Thursday 24 October 2019

اللہ کی رحمت اور اس کے فضل پر خوشی مناؤ

0 comments
اللہ کی رحمت اور اس کے فضل پر خوشی مناؤ

محترم قارئینِ کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت مبارکہ ساری کائنات کے حق میں نعمت کبریٰ ہے ، اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے : قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوۡا ؕ ہُوَ خَیۡرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوۡنَ ۔ (سورۂ یونس آیت نمبر 58)
ترجمہ : تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے ۔

قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوۡا ۔ تفسیر حکیمُ الامت دیوبند جناب اشرف علی تھانوی کی زبانی وہ لکھتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تمام نعمتوں اصل اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ہیں اس پر خوشی مناؤ۔(خطبات میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صفحہ نمبر 50)

اس نعمت عظمی پر فرحت ومسرت کا اظہار کرنا تقاضۂ فطرت ہے ، جو شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر خوشی کا اظہار کرتا ہے اللہ تعالی اسے اجرعظیم وثواب جزیل عطافرماتاہے ۔

قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوۡا : تم فرماؤ : اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر ہی خوشی منانی چاہیے ۔ کسی پیاری اور محبوب چیز کے پانے سے دل کو جو لذت حاصل ہوتی ہے اس کو ’’ فَرح ‘‘ کہتے ہیں ،اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ ایمان والوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل و رحمت پر خوش ہونا چاہئے کہ اس نے انہیں نصیحتیں ، سینوں کی شفاء اور ایمان کے ساتھ دل کی راحت و سکون عطا فرمایا ۔

اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے کیا مراد ہے ؟

اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے کیا مراد ہے اس بارے میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ، حضرت حسن اور حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل سے اسلام اور اس کی رحمت سے قرآن مراد ہے ۔ ایک قول یہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل سے قرآن اور رحمت سے اَحادیث مراد ہیں ۔ (تفسیر خازن ، یونس ، تحت الآیۃ : ۵۸، ۲/۳۲۰،چشتی)

بعض علماء نے فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل حضور پُر نور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت قرآنِ کریم ۔ رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے : وَکَانَ فَضْلُ اللہِ عَلَیۡکَ عَظِیۡمًا ۔ (سورہ نساء ۱۱۳)
ترجمہ : اور آپ پر اللہ کا فضل بہت بڑا ہے ۔

بعض نے فرمایا : اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل قرآن ہے اور رحمت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں جیسا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے : وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیۡنَ ۔ (سورہ انبیاء:۱۰۷)
ترجمہ : اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ۔

اور اگر بالفرض اِس آیت میں متعین طور پر فضل و رحمت سے مراد سرکارِ دوعالَم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذاتِ مبارکہ نہ بھی ہو تو جداگانہ طور پر تواللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یقینا اللہ تعالیٰ کا عظیم ترین فضل اور رحمت ہیں ۔ لہٰذا فنِ تفسیر کے اس اصول پر کہ عمومِ الفاظ کا اعتبار ہوتا ہے ، خصوصِ سبب کا نہیں ، اس کے مطابق ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات ِ مبارکہ کے حوالے سے خوشی منائی جائے گی خواہ وہ میلاد شریف کرکے ہو یا معراج شریف منانے کے ذریعے ، ہاں اگر کسی بدنصیب کیلئے یہ خوشی کا مقام ہی نہیں ہے تو اس کا معاملہ جدا ہے ، اسے اپنے ایمان کے متعلق سوچنا چاہیے ۔

صحیح بخاری شریف اور دیگر کئی کتب حدیث میں الفاظ کے قدرے اختلاف کے ساتھ روایت مذکور ہے ، بعض روایتوں میں اختصار ہے اور بعض میں تفصیل ہے ، صحیح بخاری شریف جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 764 ، کی روایت کے الفاظ یہ ہیں : قال عروة و ثويبة مولاة لابی لهب کان ابولهب اعتقها فارضعت النبی صلی الله عليه وسلم فلما مات ابولهب اريه بعض اهله بشرحيبة قال له ماذا لقيت قال ابولهب لم الق بعدکم غير انی سقيت فی هذه بعتاقتی ثويبة ۔
ترجمہ : حضرت عروہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ‘ ثویبہ ابولہب کی باندی ہے ، ابو لھب نے انہیں آزاد کیا تھا اور وہ حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دودھ پلائیں ، جب ابولہب مرگیا تو اس کے خاندان والوں میں کسی نے خواب میں اسے بدترین حالت میں دیکھا ‘ اس سے کہا : تو نے کیا پایا ؟ ابو لہب نے کہا : میں نے تم لوگوں سے جدا ہونے کے بعد کچھ آرام نہیں پایا ‘ سوائے یہ کہ ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے اس ( انگلی ) سے سیراب کیا جاتا ہوں ۔ (صحیح بخاری شریف ،کتاب النکاح باب من قال لا رضاع بعد حولین ج2 ص764 حدیث نمبر 4711،چشتی)

اس روایت کی شرح کرتے ہوئے شارحین صحیح بخاری شریف علامہ بدرالدین عینی حنفی اور حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی وغیرہ رحمھم اللہ تعالی اپنی اپنی شرح میں دیگر کتب حدیث کے حوالہ سے تفصیلی روایت تحریر فرماتے ہیں ۔ ہم یہاں علامہ بدرالدین عینی حنفی رحمتہ اللہ علیہ کی شرح عمدۃ القاری ج ،14 صفحہ 45، سے عبارت نقل کرتے ہیں : وذکر السهيلی ان العباس رضی الله تعالی عنه قال لمامات ابولهب رايته فی منامی بعد حول فی شرحال، فقال مالقيت بعدکم راحة الا ان العذاب يخفف عنی کل يوم اثنين، قال وذلک ان النبی صلی الله عليه وسلم ولد يوم الاثنين وکانت ثويبة بشرت ابالهب بمولده فاعتقها ۔
ترجمہ : حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب ابولہب مر گیا تو میں نے ایک سال کے بعد خواب میں اسے بدترین حالت میں دیکھا تو اس نے کہا : میں تم سے جداہونے کے بعد اب تک راحت نہیں پایا البتہ ہر پیر کے دن مجھ سے عذاب ہلکا کیا جاتا ہے ۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں وہ اس لئے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پیر کے دن تولد ہوئے اور ثویبہ نے ابو لھب کو آپ کی ولادت باسعادت کی خوشخبری دی تو اس نے انہیں آزاد کردیا ۔
(عمدۃ القاری، کتاب النکاح ،باب من قال لا رضاع بعد حولین،ج14،ص45)
یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ ذیل میں مذکور کتب احادیث میں بھی وارد ہے : (سنن کبری، للبیہقی،کتاب النکاح ،حدیث نمبر:14297)(مصنف عبدالرزاق ، کتاب المناسک ج7،۔حدیث نمبر:13546)(جامع الاحادیث والمراسیل، مسانید الصحابۃ ،حدیث نمبر:43545،چشتی)(کنزالعمال، ج6،کتاب الرضاع من قسم الافعال ،حدیث نمبر:15725)

سلف صالحین و علماء امت میں حافظ شمس الدین ابن الجزری نے اور حافظ شمس الدین بن ناصر الدین دمشقی رحمھما اللہ تعالی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ولادت کے موقع پر خوشی منانے اور فرحت و مسرت کا اظہار کرنے پر اس روایت سے استدلال کیا ہے ۔

حافظ شمس الدین بن ناصرالدین دمشقی فرماتے ہیں : قدصح ان ابا لهب يخفف عنه عذاب النار فی مثل يوم الاثنين باعتاقه ثويبة مسرورا بميلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ثم انشد:
ترجمہ : یہ صحیح روایت ہیکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت مبارک پر خوش ہو کر ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے ابو لہب سے پیر کے دن دوزخ کے عذاب میں تخفیف کی جاتی ہے پھر انہوں نے اشعار پڑھے ‘ اس کا ترجمہ یہ ہے : جب یہ ( ابولھب ) کافر ہے جس کی مذمت میں ’’ سورہ تبت یدا‘‘ نازل ہوئی اور وہ ہمیشہ دوزخ میں رہنے والا ہے تو احمد مجتبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی میلاد پر خوش ہونے کی وجہ سے ہمیشہ ہر پیر کے دن اس سے عذاب میں تخفیف کی جاتی ہے تو اس بندہ کے حق کس قدر اجر و ثواب کا گمان کیا جائے جو عمر بھر احمد مجتبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے میلاد کی خوشی منایا اور حالت ایمان میں انتقال کیا ۔ علاوہ ازیں اس کا ذکر شرح المواہب للزرقانی ، ج1 ، ص 261 ، سبل الہدی والرشاد ،ج،1،ص367،میں موجود ہے ۔

نیز محمد ابن عبد الوہاب نجدی کے بیٹے شیخ عبد الله بن محمد بن عبد الوهاب نے اپنی کتاب "مختصر سيرة الرسول صلى الله عليه وسلم" میں لکھا ہے : وأرضعته صلى الله عليه وسلم ثويبة عتيقة أبي لهب، أعتقها حين بشرته بولادته صلى الله عليه وسلم. وقد رؤي أبو لهب بعد موته في النوم فقيل له: ما حالك؟ فقال: في النار، إلا أنه خفف عني كل اثنين، وأمص من بين إصبعي هاتين ماء -وأشار برأس إصبعه- وإن ذلك بإعتاقي ثويبة عندما بشرتني بولادة النبي صلى الله عليه وسلم وبإرضاعها له ۔
ترجمہ : ابو لہب کی آزاد کردہ باندی "ثویبہ" کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت رضاعت کا شرف ملا،ابو لہب نے انہيں اس وقت آزاد کیا تھا جس وقت انہوں نے اسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت باسعادت کی بشارت سنائی تھی - اور ابو لہب کے مرنے کے بعد اسے خواب میں دیکھا گيا ، اس سےپوچھا گیا کہ تیرا کیا حال ہے ؟ تو اس نے کہا : میں عذاب میں ہوں البتہ ہر پیر کے دن مجھ سے عذاب ہلکا کیا جاتاہے ، اور میں اپنی ان دونوں انگلیوں کے درمیان پانی چوستا ہوں (اس نے اپنی انگلی کی پور کی جانب اشارہ کیا) اور یہ ثویبہ کو اس موقع پر آزاد کرنے کی برکت ہے جس وقت اس نے مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کی بشارت دی تھی،اور خدمت رضاعت کا شرف حاصل کیا تھا ۔

شیخ عبد الله بن محمد بن عبد الوهاب نے اس روایت سے جواز میلاد پر استدلال کرتے ہوئے علامہ ابن جوزی کا قول نقل کیا ہے : قال ابن الجوزي: فإذا كان هذا أبو لهب الكافر الذي نزل القرآن بذمه جوزي بفرحه ليلة مولد النبي صلى الله عليه وسلم به فما حال المسلم الموحد من أمته صلى الله عليه وسلم يسر بمولده ؟ ۔
ترجمہ : ابن جوزی نے کہا جب کافر ابو لہب کہ جس کی مذمت میں قرآن کریم کی سورت نازل ہوئی اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کی شب خوش ہونے پر ثواب دیا جارہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی امت کا مؤمنِ موحّد جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت پر اظہار مسرت کرتا ہے تو وہ کس قدر نوازا جائے گا ۔ (مختصر سيرة الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم لعبد الله بن محمد بن عبد الوهاب، باب رضاعه من ثويبة عتيقة أبي لهب ،ج 1،ص10-مطبوعہ: دار الفيحاء دمشق )،(مختصر سيرة الرسول صلى الله عليه وسلم لعبد الله بن محمد بن عبد الوهاب، باب رضاعه من ثويبة عتيقة أبي لهب ،ج 1،ص16/17-مطبوعہ: دار السلام الرياض)

خاص طور پر میلاد شریف کے دن اہتمام کرنا خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے عمل مبارک سے ثابت ہے ، چنانچہ صحیح مسلم شریف میں ہے : عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ صَوْمِ الِاثْنَيْنِ فَقَالَ فِيهِ وُلِدْتُ وَفِيهِ أُنْزِلَ عَلَيَّ ۔
ترجمہ : سیدنا ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمصلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے روز دوشنبہ کے روزہ کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا یہ میری ولادت کا دن ہے اور اسی دن مجھ پر قرآن نازل کیا گیا ۔ (صحيح مسلم ، كتاب الصيام ، باب استحباب صيام ثلاثة أيام من كل شهر وصوم يوم عرفة وعاشوراء والاثنين والخميس، حدیث نمبر:1978)(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔