Monday 31 July 2023

اور ہم نے ادریس علیہ السلام کو بلند مکان پر اٹھا لیا

0 comments

 اور ہم نے ادریس علیہ السلام کو بلند مکان پر اٹھا لیا

محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَّرَفَعۡنٰهُ مَكَانًا عَلِيًّا ۔ (سورہ مريم آیت نمبر 57)

ترجمہ : اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا ۔


نوٹ : یہ مضمون بہت سے احباب نے ریاض شاہ پنڈوی کا کلپ بھیجا جس میں صراحتاً قرآنِ کریم کی معنوی تحریف کی گٸی ہے ۔اُن احباب نے اصرار فرمایا کہ اِس پر لکھیں ۔ فقیر نے اُن احباب کے حکم پر تمام معتبر کُتبِ تفاسیر و شروح احادیث کو دیکھا کسی نے آج تک یہ معنیٰ یا تفسیر مراد نہیں لی جو ریاض شاہ پنڈوی نے اپنی طرف سے تفسیر بالراۓ کر کے قرآنِ کی معنوی تحریف کر ڈالی حیرت اس بات پر ہے سننے والے اندھے بن کر واہ واہ کرتے نظر آۓ گویا سننے والے اس تحریف معنوی میں شامل ہیں ویڈیو کلپ ساتھ دیا جا رہا ہے ۔ مزید تفصیل درج ذیل ہے : ⬇


حضرت ادریس علیہ السلام کو بلند مکان پر اٹھا لینے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے آپ علیہ السلام کے مرتبے کی بلندی مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کوآسمان پر اٹھا لیا گیا ہے اور زیادہ صحیح یہی قول ہے کہ آپ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا گیا ہے ۔ (تفسیر خازن سورہ مریم آیت نمبر ۵۷ جلد ۳ صفح ۲۳۸)


حضرت ادریس علیہ السلام کا نام اخنوخ ہے ، حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں یہ پہلے شخص ہیں جن کو حضرت آدم اور شیث علیہما السلام کے بعد نبوت ملی ۔ امام ابن اسحاق نے ذکر کیا ہے کہ یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے قلم سے خط کھینچا ، انہوں نے حضرت آدم علیہ السلام کی حیات سے تین سو اٹھارہ سال پائے ۔ آپ علیہ السلام کا نام اخنوخ ہے اور آپ علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے والد کے دادا ہیں ۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد آپ ہی پہلے رسول ہیں ۔ آپ علیہ السلام کے والد حضرت شیث بن آدم علیہما السلام ہیں ۔ سب سے پہلے جس شخص نے قلم سے لکھا وہ آپ ہی ہیں ۔ کپڑوں  کو سینے اور سلے ہوئے کپڑے پہننے کی ابتدا بھی آپ ہی سے ہوئی ، آپ سے پہلے لوگ کھالیں  پہنتے تھے ۔ سب سے پہلے ہتھیار بنانے والے ، ترازو اور پیمانے قائم کرنے والے اور علمِ نُجوم اور علمِ حساب میں  نظر فرمانے والے بھی آپ ہی ہیں  اور یہ سب کام آپ ہی سے شروع ہوئے ۔  اللہ تعالیٰ نے آپ پر تیس صحیفے نازِل کیے اور  اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے صحیفوں  کا کثرت سے درس دینے کی وجہ سے آپ کا نام ادریس ہوا ۔ (تفسیر خازن جلد ۳ صفحہ ۲۳۸،چشتی)(تفسیر مدارکالتنزیل صفحہ ۶۷۷)(تفسیر روح البیان جلد ۵ صفحہ ۳۴۱)


حضرت ادریس علیہ السلام کے نام ، نسب اور زمانہ کے متعلق مورخین کو سخت اختلاف ہے اور تمام اختلافی وجوہ کو سامنے رکھنے کے بعد بھی کوئی فیصلہ کن یا کم ازکم راجح رائے نہیں قائم کی جا سکتی ، وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے تو اپنے مقصدِ رشد وہدایت کے پیش نظر تاریخی بحث سے جدا ہوکر صرف انکی نبوت ، رفعت مرتبت اور ان کی صفات عالیہ کا ذکر کیا ہے ۔ اسی طرح حدیثی روایات بھی اس سے آگے نہیں جاتیں ، اس لیے اس سلسلہ میں جو کچھ بھی ہے وہ اسرائیلی روایات ہیں اور وہ بھی تضاد و اختلاف سے معمور ، ایک جماعت کہتی ہے کہ وہ نوح علیہ السلام کے جدِ امجد ہیں ، اور ان کا نام اخنوخ ہے اور ادریس لقب ہے یا عربی زبان میں ادریس اور عبرانی یا سیریانی زبان میں ان کا نام اخنوخ ہے اور ان کا نسب نامہ یہ ہے : ⬇


خنوخ یا اخنوخ (ادریس) بن یارد بن مہلائیل بن قینان بن انوش بن شیث بن آدم علیہ السلام ، ابن اسحاق رحمة اللہ علیہ ، کا رجحان اسی جانب ہے اوردوسری جماعت کا خیال ہے کہ وہ انبیاۓ بنی اسرائیل میں سے ہیں اور الیاس و ادریس سب ایک ہی ہستی کے نام اور لقب ہیں ۔ ان دونوں روایتوں کے پیش نظر بعض علما نے یہ تطبیق دینے کی سعی کی ہے کہ جدِ نوح علیہ السلام کا نام اخنوخ ہے اور ادریس لقب اور بنی اسرائیل کے پیغمبر کا نام ادریس ہے اور الیاس لقب ، مگر یہ رائے بے سند اور بے دلیل ہے ، بلکہ قرآن کا الیاس اور ادریس کو جدا جدا بیان کرنا شاید اس کو متحمل نہ ہو سکے ۔

اس سلسلے میں نوٹس آپ کو اس مبحث کے بارے میں فتح الباری جلد ۶ صفحہ ۲۸۸ اور البدایۃ والنہایۃ ابن کثیر کی تاریخ میں ۳۷ ، ۳۶ پر دیکھے جا سکتے ہیں ۔


حافظ عماد الدین ابن کثیر ان روایات کے ساتھ یہ بھی نقل فرماتے ہیں کہ : بہت سے علمائے تفسیر و احکام کا یہ خیال ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام ہی پہلے شخص ہیں جنہوں نے رمل کے کلمات ادا کیے ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد ۱ صفحہ ۹۹) ۔ اور وہ ان کو (ہرمس) (الہراسہ) کا لقب دیتے ہیں اور ان کی جانب بہت سی غلط باتیں منسوب کرتے ہیں جس طرح ان کے علاوہ بہت سے انبیا علما حکما اور اولیا اللہ کے متعلق منسوب کی گئی ہیں ۔ ہرمن علم نجوم کے ماہر عالم کو کہتے ہیں اسلیئے ہرمس الہرامسہ کے معنی یہ ہیں کہ ماہرین علم نجوم کا استاذ اول، ہرمیس یونان کا ایک مشہور منجم بھی گزرا ہے ۔


معراج کی صحیحین والی حدیث (بخاری باب الاسرا ، مسلم جلد ۱ باب الاسرا) میں صرف اسی قدر ذکر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ادریس علیہ السلام سے چوتھے آسمان پر ملاقات کی ۔ مگر مشہور مفسر ابن جریر طبری علیہ الرحمہ نے اپنی تفسیر میں ہلال بن یساف کی سند سے ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کعب احبار سے دریافت کیا کہ حضرت ادریس علیہ السلام سے متعلق اس آیت ۔ (ورفعنٰہ مکاناً علیاً) کا کیا مطلب ہے ؟ تو کعب نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس علیہ السلام پر ایک مرتبہ یہ وحی نازل فرمائی ۔ اے ادریس علیہ السلام تمام اہل دنیا جس قدر روزانہ نیک عمل کریں گے ان سب کے برابر میں تجھ کو ہردن اجر عطا کروں گا ۔ حضرت ادریس علیہ السلام نے یہ سنا تو ان کی یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میرے اعمال میں روز افزوں اضافہ ہو اس لیے عمر کا حصہ طویل ہو جائے تو اچھا ہے ، انہوں نے وحی الٰہی اور اپنے اس خیال کو ایک رفیق فرشتہ پر ظاہر کر کے کہا کہ اس معاملہ میں فرشتہ موت سے گفتگو کرو تاکہ مجھ کو نیک اعمال کے اضافہ کا زیادہ سے زیادہ موقع ملے ، اس فرشتہ نے جب یہ سنا تو حضرت ادریس علیہ السلام کو اپنے بازوں میں بٹھا کر لے اڑا، جب یہ چوتھے آسمان سے گزر رہے تھے تو فرشتہ موت زمین کےلیے اتر رہا تھا وہیں دونوں کی ملاقات ہوئی ، دوست فرشتہ نے فرشتہ موت سے حضرت ادریس علیہ السلام کے معاملہ کے متعلق گفتگو کی ، فرشتہ موت نے دریافت کیا ۔ ادریس ہیں کہاں ؟ اس نے کہا میری پشت پر سوار ہیں ، فرشتہ موت کہنے لگا درگاہ الٰہی سے یہ حکم ہوا ہے کہ ادریس علیہ السلام کی روح چوتھے آسمان پر قبض کروں ، اس لیے میں سخت حیرت و تعجب میں تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے جبکہ ادریس علیہ السلام زمین میں ہیں ، اسی وقت فرشتہ موت نے ان کی روح قبض کرلی ۔ یہ واقعہ نقل کرکے کعب احبار نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد (ورفعنٰہ مکاناً علیاً) کی یہی تفسیر ہے ، ابن جریر کی طرح ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں اسی طرح کی روایت نقل کی ہے ۔ ان ہردو نقول کو روایت کرنے کے بعد حافظ عماد الدین ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ سب اسرائیلی خرافات ہیں اور ان میں روایتی اعتبار سے بھی (نکارت) یعنی ناقابل اعتباریت ہے ، اس لیے صحیح تفسیر وہی ہے جو آیت کے ترجمہ میں بیان کی گئی ۔


امام بخاری علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ منقول ہے کہ الیاس علیہ السلام کا نام ہی ادریس علیہ السلام ہے اور ان کے اس قول کی وجہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی وہ روایت ہے جو زہری رحمة اللہ علیہ نے معراج کے سلسلے میں بیان کی ہے اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور انبیا علیہم السلام کی آسمان پر ملاقات کا جو ذکر ہے اس میں کہا گیا ہے کہ جب آپ کی ملاقات حضرت ادریس علیہ السلام سے ہوئی تو انہوں نے فرمایا : مرحبا بالاخ الصالح (برادر نیک تمہارا آنا مبارک) پس اگر حضرت ادریس اخنوخ ہوتے تو حضرت آدم علیہ السلام و حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح (بالابن الصالح) کہتے یعنی نیک بھائی کی جگہ ۔ نیک بیٹے ۔ کے ساتھ خطاب کرتے ۔ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ دلیل کمزور ہے اس لیے کہ اول تو یہ امکان ہے کہ اس طویل حدیث میں راوی الفاظ کی پوری حفاظت نہ کر سکا ہو ، دوم ہو سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جلالت قدر اور رفعت مرتبت کے پیش نظر انہوں نے پدری انتساب کو نمایاں نہ کیا ہو اور ازراہ تواضع برادرانہ حیثیت کو ہی طاہر کرنا مناسب سمجھا ہو ۔


رہا حضرت آدم علیہ السلام و ابراہیم علیہ السلام کا معاملہ سو ایک ابوالبشر ہیں اور دوسرے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ جلیل القدر اور رفیع الشان پیغمبر جن کے متعلق قرآن نے کہا ہے : فاتبعوا ملۃ ابرٰھیم حنیفاً ۔۔ آل عمران ۹۵؛ لہٰذا ان کا (ابن) کے ساتھ خطاب کرنا ہرطرح موزوں اور برمحل ہے ۔


ابن کثیر نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ بعض کہتے ہیں کہ حضرت ادریس علیہ السلام ، حضرت نوح علیہ السلام سے قبل کے نبی نہیں ہیں بلکہ انبیا بنی اسرائیل میں سے ایک نبی ہیں اور الیاس ہی ادریس علیہ السلام ہیں ۔

تورات میں ان مقدس نبی کے متعلق صرف اسی قدر لکھا ہے ۔


اور حنوک (اخنوخ) پینسٹھ برس کا ہوا کہ اس سے متوشلح پیدا ہوا اور متوشلح کی پیدائش کے بعد حنوک تین سو برس ۳۰۰ خدا کے ساتھ چلتا تھا، اور اس سے بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئیں اور حنوک کی ساری عمر تین سو پینسٹھ برس کی ہوئی اور حنوک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا تھا، اور غائب ہوگیا ، اسلیئے کہ خدا نے اسے لے لیا ۔ (باب پیدائش ؛ آیت ۲۱، ۲۲ بائیبل)


علامہ جمال الدین قطفی نے تاریخ الحکما میں حضرت ادریس علیہ السلام کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے ، حضرت ادریس علیہ السلام کے متعلق علما تفسیر اور اربابِ تاریخ و قصص نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ بہت مشہور ہے ، اسلیئے اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں، البتہ حکما اور فلاسفہ نے خصوصیت کے ساتھ ان کے متعلق جو کچھ کہا ہے وہ پیش ِ خدمت ہے ۔

حضرت ادریس علیہ السلام کا مولد و منشا (جائے ولادت و پرورش) کہا ہے ، اور انہوں نے نبوت سے پہلے کس سے علم حاصل کیا؟ حکما اور فلاسفہ کے اقوال ان مسائل میں مختلف ہیں ۔

ایک فرقہ کی رائے ہے کہ ان کا نام ہرمس الہرامسہ ہے اور مصر کے قریہ منف میں پیدا ہوئے ، یونانی ہرمس کو ارمیس کہتے ہیں، ارمیس کے معنی عطارد ہیں ۔ اور دوسری جماعت کا خیال ہے کہ ان کا نام یونانی میں طرمیس ، عبرانی میں اخنوخ ہے ، اور قرآن مجید میں ان کو اللہ تعالیٰ نے ادریس کہا ہے یہی جماعت کہتی ہے کہ ان کے استاد کا نام غوثاذیمون یا اؑغوثا ذیمون (مصری) ہے ، وہ غوثا ذیمون کے متعلق اس سے زیادہ اور کچھ نہیں بتاتے کہ وہ یونان یا مصر کے انبیا علیہم السلام میں سے ایک نبی ہیں ، اور یہ جماعت ان کو ادرین دوم اور حضرت ادریس کو ادرین سوم کا لقب دیتی ہے، اور غوثا ذیمون کے معنی (سعد اور بہت نیک بخت) ہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہرمس نے مصر سے نکل کر اقطاع عالم کی سیر کی اور تمام دنیا کو چھان ڈالا اور جب مصر واپس ہوئے تواللہ تعالیٰ نے ان کو بیاسی سال کی عمر میں اپنی جانب اٹھا لیا ۔ ایک تیسری جماعت یہ کہتی ہے کہ ادریس علیہ السلام بابل میں پیدا ہوئے اور وہیں نشونما پائی اور اوائل عمر میں انہوں نے حضرت شیث بن آدم علیہ السلام سے علم حاصل کیا، علم کلام کے مشہور عالم علامہ شہرستانی کہتے ہیں کہ اغثاذیمون حضرت شیث علیہ السلام ہی کا نام ہے ۔


بہرحال حضرت ادریس علیہ السلام سن شعور کو پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت سے سرفراز فرمایا ۔ تب انہوں نے شریر اور مفسدوں کو راہِ ہدایت کی تبلیغ شروع کی مگر مفسدوں نے ان کی ایک نہ سنی اور حضرت آدم و شیث علیہما السلام کے مخالف ہی رہے ، البتہ ایک چھوٹی سی جماعت مشرف بہ اسلام ہو گئی ۔


حضرت ادریس علیہ السلام نے جب یہ رنگ دیکھا تو وہاں سے ہجرت کا ارادہ کیا اور اپنے پیرووں کو بھی ہجرت کی تلقین کی ، پیروانِ ادریس نے جب یہ سنا تو ان کو ترک وطن بہت شاق گزرا اور کہنے لگے کہ بابل جیسا وطن ہم کو کہاں نصیب ہو سکتا ہے ۔ حضرت ادریس علیہ السلام نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم یہ تکلیف اللہ کی راہ میں اٹھاتے ہو تو اس کی رحمت وسیع ہے وہ اس کا نعم البدل ضرور عطا کرے گی ، پس ہمت نہ ہارو اور خدا کے احکام کے سامنے سرنیازِجھکا دو ۔ مسلمانوں کی رضامندی کے بعد حضرت ادریس علیہ السلام اور ان کی جماعت مصر کی جانب ہجرت کرگئی، جماعت نے جب نیل کی روانی اور اسکی سرزمین کی شادابی دیکھی تو بہت خوش ہوئی ، اور حضرت ادریس علیہ السلام نے یہ دیکھ کر اپنی جماعت سے فرمایا ، بابلیون (تمہارے بابل کی طرح شاداب مقام) اور ایک بہترین جگہ منتخب کرکے نیل کے کنارے بس گئے حضرت ادریس علیہ السلام کے اس جملہ (بابلیون) نے ایسی شہرت پائی کہ عرب کے علاوہ قدیم اقوام بھی اس سرزمین کو بابیلون ہی کہنے لگیں ، البتہ عرب نے اس کا نام مصر بتایا اور اس کی وجہ تسمیہ یہ سنائی کہ طوفان نوح علیہ السلام کے بعد یہ مصر بن حام کی نسل کا مسکن و موطن بنا ہے ۔


ارمیس یا ہرمیس یونان کا ایک مشہور منجم اور ماہر فلکیات حکیم تھا اسی لیے اس کو ارمیس (عطارد کہتے تھے ، یونانی غلطی سے ادریس اور ارمیس کو ایک ہی شخص تسلیم کرتے ہیں حالانکہ ایسی فاش غلطی ہے جس کےلیے کوئی دلیل نہیں) ۔ بابل کے معنی نہر کے ہیں اور چونکہ بابل دجلہ وفرات کی نہروں سے سرسبز وشاداب تھا اس لیے اس نام سے موسوم ہو گیا ، یہ عراق کا مشہور شہر تھا جو فنا ہوگیا۔ عراق کہ جس کو قدیم میں میسوپوٹیمیا کہتے تھے ۔ جبکہ بابی لون کے معنی میں مختلف اقوال ہیں، مثلاً تمہاری طرح کی نہر ، مبارک نہر ، مگر سب سے بہتر قول یہ ہے کہ (یون) سریانی میں تفضیل کی علامت ہے اور معنی ہیں (بڑی نہر) ۔


حضرت ادریس علیہ السلام اور ان کے پیرو جماعت نے جب مصر میں سکونت اختیار کرلی تو یہاں بھی انہوں نے پیغامِ الٰہی اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض انجام دینا شروع کر دیا کہا جاتا ہے کہ ان کے زمانہ میں بہتر (۷۲) زبانین بولی جاتی تھیں ، اور اللہ تعالیٰ کی عطا و بخشش سے یہ وقت کی تمام زبانوں کے زبان دان تھے ، اور ہر ایک جماعت کو اسی کی زبان میں تبلیغ فرمایا کرتے تھے ۔


حضرت ادریس علیہ السلام نے دین الٰہی کے پیغام کے علاوہ سیاست ، مدن شہری زندگی اور بود و ماند کے متمدن طریقوں کی بھی تعلیم و تلقین کی اور اس کےلیے انہوں نے ہرایک فرقہ جماعت سے طلبہ جمع کیے اور ان کی مدنی سیاست اور اس کے اصول و قواعد سکھائے ، جب یہ طلبہ کامل و ماہرین بن کر اپنے قبائل کی طرف لوٹے تو انہوں نے شہر اور بستیاں آباد کیں جن کو مدنی اصول پر بسایا ، ان شہروں کی تعداد کم و بیش ۲۰۰ کے قریب تھی جن میں سے سب سے چھوٹا شہر (ربا یا رہا) تھا ، حضرت ادریس علیہ السلام نے ان طلبہ کو دوسرے علوم کی بھی تعلیم دی جس میں علم حکمت اور علم نجوم جیسے علوم بھی شامل ہیں ۔


حضرت ادریس علیہ السلام وہ پہلی ہستی ہیں جنہوں نے علم وحکمت اور نجوم کی ابتدا کی ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو افلاک اور ان کی ترکیب ، کواکب اور ان کے اجتماع وافتراق کے نقاط اور ان کے باہم کشش کے رموز و اسرار کی تعلیم دی ، اور ان کو علم عدد و حساب کا عالم بنایا ، اور اگر اس پیغمبرِ خدا کے ذریعہ ان علوم کا اکتشاف نہ ہوتا تو انسانی طبائع کی وہاں تک رسائی مشکل تھی ، انہوں نے مختلف گروہوں اور امتوں کےلیے ان کے مناسب حال قوانین و قواعد مقرر فرمائے اور اقطاعِ عالم کو چار حصوں میں منقسم کر کے ہر ربع کے لیئے ایک حاکم مقرر کیا جو اس حصہ زمین کی سیاست و ملوکیت کا ذمہ دار قرار پایا ، اور ان چاروں کےلیے ضروری قرار دیا کہ تمام قوانین سے مقدم شریعت کا وہ قانون رہے گا جس کی تعلیم وحی الٰہی کے ذریعے میں نے تم کو دی ہے ، اس سلسلہ کے سب سے پہلے چار بادشاہوں کے نام درج ذیل ہیں : ⬇


1 ۔ ایلاوس (بمعنی رحیم)

2 ۔ زوس

3 ۔ اسقلیبوس

4 ۔ زوسامون یا ایلاوس امون یا بسیلوس ۔


حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی ادریس ، سفید رنگ کے طویل القامت تھے اس کا سینہ چوڑا تھا اور جسم پر بال کم تھے اور سر پر بڑے بڑے بال تھے ، جب اللہ تعالیٰ نے زمین پر الہ زمین کا ظلم اور اللہ تعالیٰ کے احکام سے سرکشی دیکھی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو چھٹی آسمان کی طرف اٹھا لیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے و رفعنا مکانا علیا (مریم :57)۔(المستدرک جلد ٢ صفحہ 549 مطبوعہ دارالباز مکہ مکرمہ،چشتی)


علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی 1270 ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : حضرت ادریس، حضرت نوح سے پہلے نبی بنائے گئے تھے ، المستدرک میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کے درمیان ایک ہزار سال کا عرصہ تھا ، ان کا نام اخنوخ بن یرد بن مھلاییل بن انوش بن قینان بن شیث بن آدم (علیہم السلام) ہے۔ وھب بن منبہ سے روایت ہے کہ یہ حضرت نوح علیہ السلام کے دادا ہیں اور مشہور یہ ہے کہ یہ ان کے باپ کے دادا ہیں کیونکہ حضرت نوح لمک بن متوشلخ بن اخنوخ کے بیٹے ہیں ۔ حضرت ادریس وہ پہلے شخص ہیں جس نے ساتروں اور حساب میں غور و فکر کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو ان کے معجزات میں رکھا ، جیسا کہ البحر المحیط میں مذکور ہے اور وہ پہلے نبی ہیں جنہوں نے قلم کے ساتھ خط کھینچا ۔ کپڑے سیئے اور سلے ہوئے کپڑے پہنے اور وہ درزی تھے اور آپ سے پہلے لوگ جانوروں کی کھالوں سے جسم پوشی کرتے تھے اور حضرت آدم کے بعد ان کو سب سے پہلے نبی بنا کر بھیجا گیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر تیس صحیفے نازل کئے تھے اور وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اپنے اور تولنے کے آلات اور ہتھیار بنئاے اور بنو قابیل سے قتال کیا ، حضرت ابن مسعود سے ایک روایت ہے کہ وہ حضرت الیاس ہیں اور اعتماد پہلے قول پر ہے اور ادریس کا لفظ سریانی ہے اور یہ درس سے مشتق نہیں ہے کیونکہ غیر عربی کو عربی سے مشتق کرنے کا کسی نے قول نہیں کیا اور اگر یہ عربی سے مشتق ہوتا تو پھر غیر منصرف نہ ہوتا حالانکہ یہ غیر منصرف ہے، البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ سریانی زبان میں اس کا معنی عربی کے قریب ہوا اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ ان کا نام ادریس اس لئے ہے کہ یہ درس تدریس بہت کرتے تھے ۔ (تفسیر روح المعانی جز 16 صفحہ 153 - 154 مطبوعہ دارالفکر بیروت 1417 ھ،چشتی)


معاویہ بن الحکم سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے رمل کے خط کھینچنے کے متعلق سوال کیا آپ نے فرمایا : ایک نبی خط کھینچتے تھے پس جس کا خط ان کے خط کے موافق ہو جائے سو وہ درست ہے ۔ (مسند احمد رقم الحدیث :23823، دارالفکر، 24164، عالم الکتب،چشتی)(صحیح مسلم رقم الحدیث :537)(سنن ابودائود رقم الحدیث 930)(سنن النسائی رقم الحدیث 1218)(سنن الدارمی رقم الحدیث :1502) 


رمل ایک علم ہے جس میں ہندسوں اور خطوط وغیرہ کے ذریعہ غیب کی بات دریافتک رتے ہیں۔ نجوم، جوتش (فیروز اللغات صفحہ 718) زائچہ بنانے کو بھی رمل کہتے ہیں : زائچہ اس کا غذ کو کہتے ہیں جس کو نجومی بچے کی پیدائش کے وقت تیار کرتے ہیں ، اس میں ولادت کی تاریخ ، وقت ، ماہ و وسال وغیرہ درج ہوتا ہے اور وقت پیدائش کے مطابق اس کی ساری عمر کے نیک و بد کا حال بتلایا جاتا ہے ، کنڈلی ، جنم پتر ، رمل کی شکلیں جو مال قرعہ ڈال کر بناتے ہیں ، لگن کنڈلی کھینچنا ، جنم پتری بنانا ۔ (قائد اللغات صفحہ 551) 


قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی متوفی 544 ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : یہ وہ خطوط ہیں جن کو نجومی کھینچتے تھے اور اب لوگوں نے ان کو ترک کردیا ہے ، نجوم نرم زمین پر جلدی جلدی خطوط کھینچتا تاکہ ان کو گنا نہ جاسکے پھر واپس آ کردو دو خط مٹاتا اگر دو خط باقی رہ جاتے تو یہ کامیابی کی علامت تھی اور اگر ایک خط باقی رہ جاتا تو یہ ناکامی کی علامت تھی۔ مکی نے اس کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ وہ نبی اپنی انگشت شہادت اور انگشت وسطی سے ریت پر خط کھینچتے تھے، اب ان کی نبوت منقطع ہوچکی ہے اس لیے اب یہ جائز نہیں ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ظاہر قول کا معنی بھی یہ ہے کہ ہماری شریعت میں یہ منسوخ ہے ۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم جلد ٢ صفحہ 464 مطبوعہ دارالوفاء بیروت 1419 ھ،چشتی)


علامہ ابوسلیمان خطابی متوفی 388 ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ابن الاعربای نے اس کی یہ تفسیر کی ہے کہ ایک شخص نجومی کے پاس جاتا اس کے سامنے ایک لڑکا ہوتا وہ اس کو کہتا کہ ریت میں بہت سے خطوط کھینچو، پھر کچھ کلمات پڑھ کر اس سے کہتا کہ ان خطوط میں سے دو دو خط مٹائو، پھر دیکھتا اگر آخر میں دو خط بچ گئے تو وہ کامیابی کی علامت ہوتی اور اگر آخر میں ایک خط بچتا تو وہ ناکامی کی علامت ہوتی ۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو فرمایا ہے جس کا خط اس نبی کے خط کے موافق ہو گیا اس میں اس سے منع کرنے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اس نبی کی نبوت منقطع ہو چکی ہے اور ان کے خط کھینچنے کے طریقہ کو جاننے کا اب کوئی ذریعہ نہیں ہے ۔ (معالم السنن جلد ١ صفحہ 437 مع مختصر سنن ابو دائود جلد ١ صفحہ 437 دارالمعرفتہ بیروت)


علامہ یحییٰ بن شرف نووی شافعی متوفی 676 ھ علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ : آپ کا مقصود یہ ہے کہ رمل حرام ہے کیونکہ موافقفت کے یقین کے بغیر یہ جائز نہیں ہے اور ہمارے پاس اس یقین کے حصول کا کوئی ذریعہ نہیں ہے ۔ (صحیح مسلم بشرح النوادی صفحہ 1807 مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ 1417 ھ) 


ملا علی بن سلطان محمد القاری المتوفی 1014 ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس نبی کا ذکر کیا ہے وہ حضرت ادریس یا دانیال علیہما السلام تھے ۔ (المرقات جلد ٣ صفحہ ٤ مطبوعہ مکتبہ امداد یہ ملتان، 1390 ھ)


علامہ ابوالسعادات المبارک بن محمد ابن الاثیر الجزرری المتوفی 606 ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : میں کہتا ہوں جس خط کی طرف حدیث میں اشارہ کیا گیا ہے وہ مشہور و معروف علم ہے اور لوگوں کی اس میں بہت تصافیف ہیں اور اس علم پر اب بھی عمل کیا جاتا ہے ۔ ان کی اس میں بہت سی اصطلاحات اور بہت سے نام ہیں اس علم سے وہ دل کے حلا ات وغیرہ معلوم کر لیتے ہیں اور بعض اوقات وہ صحیح بات معلوم کرلیتے ہیں ۔ (النہایہ جلد ٢ صفحہ 45 - 46 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1418 ھ)


اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس علیہ السلام کے متعلق فرمایا : ہم نے ان کو بلند جگہ پر اٹھا لیا (سورہ مریم آیت نمبر 57) صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چوتھے آسمان کے پاس سے گزرے تو وہاں حضرت ادریس علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ۔ 


امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : ھلال بن یساف بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے میرے سامنے کعب سے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے جو حضرت ادریس علیہ السلام کے متعلق فرمایا ہے ورفعناہ مکانا علیا ہم نے ان کو بلند جگہ پر اٹھا لیا اس کا کیا مطلب ہے ؟ کعب نے کہا حضرت ادریس کی طرف اللہ نے یہ وحی کی کہ میں ہر روز تمہارے اتنے عمل بلند کروں گا جتنے تمام بنو آدم کے اعمال ہیں تو تم زیادہ عمل کرنے سے محبت رکھو ، پھر فرشتوں میں سے حضرت ادریس کے ایک دوست ان کے پاس آئے تو حضرت ادریس نے ان کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف اس طرح وحی کی ہے تو تم ملک الموت سے کہو کہ وہ میری روح قبض کرنے کو مئوخر کر دے تاکہ میں اور زیادہ عمل کروں ، وہ فرشتہ حضرت ادریس کو اپنے پروں پر بٹھا کر آسمان پر چڑھ گیا جب وہ چوتھے آسمان پر پہنچا تو ملک الموت نیچے اتر رہے تھے تو اس فرشتہ نے ملک الموت سے وہ بات کہی جو حضرت ادریس نے اس سے کہی تھی ملک الموت نے کہا ادریس کہاں ہیں ؟ اس فرشتہ نے کہا وہ میری پیٹھ پر ہیں ۔ ملک الموت نے کہا حیرت کی بات ہے مجھے ادریس کی روح قبض کرنے کے لئے چوتھے آسمان پر بھیجا گیا ہے اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ میں ان کی روح چوتھے آسمان پر کیسے قبض کروں گا وہ تو زمین پر ہیں، پھر انہوں نے چوتھے آسمان پر حضرت ادریس کی روح قبض کرلی ۔ (جامع البیان رقم الحدیث :17917، مطبوعہ بیروت 1415 ھ)


حافظ ابن کثیر نے اس حدیث کو ذکر کر کے لکھا ہے کہ : یہ حدیث اسرائیلیات سے ہے اور اس کی بعض عبارت میں نکارت ہے (یعنی ناقابل یقین باتیں ہیں) مجاہد سے اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو انہوں نے کہا حضرت ادریس کو آسمان پر اٹھا لیا گیا اور ان کو موت نہیں آئی جیسے حضرت عیسیٰ کو اٹھا لیا گیا۔ اگر ان کی مراد یہ ہے کہ ان کو ابھی تک موت نہیں آئی تو یہ محل نظر ہے اور اگر اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ ان کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا اور پھر وہاں ان کی روح قبض کرلی گئی تو پھر یہ کعب کی روایت کے منافی نہیں ہے ۔ عوفی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ حضرت ادیرس کو چھٹے آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا اور وہیں ان کی روح قبض کرلی گی اور جو حدیث متفق علیہ ہے وہ یہ ہے کہ وہ چوتھے آسمان میں ہیں، حسن بصری نے کہا وہ جنت میں ہیں ۔ امام بخای نے حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ الیاس ہی ادریس ہیں اور معراج کی حدیث میں بیان کیا ہے کہ جب آپ حضرت ادریس علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو انہوں نے کہا نیک بھائی اور نیک نبی کو مرحبا ہو، اور جس طرح حضرت آدم اور حضرت ابراہیم نے کہا تھا نیک بیٹے کو مرحبا ہو اس طرح نہیں کہا اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ادریس آپ کے اجداد میں سے نہیں ہیں، لیکن یہ کوئی قطعی دلیل نہیں ہے ہوسکتا ہے انہوں نے تواضعاً آپ کو بھائی کہا ہو اور بیٹا نہ کہا ہو ۔ (البدایہ والنہایہ جلد 3 صفحہ 158, 160، مطبوعہ دارالفکر بیروت 1418 ھ)


امام ابن جریر نے مجاہد علیہما الرحمہ نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت ادریس چوتھے آسمان میں ہیں ۔ حضرت انس اور قتادہ سے بھی یہی روایت ہے اور صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی اسی طرح ہے ۔ (جامع البیان جز 16 صفحہ 121-122 مطبوعہ دارالفکر بیروت)


امام عبدالرحمٰن بن علی بن محمد جوزی متوفی 597 ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : زید بن اسلم رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کیا ہے آپ نے فرمایا : جیسے اور بنو آدم کے اعمال اوپر چڑھائے جاتے ہیں اسی طرح حضرت کے اعمال بھی اور چڑھائے جاتے تھے ۔ ملک الموت کو ان سے محبت ہوگئی۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے ان کی دوستی کی اجازت لی اور آدمی کی صورت میں زمین پر آگئی اور ان کے ساتھ رہنے لگے، جب حضرت ادریس کو معلوم ہوگیا کہ یہ عزرائیل ہیں تو ایک دن ان سے کہا مجھے آپ سے ایک کام ہے، پوچھا کیا کام ہے، کہا مجھے موت کا ذائقہ چکھائیں، میں چاہتا ہوں کہ مجھے اس کی شدت کا پتا چلے تاکہ میں اس کی تیاری کروں، اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ ان کی روح ایک ساعت کے لئے قبض کرلو، پھر چھوڑ دینا۔ ملک الموت نے اسی طرح کیا، پھر ملک الموت نے پوچھا آپ نے موت کو کیسا پایا۔ تو انہوں نے کہا میں نے موت کے متعلق جتنا سنا تھا اس سے زیادہ سخت پایا۔ پھر ان سے کہا میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے دوزخ دکھائیں، ملک الموت ان کو لے کر گئے اور ان کو دوزخ دکھا دی، پھر کہا میں چاتہا ہوں کہ آپ مجھے جنت دکھائیں، انہوں نے جنت دکھا دی، حضرت ادریس جنت میں داخل ہو کر گھومنے لگے، پھر ملک الموت نے کہا اب آپ باہر نکلیں، حضرت ادریس نے کہا اللہ کی قسم ! میں باہر نہیں نکلوں گا حتی کہ اللہ تعالیٰ مجھے باہر نکلنے کا حکم دے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے ایک فرشتہ بھیجا اس نے ملک الموت سے پوچھا آپ کیا کہتے ہیں تو انہوں نے پورا قصہ بیان کیا۔ پھر حضرت ادریس نے کہا آپ کیا کہتے ہیں تو انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کل نفس ذائقۃ الموت (آل عمران :185) ، ہر نفس موت کو چکھنے والا ہے اور میں نے موت کو چکھ لیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وان منکم الاواردھا (مریم :171) ” تم میں سے ہر شخص جہنم پر وارد ہوگا “ اور میں دوزخ پر وارد ہوچکا ہوں، اور اللہ تعالیٰ نے اہل جنت سے فرمایا : وما ھم منھا بمخرجین (الحجر :48) ’ دوہ جنت سے نکالے نہیں جائیں گے “ پس اللہ کی قسم میں جنت سے باہر نہیں نکلوں گا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت سے باہر نکلنے کا حکم دے۔ پھر اوپر سے ایک ہاتف کی آواز آئی یہ میرے اذن سے داخل ہوا ہے اور اس نے جو کچھ کیا ہے وہ میرے حکم سے کیا ہے اس کا راستہ چھوڑ دو ۔ امام ابن جوزی فرماتے ہیں اگر یہ اعتراض ہو کہ حضرت ادریس کو ان آیات کا کیسے علم ہوا یہ تو و ہماری کتاب میں ہیں تو ابن الانباری نے بعض علماء سے اس کا یہ جواب ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس کو ان باتوں کا علم دے دیا تھا جو قرآن میں ہیں کہ ہر شخص نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور ہر شخص کا دوزخ سے گزر ہوگا اور اہل جنت کو جنت سے نکالا نہیں جائے گا ۔ (زاد المسیر ج ٥ ص 241-242،معالم المتنزیل ج و ص 167،الجامع لاحکام القرآن جز ١ ۃ ص 43-44،الدرا المنثورج ٥ ص 519-521،روح المعانی جز ١١ ص 155-156 تفسیر ابوالسعود ج ٤ ص 246)


قرآن مجید میں ہے ورفعناہ مکانا علیا (مریم :57) ” ہم نے ادریس کو بلند جگہ پر اٹھا لیا “ بعض علماء نے کہا اس سے کسی جگہ پر اٹھانا مراد نہیں ہے حتیٰ کہ حضرت ادیرس کا آسمان پر ہونا لازم آئے بلکہ اس سے مراتب کی بلندی مراد ہے یعنی ان کے درجات کو بلند کیا ۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے یہی معنی کیا ہے لیکن اس پر یہ اعتراض ہے کہ قرآن مجید میں ہے ہم نے ان کو بلند جگہ پر اٹھا لیا اور یہ درجات کی بلندی کے منافی ہے ۔


کعب کی روایت میں ہے کہ حضرت ادریس کی روح چھٹے آسمان پر قبض کرلی گئی۔ حضرت ابن عباس کا بھی یہی قول بنے مجاہد اور حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ وہ چوتھے آسمان پر ہیں اور زید بن اسلم نے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ حضرت ادریس جنت میں زندہ ہیں ۔


امام الحسین بن مسعود بغوی متوفی 516 ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : اس میں اختلاف ہے کہ حضرت ادریس آسمان پر ندہ ہیں یا فوت شدہ ہیں، بعض نے کہا وہ فوت شدہ ہیں اور بعض نے کہا وہ زندہ ہیں۔ انہوں نے کہا چار نبی زندہ ہیں دو زمین پر ہیں خضر اور الیاس اور دو آسمان میں ہیں ادریس اور عیسیٰ علیہم السلام ۔ (معالم التنزیل ج ٣ ص 167، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1414 ھ،چشتی)


امام رازی متوفی 606 ھ اور علامہ ابوالحیان اندلسی متوفی 754 ھ علیہما الرحمہ نے لکھا ہے کہ : ایک فرشتہ ان کا دوست تھا وہ ان کو چوتھے آسمان پر لے گیا وہاں ان کی روح قبض کرلی گئی ۔ (تفسیر کبیرج ج ٧ ص 550،البحر المحیط ج ٧ ص 276)


قاضی بیضاوی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ مکاناً علیا سے مراد ہے ان کو شرفِ نبوت اور مقامِ قرب عطا کیا گیا ، ایک قول یہ ہے کہ وہ جنت میں ہیں ایک قول یہ ہے کہ وہ چھٹے آسمان میں ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ وہ چوتھے آسمان میں ہیں ۔ (تفسیر البیضاوی مع عنایتہ القاضی جلد ٦ صفحہ 285 - 286 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1417 ھ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔