Monday 14 October 2019

جس نے میرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا

0 comments
جس نے میرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ أَبِي رَائِطَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي , اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي ، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي ، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ ، وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ " . قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ میرے بعد میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور ان کو حدف ملامت نہ بنانا اس لئے کہ جس نے ان سے محبت کی اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے انہیں ایذاء (تکلیف) پہنچائی گویا اس نے مجھے ایذاء دی اور جس نے مجھے اذیت دی گویا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کو اذیت دی اور جس نے اللہ تعالیٰ کو اذیت دی اللہ تعالیٰ عنقریب اسے اپنے عذاب میں گرفتار کرے گا ۔ (جامع الترمذي كِتَاب الدَّعَوَاتِ أبوابُ الْمَنَاقِبِ رقم الحديث : 3826)(أخرجه أحمد (16803+20549+ 20578)(والبخارى فى التاريخ الكبير (5/131)(جامع ترمذی مترجم اردو جلد دوم صفحہ 769،770،چشتی) وقال: غريب. وأبو نعيم فى الحلية (8/287)(والبيهقى فى شعب الإيمان (2/191، رقم 1511) . وأخرجه أيضًا: ابن حبان (16/244، رقم 7256)(والديلمى (1/146، رقم: 525)۔

مختصر تشریح : اللہ تعالیٰ سے ڈرو" یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے تاکید و مبالغہ کےلئے دوبار ارشاد فرمائے صحابہ رضی اللہ عنہم کے حق میں اللہ سے ڈرنے کا مفہوم یہ ہے کہ ان کی عزت وتوقیر کی جائے ۔ ان کی عظمت وفضیلت کو ہر حالت میں ملحوظ رکھا جائے اور صحبت رسول کا جو بلند ترین مقام ان کو حاصل ہے اس کا حق ادا کیا جائے ۔ " نشانہ ملامت نہ بناؤ " کا مطلب یہ ہے کہ ان کی طرف بدگوئی کے تیر مت پھینکو ، ان کی عظمت کے منافی کوئی بات زبان سے نہ نکالو ، ان کی عیب جوئی اور نکتہ چینی سے پرہیز کرو۔ " میری وجہ سے ان کو دوست رکھتا ہے " کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ان کو دوست رکھنے والا اس سبب سے دوست رکھتا ہم کہ میں ان کو دوست رکھتا ہوں ، یا یہ مطلب ہے کہ ان کو دوست رکھنے والا اس سبب سے دوست رکھتا ہے ۔ کہ میں ان کو دوست رکھتا ہوں یہ مطلب اگلے جملہ کے سیاق میں زیادہ موزوں ہے ، بہرحال اس ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ میرے صحابہ کو دوست رکھنے والا مجھ کو دوست رکھنے والا ہے اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو دشمن رکھنے والا مجھ کو دشمن رکھنے والا ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ مالکیہ کا یہ مسلک حق ہے کہ جس شخص نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو برا کہا وہ دنیا میں واجب القتل قرار پاتا ہے ۔ علماء نے لکھا ہے کہ کسی ذات سے محبت کے صحیح وصادق ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ محبت محبوب کی ذات سے گزر کر اس کے متعلقین تک پہنچ جائے ، پس حق تعالیٰ سے محبت کی علامت یہ ہے کہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بھی محبت ہو اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے محبت کی علامت یہ ہے کہ اس کے آل و اصحاب رضی اللہ عنہم سے بھی محبت ہو ۔ " جب اللہ اس کو پکڑے گا " کا یہ مطلب ہے کہ جو شخص اپنے اس جذبہ وعمل کے ذریہ یہ ظاہر کرے گا کہ گویا وہ اللہ کی اذیت پہنچانے کے لئے پے درپے ہے تو وہ شخص اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکے گا یعنی آخرت میں تو وہ عذاب الہٰی میں گرفتار ہوگا ہی اس دنیا میں بھی اس کو عذاب بھگتنا پڑ سکتا ہے ۔

فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم میرے صحابہ کو برا نہ کہو

نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي. فَلَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيْفَهُ ۔
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو برا مت کہو، پس اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردے تب بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا ۔ (بخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : لو کنت متخذا خليلا، 3 / 1343، الرقم : 3470، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب : (59)، 5 / 695، الرقم : 3861، وأبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في النهي عن سب أصحاب رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، 4 / 214، الرقم : 4658)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لاَ تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بَيَدِهِ، لَو أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَکَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيْفَهُ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو گالی مت دو، میرے صحابہ گالی مت دو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردے تو بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر نہیں پہنچ سکتا ۔ (مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب تحريم سبّ الصحابة، 4 / 1967، الرقم : 2540، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 84، الرقم : 8309، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل أهل بدر، 1 / 57، الرقم : 161،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : إِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يَسُبُّونَ أَصْحَابِي فَقُولُوا: لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى شَرِّكُمْ ۔
ترجمہ : جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں تو ان سے کہو تم میں سےجو بُرا ( یعنی صحابہ کو بُرا کہتا ) ہے اس پر اللہ کی لعنت ہے ۔ (ترمذی، باب فيمن سب أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، حدیث نمبر ۳۸۶۶)

نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي ، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي ، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ، وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ'' ۔
ترجمہ : اللہ سے ڈرو ۔ اللہ سے ڈرو میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے معاملہ میں ، ان کو میرے بعد ہدف تنقید نہ بنانا ، پس جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی بنا پر ، اور جس نے ان سے بغض رکھا تو مجھ سے بغض کی بنا پر ، جس نے ان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی ، اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ اسے پکڑ لے ۔ (ترمذی، باب فيمن سب أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، حدیث نمبر ۳۶۶۲)

شریعت میں صحابی وہ انسان ہے جو ایمان کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور ایمان پر ہی اس کا خاتمہ ہوا۔(اشعۃ اللمعات،ج 4،ص641)

قرآن و حدیث اور تمام شرعی احکام ہم تک پہنچنے کا واحد ذریعہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم کی درس گاہ کے صادق و امین اور متقی و پرہیز گار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ، اگر مَعَاذَاللہ ان ہی سے امانت و دیانت اور شرافت و بزرگی کی نفی کر دی جائے تو سارے کا سارا دین بے اعتبار ہو کر رہ جائے گا ، اس لئے اس حدیثِ پاک میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم نے اپنے صحابہ کی عظمت کو یوں بیان فرمایا کہ ان کی برائی کرنے سے منع فرمایا اور ان کے صدقہ و خیرا ت کی اللہ پاک کی بارگاہ میں مقبولیت کو بھی ذکر فرمایا چنانچہ لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي حدیثِ پاک کے اس حصّے کے تحت فقیہ و محدّث علّامہ ابن الملک رومی حنفی علیہ رحمۃ اللہ علیہ (وفات:854ھ) فرماتے ہیں : اس میں صحابہ کو بُرا کہنے سے منع کیا گیا ہے، جمہور(یعنی اکثر علما) فرماتے ہیں:جو کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو بھی بُرا کہے اسے تعزیراً سزا دی جائے گی ۔ (شرح مصابیح السنۃ ،ج6،ص395 ،تحت الحدیث:4699،چشتی)

فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ ۔۔۔ شارحین نے اگرچہ اس کی مختلف وجوہات بیان فرمائی ہیں لیکن شارحِ بخاری امام احمد بن اسماعیل کورانی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:893ھ) فرماتے ہیں : سیاقِ کلام سے پتا چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ مقام نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم کی صحبت کے شرف کی وجہ سے ملا ہے ۔ (الکوثر الجاری ،ج6،ص442، ،تحت الحدیث:3673)

شارحِ حديث حضر ت علامہ مُظہرالدین حسین زیدانی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:727ھ) اسی حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : صحابہ کی فضیلت محض”رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت“اور”وحی کا زمانہ پانے“کی وجہ سے تھی، اگر ہم میں سے کوئی ہزار سال عُمر پائے اور تمام عُمر اللّٰہ پاک کے عطا کردہ احکام کی بَجا آوری کرے اور منع کردہ چیزوں سے بچے بلکہ اپنے وقت کا سب سے بڑا عابد بن جائے تب بھی اس کی عبادت نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّمکی صحبت کے ایک لمحہ کے برابر بھی نہیں ہوسکتی ۔ (المفاتیح فی شرح المصابیح ،ج6،ص286 ،تحت الحدیث:4699)

حکیم الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یعنی میرا صحابی قریبًا سوا سیر جَو خیرات کرے اور ان کے علاوہ کوئی مسلمان خواہ غوث و قطب ہو یا عام مسلمان پہاڑ بھر سونا خیرات کرے تو اس کا سونا قربِِ الٰہی اور قبولیت میں صحابی کے سوا سیر کو نہیں پہنچ سکتا،یہ ہی حال روزہ ،نماز اور ساری عبادات کا ہے۔ جب مسجد ِنبوی کی نماز دوسری جگہ کی نمازوں سے پچاس ہزار گُناہے تو جنہوں نے حضورِ اکرم (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کا قُرب اور دیدار پایا ان کا کیا پوچھنا اور ان کی عبادات کا کیا کہنا!یہاں قربِِ الٰہی کا ذکر ہے۔مفتی صاحب مزید فرماتے ہیں:اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضراتِ صحابہ کا ذکر ہمیشہ خیر سے ہی کرنا چاہئے کسی صحابی کو ہلکے لفظ سے یاد نہ کرو۔ یہ حضرات وہ ہیں جنہیں رب نے اپنے محبوب کی صحبت کے لئے چُنا،مہربان باپ اپنے بیٹے کو بُروں کی صحبت میں نہیں رہنے دیتا تو مہربان رَبّ نے اپنے نبی کو بُروں کی صحبت میں رہنا کیسے پسند فرمایا ؟ ۔ (مراٰۃ المناجیح،ج8،ص335،چشتی)

تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کا انعام حضرت عبدالرحمٰن بن زید رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے والد فرماتے ہیں : میں چالیس ایسے تابعینِ عظام کو ملا جو سب ہمیں صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو میرے تمام صحابہ سے محبت کرے ، ان کی مدد کرے اور ان کے لئے اِسْتغفار کرے تو اللہ پاک اُسے قیامت کے دن جنّت میں میرے صحابہ کی مَعِیَّت(یعنی ہمراہی) نصیب فرمائے گا ۔ (شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ،ج2،ص1063، حدیث:2337)

شرفِ صحابیت کا لحاظ لازم ہے خوب یاد رکھئے

صحابیت کا عظیم اعزاز کسی بھی عبادت و ریاضت سے حاصل نہیں ہوسکتا لہٰذا اگر ہمیں کسی مخصوص صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فضیلت کے بارے میں کوئی روایت نہ بھی ملے تب بھی بلاشک و شبہ وہ صحابی محترم و مکرم اورعظمت و فضیلت کے بلند مرتبے پر فائز ہیں کیونکہ کائنات میں مرتبۂ نبوت کے بعد سب سے افضل و اعلیٰ مقام و مرتبہ صحابی ہونا ہے ۔ صاحبِِ نبراس علّامہ عبدالعزیز پرہاروی چشتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یاد رہے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم کے صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کى تعداد سابقہ انبىائے کرام علیہم السّلام کى تعداد کے موافق ( کم و بىش) ایک لاکھ چوبىس ہزار ہے مگر جن کے فضائل مىں احادىث موجود ہىں وہ چند حضرات ہىں اور باقى صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کى فضىلت مىں نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا صحابی ہونا ہی کافی ہےکیونکہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم کی صحبتِ مبارکہ کی فضیلت عظیمہ کے بارے میں قراٰنِ مجید کی آیات اوراحادیثِ مبارکہ ناطِق ہیں ، پس اگر کسى صحابى کے فضائل مىں احادىث نہ بھی ہوں ىا کم ہوں تو ىہ ان کى فضىلت و عظمت مىں کمى کى دلىل نہىں ہے ۔ (الناھیۃ صفحہ نمبر 38،چشتی)

سارے صحابہ عادل ہیں صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت کیلئے یہ ایک ہی آیت کافی ہے : وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ۔
ترجمہ : اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار جو بھلائی کے ساتھ ان کے پَیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہسے راضی اور ان کے لئے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔ (پ11،سورہ التوبۃ :100)

علّامہ ابوحَیّان محمد بن یوسف اندلسی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:745ہجری) فرماتےہیں : وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ سے مراد تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ۔ (تفسیرالبحر المحیط،ج 5،ص96، تحت الآیۃ المذکورۃ)

سارے صحابَۂ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم عادل ہیں ، جنتی ہیں ان میں کوئی گناہ گار اور فاسق نہیں ۔ جو بدبخت کسی تاریخی واقعہ یا روایت کی وجہ سے صحابَۂ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم میں سے کسی کو فاسق ثابت کرے ، وہ مَردُود ہے کہ اس آیت کے خلاف ہے ۔ ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ درج ذیل حدیثِ پاک کو دل کی نظر سے پڑھ کر عبرت حاصل کرنے کی کوشش کرے ، چنانچہ حضرت عبدُاللہ بن مُغَفَّل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ (رضی اللہ تعالٰی عنہم) کے بارے میں اللہ سے ڈرو ، اللہ سے ڈرو ۔ میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو ا س نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بُغض رکھا تو اس نے میرے بُغض کی وجہ سے ان سے بُغض رکھا اور جس نے انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ پاک کو ایذا دی اور جس نے اللہ پاک کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ پاک اس کی پکڑ فرما لے ۔ (ترمذی،ج5،ص463،حدیث:3888)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔