حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو اذیت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم
محترم قارئینِ کرام : یحیٰ بن ابوکثیر روایت کرتے ہیں : خَرَجَ النَّبِی صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ بَيْتٍ عَائشةَ فَمَرَّ عَلَی فَاطِمَةَ فَسَمِعَ حُسَيْنًا يُبْکِيْ رضی الله عنه فَقَالَ اَلَمْ تَعْلَمِيْ اَنَّ بَکَاءَ هُ يُؤْذِيْنِيْ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے نکلے ، حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا (کے گھر کے پاس سے) گزرے تو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو روتے ہوئے سنا تو فرمایا : فاطمہ کیا تو نہیں جانتی کہ مجھے اس کا رونا تکلیف دیتا ہے ۔ (طبرانی المعجم الکبير جلد 3 صفحہ 116 حدیث نمبر 2847)
جب امام حسین رضی اللہ عنہ کا رونا آج برداشت نہیں کر سکتے تو کربلا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کی تکلیف کب برداشت کی ہوگی ۔ اور کیسے برداشت کی ہوگی ؟ یہی وجہ تھی کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے ۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے ۔ سیدنا مولیٰ علی المرتضی بھی شہید ہوئے ۔ سب شہادتیں اکبر و اعظم ہیں مگر کسی کی شہادت کے دن اس کے مشہد پر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نہیں تشریف لے گئے ۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ خود بیان کرتے ہیں کہ میری شہادت سے ایک رات قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میرے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا : عثمان آج روزہ رکھ لینا اور افطار میرے پاس آ کر کرلینا جو شہید ہوا وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں خود پہنچا اور دوسری طرف یہ عالم کہ کربلا کا دن ہے۔ ادھر شہادتیں ہورہی ہیں اور ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بنفس نفیس صبح سے آخری شہادت تک میدان کربلا میں خود موجود ہیں ۔ مشہدِ حسین رضی اللہ عنہ اور میدانِ کربلا میں خود موجود رہنا یہ شرف نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کسی اور کو نہیں دیا ۔ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے دی ۔ ام المومنین حضرت ام سلمی رضی اللہ عنہا کو مٹی دی اور فرمایا کہ جب یہ سرخ ہوجائے تو سمجھ لینا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے ہیں حتی کہ میدان کربلا اور سن شہادت کی خبر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے دی ، کتب حدیث میں کثرت سے اس پر احادیث موجود ہیں ۔ صحیح بخاری کتاب العلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے دو طرح کی خبریں اور علم سیکھے ۔ ایک قسم اس علم کی ہے جو میں مجمع عام میں ہرکس و ناکس کے سامنے بیان کرتا رہتا ہوں۔ وہ علم احکام شریعت اور احکام طریقت کا ہے ۔ دوسرا علم ایسے حقائق و واقعات اور خبریں ہیں کہ اگر وہ لوگوں کے سامنے بیان کردوں تو میری گردن حلق سے کاٹ دی جائے ۔ صحیح بخاری کی یہ حدیث کتاب العلم میں ہے اس پر امام حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ وہ علم جو سیدنا ابوہرہرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سیکھا اور جسے عوام الناس کے سامنے بیان کرتے کتراتے اور خواص کے سامنے بیان کرتے تھے اس علم میں سے یہ بھی تھا کہ جب دس ہجری کا سن قریب آگیا تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے : اے اللہ میں سن ساٹھ ہجری اور تخت سلطنت پر نوعمر لونڈوں کے حکمران بن کر بیٹھنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور سن ساٹھ ہجری کا سورج طلوع ہونے سے پہلے مجھے دنیا سے اٹھا لینا ۔
امام ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ شرح بخاری میں فرماتے ہیں : یزید کے حکومت پر بیٹھنے سے ایک سال پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دعا قبول کی اور انہیں اپنے پاس بلالیا ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں اس علم میں سے ایک یہ بھی تھا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں مروان بن حکم سے خطاب فرمایا : اے مروان! میں نے صادق المصدوق نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : قریش کے خاندان میں سے ایک گھرانہ کے نادان ، بیوقوف لونڈوں کے ہاتھوں میری امت برباد ہوجائے گی ۔ گویا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پوری امت کی ہلاکت قرار دیا ہے ۔ اس وقت تو مروان نے یہ سن کر کہا کہ ان لونڈوں پر خدا کی لعنت ہو لیکن اسے خبر نہ تھی کہ اس کے ہی خاندان کے لونڈوں کی بات ہورہی ہے ۔ امام حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قریش کے وہ بیوقوف لونڈے جنہوں نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دین کو تباہ کیا تھا ان میں سے پہلا لونڈا یزید تھا ۔ صحیح ترمذی میں سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خواب دیکھا کہ بنو امیہ کے لوگ میری قبر پر کھیل رہے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا قلب اطہر مغموم ہوا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم لیٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکوثر اور سورۃ القدر نازل کی اور فرمایا کہ یہ ایک رات ایک ہزار مہینے سے افضل ہے ۔ یعنی میدان کربلا میں جو اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم نے ایک رات گزاری وہ مثل لیلۃ القدر تھی ۔
حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا عبرتناک انجام
بد بخت قاتلانِ حسین کے حالات ان لوگوں پر پوشیدہ نہیں ہوں گے جنہوں نے کتبِ تاریخ کا مطالعہ کیا ہے۔ہر وہ شخص جو کسی بھی طرح سے قتل حسین میں شریک تھا یا اس پر راضی اور خوش تھا ۔عذاب اخروی جس کا وہ مستحق ٹھہرا،سے قطعِ نظر اس دنیائے ناپائیدار میں بھی اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچا ۔
ہر وہ شخص جو معرکۂ کربلا میں حضرت سید الشہداء کے مقابلہ کی غرض سے آیا تھا اس دنیا سے عذاب دیکھے بغیر اور اپنے کیے کی سزا پائے بغیر نہیں گیا۔بعض قتل کر دیے گئے۔کچھ نابینا ہو گئے ، بعض کا چہرہ سیاہ ہو گیا ،کچھ شدت پیاس سے ہلاک ہوئے اوربعض کی دولت و حکومت قلیل مدت میں جاتی رہی۔بعض دیگر عقوبات میں مبتلا ہوئے ۔
حضرت علامہ ابن جوزی نے سدّی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے ایک شخص کی دعوت کی مجلس میں یہ ذکر چلاکہ حضرت حسینؓ کے قتل میں جوبھی شریک ہوااس کو دنیا ہی میں جلد سزا مل گئی اس شخص نے کہاکہ بالکل غلط ہے میں خود ان کے قتل میں شریک تھا میرا کچھ بھی نہیں ہوا،اتنا کہہ کریہ شخص مجلس سے اٹھ کر گھرگیا جاتے ہی چراغ کی بتی درست کرنے لگا اتنے میں اس کے کپڑوں میں آگ لگ گئی اوروہیں جل بھن کررہ گیا ۔ سدّی کہتے ہیں کہ میں نے خود اس کو صبح دیکھا تو کوئلہ ہو چکا تھا ۔ (اسوۂ حسینی صفحہ ۱۰۱ ، ۱۰۲،چشتی)
قہرِ الہٰی کی بھڑکائی ہوئی آگ
روایت ہے کہ ایک جماعت آپس میں گفتگو کر رہی تھی کہ دشمنانِ حسین میں سے کوئی شخص ایسا نہیں دیکھا جو اس دنیا سے مصیبت و بلاء میں مبتلاء ہوئے بغیر چلا گیا ہو۔اس جماعت میں سے ایک بوڑھے نے کہا کہ میں بھی قتلِ حسین بن علی میں شریک تھا۔مجھ پر تو ابھی تک کوئی مصیبت نازل نہیں ہوئی۔ابھی یہ بات کر رہی رہا تھا کہ چراغ کے فتیلہ کو درست کرنے کے لیے اپنی جگہ سے اٹھا ۔اچانک شعلۂ چراغ نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس بری طرح سے جلا کہ اچھلتا کودتا واپس آیا اور چلانے لگا:میں جل گیا ۔میں جل گیا۔یہاں تک کہ اس کی یہ سوزش اس درجہ بڑھی کہ اس نے اپنے آپ کو دریا میں ڈال دیا۔مگریہ آگ تو قہرِ الہٰی نے بھڑکائی تھی دریا اسے کیا ٹھنڈا کرتا؟وہ تو اس کے لیے تیل کا کام کر گیا اور وہ اس انداز سے جلا کہ اس کا وجود جہنم کا ایندھن بن گیا ۔ )تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار،چشتی)
ایک پری چہرہ سیاہ رو ہو گیا
مزید روایت ہے کہ ابن زیاد کے لشکریوں میں سے ایک شخص جس نے امام عالی مقام کے سر کو اپنے فتراک میں ڈالاتھا خوبصورتی کے اعتبار سے بہت زیادہ شہرت یافتہ تھا۔بعد میں جب اسے دیکھا گیا تو اس کا چہرہ سیاہ ہو چکاتھا۔اس سے پوچھا گیا :تو تو بڑا خوب رو اور صاحبِ حسن و جمال تھا۔ کیا وجہ ہے کہ تیرے چہرے پرسیاہی اور کالک نے ڈیرہ جما لیا ہے۔کہنے لگا: جس روز میں نے حسین کے سر کو اپنے فتراک میں ڈالاتھا اسی دن سے روزانہ دو آدمی آتے ہیں مجھے دونوں بازؤں سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے آگ کے پاس لے جاتے ہیں اور پھر مجھے اس آگ پر الٹا لٹکا دیتے ہیںبعد ازاں اتار لاتے ہیں۔اس دن سے میرا چہرہ سیاہ اور حال تباہ ہے۔یہ شخص اسی عذاب میں مبتلا رہایہاں تک کہ راہی جہنم ہوا ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
آنکھوں میں خون آلود سلائی پھیردی گئی
واقدی سے منقول ہے:مقتلِ حسین کے حاضرین میں سے ایک بوڑھا آدمی نابینا ہو گیاتھا۔جب اس سے نابینا ہونے کا سبب پوچھا گیاتو کہنے لگا : میں نے خواب میں رسالت پناہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھا : انہوں نے بازو تک آستین چڑھائی ہوئی تھی اور دستِ مبارک میں ننگی تلوار تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے رو بروزمین پر فرش بچھایا گیا تھا یہ فرش دس قاتلانِ حسین کو ذبح کر کے ان کے سروں پر بچھایا گیا تھا۔جوں ہی آں جناب کی نظرمجھ پر پڑی ۔آپ نے مجھے نفرین کی اور میری آنکھوں میں خون آلود سلائی پھیردی گئی جس کے سببمیں اندھا ہوگیا ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
ڈاڑھی خنزیر کی دم بن گئی
کہتے ہیں شام میں ایک شخص تھا جو قتلِ حسین میں شریک تھا اس کی داڑھی خنزیر کی دم بن کر لوگوں کےلیے نشانِ عبرت بن گئی تھی ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار،چشتی)
سینے میں آتش جہنم
روایت ہے کہ وہ شخص جس نے حضرت عبداللہ علی اصغرؑ کے تشنہ حلقوم پر تیر چلایا تھاایک ایسے مرض میں مبتلا ہوگیا جس سے اس کے سینہ میں حرارت اور گرمی جب کہ پشت میں ٹھنڈک پیدا ہو گئی۔ہر چند کہ اس کے سامنے پنکھا جھلتے تھے اور اس کی پشت کی جانب آگ روشن کرتے تھے وہ واویلا کرتا تھا۔نہ تو اس کی آتشِ سینہ سرد ہوتی اور نہ ہی پشت کی ٹھنڈک کو افاقہ ہوتا تھا۔پیاس کی شدت اس درجہ بڑھ گئی کہ مٹکوں کے مٹکے پانی پی لیتا تھا اور پھر بھی ۔ العطش ۔ العطش ۔ کی صدائیں بلند کرتا۔یہاں تک کہ اس کا پیٹ پانی پی پی کر پھول گیا اور بالآخر پھٹ گیا ۔ اسی عقوبت کی وجہ سے واصل جہنم ہوا ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
یہ تھی ان لوگوں کے حالات کی مختصر سی جھلک جو معرکۂ کربلا میں حاضر تھے۔اس کے بعدہم چند خواص جن میں ابن زیاد بد نہاد،ابن سعد ، شمرذی الجوشن وغیرہ شامل ہیں کا مختصراً ذکر کرتے ہیں ۔
ابن سعدکا انجام
جب مختار ثقفی (یہ وہی مختار ثقفی ہے جو بعد میں دعویٰ نبوت کر کےمرتد ہو گیا تھا ۔ تاریخ الخلفا) نے کوفہ پر اپنے تسلط کو مضبوط کر لیا تو اس نے فرمان جاری کیا کہ وہ تمام لوگ جو ابن سعد کے لشکر میں شامل تھے اور حسین رضی اللہ عنہ کے قتال میں شریک تھے ان کو ایک ایک کر کے میرے پاس لایا جائے چناں چہ چند سو لوگ لائے گئے جن تمام کی گردن مار کر انہیں سولی پر لٹکا دیا گیا ۔
مختار ثقفی نے اپنے خاص غلام کو حکم دیا کہ وہ ابن سعد کو حاضر کرے ۔ حفص بن سعد حاضر ہوا ۔ مختار نے پوچھا تمہارا باپ کہاں ہے ۔ بولا گھر میں بیٹھا ہے ۔ مختار نے کہا : ’’اب وہ ’’رے‘‘ کی حکومت اور اس کے اختیارات سے دست بردار ہو کر کس طرح اپنے گھر میں بیٹھا ہوا ہے ۔ اس نے قتلِ حسین کے دن خانہ نشینی کیوں اختیار نہ کی‘‘ یہ کہہ کر حکم دیا کہ ابن سعد کا سر کاٹ لیا جائے اور اس کے بیٹے کو بھی قتل کر دیا جائے ۔
شمر ذی الجوشنکی گردن زدنی
پھر شمر کو طلب کیا اور اس کی گردن زدنی کا حکم جاری کیا ۔
اس کے بعد مختارثقفی نے ان ملعونوں کے سروں کو محمد بن حنفیہ کے پاس بھیج دیا اور حکم دیا کہ معرکہ ٔکربلا میں ابن سعد کے ساتھ شریک ہونے والے باقی ماندہ لوگوں میں سے جس کو بھی پائیں قتل کر دیں۔جب لوگوں نے یہ دیکھا کہ مختارثقفی امام عالی مقام کا قصاص لے رہا ہے تو انہوں نے بصرہ بھاگ جانے کا ارادہ کر لیا۔لیکن مختار ثقفی کے لشکریوں نے ان کا تعاقب کیا اور جو جو دستیاب ہوتے انہیں قتل کر کے لاشوں کو جلا دیا جاتا اور ان کے گھروں کو مسمار کر دیا جاتا ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار،چشتی)
خولی بن یزید کا انجام
جب خولی بن یزید کو اسیر کر کے مختار ثقفی کے سامنے لایا گیاتو اس نے حکم جاری کیا:پہلے اس کے دونوں ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے جائیں اور پھر اسے سولی پر چڑھا دیا جائے۔اس کے بعد اسے آگ میں جلادیا گیا۔اسی طرح دوسرے لشکریانِ ابن زیاد جو دستیاب ہوئے انہیں دردناک انداز میں قتل کر دیا گیا ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
قتل ابن زیادبدنہاد کی مزید تفصیلات
مختصر یہ کہ جب مختار ثقفی ابن سعد، شمراور خولی بن یزید علیہم اللعنۃ کے قتل سے فارغ ہو کر مطمئن ہوا تو ابن زیاد کے قتل کے درپے ہوا۔چناں چہ ابراہیم بن مالک اشتر کو سپاہیوں کی ایک جماعت کے ساتھ ابن زیاد کے مقابلہ کے لیے بھیجا ۔ جوں ہی ابراہیم موصل کی سرحد پر پہنچے ابن زیاد موصل سے پانچ فرسنگ کے فاصلے پر واقع ایک دریا کے کنارے اپنے لشکر کے ساتھ مقابلہ کے لیے تیار ہوگیا۔صبح کے وقت طرفین میں مقابلہ کا آغاز ہوا۔شام کے قریب ابراہیم بن مالک اشتر نے ابن زیاد کے لشکر کو شکست دی ۔ابن زیاد کی شکست خوردہ فوج نے راہِ فرار اختیار کی ۔ابراہیم اپنی فوج کے ساتھ ان کے تعاقب میں روانہ ہوئے اور حکم جاری کیا کہ مخالف فوج میں سے کسی کو بھی پائیں تو زندہ نہ چھوڑیں۔چناں چہ ابن زیاد کے بہت سے ہم راہی جان سے گئے اور ابن زیاد بھی قتل کر دیا گیا۔اس کا سر کاٹ کر ابراہیم بن مالک اشتر کے سامنے پیش کیا گیا اور ابراہیم نے اسے مختار ثقفی کے پاس کوفہ بھیج دیا۔ ابن زیاد کا سرجب کوفہ پہنچا تو اسی وقت مختار ثقفی نے دارالامارۃ میں اہلیانِ کوفہ کو جمع کر کے ایک بزم آراستہ کی اور حکم جاری کیا کہ ابن زیاد کا سر پیش کیا جائے۔جب ابن زیاد کا سر پیش کیا گیا تو مختار ثقفی نے کہا : یہ ابن زیاد کا سر ہے۔اے کوفہ کے لوگو! دیکھ لو کہ خونِ حسین کے قصاص نے ابن زیاد کو زندہ نہ چھوڑا ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار،چشتی)
مختار ثقفی نے قصاص میں ستر ہزار افراد کو قتل کیا
مفتاح النجاء میں منقول ہے کہ مختار ثقفی کے واقعہ میں اہل شام کے ستر ہزار افراد قتل کیے گئے اور یہ واقعہ دس محرم ۶۷ ہجری (واقعۂ کربلا کے ۶ سال بعد) رونما ہوا ۔
ابن زیاد کے نتھنوں میں تین بار سانپ کا گھسنا
روایاتِ صحیحہ میں مروی ہے کہ جب ابن زیاد اور اس کے دوسرے سرداروں کے سر مختار ثقفی کے سامنے لائے گئے تو اچانک ایک سانپ ظاہر ہوا اور سروں کے درمیان سے گزرتا ہواابن زیاد کے سر کے قریب آیا اور اس کے ناک کے سوراخ میں داخل ہو گیا۔کچھ دیر سر کے اندر رہا اور پھر منہ کے راستے باہر نکل آیااور غائب ہوگیا۔کہتے ہیں کہ اسی طرح یہ سانپ تین مرتبہ ظاہر ہوا اور ناک کے سوراخ سے داخل ہو کر منہ کے راستے باہر نکلا ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
دیگر اعیانِ یزیدپلید کا عبرتناک انجام
بالجملہ ابن زیاد، ابن سعد، شمر ذی الجوشن، عمر بن الحجاج،قیس بن اشعث کندی، خولی بن یزید، سنان بن انس نخعی، عبداللہ بن قیس، حکم بن طفیل اور یزید بن مالک کے علاوہ دیگر اعیان یزیدکو طرح طرح کے عذاب دے کر ہلاک کیا گیااور ان کے لاشوں پر گھوڑے دوڑائے گئے۔یہاں تک کہ ان کی ہڈیاں چور چور ہو گئیں ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار،چشتی)
قاتلان حسین مختار ثقفی کے ہاتھوں انجام کو پہنچے
مخفی نہ رہے کہ کتب تاریخ میں اختلاف ہے ۔ بعض کتب میں ابن سعد اور شمر کا قتل ابن زیاد کی ہلاکت سے پہلے مذکور ہے اور بعض کتب میں ابن زیاد کے بعدذکر کیا گیا ہے ۔ اور جیسا کہ منتقم حقیقی کا وعدہ تھا جس کاذکر واقعہ کربلا سے متعلق روایات کے ضمن میں بہ روایت حاکم مذکور ہو چکا ہے پورا ہوا اور قاتلانِ حسین رضی اللہ عنہ مختار ثقفی کے ہاتھوں اپنے انجام کوپہنچے ۔ گو کہ آخر کار مختار ثقفی کے اعتقادات میں بھی شقاوتِ ازلی کا ظہور ہوا یعنی اس نے ساتھ ساتھ دعویٰ نبوت بھی کر لیا ۔ جس کی تفصیل کتبِ تاریخ میں مسطور ہے ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کے وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میدانِ کربلا میں موجود تھے اور شہدائے کربلا کا خون ایک شیشی میں جمع کیا ہوا تھا
شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کے وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میدانِ کربلا میں موجود تھے اور شہداءِ کربلا رضی اللہ عنہم کا خون ایک شیشی میں جمع کیا ہوا تھا ۔ (فتاویٰ علمیّہ جلد دوم صفحہ 269 یہ حدیث صحیح راوی ثقہ ہیں حفاظ زبیر علی زئی محدث و محقق غیر مقلد وہابی حضرات)
اہلحدیث حضرات کے محقق علماء لکھتے ہیں : شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کی خبر نبی کریم صلی الله عليه وآله وسلم نے دے دی تھی اور بوقت شہادت امام آپ صلی الله عليه وآله وسلم کربلا میں موجود تھے آپ صلی الله عليه وآله وسلم کو صدمہ ہوا ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 104 تحقیق حافظ زبیر علی زئی غیر مقلد اہلحدیث وہابی)
اس سے یہ ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میدانِ کربلا میں موجود تھے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حیات ہیں اور جہاں چاہیں تشریف لے جا سکتے ہیں ۔
اور یہ بھی ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو شہادتِ امامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صدمہ ، پریشانی اور تکلیف ہوئی ۔
یزید کے وکیلو ذرا سوچو کیا منہ دیکھاؤ گے آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ کہو گے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خاندان کو تکلیفیں پہچانے والے یزید پلید کی حمایت میں زندگی گزار دی ؟
عن ام سلمة قالت قال رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يقتل حسين بن علي علي رأس سيتن من المهاجري ۔ (مجمع، 9 : 190)۔(بحواله طبراني في الاوسط)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا حسین بن علی کو ساٹھ ہجری کے اختتام پر شہید کر دیا جائے گا ۔
غیب کی خبریں بتانے والے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کی نشاندہی کردی کہ یہ عراق کا میدان کربلا ہوگا بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ یہ عظیم سانحہ 61 ہجری کے اختتام پر رونما ہوگا ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اکثر دعا فرمایا کرتے : اللهم انی اعوذبک من رائس الستين وامارة الصبيان ۔
ترجمہ : اے اللہ میں ساٹھ ہجری کی ابتدا اور (گنوار) لڑکوں کی حکومت سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔ (الصواعق الحرقه : 221)
60 ہجری کی ابتدا میں ملوکیت کی طرف قدم بڑھایا جاچکا تھا اور یہی ملوکیت وجہ نزاع بنی۔ اور اصولوں کی پاسداری اور اسلامی امارت کے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خاطر نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو کربلا کے میدان میں حق کا پرچم بلند کرتے ہوئے اپنی اور اپنے جان نثاروں کی جانوں کی قربانی دینا پڑی۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ اہل حق کٹ تو سکتے ہیں کسی یزید کے دست پلید پر بیعت کرکے باطل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ وہ نیزے کی انی پر چڑھ کر بھی قرآن سناتے ہیں۔ ان کے بے گور و کفن لاشوں پر گھوڑے تو دوڑائے جاسکتے ہیں لیکن انہیں باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہیں کیا جاسکتا ، یہی لوگ تاریخ کے چہرے کی تابندگی کہلاتے ہیں اور محکوم و مظلوم اقوام کی جدوجہد آزادی انہی نابغان عصر کے عظیم کارناموں کی روشنی میں جاری رکھتے ہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ 60 ہجری کی ابتدا سے پناہ مانگتے تھے کہ خلفائے راشدین کے نقش قدم سے انحراف کی راہ نکالی جا رہی تھی، لڑکوں کے ہاتھ میں عنان اقتدار دے کر اسلامی ریاست کو تماشا بنایا جا رہا تھا ۔ کہ اب سنجیدگی کی جگہ لا ابالی پن نے لے لی تھی ۔
حضرت یحیٰ حضرمی کا ارشاد ہے کہ سفر صفین میں مجھے شیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا ۔ جب ہم نینوا کے قریب پہنچے تو داماد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابو عبد اللہ ! فرات کے کنارے صبر کرنا میں نے عرض کیا ’’یہ کیا ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے جبرئیل نے خبر دی ہے : ان الحسين يقتل بشط الفرات و اراني قبضة من تربته ۔
ترجمہ : حسین رضی اللہ عنہ فرات کے کنارے قتل ہوگا اور مجھے وہاں کی مٹی بھی دکھائی ۔ (الخصائص الکبریٰ 2 : 12،چشتی)
حضرمی روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت علی شیر خدا رک کر اس زمین کو دیکھنے لگے تو اچانک بلند آواز میں گویا ہوئے ۔ ابو عبد اللہ! حسین رضی اللہ عنہ بر کرنا ۔ ہم سہم گئے ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے ، آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ ورطہ حیرت میں ڈوب گئے کہ یا الہی یہ ماجرا کیا ہے ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ اس میدان کربلا میں میرا حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگا ۔
حضرت اصبغ بن بنانہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : اتينا مع علي موضع قبر الحسين فقال ههنا مناخ رکابهم و موضع رحالهم و مهراق دمائهم فئة من ال محمد صلي الله عليه وآله وسلم يقتلون بهذه العرصة تبکی عليهم السماء والارض ۔
ترجمہ : ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قبر حسین رضی اللہ عنہ کی جگہ پر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ ان کے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ اور یہ ان کے کجاوے رکھنے کی جگہ ہے اور یہ ان کے خون بہنے کا مقام ہے۔ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک گروہ اس میدان میں شہید ہوگا جس پر زمین و آسمان روئیں گے ۔ (الخصائص الکبری، 2 : 126) (سر الشهادتين : 13)
گویا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کا پورا نقشہ کھینچ دیا کہ یہاں پر وہ شہادت کے درجہ پر فائز ہوگا اور یہاں خاندان رسول ہاشمی کا خون بہے گا ۔
ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا ذکر پہلے ہوچکا ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حسین کو عراق میں قتل کردیا جائے۔ اور یہ کہ جبرئیل نے کربلا کی مٹی لاکر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : يا ام سلمه اذا تحولت هذه الترته دما فاعلمي ان ابني قد قتل فجعلتها ام سلمة في قارورة ثم جعلت تنظر اليها کل يوم و تقول ان يوما تحولين دما ليوم عظيم ۔
ترجمہ : اے ام سلمہ رضی اللہ عنہاجب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا قتل ہوگیا ہے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے اس مٹی کو بوتل میں رکھ دیا تھا اور وہ ہرروز اس کو دیکھتیں اور فرماتیں اے مٹی! جس دن تو خون ہوجائے گی وہ دن عظیم ہوگا ۔ (الخصائص الکبری، 2 : 125،چشتی)۔(سر الشهادتين، 28)۔( المعجم الکبير للطبرانی، 3 : 108)
حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے رونے کا سبب پوچھا اور کہا : کس شے نے آپ کو گریہ و زاری میں مبتلا کر دیا ہے؟ آپ نے کہا : میں نے خواب میں نبی اکرم صلی الله عليه وآله وسلم کی زیارت کی ہے۔ آپ صلی الله عليه وآله وسلم کا سر انور اور ریش مبارک گرد آلود تھی۔ میں نے عرض کی، یا رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم ، آپ صلی الله عليه وآله وسلم کی کیسی حالت بنی ہوئی ہے ؟ آپ صلی الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا : میں نے ابھی ابھی حُسین (رضی اللہ عنہ) کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے ۔ یہ حدیث ان کتب میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہیں ۔ (جامع ترمذی صفحہ نمبر 1028 حدیث نمبر3771 باب مناقب حسن و حسین (رضی اللہ عنہما) طبع الاولیٰٰ 1426ھ، دار الکتب العربی بیروت)۔(مستدرک امام حاکم تلخیص :علامہ ذہبی جلد 4 صفحہ 387 حدیث نمبر 6895 باب ذکر ام المومنین ام سلمہ //طبع قدیمی کتب خانہ پاکستان ، جز :5 ،چشتی)(تہذیب التہذیب ابن حجر عسقلانی جلد 2 صفحہ 356 طبع الاولی ھند)(البدایہ والنھایہ ابن کثیر محقق:عبدالمحسن ترکی جلد 11 صفحہ 574 طبع الاولیٰٰ 1418 ھ، جز:21 الھجر بیروت)
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ صلی الله عليه وآله وسلم غبار آلود دوپہر کے وقت خون سے بھری ہوئی ایک شیشی لیے ہوئے ہیں۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم فداک ابی و امی، یہ کیا ہے ؟ آپ صلی الله عليه وآله وسلم نے فرمایا، یہ حسین (رضی اللہ عنہما) اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے جسے میں آج صبح سے اکٹھا کر رہاہوں ۔ عمار کہتے ہیں کہ ہم نے حساب لگایا تو ٹھیک وہی دن شہادت امام حسینؑ کا روز تھا ۔ علامہ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس روایت کو امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی اسناد قوی ہیں۔ (البدایۃ والنھایۃ)
ابن ابی الدنیا نے عبداللہ بن محمد بن ہانی ابو عبد الرحمن نحوی سے، انہوں نے مہدی بن سلیمان سے اور انہوں نے علی بن زید بن جدعان سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عباس سو کر اٹھے تو “انا للہ و انا الیہ راجعون ” کہا اور کہنے لگے اللہ کی قسم امام حسین شہید کر دیے گئے ہیں۔ ان کے اصحاب نے پوچھا کہ اے ابن عباس ! کیوں کر؟ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم کو خون کی ایک شیشی لیے ہوئے خواب میں دیکھا ہے ۔ آپ صلی الله عليه وآله وسلم نے فرمایا کہ اے ابن عباس ! کیا تم جانتے ہو کہ میرے بعد میری امت کے اشقیاء نے کیا کیا؟ انہوں نے امام حسینؑ نے شہید کر دیا ہے۔ اور یہ اس کا اور اس کے اصحاب کا خون ہے جسے میں اللہ تعالی کے حضور پیش کروں گا۔ چنانچہ وہ دن اور گھڑی لکھ لی گئی۔ اس کے بعد چوبیس دن بعد مدینہ شریف میں یہ خبر آئی کہ امام حسین کو اسی دن اور اسی وقت میں شہید کیا گیا ۔ حمزہ بن زیارت نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ دونوں پیغمبر امام حسینؑ کے روضہ پر نماز پڑھ رہے ہیں۔ شیخ ابو نصر نے بالاسناد حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالہ سے بیان کیا کہ حضرت جعفر بن محمد نے فرمایا کہ حضرت حسین ؑ کی شہادت کے بعد آپ کی قبر انور پر ستر ہزار فرشتے اترے اور قیامت تک آپ کے کے لیے اشکباری کرتے رہیں گے۔ (البدایۃ والنھایۃ،چشتی)
عن ام سلمه قالت قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أخبرني جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بأرض العراق فقلت لجبرئيل ارني تربة الارض التي يقتل فيها، فجاء فهذه تربتها ۔ (البدايه والنهايه، 8 : 196 - 200)۔(کنز العمال، 12 : 126، ح : 34313)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنھا روایت کرتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے جبرئیل امین نے (عالم بیداری میں) بتایا کہ میرا یہ بیٹا حسین عراق کی سرزمین میں قتل کر دیا جائیگا میں نے کہا جبرئیل مجھے اس زمین کی مٹی لا کر دکھا دو جہاں حسین کو قتل کر دیا جائے گا پس جبرئیل گئے اور مٹی لا کر دکھا دی کہ یہ اس کے مقتل کی مٹی ہے۔
عن عائشة عنه انه قال أخبرنی جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بعدي بأرض الطف ۔
ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل امین نے مجھے خبر دی کہ میرا یہ بیٹا حسین میرے بعد مقام طف میں قتل کر دیا جائے گا۔ (المعجم الکبير، 3 : 107، ح : 2814)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی روایت بھی کم و بیش وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے، یہ بھی قتل حسین رضی اللہ عنہ کی اطلاع ہے۔ یہ روح فرسا اطلاع پا کر قلب اطہر پر کیا گزری ہوگی اس کا تصور بھی روح کے در و بام کو ہلا دیتا ہے، پلکوں پر آنسوؤں کی کناری سجنے لگتی ہے اور گلشن فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تباہی کا دلخراش منظر دیکھ کر چشم تصور بھی اپنی پلکیں جھکا لیتی ہے ۔
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام کے چشمان مقدس سے آنسو رواں تھے میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج کیا بات ہے چشمان مقدس سے آنسو رواں ہیں ؟ فرمایا کہ مجھے ابھی ابھی جبرئیل خبر دے گیا ہے کہ : ان امتک ستقتل هذا بأرض يقال لها کربلاء ۔ ترجمہ : آپ کی امت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس بیٹے حسین کو اس سر زمین پر قتل کر دے گی جس کو کربلا کہا جاتا ہے ۔ (المعجم الکبير، 3 : 109، ح : 2819) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment