حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ واقعہ کربلا اور پیغامِ کربلا
محترم قارئینِ کرام : واقعہ کربلا کو ہوئے صدیاں گذر چکی ہیں مگر یہ ایک ایسا المناک اور دل فگار ( غمزدہ) سانحہ ہے کہ پورے ملت اسلامیہ کے دل سے محو (زائل) نہ ہو سکا۔ یہ واقعہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت سے وابستہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نواسے ، حضرت مالا علی رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے لخت جگر تھے ۔ اسلامی تاریخ میں دورِ خلافت کے بعد یہ واقعہ اسلام کی دینی ، سیاسی اور اجتماعی تاریخ پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوا ہے ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے اس عظیم واقعہ پر بلا شک و شبہہ اور بلا مبالغہ دنیا کے کسی بھی دیگر حادثہ پر نسلِ انسان کے اس قدر آنسو نہ بہے ہونگے ۔ بلکہ یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے جسم مبارک سے جس قدر خون دشتِ کربلا میں بہا تھا اس کے بدلے پوری ملتِ اسلامیہ ایک ایک قطرہ کے عوض اشک ہائے رنج و غم کا ایک سیلاب بہا چکی ہے اور لگاتار بہا رہی ہے اور بہاتی رہے گی ۔ اللہ تعالیٰ نے واقعہ کربلا کو ہمیشہ کےلیے زندہ و جاویدہ بنا دیا تاکہ انسان اور خصوصاً ایمان والے اس سے عبرت حاصل کرتے رہیں ۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت مبارکہ 5 شعبان 04 ھ کو مدینہ طیبہ میں ہوئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے آپ کے کان میں آذان دی ، منھ میں لعابِ دہن ڈالا اور آپ کے لئے دعاء فرمائی پھر ساتویں دن آپ کا نام حسین رکھا اور عقیقہ کیا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبد اللہ اور لقب ’’ سبط رسول ‘‘ تھا وریحانۂ رسول ہے۔ حدیث شریف میں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کا نام شبیر و شبر رکھا اور میں نے اپنے بیٹوں کا انہیں کے نام پر حسن اور حسین رکھا ۔ (صواعق محرقہ، صفحہ 118،چشتی)
اس لیے حسنین کریمین کو شبیر اور شبر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ سریانی زبان میں شبیر و شبر اور عربی زبان میں حسن و حسین دونوں کے معنیٰ ایک ہی ہیں ۔
ایک حدیث پاک میں ہے کہ اَلْحَسَنُ وَ الْحُسَیْنُ اِسْمَانِ مَنْ اَھْلِِ الْجَنَّۃ ۔
ترجمہ : حسن اور حسین جنتی ناموں میں سے دو نام ہیں ۔ (صواعق محرقہ، صفحہ 1186)
ابن الا عرابی حضرت مفضل سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نام مخفی (پوشیدہ) رکھے یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے نواسوں کا نام حسن اور حسین رکھا ۔ (اشرف المؤید، صفحہ 70)
تخلیق کائنات سے لیکر آج تک کی تاریخ کو اگر بغور دیکھا جائے تو بہت سے واقعات سامنے آتے ہیں ، لیکن جس طرح سرزمین کربلا میں امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اپنے جان نثاروں کے ساتھ ہوئی ہے اس طرح کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ آپ کی ولادت سے لے کر شہادت تک کے واقعات کو پڑھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ سب سے پہلے آپ رضی اللہ عنہ کے بچپن کے حالات کو دیکھتے ہیں احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں : ⬇
عن ابی رافع رضی اللہ عنہ ان النبی صلّی اللہ علیہ وسلم اَذَّنَ فی اذن الحسن والحسین علیہم السلام حین ولدا ۔ (مجمع الزوائد)
حضرت ابی رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت امام حسن و حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے خود ان دونوں کے کانوں میں آذان دی ۔
عن ابن عباس رضی اللہ عنہما ان رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم عق عن الحسن و الحسین کبشا کبشا ۔ (سنن ابوداؤد شریف)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے خود امام حسن اور امام حسین کی طرف سے عقیقے میں ایک ایک دنبہ ذبح کیا ۔
عن المفضل قال ان اللہ تعالیٰ حجب اسم الحسن و الحسین حتیٰ سمی بہما النبی صلّی اللہ علیہ وسلم ابنیہ الحسن و الحسین ۔ (البدایہ والنہایہ ابن کثیر)
ترجمہ : حضرت مفضل سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حسن اور حسین کے ناموں کو حجاب میں رکھا یہاں تک حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹوں کا نام حسن اور حسین رکھا ۔
عن یحییٰ بن ابی کثیر ان النبی صلّی اللہ علیہ وسلم سمع بکاء الحسن و الحسین فقام زعما فقال ان الولد لفتنۃ لقد قمت الیہما وما اعقل۔ (ابن ابی کثیر البدایہ والنہایہ،چشتی)
ترجمہ : حضرت یحییٰ بن ابی کثیر روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا رونا سنا تو آپ پریشان ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا بیشک اولاد آزمائش ہے میں بغیر غور کرنے کے کھڑا ہوگیا ہوں ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے تو حضرت امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر سوار ہوگئے تو لوگوں نے ان کو منع کیا تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کو چھوڑدو، ان پر میرے ماں باپ قربان ہیں ۔
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کی تو اس نے مجھ سے محبت کی ۔ (سنن ابن ماجہ)
حضرت ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی و فاطمہ و حسن و حسین رضی اللہ عنہم کی طرف دیکھا اور فرمایا جس نے تم سے جنگ کی اس نے مجھ سے جنگ کی ۔(مشکوٰۃ المصابیح)
شہادت سے قبل شہات کی خبریں
مذکورہ روایت کی طرح اور بھی کئی روایات موجود ہیں جن سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کس طرح امام حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کرتے تھے، کس طرح امام حسین کو اپنے کندھوں پر سوار کرتے تھے ، کس طرح امام حسین کا رونا آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دیتا تھا۔ کس طرح امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہ کےلیے جنت سے کپڑے آتے تھے ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شہید کربلا امام عالی مقام میرے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلم کے محبوب نواسے تھے اور آپ صلّی اللہ علیہ وسلم اس معرکہ عظیم کے دن کے لیے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی خود تربیت بھی فرماتے تھے ۔ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں صراحۃ فرماتے تھے کہ میرے اس بیٹے کو میری امت کے اوباش حاکم شہید کریں گے ۔ اور کبھی فرماتے تھے کہ ”یا ام سلمۃ اذا تحولت ہٰذہ التربۃ دما فاعلمی ان ابنی قد قتل“۔ (معجم الکبیر عربی،چشتی)
ترجمہ : اے ام سلمہ جب یہ مٹی خون میں تبدیل ہوجائے تو یقین کرلینا کہ میرا لخت جگر شہید کیا گیا۔میرے محبوب نبی صلّی اللہ علیہ وسلم نے تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی وفات کی جگہ بھی بیان فرمادی تھی کہ ”انہ تقتل بکربلائ“ یہ میرا نواسہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کربلاء کی زمین میں شہید کیا جائے گا ۔
ایسے دور میں جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ رونما ہونے والا تھا تو اس دور کےلیے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ : تعوذوا باللہ من سنۃ سنین و امارۃ الصبیان ۔ (البدایہ والنہایہ جلد نمبر ۸،چشتی)
ترجمہ : یعنی ساٹھ ہجری کے سال اور لڑکوں کی حکومت سے پناہ مانگو۔ اس مذکورہ حدیث کو سامنے رکھ کر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یہ دعا کرتے تھے کہ ”اللّٰہم انی اعوذبک من رأس الستین وامارۃ الصبیان“ اے اللہ میں ساٹھ ہجری اور لڑکوں کی حکومت سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔
حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ”ان ہلاک امتی او فساد امتی رؤس امراء اغیلمۃ سمہاء من قریش“ بیشک میری امت کی ہلاکت یا فساد قریشوں کے بیوقوف اور اوباش حکمرانوں کے ہاتھوں ہوگا۔ (مسند احمد بن حنبل،چشتی)
مذکورہ صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح امام حسین رضی اللہ عنہ سے میرے آقا صلّی اللہ علیہ وسلم نے محبت اور پیار کیا تھا اس کا مثال ملنا محال ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اپنے محبوب نواسے کو یہ سب کچھ سمجھادیا کہ تیری شہادت کب، کہاں اور کیوں ہوگی ۔ اب ہم اگر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی سیرت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے آپ نے کس طرح اپنے آقا صلّی اللہ علیہ وسلم کی شریعت و سنت کو اپنی جان سے عزیز تر سمجھا تھا کہ کبھی پوری رات نماز میں ہوتے تھے، کبھی تلاوت میں، کبھی مخلوق کی خدمت میں، کبھی سخاوت میں، ہر وقت اوامر و نواہی پر عمل کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔
جب حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری زندگی سے آپ کو محبوب حقیقی کی طرف سے وصال کا پیغام آیا اور آپ صلّی اللہ علیہ وسلم برقعہ پوش ہوگئے تو اس وقت عالم اسلام کے لیے قیامت کا منظر تھا۔ لیکن اس کے بعد گلشن توحید کی آبیاری کےلیے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اس گلشن کو اپنے محبوب قائد صلّی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے بڑھاتے رہے۔ حتیٰ کہ وہ ساٹھ ہجری کا وقت آگیا جس کے متعلق حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”یہ میری امت کو قریش کے اوباش حکمران تباہ کریں گے ۔
اب ایک ظالم و جابر حکمران سامنے آتا ہے اور شریعت کی حدود کو کچلنے کی کوشش کرتا ہے۔ شراب پینا شروع کردیا، زنا عام ہوگئی، قتل و غارت عام ہو گئی ، ظلم بڑھنے لگا ۔ اب یہ وقت تھا جب شہید کربلا امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے محبوب آقا صلّی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہر طرف نظر آنے لگا ” کہ میری امت کو اوباش حکمران ہلاک کریں گے ۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ جب عربستان کی سر زمین پر معصوم بچیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا، بت پرستی عام تھی، ویاج خوری عام تھی، زنا کو زندگی کا اہم حصہ سمجھا جاتا ہے، جہالت و ظلم کی انتہا تھی ۔ ایسے پرفتن دور میں میرے محبوب آقا صلّی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح توحید کا اعلان کیا تھا، میرے محبوب آقا صلّی اللہ علیہ وسلم کے اعلان کے بعد کس طرح ابولہب نے ناشائستہ کلمات کہے تھے جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے سورہ لہب نازل فرمائی تھی۔ میرے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلم کو طائف کے میدان میں کس طرح لہولہاں کردیا گیا تھا۔ میرے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلم کی پہلی غلام عورت حضرت بیبی سمیہ رضی اللہ عنہا کو کس طرح ظالموں نے سرِعام شہید کر دیا تھا ۔ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کو کس درخت کے ساتھ باندھ کر اور تیروں سے آپ کے جسم کو خون میں نہلایا گیا تھا ۔ میرے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح اپنے صحابہ کے ساتھ شعب ابی طالب میں محصور کیا گیا تھا۔ اور ان تین سالوں میں کتنے معصوم بچے اسلام کی آبیاری کےلیے بھوکے پیاسے شہید ہوگئے تھے ، کتنی معصوم بچیاں پانی کے ایک گھونٹ کےلیے چلاتی چلاتی تڑپتی ہوئی حالت میں دم توڑ چلی تھیں۔ میرے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح جنگ احد میں اپنے رب کریم کی توحید کی بلندی کےلیے اپنے دانت مبارک شہید کروادیے تھے ۔
یہ وہ منظر تھا جو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذات کے سامنے ہر وقت طواف کررہا تھا، اب جب ایک ظالم نے اس گلشن اسلام کی ویرانی کے لیے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی تو حضرت امام حسین کی روح تڑپ اٹھی، آنکھوں کے سامنے محبوب آقا صلّی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک تھا کہ عنقریب قریش کے اوباش حکمران میری امت کو ہلاک کردیں گے ۔
اس دینِ محمد صلّی اللہ علیہ وسلم کو بچانے کےلیے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا تن من دھن، اپنا وطن، اولاد، مال، دولت ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوگئے۔ اور پھر وہ وقت بھی آگیا کہ جب تاریخ عالم نے دیکھا کہ ایک طرف ہزاروں لوگ جو بظاہر مسلمان تھے اپنے محبوب نبی صلّی اللہ علیہ وسلم کے محبوب نواسے کو بھوکا اور پیاسا دیکھتے خوشی محسوس کررہے تھے ۔ لیکن امام حسین رضی اللہ عنہ کو اور ان کے جان نثاروں کو پانی کا ایک گھونٹ پلانا ان کی نظر میں بڑا جرم تھا ۔ در حقیقت یہ مقام رضا تھا جہاں بڑے بڑے اولیاء اللہ بھی ڈگمگاتے ہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا فیصلہ ہے کہ انسان کو بھوک، خوف، مال، ثمرات وغیرہ کی کمی سے آزمایا جاتا ہے کہ دیکھا جائے کہ انسان اپنے مالک حقیقی کی رضا پر راضی رہتا ہے یا نہیں ۔ لیکن تاریخ عالم نے دیکھا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس مقام پر بھی رضا کا دامن نہیں چھوڑا اور جابر و ظالم کے سامنے اپنی گردن نہ جھکائی۔ اب وہ آخری مرحلہ مقام رضا بھی آ پہنچا جب حضرت امام عالی مقام کے سامنے آپ کے جان نثاروں کو ایک ایک کرکے شہید کیا گیا ۔ اور آخر وہ گھڑی بھی آگئی جب معصوم علی اصغر کی شہادت واقع ہوئی۔ لیکن اس صبر کے پہاڑ نے اپنے نانا محمد صلّی اللہ علیہ وسلم کے دین کو مضبوطی کے ساتھ سنبھال کر رکھا۔ اور پھر یہ مرد مجاہد مرد غازی جس نے 72 نفوس قدسیہ کے ساتھ بالآخر خود بھی شہادت کا جام پی لیا ۔ اور اپنے نانا کے دین کے ساتھ ایسا رشتہ جوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملا جس کا مثال تاریخ عالم میں ملنا محال ہے ۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے فضائل میں بہت حدیثیں وارد ہوئی ہیں ۔ ترمذی شریف کی حدیث ہے حضرت یعلیٰ بن مرہّ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا حُسَیْنُ مِنِّی وَ اَنَا مِنَ الْحُسَیْن حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔یعنی حسین رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو حسین رضی اللہ عنہ سے انتہائی قرب ہے ۔ گویا کہ دونوں ایک ہیں۔ حسین رضی اللہ عنہ کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ذکر ہے ۔ حسین رضی اللہ عنہ سے دوستی حضور سے دوستی ہے ۔ حسین رضی اللہ عنہ سے دشمنی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے دشمنی ہے اور حسین رضی اللہ عنہ سے لڑائی کرنا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے لڑائی کرنا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ارشاد فرماتے ہیں اَ حَبَّ اللّٰہُ مَنْ اَ حَبَّ حُسَیْنَا جس نے حسین سے محبت کی اس نے اللہ تعالیٰ سے محبت کی ۔ (مشکوٰۃ صفحہ 571)
اس لیے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرنا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے محبت کرنا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے محبت کرنا اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا ہے ۔ ( مرقاۃ شرح مشکوٰۃ صفحہ 605)
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا جسے پسند ہو کہ کسی جنتی جوانوں کے سردار کو دیکھے تو وہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو دیکھے ۔ (نور الابصار صفحہ 114،چشتی)
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا چھوٹا بچہ کہاں ہے ؟ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ دوڑے ہوئے آئے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گود میں بیٹھ گئے اوراپنی انگلیاں داڑھی مبارک میں داخل کر دیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کا منہ کھول کر بوسہ لیا اور فرمایا۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّی اُحِبُّہُ فَاَحِبَّہُ وَ اَحِبَّ مَنْ یُّحِبُّہ‘ ’’ اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما اور اُس سے بھی فرما جو اس سے محبت کرے ۔ (نور الابصار صفحہ 114،چشتی)
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے صرف دنیا والوں ہی سے نہیں چاہا کہ وہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کریں بلکہ خدائے تعالیٰ سے بھی عرض کیا کہ تو بھی اس سے محبت فرما ۔ اور بلکہ یہ بھی عرض کیا کہ حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے والوں سے بھی محبت فرما۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھا کہ وہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے لعابِ دہن ( رال، تھوک) کو اس طرح چوستے ہیں جیسے کہ آدمی کھجور چوستا ہے۔ یَمْتَصُّ لُعَابَالْحُسَیْن کَمَا یَمْتَصُ الرَّجُلُ التَّمَرَۃَ ۔ (نور الابصار صفحہ 114)
حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما کعبہ شریف کے سایہ میں تشریف فرما تھے انہوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو تشریف لاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا ۔ ھَذَا اَحَبُّ اَھْلِ الْاَرْضِ اِلیٰ اَھْلِ السَّمَآ ءِ الْیَوْمَ ۔ آج یہ آسمان والوں کے نزدیک تمام زمین والوں سے زیادہ محبوب ہیں ۔ (اشرف لمؤیہ، صفحہ 65)
حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا۔ اَلَحَسَنَُ وَ الْحُسَیْنُ سَیَّدَ شَبَابِ اَھْلِ الْجَنّۃَ حسن و حسین رضی اللہ عنہما جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں ۔ (مشکوٰۃ شریف صفحہ 570)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا۔اِنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنُ ھُمٰا رُ یُحَانِیْ مِنَ الدُنْیَا حسن اور حسین دنیا کے میرے دو پھول ہیں ۔ (مشکوٰۃ شریف صفحہ 570)
اس حدیث پاک کی ترجمانی حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے بڑے پیارے انداز میں فرمائی ہے :
کیا بات ہے رضا اس چمنستان کرم کی
زہرا ہے کلی جس میں حسین اورحسن پھول
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ کے ایک کندھے پر حضرت حسن کو اور دوسرے کندھے پر حضرت حسین کو اُٹھائے ہوئے تھے یہاں تک کہ ہمارے قریب تشریف لے آئے اور فرمایا ھَذَانِ اِبْنَا یَ وَ اِبْنَا اِبْنَتِی یہ دونوں میرے بیٹے اور میرے نواسے ہیں۔ اور پھر فرمایا اَللّٰھُمَّ اِنِّی اُحِبُّہمَاُ فَاَحِبَّہمَاُ وَ اَحِبَّ مَنْ یُّحِبُّہمَا اے اللہ ! میں ان دونوں کو محبوب رکھتا ہوں تو بھی ان کو محبوب رکھ اور جو ان سے محبت کرتا ہے ان کو بھی محبوب رکھ ۔ (مشکوٰۃ شریف صفحہ 570)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ ایک کندھے پر حضرت حسن کو اور دوسرے کندھے پر حضرت حسین کو اٹھائے ہوئے تھے یہان تک کہ ہمارے قریب تشریف لے آئے اور فرمایا مَنْ اَ حَبَّھُمَا فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَ مَنْ اَبْغَضُھُمَا فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ جس نے ان دونوں سے محبت کی تو اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی ۔ (اشرف المؤیہ صفحہ 71،چشتی)
ایک دن نبی کریم علیہ السلام اپنی بیٹی حضرت خاتون جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر تشریف لائے تو سیدہ کونین نے عرض کی ابا جان آج صبح سے میرے دونوں شہزادے حسن و حسین گم ہیں اور مجھے کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ ابھی حضور علیہ السلام نے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام فوراً حاضر خدمت ہوئے اور عرض کی یا رسو ل علیہ السلام انھما فی مکانٍ کدا وکدا و قد وکل بھما ملک یحفظھما یعنی دونوں شہزادے فلاں مقام پر لٹیے ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ نے ان کی حفاظت کے لئے ایک فرشتہ مقرر کر دیا ۔ حضرت زہرا ء سے فرما دو کہ وہ پریشان نہ ہووے ۔ پس حضور علیہ السلام اس مقام پر گئے تو دونوں شہزادے آرام کر رہے تھے اور فرشتے نے ایک پر نیچے اور دوسرا اوپر رکھا ہوا تھا ۔ ( نزہۃالمجالس جلد 2صفحہ 233)،(مشکٰوۃ شریف صفحہ570،چشتی)،(ترمذی شریف جلد 2 صفحہ 218)
یتیموں سے اور مسکینوں سے حسن سلوک اور شفقت و محبت کا معاملہ رکھنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جنت کی بشارت دی ہے جو بہت بڑا انعام و اکرام ہے ۔ ربِ کائنات کا ارشاد گرامی ہے (پارہ 29 رکوع 19) اپنی منتیں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی پھیلی ہوئی ہے اور کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر (یعنی ایسی حالت میں جب کہ خود انہیں کھانے کی حاجت و خواہش ہو) مسکین اور یتیم اور قیدی کو ان سے کہتے ہیں ہم تمہیں خاص اللہ کے لئے کھانا دیتے ہیں تم سے کوئی بدلہ یا شکر گذاری نہیں مانگتے۔ بیشک ہمیں اپنے رب سے ایک ایسے دن کا ڈر ہے جو بہت ترش نہایت سخت ہے تو انہیں اللہ نے اس دن کے شر سے بچا لیا اور انہیں تازگی اور شادمانی دی ۔
ان آیات کریمہ کا شانِ نزول یہ ہے حضرت حسنین کریمین رضی اللہ عنہما ایک موقع سے بیمار پڑگئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ان کی کنیزفَضّہ نے ان کی صحت کے لئے تین روزوں کی منت مانی۔ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں صحت دی اور نذر (منت) کی وفا کا وقت آیا تو سب نے روزے رکھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک یہودی سے تین صاع جو لائے۔ حضرت خاتونِ جنت نے ایک ایک صاع تینوں دن پکایا لیکن جب افطار کا وقت آیا اور روٹیاں سامنے رکھی گئیں تو پہلے روز مسکین دوسرے روز یتیم اورتیسرے روز قیدی نے آکر سوال کر دیا تو تینوں روز ساری روٹیاں ان لوگوں کو دے دی گئیں تو پہلے روز صرف پانی سے افطار کر کے اگلا روزہ رکھ لیا گیا تو ان کا یہ عمل ربِ کائنات کی بارگاہ میں اس قدر مقبول ہوا کہ یہ آیات کریمہ ان کی شان و عظمت اور ان کے حق میں نازل ہوئیں جن میں انہیں بڑے انعام و اکرام اور جنت کی بشارت دی گئی ہے تو یہ آیات کریمہ اگر چہ مخصوص لوگوں کے حق میں نازل ہوئیں جن میں انہیں بڑے انعام و اکرام اور جنت کی بشارت دی گئی ہے لیکن ان میں عام مومنوں کے لئے تعلیم ہے کہ اگر وہ بھی مسکینوں ، یتیموں اور قیدیوں سے حسن سلوک اور شفقت و محبت کریں تو انہیں بھی طرح طرح کے انعام و اکرام اور جنت سے سرفراز کیا جائے گا اور رب کائنات انہیں بھی آخرت کی پریشانیوں سے محفوظ اور جنت کی راحتوں سے لبریزکرے گا ۔ (تفسیر طبری،تفسیر کبیر،تفسیر روح البیان)
آپ کی شہادت کی شہرت
سید الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش کے ساتھ ہی آپ کی شہادت بھی شہرتِ عام ہو گئی۔ حضرت علی ، حضرت فاطمہ زہرا اور دیگر صحابہِ کبار و اہلِ بیت کے جان نثار رضی اللہ عنہما سبھی لوگ آپ کے زما نۂ شیر خوارگی ہی میں جان گئے کہ یہ فرزند ارجمند ظلم و ستم کے ہاتھوں شہید کیا جائے گا اور ان کا خون نہایت بے دردی کے ساتھ زمین کربلا میں بہایا جائے گا۔ جیسا کہ ان احادیث کریمہ سے ثابت ہے جو آپ کی شہادت کے بارے میں وارد ہیں۔حضرت ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا یعنی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی زوجہ فرماتی ہیں کہ میں نے ایک روز حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت مبارکہ میں حاضر ہو کر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گود میں دیا پھر میں کیا دیکھتی ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مبارک آنکھوں سے لگاتار آنسو بہہ رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یہ کیا حال ہے ؟ فرمایا میرے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے یہ خبر پہنچائی کہ اِنَّ اُمَّتِیْ سَتَقْتُلْ اِبْنِی میری امت میرے اس فرزند کو شہید کرے گی حضرت اُم الفضل فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! کیا اس فرزند کو شہید کرے گی! حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ہاں پھر حضرت جبرئیل میرے پاس اس کی شہادت گاہ کی سرخ مٹّی بھی لائے ۔ (مشکوٰۃ صفحہ 572،چشتی)
اور ابن سعد اور طبرانی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اِنَّ اِبْنِیْ اَلْحُسَیْنُ یُقْتَلْ بَعْدِ بِاَرْضِ الطَّفِ میرا بیٹا میرے بعد ارضِ طِف میں قتل کیا جائے گا ۔ اور جبرائیل میرے پاس وہاں کی مٹی بھی لائے اور مجھ سے کہا کہ یہ حسین کی خوابگاہ (متقل) کی مٹی ہے ۔ (صواعق محرقہ، صفحہ 118،چشتی)
طف قریب کوفہ اس مقام کا نام ہے جس کو کربلا کہتے ہیں ۔ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بارش کے فرشتے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضری دینے کے لئے اللہ سے اجازت طلب کی جب وہ فرشتہ اجازت ملنے پر بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوا تو اس وقت حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گود میں بیٹھ گئے تو آپ ان کو چومنے اور پیار کرنے لگے۔ فرشتے نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! کیا آپ حسین سے پیار کرتے ہیں ؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا اِنَّ اُمَّتَکَ سَتَقْتُلْہ‘ آپ کی امت حسین کو قتل کر دے گی۔ اگر آپ چاہیں تو میں ان کی قتل گاہ کی (مٹی) آپ کو دکھا دوں۔ پھر وہ فرشتہ سرخ مٹی لایا جسے اُم المومنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے کپڑے میں لے لیا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اے ام سلمہ ! جب یہ مٹی خون بن جائے تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا حسین شہید کر دیا گیا۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اس مٹی کو ایک شیشی میں بند کر لیا جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن خون ہو جائے گی ۔ (صواعق محرقہ، صفحہ 118)
اور ابن سعدحضرت شعبی سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جنگ صفین کے موقع پر کربلا سے گذر رہے تھے کہ ٹھہر گئے اور اس زمین کا نام پوچھا لوگوں نے کہا اس زمین کا نام کربلا ہے کربلا کا نام سنتے ہی آپ اس قدر روئے کہ زمین آنسوؤں سے تر ہو گئی ۔ پھر فرمایا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں ایک روز حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم رو رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ فرمایا ابھی میرے پاس جبرائیل آئے تھے ا نہوں نے مجھے خبر دی اِنَّ وَلَدِیْ الْحُسَیْنَ یُقْتَلْ بِشَاطِیَّ الْفُرٰتِ بِمَوْ ضِعٍ یْقَالُ لَہ‘ کَرْبَلَاءِ میرا بیٹا حسین دریائے فرات کے کنارے اس جگہ شہید کیا جائے گا جس کو کربلا کہتے ہیں۔ اور ابونعیم اصبغ بن نباتہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی قبر گاہ سے گذرے تو آپ نے فرمایا یہ شہیدوں کے اونٹ بٹھانے کی جگہ ہے اور اس مقام پر کجاوے رکھے جائیں گے اور یہاں ان کے خون بہائے جائیں گے ۔ آلِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بہت سے جوان اسی میدان میں شہید کئے جائیں گے اور زمین و آسمان ان پر روئیں گے۔(مشکواۃ شریف صفحہ 572)(خصائص کبریٰ جلد 2 صفحہ 126،چشتی)
آپ کی فضیلت کےلیے یہ ہی کافی ہے کہ امام الانبیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انہیں اسی دنیا میں نہ صرف جنَّتی ہونے کی بشارت دی بلکہ نوجوان جنَّتیوں کا سردار قرار دیا۔ اور ان کی محبت کو ایمان کا حصّہ بتاتے ہوئے یہ فرمایا کہ ’’ اے خدا میں حسین سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما اور جو کوئی حسن و حسین سے محبت رکھے ان سے تو بھی محبت فرما ‘‘ بے شک ہر مسلمان ان سے محبت رکھتا ہے اور محبت کی سب سے بڑی علامت ( نشانی) یہی ہے کہ ہر نماز میں درود شریف میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ ان کے آل و اولاد پر بھی درود بھیجتا ہے ۔
معرکہ حق و باطل اور حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ
حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت سے معرکہ حق و باطل جو کربلا میں رونما ہوا اس نے ساری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد 56 ہجری میں یزید ولی عہد مقرر ہوا اس کے خلیفہ بنتے ہی طوائف الملوکی شروع ہو گئی اور اسلامی خلافت کے بجائے بادشاہیت و آمریت نے پنجہ گاڑنا شروع کر دیا۔ تو افضل الجہاد کی نظیر پیش کرتے ہوئے کہ ظالم و جابر کے سامنے کلمہ حق کہنا سب سے بڑا جہاد ہے اسکی عملی تصویر بن کر امام حسین رضی اللہ عنہ دین اسلام کی سر بلندی کی خاطر اُٹھ کھڑے ہوئے کہ دین حق دین اسلام اس طریقہ کا داعی نہیں یہ اسلامی روح کے خلاف ہے اور یہ پیغام دیا کہ مومن حکومت و سلطنت ظلم و جبر اور طاقت و قوت کے آگے ہتھیار نہیں ڈال سکتا ہے اور یزیدکی امارت و بیعت کا انکار کرتے ہوئے اس کی اطاعت قبول نہ فرمائی اس کی بیعت کو ٹھکرا دیا۔اور یہ اعلان کر دیا کہ :
مرد حق باطل سے ہرگز خوف کھا سکتا نہیں
سر کٹا سکتا ہے لیکن سر جھکا سکتا نہیں
آپ کو یزیدی لشکر کے خطرناک عزائم کا انکشاف ہوا تو حُرمت کعبہ کی خاطر وہاں سے نکلنے کا ارادہ کیا اسی درمیان کوفیوں کے ہزاروں عقیدت بھرے خطوط ملے مگر آپ ان پر کیسے بھروسہ کرتے چونکہ ان ہی لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی شہید کیاتھا۔ اسلئے تحقیق کے خاطر اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو وہاں بھیجا انکے ہاتھ پر اٹھارہ ہزار لوگوں نے ( ایک روایت میں 27000 لوگ) بیعت کئے اس کو دیکھ کر حضرت مسلم نے حضرت امام حسین کو آنے کے لئے اجازت (خط لکھ دیا) دی تو آپ کوفہ کے لئے عازمِ سفر ہوئے تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابہ و حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ ودیگر صحابہ نے آپ کو کوفہ جانے سے منع فرمایا لیکن آپ نے دین حق کی خاطر جان کی قربانی کیلئے بھی ذرا سی لرزش نہ دیکھائی، یزید کے گورنر عبید اللہ بن زیاد نے حضرت مسلم بن عقیل کیلئے زمین تنگ کر دی اور انہیں بے دردی سے شہید کر دیا۔ یہ خبر امام حسین رضی اللہ عنہ کو ملی یہ ایک اندوہناک خبر تھی آپ کو زبردست صدمہ پہنچا واپسی پر نظر ثانی کیا بھی جا سکتا تھا۔ مگر حضرت مسلم ان کے خویش و اقارب جو وہاں موجود تھے انہیں یہ گوارا نہیں تھا۔ اس لئے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی واپسی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے خود ہی اپنے قافلہ کے لوگوں کو یہ اجازت دے دی تھی کہ جسے واپس جانا ہے وہ چلا جائے۔ یہ سن کر صرف دو حضرات چھوڑ کر چلے گئے۔ ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ حربن یزید نے ایک لشکر جرار کے ساتھ آپ کو محصور کر لیا تاکہ والی عراق عبداللہ بن زیاد کے سامنے پیش کیا جائے ۔ اسی دوران نماز ظہر کا وقت ہو گیا ۔ آپ نے نماز ادا فرمائی بعد نماز حضرت اما م حسین رضی اللہ عنہ نے ایک خطبہ کے ذریعہ حر اور اسکے ساتھیوں (فوج) کے سامنے پوری بات رکھی۔ خطوط اور قاصدوں کا حوالہ دیا۔ حر حیران ضرور ہوا مگر اس نے خطوط کے متعلق لا علمی ظاہر کی اور اس نے آپ کے قافلہ کو روک لیا۔ یہاں بھی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے ایک خطبہ دیا جو تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں محفوظ ہے : (ترجمہ) اے لوگو ! رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ جو کوئی بھی ایسے حاکم کو دیکھے کہ ظلم کرتا ہے ۔ خدا کے حدود کو توڑتا ہے۔ سنتِ نبوی کی مخالفت کرتاہے اور سر کشی سے حکومت کرتا ہے اور اسے دیکھنے پر بھی کوئی مخالفت نہیں کرتا ہے اور نہ اسے روکتا ہے تو ایسے آدمی کا اچھا ٹھکانہ نہیں ہے۔ دیکھو ! یہ لوگ شیطان کے پیرو کار ہیں ۔ رحمٰن سے بے سروکار ہیں حدود الٰہی معطل ہے۔ حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہرایاجارہا ہے۔ میں ان کی سر کشی کو حق اور عدل سے بدل دینا چاہتا ہوں اور اس کے لئے میں سب سے زیادہ حقدار بھی ہوں۔ اگر تم اپنی بیعت پر قائم رہو تو تمہارے لئے ہدایت ہے ورنہ عہد شکنی عظیم گناہ ہے۔ میں حسین ہوں۔ ابن علی، ابن فاطمہ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جگر گوشہ مجھے اپنا قائد بناؤ مجھ سے منھ نہ موڑو، میرا راستہ نہ چھوڑو، یہ صراطِ مستقیم کا راستہ ہے اس حقیقت افروز خطبہ کا لوگوں پر کافی اثر ہوا لیکن لالچ اور خوف کی و جہ کر چپ رہے۔ ۹؍ محرم الحرام کی رات کا وقت تھا آپ رات بھر عبادت میں مشغول رہے صبح دس محرم کی تاریخ آگئی دونوں اطراف میں صف آرائی ہو رہی تھی ۔ نماز فجرکے بعد عمرو بن سعد اپنی فوج لے کر نکلا، ادھر امام حسین رضی اللہ عنہ بھی اپنے احباب کے ساتھ تیار تھے۔ آپ کے ساتھ 72 نفوس قدسیہ جس میں بچے بوڑھے خواتین بھی شامل تھیں دوسری جانب 90 ہزار کا لشکر جرار تمام حرب و ہتھیار سے لیس تھے۔ آپ نے جس جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ جس طرف رخ کرتے یزیدی فوج بھیڑیوں کی مانند بھاگ کھڑی ہوتی۔ معاملہ بہت طویل ہوگیا۔ معصوم اورشیر خوار بچے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے لگے ، خیمے جلا دیئے گئے ، بھوکے پیاسے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میدان کربلا میں صبر کا پہاڑ بن کر جمے رہے، یزیدی دور سے تیر برساتے رہے اور پھر ایک مرحلہ آیا کہ بدبخت شمر ذی الجوشن جب قریب آیا تو آپ پہچان گئے کہ یہی سفید داغ والا وہی بدبخت ہے جس کے بارے میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا تھا کہ اپنے اہل بیت کے خون سے اس کے منہ کو رنگتا دیکھتا ہوں ۔ اور وہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی شمرلعین کے لئے بدبختی ہمیشہ کے لئے مقدر بن گئی ادھر امام حسین رضی اللہ عنہ سجدہ میں گئے اورشمر کی تلوار نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی گردن مبارک کو تن سے جدا کر دیا وہ یومِ عاشورہ جمعہ کا دن تھا ماہِ محرم الحرام 61 ھ میں یہ واقعہ پیش آیاآیا اس وقت امام حسین رضی اللہ عنہ کی عمر مبارک 55 سال کے قریب تھی ۔
پیغامِ شہادت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ
سید الشہدا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہمیں کئی پیغام دیتی ہے اول یہ کہ ایمان والا اپنے خون کے آخری قطرہ تک حق پر صداقت پر جما رہے باطل کی قوت سے مرعوب نہ ہو۔ دوسری بات یہ کہ امام حسین رضی اللہ عنہ یزید کی جن خرابیوں کے باعث مخالفت کیا ویسے لوگوں سے اپنے آپ کو الگ کرے اور فسق و فجور والا کام نہ کرے اور نہ ویسے لوگوں کا ساتھ دے نیز یہ بھی پیغام ملا کہ ظاہری قوت کے آگے بسا اوقات نیک لوگ ظاہری طور پر مات کھا جاتے ہیں مگر جو حق ہے وہ سچائی ہے وہ کبھی ماند نہیں پڑتی مات نہیں کھاتی اور وہ ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لاتی ہے۔ یہی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسلام کا سرمایہ حیات یزیدیت نہیں بلکہ شبیریت حسینیت ہے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شہادت امتِ مسلمہ کے لئے کئی پہلو سے عملی نمونہ ہے ، جس پر انسان عمل پیرا ہو کر اپنی زندگی کو اسلامی طرز پر قائم رکھے اسلامی زندگی اسلامی رنگ و روپ کی بحالی کیلئے صداقت حقانیت جہد مسلسل اور عمل پیہم میں حسینی کردار اور حسینی جذبہ ایثار و قربانی سے سرشار ہو۔ اقتدار کی طاقت جان تو لے سکتی ہے ایمان نہیں۔ اگر ایمانی طاقت کارفرما ہو تو اسکے عزم و استقلال کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔ لندن کے مشہور مفکر ’’ لارڈ ہیڈلے ‘‘ کے بقول ’’ اگر حسین میں سچا اسلامی جذبہ کارفرما نہ ہوتا تو اپنی زندگی کے اخری لمحات میں رحم و کرم، صبر و استقلال اور ہمت و جوانمردی ہرگز عمل میں آ ہی نہیں سکتی تھی جو آج صفحہ ہستی پر ثبت ہے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حضرت سیّدنا اما م حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے حقیقی فلسفہ و حقیقت اور مقصد کو سمجھا جائے اور اس سے ہمیں جو سبق اورپیغام ملتا ہے اسے دنیا میں عام کیا جائے کیونکہ پنڈت جواہر لا ل نہرو کے بقول ’’ حسین کی قربانی ہر قوم کے لئے مشعلِ راہ و ہدایت ہے ‘‘ اور جیسا کہ مولانا محمد علی جوہر نے شہادت حسین پہ کہا ہے کہ : ⬇
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
اور کسی شاعر نے بہت پیاری بات کہی ہے :
نہ یزید کا وہ ستم رہا نہ وہ ظلم ابن زیاد کا
جو رہا تو نام حسین کا جسے زندہ رکھتی ہے کربلا
ایک اور شاعر نے کہا :
شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دیں است حسین دیں پناہ است حسین
سر داد نہ داد دست در دست یزید
حقّا کہ بنائے لا الٰہ است حسین
ترجمہ : شاہ بھی حسین ہیں ، بادشاہ بھی حسین ہیں ، دین بھی حسین ہیں دین کی پناہ بھی حسین ہیں ۔ سر دے دیا لیکن یزید کے ہاتھ میں ہاتھ نہ دیا سچ یہ ہے کہ کلمہ ٔ طیبہ کی بنیاد بھی حسین ہیں ۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔
اس مبنی بر حقیقت رباعی میں عظمتِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صراحت کے ساتھ ساتھ یزید کے کردار اور لادینی افکار کی طرف اشارہ موجود ہے ۔ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ حق ہے اور یزید باطل ہے اور دین کی بقا کےلیے ہر دور میں شبیری کردار درکارہے کہ مرورِ وقت کے باوجود خونِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سرخی اور زیادہ بڑھتی جارہی ہے ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس عظیم الشان قربانی سے اس داستانِ حرم کی تکمیل ہوئی جو سیّدنا اسماعیل علیہ السّلام سے شروع ہوئی تھی اور حق وباطل ، کفر واسلام ، نیکی و بدی اورخیر وشر کے درمیان تمیز ہو گئی اور حدِ فاصل قائم ہوگئی ۔ یزیدیت مذموم ٹھہری اور یزید کانام قیامت تک کےلیے گالی بن کر رہ گیا ۔
حضرت امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کی شہادت کا پہلا پیغام عملی جدوجہد کا پیغام ہے۔ محبت حسین رضی اللہ عنہ کو فقط رسمی نہ رہنے دیا جائے بلکہ اسے اپنے عمل و حال و قال میں شامل کرلیا جائے اور اپنی زندگی کا مقصد بنایا جائے، یعنی معلوم کیا جائے کہ یزیدی کردار کیا ہے اور حسینی کردار کیا ہے ۔
یزید نے کھلم کھلا اسلام کا انکار نہیں کیا تھا اور نہ ہی بتوں کی پوجا کی تھی، مسجدیں بھی مسمار نہیں کی تھیں۔ وہ اسلام کا نام بھی لیتا تھا، وہ یہ بھی کہتا تھا کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں، میں مسلمان بھی ہوں، میں موحد بھی ہوں، میں حکمران بھی ہوں، میں آپ کا خیر خواہ بھی ہوں۔ اسلام کا انکار یہ تو ابوجہلی ہے، ابولہبی ہے۔ یزیدی کردار یہ ہے کہ مسلمان بھی ہو اور اسلام سے دھوکہ بھی کیا جائے، امانت کی دعویٰ بھی ہو اور خیانت بھی کی جائے، نام اسلام کا لیا جائے اور آمریت بھی مسلط کی جائے۔ اپنے سے اختلاف کرنے والوں کو کچلا جائے۔ اسلام سے دھوکہ فریب یزیدیت کا نام ہے۔ بیت المال میں خیانت کرنا، دولت کو اپنی عیش پرستی پر خرچ کرنا یزیدیت کا نام ہے۔ معصوم بچوں اور بچیوں کے مال کو ہڑپ کرنا یزیدیت کا نام ہے۔ مخالف کو کچلنا اور جبراً بیعت اور ووٹ لینا یزیدیت کا نام ہے ۔
آج روحِ حسین رضی اللہ عنہ ہم سے پکار پکار کر کہتی ہے کہ ”میری محبت کا دم بھرنے والوں میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میری محبت رسمی ہے یا پھر آج تم کوئی معرکہ کربلا برپا کرتے ہو۔ میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میری محبت میں پھر تم آج کے وقت یزیدیوں کو للکارتے ہو یا نہیں۔ روح حسین رضی اللہ عنہ آج پھر دریائے فرات کو رنگین دیکھنا چاہتی ہے، آج تمہارے صبر و استقامت کا امتحان لینا چاہتی ہے۔ کہ کون اسلام کا جھنڈا سربلند کرتے ہوئے تن من دھن کی بازی لگاتا ہے، کون ہے جو مجھ سے حقیقی پیار کرتا ہے ۔
حسینیت کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں جہاں تمہیں یزیدیت کے کردار کا نام و نشان نظر آئے حسینی لشکر کے غلام و فرد بن کر یزیدیت کے بتوں کو پاش پاش کردو۔ اس کےلیے اگر تمہیں مال، جان، اور اپنی اولاد ہی کیوں نہ قربان کرنی پڑے ۔
پہلے حسینی کردار کی تجلی اپنے اندر پیدا کرو، سیرت حسین کو اپنے سینے پہ سجالو، پھر اس قوت حسینی سے یزیدی کردار کی مخالفت کرو اور اس کا مقابلہ کرو۔ کاش ہمیں وہ دل نصیب ہو جائے جس میں عمل و محبت حسین رضی اللہ عنہ ہو ۔ کیوں کہ یہ دنیا تو ہر کسی کو چھوڑنی ہے ، جس نے اقتدار کے نشے میں اگر لوگوں کا قتل عام کیا ، معصوموں کا خون بہایا ، ظلم کے پہاڑ گرائے وہ بھی مرگیا، جس نے اپنے سینے پر تیروں کو جگہ دی، شریعت کی پیروی کی ، مخلوق کی خدمت کی وہ بھی چلا گیا۔ لیکن یزیدیت تباہی و بربادی کا نام ہے ، اور حسینیت محبت و اخوت و بہادری کا نام ہے۔ جو ظالم ہوکر مرتا ہے وہ خالق و مخلوق کی نظر میں مردود ہے ۔ جو عادل ہوکر اپنی جان رب کریم کے حوالے کرتا ہے وہ مقبول ہو جاتا ہے ۔ یہی شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کا فلسفہ تھا ۔ یہی آپ کا جذبہ تھا کہ حسینیت کبھی کسی ظالم و جابر کے سامنے سرخم نہیں کرتی اور کبھی مصیبت میں نہیں گھبراتی ۔ وہ مصیبت میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہے تو خوشی میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے پیغام و مقصد کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور ہمیں شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ سے سبق لینے اور حق پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment