قربانیوں کی برکت سے اسلام کو ہمیشہ مظفرو منصور رکھے۔آمین۔(ماخوذ ۔ سوانح کربلا ، اوراق غم ، آل رسول ، شہادت نواسئہ سیّد الابرار ، روضۃ الشہداء ، کتب احادیث ، کتب سوانح ، کتب تاریخ)
بد بخت قاتلانِ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا عبرتناک انجام
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بد بخت قاتلانِ امام حسین رضی اللہ عنہ کے حالات ان لوگوں پر پوشیدہ نہیں ہوں گے جنہوں نے کتبِ تاریخ کا مطالعہ کیا ہے ۔ ہر وہ شخص جو کسی بھی طرح سے قتل امام حسین رضی اللہ عنہ میں شریک تھا یا اس پر راضی اور خوش تھا ۔ عذاب اخروی جس کا وہ مستحق ٹھہرا ، سے قطعِ نظر اس دنیائے ناپائیدار میں بھی اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچا ۔ ہر وہ شخص جو معرکۂ کربلا میں حضرت سید الشہداء کے مقابلہ کی غرض سے آیا تھا اس دنیا سے عذاب دیکھے بغیر اور اپنے کیے کی سزا پائے بغیر نہیں گیا۔بعض قتل کر دیے گئے ۔ کچھ نابینا ہو گئے ، بعض کا چہرہ سیاہ ہو گیا ، کچھ شدت پیاس سے ہلاک ہوئے اور بعض کی دولت و حکومت قلیل مدت میں جاتی رہی ۔ بعض دیگر عقوبات میں مبتلا ہوئے ۔
بعض اوقات انسان اس فانی دنیا کی نعمتوں اور مقام و منصب کےحصول کی لالچ میں اپنی آخرت برباد کر بیٹھتا ہے حالانکہ دنیا بھی اس کے ہاتھ نہیں آتی ۔ یوں وہ دنیا میں بھی ذلیل و خوار اور آخرت میں درد ناک عذاب کا حقدار ٹھہرتا ہے ۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : حُبُّ الدُّنْيا رَأسُ كُلّ خَطِيئَةٍ ‘‘ یعنی دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے ۔ (جامع صغیر للسیوطی ص223،حدیث:3662)
دنیاوی لالچ میں آکر دوجہاں کی تباہی و بربادی مول لینے کی ایک عبرتناک مثال یزیدی لشکر کی ہے جس نے مال و دولت اور حکومت و اقتدار کی خاطر نواسَۂ رسول حضرتِ سیّدنا امام حسین اور ان کے رُفَقا رضی اللہ عنہم کو شہید کر دیا ۔ تاریخ گواہ ہے جو لوگ ان نفوس قدسیہ کے مقابلےمیں آئے وہ زندگی میں چین نہ پاسکے ، یہاں بھی انہوں نے ذلت و رسوائی کی سزا پائی جبکہ میدانِ محشر کا معاملہ اس کے علاوہ ہے ۔
دشمنانِ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم بھی ذلّت و رسوائی کی موت مارے گئے اور جس منصب اور مال و دولت کی خاطر انہوں نے نواسَۂ رسول کے قتل جیسے بدترین جرم کا ارتکاب کیا وہ بھی ان کے ہاتھ نہ رہا ۔ اس واقعہ سے عبرت حاصل کرتے ہوئے ہر انسان کو چاہیے کہ اپنی آخرت کو دنیا پر ترجیح دے اور کسی بھی بڑی سے بڑی چیز کی لالچ میں آکر اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نافرمانی نہ کرے ۔
میدانِ کربلا : 10 محرم الحرام 61 ھ میں تاریخِ اسلام کا ایک اِنتہائی دَرْدْناک واقعہ پیش آیا کہ جب خاندانِ اہلِ بیت اور ان کےجانثار رُفَقا کو یزیدی لشکر نے بھوک پیاس کی حالت میں شہید کر دیا ۔ جہاں یہ تاریخی واقعہ رُونما ہوا اس جگہ کا نام ”کربلا“ ہے ۔ کربلا نَجَف سے 80 کلو میٹر اور بغداد سے 103 کلو میٹر کے فاصلے پر نہرِ فرات کے قریب واقع ہےجبکہ کوفہ سے تقریباً 75 کلومیٹر دور ہے ۔ پہلے یہ صحرا تھا لیکن اب یہ ملکِ عراق کا شہر ہے ۔
کربلا کی لغوی و تاریخی حیثیت : کربلا دو الفاظ ”کرْب و بَلا“ سےمرکب ہے ۔ (فیروز اللغات صفحہ 1060) کچھ اہلِ لغت نے کہا کہ یہ ”کَرْبَل (چھانی ہوئی گیہوں) “یا” کَرْبَلَۃٌ (دلدلی زمین)“ سے ماخوذ ہے اس لیے کہ وہاں کی زمین کنکروں سے خالی اور نرم ہے ۔ ایک قول کے مطابق ”کَرْبَل“ ایک جڑی بوٹی کا نام ہے جو وہاں اُگتی تھی اس لئے اس جگہ کا نام کربلا پڑگیا ۔ (معجم البلدان جلد 4 صفحہ 125)
احادیث مبارکہ میں اس جگہ کا ذکر ” نینویٰ“ اور ”طُف“ کے ناموں سے بھی آیا ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ،ج21،ص146، حدیث: 38522،چشتی)(معجم کبیر، ج3،ص106،حدیث:3813)
امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا عبرتناک انجام
کرام ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَ کَذَالِکَ نُوَلِّیْ بَعْضَ الظّٰلِمِیْنَ بَعْضاً بِمَا کَانُوا یَکْسِبُوْنَ ۔ (پ۸ الانعام ۱۲۹)
ترجمہ : اور یوں ہی ہم ظالموں میں ایک کو دوسرے پر مسلط کرتے ہیں ۔ بدلہ ان کے کئے کا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرماتے ہیں : بے شک اللہ عزوجل اس دینِ اسلام کی مدد فاجِر یعنی بدکار آدمی کے ذریعہ سے بھی کرا لیتا ہے ۔ (صحیح بخار جلد ۲ صفحہ ۳۲۸ دار الکتب العلمیۃ بیروت،چشتی)
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو وحی فرمائی کہ میں نے یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) کے قتل کے عوض ستر ہزار افراد مارے تھے اور تمہارے نواسے کے عوض ان سے دُگنے (یعنی ڈبل) ماروں گا ۔ (المستدرک للحاکم جلد ۳ صفحہ ۴۸۵ حدیث ۴۲۰۸)
تاریخ شاہد ہے کہ حضرتِ یحییٰ بن زکریا علیہما الصلوۃ و السلام کے خونِ ناحق کا بدلہ لینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بختِ نصر جیسے ظالم کو متعین کیا جو خدائی کا دعویٰ کرتا تھا ۔ اِسی طرح حضرتِ امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خونِ ناحق کا بدلہ لینے کےلیے اللہ تعالیٰ نے مختار ثقفی جیسے کذاب کو مقرر فرمایا ۔ (شامِ کربلا صفحہ ۲۸۵،چشتی)
اللہ تعالیٰ کی مصلحتیں خود وہی جانتا ہے ۔ وہ اپنی مَشیّت سے ظالموں کے ذریعے بھی ظالموں کو ہلاک کرتا ہے ۔
حضرت علامہ ابن جوزی نے سدّی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے ایک شخص کی دعوت کی مجلس میں یہ ذکر چلاکہ حضرت حسینؓ کے قتل میں جوبھی شریک ہوا اس کو دنیا ہی میں جلد سزا مل گئی اس شخص نے کہاکہ بالکل غلط ہے میں خود ان کے قتل میں شریک تھا میرا کچھ بھی نہیں ہوا،اتنا کہہ کریہ شخص مجلس سے اٹھ کر گھرگیا جاتے ہی چراغ کی بتی درست کرنے لگا اتنے میں اس کے کپڑوں میں آگ لگ گئی اوروہیں جل بھن کررہ گیا ۔ سدّی کہتے ہیں کہ میں نے خود اس کو صبح دیکھا تو کوئلہ ہوچکا تھا ۔(اسوۂ حسینی ص ۱۰۱و ۱۰۲،چشتی)
قہرِ الہٰی کی بھڑکائی ہوئی آگ
روایت ہے کہ ایک جماعت آپس میں گفتگو کر رہی تھی کہ دشمنانِ حسین میں سے کوئی شخص ایسا نہیں دیکھا جو اس دنیا سے مصیبت و بلاء میں مبتلاء ہوئے بغیر چلا گیا ہو۔اس جماعت میں سے ایک بوڑھے نے کہا کہ میں بھی قتلِ حسین بن علی میں شریک تھا۔مجھ پر تو ابھی تک کوئی مصیبت نازل نہیں ہوئی۔ابھی یہ بات کر رہی رہا تھا کہ چراغ کے فتیلہ کو درست کرنے کے لیے اپنی جگہ سے اٹھا ۔اچانک شعلۂ چراغ نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس بری طرح سے جلا کہ اچھلتا کودتا واپس آیا اور چلانے لگا:میں جل گیا ۔میں جل گیا۔یہاں تک کہ اس کی یہ سوزش اس درجہ بڑھی کہ اس نے اپنے آپ کو دریا میں ڈال دیا۔مگریہ آگ تو قہرِ الہٰی نے بھڑکائی تھی دریا اسے کیا ٹھنڈا کرتا؟وہ تو اس کے لیے تیل کا کام کر گیا اور وہ اس انداز سے جلا کہ اس کا وجود جہنم کا ایندھن بن گیا ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار۔چشتی)
ایک پری چہرہ سیاہ رو ہو گیا
مزید روایت ہے کہ ابن زیاد کے لشکریوں میں سے ایک شخص جس نے امام عالی مقام کے سر کو اپنے فتراک میں ڈالا تھا خوبصورتی کے اعتبار سے بہت زیادہ شہرت یافتہ تھا ۔ بعد میں جب اسے دیکھا گیا تو اس کا چہرہ سیاہ ہو چکا تھا ۔ اس سے پوچھا گیا : تو تو بڑا خوب رو اور صاحبِ حسن و جمال تھا ۔ کیا وجہ ہے کہ تیرے چہرے پرسیاہی اور کالک نے ڈیرہ جما لیا ہے ۔ کہنے لگا: جس روز میں نے حسین کے سر کو اپنے فتراک میں ڈالاتھا اسی دن سے روزانہ دو آدمی آتے ہیں مجھے دونوں بازؤں سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے آگ کے پاس لے جاتے ہیں اور پھر مجھے اس آگ پر الٹا لٹکا دیتے ہیں بعد ازاں اتار لاتے ہیں ۔ اس دن سے میرا چہرہ سیاہ اور حال تباہ ہے۔یہ شخص اسی عذاب میں مبتلا رہا یہاں تک کہ راہی جہنم ہوا ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار،چشتی)
آنکھوں میں خون آلود سلائی پھیردی گئی
واقدی سے منقول ہے:مقتلِ حسین کے حاضرین میں سے ایک بوڑھا آدمی نابینا ہو گیاتھا۔جب اس سے نابینا ہونے کا سبب پوچھا گیاتو کہنے لگا: میں نے خواب میں رسالت پناہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھا:انہوں نے بازو تک آستین چڑھائی ہوئی تھی اور دستِ مبارک میں ننگی تلوار تھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے رو بروزمین پر فرش بچھایا گیا تھا یہ فرش دس قاتلانِ حسین کو ذبح کر کے ان کے سروں پر بچھایا گیا تھا۔جوں ہی آں جناب کی نظرمجھ پر پڑی ۔آپ نے مجھے نفرین کی اور میری آنکھوں میں خون آلود سلائی پھیردی گئی جس کے سببمیں اندھا ہوگیا ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
ڈاڑھی خنزیر کی دم بن گئی
کہتے ہیں شام میں ایک شخص تھا جو قتلِ حسین میں شریک تھا اس کی داڑھی خنزیر کی دم بن کر لوگوں کے لیے نشانِ عبرت بن گئی تھی۔ (تاریخ الخلفاء ،چشتی)(شھادت نواسہ سیّد الابرار)
سینے میں آتش جہنم
روایت ہے کہ وہ شخص جس نے حضرت عبد اللہ علی اصغر کے تشنہ حلقوم پر تیر چلایا تھاایک ایسے مرض میں مبتلا ہوگیا جس سے اس کے سینہ میں حرارت اور گرمی جب کہ پشت میں ٹھنڈک پیدا ہو گئی۔ہر چند کہ اس کے سامنے پنکھا جھلتے تھے اور اس کی پشت کی جانب آگ روشن کرتے تھے وہ واویلا کرتا تھا۔نہ تو اس کی آتشِ سینہ سرد ہوتی اور نہ ہی پشت کی ٹھنڈک کو افاقہ ہوتا تھا۔پیاس کی شدت اس درجہ بڑھ گئی کہ مٹکوں کے مٹکے پانی پی لیتا تھا اور پھر بھی۔۔۔ العطش ۔۔۔العطش۔۔ کی صدائیں بلند کرتا۔یہاں تک کہ اس کا پیٹ پانی پی پی کر پھول گیا اور بالآخر پھٹ گیا۔اسی عقوبت کی وجہ سے واصل جہنم ہوا ۔ (تاریخ الخلفاء)(شھادت نواسہ سیّد الابرار،چشتی)
یہ تھی ان لوگوں کے حالات کی مختصر سی جھلک جو معرکۂ کربلا میں حاضر تھے۔اس کے بعدہم چند خواص جن میں ابن زیاد بد نہاد،ابن سعد ، شمرذی الجوشن وغیرہ شامل ہیں کا مختصراً ذکر کرتے ہیں۔
ابن سعدکا انجام
جب مختار ثقفی نے کوفہ پر اپنے تسلط کو مضبوط کر لیا تو اس نے فرمان جاری کیا کہ وہ تمام لوگ جو ابن سعد کے لشکر میں شامل تھے اورحسین ؑ کے قتال میں شریک تھے ان کو ایک ایک کر کے میرے پاس لایا جائے چناں چہ چند سو لوگ لائے گئے جن تمام کی گردن مار کر انہیں سولی پر لٹکا دیا گیا ۔
مختار ثقفی نے اپنے خاص غلام کو حکم دیا کہ وہ ابن سعد کو حاضر کرے ۔ حفص بن سعد حاضر ہوا۔مختار نے پوچھا تمہارا باپ کہاں ہے ۔ بولا گھر میں بیٹھا ہے ۔ مختار نے کہا : ’’اب وہ ’’رے‘‘ کی حکومت اور اس کے اختیارات سے دست بردار ہو کر کس طرح اپنے گھر میں بیٹھا ہوا ہے۔اس نے قتلِ حسین کے دن خانہ نشینی کیوں اختیار نہ کی‘‘ یہ کہہ کر حکم دیا کہ ابن سعد کا سر کاٹ لیا جائے اور اس کے بیٹے کو بھی قتل کر دیا جائے ۔
شمر ذی الجوشنکی گردن زدنی
پھر شمر کو طلب کیا اور اس کی گردن زدنی کا حکم جاری کیا۔
اس کے بعد مختارثقفی نے ان ملعونوں کے سروں کو محمد بن حنفیہ کے پاس بھیج دیااور حکم دیا کہ معرکہ ٔکربلا میں ابن سعد کے ساتھ شریک ہونے والے باقی ماندہ لوگوں میں سے جس کو بھی پائیں قتل کر دیں۔جب لوگوں نے یہ دیکھا کہ مختارثقفی امام عالی مقام کا قصاص لے رہا ہے تو انہوں نے بصرہ بھاگ جانے کا ارادہ کر لیا۔لیکن مختار ثقفی کے لشکریوں نے ان کا تعاقب کیا اور جو جو دستیاب ہوتے انہیں قتل کر کے لاشوں کو جلا دیا جاتا اور ان کے گھروں کو مسمار کر دیا جاتا ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
خولی بن یزید کا انجام
جب خولی بن یزید کو اسیر کر کے مختار ثقفی کے سامنے لایا گیاتو اس نے حکم جاری کیا:پہلے اس کے دونوں ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے جائیں اور پھر اسے سولی پر چڑھا دیا جائے۔اس کے بعد اسے آگ میں جلادیا گیا۔اسی طرح دوسرے لشکریانِ ابن زیاد جو دستیاب ہوئے انہیں دردناک انداز میں قتل کر دیا گیا ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
قتل ابن زیاد بد نہاد کی مزید تفصیلات
مختصر یہ کہ جب مختار ثقفی ابن سعد، شمراور خولی بن یزید علیہم اللعنۃ کے قتل سے فارغ ہو کر مطمئن ہوا تو ابن زیاد کے قتل کے درپے ہوا۔چناں چہ ابراہیم بن مالک اشتر کو سپاہیوں کی ایک جماعت کے ساتھ ابن زیاد کے مقابلہ کے لیے بھیجا۔جوں ہی ابراہیم موصل کی سرحد پر پہنچے ابن زیاد موصل سے پانچ فرسنگ کے فاصلے پر واقع ایک دریا کے کنارے اپنے لشکر کے ساتھ مقابلہ کے لیے تیار ہوگیا۔صبح کے وقت طرفین میں مقابلہ کا آغاز ہوا۔شام کے قریب ابراہیم بن مالک اشتر نے ابن زیاد کے لشکر کو شکست دی ۔ابن زیاد کی شکست خوردہ فوج نے راہِ فرار اختیار کی ۔ابراہیم اپنی فوج کے ساتھ ان کے تعاقب میں روانہ ہوئے اور حکم جاری کیا کہ مخالف فوج میں سے کسی کو بھی پائیں تو زندہ نہ چھوڑیں۔چناں چہ ابن زیاد کے بہت سے ہم راہی جان سے گئے اور ابن زیاد بھی قتل کر دیا گیا۔اس کا سر کاٹ کر ابراہیم بن مالک اشتر کے سامنے پیش کیا گیا اور ابراہیم نے اسے مختار ثقفی کے پاس کوفہ بھیج دیا۔ ابن زیاد کا سرجب کوفہ پہنچا تواسی وقت مختار ثقفی نے دارالامارۃ میں اہلیانِ کوفہ کو جمع کر کے ایک بزم آراستہ کی اور حکم جاری کیا کہ ابن زیاد کا سر پیش کیا جائے۔جب ابن زیاد کا سر پیش کیا گیا تو مختار ثقفی نے کہا : یہ ابن زیاد کا سر ہے۔اے کوفہ کے لوگو! دیکھ لو کہ خونِ حسین کے قصاص نے ابن زیاد کو زندہ نہ چھوڑا ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
مختار ثقفی نے قصاص میں ستر ہزار افراد کو قتل کیا
مفتاح النجاء میں منقول ہے کہ مختار ثقفی کے واقعہ میں اہل شام کے ستر ہزار افراد قتل کیے گئے اور یہ واقعہ دس محرم ۶۷ ہجری (واقعۂ کربلا کے سال بعد) رونما ہوا۔
ابن زیاد کے نتھنوں میں تین بار سانپ کا گھسنا
روایاتِ صحیحہ میں مروی ہے کہ جب ابن زیاد اور اس کے دوسرے سرداروں کے سر مختار ثقفی کے سامنے لائے گئے تو اچانک ایک سانپ ظاہر ہوا اور سروں کے درمیان سے گزرتا ہوا ابن زیاد کے سر کے قریب آیا اور اس کے ناک کے سوراخ میں داخل ہو گیا۔کچھ دیر سر کے اندر رہا اور پھر منہ کے راستے باہر نکل آیااور غائب ہوگیا۔کہتے ہیں کہ اسی طرح یہ سانپ تین مرتبہ ظاہر ہوا اور ناک کے سوراخ سے داخل ہو کر منہ کے راستے باہر نکلا ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار۔چشتی)
دیگر اعیانِ یزیدپلید کا عبرتناک انجام
بالجملہ ابن زیاد، ابن سعد، شمر ذی الجوشن، عمر بن الحجاج،قیس بن اشعث کندی، خولی بن یزید، سنان بن انس نخعی، عبداللہ بن قیس، حکم بن طفیل اور یزید بن مالک کے علاوہ دیگر اعیان یزیدکو طرح طرح کے عذاب دے کر ہلاک کیا گیااور ان کے لاشوں پر گھوڑے دوڑائے گئے ۔ یہاں تک کہ ان کی ہڈیاں چور چور ہو گئیں ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
مخفی نہ رہے کہ کتب تاریخ میں اختلاف ہے ۔ بعض کتب میں ابن سعد اور شمر کا قتل ابن زیاد کی ہلاکت سے پہلے مذکور ہے اور بعض کتب میں ابن زیاد کے بعدذکر کیا گیا ہے۔اور جیسا کہ منتقم حقیقی کا وعدہ تھا جس کاذکر واقعہ کربلا سے متعلق روایات کے ضمن میں بہ روایت حاکم مذکور ہو چکا ہے پورا ہوا اور قاتلانِ حسین امام حسین رضی اللہ عنہ مختار ثقفی کے ہاتھوں اپنے انجام کوپہنچے ۔ گو کہ آخر کار مختار ثقفی کے اعتقادات (مختار ثقفی نے بعد میں دعویٰ نبوت کر لیا تھا جس پر ہم تفصیل سے لکھ چُکے ہیں) میں بھی شقاوتِ ازلی کا ظہور ہوا ۔ جس کی تفصیل کتبِ تاریخ میں مسطور ہے ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment