واقعہ کربلا حقائق و واقعات کی روشنی میں
محترم قارئینِ کرام : حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوہرِ شہادت کا ظہورِ تام تھی اس لیے اسے شہرت بھی اسی مقام کی نسبت سے حاصل ہوئی ۔ کائنات میں کسی بھی شخص کی شہادت کا چرچا اس کی شہادت سے پہلے نہیں ہوا جس طرح کہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو حاصل ہوا ۔ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد قائم ہونے والے دور حکومت کے بارے میں فرمایا : اَلْخَلَافَة فِیْ اُمَّتِیْ ثَلَاثُوْنَ سَنَةً ثُمَّ مَلکَ بَعْدَ ذَلِکَ ۔ (بہیقی السنن الکبریٰ جلد 5 صفحہ 47 رقم الحدیث 1855)
ترجمہ : میری امت میں خلافت تیس برس تک رہے گی پھر اس کے بعد ملوکیت ہوگی ۔
چنانچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق خلافت تیس برس رہی۔ یہ زمانہ عہد خلافت راشدہ کہلاتا ہے۔ عہد خلافتِ راشدہ کے دوران حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اعلان خلافت کے ساتھ ہی ملک شام میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی آزاد حکومت قائم کی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ تسلیم نہ کیا۔ اس پر امت مسلمہ متفق رہی ہے کہ خلافت بہرطور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا حق تھا۔ آپ ہی خلیفہ برحق اور خلیفہ راشد تھے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے جداگانہ اعلان حکومت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی کشمکش کا آغاز ہوگیا جس کے نتیجے میں جنگ جمل اور جنگ صفین جیسے چھوٹے بڑے معرکے ہوئے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس پیش گوئی کے مطابق سن 60 ہجری میں قبیلہ قریش کی شاخ بنو امیہ کا اوباش نوجوان یزید تخت نشین ہوا اور 61 ہجری کے ابتدائی دس دنوں میں سانحہ کربلا پیش آیا ۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد یزید تخت نشین ہوا ۔ اس کےلیے سب سے اہم اور بڑا مسئلہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی بیعت کا تھا کیونکہ ان حضرات نے یزید کی ولی عہدی قبول نہ کی تھی اس سلسلے میں یزید نے مدینہ کے گورنر ولید بن عقبہ کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر بھیجی اور ساتھ ہی یہ حکم نامہ بھیجا کہ : حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے میرے حق میں بیعت لو اور جب تک وہ میری بیعت نہ کریں انہیں ہرگز مت چھوڑو ۔ (تاریخ، الطبری 113)
ولید بن عقبہ رحمدل اور خاندان نبوت کی تعظیم و توقیر کرنے والا شخص تھا۔ اس نے اس حکم کی تعمیل پر گھبراہٹ محسوس کی اور اپنے نائب مروان کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ مروان سنگدل اور سخت انسان تھا۔ اس نے کہا میرے خیال میں تم ان حضرات کو اسی وقت بلا بھیجو اور انہیں بیعت کرنے کےلیے کہو اگر وہ بیعت کرلیں تو ٹھیک ہے ورنہ انکار کی صورت میں تینوں کا سر قلم کر دو ۔ (ابن اثیر، 4 - 15، البدایہ والنھایہ، 8 : 1417،چشتی)
سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنی حفاظت کا سامان کر کے ولید کے پاس پہنچے۔ اس نے آپ رضی اللہ عنہ کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر سنائی اور پھر یزید کی بیعت کیلئے کہا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے تعزیت کے بعد فرمایا : ’’میرے جیسا بندہ اس طرح چھپ کر بیعت نہیں کرسکتا، اور نہ ہی میرے لیے اس طرح چھپ کر بیعت کرنا مناسب ہے اگر آپ باہر نکل کر عام لوگوں کے ساتھ ہمیں بھی بیعت کی دعوت دیں تو یہ الگ بات ہے‘‘۔ ولید جو کہ ناپسند آدمی تھا اس نے کہا اچھا! آپ تشریف لے جائیں، اس پر مروان نے ولید سے کہا اگر اس وقت تم نے ان کو جانے دیا اور بیعت نہ لی تو تم کبھی بھی ان پر قابو نہ پاسکوگے تاوقتیکہ بہت سے لوگ قتل ہوجائیں ان کو قید کرلو، اگر یہ بیعت کرلیں تو ٹھیک ہے ورنہ ان کا سر قلم کر دو۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ یہ سن کر اٹھ کھڑے ہو گئے اور فرمایا : ’’ابن الزرقا! تو مجھے قتل کرے گا؟ خدا کی قسم تو جھوٹا اور کمینہ ہے‘‘۔ یہ کہہ کر آپ گھر تشریف لے آئے ۔ (ابن اثیر، 4 : 15 - 16)
بعد ازاں اہلِ کوفہ نے باہم مشاورت سے امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کو کوفہ آنے کی دعوت دی۔ اہل کوفہ کے خطوط اور وفود کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو حالات سے آگاہی کے لئے کوفہ بھیجا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کی بے پناہ عقیدت و محبت کو دیکھتے ہوئے امام عالی مقام کو لکھ بھیجا کہ آپ رضی اللہ عنہ تشریف لے آئیں، یہاں ہزاروں افراد آپ کی طرف سے میرے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں۔
چنانچہ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے کوفہ جانے کا عزم صمیم کر لیا۔ آپ رضی اللہ عنہ مکہ معظمہ سے 8 ذی الحجہ کو کوفہ کیلئے روانہ ہوئے۔ راستے میں صفاح کے مقام پر عرب کے مشہور شاعر فرذدق سے آپ رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی۔ وہ کوفہ سے آ رہا تھا۔ فرذدق نے آپ رضی اللہ عنہ کو سلام عرض کیا اور دعا دیتے ہوئے کہا : اللہ تعالیٰ آپ کی مراد پوری کرے اور آپ کو وہ چیز عطا فرمائے جس کے آپ طلبگار ہیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تمہارے پیچھے لوگوں کا کیا حال ہے۔ اس نے کہا :
’’لوگوں کے دل تو آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہیں مگر ان کی تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ہیں۔‘‘
فرزدق سے ملاقات کے بعد قافلہ حسینی رضی اللہ عنہ کوفے کے حالات سے بے خبر کوفہ کی جانب رواں دواں تھا۔ راستے میں ہر چراہ گاہ سے جس پر قافلے کا گزر ہوتا کچھ لوگ ہمراہ ہوجاتے۔ جب قافلہ حسینیہ رضی اللہ عنہ ’’ثعلمیہ‘‘ کے مقام پر پہنچا تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ اور ہانی بن عروہ کی شہادت کی خبر ملی۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنا سفر جاری رکھا اور جب آپ رضی اللہ عنہ ’’کوہ ذی حشم‘‘ کے مقام پر پہنچے تو حُر بن یزید جو کہ حکومت یزید کی طرف سے آپ رضی اللہ عنہ کو گرفتار کرنے کیلئے بھیجا گیا تھا ایک ہزار مسلح سواروں کے ساتھ پہنچ گیا اور آپ رضی اللہ عنہ کے مقابل آ کر کھڑا ہو گیا اور ابن زیاد کا حکم دیا کہ آپ کو لے کر اس کے پاس پہنچوں۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں اور اہل و عیال کے ہمراہ 2 محرم الحرام 61 ہجری بروز جمعرات اپنے ساتھیوں اور اہل و عیال سمیت خیمہ زن ہوگئے۔ حر نے آپ کے مقابل خیمے نصب کر لئے۔ حر کے دل میں اگرچہ اہل بیت نبوت کی عظمت تھی یہاں تک کہ اس نے اپنی نمازیں بھی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پیچھے ہی ادا کیں تھیں مگر وہ ابن زیاد کے حکم سے مجبور تھا۔
جس مقام پر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں اور اہل و عیال کے ہمراہ خیمہ زن ہوئے اس دشت و بیابان کی اداس و مغموم فضا کو دیکھ کر آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا اس مقام کا نام کہاں ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ اس جگہ کو ’’کربلا‘‘ کہتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بس یہیں خیمے لگا لو، یہی ہمارے سفر کی آخری منزل ہے ۔
سرزمین کربلا پہنچتے ہی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ فرامین یاد آ رہے تھے جو انہوں نے بچپن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنے تھے کہ میرا بیٹا، میرا حسین سرزمین طف (کربلا) میں شہید کر دیا جائے گا۔ اس لئے جب آپ کو علم ہوا کہ یہی سرزمین کربلا ہے تو آپ نے حتمی فیصلہ دیتے ہوئے اسی مقام پر ٹھہرنے کا ارادہ فرمایا۔ اس طرح قافلہ حسینی رضی اللہ عنہ غریب الوطنی کے عالم میں کربلا کے میدان میں خیمہ زن ہوا۔ دوسری طرف یزیدی حکومت ان نفوس قدسیہ پر قیامت برپا کرنے کی بھرپور تیاریوں میں مصروف تھی چنانچہ 3 محرم الحرام کو عمر بن سعد چار ہزار سپاہیوں کے ساتھ مقابلہ کے لئے کوفہ سے کربلا پہنچا۔
عمر بن سعد نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس قاصد بھیجا کہ آپ کیوں تشریف لائے ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’ اہل کوفہ نے مجھے لکھا تھا کہ ان کے پاس آؤں۔ اب اگر وہ مجھ سے بیزار ہیں تو میں واپس مکہ چلا جاتا ہوں‘‘۔ جب ابن سعد کو یہ جواب ملا تو اس نے کہا کہ میری یہ تمنا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کسی طرح مجھے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ سے بچا لے چنانچہ اس نے ابن زیاد کو یہ بات لکھ بھیجی کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کی ان سے بیزاری پر واپس مکہ جانا چاہتے ہیں لیکن ابن زیاد نے جواب دیا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں پر پانی بند کر دو اور حسین رضی اللہ عنہ سے کہو کہ وہ خود اور ان کے ساتھی یزید بن معاویہ کی بیعت کر لیں۔ جب وہ بیعت کر لیں گے تو ہم سوچیں گے کہ اب کیا کرنا چاہئے؟ اس پر عمر بن حجاج کی قیادت میں ابن سعد کے آدمیوں نے سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قافلے پر پانی بند کر دیا۔
9 محرم الحرام 61ھ کو ابن سعد کا دستہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے خیموں کی طرف آیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ذریعے ان سے آنے کا ارادہ معلوم کیا تو انہوں نے کہا کہ امیر ابن زیاد کا حکم ہے کہ تم اس کی اطاعت قبول کر لو ورنہ ہم تمہارے ساتھ جنگ کریں گے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو کہا : ’’ان لوگوں سے کہو کہ ہمیں ایک رات کی مہلت دے دیں تاکہ اس آخری رات ہم اچھی طرح نماز پڑھ لیں، دعا مانگ لیں اور توبہ استغفار کر لیں۔ اﷲ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ مجھے نماز، تلاوت اور دعا و استغفار سے بڑا قلبی تعلق ہے ۔ (البدایہ والنہایہ، 8 / 175)
ابن سعد کے دستہ نے یہ بات مان لی اور قافلہ حسینی رضی اللہ عنہ نے رات اﷲ تعالیٰ کی عبادت اور مناجات میں بسر کی۔
رفقاء سے سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا خطاب
ابن سعد کے دستے واپس لوٹنے کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے رفقاء کو جمع کیا۔ ﷲ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب سے نہایت فصیح و بلیغ خطاب فرمایا کہ : میں کسی کے ساتھیوں کو اپنے ساتھیوں سے زیادہ وفادار اور بہتر نہیں سمجھتا اور نہ کسی کے اہل بیت کو اپنے اہل بیت سے زیادہ نیکوکار اور صلہ رحمی کرنے والا دیکھتا ہوں۔ ﷲ تعالیٰ تم سب کو میری طرف سے جزائے خیر عطا کرے گا۔ اگر تم میں سے کوئی جانا چاہتا ہے تو رات کی تاریکی میں چلا جائے۔ بے شک یہ لوگ میرے ہی قتل کے طالب ہیں جب مجھے قتل کریں گے تو پھر کسی اور کی ان کو طلب نہیں ہو گی مگر آپ رضی اللہ عنہ کے اصحاب اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے عرض گزار ہوئے ’’اے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم آپ پر اپنی جانیں قربان کر دیں گے، ہم اپنی گردنوں، پیشانیوں، ہاتھوں اور جسموں سے آپ رضی اللہ عنہ کا دفاع کریں گے۔ جب ہم قتل ہو جائیں گے تو سمجھیں گے کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔(البدایہ والنہایہ، 8 / 176 - 177،چشتی)
آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے جذبات سن کر انہیں اجازت مرحمت فرمائی اور پھر آپ رضی اللہ عنہ کے اصحاب نے آپ رضی اللہ عنہ کی معیت میں رات بھر نوافل ادا کئے اور بارگاہِ ایزدی میں عاجزی و انکساری کے ساتھ مغفرت کی دعائیں مانگیں۔(البدایہ والنہایہ، 8 / 177،چشتی)(ابن اثیر، 4 / 59)
10 محرم الحرام 61 ھ کا خونی آفتاب اپنی پوری خون آشامیوں کے ساتھ طلوع ہوا حسینی فوج کے 72 سپہ سالاروں نے یزیدی فوج کا ڈٹ کے مقابلہ کیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یزیدی فوج میدان چھوڑ کر بھاگ جائے گی۔ اس طرح مٹھی بھر جانثارانِ حسین رضی اللہ عنہ پروانہ وار شمع امامت پر قربان ہونے لگے۔ اس وقت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت سیدنا زین العابدین رضی اللہ عنہ علیل تھے۔ علالت کے باوجود اپنے والد گرامی سے اجازت طلب کی مگر آپ رضی اللہ عنہ نے سمجھایا کہ ایک تو آپ رضی اللہ عنہ علیل ہیں اور دوسرے آپ رضی اللہ عنہ کا زندہ رہنا ضروری ہے کیونکہ خانوادئہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر چراغ گل ہو چکا ہے، ہر پھول مرجھا چکا ہے، اب میری نسل میں فقط تو ہی باقی رہ گیا، مجھے تو شہید ہونا ہی ہے اگر تو بھی شہید ہو گیا تو میرے نانا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل کیسے چلے گی۔ تجھے اپنے نانا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل کی بقاء کے لئے زندہ رہنا ہے‘‘ پھر آپ کو کچھ نصیحتیں کیں اور یوں فرزند صاحب ذوالفقار حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر خود میدان کربلا میں اترے۔ مقابلے میں آپ رضی اللہ عنہ دیر تک یزیدیوں کو واصل جہنم کرتے رہے۔ پورے یزیدی لشکر میں کہرام مچ گیا۔ حیدر کرار کا یہ فرزند جس طرف تلوار لے کر نکلتا یزیدی لشکر خوفزدہ بھیڑوں کی طرح آگے بھاگنے لگتا۔
اسی معرکہ کے دوران آپ رضی اللہ عنہ کو بہت پیاس لگی، آپ رضی اللہ عنہ نے پانی کے لئے دریائے فرات کا رخ کیا مگر دشمن سخت مزاحمت کرنے لگا، اچانک ایک تیر آپ رضی اللہ عنہ کے چہرہ مبارک پر لگا اور آپ رضی اللہ عنہ کا چہرہ مبارک زخمی ہو گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے تیر کھینچ کر نکالا پھر ہاتھ چہرے کی طرف اٹھائے تو دونوں چلو خون سے بھر گئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنا خون آسمان کی طرف اچھال دیا اور ﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا : ’’الٰہی میرا شکوہ تجھی سے ہے، دیکھ تیرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے کے ساتھ کیا برتاؤ ہو رہا ہے ۔ (الطبری جلد 6 صفحہ 33،چشتی)
حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ دن کا طویل حصہ میدان کربلا میں تنہا دشمن کا مقابلہ کرتے رہے اور دشمنوں میں سے ہر کوئی آپ رضی اللہ عنہ کے قتل کو دوسرے شخص پر ٹالتا رہا کیونکہ حسین رضی اللہ عنہ کا قتل کوئی بھی اپنے ذمہ نہ لینا چاہتا تھا۔ آخر شمر بن ذی الجوشن نے کہا : ’’تمہارا برا ہو کیا انتظار کر رہے ہو؟ کام تمام کیوں نہیں کرتے؟ آپ رضی اللہ عنہ ہر طرف سے نرغہ ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پکار کر کہا : کیا میرے قتل پر ایک دوسرے کو ابھارتے ہو ؟ وﷲ ! میرے بعد کسی بندے کے قتل پر ﷲ تعالیٰ اتنا ناخوش نہیں ہو گا جتنا میرے قتل پر ۔(ابن اثیر جلد 4 صفحہ 78)
شمر لعین کے اکسانے پر یزیدی لشکر آپ رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑا، زرعہ بن شریک تمیمی نے آگے بڑھ کر آپ رضی اللہ عنہ کے بائیں کندھے پر تلوار ماری جس سے آپ رضی اللہ عنہ لڑکھڑا گئے۔ اس پر سب حملہ آور پیچھے ہٹے پھر سنان بن ابی عمرو بن انس نخفی نے آگے بڑھ کر آپ رضی اللہ عنہ کو نیزہ مارا جس سے آپ رضی اللہ عنہ گر پڑے۔ سنان نے سواری سے اتر کر آپ رضی اللہ عنہ کا سر تن سے جدا کر کے خونی یزید کے حوالے کر دیا۔(البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 188،چشتی)
یوں نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، جگر گوشۂ بتول سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے کربلا کے میدان میں جانثاری کی ایک نئی تاریخ رقم کر کے قربانی کی ایک لازوال مثال قائم کر دی اور رہتی دنیا تک یہ پیغام دے دیا کہ باطل کے خلاف حق کی سربلندی کے لئے اگر سر تن سے جدا بھی ہوتا ہے تو پرواہ نہ کی جائے اور قربانی سے دریغ نہ کیا جائے۔
اس سانحہ کو قید زمین و مکاں نہیں
اک درس دائمی ہے شہادت حسین (رضی اللہ عنہ) کی
یہ رنگ وہ نہیں جو مٹانے سے مٹ سکے
لکھی گئی ہے خون سے امامت حسین (رضی اللہ عنہ) کی
آج جہاں ہم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ سیرتِ حسین رضی اللہ عنہ پر عمل پیرا ہوں۔ اپنے ظاہر و باطن کو ان کی سیرت میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ باہمی رنجشوں اور فرقہ واریت کو چھوڑ کر محبت و عمل کا نشان، دین محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علمبردار اور اسلام کی خاطر مر مٹنے والے بن جائیں تاکہ روز حشر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے سامنے سرخرو ہو سکیں اور کہہ سکیں کہ اے حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے امام حسین رضی اللہ عنہ کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگیاں دین کی سربلندی کی خاطر قربان کی ہیں ۔
سو جان سے فدا تھے نبی (ﷺ) کیوں حسین (رضی اللہ عنہ) پر
عقدہ کھلا یہ معرکۂ کربلا کے بعد
شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کے وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میدانِ کربلا میں موجود تھے اور شہداءِ کربلا رضی اللہ عنہم کا خون ایک شیشی میں جمع کیا ہوا تھا ۔ (فتاویٰ علمیّہ جلد دوم صفحہ 269 یہ حدیث صحیح راوی ثقہ ہیں حافظ زبیر علی زئی محدث و محقق غیر مقلد وہابی حضرات)
اہلحدیث حضرات کے محقق لکھتے ہیں : شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کی خبر نبی کریم صلی الله عليه وآله وسلم نے دے دی تھی اور بوقتِ شہادت امام آپ صلی الله عليه وآله وسلم کربلا میں موجود تھے آپ صلی الله عليه وآله وسلم کو صدمہ ہوا ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 104 تحقیق حافظ زبیر علی زئی غیر مقلد اہلحدیث وہابی)
اس سے یہ ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میدانِ کربلا میں موجود تھے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حیات ہیں اور جہاں چاہیں تشریف لے جا سکتے ہیں ۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو شہادتِ امامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صدمہ ، پریشانی اور تکلیف ہوئی ۔
یزید کے وکیلو ذرا سوچو کیا منہ دکھاؤ گے آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ کہو گے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خاندان کو تکلیفیں پہچانے والے یزید پلید کی حمایت میں زندگی گزار دی ؟
عن ام سلمة قالت قال رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يقتل حسين بن علي علي رأس سيتن من المهاجري ۔ (مجمع، 9 : 190)۔(بحواله طبراني في الاوسط)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا حسین بن علی کو ساٹھ ہجری کے اختتام پر شہید کر دیا جائے گا ۔
غیب کی خبریں بتانے والے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کی نشاندہی کردی کہ یہ عراق کا میدان کربلا ہوگا بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ یہ عظیم سانحہ 61 ہجری کے اختتام پر رونما ہوگا ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اکثر دعا فرمایا کرتے : اللهم انی اعوذبک من رائس الستين وامارة الصبيان ۔
ترجمہ : اے اللہ میں ساٹھ ہجری کی ابتدا اور (گنوار) لڑکوں کی حکومت سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔ (الصواعق الحرقه : 221)
60 ہجری کی ابتدا میں ملوکیت کی طرف قدم بڑھایا جاچکا تھا اور یہی ملوکیت وجہ نزاع بنی۔ اور اصولوں کی پاسداری اور اسلامی امارت کے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خاطر نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو کربلا کے میدان میں حق کا پرچم بلند کرتے ہوئے اپنی اور اپنے جان نثاروں کی جانوں کی قربانی دینا پڑی۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ اہل حق کٹ تو سکتے ہیں کسی یزید کے دست پلید پر بیعت کرکے باطل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ وہ نیزے کی انی پر چڑھ کر بھی قرآن سناتے ہیں ۔ ان کے بے گور و کفن لاشوں پر گھوڑے تو دوڑائے جا سکتے ہیں لیکن انہیں باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا ، یہی لوگ تاریخ کے چہرے کی تابندگی کہلاتے ہیں اور محکوم و مظلوم اقوام کی جد و جہد آزادی انہی نابغانِ عصر کے عظیم کارناموں کی روشنی میں جاری رکھتے ہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ 60 ہجری کی ابتدا سے پناہ مانگتے تھے کہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے نقشِ قدم سے انحراف کی راہ نکالی جا رہی تھی ، لڑکوں کے ہاتھ میں عنان اقتدار دے کر اسلامی ریاست کو تماشا بنایا جا رہا تھا ۔ کہ اب سنجیدگی کی جگہ لا ابالی پن نے لے لی تھی ۔
حضرت یحیٰ حضرمی کا ارشاد ہے کہ سفرِ صفین میں مجھے شیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا ۔ جب ہم نینوا کے قریب پہنچے تو دامادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابو عبد اللہ ! فرات کے کنارے صبر کرنا میں نے عرض کیا ’’یہ کیا ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے جبرئیل نے خبر دی ہے : ان الحسين يقتل بشط الفرات و اراني قبضة من تربته ۔
ترجمہ : حسین رضی اللہ عنہ فرات کے کنارے قتل ہوگا اور مجھے وہاں کی مٹی بھی دکھائی ۔ (الخصائص الکبریٰ جلد 2 صفحہ 12،چشتی)
حضرمی روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت علی شیر خدا رک کر اس زمین کو دیکھنے لگے تو اچانک بلند آواز میں گویا ہوئے ۔ ابو عبد اللہ! حسین رضی اللہ عنہ بر کرنا ۔ ہم سہم گئے ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے ، آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ ورطہ حیرت میں ڈوب گئے کہ یا الہی یہ ماجرا کیا ہے ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ اس میدان کربلا میں میرا حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگا ۔
حضرت اصبغ بن بنانہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : اتينا مع علي موضع قبر الحسين فقال ههنا مناخ رکابهم و موضع رحالهم و مهراق دمائهم فئة من ال محمد صلي الله عليه وآله وسلم يقتلون بهذه العرصة تبکی عليهم السماء والارض ۔
ترجمہ : ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قبر حسین رضی اللہ عنہ کی جگہ پر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ ان کے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ اور یہ ان کے کجاوے رکھنے کی جگہ ہے اور یہ ان کے خون بہنے کا مقام ہے۔ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک گروہ اس میدان میں شہید ہوگا جس پر زمین و آسمان روئیں گے ۔ (الخصائص الکبری جلد 2 صفحہ 126)(سر الشهادتين صفحہ 13)
گویا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کا پورا نقشہ کھینچ دیا کہ یہاں پر وہ شہادت کے درجہ پر فائز ہوگا اور یہاں خاندان رسول ہاشمی کا خون بہے گا ۔
ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا ذکر پہلے ہوچکا ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حسین کو عراق میں قتل کردیا جائے۔ اور یہ کہ جبرئیل نے کربلا کی مٹی لاکر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : يا ام سلمه اذا تحولت هذه الترته دما فاعلمي ان ابني قد قتل فجعلتها ام سلمة في قارورة ثم جعلت تنظر اليها کل يوم و تقول ان يوما تحولين دما ليوم عظيم ۔
ترجمہ : اے ام سلمہ رضی اللہ عنہاجب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا قتل ہوگیا ہے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے اس مٹی کو بوتل میں رکھ دیا تھا اور وہ ہرروز اس کو دیکھتیں اور فرماتیں اے مٹی! جس دن تو خون ہوجائے گی وہ دن عظیم ہوگا ۔ (الخصائص الکبری، 2 : 125،چشتی)۔(سر الشهادتين، 28)۔( المعجم الکبير للطبرانی، 3 : 108)
حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے رونے کا سبب پوچھا اور کہا : کس شے نے آپ کو گریہ و زاری میں مبتلا کر دیا ہے؟ آپ نے کہا : میں نے خواب میں نبی اکرم صلی الله عليه وآله وسلم کی زیارت کی ہے۔ آپ صلی الله عليه وآله وسلم کا سر انور اور ریش مبارک گرد آلود تھی۔ میں نے عرض کی، یا رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم ، آپ صلی الله عليه وآله وسلم کی کیسی حالت بنی ہوئی ہے ؟ آپ صلی الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا : میں نے ابھی ابھی حُسین (رضی اللہ عنہ) کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے ۔ یہ حدیث ان کتب میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہیں ۔ (جامع ترمذی صفحہ نمبر 1028 حدیث نمبر3771 باب مناقب حسن و حسین (رضی اللہ عنہما) طبع الاولیٰٰ 1426ھ، دار الکتب العربی بیروت)۔(مستدرک امام حاکم تلخیص :علامہ ذہبی جلد 4 صفحہ 387 حدیث نمبر 6895 باب ذکر ام المومنین ام سلمہ //طبع قدیمی کتب خانہ پاکستان ، جز :5 ،چشتی)(تہذیب التہذیب ابن حجر عسقلانی جلد 2 صفحہ 356 طبع الاولی ھند)(البدایہ والنھایہ ابن کثیر محقق:عبدالمحسن ترکی جلد 11 صفحہ 574 طبع الاولیٰٰ 1418 ھ، جز:21 الھجر بیروت)
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ صلی الله عليه وآله وسلم غبار آلود دوپہر کے وقت خون سے بھری ہوئی ایک شیشی لیے ہوئے ہیں۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم فداک ابی و امی، یہ کیا ہے ؟ آپ صلی الله عليه وآله وسلم نے فرمایا، یہ حسین (رضی اللہ عنہما) اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے جسے میں آج صبح سے اکٹھا کر رہاہوں ۔ عمار کہتے ہیں کہ ہم نے حساب لگایا تو ٹھیک وہی دن شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کا روز تھا ۔ علامہ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس روایت کو امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی اسناد قوی ہیں ۔ (البدایۃ والنھایۃ)
ابن ابی الدنیا نے عبداللہ بن محمد بن ہانی ابو عبد الرحمن نحوی سے، انہوں نے مہدی بن سلیمان سے اور انہوں نے علی بن زید بن جدعان سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عباس سو کر اٹھے تو “انا للہ و انا الیہ راجعون ” کہا اور کہنے لگے اللہ کی قسم امام حسین شہید کر دیے گئے ہیں۔ ان کے اصحاب نے پوچھا کہ اے ابن عباس ! کیوں کر؟ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم کو خون کی ایک شیشی لیے ہوئے خواب میں دیکھا ہے ۔ آپ صلی الله عليه وآله وسلم نے فرمایا کہ اے ابن عباس ! کیا تم جانتے ہو کہ میرے بعد میری امت کے اشقیاء نے کیا کیا؟ انہوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ نے شہید کر دیا ہے ۔ اور یہ اس کا اور اس کے اصحاب کا خون ہے جسے میں اللہ تعالی کے حضور پیش کروں گا ۔ چنانچہ وہ دن اور گھڑی لکھ لی گئی ۔ اس کے بعد چوبیس دن بعد مدینہ شریف میں یہ خبر آئی کہ امام حسین کو اسی دن اور اسی وقت میں شہید کیا گیا ۔ حمزہ بن زیارت نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ دونوں پیغمبر امام حسینؑ کے روضہ پر نماز پڑھ رہے ہیں۔ شیخ ابو نصر نے بالاسناد حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالہ سے بیان کیا کہ حضرت جعفر بن محمد نے فرمایا کہ حضرت حسین ؑ کی شہادت کے بعد آپ کی قبر انور پر ستر ہزار فرشتے اترے اور قیامت تک آپ کے کے لیے اشکباری کرتے رہیں گے ۔ (البدایۃ والنھایۃ)
عن ام سلمه قالت قال رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أخبرني جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بأرض العراق فقلت لجبرئيل ارني تربة الارض التي يقتل فيها، فجاء فهذه تربتها ۔ (البدايه والنهايه، 8 : 196 - 200)۔(کنز العمال، 12 : 126، حدیث : 34313)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی ﷲ عنھا روایت کرتی ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے جبرئیل امین نے (عالم بیداری میں) بتایا کہ میرا یہ بیٹا حسین عراق کی سرزمین میں قتل کر دیا جائیگا میں نے کہا جبرئیل مجھے اس زمین کی مٹی لا کر دکھا دو جہاں حسین کو قتل کر دیا جائے گا پس جبرئیل گئے اور مٹی لا کر دکھا دی کہ یہ اس کے مقتل کی مٹی ہے ۔
عن عائشة عنه انه قال أخبرنی جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بعدي بأرض الطف ۔
ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل امین نے مجھے خبر دی کہ میرا یہ بیٹا حسین میرے بعد مقام طف میں قتل کر دیا جائے گا ۔ (المعجم الکبير جلد 3 صفحہ 107 حدیث نمبر 2814)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی روایت بھی کم و بیش وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے، یہ بھی قتل حسین رضی اللہ عنہ کی اطلاع ہے۔ یہ روح فرسا اطلاع پا کر قلب اطہر پر کیا گزری ہوگی اس کا تصور بھی روح کے در و بام کو ہلا دیتا ہے، پلکوں پر آنسوؤں کی کناری سجنے لگتی ہے اور گلشن فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تباہی کا دلخراش منظر دیکھ کر چشم تصور بھی اپنی پلکیں جھکا لیتی ہے ۔
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام کے چشمان مقدس سے آنسو رواں تھے میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج کیا بات ہے چشمان مقدس سے آنسو رواں ہیں ؟ فرمایا کہ مجھے ابھی ابھی جبرئیل خبر دے گیا ہے کہ : ان امتک ستقتل هذا بأرض يقال لها کربلاء ۔ ترجمہ : آپ کی امت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس بیٹے حسین کو اس سر زمین پر قتل کر دے گی جس کو کربلا کہا جاتا ہے ۔ (المعجم الکبير، 3 : 109، حدیث : 2819،چشتی)
شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کا پیغام
محترم قارئینِ کرام : سید الشہدا حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہمیں کئی پیغام دیتی ہے اول یہ کہ ایمان والا اپنے خون کے آخری قطرہ تک حق پر صداقت پر جما رہے باطل کی قوت سے مرعوب نہ ہو ۔ دوسری بات یہ کہ امام حسین رضی اللہ عنہ یزید کی جن خرابیوں کے باعث مخالفت کی ویسے لوگوں سے اپنے آپ کو الگ کرے اور فسق و فجور والا کام نہ کرے اور نہ ویسے لوگوں کا ساتھ دے نیز یہ بھی پیغام ملا کہ ظاہری قوت کے آگے بسا اوقات نیک لوگ ظاہری طور پر مات کھا جاتے ہیں مگر جو حق ہے وہ سچائی ہے وہ کبھی ماند نہیں پڑتی مات نہیں کھاتی اور وہ ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لاتی ہے ۔ یہی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسلام کا سرمایہ حیات یزیدیت نہیں بلکہ شبیریت حسینیت ہے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شہادت امتِ مسلمہ کےلیے کئی پہلو سے عملی نمونہ ہے، جس پر انسان عمل پیرا ہو کر اپنی زندگی کو اسلامی طرز پر قائم رکھے اسلامی زندگی اسلامی رنگ و روپ کی بحالی کےلیے صداقت حقانیت جہد مسلسل اور عمل پیہم میں حسینی کردار اور حسینی جذبہ ایثار و قربانی سے سرشار ہو ۔ اقتدار کی طاقت جان تو لے سکتی ہے ایمان نہیں ۔ اگر ایمانی طاقت کار فرما ہو تو اس کے عزم و استقلال کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا ۔ لندن کے مشہور مفکر '' لارڈ ہیڈلے '' کے بقول '' اگر حسین میں سچا اسلامی جذبہ کار فرما نہ ہوتا تو اپنی زندگی کے آخری لمحات میں رحم و کرم ، صبر و استقلال اور ہمت و جوانمردی ہرگز عمل میں آ ہی نہیں سکتی تھی جو آج صفحہ ہستی پر ثبت ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حضرت اما م حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے حقیقی فلسفہ و حقیقت اور مقصد کو سمجھا جائے اور اس سے ہمیں جو سبق اورپیغام ملتا ہے اسے دنیا میں عام کیا جائے ۔
فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی اہل اسلام کی خدمت میں عرض کرتا ہے محبتِ اہلبیت و امام حسین رضی اللہ عنہم کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ ہم انے پیغام کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں ۔ حضرت امام عالی مقام سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا پہلا پیغام عملی جدوجہد کا پیغام ہے ۔ محبت حسین رضی اللہ عنہ کو فقط رسمی نہ رہنے دیا جائے بلکہ اسے اپنے عمل و حال و قال میں شامل کرلیا جائے اور اپنی زندگی کا مقصد بنایا جائے ، یعنی معلوم کیا جائے کہ یزیدی کردار کیا ہے اور حسینی کردار کیا ہے ۔
یزید نے کھلم کھلا اسلام کا انکار نہیں کیا تھا اور نہ ہی بتوں کی پوجا کی تھی ، مسجدیں بھی مسمار نہیں کی تھیں ۔ وہ اسلام کا نام بھی لیتا تھا ، وہ یہ بھی کہتا تھا کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں ، میں مسلمان بھی ہوں، میں موحد بھی ہوں ، میں حکمران بھی ہوں ، میں آپ کا خیر خواہ بھی ہوں ۔ اسلام کا انکار یہ تو ابوجہلی ہے ، ابولہبی ہے ۔ یزیدی کردار یہ ہے کہ مسلمان بھی ہو اور اسلام سے دھوکہ بھی کیا جائے ، امانت کی دعویٰ بھی ہو اور خیانت بھی کی جائے ، نام اسلام کا لیا جائے اور آمریت بھی مسلط کی جائے ۔ اپنے سے اختلاف کرنے والوں کو کچلا جائے ۔ اسلام سے دھوکہ فریب یزیدیت کا نام ہے ۔ بیت المال میں خیانت کرنا ، دولت کو اپنی عیش پرستی پر خرچ کرنا یزیدیت کا نام ہے ۔ معصوم بچوں اور بچیوں کے مال کو ہڑپ کرنا یزیدیت کا نام ہے ۔ مخالف کو کچلنا اور جبراً بیعت اور ووٹ لینا یزیدیت کا نام ہے ۔ (چشتی)
آج روح حسین رضی اللہ عنہ ہم سے پکار پکار کر کہتی ہے کہ : میری محبت کا دم بھرنے والوں میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میری محبت رسمی ہے یا پھر آج تم کوئی معرکہ کربلا برپا کرتے ہو ۔ میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میری محبت میں پھر تم آج کے وقت یزیدیوں کو للکارتے ہو یا نہیں ۔ روح حسین رضی اللہ عنہ آج پھر دریائے فرات کو رنگین دیکھنا چاہتی ہے ، آج تمہارے صبر و استقامت کا امتحان لینا چاہتی ہے ۔ کہ کون اسلام کا جھنڈا سربلند کرتے ہوئے تن من دھن کی بازی لگاتا ہے ، کون ہے جو مجھ سے حقیقی پیار کرتا ہے ۔
حسینیت کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں جہاں تمہیں یزیدیت کے کردار کا نام و نشان نظر آئے حسینی لشکر کے غلام و فرد بن کر یزیدیت کے بتوں کو پاش پاش کردو ۔ اس کے لیے اگر تمہیں مال ، جان ، اور اپنی اولاد ہی کیوں نہ قربان کرنی پڑے ۔ خصوصا آج جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں ہمارے بھائیوں ، بچوں ، ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ ہو رہا ہے حسینیت کا تقاضا ہے کہ ہم سب ان کے حو میں آواز بلند کریں ۔
پہلے حسینی کردار کی تجلی اپنے اندر پیدا کرو ، سیرت حسین کو اپنے سینے پہ سجالو ، پھر اس قوت حسینی سے یزیدی کردار کی مخالفت کرو اور اس کا مقابلہ کرو ۔ کاش ہمیں وہ دل نصیب ہوجائے جس میں عمل و محبت امام حسین رضی اللہ عنہ ہو ۔ کیوں کہ یہ دنیا تو ہر کسی کو چھوڑنی ہے ، جس نے اقتدار کے نشے میں اگر لوگوں کا قتل عام کیا ، معصوموں کا خون بہایا ، ظلم کے پہاڑ گرائے وہ بھی مرگیا ، جس نے اپنے سینے پر تیروں کو جگہ دی ، شریعت کی پیروی کی ، مخلوق کی خدمت کی وہ بھی چلا گیا۔ لیکن یزیدیت تباہی و بربادی کا نام ہے ، اور حسینیت محبت و اخوت و بہادری کا نام ہے ۔ جو ظالم ہو کر مرتا ہے وہ خالق و مخلوق کی نظر میں مردود ہے ۔ جو عادل ہوکر اپنی جان رب کریم کے حوالے کرتا ہے وہ مقبول ہو جاتا ہے ۔ یہی شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا فلسفہ تھا ۔ یہی آپ کا جذبہ تھا کہ حسینیت کبھی کسی ظالم و جابر کے سامنے سرخم نہیں کرتی اور کبھی مصیبت میں نہیں گھبراتی ۔ وہ مصیبت میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہے تو خوشی میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہے ۔
حضرت سیّدنا اما م حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے حقیقی فلسفہ و حقیقت اور مقصد کو سمجھا جائے اور اس سے ہمیں جو سبق اورپیغام ملتا ہے اسے دنیا میں عام کیا جائے کیونکہ پنڈت جواہر لا ل نہرو کے بقول ’’ حسین کی قربانی ہر قوم کےلیے مشعلِ راہ و ہدایت ہے ‘‘ اور جیسا کہ مولانا محمد علی جوہر نے شہادت حسین پہ کہا ہے کہ : ⬇
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
اور کسی شاعر نے بہت پیاری بات کہی ہے : ⬇
نہ یزید کا وہ ستم رہا نہ وہ ظلم ابن زیاد کا
جو رہا تو نام حسین کا جسے زندہ رکھتی ہے کربلا
حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ حق ہے اور یزید باطل ہے اور دین کی بقا کےلیے ہر دور میں شبیری کردار درکارہے کہ مرورِ وقت کے باوجود خونِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سرخی اور زیادہ بڑھتی جارہی ہے ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس عظیم الشان قربانی سے اس داستانِ حرم کی تکمیل ہوئی جو سیّدنا اسماعیل علیہ السّلام سے شروع ہوئی تھی اور حق وباطل ، کفر واسلام ، نیکی و بدی اورخیر وشر کے درمیان تمیز ہو گئی اور حد فاصل قائم ہوگئی ۔ یزیدیت مذموم ٹھہری اور یزید کا نام قیامت تک کےلیے گالی بن کر رہ گیا ۔ اللہ تعالیٰ ہم لوگوں کو شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ سے سبق لینے ، حق پر چلنے اور ہمیں پیغامِ شہادت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment