Monday, 7 October 2019

اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ماہِ صفر اس میں نہ بیماری ہے نہ نحوست

اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ماہِ صفر اس میں نہ بیماری ہے نہ نحوست

محترم قارئینِ کرام : اسلامی سال کے دوسرے مہینے کا نام ’’صفر المظفر‘‘ ہے ۔ یہ صفر بالکسر سے ماخوذ ہے ، جس کا معنی خالی ہے۔ حرمت والے چار مہینوں میں جنگ کرنا اہلِ عرب کے نزدیک حرام تھا ، اس لیے ذوالقعدہ ، ذوالحجہ اور محرم الحرام میں باشندگانِ عرب گھروں میں بیٹھتے یا سفر حج اختیار کرتے ، اور جب ماہِ صفر شروع ہوتا تو رُکے ہوئے تنازعات ’’از سرِنو جدال و قتال ‘‘ میں مصروف عمل ہوجاتے، پھر گھروں کو خالی چھوڑتے اور میدانِ جنگ کا رخ کرتے اس لیے اس ماہ کو صفر کہتے ہیں ۔

نُحوست کے وہمی تصورات کے شکارلوگ ماہِ صفرکو مصیبتوں اور آفتوں کے اُترنے کا مہینہ سمجھتے ہیں خصوصا اس کی ابتدائی تیرہ تاریخیں جنہیں ’’تیرہ تیزی‘‘ کہا جاتا ہے بہت منحوس تصوُّر کی جاتی ہیں ۔ وہمی لوگوں کا یہ ذہن بنا ہوتا ہے کہ صفر کے مہینے میں نیا کاروبار شروع نہیں کرناچا ہئے نقصان کا خطرہ ہے ،سفرکرنے سے بچنا چاہئے ایکسیڈنٹ کا اندیشہ ہے ، شادیاں نہ کریں ، بچیوں کی رخصتی نہ کریں گھر برباد ہونے کا امکان ہے ، ایسے لوگ بڑا کاروباری لین دین نہیں کرتے ،گھر سے باہر آمد و رفت میں کمی کردیتے ہیں ، اس گمان کے ساتھ کہ آفات ناز ل ہورہی ہیں اپنے گھر کے ایک ایک برتن کو اور سامان کو خوب جھاڑتے ہیں ، اسی طرح اگر کسی کے گھر میں اس ماہ میں میت ہو جائے تواسے منحوس سمجھتے ہیں اور اگر اس گھرانے میں اپنے لڑکے یا لڑکی کی نسبت طے ہوئی ہو تو اس کو توڑ دیتے ہیں۔ تیرہ تیزی کے عنوان سے سفید چنے (کابلی چنے) کی نیاز بھی دی جاتی ہے ۔ نیاز فاتحہ کرنا مُسْتَحَبوباعثِ ثواب ہے اور ہر طرح کے رزقِ حلال پر ہر ماہ کی ہر تاریخ کو دی جا سکتی ہے لیکن یہ سمجھنا کہ اگر تیرہ تیزی کی فاتحہ نہ دی اور سفید چنے پکا کر تقسیم نہ کئے تو گھر کے کمانے والے افراد کا روزگار متاثر ہوگا ، یہ بے بنیاد خیالات ہیں ۔

عربوں میں ماہِ صفر کو منحوس سمجھا جاتا تھا

دورِ جاہلیت (یعنی اسلام سے پہلے) میں بھی ماہِ صفر کے بارے میں لوگ اسی قسم کے وہمی خیالات رکھا کرتے تھے کہ اس مہینے میں مصیبتیں اور آفتیں بہت ہوتی ہیں ،چنانچہ وہ لوگ ماہِ صفر کے آنے کو منحوس خیال کیا کرتے تھے ۔ (عمدۃ القاری ،۷/۱۱۰)

عرب لوگ حُرمت کی وجہ سے چار ماہ رجب ، ذُوالقعدۃ، ذُوالحجہ اور مُحرَّم میں جنگ و جَدَل اور لُوٹ مار سے باز رہتے اور انتظار کرتے کہ یہ پابندیاں خَتْم ہوں تو وہ نکلیں اور لوٹ مار کریں لہٰذا صفر شروع ہوتے ہی وہ لوٹ مار، رہزنی اورجنگ و جدل کے ارادے سے جب گھروں سے نکلتے تو انکے گھر خالی رہ جاتے،اسی وجہ سے کہا جاتا ہے :’’صَفَر الْمَکَان (مکان خالی ہو گیا)‘‘ ۔ جب عربوں نے دیکھا کہ اس مہینے میں لوگ قتل ہوتے ہیں اورگھربرباد یا خالی ہو جاتے ہیں تو انہوں نے اس سے یہ شگون لیا کہ یہ مہینہ ہمارے لئے منحوس ہے اورگھر وں کی برباد ی اور ویرانی کی اصل وجہ پر غور نہیں کیا ، نہ اپنے عمل کی خرابی کا احساس کیا اور نہ ہی لڑائی جھگڑے اورجنگ و جدال سے خود کو باز رکھا بلکہ اس مہینے کو ہی منحوس ٹھہرا د یا ۔

ماہِ صفر نہ بیماری ہے نہ کوئی نحوست

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم نے جاہلیت کے عقائد باطلہ کی تردید فرماتے ہوئے ارشادفرمایا : لَا عَدْوَی وَلَا طِيَرَۃَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ ۔
ترجمہ : کوئی بیماری متعدّی نہیں ہوتی‘بدشگونی جائزنہیں‘ الّو اور صفر کے مہینہ میں کوئی نحوست نہیں ۔ (صحیح البخاری ،کتاب الطب، باب الجذام ، حدیث نمبر:5707۔ زجاجۃ المصابیح ،باب الفال والطیرۃ،ج3،ص446،چشتی)

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم لَا عَدْوٰی وَلَا ھَامَۃَ وَلَا نَوْءَ وَلَا صَفَرَ۔
ترجمہ : سیّدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ نہ متعدی بیماری ہے اور نہ ہامہ اور نہ منزل قمر اور نہ صفر ۔ (مسلم شریف جلد دوم صفحہ ۲۳۱، جامع صغیر جلد دوم صفحہ)
حضرت شیخ عبد الحق محدث ِدہلوی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : عوام اسے (یعنی صفر کے مہینے کو) بلاؤں ،حادثوں اور آفتوں کے نازل ہونے کا وَقْت قرار دیتے ہیں ،یہ عقیدہ باطِل ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔(اشعۃ اللمعات فارسی ،۳/۶۶۴)

ماہِ صفر اسلامی تقویم کی ترتیب کا دوسرا مہینہ ہے ، جس کا لفظی معنیٰ ’ خالی ہونا ہے ۔ عرب زمانہ جاہلیت میں ماہِ صفر کو منحوس خیال کرتے ہوئے اسے ’ صفر المکان‘ یعنی گھروں کو خالی کرنے کا مہینہ کہتے تھے ، کیونکہ وہ تین پے در پے تین حرمت والے مہینوں (ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم) کے بعد اس مہینے میں گھروں کو خالی کر کے لڑائی اور قتل و قتال کے لیے میدانِ جنگ کی طرف نکل پڑتے تھے ۔ جنگ و جدال اور قتل و قتال کی وجہ بے شمار انسان قتل ہوتے ، گھر ویران ہوتے اور وادیاں برباد ہو جاتیں ‘ عربوں نے اس بربادی اور ویرانی کی اصل وجہ کی طرف توجہ دینے جنگ و جدل سے کنارہ کشی کرنے کی بجائے اس مہینے کو ہی منحوس بلاؤں ، مصیبتوں کا مہینہ قرار دے دیا ۔ حقیقت میں نہ تو اس مہینے میں نحوست و مصیبت ہے اور نہ ہی یہ بدبختی اور بھوت پریت کا مہینہ ہے بلکہ انسان اپنے اعمال کی وجہ سے مصائب و آفات میں مبتلا ہوتا ہے اور اپنی جہالت کی وجہ سے دن، مہینے اور دیگر اسباب کو منحوس تصور کرنے لگتا ہے ۔ یہی وجہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے : لا عَدْوَیٰ ولا صَفَرَ ولا هَامَةَ ۔ (اللہ تعالی کے حکم کے بغیر) چھونے سے بیماری دوسرے کو لگ جانے (کا عقیدہ)، ماہِ صفر (میں نحوست ہونے کا عقیدہ) اور پرندے سے بدشگونی (کا عقیدہ) سب بےحقیقت باتیں ہیں ۔ (صحیح البخاري،کتابُ الطِّب،بابُ الھامة، رقم الحدیث : 5770،چشتی)

حضرت شیخ عبد الحق محدث ِدہلوی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ مبارکہ کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : عوام اسے (یعنی صفر کے مہینے کو) بلاؤں، حادثوں اور آفتوں کے نازل ہونے کا مہینہ قرار دیتے ہیں ، یہ عقیدہ باطِل ہے‘ اس کی کوئی حقیقت نہیں ۔ (اشعة اللمعات، 3: 664)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ماہِ صفر نہ بیماری ہے نہ کوئی نحوست اور نہ بھوت و شیطان ۔ (مَاثَبَتَ مِنَ السُّنَّۃِ مترجم اردو صفحہ 37 شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرّحمہ)

اس لیے ماہِ صفر میں بلائیں اور آفات اترنے اور جنات کے نزول کا عقیدہ من گھڑت ہے ۔

صَدرُ الشَّریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ماہِ صفر کو لوگ منحوس جانتے ہیں اس میں شادی بیاہ نہیں کرتے لڑکیوں کو رخصت نہیں کرتے اور بھی اس قسم کے کام کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں ، خصوصاً ماہِ صفر کی ابتدائی تیرہ تاریخیں بہت زیادہ نحس (یعنی نُحوست والی)مانی جاتی ہیں اور ان کو تیرہ تیزی کہتے ہیں یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔حدیث میں فرمایاکہ ’’صفر کوئی چیز نہیں ‘‘یعنی لوگوں کا اسے منحوس سمجھنا غَلَط ہے۔ اسی طرح ذیقعدہ کے مہینہ کو بھی بہت لوگ بُراجانتے ہیں اور اس کو خالی کا مہینہ کہتے ہیں یہ بھی غَلَط ہے اور ہر ماہ میں 3 ،13،23 ،8 ،18 ،28(تاریخ)کو منحوس جانتے ہیں یہ بھی لَغْو (یعنی بے کار) بات ہے ۔ (بہار شریعت ،۳/۶۵۹)

کوئی دن منحوس نہیں ہوتا

علامہ سید محمد امین بن عمر بن عبد العزیز شامی رحمۃ اللہ علیہ السّامی لکھتے ہیں : علامہ حامد آفندی علیہ رحمۃ اللہ علیہ سے سُوال کیا گیا: کیابعض دن منحوس یا مبارک ہوتے ہیں جوسفر اور دیگر کام کی صلاحیت نہیں رکھتے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ جو شخص یہ سُوال کرے کہ کیا بعض دن منحوس ہوتے ہیں اس کے جواب سے اِعراض کیا جائے اور اس کے فعل کو جہالت کہا جائے اور اس کی مذمت بیان کی جائے ، ایسا سمجھنا یہود کا طریقہ ہے ، مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے جو اللہ تعالی پر توکُّل کرتے ہیں ۔ (تنقیح الفتاوی الحامدیہ، ۲/ ۳۶۷،چشتی)

محترم قارئین : کوئی وَقْت بَرَکت والا اور عظمت و فضیلت والا تو ہوسکتا ہے جیسے ماہِ رمضان ، ربیع الاول ، جمعۃ المبارک وغیرہ مگر کوئی مہینہ یا دن منحوس نہیں ہوسکتا ۔ مراٰۃُ المناجیح میں ہے : اسلام میں کوئی دن یا کوئی ساعت منحوس نہیں ہاں بعض دن بابرکت ہیں ۔ (مراٰۃ المناجیح ،۵/۴۸۴)

تفسیر رُوح البیان میں ہے : صفر وغیرہ کسی مہینے یا مخصوص وَقْت کو منحوس سمجھنا دُرُست نہیں ، تمام اوقات اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بنائے ہوئے ہیں اور ان میں انسانوں کے اعمال واقع ہوتے ہیں ۔ جس وَقْت میں بندۂ مومن اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت وبندگی میں مشغول ہو وہ وَقْت مبارک ہے اور جس وَقْت میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کرے وہ وَقْت اس کے لئے منحوس ہے ۔ درحقیقت اصل نُحوست تو گناہوں میں ہے ۔ (تفسیر روح البیان،۳/۴۲۸)

ماہِ صفربھی دیگر مہینوں کی طرح ایک مہینہ ہے جس طرح دوسرے مہینوں میں رب عَزَّوَجَلَّ کے فضل وکرم کی بارشیں ہوتی ہیں اس میں بھی ہوسکتی ہیں ، اسے تو صَفَرُ الْمُظَفَّرکہا جاتا ہے یعنی کامیابی کا مہینہ ، یہ کیونکر منحوس ہوسکتا ہے ؟ اب اگر کوئی شخص اس مہینہ میں احکامِ شرع کا پابند رہا ، نیکیاں کرتا اور گناہوں سے بچتا رہا تو یہ مہینہ یقینا اس کے لئے مبارک ہے اور اگر کسی بَدکردار نے یہ مہینہ بھی گناہوں میں گزارا، جائز ناجائز اور حرام حلال کا خیال نہ رکھا تو اس کی بربادی کے لئے گناہوں کی نُحوست ہی کافی ہے ۔اب ماہِ صفر ہویا کسی بھی مہینے کا سیکنڈ ، منٹ یا گھنٹہ! اگر اُسے کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ اس کی شامتِ اعمال کا نتیجہ ہے ۔

صفر المظفر کا آخری بدھ منانا

صَدرُ الشَّریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :ماہ صفر کا آخر چہار شنبہ (بُدھ) ہندوستان میں بہت منایا جاتا ہے ، لوگ اپنے کاروبار بند کردیتے ہیں ، سیر و تفریح و شکار کو جاتے ہیں ، پُوریاں پکتی ہیں اور نہاتے دھوتے خوشیاں مناتے ہیں اور کہتے یہ ہیں کہ حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس روز غسلِ صحت فرمایا تھا اور بیرونِ مدینہ طیبہ سیر کے لیئے تشریف لے گئے تھے ۔ یہ سب باتیں بے اصل ہیں بلکہ ان دنوں میں حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مرض شدت کے ساتھ تھا ، وہ باتیں خلافِ واقع ہیں ۔ اور بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس روز بلائیں آتی ہیں اور طرح طرح کی باتیں بیان کی جاتی ہیں سب بے ثبوت ہیں ۔ (بہار شریعت ،۳/۶۵۹)

چہارشنبہ منحوس نہیں بلکہ نور کی پیدائش کا دن

یہ حقیقت ہے کہ ایک دن دوسرے دن پر فضیلت وبرتری رکھتا ہے، ایک وقت دوسرے وقت کی بہ نسبت زیادہ برکت ورحمت والا ہوتا ہے ، لیکن فی نفسہ کسی وقت یا دن میں نحوست کا تصور غیراسلامی نظریہ ہے، جہاں تک چہارشنبہ کی بات ہے توصحیح حدیث پاک میں اس کی فضیلت آئی ہے ، صحیح مسلم اور مسند امام احمد وغیرہ میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے تفصیلی روایت مذکورہے : عَنْ أَبِی هُرَيْرَةَ قَالَ أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله عليه وسلم بِيَدِی فَقَالَ:خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ التُّرْبَةَ يَوْمَ السَّبْتِ۔۔۔وَخَلَقَ النُّورَ يَوْمَ الأَرْبِعَاءِ ۔
ترجمہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑکرارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ہفتہ کے دن مٹی کو پیدا فرمایا ۔ ۔ ۔ اور نور کو چہارشنبہ کے دن پیدا فرمایا ۔ (صحیح مسلم ، کتاب صفۃالمنافقین واحکامہم، باب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنارج2 ص371 ، حدیث نمبر:7231۔مسند امام احمد، مسند أبی ہریرۃ ، حدیث نمبر:8563۔السنن الکبری للبیھقی،ج9،ص3 ۔السنن الکبری للنسائی، حدیث نمبر:11010۔المعجم الاوسط للطبرانی، باب الباء ، من اسمہ بکر، حدیث نمبر:3360،چشتی)

مذکورہ حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ چہارشنبہ وہ مبارک ومقدس دن ہے جس میں نور کی پیدائش ہوئی لہذا یہ تصورغیر درست ہے کہ اس میں کوئی بڑا اور اہم کام نہیں کرنا چاہئے ۔ اس دن کوئی بھی خوشی والا جائزکام انجام دینا ان شاء اللہ تعالی بابرکت ہی ہوگا ۔

امام سخاوی علیہ الرحمہ نے مقاصد حسنہ میں لکھا ہے : ذکر برهان الإسلام فی کتابه ( تعليم المتعلم ) عن شيخه المرغينانی صاحب الهداية فی فقه الحنفية انه کان يوقف بداية السبق علي يوم الاربعاء وکان يروی فی ذلک بحفظه ويقول قال رسول الله صلی الله عليه وسلم : ما من شیء بدء به يوم الاربعاء إلا وقد تم ۔
ترجمہ : برہان الاسلام نے اپنی کتاب " تعلیم المتعلم " میں ذکر کیا ، وہ اپنے استاذ گرامی صاحب ہدایہ علامہ مرغینانی رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ بیان کرتے ہیں کہ آپ چہارشنبہ کے دن سبق کے آغاز کا اہتمام کیاکرتے اور اس سلسلہ میں یہ حدیث پاک روایت فرمایاکرتے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : چہار شنبہ کے دن جس چیز کابھی آغاز کیا جائے وہ پایۂ تکمیل کو پہنچتی ہے ۔ (المقاصد الحسنۃ حرف المیم)


حضرت علامہ سید عبدا للہ شاہ صاحب نقشبندی مجددی قادری محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ زجاجۃ المصابیح کے حاشیہ میں فرماتے ہیں : قوله ولا صفر قال ابوداؤد في سننه قال بقية : سألت محمد بن راشد عنه قال کانوا يتشاء مون بدخول صفر . فقال النبی صلي الله عليه وسلم : لا صفر . وقال القاضى هو ان يکون نفيا لما يتوهم ان شهر صفر تکثر فيه الدواهی والفتن ۔
ترجمہ : امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سنن میں بیان کیا کہ محدث بقیہ نے اس حدیث شریف کے بارے میں اپنے استاذ محمد بن راشد سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا:جاہلیت میں لوگ ماہ صفر کی آمد کومنحوس سمجھتے تھے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس حقیقت کوواضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ماہ صفر منحوس نہیں ہے! ۔ علامہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :اس حدیث شریف سے اس وہم کی نفی ہوجاتی ہے جو ماہ صفرسے متعلق کیا جاتا ہے کہ اس میں آفات وبلیات بکثرت نازل ہواکرتی ہیں ۔(حاشیۃ زجاجۃ المصابیح، ج 3، کتاب الطب والرقی، باب الفال والطیرۃ ، ص447)

مذکورۂ بالااحادیث شریفہ اور دلائل کی روشنی میں واضح ہوجاتا ہے کہ صفر کے مہینہ کو منحوس سمجھنا غیراسلامی ہے ، اس مہینہ میں شادی بیاہ سے گریز کرنا اور خوشی ومسرت کی تقاریب کے انعقاد ک ونا مناسب سمجھنایہ سب بے جا امور ہیں اور جاہلیت کے باطل تو ہمات کی پیداوار ہیں ؛ جن کی دین اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ، ماہ صفر کی تاریخی حیثیت بھی اگر دیکھی جائے تو ایک روایت کے مطابق حضور پاک علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت خاتون جنت رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اسی ماہ مبارک میں کروایاتھا ‘گ و کہ معروف روایت ماہ شوال کی ہے ، ماہ صفرمیں نکاح کے متعلق روایت ہے : قال جعفر بن محمد تزوج علی فاطمة رضی الله عنهما فی شهر صفر فی السنة الثانية وبنی بها فی شهر ذی القعدة علی رأس اثنين وعشرين شهرا من الهجرة ۔
ترجمہ : حضرت جعفر بن محمدرضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجھہنے حضرت فاطمۃ الزہرا ء رضی اللہ عنہما سے دوہجری صفر کے مہینہ میں عقد فرمایا اور آپ کی رخصتی ہجرت کے بعد بائیس مہینے کے اوائل ذوالقعد ہ کے مہینہ میں ہوئی ۔ (سبل الہدی والرشاد، ج12،ص469،چشتی)

بعض لوگ ماہ صفرمیں کسی اہم کام کے لئے سفر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتے‘ جبکہ نبی کریم کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے موقع پر مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کی جانب سفرکا آغاز ایک روایت کے مطابق ماہ صفرکے آخرمیں فرمایاتھا ۔ (شرح الزرقانی علی المواھب،ج،2ص102)

ماہ صفر کامیابی والا مہینہ

ہجرت کا یہ سفرمقدس دین اسلام کی غیرمعمولی ترقی اور مسلمانوں کی خوشحالی ‘ فتح ونصرت کاباعث ثابت ہوا ۔ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی وہ سفرتھا جواپنے اند رفتح مکہ کی عظمتوں کو لئے ہوئے تھا ‘ گویا ماہ صفرمیں ہجرت کرنا اتمام شریعت کا ذریعہ اورفروغ اسلام کا وسیلہ قرار پایا ، یہ مہینہ بلاؤں کے نازل ہونے کا نہیں بلکہ مصائب ومشکلات کے دفع ہونے کا سبب بنا ۔ اسی وجہ سے ہمارے عرف میں ماہِ صفرکو "صفرالمظفر " کہتے ہیں ‘ جس کے معنٰی " ظفریابی ‘ فتح ونصرت والے" کے ہیں ۔

مسلمانو ں کو ایسی بد شگونی سے قطعی طور پر پرہیز کرنا چاہئیے ، اور اسی طرح تیرہ تیزی کے نام سے انڈے اورتیل وغیرہ سرہانے رکھنا بھی لغو کام ہے ،ان امور سے بھی احتیاط ضروری ہے ۔ قطع نظر اس کے رضائے الہی کی خاطر فقراء ومساکین پر صدقہ وخیرات کرنادیگر مہینوں کی طرح اس ماہ میں بھی جائز ومُستحسن ہے ۔

معاشرہ میں یہ تصوربھی عام ہے کہ ماہ صفر کے آخری چہارشنبہ کو سیروسیاحت کا اہتمام کیا جائے ،اس دن تفریح کےلئے روانہ ہوں اورگھانس ‘سبزہ وغیرہ پرچہل قدمی ہو ۔ اگر یہ چہل قدمی اس تصور کی ساتھ کی جائے کہ بلااور وباسے حفاظت ہوجاتی ہے اور مصائب دفع ہوجاتے ہیں تو اس کا اسلامی کتب سے کوئی ثبوت نہیں ملتا،اگر کوئی اسی پر اصرار کرے تو عرض کیا جائے گا : اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ آخری چہارشنبہ کو بلائیں زیادہ نازل ہوتی ہیں ‘تو ایسی صورت میں سیروتفریح نہیں بلکہ عبادت وریاضت کی جانی چاہئیے ، نیکی وبھلائی کی فکرکرنی چاہئے اور صدقہ وخیرات کرناچاہئیے،کیونکہ اس سے غضب الہی دور ہو جاتا ہے اور رضائے الہی کے آثار نمودار ہوتے ہیں ، جیساکہ جامع ترمذی شریف میں حدیث پاک ہے : عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله عليه وسلم إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِئیُ غَضَبَ الرَّبِّ وَتَدْفَعُ مِيتَةَ السُّوءِ ۔
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‘انہوں نے کہا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یقینا صدقہ اورنیکی پروردگار کے غضب کی آگ کو ٹھنڈا کرتی ہے اور بری موت کو دفع کرتی ہے ۔ (جامع الترمذی ، باب فضل الصدقۃ،حدیث نمبر:666۔شعب الایمان للبیہقی ، الصدقۃ تطفیٔ غضب الرب ،حدیث نمبر:3202)

صفر کے مہینہ میں یہ دعاء پڑھیں

جب بھی کوئی شخص مصیبت سے دوچار ہوتو اسے اپنے عمل کا جائزہ لینا چاہئے ، اپنے اعمال میں جہاں کوتاہی واقع ہوئی ہے اس کی اصلاح کرنی چاہئیے ، جہاں لغزش ہوئی ہے اسے سدھارنا چاہئیے ، توبہ کرکے اللہ تعالیٰ سے رجوع ہونا چاہئیے کیونکہ اپنے برے اعمال ہی تمام ترنحوستوں کا باعث ہوتے ہیں - نیک وصالح بندہ کو بھی زندگی میں مختلف قسم کے مصائب وآلام سے گزرنا پڑتا ہے اور یہ اللہ تعالی کی طرف سے اس کے لئے امتحان ہوتا ہے ،جولوگ مصائب وآلام کا صبر و استقامت کے ذریعہ مقابلہ کرتے ہیں وہ اس امتحان میں کامیاب ہیں ، جن کے قدم آفات وبلیات کی وجہ سے نہیں لڑکھڑا تے اللہ کی نصرت وحمایت ان کے ساتھ ہے ۔ زجاجۃ المصابیح میں سنن ابوداؤد شریف کے حوالہ سے حدیث پاک منقول ہے : عَنْ عُرْوَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ ذُکِرَتِ الطِّيَرَةُ عِنْدَ النَّبِیِّ صلی الله عليه وسلم فَقَالَ أَحْسَنُهَا الْفَأْلُ وَلاَ تَرُدُّ مُسْلِمًا فَإِذَا رَأَی أَحَدُکُمْ مَا يَکْرَهُ فَلْيَقُلِ اللَّهُمَّ لاَ يَأْتِی بِالْحَسَنَاتِ إِلاَّ أَنْتَ وَلاَ يَدْفَعُ السَّيِّئَاتِ إِلاَّ أَنْتَ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاًّبِاللّٰه ۔
ترجمہ : سیدنا عروه بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،انہوں نے فرمایا: حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں بدشگونی کا ذکر کیا گیا توآپ نے ارشاد فرمایا : اچھا شگون ، فالِ نیک ہے اور بد شگونی کسی مسلمان کے کام میں رکاوٹ نہیں بنتی ، پس جب تم میں سے کوئی ایسی چیز دیکھے جسے وہ ناپسند کرتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ یہ دعاء پڑھے : اللَّهُمَّ لاَ يَأْتِی بِالْحَسَنَاتِ إِلاَّ أَنْتَ وَلاَ يَدْفَعُ السَّيِّئَاتِ إِلاَّ أَنْتَ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاًّبِاللّٰه ۔
ترجمہ : اے اللہ ہرقسم کی بھلائیوں کولانے والاتوہی ہے اور تمام قسم کی برائیوں کودفع کرنے والابھی توہی ہے ، نہ برائی سے بچنے کی کوئی طاقت ہے اورنہ نیکی کرنے کی کوئی قوت ہے ، مگر اللہ ہی کی مددسے ۔ (زجاجۃ المصابیح ،ج3،ص445)(سنن ابی داود،باب فی الطیرۃ،حدیث نمبر:3921،چشتی)

استغفار تمام پریشانیوں کا حل

اگر ہم مسلمان اپنے دل میں خدا کا خوف بٹھائے رکھیں ، اس کے فضل و کرم کے امیدوار بنے رہیںاوراپنے حال زار پر ندامت کے آنسو بہائیں توضرورہماری زندگی میں برکت رکھ دی جائیگی اور ہمارے درمیان سے رنج وغم ، دردوالم دور کر دیا جائیگااور حزن وملال ختم کردیا جائیگا ۔ اس سلسلہ میں امام رازی علیہ الرحمہ کی تفسیر کبیر کے حوالہ سے ایک نصیحت آموز واقعہ بیان کیا جاتا ہے؛جو ہمارے لئے نہایت ہی قیمتی اورنفع بخش ہے : وعن الحسن : ان رجلا شکا اليه الجدب ، فقال ، استغفرالله ، وشکااليه آخرالفقر، وآخرقلة النسل،وآخر قلة ريع ارضه ، فامرهم کلهم بالاستغفار ، فقال له بعض القوم : اتاک رجال يشکون اليک انواعا من الحاجة ، فامرتهم کلهم بالاستغفار؟ فتلا له الاية : فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ إِنَّهُ کَانَ غَفَّارًا يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْکُمْ مِدْرَارًا وَيُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَکُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَکُمْ أَنْهَارًا ۔
ترجمہ : حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوکر قحط سالی سے متعلق فریاد کی تو آپ نے اسے استغفار کرنے کا حکم دیا، کسی دوسرے شخص نے اپنا فقروفاقہ اور تنگدستی کاحال بیان کیا ،اسی طرح کسی اورشخص نے اولاد نہ ہونے پر اپنی پریشانی ظاہر کی اور کسی نے اپنے باغ وبہار میں پھل وپھول اور تازگی سے متعلق آپ کی خدمت میں معروضہ کیا اور سبہوں کوامام حسن رضی اللہ عنہ نے استغفار کی تلقین کی ،خدائے تعالی سے معافی طلب کرنے اوربخشش کی دعا مانگنے کاحکم دیا ، لوگوں کو اس پر تعجب ہوا ، عرض کرنے لگے: آپ کی خدمت میں لوگ الگ الگ معروضے لے کر حاضرہوئے اور تمام افراد کو آپ نے اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرنے کی تلقین فرمائی ، تو آپ نے جواب ارشاد فرماتے ہوئے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی : ترجمہ : تو میں نے کہا : تم اپنے پروردگار سے بخشش طلب کرو ! بیشک وہ خوب مغفرت فرمانے والا ہے ، وہ تم پر موسلادھاربارش کا نزول فرمائیگا اور مال ودولت اور اولاد کے ذریعہ تمہاری مدد فرمائیگااور تمہارے لئے باغات بنادیگا اور تمہارے لئے نہریں جاری فرمادیگا ۔ (سورۃ النوح ۔10/11/12)

ذکر الہی سے معمورہرلمحہ سعادت مند

حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے تمام لوگوں کی پریشانیوں کا حل استغفار الہی قرار دیا اور امت کو بارگاہ الہی کی طرف رجوع ہونے کی تعلیم فرمائی ۔آج ہمیں اسی فکر کو اپنانے کی ضرورت ہے کہ ہمارے لیل ونہار ذکر الہی میں گزرتے رہیں ،ہم شریعت کی پابندی کریں اور قرآن کریم وحدیث شریف پر عمل پیرا رہیں ، اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہیں ، وقت کی قدر کریں،اپنے لمحات کو غفلت میں نہ گزاریں،کیونکہ نحوست ہماری زندگی میں اسی وقت آسکتی ہے جب ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد اور ان کی اطاعت وپیروی سے غافل رہیں ۔ سورۂ توبہ کی آیت نمبر:37کے تحت تفسیر روح البیان میں مذکور ہے : فکل زمان اشتغل فيه المؤمن بطاعة الله فهو زمان مبارک وکل زمان اشتغل فيه بمعصية الله فهو مشؤم عليه فالشؤم فی الحقيقة هو المعصية .
ترجمہ : ہر وہ لمحہ جس میں بندۂ مومن اطاعت الہی میں مصروف رہا ہے، وہ اس کے حق میںبرکت والااورسعادت مندی کا باعث ہے اور ہر وہ لمحہ جس میں وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مشغول رہا ہے؛ وہ اس کے حق میں بے برکت ہے، دراصل نحوست وبے برکتی گناہ کے ارتکاب میں ہے ۔ یقینا جس وقت کوہم نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں گزاراوہ وقت ہمارے لئے برکت والاہے ، جس لمحہ کو ہم نے سنتوں پر عمل کرنے میں بسر کیا وہ لمحہ ہمارے لئے سعادت والا ہے ، جس گھڑی کو ہم نے اسلامی احکام پر عمل کرتے ہوئے بتایا وہ گھڑی ہمارے لئے باعث رحمت ہے ۔ اللہ تعالی ہمارے قلوب میں حسن عقیدہ کو جاگزیں فرمائے ، عمل صالح کی دولت نصیب فرمائے ‘ اور تعلیماتِ کتاب وسنت پرثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

صفر کے مہینے میں پیش آنے والے چند تاریخی واقعات

ایک روایت کے مطابق صفر المظفر پہلی ہجری میں حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضی کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم اورخاتونِ جنت حضرتِ سَیِّدَتُنا فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا کی شادی خانہ آبادی ہوئی ۔ (الکامل فی التاریخ ،۲/۱۲)
صفر المظفر سات ہجری میں مسلمانوں کو فتحِ خیبر نصیب ہوئی ۔ (البدایۃ والنہایۃ،۳/۳۹۲)
سیفُ اللہ حضرتِ سیِّدُنا خالد بن ولید،حضرتِ سیِّدُنا عمرو بن عاص اور حضرتِ سیِّدُنا عثمان بن طلحہ عبدری رضی اللہ تعالٰی عنہم نے صفر المظفر آٹھ ہجری میں بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکراسلام قبول کیا ۔ (الکامل فی التاریخ،۲/۱۰۹)
مدائن (جس میں کسرٰی کا محل تھا ) کی فتح صفر المظفر سولہ ہجری ہی کے مہینے میں ہوئی ۔ (الکامل فی التاریخ ،۲ /۳۵۷) ۔ کیا اب بھی آپ صفر کو منحوس جانیں گے ؟ یقیناً نہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)











No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...