Tuesday 22 October 2019

حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ داتا اور لاہور داتا کی نگری وہابیوں کا اقرار

0 comments
حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ داتا اور لاہور داتا کی نگری وہابیوں کا اقرار

غیرمقلد وہابیوں کے محدث گوندلوی کا شاگرد غیرمقلد وہابی حافظ محمد قاسم خواجہ لکھتا ہے کہ : آئے دن سیلاب کا عذاب آتا رہتا ہے پھر تو داتا کی نگری بھی حقیر ہو جانی چاہئے ۔ (معرکہ حق و باطل بجواب جآء الحق صفحہ نمبر 364 مطبوعہ مکتبۃ الحرمین ماڈل ٹاؤن گوجرانوالہ)

اگر حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کو داتا اور لاہور شہر کو داتا کی نگری کہنا شرک ہے تو نجدی محقق مولوی قاسم خواجہ کون ہوا ؟

محترم قارئینِ کرام : کہا جاتا ہے کہ داتا صرف اللہ ہے کسی اور کو داتا کہنا شرک ہے تو اس کت متعلق عرض ہے کہ :

(1) داتا اللہ کا نام ہے کوئی مجھے اسمائے حسنیٰ میں داتا کا اسم دکھائے کہاں پر ہے؟

(2) بیشک داتا اللہ جل جلالہ ہے لیکن کسی اور کو داتا کہنے سے شرک کیسے لازم آیا جبکہ ہم جانتے ہیں ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کو کسی نے داتا نہیں بنایا ۔ یہ اس کی اپنی صفت ہے ۔ لیکن مخلوق میں سے کسی کو داتا کہا جائے تو ہمارا ایمان ہے کہ یہ انسان اللہ کا ولی ، اگر داتا ہے تو اللہ کی عطا سے ۔ یہ ذاتا داتا نہیں ہے ۔ جب فرق واضح ہے تو برابری کہاں لازم آئی ، شرکت کیسے پائی گئی ۔ یا پھر معترضین کو کہہ دینا چاہیئے کہ وہی داتا ہے اور وہ کسی کو داتا نہیں بناتا ؛ وہی سخی ہے اور وہ کسی کو سخی نہیں بناتا ۔ پھر یہ بھی کہنا پڑے گا اللہ کے پاس ہے تو سب کچھ لیکن وہ کسی کو کچھ دیتا نہیں ۔ اور یہ جان لیں کہ یہ یہودیوں کا عقیدہ ہے ۔ (نعوذ باللہ من ذلک،چشتی)

(3) اللہ عزّ و جل نے فرمایا : بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔۔۔۔ تسمیہ میں لفظ رحیم کا ذکر ہے یہ یقیناً اللہ کا نام ہے اور اسمائے حسنیٰ میں سے ہے ۔ تو آپ کے اعتبار سے اگر کسی کو رحیم کہا جائے تو شرک لازم آئے گا تو کیا یہ فتویٰ آپ اللہ پر لگائیں گے کہ اس نے خود اپنے محبوب صلی ﷲ علیہ وآلہ و آلہ وسلم کو اپنا شریک ٹھہرا لیا (نعوذ باللہ من ذلک) ۔ آپ یہ فتویٰ نہیں لگا سکتے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : لقد جآءکم رسول من انفسکم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ بالمومنین رؤف رحیم ۔ (سورہ: توبہ، آیت نمبر: ١٢٨)
اللہ تعالٰی اپنے محبوب صلی ﷲ علیہ وآلہ و آلہ وسلم کو رؤف رحیم فرما رہا ہے ۔

اللہ بھی رؤف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کا محبوب بھی رؤف
اللہ بھی رحیم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کا محبوب بھی رحیم

لگائیں فتویٰ

مسلمان عقل سلیم والا جانتا ہے کہ اللہ رحیم ہے یہ اس کی اپنی صفت ہے ۔ اس کو کسی نے رحیم نہیں بنایا لیکن نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ و آلہ وسلم رحیم ہیں تو اللہ کی عطا سے ۔ اللہ نے آپ کو رؤف اور رحیم بنایا ۔ اللہ رحیم ہے تو اپنی ذات کے اعتبار سے اللہ کے محبوب صلی ﷲ علیہ وآلہ و آلہ وسلم رحیم ہیں تو اللہ کی عطا سے ۔ ادھر رحمت صفت ذاتی ہے ادھر رحمت صفت عطائی ہے ۔ اسی طرح اللہ داتا ہے تو اپنی ذات کے اعتبار سے اور کوئی بندہ حق داتا ہے تو اللہ کی عطا سے ۔ اللہ رحیم ہے اس کے محبوب صلی ﷲ علیہ وآلہ و آلہ وسلم کو رحیم کہنا جائز ہے بلکہ برحق ہے کہ اللہ نے خود آپ کو رحیم فرمایا تو اللہ داتا ہے تو اس کے محبوب صلی ﷲ علیہ وآلہ و آلہ وسلم مقرب بندے کو داتا کہنا بھی جائز ہے ۔

(4) وھو العلی العظیم ۔ (آیت الکرسی پارہ نمبر 3)
اور وہ علی عظیم ہے یعنی بلند بالا عظمت والا ۔
اللہ کا نام علی ہے اسمائے حسنیٰ میں بھی آیا ہے آیت الکرسی میں بھی ہے تو ذرا غور فرمائیں ۔
اللہ بھی علی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کے محبوب کا داماد ، حضرت زہرہ کا شوہر ، حسنین کریمین کا بابا بھی علی رضی اللہ عنہم ۔۔۔
علی اللہ کا نام ہے ۔ اللہ کے محبوب صلی ﷲ علیہ وآلہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام کیوں نہ بدلا بلکہ اپنے داماد کو یاعلی کہہ کر پکارا ہے ۔۔۔ لگاؤ فتویٰ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ و آلہ وسلم پر ؟ (نعوذ باللہ من ذلک)

جنابِ من بات یہ ہے کچھ نام اللہ کے ذاتی ہیں ، اسم جلالت ہیں ۔ باقی نام صفاتی ہیں ۔ جو اسم جلالت ہیں وہ نام ہم کسی آدم کو نہیں دے سکتے ۔ لیکن جو صفاتی ہیں وہ صفات مخلوق میں ہو سکتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے خود اپنی صفات کو انسان میں رکھ کر پیدا فرمایا ہے ۔ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے :

ذاتی اور عطائی صفات

اللہ کی تمام کی تمام صفات اس کی ذاتی صفات ہیں کسی کی عطا کردہ نہیں ہیں اور اس کی صفات بے شمار ہیں جن کا ہم احاطہ نہیں کر سکتے۔جبکہ مخلوق کی تمام کی تمام صفات اللہ کی عطا کردہ ہیں لہذا ان کو عطائی صفات کہا جاتا ہے ۔ علم ، ارادہ ، کلام ، سننا، دیکھنا وغیرہ وغیرہ کئی صفات ایسی ہیں جو اللہ کے لیے بهی ثابت ہیں ، اور بندوں کے لیے بهی ثابت ہیں لیکن ان میں کئی اعتبار سے فرق ہے اور ایک بہت بڑا اور بنیادی فرق یہ ہے کہ : اللہ کی یہ صفات ذاتی صفات ہیں اور بندوں کی یہ صفات عطائی صفات ہیں ۔ اب جو کہتا ہے کہ میں اس فرق کو نہیں مانتا اس سے سوال یہ ہے کہ تم اس فرق کو مٹا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہو کہ تمہیں جو مذکورہ بالا صفات میں سے کچھ حصہ ملا ہے تو کیا یہ اللہ کی عطا کردہ صفات نہیں ہیں ؟

یقیناً اللہ کی ہی عطا کردہ ہیں لہذا عطائی صفات تو ماننی پڑیں گی ورنہ تم اللہ کی عطا کے منکر ٹهرو گے اور جو اللہ کی عطا کا انکار کرے اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں رہے گا۔اب کچھ صفات ایسی ہیں جو انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو خاص طور پر ملی ہیں مثلاً مردے کو زندہ کرنا، شفا دینا، غیب جاننا، ما فوق الاسباب مدد کرنا، اندهے کو بینا کر دینا وغیرہ وغیرہ۔ان کو معجزات میں شمار کیا جاتا ہے اس لیے کہ یہ عقل میں نہیں آ سکتی ،اسی طرح اولیاء کرام رحمهم اللہ تعالیٰ کو بہت سی کرامات سے نوازا گیا ہے۔یہ سب اللہ کی عطا سے ہے کوئی اللہ کی عطا کے بغیر ایک ذرہ بهی کسی کو نہیں دے سکتا۔اب جو ان صفات کو اللہ کی عطا کردہ صفات نہیں مانتا اور کہتا ہے کہ ذاتی عطائی کوئی چیز نہیں تو جان لو وہ حقیقت میں اللہ کی عطا ہی کا منکر ہے اور وہ توحید و شرک کا فرق اٹھانا چاہتا ہے اور قرآن کی آیات کا انکار اور احادیث کا انکار کر کے اپنے فاسد نظریات پھیلانا چاہتا ہے ، شرک کی جڑ کاٹنے والا فرق یہی ذاتی عطائی اور حقیقی مجازی کا فرق ہے جو ہر مسلمان کو یاد رکھنا لازمی ہے ۔ (چشتی)

اللہ تعالیٰ کی کچھ صفات جو صفات عامہ کہلاتی ہیں مخلوق میں پائی جاتی ہیں ، جب ان کا ذکر اللہ تعالیٰ کے لئے ہو گا تو وہ حقیقی معنی میں استعمال ہوں گی اور شان خالقیت و الوہیت کے مطابق ہوں گی اور جب مخلوق کے لئے ہو گا تو ان کا استعمال مجازی اور عطائی معنی میں ہو گا کیونکہ مخلوق میں جو صفات پائی جاتی ہیں وہ اللہ کی صفات سے اصلاً مشابہ نہیں ہوتیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہوتی ہیں۔ یہ صفات مخلوق کو اس لیے عطا کی گئی ہیں کہ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی اعلیٰ صفات کو جہاں تک ممکن ہو معلوم کرنے میں مدد مل سکے گویا یہ صفات الٰہیہ کی معرفت کا ذریعہ اور واسطہ بنتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جو مخلوق میں پائی جاتی ہیں وہ اس طرح کی ہیں :

(1) صفاتِ حقیقی بمعنی صفات ذاتی

(2) صفات مجازی بمعنی صفات عطائی

(1) اِنَّهُ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ۔ ترجمہ : بیشک وہی خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔ (الإسراء، 17 : 1)

فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا ۔ ترجمہ : پھر ہم اس کو سننے والا اور دیکھنے والا (انسان) بنا دیتے ہیں ۔ (الدهر، 76 : 2)

إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ۔ ترجمہ : بیشک اللہ لوگوں پر بڑی شفقت فرمانے والا مہربان ہے ۔ (البقرة، 2 : 143)
لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ترجمہ : بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول تشریف لائے، تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لئے نہایت (ہی) شفیق، بے حد رحم فرمانے والے ہیں ۔ (التوبة، 9 : 128،چشتی)

إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ۔ ترجمہ : بیشک اللہ ہر چیز کا مشاہدہ فرما رہا ہے ۔ (الحج، 22 : 17)
وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا. ترجمہ : اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول تم پر گواہ ہو ۔ (البقرة، 2 : 143)

کَلَّمَ اﷲُ مُوْسٰی تکْلِيْمًا ۔ ترجمہ : اور اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے (بلاواسطہ) گفتگو (بھی) فرمائی ۔ (النساء، 4 : 164) ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اللہ سے کلام کیا ۔

أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ العِزَّةَ لِلّهِ جَمِيعًا ۔ ترجمہ : کیا یہ ان (کافروں) کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں؟ پس عزت تو ساری اللہ کے لئے ہے ۔ (النساء، 4 : 139)
وَِﷲِ الْعِزَّة وَ لِرَسُوْلِه وَ لِلْمُوْمِنِيْنَ ۔ ترجمہ : عزت اللہ کیلئے، اس کے رسول کے لئے اور مومنین کے لئے ہے ۔ (المنافقون، 63 : 8،چشتی)

أَنَّ الْقُوَّةَ لِلّهِ جَمِيعاً ۔ ترجمہ : ساری قوتوں کا مالک اللہ ہے ۔ (البقرة، 2 : 165)

سیدنا سلیمان علیہ السلام کے استفسار پر آپ کے درباریوں نے یہ جواب دیا : نَحْنُ أُوْلُوا قُوَّةٍ وَأُولُوا بَأْسٍ شَدِيدٍ ۔ ترجمہ : ہم طاقتور اور سخت جنگجو ہیں ۔ (النمل، 27 : 33)

بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۔ ترجمہ : ساری بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے ۔ (آل عمران، 3 : 26)
أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۔ ترجمہ : خبردار ہر چیز کی تخلیق اور حکم و تدبیر کا نظام چلانا اسی کا کام ہے ۔ (الاعراف، 7 : 54)

وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا ۔ ترجمہ : جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہو گئی ۔ (البقرة، 2 : 269)

حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے :

أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ ۔ ترجمہ : میں تمہارے لیے مٹی سے پرندے کی شکل جیسا (ایک پتلا) بناتا ہوں ۔ (آل عمران، 3 : 49)

محترم قارئین : نفس مسلہ کو سمجھانے کےلیئے ہم چند آیات قرآنی نقل کی ہیں اس طرح کی دیگر بہت سی آیات موجود ہیں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان لوگوں کو ہدایت عطاء فرمائے جو بلا سوچے سمجھے اہل اسلام پر شرک کے فتوے لگاتے ہیں اور امت مسلمہ فتنہ و فساد پھیلاتے ہیں آمین ۔

محترم قارئینِ کرام : اب غور فرمائیں یہ صفات اللہ کی ہیں اور مخلوق میں بھی پائی جا رہی ہیں۔ تو کیا شرک ہوا ؟ نہیں ہوا کیونکہ یہ صفات اللہ کی ذاتی ہیں اور مخلوق کی عطائی ، لہٰذا شرکت لازم نہیں آتی ۔ فرق واضح ہے ۔ اسم جلالت اللہ اور رحمٰن ہے باقی اللہ کی صفات ہیں ۔ اللہ رحیم ہے مخلوق میں سے وہ جس کو چاہے رحیم بنا دے ۔ اللہ رؤف ہے وہ جسے چاہے رؤف بنا دے ۔ وہ کریم ہے جسے چاہے کریم بنا دے ۔ وہ داتا ہے جسے چاہے داتا بنا دے ۔ آپ کو یا مجھے اعتراض کی کیا مجال ؟

اللہ تعالیٰ داتا ہے ذات کے اعتبار سے ، حضرت سیدنا علی بن عثمان الہجویری رحمۃ اللہ علیہ داتا ہیں تو اللہ کی عطا سے اللہ ان کو نوازتا ہے وہ لوگوں کو نوازتے ہیں ۔ اللہ کو سخی بہت پسند ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔